Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















سچی باتیں ۔۔۔ دشمنوں کے حقوق ۔۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی
سورۂ مائدہ کے پہلے رکوع کی دوسری آیت میں ایمان والوں کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد ہے وَلاَیَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِالْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا۔ اورامادہ نہ کردے تمھیں اس قوم کی دشمنی جس نے تمھیں مسجد حرام سے نکالاکہ تم اس پر زیادتی کرنے لگو۔اور پانچ آیتوں کے بعد دوسرے رکوع میں ایمان والوں ہی سے ارشاد ہوتا ہے۔ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى تو وہ ضرور مستحق ہیں جس کا حکم آپ کو اپنے دشمنوں اور
کیا کرناٹکامیں لسانی اورصوبائی جنون ،نئے طوفان کا پیش خیمہ ہے ؟! ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... ہندوستان کی جنوبی ریاستوں میں لسانی اور صوبائی عصبیت اور شمالی ریاستوں سے اورخاص کر ہندی زبان سے چِڑ کوئی نئی بات نہیں ہے۔کرناٹکا، کیرالہ، آندھرا پردیش اور تملناڈوکے علاوہ بنگال، آسام، بہار، مہاراشٹرا جیسی ریاستیں بھی کسی نہ کسی مسئلے پر شمال کے ساتھ برسرپیکارہیں۔مگر غیر ہندی داں بیلٹ کے طور پر اپنی پہچان رکھنے والی ریاستوں میں ہندی زبان کی شدید مخالفت تملناڈو کی طرف سے شروع ہوئی جس کا سلسلہ ملک کی آزادی سے پہلے کت زمانے سے جاملتا ہے۔ تب سے ہندی مخالف قیادت کام
لیے اور لئے کا آسان نسخہ --- تحریر : اطہر ہاشمی
اردو کے لیے مولوی عبدالحق مرحوم کی خدمات بے شمار ہیں۔ اسی لیے انہیں ’’باباے اردو‘‘کا خطاب ملا۔ زبان کے حوالے سے اُن کے قول ِ فیصل پر کسی اعتراض کی گنجائش نہیں۔ گنجائش اور رہائش کے بھی دو املا چل رہے ہیں، یعنی گنجایش، رہایش۔ وارث سرہندی کی علمی اردو لغت میں دونوں املا دے کر ابہام پیدا کردیا گیا ہے۔ چنانچہ آج کل یہ دونوں ہی رائج ہیں۔ رشید حسن خان نے ہمزہ کے بجائے ’ی‘ سے لکھا ہے یعنی گنجایش، ستایش وغیرہ۔ بات ہورہی تھی باباے اردو کی۔ ہرچند کہ خطائے بزرگاں گرفتن خطا است۔ لیکن اپنی رائے کا اظہار تو
قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان کے وجود کے تحفظ کے لےکراردو معاشرہ کو سنجیدگی سے موثر لائحہ عمل مرتّب کرنے کی ضرورت۔۔۔از: ڈاکٹر اطہر فاروقی
(ہفت روزہ”ہماری زبان“ کے 15تا 21اگست 2017 ، جلد نمبر-76،شمارہ نمبر-31 میں ڈاکٹر اطہر فاروقی جنرل سکریٹری انجمن ترقی اردو (ہند)کی ایک اہم تحریر قومی کونسل براے فروغِ اُردو زبان کے سلسلے میں شائع ہوئی ہے جسے یہاں نقل کیا جارہا ہے۔) قومی کونسل براے فروغِ اردو زبان کا وجود خطرے میں ہے۔اس خطرے کا مقابلہ اور سدِّ باب کرنے کے لےے آج اردو معاشرے کو ماضی سے کہیں زیادہ تدبر سے کام لےنے کی ضرورت ہے۔ جس پالیسی کے تحت کونسل کا وجود معرضِ خطر میں آگیا ہے، وہ موجودہ حکومت کی ایک ایسی پال
43% elderly in India face psychological problems: Study
New Delhi: Forty-three out of 100 elderly people in India are victims of psychological problems due to loneliness, and other relationship issues, a new study has said. Based on the feedback from 50,000 older persons across the country during the months of June and July this year, the study by Agewell Foundation revealed almost half of the elderly population were not taken care of by their families. “Forty-three per cent older persons are facing psychological problems due to loneliness, rel
شہید بابری مسجد کے مسلک کا مسئلہ؟۔۔۔از:حفیظ نعمانی
برسوں سے اودھ نامہ میں لکھتے رہنے کے بعد آج یہ کہنے کا حق رکھتا ہوں کہ میرے کسی دوست نے میرے مضمون میں شیعہ سُنی مسئلہ پر میرے قلم سے کوئی مضمون شاید نہ دیکھا ہوگا۔ ہوسکتا ہے برسبیل تذکرہ کوئی جملہ قلم سے نکل گیا ہو۔ بابری مسجد جس کا اب صرف نام ہے وجود بھی نہیں ہے اس کے شیعہ یا سُنی ہونے پر مقدمہ بازی یا فریق مقدمہ بننا پڑھ کر اس لئے جھٹکا لگا کہ جن صاحب کے نام سے یہ خبر چھپی ہے میں ان کی جرأت راست گوئی اور اوقاف میں بددیانتی پر مستقل حملہ آور رہنے کی وجہ سے بہت متاثر ہوں۔ اگر 1946 ء میں سُنی او
وزیر اعظم بنتے بنتے نتیش رام دیو جونیئر بن گئے۔۔۔از: حفیظ نعمانی
بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے جو کیا حافظہ پر زور ڈالنے کے بعد بھی ہندوستان کی 72 سالہ تاریخ میں ایسا دوسرا وقعہ یاد نہیں آیا کہ بھرے پرے خاندان سے نکل کر گئے اور استعفیٰ دے دیا اور دوسرے دن خاندان کے ہر فرد کے دشمن سے ہاتھ ملاکر پھر وزیر اعلیٰ بن گئے۔ ان کی ہر بات سے معلوم ہورہا ہے کہ یہ ہفتہ، دو ہفتہ کی نہیں مہینوں کی بنائی ہوئی سازش ہے اور نتیش اس زمانہ میں جتنی بار بھی دہلی گئے ہیں وہ اپنے آقا سے راز و نیاز کرتے رہے ہیں۔ اور صرف 20 مہینے کی سرکار کے نائب وزیر اعلیٰ کے اوپر سی بی آئی کا حمل
تاریخی فیصلہ۔۔۔۔از: آصف جیلانی
بلا شبہ میاں نواز شریف کو نااہل قرار دینے کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخی فیصلہ ہے۔ تاریخی اس اعتبار سے کہ قیام پاکستان کے بعد پچھلے ستر سال کے دوران، پہلی بار ایک منتخب وزیر اعظم کو سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل بینچ نے مکمل اتفاق رائے سے نااہل قرار دیا ہے ۔ تاریخی اس لحاظ سے کہ اتنے اہم مقدمہ میں سپریم کورٹ نے پہلی بار مکمل اتفاق رائے سے یہ فیصلہ دیا ہے ۔ اب تک جتنے بھی اہم مقدمات میں فیصلے دیے گئے ہیں وہ اتفاق رائے کے بجائے منقسم اور اختلافی رہے ہیں، بشمول مولوی تمیز الدین خان کے مق
بہاریوں کے ساتھ نتیش کی غداری۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی
بہار میں جو کچھ ہوا وہ حیران کردینے والا نہیں ہے۔ وزیر اعظم مودی نے جو 20 مہینے کانٹوں پر گذارے ہیں ان میں سب سے زیادہ وہ چبھنے والے کانٹے دہلی اور بہار کے تھے۔ انہوں نے کون سا منتر پڑھا یہ تو نہیں معلوم لیکن یہ سب دیکھ رہے ہیں کہ ہر وقت گرجنے اور برسنے والا اروند کجریوال ایک بے ضرر وزیر اعلیٰ بنا ہوا ہے جیسے اس کے منھ میں دانت ہی نہ ہوں۔ بہار مودی کے سینہ پر مونگ دل رہا تھا لالو اپنے اوپر ہونے والے ہر حملہ کا مقابلہ کررہے تھے بی جے پی کے صوبہ دار سوشیل مودی نے صرف ایک فرض سمجھ لیا تھا وہ روز پ
تبصرہ کتب : اسلام - انسانی حقوق کا پاسبان۔ ۔۔ تبصرہ نگار : ملک نواز احمد اعوان
نام کتاب : اسلام انسانی حقوق کا پاسبان مصنف : مولانا سید جلال الدین عمری صفحات : 184 قیمت 90 ناشر : مرکزی مکتبہ اسلامی پبلیشرز ۔ نئی دہلی 25 فون نمبر : 26981652/26984347 mmipub@nda.sri.net : ایمیل www.mmipublishers.net حضرت مولانا سید جلال الدین عمری حفظہ اللہ (پ:1935ئ) عالم اسلام کے ایک جید عالم دین، بہترین خطیب، ممتاز محقق اور صاحبِ طرز مصنف کی حیثیت سے معروف ہیں۔ قرآنو سنت سے گہری واقفیت کے ساتھ جدید افکار پر ان کی اچھی نظر ہے۔ موضوع کا تنوع، اسلوب کی انفرادیت، طرزِ استدلال کی ندرت اور
سارہ شگفتہ - ایک افسانہ ایک حقیقت ۔۔۔۔ : تحریر : ڈاکٹر طاہر مسعود
پچھلے دنوں میرے ایک دوست نے فیس بُک پر پڑھا جانے والا ایک اقتباس غالباً کسی مضمون کا، مجھے ای میل کیا اور اس واقعے کی تصدیق چاہی جس کاذکر اقتباس میں کیا گیا تھا۔ یہ واقعہ اردو دنیا کی ایک شاعرہ سارہ شگفتہ کی بابت تھا جس میں ان کی پہلی شادی کے بعد ان کے شوہر جو خود بھی شاعر تھے، کی شاعرہ کے ساتھ کی جانے والی مفروضہ زیادتیوں کی تفصیل نہایت دردمندانہ انداز میں بیان کی گئی تھی۔ میں نے اپنے دوست کو جواب دیا کہ بھائی میں اس سارے واقعے بلکہ واقعات کا عینی شاہد ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ مذکورہ خاتون جو اسی پہ
نیک اختر ۔۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی
ہمارے صحافی اور ادیب کسی بھی لفظ کے آگے ’’یت‘‘ (ی ت) بڑھاکر اسم صفت بنالیتے ہیں۔ اس طرف پروفیسر علم الدین نے بھی توجہ دلائی تھی۔ ایک مضمون میں ’’معتبریت‘‘ پڑھا۔ غنیمت ہے کہ اعتباریت نہیں لکھا۔ لیکن اعتبار میں کیا خرابی ہے؟ یا اپنے آپ پر اعتبار نہیں کہ اس طرح ’’معتبریت‘‘ قائم نہیں ہوسکے گی۔ جامعہ کراچی میں اردو کے استاد اور زبان پر دسترس رکھنے والے پروفیسر رؤف پاریکھ ایک اخبار میں زبان کے حوالے سے مضامین بھی لکھ رہے ہیں۔ گزشتہ ایک مضمون میں انہوں نے عام ہوجانے والی کئی اصطلاحوں کی وجۂ تسمیہ بھی
سچی باتیں ۔۔۔دین کے دشمن : تحریر ۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادی
دین کے دشمن وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا (انعام ۔ ع ۸) اوران لوگوں کو چھوڑ دیجیے جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا رکھا ہے اور دنیا کی زندگی نے جنھیں دھوکے میں ڈال رکھاہے۔ مذہب کی سنجیدہ اہمیت آج کن کے دلوں سے جاتی رہی ہے؟ احکام مذہب کے ساتھ ہنسی اور تمسخر آج کن کا شعار ہوگیا ہے؟ فٹ بال اور کرکٹ ،ہاکی اور ٹینیس ،گھوڑ دوڑ اور پو لو ،تھیٹر اور سینما،تاش اور شطرنج سے بھی کم اہمیت ووقعت نمازو روزہ کی کن کی نظرو ں میں رہ گئی ہے ؟
پروردگار سی بی آئی کو فرض ادا کرنے کی توفیق دے۔۔۔از:حفیظ نعمانی
گذشتہ سال اکتوبر میں بھوپال میں آٹھ مسلمان لڑکوں کو پولیس نے گولیوں سے بھون دیا۔ بعد میں بتایا گیا کہ یہ سی می کے لوگ تھے جو ایک پولیس افسر کو مارکر جیل سے فرار ہوگئے تھے۔ اس قتل پر مدھیہ پردیش کے بدنام وزیر اعلیٰ نے پولیس والوں کی تعریف میں زمین آسمان ایک کردیا۔ وزیر اعلیٰ چوہان کی اُڑائی ہوئی دھول جب صاف ہوئی تو سیکڑوں سوال کھڑے ہوگئے اور ہم نے بھی جو ہمارے اوپر فرض تھا وہ لکھا۔ دس مہینے کی جدوجہد کے بعد خدا خدا کرکے سپریم کورٹ نے حکومت سے معلوم کیا ہے کہ اس کی سی بی آئی جانچ کیوں نہیں کرائی گ
صدر مکھرجی کے ساتھ نہ جانے کیا کیا گیا؟۔۔از: حفیظ نعمانی
تیرہویں سابق صدر جمہوریہ شری پرنب مکھرجی نے اپنے جانشینی کو قصرِ صدارت کی چابیاں حوالے کرنے سے پہلے اپنی پانچ سال کی بھڑاس اس طرح نکالی کہ انہوں نے پوری تقریر کے وقت اپنے دونوں ہاتھ اوپر رکھے تاکہ ہر دیکھنے والا دیکھ لے کہ وہ مودی سرکار کی لکھی ہوئی تقریر نہیں سنا رہے ہیں بلکہ وہ کہہ رہے ہیں جو اُن کے دل میں ہے۔ اور یہ سہولت انہیں پانچ سال کے بعد ملی ہے۔ ملک کی آزادی کے بعد جب اُترپردیش میں کانگریسی ننگے ہوگئے اور انہوں نے اپنے دلوں کا وہ سارا زہر جو مسلمانوں کے خلاف بھرا ہوا تھا وہ سب سے پہلے
کچھ سنہری یادیں ۔مسقط ۔۔۔ : از فرزانہ اعجاز
مسقط اسکول تو سب ہی اچھے ہوتے ہیں،اس لۓ کہ علم کی روشنی پھیلاتے ہیں، کچھ اسکول ،ملگجی ۔اور کچھ اسکول اجلی اجلی روشنی۔ہر اسکول اور ہر استاد کا بس ایک ہی مقصد ہوتا ہے حتی الامکان طلبا اور طالبات کو علم کی جگر مگر کرتی روشنی سے ’منور‘ کرنا ۔۔ ننھی سی عمر میں آنکھیں ملتے ملتے جب ہم پہلی بار اسکول گۓ تو تصور میں دادی کے گھر کےتخت کا وہ چوکہ تھا جس پر بیٹھ کر ہم ۔،پارہ۔ پڑھا کرتے تھے،اسکول کی ڈسک اور لمبی لمبی بنچیں ہمارے لۓ نئ بھی تھیں اور حیران کن بھی،جن پر بچے اپنا ،بستہ، بھی رکھتے اور کچھ د
موت کا ایک دن معینّ ہے۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی
ایک اُردو اخبار کے مالک تشریف لائے اور انہوں نے بتایا کہ ہم لوگ وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی سے ملنے گئے تھے۔ (ان سے یہ نہیں معلوم کیا کہ کون کون؟) ان سے کہا کہ اُردو اخباروں کے اشتہار بند ہوگئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہر اخبار کو اشتہار نہیں دیا جائے گا۔ اور بھی باتیں ہوئی ہوں گی جو بے مطلب ہیں۔ ہم نے کہا کہ گئے کیوں تھے؟ یہ تو سب دیکھ رہے ہیں کہ جب سے یوگی سرکار آئی ہے اُردو کے صرف ایک اخبار کو جس کا مالک ہندو ہے اسے اشتہار دیا جارہا ہے۔ اور مرکزی حکومت کے پورے پورے صفحے کے اشتہار بھی اور یوپی
ایک انفرادیت پسند صدر…۔۔۔۔از: کلدیپ نیئر
صدر پرناب مکھرجی کے دور حکومت کا جائزہ لینا کوئی مشکل کام نہیں جو اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کرکے صدارت کے منصب سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ وہ ایک غلط انتخاب تھے اور انھیں اس منصب پر بیٹھنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ پرناب مکھرجی سنجے گاندھی کے دلپسند شخص تھے جب کہ سنجے گاندھی از خود ایک ماورائے آئین اتھارٹی تھے، جس نے کہ ایمرجنسی کے دوران ملک پر مطلق العنان حکمرانی کی۔ یہ اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کی آمرانہ حکومت تھی جس نے شہریوں کے بنیادی حقوق تک سلب کر لیے۔ پرناب مکھرجی اس وقت وزیر تجارت تھے جو سنجے گان