Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















نسیم بک ڈپو اور نسیم انہونوی صاحب --- تحریر فرزانہ اعجاز
ایک زمانہ تھا جب ہمارا لکھنؤ ایسا نہیں تھا ، جیسا اب نظر آتا ہے ۔اپنی نزاکت، لطافت ، نفاست اور مروت کی خوبیوں سے مہکتا گلستاں تھا جو حقیقی معنوں میں ’باغوں اور باغیچوں سے مزین تھا ، لاٹوش روڈ ہو، ٹھاکر گنج ہو ، چوک ہو یا اکبری دروازہ ،امین آباد ہو یا قیصر باغ ،سب کچھ واقعی باغ و بہار تھا ، اور جب چاروں طرف ’فردوس بریں ‘ کا نظارہ ہو تو اطراف سے اپنے اپنے فن کے باکمال لوگ بھی متوجہ ہوتے اور ’فردوس بر روۓ زمیں است ‘ کی طرف کا رخ کرتے . ’اچھے زمانے ‘ کی باتیں ہیں کہ لکھنؤ میں کئی مشہور ’پرنٹنگ پر
ملک و ملت کے گلِ صدرنگ قاضی عدیل عباسی( آخری قسط)۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی
’’میں 1924 ء میں جب علی گڑھ میں داخل ہوا تو میں نے اس گروہ کا غبار دیکھا۔ کارواں جاچکا تھا۔ اس گروہ کا لقب ’’گرینڈی پارٹی‘‘ تھا یہ لوگ لڑکوں کے لباس رہن سہن بات چیت کھانے پینے ہر چیز پر نگاہ رکھتے تھے۔ مثلاً کیا مجال تھی کہ کوئی طالب علم بلا اجازت پورا لباس پہنے کہیں سڑک پر یا بازار میں چلا جائے۔ یہ ناممکن تھا کہ کوئی ایسی چیز علی گڑھ یونیورسٹی کے احاطہ میں ہوجائے جو اس کی بدنامی کا باعث ہو۔ اس سلسلہ میں ایک اپنا واقعہ بیان کردوں اس سے صحیح اندازہ ہو جائے گا کہ ان لوگوں کی نگاہ کتنی معمولی باتوں
ملک و ملت کے گلِ صد رنگ قاضی عدیل عباسی (چوتھی قسط)۔۔۔از: حفیظ نعمانی
’’زمیندار کے ایڈیٹر کے ساتھ میرا نام پرنٹر پبلشر بھی درج کرادیا گیا جس کا مجھے اب علم ہوا۔ زمیندار کا طریقہ یہ تھا کہ پرنٹر پبلشر نہ جانے کتنے تھے۔ کہیں فضل محمد خاں انصاری کہیں قندھاری کہیں لالہ ڈونگر مل اور کہیں لالہ رام سرن دت یا حافظ سلطان احمد یا حافظ نظام الدین۔ مجھے جب مدیر مسؤل لکھتے تھے تو قاضی عدیل عباسی بی اے لکھتے تھے اور جب پرنٹر پبلشر لکھتے تھے تو صرف قاضی محمد عدیل لکھتے تھے۔ حالانکہ میں نے کبھی پرنٹر پبلشر کا ڈکلیئریشن نہیں دیا۔ اس کا نتیجہ تھا کہ میرے اوپر سات مقدمے 124-A میں قا
ہندوستان کے قائد ملت۔۔۔از: آصف جیلانی
ہندوستان کے قائد ملت جنہوں نے بے سہارا مسلمانوں کو سنبھالا اپریل1962میں ہندوستان کے عام انتخابات میں کیرالا کے من جیری حلقہ سے جنوبی ہند کے ایک ممتاز مسلم رہنما فتح یاب ہوئے تھے۔ میں دلی میں پارلیمنٹ کے قریب رائے سینا ہوسٹل میں رہتا تھا ، آس پاس اراکین پارلیمنٹ کے بنگلوں میں رہنے والے اراکین اسی راستہ سے پیدل پارلیمنٹ جاتے تھے۔ہوسٹل کی بالکونی سے یہ اراکین آتے جاتے نظر آتے تھے۔ ان میں سے بہت سے کھدر کے کرتے پاجامے۔ فلپ فلاپ چپل اور کلف لگی دھوتی میں ملبوس ہوتے تھے ، اور چند بوشرٹ اور پتلون پہ
مذبح کے لئے جانوروں کی فروخت پر پابندی۔۔ایک تیر سے کئی شکار (دوسری قسط)۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... یہ جو ذبح کرنے کے لئے گائے کے سنتان سے منسلک تمام بڑے جانوروں کے ساتھ اونٹ کو عام مارکیٹ میں فروخت کرنے کی پابندی کا قانون لاگو کیا جانے والا ہے اس پر ملک کے مختلف علاقوں میں مختلف طبقات کی جانب سے احتجاج اور مخالفت کی آوازیں اٹھ رہی ہیں، اور اس مخالفت کو دبانے کی کوشش بھی سنگھ پریوار اور فاشسٹ تنظیموں کی طرف سے کی جارہی ہے۔ا یک طرف مدراس ہائی کورٹ نے اس قانون پر ایک مہینے کا عارضی امتناع لگایا ہے تو دوسری طرف کیرالہ ہائی کورٹ نے یہ کہتے ہوئے اس معاملے میں مداخ
ملک و ملت کے گلِ صدرنگ قاضی عدیل عباسی۔۔۔حفیظ نعمانی(تیسری قسط)۔
مولانا حسرت موہانی کے بارے میں لکھتے لکھتے قاضی صاحب فرماتے ہیں کہ ’’میں ابھی مولانا کی دُکان پر ہی تھا کہ ’’مدینہ‘‘ میں ایک مترجم کی ضرورت کا اشتہار نکلا۔ مولانا نے یہ خوب دیکھ لیا تھا کہ مجھے تجارت سے دلچسپی نہیں۔ میں کپڑے کی دُکان کو واقعی نہیں سمجھ پایا تھا اور دن بھر بیٹھا لمبے لمبے خطوط لکھا کرتا تھا جس سے مولانا بہت چڑتے تھے۔ میں نے وہ اخبار دکھاکر مولانا سے کہا کہ مولانا مدینہ اخبار کو آپ میری سفارش لکھ دیجئے۔ مولانا نے کہا کہ کبھی کوئی مضمون لکھا ہے اور اخبار میں چھپا ہے؟ میں نے کہا کہ
ملک و ملت کے گلِ صدرنگ قاضی عدیل عباسی۔۔۔حفیظ نعمانی(دوسری قسط)۔
اب آئیے کہ مولانا حسرؔ ت موہانی کے جواب کے بعد کان پور جانے کا مسئلہ کیسے حل ہو؟ قاضی عدیل مسلسل سست رہنے لگے آخرکار نئی نویلی دولھن نے معلوم کیا کہ اتنے چپ چپ کیوں رہتے ہیں؟ قاضی صاحب نے جواب دیا کہ گھر کا ماحول تمہارے سامنے ہے اور میں جنگِ آزادی میں حصہ لے کر جیل جانا چاہتا ہوں۔ وفا کی پیکر نے کہا کہ جاؤ روکا کس نے ہے؟ قاضی صاحب نے کہا کہ میرے پاس تو ایک روپیہ بھی نہیں ہے اور گھر میں کسی سے کہہ بھی نہیں سکتا۔ تب سچی رفیقۂ حیات نے کہا کہ میرے ابا دس روپئے دے گئے ہیں وہ لو اور چپکے سے نکل جاؤ۔
الف سے آم شریف ۔۔۔ از : سہیل احمد صدیقی
آم پسندی کے حوالے سے سب سے مشہور لطیفہ یا واقعہ مرزا غالبؔ کے ساتھ پیش آیا۔ یہ موسم، آم شریف کا موسم ہے۔ اسے شریف (یعنی شرف و عزت کا حامل) کا لقب مابدولت نے بہت سال پہلے، گھریلو بات چیت میں ’’عنایت‘‘ کیا تھا۔ اب ہماری ایک چہیتی ہمشیرہ جب کبھی ہمارے مُنھ سے یہ ترکیب سنتی ہے تو فوراً ہنس کر استفسار کرتی ہے: ’کیوں باقی پھل بدمعاش ہیں کیا؟‘ (براہ کرم اس لقب کو سیاست کی نذر نہ کیا جائے۔ اس سے آم کی بے عزتی ہوگی جو ہمیں ہرگز گوارا نہیں)۔ ایک ضروری وضاحت کردیں کہ مُنہ لکھ کر مُنھ بولنا، صوتی اعتب
جی چاہتا ہے ؟ کس نے کہا ’ مت خریدیے‘!۔۔۔از: ندیم صدیقی
آج اس کالم کو لکھنے سے پہلے ہم نے اسی اخبار میں(عالِم نقوی کے) ایک مضمون میں مولانا علی میاںؒ ندوی کے تعلق سے جوکچھ پڑھا وہی اس کالم کو لکھنے کا سبب بنا۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ’ اب ہمارے ہاں حق گو نہیں رہے۔‘ لوگوں کا یہ بھی خیا ل ہے کہ حق گو تو ہمارے ہاں گاجر مولی کی طرح موجود ہیں یہ اور بات کہ جب آزمائش کا وقت آتا ہے تو یہی’ حق گو‘ لوگ صرف Go ہی گو ہو جاتے ہیں۔ ۔۔۔دراصل زندگی کا ہر شعبہ آج بازار بن گیا ہے اوربازار کے اپنے آداب ، اپنے اصول ہوتے ہیں البتہ کچھ لوگ بازار سے صرف گزر
ملک و ملت کے گلِ صدرنگ قاضی عدیل عباسی۔۔۔ از: حفیظ نعمانی
20 ویں صدی میں مسلمانوں میں جو تاریخ ساز ہستیاں چھائی رہیں ان میں ایک نام قاضی محمد عدیل عباسی کا بھی ہے جن کے بارے میں حیات اللہ انصاری جیسے کسی کو خاطر میں نہ لانیو الے صحافی نے بھی لکھا ہے۔ ’’عدیل عباسی مجھے اکثر یاد آتے ہیں اور جب بھی یاد آتے ہیں نئے انداز میں یاد آتے ہیں۔ کبھی جرنلسٹ بن کر آتے ہیں تو کبھی مصنف بن کر کبھی سیاسی مفکر اور لیڈر بن کر آتے ہیں تو کبھی اُردو کے خادم بن کر کبھی دینی تعلیم کے رہبر ہوتے ہیں تو کبھی میرے دوست۔ جب وہ زندہ تھے تو اس بات کی طرف کبھی دھیان نہیں گیا کہ ان
یادیں یادیں لہو میں ڈوبی یادیں۔۔۔از:حفیظ نعمانی
بابری مسجد کو شہید کرکے فخر کرنے والے یہ کیوں سوچ رہے تھے کہ ان کے خلاف مقدمہ نہ چلے؟ بی جے پی کے برسوں سب سے بڑے کہے جانے والے ایل کے اڈوانی اس مسجد کو شہید کرانے کے سب سے بڑے مجرم ہیں اور 1998 ء میں بی جے پی کی حکومت بنوانے میں وہ خود کو اس کا اہم کردار کہتے تھے۔ بی جے پی کی قیادت کے یہ سب مہرے جنکی آج شرم سے گردن لٹکی ہوئی نظر آرہی ہے یہ گردن 25 سال اس بات پر اکڑی رہی ہے کہ ہم نے غلامی کی نشانی کو مٹا دیا۔ سی بی آئی کی کوشش سے جب سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ ان سب کے خلاف سی بی آئی کی خصوصی
مذبح کے لئے جانوروں کی فروخت پر پابندی۔۔ایک تیر سے کئی شکار ۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... چلئے خدا خدا کرکے ہندوستان میں کسی کے تو اچھے دن آگئے!خواہ مخواہ لوگ چیخ وپکار مچائے ہوئے تھے کہ مودی سرکار نے اچھے دن کا جو وعدہ کیا تھا، وہ کبھی پورا ہونے والا نہیں ہے اور وہ وعدہ صرف انتخانی جملہ بن کر رہ گیا ہے۔ اب انسانوں کے لئے نہیں تو کیاہوا، گؤ ماتا اور اس کے ونش سے تعلق رکھنے والے تمام بڑے جانوروں کے لئے تو اچھے دن آ ہی گئے نا!ویسے بھی اس دیس میں گؤرکھشا کے سامنے انسانوں کی اہمیت کیا ہے اس کا عملی مظاہرہ تو مودی مہاراج ،یوگی مہاراج، ساکشی مہاراج،آدرنیہ
ا ب کیا ضرورت رہ گئی بوچڑ خانوں کی۔۔۔از: حفیظ نعمانی
گؤ پوجا اور گؤ رکشا ہوتے ہوتے ملک میں اس کی قربانی پر آخرکار پابندی کا مودی سرکار نے اعلان کر ہی دیا اور سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ گائے بچھڑا بیل بھینس اور اونٹ پر یہ پابندی لگائی ہے کہ اس کو خریدتے وقت یہ لکھ کر دینا پڑے گا کہ ان کو ذبح نہیں کیا جائے گا۔ اب سوال ہے ان گایوں اور بھینسوں کا جو بوڑھی ہوگئی ہیں اور اس بیل اور اونٹ کا جو کھیتی اور باربرداری کے لائق نہیں رہ گئے ہیں ان کا کیا ہوگا؟ ایسے جانوروں کو گھروں میں کوئی رکھ نہیں سکتا یہ ہندوستان ہے یہاں جانور کی تو بات ہی کیا 70 سال پہلے جب ملک
دل کو روؤں کہ یا جگر کو میں۔۔۔ از: حفیظ نعمانی
کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ ہمیں نہیں جانتے لیکن ہم انہیں جانتے ہیں اور کروڑوں آدمی انہیں جانتے ہیں۔ انہوں نے بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی بہت کوشش کی لیکن مرحوم مفتی صاحب کامیاب ہوگئے۔ اب ان کی دختر محبوبہ مفتی وزیر اعلیٰ ہیں اور عمر عبداللہ انہیں اس پر مجبور کررہے ہیں کہ وہ چھوڑچھاڑ کر بھاگ جائیں۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ کیوں ان کی حمایت کررہے ہیں جو خودکشی کو دعوت دے رہے ہیں اور انہیں پوری دنیامیں پتھر باز کہا جارہا ہے۔ کشمیر میں حکومتِ ہند کے ایک بڑے عہدہ پر میرے بھتیجے برسوں
آتشِ نفس کی یاری نے مجھے خاک کیا۔۔۔ از: حفیظ نعمانی
ہمارے ملک میں جو پارٹی بنتی ہے وہ بنتے ہی آل انڈیا ہوجاتی ہے۔ 2012 ء کے صوبائی الیکشن سے پہلے ایک ڈاکٹر جو مشہور سرجن تھے ان کو نہ جانے کیا سوجھی کہ انہوں نے مسلمانوں کی ایک پارٹی بنالی اور نام رکھا پیس پارٹی اور پوری طرح الیکشن میں کود پڑے یہاں تک کہ شیخ چلی کی طرح اپنے کو وزیر اعلیٰ بنا لیا اور ایک ہندو کو وزیر داخلہ اور نائب وزیر اعلیٰ بنانے کا اعلان کردیا۔ انہوں نے وہ راستہ اختیار کیا کہ جو مایاوتی کرتی ہیں کہ ٹکٹ اس اعلان کے ساتھ دیتی ہیں کہ 20 فیصدی دلت ووٹ بھی ان کو ملیں گے۔ ڈاکٹر صاحب جن
مسلم یونی ورسٹی ، برج کورس اور ڈاکٹر راشد شاز --- ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی
سر سیداحمد خاں رحمہ اللہ کے بعض عقائد اور نظریات (مثلاً جنت ، جہنم ، فرشتے ، جنات ، نیچر ، معجزات وغیرہ) جمہورِ امّت سے مختلف تھے _ مخالفتوں کے باوجود انھوں نے اپنے نظریات سے رجوع نہیں کیا ، لیکن جب انھوں نے مدرسۃ العلوم ، پھر ایم اے او کالج قائم کیا تو اپنے نظریات کو اس سے الگ رکھا اور انھیں کالج کے طلبہ پر تھوپنے کی کوشش نہیں کی _ کالج میں شعبہ دینیات کی تاسیس کی تو اس کا پہلا سربراہ دار العلوم دیوبند کے بانی مولانا قاسم نانوتوی کے داماد مولانا عبد اللہ انصاری کو بنایا _ مدرسہ/کالج کی تاسیس کے
امداد کیجیے، مگر غریبوں کو رُسوا تو نہ کیجیے!۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... دنیا میں انسانوں کے پاس مال و زر کی کمی و بیشی اورمعیشت کی مختلف تقسیم اللہ تعالیٰ کے طے کردہ نظام کے مطابق ہوتی ہے۔اگرکسی کے پاس مال کی زیادتی اور خوشحالی کا سامان ہے تو وہ بھی اللہ کی عنایتوں کا ہی ثمرہ ہے اور اگر کوئی محروم و تنگ حال ہے تو وہ بھی اللہ کی مصلحت اور نظام ہستی چلانے کے منصوبے کا حصہ ہے۔اس پس منظر میں دنیا میں ایک دوسرے کے کام آنا اوراپنی خون پسینے کی کمائی اور اللہ رب العالمین کی طرف سے عنایت کردہ مال وزر کو غریبوں اور محروموں کی فلاح و بہبود
کہاں چراغ جلائیں ہوا ہے چاروں طرف۔۔۔ از:حفیظ نعمانی
کروڑوں کان یہ سننے کے لئے لگے ہیں کہ پانچ محترم ججوں نے کیا فیصلہ کیا؟ اور فیصلہ متفقہ ہے یا پانچ میں اکثریت کے بل پر ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ایک سکریٹری فضل الرحیم صاحب کے نام سے ایک اور حلف نامہ سپریم کورٹ میں داخل کیا گیا ہے جس میں جدید اور مثالی نکاح نامہ کا یقین دلایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ نکاح پڑھانے والوں کو ایڈوائزری دی جائے گی کہ نکاح پڑھاتے وقت لڑکے اور لڑکی کو بتادیا جائے کہ طلاق ثلاثہ ناپسندیدہ فعل ہے۔ ہم کیسے مان لیں کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ ان خبروں سے بے خبر ہے جو اس کی مخالف