Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















امڈنا یا امنڈنا
’’صحیفہ‘‘ کا مکاتیب نمبر، حصہ اول، ادب شناس ملک نواز احمد اعوان کی مہر کے ساتھ سامنے ہے۔ ’’صحیفہ‘‘ مجلسِ ترقئ ادب لاہور کا علمی و ادبی مجلہ ہے۔ اس میں بڑے بڑے مشاہیر کے مکتوبات ہیں۔ اور بات صرف مکتوب کی نہیں بلکہ ان سے اردو زبان و ادب کے بارے میں بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ کئی الفاظ کی تصحیح بھی کی جاسکتی ہے۔ مثلاً رشید احمد صدیقی نے ایک خط میں لکھا ہے ’’لال قلعہ میں ساڑھے تین بجے شب تک ہائے وہو ہوتا رہا‘‘۔ ہم اب تک اسے ہاؤ ہو کہتے اور لکھتے رہے ہیں۔ جامعہ دہلی کے شعبۂ اردو کے استاد ضیاء احمد
مودی کے سپنوں کا اترپردیش۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی
ہر قوم کا ایک مزاج ہوتا ہے۔ ہندوستانی قوم وہ ہندو ہوں ، مسلمان ہوں یا سکھ ہوں قانون ضابطوں اور قاعدوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور اسی کو صحیح سمجھتے ہیں جو وہ کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جن ہاتھوں میں قانون نافذ کرنا ہوتا ہے ان کا دھرم یہ ہے کہ ہم جتنی تنخواہ پاتے ہیں وہ صرف اتنے وقت کی ہے جو ہم دفتر میں گذارتے ہیں۔ رہا کام تو اس کے لیے پیسے لاؤ اور کام کراؤ۔ پرمٹ یا لائسنس دینے والے یہ سمجھتے ہیں کہ جسے لائسنس دیں گے وہ کمائے گا اور عیش کرے گا۔ اس لیے اپنے عیش کا حصہ لینا غلط نہیں ہے۔ بغیر لائسن
ای وی ایم پر احتجاج نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔۔۔از: حفیظ نعمانی
کل کے اخبارمیں برار عزیز سجادنعمانی کا ایک مضمون سب نے پڑھا ہوگا۔ انھوں نے سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے اس مشورہ کہ بابری مسجد رام مندر کا مسئلہ ہندو اور مسلمان عدالت سے باہر بیٹھ کر ہی سلجھالیں تو اچھا ہے، کے تار 1949میں گاندھی جی کے قتل اور اس کے ا ثرات کوبابری مسجد میں مورتیاں رکھ کر کم کرنے سے لے کر اب تک ہونے والی آر ایس ایس کی شاطرانہ چالوں سے ملادئے ہیں۔ اور جو کچھ انھوں نے کہا ہے وہ حرف بہ حرف درست ہے۔ ہم بھی ان لوگوں میں ہیں جنھوں نے برسبیل تذکرہ یہ لکھا ہے کہ ای وی ایم ووٹنگ مشینوں کے س
پولیس ٹھیک نہیں ہوئی تو کچھ نہیں ہوگا۔۔۔از: حفیظ نعمانی
اترپردیش کے وزیر اعلیٰ نے حلف لینے کے بعد سے ہی وہ رویہ اپنایا جس کا کوئی تجربہ نہ افسروں کو تھا اور نہ عوام کو۔1952سے اب تک جتنے بھی وزیر اعلیٰ آئے ان میں سخت بھی تھے اور نرم بھی۔ لیکن جو رویہ نئے وزیر اعلیٰ نے اپنایا ہے وہ صرف ایمرجنسی میں تو نظر آیا تھاورنہ 70برس میں کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ ایک طریقہ اصلاح کا یہ ہے جو یوگی جی نے اپنایا ہے اور ایک یہ ہوسکتا تھا کہ وہ ا پنی پہلی ہی پریس کانفرنس میں صاف صاف کہہ دیتے کہ ایک ہفتہ میں ہر وہ کام جو غلط ہے اسے ٹھیک کرلو ورنہ وہ سلوک کیا جائے گا جس کا
میاں ہم آپ کو جاہل سمجھتے ہیں
از: ندیم صدیقی ’’ میاں ! آپ ہم کو جاہل سمجھتے ہیں ‘‘ دُوسری زبانوں کے بارے میں تو نہیں مگراُردو کے لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس زبان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنےکے بعد بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ہم زبان جانتے ہیں۔ واضح رہے کہ زبان جاننے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ حروف تہجی سے واقف ہیں ، جاننے سے مراد ،زبان کا بر محل استعمال ہے۔ اس میں اچھے اچھےاصحاب چٗوک جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک لفظ بہت عام ہے بلکہ سچ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے می
کسانوں کے قرض معاف کرنے کا کیا ہوا؟۔۔۔از: حفیظ نعمانی
سلاٹر ہاؤس مذبح پر پورے صوبہ میں تالے لگانے اور اس کی خبر سے مسلمانوں کو اس لیے تکلیف ہوئی ہوگی کہ ہزاروں ہزار مسلمان بے روزگار ہوجائیں گے۔ ہم بہت زیادہ تو نہیں لیکن ضرورت کی حد تک جانتے ہیں کہ قانون کے سا تھ غیر قانونی کا مزاج عام ہے۔ دو دن سے جو خبریں آئیں تو معلوم کیا کہ اتنے غیر قانونی سلاٹر ہاؤس کیسے بن گئے کہ دو سو میں تو تالے لگ گئے اور ابھی مزید پر کاروائی کی تیاری ہے۔ تب معلوم ہوا کہ ہمارے قریشی بھائی کچھ زیادہ ہی غیر قانونی کام کرتے ہیں جیسے گوشت کی دوکان کے جتنے لائسنس ہیں اس سے دس گن
ہرپھر کے دائرے ہی میں رکھتے ہیں ہم قدم۔۔۔از: حفیظ نعمانی
ملک کی آخری عدالت سپریم کورٹ کے فاضل ججوں نے بابری مسجد مقدمہ پر فیصلہ نہ دے کر دونوں فریقوں پر بوجھ ڈالا ہے کہ تم دونوں عدالت سے باہر بیٹھ کر باہمی سمجھوتہ کرلو۔ مسئلہ کوئی بھی ہو، عدالت میں وہ اس وقت جاتا ہے جب عدالت سے باہر فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ بابری مسجد مقدمہ اگر اتنا ہی آسان ہوتا تو اسے 1948سے اب تک کئی بار حل کیا جاسکتا تھا۔ یہ مقدمہ دینے اور لینے کا ہے۔ لینے والے اگر کروڑوں کی تعداد میں ہوں مگر صرف کوئی ایک ہی لے لے تو کسی کو اعتراض نہیں ہوگا ۔ دینے والے بھی کروڑوں کی تعداد میں ہیں لیکن
پھر گومگوں ۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی
اب ایک اور خط ملاحظہ کیجیے جس نے ہمیں بھی تھوڑا سا پریشان کیا ہے کہ ’’جملا کو جملہ لکھنا قطعی اور صریح غلطی ہے‘‘۔ ہم نے تو کئی لغات دیکھ ڈالیں۔ جملا کہیں نہیں ملا۔ امید ہے کہ محترمہ اپنی بات کے لیے کوئی حوالہ بھی رکھتی ہوں گی۔وہ لکھتی ہیں: ’’عرض یہ ہے کہ میں، جمعہ 10 مارچ کے ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ کے کالم میں آپ کی (کے) ایک سہو کی نشان دہی ’’تنقید برائے تنقید‘‘ کے لیے نہیں بلکہ ’’تنقید برائے اصلاح‘‘ کے لیے کرنا ضروری سمجھتی ہوں۔ چونکہ میں تدریسِ اردو سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ اردو کی ایک ادنیٰ سی
مہینوں کے مشرکانہ نام ۔۔۔کیلنڈر کی کہانی (پانچویں قسط)
از: ڈاکٹر محمد حنیف شباب آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... جیسا کہ اس سے پہلی والی قسط میں بتایا گیا کہ فی زمانہ رائج گریگورین کیلنڈر میں مہینوں کے نام رومن اور جولین کیلنڈر سے ہوتے ہوئے آئے ہیں۔ البتہ سال کے آغاز والے مہینے سے ان کی ترتیب بدل گئی ہے۔آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ قدیم زمانے سے مہینوں کے یہ جو نام چلے آرہے ہیں ان کے پیچھے کس طرح کے شرکیہ عقائد پوشیدہ ہیں۔ جنوری کا مہینہ: شروع میں اس کا صحیح نام انگریزی زبان میں جانوریئس تھا جو بعد میں جنوری ہوگیا۔ اور لاطینی(Latin) زبان میںJanuari
لفظ اظہار کے سانچے میں ڈھلے گا کتنا
از: حفیظ نعمانی کل ۱۹؍ مارچ کے روزنامہ انقلاب کے پہلے پورے صفحہ پر ایک اشتہار چھپا ہے جسے چھپوانے والی ایک تنظیم مسلم ایسوسی ایشن کانپور ہے۔ اور اس کے جنرل سکریٹری حاجی عبدالحسیب صاحب کی خوبصورت تصویر کے ساتھ جو کچھ لکھا ہے وہ کچھ اس طرح ہے: " ۱۰۰ مسلم اکثریتی سیٹوں میں سے 70سیٹوں پر جیت کے لیے نریندر مودی صاحب کو صمیم قلب سے مبارک باد۔ ہندو مسلم کی سیاست کرنے والی پارٹیوں کے منہ پر طمانچہ ذات پات کی سیاست کا خاتمہ ترقی کے نئے دور کی شروعات سب کا ساتھ سب کا وکاس دل سے نہیں دماغ سے
چند گزارشات اویسی صاحب کی خدمت میں۔۔از:اظہر الدین احمد شیخ
راقم کو اس بات کا پوری طرح احساس ھے کہ اویسی برادران کو مشورے دینا چھوٹا منھ بڑی بات ھوگی۔لیکن حالیہ انتخابات نے اور ھندوستان کے بدلتے حالات نے راقم کو اپنے احساسات کو تحریر کرنے کی ہمت دی۔ اویسی برادران سیاست کو ھم سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں کہ بچپن ھی سے گھر میں سیاسی ماحول دیکھا ہے والد اور دادا دونوں کامیاب سیاست داں تھے۔ لیکن چند باتیں ہیں لگتا ھے جسے اویسی برادران مسلسل نظر انداز کررہے ہیں اور جس کا سیدھا اثر ھندوستان میں مسلم سیاست پر ھورہا ھے۔اس وقت اویسی صاحب ھندوستان میں مسلمانوں کی آو
ملک کی موجودہ صورت حال اور امت مسلمہ ۔۔۔ مولانا سید جلال الدین عمری
حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتائج ہم سب کے لیے قابل غور ہیں ۔ اتر پردیش کے الیکش کے بارے میں جو خیال تھا، نتجہ اس کے بالکل بر عکس نکلا۔ الیکشن کے نتائج سے پہلے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ بی جے پی بڑی پارٹی بن کر ابھرے گی، لیکن اسے اکثریت حاصل نہیں ہوگی۔ لیکن یہ تمام قیاس آرائیاں غلط ثابت ہوئیں اور یوپی میں بی جے پی کو 312؍ سیٹیں ملیں ۔ اسی طرح گوا، اترا کھنڈ اور پنجاب کے نتائج بھی آپ کے سامنے ہیں ۔ حالیہ اسمبلی الیکشن میں آپ نے دیکھا ہو گا کہ مایاوتی نے مسلمانوں کا بار بار نام لیا اور 88؍ افراد
مشین کی مخالفت کرنا اپنے سے دشمنی ہے
از: حفیظ نعمانی اترپردیش کے لیے بی جے پی کے اندر کون سا مسئلہ ہے یہ وہ جانیں لیکن بی جے پی کے حلقہ سے باہر اترپردیش اور دہلی میں صرف ای وی ایم مشین بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ اور ہم خود بھی حیران ہیں کہ مس مایاوتی ۲۰۰۷ء میں ۲۰۷سیٹیں لے کر آئی تھیں اور وزیر اعلیٰ بنی تھی تب بھی یہی مشین تھی۔ فرق یہ تھا کہ اس وقت بی جے پی کہا کرتی تھی کہ مشینوں میں گڑبڑی کرکے ہمارے ووٹ مخالفوں کو دے دئے گئے۔ اور سب کو یاد ہوگا کہ ایڈوانی جی سب سے پیش پیش تھے۔ پنجاب میں کیا ہوا یہ پنجاب والے جانیں یا کجریوال لیک
ممبئی سے ایک عنایت نامہ
اطہر ہاشمی اِس بار کا کالم تو دوسروں کی مدد ہی سے پورا ہوجائے گا۔ چنانچہ سب سے پہلے تو ممبئی سے موصولہ ندیم صدیقی کا مکتوب پڑھیے جو عبدالمتین منیری کے توسط سے ملا ہے: ’’ندیم صدیقی صاحب ممبئی کے سینئر ادیب و شاعر ہیں۔ انقلاب اور اردوٹائمز کے ادبی صفحات سے عرصے تک وابستہ رہے ہیں۔ اور آج کل ممبئی اردو نیوز کے ادبی صفحہ پر اپنی نگارشات سے نوازتے ہیں۔ آپ کے ایک کالم پر ان کے تاثرات منسلک ہیں۔ عبد المتین منیری۔ بھٹکل ’’گزشتہ ہفتے جامعہ ممبئی میں طلبہ کا ایک پروگرام ہوا جس میں نئی کتابوں پر گ
یورپ پر ایردوان کا خوف کیوں؟۔۔۔۔از: ڈاکٹرع فرقان حمید
ترکی اور یورپی یونین کے رکن ممالک کے درمیان تعلقات ہمیشہ ہی اونچ نیچ کا شکار رہے ہیں اور یورپی یونین کے بڑے ممالک جن میں جرمنی اور فرانس پیش پیش ہیں کبھی بھی دل سے ترکی کو یورپی یونین کی رکنیت عطا کرنے کے حق میں نہیں رہے بلکہ ہمیشہ ہی ترکی کو انسانی حقوق کا درس دیتے ہوئے اسے رکنیت سے دور رکھنے کی کوششوں میں مصروف رہے ہیں حالانکہ یہی ممالک، مشرقی یورپی ممالک کو جوترکی سے انسانی حقوق،معیار زندگی، شرح ترقی اورفی کس آمدنی کے لحاظ سے ترکی سے بہت پیچھے ہیں،رکنیت دیتے ہوئے ترکی کو یہ واضح پیغام دیتے ر
یہ وقت اتصالِ دل و جاں کا وقت ہے
از: حفیظ نعمانی اسے اقبال کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کو گوا اور منی پور دونوں ریاستوں میں شکست ہوجائے اور اس کے بعد بھی وہی حکومت بنالے۔ مقابلہ مودی اور راہل کے درمیان ہے۔ اس وقت مودی کے اقبال کا یہ حال ہے کہ وہ مٹی کو اٹھا لیں تو وہ سونا ہوجائے اور راہل کا یہ حال ہے کہ اگر ان کے ہاتھ میں سونا آجائے تو مٹی ہوجائے۔ 2012میں اترپردیش کے الیکشن میں جب راہل گا ندھی تقریر کرتے تھے تو ڈائس کے سامنے Dبنتی تھی تاکہ کوئی کچھ پھینک کر نہ مار سکے۔ اور اکھلیش کے منچ سے ملے ہوئے عوام بیٹھے
ہم مہاراجہ ہمارے فرمان دستور
از: حفیظ نعمانی برسوں کے بعد معلوم ہوا کہ اخبار والا ہونا بھی کتنابڑاجرم ہے۔ ۱۱ مارچ سے پہلے ہر راؤنڈ کے بعد احباب معلوم کرتے تھے کہ آپ کے نزدیک کس کو کتنی سیٹیں ملیں گے؟ اور جب ان سے معذرت کرتے تھے کہ غیب کا علم صرف پروردگار کو ہے تو جواب ملتا تھا کہ اخبار والوں کو سب معلوم رہتا ہے۔ا ور خوشی کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر فون دور دراز سے آتے تھے جس سے یہ یقین ہوتا تھا کہ ملت کے اندر کتنا اتحاد ہے۔ نتیجہ آنے کے بعد جب بی ایس پی صاف ہوگئی تو مس مایاوتی نے وہ کہہ دیا جو ہر شکست کھانے والا کہتا ہے۔ اور
DIVISION OF MUSLIM VOTES BENEFITED BJP IN UP ELECTIONS – AN ANALYSIS
Uttar Pradesh: A detailed analysis of the UP Assembly election trends shows that BJP won even in the Muslim concentration areas of western UP due to division in Muslim votes. BJP got benefited due to not forging an alliance between BahujanSamaj Party (BSP),Samajwadi Party and Congress. This was proved true especially in Western Uttar Pradesh where the Muslim voters are in large numbers. According to the news published in The Hindu, in more than two dozen constituencies, the split of Muslim