Search results

Search results for ''


تبصرہ کتب --- فکر سیاسی کی تشکیل جدید+رہنمائے تربیت ۔۔۔۔ تحریر : ملک نواز احمد اعوان

Bhatkallys Other

نام کتاب:فکرِ سیاسی کی تشکیلِ جدید سید احمد خان اور اقبال مصنف:ڈاکٹر معین الدین عقیل صفحات:96   قیمت 180 روپے ناشر:محمد سعید اللہ صدیق۔ مکتبہ تعمیر انسانیت اردو بازار لاہور ڈاکٹر معین الدین عقیل انتھک محنت اور تحقیق کے عادی استاد اور دانشور ہیں جن کی خصوصی دلچسپی برصغیر کی تاریخ ہے، اور اس میں مسلمانوں کے مقام اور حالات کا خصوصی مطالعہ ہے۔ انہوں نے اس مختصر کتاب میں سرسید اور علامہ اقبال کے افکار کا جائزہ لیا ہے۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل تحریر فرماتے ہیں: ’’جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے اس خطے م

خبر لیجئے زباں بگڑی ۔۔۔ یہ ہراسگی ہراساں کررہی ہے ۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی

Bhatkallys Other

حیدرآباد (سندھ) سے ایک صاحب فرحت سعیدی نے صحیح پکڑ کی ہے کہ گزشتہ کالم میں آپ نے کمالی صاحب کو اہلِ علم اور اہلِ قلم لکھا ہے۔ شاید یہ سہواً ہوا ہے۔ آپ کو صاحبِ علم اور صاحبِ قلم لکھنا چاہیے تھا۔ بہت درست ہے اور توجہ دلانے کا شکریہ۔ ’اہلیان‘ پر تنقید کرتے ہوئے ہم خود یہ لکھ چکے ہیں کہ اہل جمع کے لیے مخصوص ہے اور اہلیان غلط ہے، لیکن اس کا استعمال عام ہے جیسے اہلیانِ کراچی، اہلیانِ حیدرآباد، اہلیانِ جدہ وغیرہ۔ اس کی جگہ اہل کافی ہے۔ چنانچہ ’اہلِ علم‘ بھی اگر کسی فردِ واحد کے لیے استعمال کیا جائے تو

اجلاس کا تقاضہ اس سے کیا جائے جو اس کی اہمیت سمجھتا ہو ۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی

Bhatkallys Other

نومبر ختم ہونے کو ہے یعنی اس سال کا بس ایک مہینہ باقی ہے اور پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کا حکومت کے کسی وزیر کی زبان پر بھی ذکر نہیں ہے۔ حزب مخالف کے لیڈر غلام نبی آزاد اور آنند شرما نے پریس کانفرنس میں کہا کہ وزیر اعظم انتخابی مشین بن کر رہ گئے ہیں۔ وہ صرف یہ سوچتے رہتے ہیں کہ اگلی ریلی میں کیا کہنا ہے اور یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ پہلے جو کہا تھا اس سے ووٹروں پر کتنا اثر ہوا؟ اب یہ بات زبانوں پر آرہی ہے کہ پارلیمنٹ میں جتنا کم کام اور جتنے کم دن اجلاس اس سال ہوا ہے اتنا تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ ملک

نومبر 23:-؛ اردو کے نامور افسانہ نگار کرشن چندر کا یوم پیدائش ہے

Bhatkallys Other

از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کرشن چندر اردو کے نامور افسانہ نگار تھے۔ ان کی پیدائش 23 نومبر 1914ء کو وزیر آباد، ضلع گجرانوالہ، پنجاب میں ہوئی تھی۔ ان کے والد گوری شنکر چوپڑا میڈیکل افسر تھے ۔ کرشن چندر کی تعلیم کا آغاز اردو اور فارسی سے ہوا تھا۔ اس وجہ سے اردو پر ان کی گرفت کافی اچھی تھی۔ انہوں نے 1929ء میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی۔ اس کےبعد 1935ء میں انگریزی سے ایم ۔اے۔ کیا۔ بعد ازاں انہوں نے قانون کی پڑھائی بھی کی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لاہور سے مح

نومبر 23:  کو معروف اور اپنے دوہوں کے لیے مشہور شاعر جمیل الدین عالی کی تیسری برسی ہے

Bhatkallys Other

از: ابوالحسن علی بھٹکلی ------------------------------------------------------------- نوابزادہ مرزا جمیل الدین عالی، ہزہائی نس نواب سر امیر الدین احمد خان فرخ مرزا آف لوہارو کے ساتویں صاحبزادے ہیں۔ 20 جنوری 1925ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ کا نام سیّدہ جمیلہ بیگم تھا۔ جو نواب سر امیر الدین کی چوتھی بیوی اور اور سیّد خواجہ میر درد کی پڑپوتی تھیں۔ بارہ سال کی عمر میں عالی اپنے والد کے سایۂ شفقت سے محروم ہو گئے۔[2] 1940ء میں اینگلوعربک اسکول دریا گنج دہلی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔[2] 19

نومبر 21 :-: اردو کے معروف اور معتبر غزل گو شاعر جناب اطہر نفیس کی برسی ہے

Bhatkallys Other

از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مزار پر انہی کا یہ شعر تحریر ہے: وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا، اب اس کا حال بتائیں کیا کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچا شعر سنائیں کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کنور اطہر علی خاں کی پیدائش علی گڑھ کے قصبہ پٹل کے ایک معزز خاندان میں22فروری سنہ 1933کو ہوئی تھی۔ ان کی ابتدائی تعلیم علی گڑھ میں ہی ہوئی۔علی گڑھ کے قصبہ پٹل سے ہجرت کر کے وہ سنہ 1949میں کراچی چلے گئے تھے او روہاں مشہور اخبار ” جنگ “ کے انتظامی شعبے سے واب

نومبر 20: کو اردو کے مقبول ترین شاعر فیض احمد فیضؔ کا برسی ہے

Bhatkallys Other

از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فیضؔ کے اجداد کا سلسلہ نسب سہارنپور کے راجپوت فرمانروا" سین پال" سے ملتا ہے۔ اُن کے پردادا کا نام سر بلند خاں اور دادا کا نام صاحبزادہ خاں تھا ۔ فیضؔ کی ہمشیرہ اختر جمال ایک انٹرویو میں بتاتی ہیں: " کسی زمانے میں ایک راجپوت راجہ ہوا کرتا تھا اس کا نام سین پال تھا۔اس کا تعلق سہارنپور سے تھا۔ اس کی اولاد میں ایک نے اسلام قبول کر لیا۔ ہمارے والد کا تعلق اسی شاخ سے ہے۔ہمارے پردادا کا نام سر بلند خاں اور

کل مورخہ 19 نومبر رومانی لہجے کے ممتاز شاعر سلام مچھلی شہری کا یوم وفات ہے

Bhatkallys Other

از: ابوالحسن بھٹکلی --------------------------------------------------------------- ان کا اصل نام عبدالسلام اور تخلص سلام تھا۔ سلام مچھلی شہری یکم جولائی 1921 کو مچھلی شہر، ضلع جون پور (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ پہلے قرآن حفظ کرایا گیا۔ 1935 میں ڈسٹرکٹ بورڈ اور مڈل اسکول سے آٹھویں درجے کا امتحان دیا اور اچھے نمبروں سے کامیابی حاصل کی۔ طالب علمی کے زمانے سے نظم و نثر لکھنے لگے تھے۔ ملازمت کا آغاز الہٰ آباد یونیورسٹی کے کتب خانے سے ہوا۔ 1943 میں آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔ اس دوران وہ لکھن

نومبر 18 : اردو زبان کو علمی سرمائے سے مالا مال کرنے والے نامور ادیب علامہ شبلی نعمانی کی برسی ہے

Bhatkallys Other

از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علامہ شبلی نعمانی کا اصل نام محمد شبلی تھا تاہم حضرت امام ابو حنیفہ کے اصل نام نعمان بن ثابت کی نسبت سے انہوں نے اپنا نام شبلی نعمانی رکھ لیا تھا۔ وہ 1857ء میں اعظم گڑھ کے ایک نواحی قصبے میں پیدا ہوئے۔ آپ کی تعلیم بڑے اچھے ماحول اور اپنے عہد کے اعلیٰ ترین درس گاہوں میں ہوئی۔ 1982ء میں وہ علی گڑھ کالج کے شعبۂ عربی سے منسلک ہوگئے، یہاں انہیں سرسید احمد خان اور دوسرے علمی اکابر کی صحبت میسر آئی، جس نے ان کے ذوق کو نکھارنے میں اہم کردار ادا ک

 نومبر 16 : کلاسیکل اردو شاعری کے استاد ملک الشعراء شیخ محمد ابراھیم ذوقؔ کی برسی ہے

Bhatkallys Other

از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیات ذوقؔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاۓ ذوقؔ ۔ساری سوانح عمری تو اس شعر میں کہہ گۓ لائی حیات،آۓ قضا لے چلے چلی چلے اپنی خوشی آۓ نہ اپنی خوشی چلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دلّی، جو کئی بار اجڑی کئی بار بسی، اسی دلی میں کابلی دروازے کے پاس ایک چھوٹا سا مکان تھا. جس میں شیخ رمضان نامی معتبر اور با لیاقت شخص رہتا تھا. کنبہ لمبا چوڑا نہ تھا اس لیے قلیل آمدنی میں بھی آسودہ ر

نومبر 12 : اردو کے معروف شاعر اور نغمہ نگار احمد راہی کا یومِ پیدائش ہے

Bhatkallys Other

از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 12 نومبر 1923ء پنجابی کے نامور شاعر اور فلمی نغمہ نگار احمد راہی کی تاریخ پیدائش ہے۔احمد راہی کا اصل نام غلام احمد تھا اور وہ امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ 1946ء میں ان کی ایک اردو نظم آخری ملاقات افکار میں شائع ہوئی جو ان کی پہچان بن گئی۔ اس کے بعد ان کا کلام برصغیر کے مختلف ادبی جرائد کی زینت بننے لگے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور میں قیام پذیر ہوئے اور ماہنامہ سویرا کے مدیر مقرر کئے گئے۔ 1953ء میں پ

بدلتے حالات کے تناظر میں، سیاسی داؤ پیچ کا استعمال وقت کی اہم ضرورت۔۔۔از: نقاش نائطی

Bhatkallys Other

گذشتہ ریاستی انتخاب میں مجلس اصلاح و تنظیم بهٹکل کے قومی امیدوار عنایت اللە شاہ بندری کا انتخاب لڑنا، اور اس ریاستی انتخاب میں اپنی ہار کے باوجود ایک قدآور سیاسی لیڈر کی حیثیت سے ابھرنے میں انکا کامیاب ہونا، اس بات کی دلیل ہے کہ ڈرتے ڈرتے ہی صحیح قوم نے  بنا شرط کانگریس کی  تائید میں قومی ووٹ ڈالنے کے بجائے،کانگریس سے برگشتہ ہوکر، سیکیولر جنتا دل کے تائید کردہ قومی امیدوار کو الیکشن میں لڑانے کا قومی فیصلہ، وقت کا صحیح ترین فیصلہ تها. نہ صرف ذاتی طور پر انہیں سیاسی فائدہ ہوا بلکہ سابقہ دو دہوں ک

کانگریس کو حیاتِ نو بھی مودی دے رہے ہیں۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی

Bhatkallys Other

2015-16 ء میں کون سوچ سکتا تھا کہ گجرات یا کسی بھی بی جے پی حکومت والی ریاست میں امت شاہ اور پارٹی کے خلاف کوئی کانوں میں بات بھی کرسکتا ہے۔ پورے ملک پر وزیر اعظم نریندر مودی کا سایہ تھا اور دوسرا چہرہ امت شاہ کا سمجھا جاتا تھا جن کو بی جے پی کے بزرگ لیڈر اور نامور صحافی ارون شوری نے بھی پورا آدمی تسلیم کیا تھا۔ گجرات کے الیکشن کے بارے میں خیال یہ تھا کہ وزیر اعظم تو دہلی میں بیٹھے رہیں گے اور امت شاہ گجرات کے دو تین چکر لگاکر دفتر میں بیٹھ کر اُمیدواروں کی لسٹ بنا دیں گے اور وزیر اعظم کی آخری ن

غصہ حکومت پر اُتارا جائے تاریخ پر نہیں۔۔۔از: حفیظ نعمانی

Bhatkallys Other

ہم نے بچپن میں دیکھا تھا کہ تعلیم یافتہ اور شریفوں کے سماج میں سنیما گفتگو کا موضوع نہیں ہوتا تھا اور یہ تو سب کو یاد ہوگا کہ اگر ایک فلم بن کر آگئی تو سال دو سال وہ جس سنیما گھر میں لگ گئی وہیں لگی رہی اور اپنے ساتھ کے بچوں کو فلم کا نام یاد رہتا تھا اور یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ جن کرداروں نے کام کیا ہے وہ کون ہیں اور ان کی کیا خصوصیت ہے؟ اگر کوئی چیز شرک تھی تو وہ صرف یہ کہ یہ تفریح ہے اور اس کا کام ہنسنا ہنسانا ہے۔ یا رونا رُلانا۔ ٹی وی کا تو تصور بھی نہیں تھا ریڈیو تھا تو وہ بہت بڑے لوگوں

تبصرہ کتب ۔۔۔ سہ ماہی الصدیق صوابی ۔۔۔ تحریر: ملک نواز احمد اعوان + محمود عالم صدیقی

Bhatkallys Other

نام مجلہ:سہ ماہی ’’الصدیق‘‘ صوابی جلد1، شمارہ 4 ،جولائی تا ستمبر مدیر مسؤل:حضرت مولانا عبدالرؤف بادشاہ مدیر:منفعت احمد معاون مدیر:محمد اسلام حقانی صفحات:136 قیمت فی شمارہ 80 روپے ناشر:دفتر سہ ماہی الصدیق معھدالصدیق للدراسات الاسلامیہ بام خیل۔ صوابی، خیبرپختون خوا۔ پاکستان فون نمبر:0313-9803280 ای میل:alsiddiq2016@gmail.com یہ سہ ماہی ’’الصدیق‘‘ صوابی کا چوتھا شمارہ ہے جو معہد الصدیق سے شائع ہوتاہے۔ معمدالصدیق کا تعارف درج ذیل ہے: ’’جس جگہ بیٹھ کر پڑھا پڑھایا جاتا ہے اسے عربی زبان م

سچی باتیں ۔۔۔ دشمنی کا سدِّ باب۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی مرحوم

Bhatkallys Other

قرآن مجید کے چھبیسویں  پارہ میں  ایک سورہ حجرات ہے اس میں  ارشاد ہوتا ہے کہ ؂ اِنَّمَا الْمُؤْ مِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوْااللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ۔ سب مسلمان آپس میں  بھائی ہیں  سو اپنے بھائیوں  کے درمیا ن صلح کرا دیا کرو اور اللہ سے تقویٰ اختیار کئے رہوتا کہ تم پر رحم کیا جائے۔ گویا مقصود بندوں  کو نزولِ رحمت سے خبر دینا ہے اور جو شرطیں  نزولِ رحمت کی ہیں  انھیں  بیان کردینا یعنی ہر ایک مسلمان کو بھائی سمجھنا اور یہ سمجھ کر مسلمانوں  میں  باہم ملا

حکومت اور عدالتوں کا دوستانہ میچَ۔۔۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی

Bhatkallys Other

الہ آباد ہائی کورٹ اور اس کی لکھنؤ بینچ حکومت کو آٹھ مہینے میں کئی بار ہدایت دے چکی ہے کہ غیرقانونی مذبح کے نام پر جو حکومت نے پورے اُترپردیش میں ہر مذبح کو تاراج کردیا وہ اس کی تلافی میں بھی اپنا فرض ادا کرے اور وہ کروڑوں شہری جو گوشت کھانا چاہتے ہیں یا جو گوشت، کھال اور جانوروں کا کاروبار کرتے ہیں ان کا روزگار واپس کرے۔ 15 نومبر کو ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور ایک جج کی بینچ نے حکومت کے ایڈوکیٹ جنرل کو پھٹکار لگائی اور حکم دیا کہ آئندہ پیشی 28 نومبر کو پوری تیاری اور معلومات کے ساتھ حاضر ہوکر بت

خبر لیجئے زباں بگڑی ۔۔۔ اوچھے کا تیتر۔۔۔ : تحریر : اطہر ہاشمی

Bhatkallys Other

معین کمالی صاحب بڑے سینئر صحافی اور اہلِ علم و اہلِ قلم ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے روزنامہ ’’امت‘‘ میں اپنے مضمون کو ’’ایتر کے گھر تیتر‘‘ کا عنوان دیا۔ اس طرح انہوں نے ایک ایسے محاورے یا ضرب المثل کا احیا کیا ہے جس سے اب بہت کم لوگ واقف ہوں گے، حالانکہ یہ بڑا جامع اور بامعنی محاورہ ہے۔ ہم اس کی دوسری صورت سے خوب واقف ہیں جو یہ ہے ’’اوچھے کا تیتر، باہر باندھوں کہ بھیتر‘‘۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری کسی اوچھی حرکت پر ہمارے والد مرحوم ہم کو یہی کہا کرتے تھے۔ بہت عرصے بعد یہ ’’ایتر کے گھر تیتر‘‘ سام