Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















آبروئے اردو ادب و صحافت ۔جناب حفیظ نعمانی صاحب ۔۔۔۔تحریر : فرزانہ اعجاز
’ جب بھی ’اردو ادب و اردو صحافت ‘ کی فہرست بنائ جاۓ گی تو شہر مراد آباد کے ماتھے پر جگمگاتے جھومر ’سنبھل ‘ کا ذکر بار بار آۓ گا ۔اسی سنبھل کے ایک منفرد اور مدبر خاندان کے ایک ’ مرد مجاہد مولانا منظور نعمانی کے فرزند دلپسند ہمارے چچا جناب ’حفیظ نعمانی صاحب‘سے کچھ سوالات کرنے کی ہماری خواہش ضرور تھی مگر ’ ہمت ‘ نہیں ۔ لیکن ، دل نہیں مانا اور ہمت جٹا کر ’ہم انٹر ویو کی آگ میں کود پڑے ‘۔اب ہم ’ پار ‘ ہوں یا ’ڈوب ‘جایئں گے ، یہ ہمارے سوالات کی مضبوطی پر منحصر ہے، اگر چہ انہیں یا انکے خاندان کو کسی
بے روزگاری کی سزا بھیڑ ۔۔۔از: حفیظ نعمانی
جھگڑا دو آدمیوں میں ہو، دو خاندانوں میں ہو یا دو فرقوں میں اس کی ذمہ دار پولیس نہیں ہے۔ پولیس کا کام اس وقت شروع ہوتا ہے جب مرنے والا مرچکا ہو، زخمی ہوچکا ہو اور گھر یا دُکان جل گئے ہوں۔ اور اس کے بعد حکومت کا عمل شروع ہوتا ہے کہ وہ پولیس کو اس کی مرضی کے کام کرنے دے رہی ہے یا اپنی پالیسی اور اپنے ووٹ اور دوسرے کے ووٹ کی بنیاد پر اسے دبا رہی ہے؟ سہارن پور کی ساری داستان ابتدا سے ٹی وی چینل دکھا رہے ہیں۔ اور یہ بھی محسوس ہورہا ہے کہ وہ بھی اپنی سیاست کررہے ہیں۔ سہارن پور میں پارلیمنٹ کا ممبر تو
بانو آپا ۔۔۔ از :فرزانہ اعجاز
ہم ’چوتھے‘ کلاس میں تھے کہ ہمارے اسکول ’تعلیم گاہ نسواں انٹر کالج ‘کے ’بڑے کلاسز‘ کے لۓ ایک نئ انگلش ٹیچرآیئں ۔آئ تو وہ صرف بڑے کلاسز کے لۓ تھیں مگر انکی منفرد شخصیت نے تمام لڑکیوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ،چہرے پر صبح کشمیر کی تازگی لۓ ۔جلدی جلدی پلکیں جھپکاتی اورسخت پردہ نشین مگر فر فر انگریزی بولتی ہوئ استانی ۔ اور ہم تو یوں بھی متوجہ ہوۓ کہ وہ ہماری سگی پھوپھی کی ’انگریزی کی استانی‘ تھیں ،اگرچہ اس وقت ہم انگریزی نہیں پڑھتے تھے کیونکہ اس وقت انگریزی زبان کلاس چھہ سے شروع ہوتی تھی ،’ان
پرانی سسرال میں نئی دولھن کی آزمائش۔۔۔از: حفیظ نعمانی
کسی بھی ملک یا صوبہ کے لئے ناتجربہ کاری سب سے بڑی مصیبت ہے۔ اُترپردیش کی حکومت میں وزیر اعلیٰ سے لے کر اسٹیٹ منسٹروں تک جو ٹیم ہے ان میں شاید ہی کوئی ہو جو 15 سال پہلے بی جے پی کی حکومتوں میں وزیر رہا ہو؟ اور اگر ایسے دو چار ہوں گے بھی تو اس خانہ میں پہونچ چکے ہوں گے کہ نیا خون انہیں آثارِ قدیمہ سمجھتا ہوگا اور سوچتا ہوگا کہ پرانے زمانہ اور آج کے زمانہ کے فرق کو وہ نہیں سمجھ سکتے۔ جو پارٹی یا پارٹیاں حزب مخالف کی کرسیوں پر یا باہر ہوتی ہیں وہ ہر دن حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ہم ہوتے ت
گائے کے بارے میں ویر ساورکر کا تبصرہ۔۔از:حفیظ نعمانی
ہندو مہا سبھا ، آر ایس ایس ، جن سنگھ ، وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل قبیلہ میں ایک نام بہت احترام سے لیا جاتا ہے۔ اور وہ ہے ویر ساورکر جن کے بارے میں اس قبیلہ کی زبان پر رہتا ہے کہ یہ وہ منفرد شخصیت ہے جسے انگریزوں نے بھی جیل میں ڈالا اور کالے پانی بھیجا اور بعد میں کانگریس کی حکومت نے بھی جیل میں بند کیا ۔ ایک مرتبہ جب مایاوتی نے بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی اس وقت ہریانہ ایک زعفرانی لیڈر اترپردیش کے گورنر تھے۔ اردو اکادمی کی ایک تقریب میں ان کی تقریر ہم نے بھی سنی تھی انہوں نے ذکر
ابو کا طوطا - بے زبانی کی زبان --- از : فرزانہ اعجاز
'لپ چھپ- لپ چھپ'— ہمیشہ کی طرح ،وہ دوڑتی بھاگتی ہوئ اپنے ابو کے گھر گئ اور زوردار آواز کے ساتھ داخلی دروازہ کھولتی ہوئ 'امی –ابو' کو پکارتی گھر میں گھسی ہی تھی کہ داہنی طرف کے دالان سے ایک آواز آنے لگی ---'یہ کون آیا --- یہ کون آیا ۔''بے اختیار وہ ادھر دیکھنے لگی اور سوچنے لگی کہ' یہ کس کی مجال ہے کہ وہ اپنے ابو کے گھر یعنی اس کے 'میکے' میں اس سے پوچھے کہ 'یہ کون آیا ؟ ارے کون کون ؟ 'گھر کی مالکن آئ ہے ،،،،اسکا جی چاہا کہ وہ ' پوچھنے والے سے خود پوچھے کہ ' بھائ تم کون ہو؟'' مگر آواز انسانوں و
احسان دانش ۔۔۔ از : راحت علی صدیقی قاسمی
تکالیف مصائب و شدائد حالات کی سختی نے احسان دانش کو بچپن ہی میں محبوس کر لیا تھا ،وقت کی غرقاب لہروں نے اس کے ہاتھوں سے کتابیں چھین کر بیلچے تھما دئے تھے ،نرم و نازک نحیف جسم کو مزدوری کا تحفہ دیا تھا ،دھوپ کی شدت گرم ہوا کے تھپیڑے ،بھوک پیاس سے ٹوٹتا جسم ،سرمایہ دارانہ ذہنیت کے افراد سے مقابلہ آراء ،شب روز اس کا امتحان لیا جارہا تھا ،زندگی ساون کی بھیانک رات میں تبدیل ہوگء تھی ،سورج طلوع ہونے کی امیدیں بھی دم توڑ چکیں تھیں ،حالات اعلان کر رہے تھے ، اس شخص کے نصیب کا فیصلہ سنا رہے تھے ،اور عیاں
جمعۃ الوداع کے بارے میں مزید وضاحت۔۔۔ از: حفیظ نعمانی
اودھ نامہ 7 جون کے صفحہ 4 پر ’’رمضان المبارک میں یوگی کے دو تحفے‘‘ کے عنوان سے میری معروضات ایک مضمون کی شکل میں چھپی ہیں۔ جن کا حاصل یہ تھا کہ میں شاید 6 برس سے معلوم کررہا ہوں کہ جمعۃ الوداع کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور یہ اس سال کی بات ہے کہ لکھنؤ اور پورے ملک میں آخری جمعہ کو 30 رمضان المبارک تھی اور مسلمانوں کا روزہ تھا اور اس سے پہلے جمعہ کو جمعۃ الوداع تہوار کے طور پر منا لیا گیا تھا اور اس کا خاص خطبہ جو بعض سُنیوں کی مسجد میں پڑھا گیا۔ ’’الوداع والوداع یا شہر رمضان الوداع‘‘ بھی پڑھ لیا گیا
اگست کنونشن کو مودی یوگی کی پالیسیاں کامیاب بنائیں گی۔۔۔از: حفیظ نعمانی
اس میں کوئی شک نہیں کہ بہار میں آج بھی سب سے زیادہ مقبول سیاسی لیڈر لالو پرساد یادو ہیں۔ نتیش کمار نے بیشک ایک صاف ستھری شبیہ بنائی ہے اور بے داغ وزیر اعلیٰ کے طور پر سب ان کا احترام اور ان کی قدر کرنے پر مجبور ہیں۔ لالو یادو اگست میں پٹنہ میں حزب مخالف کا ایک اجتماع کرنے جارہے ہیں۔ ان کی دعوت کو اطلاع کی حد تک ملک کی غیربی جے پی پارٹیوں میں سے زیادہ تر نے منظور کرلیا ہے۔ اترپردیش میں کانگریس کے بعد جو دو پارٹیاں سامنے آئیں وہ ایس پی اور بی ایس پی ہیں۔ قسمت سے دونوں کو پوری طرح اقتدار کا موقع مل
(تیسری اور آخری قسط) مذبح کے لئے جانوروں کی فروخت پر پابندی۔۔ایک تیر کئی شکار....از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... آستھا کے نام پر گؤ رکھشا کی مہم چلانے والوں نے ماضی میں بھی بارہا تشدد کا راستہ اختیار کیا ہے، لیکن اکثر واقعات محدود پیمانے پر ہوا کرتے تھے۔ سب سے پہلی بڑی اور پرتشدد مہم 1966میں چلی تھی جس کے دوران آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ملک کی پارلیمان پر پہلی بار دھاوا بولنے کی کوشش گؤ رکھشکوں نے ہی کی تھی،(اس کی تفصیل آگے آئے گی)۔لیکن ادھرگزشتہ تین سال سے جب سے مودی سرکار نے زمام حکومت سنبھالی ہے، تو گؤ رکھشا کے نام پر ملک کے مختلف حصوں میں تشدد کابدترین اوربے لگام تان
فلسطین پر اسرائیل کا پچاس سالہ تسلط ۔۔۔ از : آصف جیلانی
10جون کو ارض فلسطین پر اسرائیل کے تسلط کو پچاس سال پورے ہوگئے۔یہ بے حد ناقابل فہم اور نا قابل یقین بات ہے کہ عالم اسلام بلکہ پوری انسانیت ، آزادء ، جمہوریت اور انسانی حقوق کے علم بردار دور میں ، اتنے طویل تسلط ،پر کیوں خاموش ہے؟ تاریخ بھری پڑی ہے کہ قومیں اور ملک طویل عرصہ تک غیر ملکی تسلط میں محکوم رہے ہیں لیکن اس وقت آزادی اور انسانی حقوق کے جدید شعورکا سورج طلوع نہیں ہوا تھا۔ آج کے دور میں یہ کیوں کر ممکن ہے کہ ارض فلسطین اور فلسطینیوں کی محکومی کو برداشت کر لیا گیا اور فلسطینیوں کی آزا
سچی باتیں ۔ رحمتوں کا مہینہ ۔۔۔۔ : از : مولانا عبد الماجد دریابادی رحمۃ اللہ علیہ
ھو شھراولہ رحمۃ،اوسطہ مغفرۃ،واٰخرہ عتق من النار"حدیث نبوی" یہ وہ ماہ مبارک ہے جس کا ابتدائی حصہ اللہ کی رحمت ہے درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آگ سے آزادی ہے ۔ مبارک مہینہ ختم ہونے کو آیا عشرہ اول رحمت کے لیے مخصوص تھا آپ کے حصہ میں اس دولت میں سے کتنا آیا؟عشرہ دوم میں مغفرت ہی مغفرت تھی آپ نے اس خزانہ سے کتنا کمایا ؟عشرہ سوم میں آگ سے آزادی ا ور عذاب سے نجات ہی نجات ہے آپ اس حصہ کا استقبال کیوں کر رہے ہیں؟اس کے انعام اور بخششوں سے کس حد تک فا
اب یاد آئے مسلمان راہل گاندھی کو۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی
کانگریس کو اب مسلمانوں کی ضرورت شدت سے محسوس ہورہی ہے۔ راہل گاندھی نے ملک بھر سے بچے کھچے مسلمان کانگریسیوں کو دہلی بلایا اور پرانی باتیں دہراکر 2019 ء کے پروگرام پر مشورہ کیا۔ راہل گاندھی، گاندھی، نہرو، آزاد کی مالا جپتے رہے جبکہ انہوں نے ان کی پرچھائیں بھی نہیں دیکھی۔ کانگریس کے دو رُخ ہیں، سیاست اور حکومت۔ سیاست میں تو گاندھی جی اور مولانا آزاد بہت کچھ تھے اور بہت کچھ رہے۔ لیکن حکومت میں پنڈت نہرو کے علاوہ ان دونوں کا کوئی کردار نہیں ہے۔ راہل گاندھی کو اگر دیکھنا اور معلوم کرنا ہے تو وہ نہرو
اش اش پر اعتراض ۔۔۔ از : اطہر ہاشمی
ایک عمومی غلطی واحد اور جمع کی نظر آتی ہے۔مثلاًایک جملہ ہے’’کثیر تعداد خدمات سر انجام دے رہے ہیں‘‘۔چونکہ تعداد واحد ہے خواہ کثیر ہی کیوں نہ ہو، چنا نچہ اس کے لیے ’’سر انجام دے رہی ہے ‘‘ہونا چاہیے۔مگرمذکورہ جملے میں نہ صرف جمع کا صیغہ آیا ہے بلکہ ’’تعداد ‘‘مؤنث کے بجائے مذکر ہوگئی ہے۔لکھنے والے عموماًاس کا خیال نہیں رکھتے ۔شاید بھول جاتے ہیں کہ جملے کا آغاز کیسے ہوا۔ ایک اور جملہ دیکھیے ’’آلِ سعود امریکی بلاک میں شامل ہیں‘‘۔آلِ سعودکے حوالے سے ’’شامل ہے‘‘ہونا چاہیے۔’’حوالے سے‘‘ کے بارے میں محترم
رمضان المبارک میں یوگی کے دو تحفے۔۔۔از: حفیظ نعمانی
اُترپردیش کے وزیر اعلیٰ نے یہ محسوس کرکے سرکاری چھٹیاں ضرورت سے زیادہ ہوگئی ہیں چند چھٹیوں کو منسوخ کیا۔ ہم ذاتی طور پر اُن لوگوں میں ہیں جو اتنی چھٹیوں کے ہمیشہ خلاف رہے جن سے سرکاری کام بھی متاثر ہوتے ہیں اور بچوں کی تعلیم پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کسی بڑے آدمی کی پیدائش کے دن چھٹی کیوں؟ میزائل مین ڈاکٹر عبدالکلام جو صدر جمہوریہ رہے انہوں نے وصیت کی تھی کہ میرے مرنے پر چھٹی نہ کی جائے بلکہ اور زیادہ کام کیا جائے۔ وزیر اعلیٰ یوگی نے جن چھٹیوں کو ختم کیا ہے ان میں ایک جمعۃ الوداع کی
صدر ایردوان ایک بار پھر آق پارٹی کے چیئرمین۔۔۔۔۔از:: ڈاکٹر فرقان حمید
یہ ایک حقیقت ہے کہ رجب طیب ایردوان کے بغیر جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ( آق پارٹی) کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ پارٹی اُن کی محنت اور کاوشوں ہی کے نتیجے میں قائم ہوئی تھی ۔ 16 جنوری 1998ء میں رفاہ پارٹی کو ترکی کی آئینی عدالت کی جانب سے کالعدم قرار دئیے جانے کے بعد ملی نظریات کے حامل سیاستدانوں نے فضیلت پارٹی کے نام سے نئی جماعت کو تشکیل دیا لیکن اس نئی جماعت کی تشکیل کے فوراً بعد ہی جماعت کے اندر روایتی پالیسی اور جدید پالیسی کے حامل سیاستدانوں کے درمیان اختلافات پیدا ہونا شروع ہوگئے اور ان
سچی باتیں ۔ رمضان المبارک ۔۔۔ از : مولانا عبد الماجد دریابادی
و هو شهرُ الصَّبرِ و الصَّبرُ ثوابُه الجنَّةُ و هو شهرُ المواساةِ و هو شهرٌ يزادُ رزقُ المؤمنِ فيهِ مَنْ فطَّرَ صائمًا كانَ لَهُ عتقُ رقبةٍ و مغفرةٌ لذنوبِهِ قيلَ يا رسولَ اللهِ ليسَ كلُّنَا نجدُ ما يفطِّرُ الصائمَ قالَ يُعْطِي اللهُ هذَا الثَّوابَ لمَنْ فطَّرَ صائمًا على مَذْقَةِ لبنٍ أو تمرةٍ أو شربةِ ماءٍ و مَنْ أشبعَ صائمًا كانَ لَهُ مغفرةٌ لذنوبِهِ و سقَاهُ اللهُ مِن حوضِي شربةً لا يظمأُ حتَّى يدخلَ الجنَّةَ و كانَ لَهُ مثلُ أجرِهِ مِن غيرِ أنْ ينقصَ مِن أجرِهِ شيئًا و هو شهرٌ أوَّلُه رحمةٌ
قرض ہے یہ تم پہ چار پھولوں کا ۔۔ ساغر صدیقی ۔۔۔۔تحریر: فرزانہ ناز
*ساغر کی زندگی پہ کوئی تبصرے نہ کر* *اک شمع جل رہی ہے سررہگزار زیست* یہ شعر پڑھتے ہی زندگی کی بے تبابیوں اور بے اعتنائیوں کا خیال آتا ہے اور چاروں طرف ایک اداسی کی سی کیفیت محسوس ہوتی ہے یوں تو اردو ادب کی تاریخ ایک جہاں اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے لیکن یہی تاریخ ساغر صدیقی کے سوانحی حالات کی بابت تہی داماں نظر آتی ہے اسی لئے اس عظیم شاعر کے بارے میں ہمارے پاس بہت مختصر معلومات ہیں وہ بھی ساغر کی اپنی بیان کردہ باتیں ہیں ۔ ساغر صدیقی1928ء میں انبالہ میں پیدا ہوئے وہ ماں کی مامتا او