Search results

Search results for ''


دہلی و اطراف کا ایک مختصر علمی سفر۔ ۹- آخری قسط ۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Bhatkallys Other

 مورخہ ۴ / دسمبر کی صبح ہم مظاہر علوم جدید سےپرتکلف ناشتہ کرکے نکلے، ہماری آئندہ منزل خانقاہ رائے پور تھی،خواہش تھی کہ اگر مولانا مفتی حکیم عبد اللہ مغیثی صاحب موجود ہوں اور وقت ساتھ دے تو اجراڑہ بھی ہو آئیں،لیکن ایک تو اجراڑہ کا راستہ دوسرا تھا اور کی مسافت بھی دور پڑتی تھی، اور یہ اطلاع بھی ملی کہ مولانا مغیثیی صاحب دہلی کے لئے روانہ ہوگئے ہیں،علاوہ ازیں ہمارے رفیق سفر مولوی عبد المعز منیری کی بھی دہلی ایرپورٹ سے اسی روز شام کے جہاز سے دبی روانگی تھی ، لہذا اجراڑہ کو سفر سے خارج کردیا گیا۔

خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ خواجہ سرا کی وبا۔۔۔ تحریر :اطہر ہاشمی

Bhatkallys Other

کچھ برقی اور ورقی لطیفے۔ آج کسی چینل کا نام کیا دینا، لیکن خبر عجیب ہے اور سوشل میڈیا پر اس کا چرچا بھی ہے۔ خبریں سنانے والی خاتون نے یہ تشویش ناک خبر دی کہ چمن میں خواجہ سرا کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے جس کی وجہ سے 5 بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔ سننے والے حیران تھے کہ یہ کون سی وبا ہے جو بچوں کو ہلاک کررہی ہے! خاتون نے پہلے تو کھُسرے کی وبا کہا، پھر خیال آیا کہ کھسرا کہنے سے اس مخلوق کی دل آزاری ہوگی، چنانچہ کھسرے کا مہذب ترجمہ کردیا: خواجہ سرا۔ یہ بات قابلِ تعریف ہے کہ خاتون نیوز ریڈر کو یہ معلوم ت

دہلی اور اطراف کا ایک مختصر علمی سفر۔ ۰۸۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Bhatkallys Other

مانک مئو سے ہماری اگلی منزل جامعہ مظاہر علوم سہارنپو ر جدید تھی، عشاء سے کچھ پہلے ہم یہاں پہنچے، مولانا سید محمد شاہد مظاہری صاحب نے بڑی محبتوں سے خیر مقدم کیا ، اور ہمارے رہنے کا انتظام فرمایا، آپ کے فرزند مولانا مفتی سید محمد صالح الحسنی صاحب علم وکتاب گروپ کے ممبر ہیں ، اور ولد سر لابیہ کے مصداق، ان کا رات میں کہیں پروگرام تھا ، ان سے نماز فجر کے بعد ملاقات ہوئی،یہاں پر مولانا عبد اللہ خالد خیر آبادی ، مولانا ظہیر الھدی نور قاسمی ، اور مولانا محمد معاویہ سعدی صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا،

دہلی واطراف کا ایک مختصر علمی سفر ۔ ۰۷ ۔ تحریر:عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Bhatkallys Other

ammuniri@gmail.com علم وکتاب گروپ میں سے دیوبند میں مفتی محمد اللہ خلیلی صاحب، ویب ایڈیٹر دارالعلوم۔ مفتی محمد نوشاد نوری صاحب، مفتی امانت علی قاسمی وغیرہ احباب سے شرف ملاقات حاصل ہوا ، البتہ مفتی محمد انوار خان بستوی صاحب سے ملاقات نہ ہونے کا افسوس ہوا ، موصوف اس وقت عمرےپر تھے۔ دیوبند سے ہمارے قافلہ کی اگلی منزل سرزمین گنگوہ تھی،مغلیہ دور کے عظیم صوفی بزرگ شیخ عبد القدوس گنگوہی کی نسبت اسی مردم خیز قصبے کی طرف ہے،آپ کی طرف منسوب اس خانوادے کے افراد قدوسی کہلاتے ہیں، مشہور شخصیات میں مولانا

سب کچھ نارمل ہے تو 36 وزرا کیوں جا رہے ہیں کشمیر؟... سہیل انجم

Bhatkallys Other

جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کے خاتمے کو پانچ ماہ سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ ان پانچ مہینوں میں کشمیر کے لوگوں نے جو دکھ جھیلا ہے اس کا اندازہ باہر کے لوگ نہیں لگا سکتے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ کشمیر کو بغیر دیواروں والی ایک جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ وہاں کے 80-85 لاکھ افراد اس جیل کے قیدی ہیں۔ ان کی زبانوں اور مواصلات پر پہرے بٹھا دیئے گئے ہیں۔ ہزاروں افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ اب اگر چہ رفتہ رفتہ کچھ لوگوں کو رہا کیا جا رہا ہے لیکن اب بھی بہت بڑی تعداد میں لوگ جیلوں میں بند ہیں۔

خبرلیجے زباں بگڑی۔۔۔ بنگالی ’ج‘ کو ’ز ‘سے بدل دیتے ہیں۔۔۔ تحریر: اطہر ہاشمی

Bhatkallys Other

پیر 13 جنوری کے تمام اخبارات میں، اور نیوز چینلز پر بھی بنگلادیش کرکٹ بورڈ کے صدر کا نام ’نظم الحسن‘ دیا گیا ہے۔ ہمارے نوجوان صحافیوں کو شاید یہ معلوم نہیں کہ بنگالی میں ’ج‘ ’ز‘ یا ’ظ‘ (Z) سے بدل جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ خبر انگریزی میں آئی ہے چنانچہ ’نجم الحسن‘ نظم الحسن ہوگیا۔ نظم الحسن بنگالی میں بھی بے معنی ہے۔ یہ واقعہ دہرانا شاید بے وقت نہ ہو کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے پہلے ڈھاکا میں ایک بڑا مشاعرہ ہوا جس میں استاد جلیل مانکپوری بھی شامل تھے۔ ان کے ایک ساتھی نے کہا کہ اب دیکھیے، آپ ک

دہلی اور اطراف کا ایک مختصر علمی سفر۔ ۰۶۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Bhatkallys Other

  صبح دس بجے شاہ منزل میں مولانا نسیم اختر شاہ کے یہاں حاضری ہوئی، آپ مولانا ازہر شاہ قیصرمرحوم سابق مدیر مجلہ دارالعلوم کے خلف الرشید ہیں ، اور اپنے والد کے نقش قدم پر قلم کو سنبھالے ہوئے ہیں، کئی ایک کتابوں کے مصنف ہیں، جنہیں علمی اور ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل ہے، بڑی اپنائیت اور محبت سے ملے۔ یہاں سے ہمیں وقف دارالعلوم جانا تھا۔ یہاں مولانا محمد سفیان قاسمی صاحب مہتمم وقف اور مولانا محمد اسلام قاسمی صاحب وغیرہ احباب نے پرتپاک خیر مقدم کیا ، دارالعلوم کی عمارتوں اور حضرت حکیم الاسلام محمد ط

خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ بھیڑ کا چھتہ۔۔۔ تحریر: :اطہر ہاشمی

Bhatkallys Other

گزشتہ کالم (3 تا 9جنوری) میں ہم نے استادِ محترم اور ماہرِ لسانیات غازی علم الدین کے مضمون کے عنوان کے حوالے سے ’’اہمال‘‘ کا مطلب معلوم کیا تھا اور اپنے طور پر اس کا مطلب نکال لیا تھا۔ پروفیسر صاحب نے ازراہِ مہربانی ٹیلی فون کے ذریعے بتایا کہ یہ ’مہمل‘ سے ہے۔ یہ سامنے کی بات تھی جو ہمارے سامنے نہیں آئی، حالانکہ ان کی تحریر کے اقتباس میں بھی یہ واضح ہے کہ ’’علاوہ کو ذومعنی، مہمل اور مبہم بنادیے جانے…‘‘ یعنی اہمال کا مطلب ہے مُہمَل بنانا۔ اس میں پہلے میم پر پیش اور دوسرے پر زبر ہے۔ ایک ٹی وی چینل

دہلی و اطراف کا ایک مختصر علمی سفر۔۰۵۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Bhatkallys Other

  دسمبر  ۳ تاریخ کی نماز فجر جامع الرشید کے روح فرزا ماحول میں ادا ہوئی ، جس کے بعد ملتے ملاتے مہمان خانے پہنچے، جہاں بتایا گیا کہ مولانا عبد الخالق مدراسی صاحب نائب مہتمم دار العلوم صاحب سے ساڑھے سات بجے ناشتہ پر ملاقات طے ہے، اور مولانا کے پاس ساڑھے سات کا مطلب ہوتا ہے سات بج کر تیس منٹ، نہ ایک منٹ آگے نہ ایک منٹ پیچھے۔ دارالعلوم کی اہم شخصیات میں ابتک ہماری مولانا کی ملاقات سے محرومی چلی آرہی تھی، شاید اس کا سبب کچھ اپنی ہی طرف سے کوتاہی رہی ہوگی، کیونکہ مولانا انتظام و انصرام ، مالیات اور

دہلی اور اطراف کا ایک مختصر علمی سفر۔ ۰۴--- تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Bhatkallys Other

دہلی سے کاندھلہ کے راستے آپ دیوبند کو نکلیں تو راستے میں ان مقامات سے گذر ہوتا ہے ، جن کے چپوں چپوں پر امت کی ان کہی داستانیں چھپی ہوئی ملتی ہیں، یہ وہ سرزمین ہے جس کے تذکرےکے بغیر آزادی وطن اور اصلاح امت کی تاریخ کے ابواب مکمل نہیں ہوسکتے ، کاندھلہ سے گذرے تو راستے میں شاملی آیا جس کے میدان پر جدجہد آزادی کی اولین داستان قلم بند کی گئی تھی، اور پھر تھانہ بھون ، ایک ویرانہ جسے حضرت حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اصلاح امت کا عظیم مرکز بنادیاتھا، جس کی خوشبو ایک صدی

دہلی اور اطراف کا ایک مختصر علمی سفر۔ ۰۳۔ تحریر: عبد المتین منیری

Bhatkallys Other

کاندھلہ میں پہلی مرتبہ جائیں اور صرف دو تین گھنٹے ٹہریں، تو شاید یہ بات بدذوقی کی علامت شمار ہوگی، کیونکہ کاندھلہ ایسی سرزمین نہیں کہ اس پر سے ایسے سرسری نگاہیں ڈال کر گزرا جائے، یہاں سے دہلی تک پھیلا ہوا زمین کا چپہ چپہ ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی کے شہیدوں کے خون سے سینچا ہوا ہے، مولوی ارشد قاسم بتا رہے تھے کہ حضرت جی منزل کے سامنے واقع مسجد میں گزشتہ کئی صدیوں سے اللہ والے نماز پنچگانہ اداکرتے آرہے ہیں ، یہاں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ، حضرت شاہ اسماعیل شہید اور تحریک مجاہدین کے جملہ رہنما سجدہ

A Talk with Cognitive personality

Bhatkallys Other

A wit enlightening conversation with Mr. (American) Mohsin Shabdandari; time served personality and a well known Industrialist. He was the first president of Jamatul muslimeen, Jamia Islamia Bhatkal, and a significant Patron of Anjuman Hami-e-Muslimeen. He also worked as an executive member of East Asiatic, Metal box(Global companies) in Chennai, Guest lecturer of Calicut University for 2 Years and started  Steel industry in Calicut. He is one of the founder of Aysha hospital, Madras,  pre

غلامی ہرگز تسلیم نہیں لیکن احتجاج پُرامن ہو... ظفر آغا

Bhatkallys Other

ہر ظلم کی ایک انتہا ہوتی ہے لیکن اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کے ظلم کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ صوبہ کی پولس یوگی کے حکم کے مطابق اتر پردیش کے مسلمانوں پر وہ قہر ڈھا رہی ہے جس کو ویڈیو پر دیکھ کر اور سن کر ظالم سے ظالم شخص بھی لرز جائے۔ 20 دسمبر کو جمعہ کے روز شہریت قانون کے خلاف مسلم علاقوں میں جو احتجاج ہوا اس میں خود حکومت کے مطابق اب تک 22-20 افراد کے مارے جانے کی خبر ہے۔ پولس یہ جھوٹ بول رہی ہے کہ اس کی گولی سے کوئی نہیں مرا ہے۔ لیکن ہمارے رپورٹر نے میرٹھ میں مارے جانے والے بچوں کے

دہلی اور اطراف کا ایک مختصر علمی سفر۔ ۰۲- تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Bhatkallys Other

یکم دسمبر کو ہم دہلی پہنچےتھے تو ہمارے میزبان مفتی ساجد صاحب بنگلور میں ہزار میل دور اپنے ایک پیشگی مقررہ پروگرام میں مصروف تھے، آخروہاں انہیں کہاں چین آتا ؟۔روح دہلی میں اٹکی ہوئی تھی، سخت سردی میں رات دو بجے دہلی پہنچے، اور صبح تڑکے اپنے رفیق سفر مفتی ندیم احمد قاسمی صاحب کے ساتھ ہوٹل پہنچ گئے، کڑاکے کی سردی میں سفر کی تکان کو دور کرنے کا بھی خیال نہیں رکھا، اور آٹھ بجے جب کہ ابھی ہوٹل کھلے نہیں تھے، ناشتہ کرواکر گاڑی پر سفر کی اولین منزل کاندھلہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ راستے میں پانی پت اور ک

جامعہ کی چنگاری جو شعلہ بن گئی... سہیل انجم

Bhatkallys Other

کیا کسی نے سوچا تھا کہ جامعہ ملیہ سے اٹھنے والی احتجاج کی چنگاری شعلہ جوالہ بن جائے گی اور حکومت کی فسطائیت کے خلاف پورے ملک میں لوگ بغاوت کر دیں گے اور ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ کیا حکومت نے سوچا تھا کہ وہ جس آگ پر ہاتھ تاپنے کی کوشش کر رہی ہے وہ اس کے دامن کو بھی پکڑ لے گی اور پھر اس آگ پر قابو پانا اس کے لیے ناممکن سا ہو جائے گا۔ حکومت نے جب جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کا خاتمہ کیا اور اسے متعدد پابندیوں میں جکڑ دیا تو اس کے خلاف بہت زیادہ

خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ خود مختیاری۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی

Bhatkallys Other

۔14 دسمبر کو صبح ہی صبح ایک قاری جناب ابوالقاسم کا فون آگیا۔ جیسا اُن کا نام ہے ویسی ہی آواز بھی زوردار ہے۔ انھیں کبھی دیکھا نہیں، بس سنا ہی سنا ہے اور وہ بھی اُس وقت جب کہیں کوئی غلطی ہوجاتی ہے۔ اس لحاظ سے تو دن میں کئی بار فون آنا چاہیے، لیکن وہ طرح دے جاتے ہوں گے۔ ان کی آواز پہچانتے ہی بے ساختہ پوچھا ’’اب کیا غلطی ہوگئی؟‘‘ کہنے لگے ’’آج کے ادارتی صفحے پر ملک الطاف حسین نے اپنے مضمون میں لکھا ہے ’’افغانستان کی آزادی اور خود مختیاری‘‘۔ یہ مختیاری کیا ہوتی ہے؟‘‘ یہ ’’مختیاری‘‘ یا ’’مختیارکار‘‘

کیا یہ مسلمانوں کو دو نمبر کے شہری بنانے کی تیاری ہے؟... سہیل انجم

Bhatkallys Other

اس وقت پورے ملک میں طوفان آیا ہوا ہے۔ جگہ جگہ احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں اور نئے شہریت قانون کے خلاف لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ حکومت اپنی طاقت کے بل بوتے پر ان مظاہروں کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن ان کو جتنا دبایا جا رہا ہے وہ اتنی ہی شدت سے تیز ہوتے جا رہے ہیں۔ دراصل یہ حکومت کے ظلم و جبر اور ایک سیکولر ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی کوشش کے خلاف ایک عوامی ہُنکار ہے۔ نریندر مودی کا پہلا دور حکومت ترقیاتی سرگرمیوں اور سوچھتا ابھیان، اجولا اسکیم اور دیگر اسکیموں

دہلی اور اس کے اطراف کا ایک مختصر علمی سفر۔۰۱- تحریر: عبد المتین منیری

Bhatkallys Other

بروز بدھ مورخہ ۴ دسمبر کی شام پانچ بجے جب اسپائس جٹ کا طیارہ منگلور ہوائی اڈے پر ایک جھٹکے کے ساتھ اترا تو ایسا لگا کہ کوئی خواب ادھورا ہی درمیان سے ٹوٹ گیا ہو، اور بات کچھ ایسی ہی تھی، علم وکتاب گروپ کے نادیدہ احباب سے ملاقات کی جو خواہش عرصے سے دل میں تڑپ رہی تھی، اسے پورا کرنے کے لئے ۳۰ /نومبر کی صبح نوبجے ہم دہلی کے ہوائی اڈے پر دبی سےجاکر اترے تھے، ارادہ تھا کہ علم وکتاب کی بزم سجانے والے باذوق رفیق مولانا مفتی محمد ساجد کھجناروی صاحب سے بھی بالمشافہ ملاقات کا شرف حاصل کیا جائے، اوران کی رف