Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















ملک کی تقسیم کا ذمہ دار کون۔۔۔۔۔۔ از:حفیظ نعمانی
ڈاکٹر منظور احمد آئی پی ایس میرے عزیز ترین دوست، کرم فرما اور محسن ہیں۔ میں ان کی کسی بات سے اختلاف کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا لیکن ان سے منسوب اخبارات میں ایک بات ایسی چھپی ہے جس کی وضاحت نہ کرنا میرے نزدیک گناہ ہے۔ ڈاکٹر منظور نے بارہ بنکی میں امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کے یوم پیدائش پر بولتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کا تقسیم ہند میں کوئی نمایاں کردار نہیں تھا۔ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ چند مسلمان اس تحریک کے ہمنوا ضرور تھے۔ اور یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ کانگریس ورکنگ کمیٹی میں جب تقس
میڈیا میں بڑھتے قدم....اگر میڈیاہاؤس کا قیام ممکن نہیں ہے تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے! (چوتھی قسط)۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... جب ہم میڈیا میں ہماری پیش قدمی کا جائزہ لیتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ آج میڈیاکی دنیاکا حال ہی عجب ہوگیا ہے۔الیکٹرانک اور سوشیل پلیٹ فارمس پر جوآن لائن میڈیا کی گنگا بہہ رہی ہے اس میں بدقسمتی سے ہر ایرا غیرا نتھو خیرا نہانے کے لئے اتر پڑا ہے۔بس جس کے پاس ایک سمارٹ فون ہے وہ میڈیا پرسن بن گیا ہے۔مقامی سطح پر وہاٹس ایپ گرو پ چلانے والے ’ایڈمنس‘ بھی میڈیا والے ہو گئے ہیں۔ کسی واقعے یا eventکو فیس بک پر لائیو اسٹریمنگ کرنے والے اور یوٹیوب چینل بناکر الٹے سیدھے ویڈ
مسلمانوں کو اب تو مذاق سے توبہ کرلینا چاہئے......از: حفیظ نعمانی
یادش بخیر 1967 ء کے آس پاس ایک جماعت مسلم مجلس بھی ہوا کرتی تھی جو اپنا جلوہ دکھاکر برسوں ہوگئے صرف نام اور آفس تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ اگر حافظہ غلطی نہیں کررہا ہے تو 1969 ء یا اس کے بعد اس کی سرگرمیاں بس نام کی حد تک رہ گئی تھیں لیکن یہ ہمیشہ ہوا ہے کہ الیکشن صوبائی ہو یا مرکزی اس کا ڈھول بجتے ہی مسلم مجلس کے وارثوں کو اپنے وجود کا ثبوت دینے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اور تازہ ثبوت وہ ہے جو دارالشفاء کے اے بلاک کے کامن ہال میں ایک سیمینار کرکے دیا گیا جس کی صدارت چیئرمین پالیمنٹری بورڈ
دعا اور بددعا مسلمان کے پاس ہیں تو خوف کس کا۔۔۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی
پاک پروردگار نے فرمایا کہ ’’مجھ سے مانگو میں تمہیں دوں گا‘‘ ہم جتنا بھی شکر ادا کریں وہ کم ہے اس پروردگار کا جس نے ہمیں ایسے خاندان میں پیدا کیا اور ایسا ماحول عطا کیا کہ دعا اور بددعا کے بارے میں یقین ہے کہ اللہ کے بندوں کے لئے ان سے زیادہ بڑا ہتھیار کوئی نہیں ہے۔ ہم اپنے خاندان کی کوئی بات نہیں کریں گے جبکہ وہ خود ایک کالم میں بھی پوری نہیں ہوں گی۔ بات صرف ایک دعا اور ایک بددعا کی ہے جن میں ایک اپنی آنکھوں کے سامنے کی ہے اور دوسری ہے تو پاکستان کی لیکن راوی معتبر ہے۔ لکھنؤ میں تبلیغی جماعت کے
Real-life Sheldon Cooper? This 10 YO Hyderabad kid gives lessons to B.Tech & M.Tech students
There are two types of people who succeed in this tenacious journey called life. While some pick hard work and determination as their weapons to prevail, the others are just blessed with extraordinary talent. And Mohammed Hassan Ali, a young kid from Andhra Pradesh, definitely belongs to the second lot. Mohammad Hasan Ali is one such gifted soul, who gives lessons to BTech and MTech students in the city of Hyderabad. And believe it or not, he is just 10 years old. Like any other boy of his ag

مسئلہ بھگوان رام کا نہیں بھگوان ووٹ کا ہے۔۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی
بابری مسجد رام مندر تنازعہ کے بارے میں سپریم کورٹ کے اقدام پر آر ایس ایس کی طرف سے ایک غیرذمہ دارانہ بیان یہ آیا کہ اگر حق ملکیت کے بارے میں سپریم کورٹ نے فوراً فیصلہ نہیں کیا تو وہ 1992 ء جیسی تحریک چلائیں گے۔ 1992 ء میں جو غنڈہ گردی ہوئی اسے تحریک کا نام دینا اس کا مذاق اُڑانا ہے۔ انتہائی مستحکم عمارتیں گرانا اور جو اس پر دُکھ اور رنج کا اظہار کرے اسے قتل کردینا دُکانیں لوٹنا آگ لگانا اگر تحریک ہے تو پھر غنڈہ گردی کیا ہے؟ اس مقدمہ کا دوسرا فریق مسلمان ہے۔ سنی وقف بورڈ، جمعیۃ علماء ہند اور مسل
خبر لیجے زباں بگڑی ۔۔۔ یہ عاصیہ کون ہے ؟ ۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی
آجکل توہینِ رسالت کے حوالے سے عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کا چرچا ہر طرف ہے۔ لیکن ملعونہ کا نام کیا ہے، آسیہ یا عاصیہ؟ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے میں تو اس کی تشریح ’’گناہ گار سے زیادہ گناہ گار‘‘ یعنی عاصی کی مونث قرار دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے چیف جسٹس صاحبشیکسپیئر کو بھی گھسیٹ لائے ہیں۔ ہمارے معزز جج حضرات چونکہ قانون کی کتابیں انگریزی میں پڑھتے ہیں اس لیے ان کو ’آسیہ‘ اور ’عاصیہ‘ کا فرق معلوم نہیں ہوگا۔ لیکن حیرت تو وہ معاہدہ دیکھ کر ہوئی جو تحریک لبیک اور وفاقی حکومتِ پاکستان و صوبائی حکومتِ پنجاب کے

جیتنے والا گھوڑا لاؤ کی لعنت نے ملک کو تباہ کردیا....از: حفیظ نعمانی
آزادی کے وقت عام لوگوں میں سیاسی شعور اس لئے نہیں تھا کہ وہ ایک ایسی حکومت میں زندگی گذار رہے تھے جو ہزاروں میل دور سے آئے ہوئے ان انگریزوں کے ہاتھ میں تھی جن کے اور ہمارے درمیان کوئی چیز مشترک نہیں تھی۔ اور یہ بھی نئی بات تھی کہ اتنا بڑا ہندوستان جس کی آبادی اس وقت 36 کروڑ تھی اسے ایک دن میں ہی آزادی ملنا تھی اگر قسطوں میں آزادی ملتی اور پہلے مغربی حصہ آزاد ہوتا پھر سال دو سال کے بعد شمالی ہوتا تو مشرقی اور جنوبی حصہ میں آباد لوگ وہاں کے لوگوں سے یہ معلوم کرلیتے کہ انہوں نے حکومت کا نظام کیسا ب
تنظیم میڈیا ورکشاپ۔ مثبت سمت میں بڑھتے قدم۔ کیا ایک بڑی چھلانگ لگانا ممکن ہے! (تیسری قسط)۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... پچھلی قسط میں ہم نے فیلڈ میں موجود بھٹکلی مسلم صحافیوں کے ساتھ ساتھ ان کا بھی ذکر کیا جو صحافتی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد عملاً اس پیشے یا مہم سے وابستہ نہیں ہوپائے ہیں۔یا پھر صحافتی میدان کا عملی تجربہ ہونے کے باوجود میڈیا کے محاذ پر ہمارا جو اہم مشن اور مقصد ہے اس کو پورا کرنے کے سلسلے میں پوری طرح سرگرم عمل نہیں ہوسکے ہیں۔ ٹھیک ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ اردو جرنلزم میں یا پھر سوشیل میڈیا پر اپنی زبان میں ہمارے شہر سے متعلق کچھ سرگرمی دکھاتے ہوں، لیکن ہمارا نشا
خبر لیجے زباں بگڑی ۔۔۔ کام کا دائرہ کار ۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی
کہتے ہیں کہ خطائے بزرگاں گرفتن خطا است، لیکن اب ہم خود بزرگ ہوگئے ہیں اس لیے کوئی ہرج نہیں۔ یہ ہرج بھی عجیب لفظ ہے اور عموماً ’ہرج‘ اور ’حرج‘ میں گڑبڑ ہوجاتی ہے۔ ہرْج (را ساکن) عربی کا لفظ ہے اور مطلب ہے شورش، ہنگامہ، دنگا، فتنہ، نقصان، خسارہ، خلل، وقفہ، ڈھیل، دیرٍ۔ اردو میں بفتح ’ر‘ یعنی ہَرج مستعمل ہے اور عموماً نقصان کے معنیٰ میں آتا ہے، جیسے آپ کی وجہ سے میرا بڑا ہرج ہوا، یا فلاں کام کرنے میں ہرج ہی کیا ہے! عدالتی معاملات میں یہ کہا جاتا ہے کہ ’’ہرجہ، خرچہ ادا کرنا ہوگا‘‘۔ یہ اس صورت می

موبائیل میرا ،کرنسی میری اورفائدہ ان کا۔۔۔۔از:محمد الیاس بھٹکلی ندوی
کچھ ماہ قبل بنگلور میں برادر م مولوی یوسف بیگ صاحب ندوی کی اسکوٹر پر اپنی قیام گاہ سے صبح دس بجے جامع مسجد سٹی آتے ہوئے میرا موبائیل راستہ میں کہیں گرگیا اور مجھے اس کا پتہ بھی نہیں چلا،میں بہت دیر تک اس خوش فہمی میں رہاکہ اللہ کا شکر ہے کہ آج مجھے اپنے کاموں میں خلل ڈالنے والی باربار بجنے والی گھنٹی سے نصف یوم تک چھٹی ملی ہے لیکن میری یہ وقتی خوشی اس وقت کافور ہوئی جب میں نے ظہر بعد کسی کام سے فون کرنے کے لیے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تو معلوم ہواکہ وہ کب کا مجھ سے روٹھ کر کسی اور کی خدمت میں پہنچ
ملک کے موجودہ حالات میں امکانات کی روشنی بھی ہے۔۔۔از: مولانا یحیٰ نعمانی
ملک کے حالات کی ایک تصویر تو آپ کو میڈیا سے ملتی ہے، جو دکھاتی ہے کہ ملک میں مسلمانوں سے نفرت اورغصہ بھر گیا ہے۔ آئے دن کے واقعات اس کی گواہی دیتے ہیں۔ شدت ونفرت اور غضب وانتقام پسندی کی یہ آگ اصل میں تو انتہا پسند تنظیموں کی لگائی ہوئی تھی ہی، لیکن ہر لمحے مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے والا مواد نشر کر کے اس کو طوفانی شکل دینے کا کام بے ضمیرمیڈیاانجام دے رہا ہے۔ اور سرمایہ داروں کی لوٹ اور حکومت کی بد کرداریوں کو چھپانے اور مظلوم طبقات کی جد وجہد دبانے کے لیے بکاؤ میڈیا اور سیاسی پارٹیاں آگ ب
’’ ۔۔۔مگر کم بخت۔۔ آزاد۔۔ ہوگیا ‘‘ ۔۔۔۔۔۔از: ندیم صدیقی
روزنامہ’’ ممبئی اُردو نیوز‘‘ کا تازہ کالم ’’شب و روز‘‘ ہم ہندوستانی مسلمانوں میں ایک طبقہ تھا جو اپنے آپ کو پیدائشی کانگریسی کہا کرتا تھا(ہو سکتا ہے اب بھی ہو)، وہ سب سے پہلے کانگریسی ہوتے تھے پھر کچھ اور اُن کی وضع قطع بھی ایسی ہوتی تھی کہ دیکھ کر لگتا تھا کہ واقعی یہ گاندھیائی فکر و عمل کے آدمی ہوںگے مگر یہ معاملہ ہم مسلمانوں کے عام ظاہر و باطن جیسا ہی ہوتا تھا ، یہ لوگ اپنی قوم ملت کے وفادار ہوتے تھے یا نہیں مگر کانگریسی آقاؤں کے جاں نثار غلام ضرورہوتے تھے۔ ان کی وفاداریاں کس درجے
اتنی نہ بڑھا پاکیِ داماں کی حکایت۔۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی
یہ اچھا ہوا یا برا یہ تو ہم نہیں جانتے لیکن یہ حقیقت ہے کہ نہ ہمیں کسی نے وزیر بنایا اور نہ ہم نے بننا چاہا۔ اس لئے ہم یہ نہیں جانتے کہ جسے وزیر بنایا جاتاہے اور جو محکمہ اسے دیا جاتا ہے اس کے ذمہ صرف اس محکمہ کے ذریعہ ملک اور قوم کی خدمت ہوتی ہے یا اس سے اس کے علاوہ پارٹی کے کام یا اپنے لیڈر کی شان میں جھوٹا سچا قصیدہ بھی پڑھنا ہوتا ہے؟ ہم برسوں سے مختار عباس نقوی کو وزیر بنا دیکھ رہے ہیں سیاسی زبان میں وہ بی جے پی کا مسلم چہرہ ہیں۔ اور اس لئے جب ایک دوسرے مسلم چہرہ پر نوخیز لڑکیوں نے تیز انداز
اللہ کی رحمت سے مایوسی کفر ہے۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی
اکتوبر جسے برسوں سے مسلم یونیورسٹی کے سابق طلباء سرسید ڈے کے طور پر مناتے ہیں اور کئی برس سے لکھنؤ میں وہ سب سے زیادہ اہمیت حاصل کرتا جارہا ہے اسی تقریب میں اس سال کانگریس کے ایک ممتاز لیڈر غلام نبی آزاد مہمان خصوصی تھے۔ جنہوں نے بہت کچھ کہنے کے دوران یہ بھی کہہ دیا کہ ایک زمانہ میں کانگریس کے اُمیدواروں کی 95 فیصدی درخواستوں میں اپنے حلقہ میں تقریر کرنے کیلئے غلام نبی آزاد کا پروگرام رکھنے کا مطالبہ ہوتا تھا اب وہ گھٹ کر 20 فیصدی رہ گیا ہے۔ ان کی تقریر کے اس جملہ پر ممتاز صحافی افتخار گیلانی ن
تنظیم میڈیا ورکشاپ۔ مثبت سمت میں بڑھتے قدم۔ کیا ایک بڑی چھلانگ لگانا ممکن ہے! (دوسری قسط )۔۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... میں نے سابقہ قسط میں صحافت یا جرنلزم کے میدان میں بھٹکلی مسلم نوجوانوں کی شرکت اور فعالیت کے تعلق سے کچھ اشارے کیے تھے اور سوا ل اٹھایا تھا کہ کیا صحافتی میدان میں ملّی مفاد اور مسلمانوں کے کاذ کو اجاگر کرنے کی جدوجہدمیں ہمارا رول اطمینان بخش یا امید افزا ہے! اور یہ احساس ظاہر کیا تھا کہ اس کا مثبت جواب دینا ذرا مشکل ہے۔ اسی سوال کا جواب پانے کے لئے زمینی حقائق کا جائزہ لینا ضروری ہے جس کے لئے صحافتی میدان میں مواقع اورہماری سرگرمیوں کا تجزیہ کیاجانا چاہیے۔ مجل
خبر لیجئے زباں بگڑی ---راز افشاں ہوگئے ۔۔۔ تحریر :اطہر علی ہاشمی
گزشتہ دنوں جسارت کے صفحہ اوّل پر ایک خبر میں ’’استفادہ حاصل کرنا‘‘ شائع ہوا ہے۔ ہم اپنے ساتھیوں کو سمجھا رہے تھے کہ استفادہ میں حاصل کرنے کا مفہوم شامل ہے، چناں چہ استفادہ کرنا کافی ہے، کہ اسی وقت ہمارے بہت محترم منصفِ اعلیٰ (چیف جسٹس) جسٹس ثاقب نثار کی تقریر ٹی وی چینل پر آنے لگی (20 اکتوبر)۔ وہ بھی استفادہ حاصل کررہے تھے۔ اب اس لفظ کو عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ قرار دینا چاہیے۔ ایم کیو ایم کے ایک دھڑے کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار بہت اچھی اردو بولتے ہیں لیکن اپنے ایک خطاب میں وہ ’’دست بدستہ‘‘ معافی

سچی باتیں ۔۔۔ نفسیات بشری ۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی مرحوم
اللہم انی استغفرك مما تبت الیک منه ثم عدت فیه واستغفرك لما اعطیتک من نفسی ثم لم اوف لک بہ واستغفرک النعم التی تقویت بھا علی معصیتی و استغفرک لکل خیر اردت بہ الیک تخالطنی فیہ ما لیس لك اے اللہ میں تجھ سے معافی چاہتا ہوں اس گناہ سے جس سے میں نے توبہ کی اور پھر لوٹ کر اس میں بڑا اور میں تجھ سے معافی چاہتا ہوں اس چیز کے بارے میں جس کا میں نے تجھ سے وعدہ کیا اور پھر اسے پورا نہ کیا اور میں تجھ سے معافی چاہتا ہوں اس نیکی کے بارے میں کہ اسے میں نے خالص تیرے ہی لئے کرنا چاہیے
