Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















First of the season; Seasonal fruit fig makes its way to Bhatkal market, here's Bhatkallys.com's guide for shopping perfect figs
Bhatkal 10 December 2018: (Bhatkallys News Bureau) Seasonal fruit fig is out in the Bhatkal market, as the first lot of the fruit arrived in the market earlier last week, much to the delight of the lovers of the fruit and its full of fibre and calcium juice. The cost of the fruit in Bhatkal markets ranges from Rs. 140-170 and is available in most of the local fruit shops in the town. According to one of the local fruit vendor, these fruits mainly arrive from Chennai to coastal Karnataka, a

جہاں جس کی حکومت ہے وہ اپنا سکہ چلا رہا ہے۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی
اندرا گاندھی پرتشٹھان میں 6 دسمبر کو اترپردیش کھادی مہوتسو 2018 ء کا وزیراعلیٰ یوگی نے افتتاح کیا اور اس کے بعد گائے پر منحصر معیشت کے فائدوں پر روشنی ڈالی انہوں نے کہا گائے کے فروغ اور تحفظ کے لئے فنڈ کی نہیں عزم کی کمی ہے۔ اسی پروگرام میں بہار کے گری راج سنگھ جو مودی سرکار میں نائب وزیر ہیں اور جن کا محبوب موضوع گائے کا موت (ewr) اور گوبر ہے وہ بھی موجود تھے۔ وہ برسوں سے گائے کے موت (ewr) کو فروخت کرنے کی ڈیریاں بنانے کی بات کرتے رہے ہیں اور اب جبکہ ان کی سرکار کے جانے کا وقت آگیا اس وقت تک گا
بابری مسجد انہدام کی ایک اور برسی گزرگئی۔۔۔۔از: ! ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... ہندوستانی تاریخ کے سیاہ 6دسمبرکا دن پھر ایک بار کیلنڈر کے صفحے پر آیا جب چارسوسالہ بابری مسجد کوحکومت اور محافظ دستوں کے ناک کے نیچے زمین بوس کردیاگیا تھا اور یہ دن ہماری زندگی سے بالکل اسی طرح چپ چاپ سرک گیا جس طرح پچھلی دددہائیوں سے گزرتا رہا ہے۔ 1992سے 2018 تک 26 سال کا عرصہ کبھی امیدوں کی شمعیں جلاتا رہاہے تو کبھی خوف ودہشت کی دستکیں دیتا رہا ہے۔اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ پورے ملک کے تقریباً ساڑھے سترہ کروڑ مسلمان اپنی قیادت کی ڈھیلی پڑتی ہوئی گرفت اور مخال
تہ بند، تہمد اور تہمت۔۔۔خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔تہ بند ، تہمد اور تہمت ۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی
تہ بند، تہمد اور تہمت - اطہرعلی ہاشمی - December 7, 2018 فيس بک پر شیئر کیجئیے ٹویٹر پر ٹویٹ کريں محترم پروفیسر عنایت علی خان نے اپنے فکر انگیز مضمون ’’کل شب جہاں میں نکلا‘‘ (4 دسمبر) میں تہ بند یا تہمد کے لیے ’’تہمت‘‘ (بروزن زحمت، رحمت) استعمال کیا ہے۔ ایک بڑے بزرگ شاعر اور آفاقی ادیب نے ہم پر طنز کیا تھا کہ آپ کے مرشد سید مودودیؒ نے تہمد کو تہمت لکھا ہے۔ کاش ہمیں سید مودودیؒ کو مرشد بنانے کا شرف حاصل ہوتا۔ لیکن لغت کے اعتبار سے تہمت بھی صحیح ہے اور دِلّی والے تہمت ہی کہتے ہیں۔ اس پر ماہ

۔۔۔ ورنہ خدا جانے کیا ہوتا ۔۔۔از:حفیظ نعمانی
اب سے پہلے اشارے چاہے جتنے صاف ہوں یہ لکھنا دیانت داری نہیں تھی کہ بلندشہر میں گائے کے نام پر جو کچھ کیا گیا وہ صرف تبلیغی جماعت کے عالمی اجتماع میں بھگدڑ مچانے کے لئے کیا گیا تھا۔ جن لوگوں کے اس سازش میں نام آرہے ہیں اور ان کا جیسی پارٹیوں سے تعلق ہے وہ اگر پورے معاملے سے واقف ہوتے تو نہ جانے کیا ہوچکا ہوتا؟ بجرنگ دل یا نام نہاد گؤ رکشک تو یہ جانتے ہیں کہ اگر کہیں لاکھ دو لاکھ آدمیوں کو جمع کرنا ہوتو مہینوں پہلے سے پوسٹر، بینر اور لیڈروں کے بیان آنا شروع ہوجاتے ہیں اور پھر سارے ٹی وی چینل ہر کا
چار گاندھی تین مودی ایک سدھو؟۔۔۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی
پنجاب کے وزیر نوجوت سنگھ سدھو اپنے مزاج کی وجہ سے ہمیشہ سرخیوں میں رہے ہیں۔ وہ جب کرکٹ کے کھلاڑی تھے تو چھکے مارنے کی وجہ سے سرخیوں میں رہتے تھے اس کے بعد جب کمنٹیٹر ہوئے تو دوسرے کے موزوں اور اپنے ناموزوں شعروں کی وجہ سے توجہ بٹورتے رہے۔ سیاست میں آئے تو کامرانی نے قدم چومے امرتسر کی سیٹ سے لڑے اور کامیاب ہوئے۔ وزیراعظم بننے سے پہلے مودی جی نے ان کی امرتسر کی سیٹ لے کر ارون جیٹلی کو دے دی جو راجیہ سبھا کے ممبر تھے اور سدھو کو راجیہ سبھا کا ممبر بنا دیا۔ دیکھا تو نہیں سنا ہے کہ شیر دوسروں کا مار
سکون قلب کے متلاشی ۔ عبد اللہ یوسف علی۔۔۔ تحریر: آصف جیلانی
ایک اکیاسی سالہ ، لاغر ،مخبوط الحواس ، مفلس شخص، جو کئی سال سے وسطی لندن کی سڑکوں پر بے مقصد گھومتا پھرتا نظر آتا تھا ، ۱۹۵۳کے دسمبر میں جب کہ کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی، ویسٹ منسٹر میں ایک عمارت کے دروازے کی سیڑھیوں پر ، کس مپرسی کے عالم میں پڑا ہوا تھا۔ پولس نے اسے فوراََ ویسٹ منسٹر ہسپتال داخل کردیا۔ دوسرے روز ہسپتال سے فارغ کرنے کے بعد اسے چیلسی میں بوڑھے لوگوں کی پناہ گاہ بھیج دیا گیا۔ ۱۰ دسمبر کو اس مفلس پر دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ اس شخص کا کوئی عزیز رشتہ دار اس کی میت لینے نہیں

بڑے بھائی نے اپنا فرض ادا کردیا۔۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی
تین دن کی غیرحاضری کا کسے کسے جواب دیں، ہر بار محبت کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ لکھنے والا بیمار ہوگیا۔ جبکہ زندگی میں اور بھی نہ جانے کتنے مسائل ایسے ہیں جو ہاتھوں میں ہتھکڑی ڈال دیتے ہیں۔ اور یہ میں کس سے کہوں کہ یہ محبت ہی میری کمر تھامے ہوئے ہے ورنہ یہ عمر ایسی نہیں ہے کہ اپنے پیاروں کی محبت میں تلوار لے کر نکلا جائے۔ ان تین دنوں میں قدرت نے وہ دکھایا جو پروردگار بار بار زبان سے نکلوا رہا تھا کہ اہل خانہ ہی نہیں تعلق والے بھی پریشان تھے کہ دیکھئے کیا ہو؟ اور یہ ٹوٹا پھوٹا آپ کا بھائی سب سے ا
خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ گندہ دھندہ۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی
آئیے، آج پہلے اپنا جائزہ لیں۔ منگل 27نومبر کے جسارت کے ادارتی صفحے کے ایک مضمون کی سرخی ہے ’’گندہ ہے پر دھندہ ہے یہ‘‘۔ ’گندہ‘ اور ’دھندہ‘ دونوں الفاظ ہندی کے ہیں اور ان کے آخر میں ’ہ‘ (ہائے ہوز) نہیں بلکہ الف ہے، یعنی ’گندا‘ اور ’دھندا‘۔ اس کی پہچان ذرا مشکل ہے کہ کہاں ’ہ‘ آنی چاہیے اور کہاں ’ا‘۔ ہندی الفاظ میں عموماً یہ گول ’ہ‘ نہیں آتی، لیکن یہ کیسے معلوم ہو کہ لفظ ہندی کا ہے یا کسی اور زبان کا؟ یہ تو سکہ بند ادیبوں کو پڑھنے یا لغت دیکھنے ہی سے معلوم ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ ’’سکہ بند‘‘ کی ترکی

میڈیا کے مختلف رنگ... ایک رول ماڈل جو بن گیا عبرت کی مثال! (پانچویں اور آخری قسط)۔۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... میڈیا کے موضوع کو طول دینا شائد کچھ قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث نہ رہے۔ لیکن میں اس موضوع پر ذراتفصیل سے بات کرنے کی کوشش اس توقع سے کی گئی کہ میڈیامیں دلچسپی رکھنے والے دو چار نوجوانوں کی بھی اس سے تھوڑی بہت رہنمائی ہوجائے اور کچھ بنیادی باتیں ان پر واضح ہوجائیں تو میری محنت کا پھل مجھے مل جائے گا۔ سابقہ قسط میں سوشیل میڈیا پر ہمارے نوجوانوں اور عام گروپس کی سرگرمیوں کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینا کچھ لوگوں کو ناگوار گزرا۔ حالانکہ اس حقیقت نگاری کو پسند کرنے و
دیکھو کیا گذرے ہے قطرہ پہ گہر ہونے تک ۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی
اگر کوئی اکثریت نہیں بہت بڑی اکثریت میں ہے اور اس کی تائید کرنے والے زرخرید اور اندھے ہیں تو پھر یہ سوچنے کی ضرورت نہیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔بال ٹھاکرے والی شیوسینا کے ممبر پارلیمنٹ سنجے راوت نے ایک بیان مارا ہے کہ ہم نے بابری مسجد 17 منٹ میں گرادی تھی (یہ الگ بات ہے کہ وہ 17 منٹ دن بھر چلتے رہے تھے) تو قانون بنانے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ ان کی تعلیم کیا ہے اور یہ بات وہ کس سے معلوم کررہے ہیں کہ قانون بنانے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ اور یہ اس خبر کے تین دن کے بعد کہہ رہے ہیں ک
خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ یوٹرن یا رجعت قہقری ۔۔۔ اطہر علی ہاشمی
آج کل ذرائع ابلاغ میں یو۔ٹرن کا بڑا چرچا ہے، اور ہر ایک اپنی سمجھ کے مطابق اس کے معانی نکال رہا ہے۔ اس کے لیے اردو میں ایک لفظ ہے جو کم کم استعمال ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی پڑھنے میں آجاتا ہے، اور یہ لفظ ہے ’’رجعت قہقری‘‘۔ بنیادی طور پر تو یہ دونوں الفاظ عربی کے ہیں، تاہم رجعت اردو میں بہت عام ہے۔ قہقری کا تلفظ ایسا ہے کہ حلق چھل جائے، اس لیے اس کا استعمال کم ہے مگر اردو لغات میں موجود ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یو۔ٹرن کا یہ بڑا جامع ترجمہ ہے۔ لغت کے مطابق مونث ہے اور مطلب ہے ’’الٹے قدموں پھرنا، اس طرح و

تن ہمہ داغ داغ شد۔۔۔از: مولانا محمد الیاس جاکٹی ندوی
بدن زخموں سے چُور چُور ہے اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے :۔ آج جب رات کو لیٹنے کے لیے بستر پر گیا تو بہت دیر تک نیند نہیں آئی،غیر محسوس بے چینی وبے قراری ساتھ نہیں چھوڑ رہی تھی، گزشتہ تین دنوں میں عالم اسلام میں پیش آنے والے مختلف اندوہناک واقعات کے تصور ہی سے اپنے کمزور ایمان کے احساس کے باوجود دل ودماغ متاثرتھا، وہ کیا پریشان کُن واقعات تھے جنھوں نے میری آنکھوں سے بہت دیر تک نیند کو کوسوں دور کردیاتھا، آپ بھی سن لیجیے اور شریکِ غم ہوجائیے:۔ جب معمول کے مطابق کل میں نے فجر بعد تازہ عالم
ہوا سے لڑائی ایودھیا پر چڑھائی۔۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی
رام مندر کے نام پر ایودھیا میں 25 نومبر کو دھرم سبھا میں لاکھوں ہندوؤں کو بلاکر کس کو دھمکانا اور کس پر دباؤ ڈباؤ ڈالنا ہے یہ تو حکومت جانے۔ ہم تو صرف یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ملک میں ہندوؤں کی حکومت ہے اور ہندو بھی وہ ہیں جو اپنی مسلم دشمنی کو ملک کے ہر حصہ میں دکھاتے ہوئے حکومت کی کرسی تک آئے ہیں تو پھر وہ رام مندر کا مطالبہ کس سے کرنے کے لئے آرہے ہیں؟ بات بی جے پی کی ہو، وشوہندو پریشد کی ہو، آر ایس ایس کی ہو یا شیوسینا کی سب صرف رام مندر رام مندر کی بات کرتے ہیں جبکہ اصل مسئلہ زمین کے اس ٹک
اب دیکھو کیا دکھائے نشیب و فراز دہر۔۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی
اتنے بڑے ملک میں نہ جانے کتنے لوگ اس بات پر حیران ہوں گے کہ دس برس ڈاکٹر منموہن سنگھ وزیراعظم بن کر ملک پر حکومت کرکے چلے گئے اور ایک بار بھی نہ ان کا مسئلہ سپریم کورٹ میں آیا نہ الیکشن کمیشن سے کوئی غلط کام کرانے کا ان پر الزام لگا۔ یہ تو گول گول اور بند بند الفاظ میں مخالفوں نے کہا کہ حکومت سی بی آئی سے غلط کام لے رہی ہے لیکن یہ الزام نہیں لگا کہ کسی کو جال میں پھانس کر جیل بھیج دیا ہو یا کسی کی بیوی بیٹی پر جھوٹے الزام لگوائے ہوں یا ذلیل کرنے کی نیت سے تلاشی کے چھاپے ڈلوائے ہوں۔ اور دس برس می
مسلم نام مٹانے کی مہم۔۔۔۔۔از:حسام صدیقی
الٰہ آباد کا نام پریاگ راج، فیض آباد کا ایودھیا اورمغل سرائے کا نام دین دیال اپادھیائے کرنے کے پیچھے کوئی ثقافتی وجہ نہیں بلکہ مسلم دشمنی ہے۔ ابھی مظفر نگر، آگرہ، اعظم گڑھ، غازی پور، شاہجہاں پور، مرادآباد، غازی آباد اور لکھنؤ سمیت ان درجنو ں شہروں کے نام بھی تبدیل کئے جانے ہیں جنہیں مسلمانوں نے بسایا تھا یا مسلمانوں سے ان کا کوئی خاص تعلق رہا ہے۔ وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی کو مسلمانوں اور مسلم ناموں سے نفرت ہے یہ بات کسی سے چھپی نہیں ہے۔ ابھی تو وہ اترپردیش کے مالک بن چکے ہیں جب گورکھپور س
نوٹ بندی سے ہر سطح پر نقصان۔۔۔۔از:حسام صدیقی
وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ بغیر سوچے سمجھے ایک تغلقی فیصلے سے ہوئی نوٹ بندی کے دو سال ہوچکے ہیں آٹھ نومبر کو کانگریس نے پورے ملک میں نوٹ بندی سے ہوئے نقصانات سے عام لوگوں کو با خبر کرنے کے لئے خصوصی مہم چلائی تو بھارتیہ جنتا پارٹی اس کی مودی سرکار کی جانب سے ایک بار پھر وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے مورچہ سنبھالتے ہوئے دعویٰ کیا کہ نوٹ بندی سے ملک کو کوئی نقصان نہیں بلکہ بہت بڑے پیمانے پر فائدہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ،دوسرا بڑا فائدہ
خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ شہر ابلاغ میں لکڑ ہارے۔۔۔ تحریر : اطہر علی ہاشمی
شاعر نے کہا تھا جانے کن جنگلوں سے در آئے شہرِ تنقید میں لکڑہارے یہ کسی نقاد پر شاعر کی برہمی کا اظہار تھا۔ شعر غالباً رسا چغتائی مرحوم کا ہے۔ تنقید تو کم کم لوگ پڑھتے اور ان سے کم سمجھتے ہیں، لیکن ذرائع ابلاغ ٹی وی چینلز اور اخبارات تو ہر اُس شخص کی دست رس میں ہیں جو حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنا چاہتا ہے، گو کہ یہ تعداد بھی کم ہوتی جارہی ہے کہ حالاتِ حاضرہ آج بھی وہی ہیں جو 50 سال پہلے تھے۔ ذرائع ابلاغ، ابلاغ کے بجائے زبان کا بیڑا غرق کررہے ہیں۔ داغؔ نے تو کہا تھا کہ اردو ہے جس کا نام ہمیں جان
