Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















اب یاد آئے مسلمان راہل گاندھی کو۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی
کانگریس کو اب مسلمانوں کی ضرورت شدت سے محسوس ہورہی ہے۔ راہل گاندھی نے ملک بھر سے بچے کھچے مسلمان کانگریسیوں کو دہلی بلایا اور پرانی باتیں دہراکر 2019 ء کے پروگرام پر مشورہ کیا۔ راہل گاندھی، گاندھی، نہرو، آزاد کی مالا جپتے رہے جبکہ انہوں نے ان کی پرچھائیں بھی نہیں دیکھی۔ کانگریس کے دو رُخ ہیں، سیاست اور حکومت۔ سیاست میں تو گاندھی جی اور مولانا آزاد بہت کچھ تھے اور بہت کچھ رہے۔ لیکن حکومت میں پنڈت نہرو کے علاوہ ان دونوں کا کوئی کردار نہیں ہے۔ راہل گاندھی کو اگر دیکھنا اور معلوم کرنا ہے تو وہ نہرو
اش اش پر اعتراض ۔۔۔ از : اطہر ہاشمی
ایک عمومی غلطی واحد اور جمع کی نظر آتی ہے۔مثلاًایک جملہ ہے’’کثیر تعداد خدمات سر انجام دے رہے ہیں‘‘۔چونکہ تعداد واحد ہے خواہ کثیر ہی کیوں نہ ہو، چنا نچہ اس کے لیے ’’سر انجام دے رہی ہے ‘‘ہونا چاہیے۔مگرمذکورہ جملے میں نہ صرف جمع کا صیغہ آیا ہے بلکہ ’’تعداد ‘‘مؤنث کے بجائے مذکر ہوگئی ہے۔لکھنے والے عموماًاس کا خیال نہیں رکھتے ۔شاید بھول جاتے ہیں کہ جملے کا آغاز کیسے ہوا۔ ایک اور جملہ دیکھیے ’’آلِ سعود امریکی بلاک میں شامل ہیں‘‘۔آلِ سعودکے حوالے سے ’’شامل ہے‘‘ہونا چاہیے۔’’حوالے سے‘‘ کے بارے میں محترم
رمضان المبارک میں یوگی کے دو تحفے۔۔۔از: حفیظ نعمانی
اُترپردیش کے وزیر اعلیٰ نے یہ محسوس کرکے سرکاری چھٹیاں ضرورت سے زیادہ ہوگئی ہیں چند چھٹیوں کو منسوخ کیا۔ ہم ذاتی طور پر اُن لوگوں میں ہیں جو اتنی چھٹیوں کے ہمیشہ خلاف رہے جن سے سرکاری کام بھی متاثر ہوتے ہیں اور بچوں کی تعلیم پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کسی بڑے آدمی کی پیدائش کے دن چھٹی کیوں؟ میزائل مین ڈاکٹر عبدالکلام جو صدر جمہوریہ رہے انہوں نے وصیت کی تھی کہ میرے مرنے پر چھٹی نہ کی جائے بلکہ اور زیادہ کام کیا جائے۔ وزیر اعلیٰ یوگی نے جن چھٹیوں کو ختم کیا ہے ان میں ایک جمعۃ الوداع کی
صدر ایردوان ایک بار پھر آق پارٹی کے چیئرمین۔۔۔۔۔از:: ڈاکٹر فرقان حمید
یہ ایک حقیقت ہے کہ رجب طیب ایردوان کے بغیر جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ( آق پارٹی) کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ پارٹی اُن کی محنت اور کاوشوں ہی کے نتیجے میں قائم ہوئی تھی ۔ 16 جنوری 1998ء میں رفاہ پارٹی کو ترکی کی آئینی عدالت کی جانب سے کالعدم قرار دئیے جانے کے بعد ملی نظریات کے حامل سیاستدانوں نے فضیلت پارٹی کے نام سے نئی جماعت کو تشکیل دیا لیکن اس نئی جماعت کی تشکیل کے فوراً بعد ہی جماعت کے اندر روایتی پالیسی اور جدید پالیسی کے حامل سیاستدانوں کے درمیان اختلافات پیدا ہونا شروع ہوگئے اور ان
سچی باتیں ۔ رمضان المبارک ۔۔۔ از : مولانا عبد الماجد دریابادی
و هو شهرُ الصَّبرِ و الصَّبرُ ثوابُه الجنَّةُ و هو شهرُ المواساةِ و هو شهرٌ يزادُ رزقُ المؤمنِ فيهِ مَنْ فطَّرَ صائمًا كانَ لَهُ عتقُ رقبةٍ و مغفرةٌ لذنوبِهِ قيلَ يا رسولَ اللهِ ليسَ كلُّنَا نجدُ ما يفطِّرُ الصائمَ قالَ يُعْطِي اللهُ هذَا الثَّوابَ لمَنْ فطَّرَ صائمًا على مَذْقَةِ لبنٍ أو تمرةٍ أو شربةِ ماءٍ و مَنْ أشبعَ صائمًا كانَ لَهُ مغفرةٌ لذنوبِهِ و سقَاهُ اللهُ مِن حوضِي شربةً لا يظمأُ حتَّى يدخلَ الجنَّةَ و كانَ لَهُ مثلُ أجرِهِ مِن غيرِ أنْ ينقصَ مِن أجرِهِ شيئًا و هو شهرٌ أوَّلُه رحمةٌ
قرض ہے یہ تم پہ چار پھولوں کا ۔۔ ساغر صدیقی ۔۔۔۔تحریر: فرزانہ ناز
*ساغر کی زندگی پہ کوئی تبصرے نہ کر* *اک شمع جل رہی ہے سررہگزار زیست* یہ شعر پڑھتے ہی زندگی کی بے تبابیوں اور بے اعتنائیوں کا خیال آتا ہے اور چاروں طرف ایک اداسی کی سی کیفیت محسوس ہوتی ہے یوں تو اردو ادب کی تاریخ ایک جہاں اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے لیکن یہی تاریخ ساغر صدیقی کے سوانحی حالات کی بابت تہی داماں نظر آتی ہے اسی لئے اس عظیم شاعر کے بارے میں ہمارے پاس بہت مختصر معلومات ہیں وہ بھی ساغر کی اپنی بیان کردہ باتیں ہیں ۔ ساغر صدیقی1928ء میں انبالہ میں پیدا ہوئے وہ ماں کی مامتا او
نسیم بک ڈپو اور نسیم انہونوی صاحب --- تحریر فرزانہ اعجاز
ایک زمانہ تھا جب ہمارا لکھنؤ ایسا نہیں تھا ، جیسا اب نظر آتا ہے ۔اپنی نزاکت، لطافت ، نفاست اور مروت کی خوبیوں سے مہکتا گلستاں تھا جو حقیقی معنوں میں ’باغوں اور باغیچوں سے مزین تھا ، لاٹوش روڈ ہو، ٹھاکر گنج ہو ، چوک ہو یا اکبری دروازہ ،امین آباد ہو یا قیصر باغ ،سب کچھ واقعی باغ و بہار تھا ، اور جب چاروں طرف ’فردوس بریں ‘ کا نظارہ ہو تو اطراف سے اپنے اپنے فن کے باکمال لوگ بھی متوجہ ہوتے اور ’فردوس بر روۓ زمیں است ‘ کی طرف کا رخ کرتے . ’اچھے زمانے ‘ کی باتیں ہیں کہ لکھنؤ میں کئی مشہور ’پرنٹنگ پر
ملک و ملت کے گلِ صدرنگ قاضی عدیل عباسی( آخری قسط)۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی
’’میں 1924 ء میں جب علی گڑھ میں داخل ہوا تو میں نے اس گروہ کا غبار دیکھا۔ کارواں جاچکا تھا۔ اس گروہ کا لقب ’’گرینڈی پارٹی‘‘ تھا یہ لوگ لڑکوں کے لباس رہن سہن بات چیت کھانے پینے ہر چیز پر نگاہ رکھتے تھے۔ مثلاً کیا مجال تھی کہ کوئی طالب علم بلا اجازت پورا لباس پہنے کہیں سڑک پر یا بازار میں چلا جائے۔ یہ ناممکن تھا کہ کوئی ایسی چیز علی گڑھ یونیورسٹی کے احاطہ میں ہوجائے جو اس کی بدنامی کا باعث ہو۔ اس سلسلہ میں ایک اپنا واقعہ بیان کردوں اس سے صحیح اندازہ ہو جائے گا کہ ان لوگوں کی نگاہ کتنی معمولی باتوں
ملک و ملت کے گلِ صد رنگ قاضی عدیل عباسی (چوتھی قسط)۔۔۔از: حفیظ نعمانی
’’زمیندار کے ایڈیٹر کے ساتھ میرا نام پرنٹر پبلشر بھی درج کرادیا گیا جس کا مجھے اب علم ہوا۔ زمیندار کا طریقہ یہ تھا کہ پرنٹر پبلشر نہ جانے کتنے تھے۔ کہیں فضل محمد خاں انصاری کہیں قندھاری کہیں لالہ ڈونگر مل اور کہیں لالہ رام سرن دت یا حافظ سلطان احمد یا حافظ نظام الدین۔ مجھے جب مدیر مسؤل لکھتے تھے تو قاضی عدیل عباسی بی اے لکھتے تھے اور جب پرنٹر پبلشر لکھتے تھے تو صرف قاضی محمد عدیل لکھتے تھے۔ حالانکہ میں نے کبھی پرنٹر پبلشر کا ڈکلیئریشن نہیں دیا۔ اس کا نتیجہ تھا کہ میرے اوپر سات مقدمے 124-A میں قا
ہندوستان کے قائد ملت۔۔۔از: آصف جیلانی
ہندوستان کے قائد ملت جنہوں نے بے سہارا مسلمانوں کو سنبھالا اپریل1962میں ہندوستان کے عام انتخابات میں کیرالا کے من جیری حلقہ سے جنوبی ہند کے ایک ممتاز مسلم رہنما فتح یاب ہوئے تھے۔ میں دلی میں پارلیمنٹ کے قریب رائے سینا ہوسٹل میں رہتا تھا ، آس پاس اراکین پارلیمنٹ کے بنگلوں میں رہنے والے اراکین اسی راستہ سے پیدل پارلیمنٹ جاتے تھے۔ہوسٹل کی بالکونی سے یہ اراکین آتے جاتے نظر آتے تھے۔ ان میں سے بہت سے کھدر کے کرتے پاجامے۔ فلپ فلاپ چپل اور کلف لگی دھوتی میں ملبوس ہوتے تھے ، اور چند بوشرٹ اور پتلون پہ
مذبح کے لئے جانوروں کی فروخت پر پابندی۔۔ایک تیر سے کئی شکار (دوسری قسط)۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... یہ جو ذبح کرنے کے لئے گائے کے سنتان سے منسلک تمام بڑے جانوروں کے ساتھ اونٹ کو عام مارکیٹ میں فروخت کرنے کی پابندی کا قانون لاگو کیا جانے والا ہے اس پر ملک کے مختلف علاقوں میں مختلف طبقات کی جانب سے احتجاج اور مخالفت کی آوازیں اٹھ رہی ہیں، اور اس مخالفت کو دبانے کی کوشش بھی سنگھ پریوار اور فاشسٹ تنظیموں کی طرف سے کی جارہی ہے۔ا یک طرف مدراس ہائی کورٹ نے اس قانون پر ایک مہینے کا عارضی امتناع لگایا ہے تو دوسری طرف کیرالہ ہائی کورٹ نے یہ کہتے ہوئے اس معاملے میں مداخ
ملک و ملت کے گلِ صدرنگ قاضی عدیل عباسی۔۔۔حفیظ نعمانی(تیسری قسط)۔
مولانا حسرت موہانی کے بارے میں لکھتے لکھتے قاضی صاحب فرماتے ہیں کہ ’’میں ابھی مولانا کی دُکان پر ہی تھا کہ ’’مدینہ‘‘ میں ایک مترجم کی ضرورت کا اشتہار نکلا۔ مولانا نے یہ خوب دیکھ لیا تھا کہ مجھے تجارت سے دلچسپی نہیں۔ میں کپڑے کی دُکان کو واقعی نہیں سمجھ پایا تھا اور دن بھر بیٹھا لمبے لمبے خطوط لکھا کرتا تھا جس سے مولانا بہت چڑتے تھے۔ میں نے وہ اخبار دکھاکر مولانا سے کہا کہ مولانا مدینہ اخبار کو آپ میری سفارش لکھ دیجئے۔ مولانا نے کہا کہ کبھی کوئی مضمون لکھا ہے اور اخبار میں چھپا ہے؟ میں نے کہا کہ
ملک و ملت کے گلِ صدرنگ قاضی عدیل عباسی۔۔۔حفیظ نعمانی(دوسری قسط)۔
اب آئیے کہ مولانا حسرؔ ت موہانی کے جواب کے بعد کان پور جانے کا مسئلہ کیسے حل ہو؟ قاضی عدیل مسلسل سست رہنے لگے آخرکار نئی نویلی دولھن نے معلوم کیا کہ اتنے چپ چپ کیوں رہتے ہیں؟ قاضی صاحب نے جواب دیا کہ گھر کا ماحول تمہارے سامنے ہے اور میں جنگِ آزادی میں حصہ لے کر جیل جانا چاہتا ہوں۔ وفا کی پیکر نے کہا کہ جاؤ روکا کس نے ہے؟ قاضی صاحب نے کہا کہ میرے پاس تو ایک روپیہ بھی نہیں ہے اور گھر میں کسی سے کہہ بھی نہیں سکتا۔ تب سچی رفیقۂ حیات نے کہا کہ میرے ابا دس روپئے دے گئے ہیں وہ لو اور چپکے سے نکل جاؤ۔
الف سے آم شریف ۔۔۔ از : سہیل احمد صدیقی
آم پسندی کے حوالے سے سب سے مشہور لطیفہ یا واقعہ مرزا غالبؔ کے ساتھ پیش آیا۔ یہ موسم، آم شریف کا موسم ہے۔ اسے شریف (یعنی شرف و عزت کا حامل) کا لقب مابدولت نے بہت سال پہلے، گھریلو بات چیت میں ’’عنایت‘‘ کیا تھا۔ اب ہماری ایک چہیتی ہمشیرہ جب کبھی ہمارے مُنھ سے یہ ترکیب سنتی ہے تو فوراً ہنس کر استفسار کرتی ہے: ’کیوں باقی پھل بدمعاش ہیں کیا؟‘ (براہ کرم اس لقب کو سیاست کی نذر نہ کیا جائے۔ اس سے آم کی بے عزتی ہوگی جو ہمیں ہرگز گوارا نہیں)۔ ایک ضروری وضاحت کردیں کہ مُنہ لکھ کر مُنھ بولنا، صوتی اعتب
جی چاہتا ہے ؟ کس نے کہا ’ مت خریدیے‘!۔۔۔از: ندیم صدیقی
آج اس کالم کو لکھنے سے پہلے ہم نے اسی اخبار میں(عالِم نقوی کے) ایک مضمون میں مولانا علی میاںؒ ندوی کے تعلق سے جوکچھ پڑھا وہی اس کالم کو لکھنے کا سبب بنا۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ’ اب ہمارے ہاں حق گو نہیں رہے۔‘ لوگوں کا یہ بھی خیا ل ہے کہ حق گو تو ہمارے ہاں گاجر مولی کی طرح موجود ہیں یہ اور بات کہ جب آزمائش کا وقت آتا ہے تو یہی’ حق گو‘ لوگ صرف Go ہی گو ہو جاتے ہیں۔ ۔۔۔دراصل زندگی کا ہر شعبہ آج بازار بن گیا ہے اوربازار کے اپنے آداب ، اپنے اصول ہوتے ہیں البتہ کچھ لوگ بازار سے صرف گزر
ملک و ملت کے گلِ صدرنگ قاضی عدیل عباسی۔۔۔ از: حفیظ نعمانی
20 ویں صدی میں مسلمانوں میں جو تاریخ ساز ہستیاں چھائی رہیں ان میں ایک نام قاضی محمد عدیل عباسی کا بھی ہے جن کے بارے میں حیات اللہ انصاری جیسے کسی کو خاطر میں نہ لانیو الے صحافی نے بھی لکھا ہے۔ ’’عدیل عباسی مجھے اکثر یاد آتے ہیں اور جب بھی یاد آتے ہیں نئے انداز میں یاد آتے ہیں۔ کبھی جرنلسٹ بن کر آتے ہیں تو کبھی مصنف بن کر کبھی سیاسی مفکر اور لیڈر بن کر آتے ہیں تو کبھی اُردو کے خادم بن کر کبھی دینی تعلیم کے رہبر ہوتے ہیں تو کبھی میرے دوست۔ جب وہ زندہ تھے تو اس بات کی طرف کبھی دھیان نہیں گیا کہ ان
یادیں یادیں لہو میں ڈوبی یادیں۔۔۔از:حفیظ نعمانی
بابری مسجد کو شہید کرکے فخر کرنے والے یہ کیوں سوچ رہے تھے کہ ان کے خلاف مقدمہ نہ چلے؟ بی جے پی کے برسوں سب سے بڑے کہے جانے والے ایل کے اڈوانی اس مسجد کو شہید کرانے کے سب سے بڑے مجرم ہیں اور 1998 ء میں بی جے پی کی حکومت بنوانے میں وہ خود کو اس کا اہم کردار کہتے تھے۔ بی جے پی کی قیادت کے یہ سب مہرے جنکی آج شرم سے گردن لٹکی ہوئی نظر آرہی ہے یہ گردن 25 سال اس بات پر اکڑی رہی ہے کہ ہم نے غلامی کی نشانی کو مٹا دیا۔ سی بی آئی کی کوشش سے جب سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ ان سب کے خلاف سی بی آئی کی خصوصی
مذبح کے لئے جانوروں کی فروخت پر پابندی۔۔ایک تیر سے کئی شکار ۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... چلئے خدا خدا کرکے ہندوستان میں کسی کے تو اچھے دن آگئے!خواہ مخواہ لوگ چیخ وپکار مچائے ہوئے تھے کہ مودی سرکار نے اچھے دن کا جو وعدہ کیا تھا، وہ کبھی پورا ہونے والا نہیں ہے اور وہ وعدہ صرف انتخانی جملہ بن کر رہ گیا ہے۔ اب انسانوں کے لئے نہیں تو کیاہوا، گؤ ماتا اور اس کے ونش سے تعلق رکھنے والے تمام بڑے جانوروں کے لئے تو اچھے دن آ ہی گئے نا!ویسے بھی اس دیس میں گؤرکھشا کے سامنے انسانوں کی اہمیت کیا ہے اس کا عملی مظاہرہ تو مودی مہاراج ،یوگی مہاراج، ساکشی مہاراج،آدرنیہ