Search results

Search results for ''


سچی باتیں ۔ بہتان طرازیاں ۔۔۔ از:مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys Other

وَالَّذِیْنَ یَرْمُونَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَأْ تُوْابِاَرْبَعَۃِشُھَدَائِ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً وَلَا تَقْبَلُوْا لَھُمْ شَھَادَۃً اَبَدًا وَاُولٰئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَ جو لوگ پاک دامن عورتوں پر عیب لگاتے ہیں اور پھر چار گواہ نہ لا سکے تو مارو ان کے اسی کوڑے اور کبھی ان کی کوئی گواہی قبول نہ کرو اور وہی لوگ نا فر مان ہیں۔ اِذْتَلَقَّوْنَہُ بِأَلْسِنَتِکُمْ وَتَقُوْلُوْنَ بِأَفْوَاہِکُمْ مَالَیْسَ لَکُمْ بِہِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُوْنَہُ ہَیِّنًا وَھُوَعِنْدَاللّٰہِ عَظِیْمٌ

بکھر ے ہوئے مخالفوں کے لئے پہلے ایک ایجنڈہ ۔۔۔از: حفیظ نعمانی

Bhatkallys Other

مودی سرکار کی عمر تین سال سے زیادہ ہوچکی ہے۔ اب تک وہ بے لگام گھوڑی کی طرح من مانے راستوں پر سفر کررہی ہے۔ جسے حزب مخالف ہونا تھا وہ نہ تین سال پہلے سیدھی کھڑی ہوپاتی تھی اور نہ اب اس کی ٹانگوں میں دم ہے۔ اس کے باوجود اس کے دماغ سے ’’پدرم سلطان بود‘‘ نہیں نکلتا۔ کانگریس آج بھی یہ چاہتی ہے کہ بی جے پی کے مقابلہ پر تمام مخالف پارٹیاں متحد ہوجائیں۔ اور قیادت کانگریس کرے۔ اور پورا ملک یہ مان چکا ہے کہ لوک سبھا میں سابق حکمراں پارٹی کی اتنی بری حالت اس کی نااہلی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ اور کانگریس کو 44 س

ماہنامہ معارف ۔ علم و معرفت کی ایک صدی۔۔۔ از : ڈاکٹر عمیر منظر

Bhatkallys Other

علامہ شبلی کے جاوداں علمی کارناموں کی فہرست میں ان کی بنائی ہوئی آخری علمی مملکت دارالمصنفین شبلی اکیڈمی ہے ۔یہ ادارہ امتیازی حیثیت کا حامل ہے ؛ایک صدی سے علم و ادب کی دنیا کو سیراب کررہا ہے ۔ اس میں لوگوں کاصرف خلوص شامل رہا ہے ۔ سرکاری سرپرستی کے بغیر ادارہ نے ایک صدی کا طویل عرصہ پورا کیا اور اس کے وابستگان نے سخت سے سخت حالات میں بھی علم وادب کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا ۔شبلی اکیڈمی نے جولائی ۱۹۱۶سے ماہنامہ معارف کی شکل میں جس علمی رسالہ کا اجرا کیاتھا وہ آج بھی علم و ادب کی آبرو ہے ۔ارد

آج معروف شاعر ، ناول نگار ، افسانہ نگار ، محقق اور ادیب خاطر غزنوی کی برسی ھے ۔

Bhatkallys Other

ابو الحسن علی بھٹکلی محمدابراہیم بیگ نام اور خاطر تخلص ہے۔1925ء میں پشاور میں پید اہوئے۔تعلیم ایم اے (اردو)، ڈپلوما چینی زبان، آنرز (پشتو) ، سرٹیفکیٹ روسی زبان۔ریڈیو پاکستان پشاور سے منسلک رہے۔ کئی اخباروں اور رسالوں کے اڈیٹر رہے۔ پشاور یونیورسٹی میں چینی زبان کے استاد کی حیثیت سے تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ ان کی تصانیف اور تالیفات کے چند نام یہ ہیں: ’سرحد کی رومانی کہانیاں‘، ’سرحد کے رومان‘(لوک کہانیاں)، ’رزم نامہ‘(رزمیہ نظم)، ’جدید نظمیں‘(انتخاب)، ’ننھی منی نظمیں‘(بچوں کی نظمیں)، ’خوش حال خ

ٹک ٹک دیدم ۔ قسط 01 ۔۔۔ از :فرزانہ اعجاز

Bhatkallys Other

ویسے تو کئ بار یہاں آنا جانا ہوتا رہا ، لیکن اس بار حالات زرا مختلف تھے، کیونکہ سلطنت آف مسقط و عمان میں اپنی زندگی کے بہترین پینتیس سال گزارنے کے بعد اب پھر سے کسی دوسرے ملک میں آشیانہ بنانا پڑ رہا تھا ،ابھی تک تو ہندوستان میں آتے جاتے موسموں کی طرح ہم بھی تین تین ماہ کے لۓ امریکہ آتے جاتے رہتے تھے ،کبھی گرمی میں کبھی سردی میں اور کبھی بہار میں ، اور ہمیشہ یہی  ہوتا تھا کہ ادھر ہمارا سوٹ کیس کھلا اور ادھر ’بند ‘ ہونے کی باری آگئ۔لیکن اس بار یہ پروگرام زرا زیادہ ’لمبا ‘ ہونے والا تھا ، سو، بجاے

آج مورخہ 3 جولائی:-: معروف شاعر ،افسانہ نگار ، ڈرامہ نگار اور نقاد کمار پاشیؔ کی سالگرہ ہے

Bhatkallys Other

تحریر : ابو الحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کمار پاشی ایک منفرد شاعر ، افسانہ نگار اور سنجیدہ ادیب تھے ۔ آپ کا اصل نام شنکردت کمار تھا کمار پاشی قلمی نام تھا ۔ آپ بہاولپور میں 03 جولائی 1935 ء کو پیدا ھوئے ۔ آپ کا خاندان 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد دلی چھوڑ کر بہاولپور آن بساتھا ۔ لیکن تقسیم برصغیر کے بعد وہ دوبارہ دلی چلے گئے ۔ اس وقت کمار پاشی کی عمر تقریبا 12 برس تھی ۔ اس کم سنی میں ھجرت کے دکھ کی وجہ سے سنجیدگی کا عنصر ان پر شروع ھی سے غالب رھا ۔ تعلیم و

انیس شاہ جیلانی: اردو کا یار جانی۔۔۔۔از: زاہدہ حناء

Bhatkallys Other

فجر کی اذان ہورہی تھی، کمرے میں ملگجا اندھیرا تھا۔ میں نے کروٹ بدلی۔ عید میں ابھی کئی گھنٹے تھے۔ اچانک موبائل جاگ اٹھا۔ دوسری طرف چترا پریتم تھے۔ ایک نوجوان مصور جن سے برسوں پہلے تعارف ہوا تھا۔ ان سے ایسی بے تکلفی نہیں تھی کہ وہ منہ اندھیرے مجھے فون کریں۔ ’’خیریت؟‘‘ میری زبان سے بے اختیار نکلا۔ ’’جی ایک بری خبر دے رہا ہوں۔ سید انیس شاہ جیلانی اب ہم میں نہیں رہے۔‘‘ چترا کی آواز آئی۔ میرا دل بیٹھ گیا۔ ان کا جانا کوئی ناگہانی خبر تو نہ تھی لیکن دوست 100 برس کی عمر میں بھی جدا ہوں تو اذی

یہ تو بس ۔۔۔ اردو ہی کا رونا روتا ہے۔۔۔۔تحریر: ندیم صدیقی

Bhatkallys Other

یہی کوئی نصف صدی اُدھر کی بات ہے کہ اُردو کے ایک ادیب جو کسی مدرسے کے پڑھے ہوئے تھے انہوں نے ذاتی محنت سے اپنے اندر علم کے مزید چراغ جلائے، روس۔ ہند دوستی کا زمانہ تھا۔ روس میں اُردو کا بول بالا ہوا اور باقاعدہ روسی اور اُردو زبان ہند اور روس میں پڑھی اور پڑھائی جانے لگی۔ وہ لوگ جو ہماری عمر کے ہیں انھیں دہلی سے ’’ سوویت دیس‘‘ کے نام سے جاری ہونے والا اُردو کا میگزین ضرور یاد ہوگا، کیا شاندار ماہنامہ تھا آرٹ پیپر پر چہاررنگی یہ جریدہ، اُس وقت اُردو کا سب سے زیادہ دلکش میگزین تھا۔ یہ جو ، اب دُ

دعوتی کام کی پبلسٹی کرنے والو جاگو!۔۔بُرے دن آنے والے ہیں!! ۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ 

Bhatkallys Other

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........  ایک مسلمان کے لئے اپنے دین پر قائم رہنا احسن بات ہے ، لیکن دین کے قیام کے لئے غیر مسلموں میں دعوتی کام کرنامستحسن ترین اور دین کا مطلوب و مقصود کام ہے، جس کی توفیق جس کسی کو بھی ملے اس کے لئے اخروی فوز و فلاح میں بھلا کس کو شک ہوسکتا ہے۔ دین کا درد اپنے دل میں رکھنے والے ہمارے اکابرین اور دانشوروں کو بجا طور پر یہ شکایت رہی ہے کہ ہندوستان میں جس انداز اور جس پیمانے پرماضی میں غیر مسلموں میں دعوتی کام ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا۔ صدیوں تک اس ملک پرکسی نہ کسی زا

حامی اور ہامی ۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی

Bhatkallys Other

پچھلے شمارے میں کالم کا اختتام کہتر اور مہتر پر ہوا تھا۔ اس ضمن میں ایک بڑا دلچسپ قصہ ہے۔ تہران کی کارپوریشن کے سربراہ لاہور آئے۔ وہ مہتر تہران کہلاتے تھے۔ علامہ اقبال نے لاہور کارپوریشن کے چیئرمین (غالباً شہاب الدین) کا تعارف کرایا ’’اور یہ مہتر لاہور ہیں‘‘۔ جو لوگ سمجھتے تھے کہ اردو میں مہتر کس کو کہتے ہیں انہوں نے تو لطف اٹھایا مگر مہتر لاہور خفیف ہوکر رہ گئے، ایرانی مہتر بھلا کیا سمجھتا۔ فارسی میں مہتر سردار کو بھی کہتے ہیں ۔ لیکن کارپوریشن یا بلدیہ کے سربراہ کو مہتر کہنا زیادہ مناسب ہے، گو

ممتاز تاز شاعر محبوب خزاں کا یومِ پیدائش ہے

Bhatkallys Other

محبوب خزاںؔ کا اصل نام محمد محبوب صدیقی تھا۔ وہ اُتر پردیش کے ضلع بلیہ کے ایک موضع چندا دائر کے ایک معزز گھرانے میں یکم جولائی 1930ء کو پیدا ہوئے۔ 12 برس کی عمر میں اُن کے والد انتقال کر گئے اور اُن کی تعلیم و تربیت بڑے بھائی محمد ایوب صدیقی نے کی۔ اُنھوں نے 1948 میں الٰہ آباد یونی ورسٹی سے گریجویشن کیا اور پاکستان آگئے، یہاں سے اُنھوں نے سول سپیریئر سروسز (سی ایس ایس) کیا۔اُن کی پہلی تقرری شہر ادب و ثقافت ،لاہور میں اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ جنرل کی حیثیت سے ہوئی ،پھر ڈھاکہ بھیج دیئے گئے جب کہ تہران م

سچی باتیں ۔ تقوی کی اہمیت ۔۔۔ از : مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys Other

وَمَن یَتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہُ مَخْرَجًاوَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَایَحْتَسِبْ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلٰی اللّٰہِ فَھُوَحَسْبُہُ اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہِ قَدْجَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شِیْئٍ قَدْرًا۔ اور جو کوئی اللہ سے تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ اس کے لیے کشائش پیدا کردیتا ہے اور جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتااسے روزی دیتا ہے اور جو کوئی اللہ پر توکل رکھے پس وہ اس کے لیے کافی ہے یقینااللہ اپنا ہر کا م پورا کرلیتاہے اللہ نے ہر شے کا اندازہ ٹھہرارکھا ہے۔ یہ کسی شاعر کا کلام نہیں ،کسی انش

عید سعید اور کسی کی دید۔۔۔از: سہیل احمد صدیقی

Bhatkallys Other

عیدالفطر یا عرف عام میں میٹھی عید یا چھوٹی عید ہمارے لیے دینی و دنیوی ہر لحاظ سے باعث مسرت ہے۔ (ضمنی نکتہ: درست لفظ دُنیَوی ہے ، ’ے‘ پر زبر کے ساتھ، دنیاوی نہیں)۔ اصل خوشی تو خدا کے اُن نیک بندوں کی ہوتی ہے جو رمضان المبارک کے پورے روزے، پورے اہتمام سے رکھتے ہیں، فرائض وسُنَن و نوافل کا خوب خوب التزام کرتے ہیں اور ہمہ وقت اپنے رب کو راضی کرنے میں مشغول رہتے ہیں۔ دینی حوالے سے تو یہ تصور مستحکم ہے، مگر دنیا دار عید کو بھی کسی دنیوی تہوار (تیوہار) کی طرح اور کسی بھی دین دار سے کہیں زیادہ جوش و خ

سب سے بڑا روپیہ ۔۔۔ از : فرزانہ اعجاز

Bhatkallys Other

روز صبح پابندی سے اخبار پڑھنا اسکی عادت تھی، جب تک وہ تازہ اخبار پورا پڑھ نہ لیتی ، اسے چین نہیں آتا تھا ،پہلا صفحہ وہ بہت دھیان سے پڑھتی اور اندر کی خبروں کی سرخیاں سرسری دیکھتی ، اگر کوئ سرخی اہم لگتی تو وہ خبر تفصیل سے پڑھا کرتی تھی ، اسکی۔ تازہ اخبار صبح صبح پڑھنے کی عادت بہت پرانی تھی ،اتنی پرانی کہ جب اسکے گھر میں ریڈیو بھی  نہیں تھا اور اسکے شہر میں ٹیلی ویژ ن بھی نہیں تھا ،اس نے نیا نیا اردو پڑھنا سیکھا تھا ،بلکہ سیکھ رہی تھی ، ابو کے لۓ اخبار دیوڑھی سے اٹھا کر لاتے لاتے راستے بھر وہ ٹو

عید کا چاند اور مسلمانان بھٹکل کا مسلک... تحریر : عبد المتین منیری

Bhatkallys Other

عید الفطر کی دل کی گہرائیوں کے ساتھ مبارکباد۔ اللہ تعالی ہم سب کے اعمال صالحہ قبول کرے۔ اکل کوا۔ مہاراشٹر سے ہمارے ایک دوست نے کل بھٹکل میں عیدکے چاند کی رویت پر سوشل میڈیا پر مسلمان بھٹکل اور کیرالا کے مسلک پر بحث و مباحثہ اوران کی طرف بعض غلط باتیں منسوب ہونے کی اطلاع دی ہے ۔ اور یہ استفسار کیا ہے کہ گجرات کا ساحل ہندوستان میں سب سے بڑا ہے ، وہاں چاند نظر نہیں آیا تو بھٹکل اور کیرالہ میں کیسے نظر آسکتا ہے ۔ اور اس سلسلے میں اظہار خیال کرنے کو کہا ہے ۔ اسی کی تعمیل کرتے ہوئے یہ چند سطور تحریر

کس کھوج میں ہے تیغِ ستم گر لگی ہوئی؟۔۔۔از: آصف جیلانی

Bhatkallys Other

ایک سو سال قبل ، پہلی عالم گیر جنگ کے نتیجہ میں مشرق وسطی کے جو حصے بخرے ہوئے تھے،مسلمانوں کا اتحاد بکھر گیا تھا اور ان کی قوت پارہ پارہ ہوگئی تھی ، اب پھر ایک بار مشرق وسطیٰ اسی نوعیت کے شدید زلزلے کی زد میں ہے ۔ زلزلہ کہنا قدرے نرم لفظ ہوگا ، کیونکہ یہ زلزلہ صرف مشرق وسطیٰ ہی کو تہہ و بالا نہیں کرے گا بلکہ مشرق وسطیٰ سے دور دور علاقوں کو تاراج کردے گا۔ کئی مہینوں سے جاری داعش کے گڑھ مغربی موصل میں داعش کے خلاف ، امریکی اور عراقی فوجوں ، کرد پیش مرگہ اور شیعہ ملیشیا کی مشترکہ جنگ موصل کی آٹھ س

عید کا ریشمی جوڑا ۔۔۔ از: فرزانہ اعجاز

Bhatkallys Other

ابھی ایک ’عید میلے‘ سے واپس آۓ ہیں ، اس خیال کے ساتھ کہ‘زمانہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے ۔ ‘اپنے پیارے شہر لکھنؤ سے شکاگو تک کے ’سفر زندگی ‘ نے کیا کیا منظر دکھلاۓ اور کیا کیا حیران کن تبدیلیاں نظر نواز کی ہیں ، ایک ایسے سادہ سے متوسط اور ’توکل علی اللہ‘والے ماحول مین پرورش پانے کی ’عادت ‘ ابھی تک اکثر دل دماغ کو ’جھنجھوڑ‘ دیتی ہے۔ آج بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے، یادوں کی ایک ’ یلغار ‘ ہے جو بار بار ،لگاتار ہو رہی ہے ۔ ہم نے ایک ایسے ماحول اور زمانے میں آنکھ کھولی جو ’بکھر بھی رہا تھا اور س

سچی باتیں ۔ روپئہ کا حقیقی مصرف۔۔۔ از : مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys Other

."الشیطان یعدکم الفقر ویأمرکم بالفحشاء واللّٰہ یعدکم مغفرۃمنہ وفضلا واللّٰہ واسع علیم" شیطان تمھیں تنگدستی سے ڈراتا ہے اور تمھیں بخل کا حکم دیتا ہے اور اللہ تمھیں اپنی طرف سے بخشش اور فضل کا وعدہ دیتاہے اور اللہ کشائش والا علم والا ہے آیۂ بالا سورہ بقرہ رکوع ۳۷میں واقع ہوئی ہے اوپر سے یہ مضمون چلاآرہا ہے کہ مسلمانوں کو رسم ورواج کی مد میں،ریا ونمائش ، جاہ ونفس کی راہ میں خرچ کرنے سے بچنا چاہیے اور اپنی دولت اللہ کی رضاجوئی کے لئے نیک کاموں میں خرچ کرنا چاہیے اور اس خرچ کو فضول ولا حاصل نہ سمج