Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















دہلی اور اطراف کا ایک مختصر علمی سفر۔ ۰۶۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل
صبح دس بجے شاہ منزل میں مولانا نسیم اختر شاہ کے یہاں حاضری ہوئی، آپ مولانا ازہر شاہ قیصرمرحوم سابق مدیر مجلہ دارالعلوم کے خلف الرشید ہیں ، اور اپنے والد کے نقش قدم پر قلم کو سنبھالے ہوئے ہیں، کئی ایک کتابوں کے مصنف ہیں، جنہیں علمی اور ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل ہے، بڑی اپنائیت اور محبت سے ملے۔ یہاں سے ہمیں وقف دارالعلوم جانا تھا۔ یہاں مولانا محمد سفیان قاسمی صاحب مہتمم وقف اور مولانا محمد اسلام قاسمی صاحب وغیرہ احباب نے پرتپاک خیر مقدم کیا ، دارالعلوم کی عمارتوں اور حضرت حکیم الاسلام محمد ط
خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ بھیڑ کا چھتہ۔۔۔ تحریر: :اطہر ہاشمی
گزشتہ کالم (3 تا 9جنوری) میں ہم نے استادِ محترم اور ماہرِ لسانیات غازی علم الدین کے مضمون کے عنوان کے حوالے سے ’’اہمال‘‘ کا مطلب معلوم کیا تھا اور اپنے طور پر اس کا مطلب نکال لیا تھا۔ پروفیسر صاحب نے ازراہِ مہربانی ٹیلی فون کے ذریعے بتایا کہ یہ ’مہمل‘ سے ہے۔ یہ سامنے کی بات تھی جو ہمارے سامنے نہیں آئی، حالانکہ ان کی تحریر کے اقتباس میں بھی یہ واضح ہے کہ ’’علاوہ کو ذومعنی، مہمل اور مبہم بنادیے جانے…‘‘ یعنی اہمال کا مطلب ہے مُہمَل بنانا۔ اس میں پہلے میم پر پیش اور دوسرے پر زبر ہے۔ ایک ٹی وی چینل
دہلی و اطراف کا ایک مختصر علمی سفر۔۰۵۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل
دسمبر ۳ تاریخ کی نماز فجر جامع الرشید کے روح فرزا ماحول میں ادا ہوئی ، جس کے بعد ملتے ملاتے مہمان خانے پہنچے، جہاں بتایا گیا کہ مولانا عبد الخالق مدراسی صاحب نائب مہتمم دار العلوم صاحب سے ساڑھے سات بجے ناشتہ پر ملاقات طے ہے، اور مولانا کے پاس ساڑھے سات کا مطلب ہوتا ہے سات بج کر تیس منٹ، نہ ایک منٹ آگے نہ ایک منٹ پیچھے۔ دارالعلوم کی اہم شخصیات میں ابتک ہماری مولانا کی ملاقات سے محرومی چلی آرہی تھی، شاید اس کا سبب کچھ اپنی ہی طرف سے کوتاہی رہی ہوگی، کیونکہ مولانا انتظام و انصرام ، مالیات اور
دہلی اور اطراف کا ایک مختصر علمی سفر۔ ۰۴--- تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل
دہلی سے کاندھلہ کے راستے آپ دیوبند کو نکلیں تو راستے میں ان مقامات سے گذر ہوتا ہے ، جن کے چپوں چپوں پر امت کی ان کہی داستانیں چھپی ہوئی ملتی ہیں، یہ وہ سرزمین ہے جس کے تذکرےکے بغیر آزادی وطن اور اصلاح امت کی تاریخ کے ابواب مکمل نہیں ہوسکتے ، کاندھلہ سے گذرے تو راستے میں شاملی آیا جس کے میدان پر جدجہد آزادی کی اولین داستان قلم بند کی گئی تھی، اور پھر تھانہ بھون ، ایک ویرانہ جسے حضرت حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اصلاح امت کا عظیم مرکز بنادیاتھا، جس کی خوشبو ایک صدی

دہلی اور اطراف کا ایک مختصر علمی سفر۔ ۰۳۔ تحریر: عبد المتین منیری
کاندھلہ میں پہلی مرتبہ جائیں اور صرف دو تین گھنٹے ٹہریں، تو شاید یہ بات بدذوقی کی علامت شمار ہوگی، کیونکہ کاندھلہ ایسی سرزمین نہیں کہ اس پر سے ایسے سرسری نگاہیں ڈال کر گزرا جائے، یہاں سے دہلی تک پھیلا ہوا زمین کا چپہ چپہ ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی کے شہیدوں کے خون سے سینچا ہوا ہے، مولوی ارشد قاسم بتا رہے تھے کہ حضرت جی منزل کے سامنے واقع مسجد میں گزشتہ کئی صدیوں سے اللہ والے نماز پنچگانہ اداکرتے آرہے ہیں ، یہاں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ، حضرت شاہ اسماعیل شہید اور تحریک مجاہدین کے جملہ رہنما سجدہ
A Talk with Cognitive personality
A wit enlightening conversation with Mr. (American) Mohsin Shabdandari; time served personality and a well known Industrialist. He was the first president of Jamatul muslimeen, Jamia Islamia Bhatkal, and a significant Patron of Anjuman Hami-e-Muslimeen. He also worked as an executive member of East Asiatic, Metal box(Global companies) in Chennai, Guest lecturer of Calicut University for 2 Years and started Steel industry in Calicut. He is one of the founder of Aysha hospital, Madras, pre

غلامی ہرگز تسلیم نہیں لیکن احتجاج پُرامن ہو... ظفر آغا
ہر ظلم کی ایک انتہا ہوتی ہے لیکن اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کے ظلم کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ صوبہ کی پولس یوگی کے حکم کے مطابق اتر پردیش کے مسلمانوں پر وہ قہر ڈھا رہی ہے جس کو ویڈیو پر دیکھ کر اور سن کر ظالم سے ظالم شخص بھی لرز جائے۔ 20 دسمبر کو جمعہ کے روز شہریت قانون کے خلاف مسلم علاقوں میں جو احتجاج ہوا اس میں خود حکومت کے مطابق اب تک 22-20 افراد کے مارے جانے کی خبر ہے۔ پولس یہ جھوٹ بول رہی ہے کہ اس کی گولی سے کوئی نہیں مرا ہے۔ لیکن ہمارے رپورٹر نے میرٹھ میں مارے جانے والے بچوں کے
دہلی اور اطراف کا ایک مختصر علمی سفر۔ ۰۲- تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل
یکم دسمبر کو ہم دہلی پہنچےتھے تو ہمارے میزبان مفتی ساجد صاحب بنگلور میں ہزار میل دور اپنے ایک پیشگی مقررہ پروگرام میں مصروف تھے، آخروہاں انہیں کہاں چین آتا ؟۔روح دہلی میں اٹکی ہوئی تھی، سخت سردی میں رات دو بجے دہلی پہنچے، اور صبح تڑکے اپنے رفیق سفر مفتی ندیم احمد قاسمی صاحب کے ساتھ ہوٹل پہنچ گئے، کڑاکے کی سردی میں سفر کی تکان کو دور کرنے کا بھی خیال نہیں رکھا، اور آٹھ بجے جب کہ ابھی ہوٹل کھلے نہیں تھے، ناشتہ کرواکر گاڑی پر سفر کی اولین منزل کاندھلہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ راستے میں پانی پت اور ک
جامعہ کی چنگاری جو شعلہ بن گئی... سہیل انجم
کیا کسی نے سوچا تھا کہ جامعہ ملیہ سے اٹھنے والی احتجاج کی چنگاری شعلہ جوالہ بن جائے گی اور حکومت کی فسطائیت کے خلاف پورے ملک میں لوگ بغاوت کر دیں گے اور ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ کیا حکومت نے سوچا تھا کہ وہ جس آگ پر ہاتھ تاپنے کی کوشش کر رہی ہے وہ اس کے دامن کو بھی پکڑ لے گی اور پھر اس آگ پر قابو پانا اس کے لیے ناممکن سا ہو جائے گا۔ حکومت نے جب جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کا خاتمہ کیا اور اسے متعدد پابندیوں میں جکڑ دیا تو اس کے خلاف بہت زیادہ
خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ خود مختیاری۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی
۔14 دسمبر کو صبح ہی صبح ایک قاری جناب ابوالقاسم کا فون آگیا۔ جیسا اُن کا نام ہے ویسی ہی آواز بھی زوردار ہے۔ انھیں کبھی دیکھا نہیں، بس سنا ہی سنا ہے اور وہ بھی اُس وقت جب کہیں کوئی غلطی ہوجاتی ہے۔ اس لحاظ سے تو دن میں کئی بار فون آنا چاہیے، لیکن وہ طرح دے جاتے ہوں گے۔ ان کی آواز پہچانتے ہی بے ساختہ پوچھا ’’اب کیا غلطی ہوگئی؟‘‘ کہنے لگے ’’آج کے ادارتی صفحے پر ملک الطاف حسین نے اپنے مضمون میں لکھا ہے ’’افغانستان کی آزادی اور خود مختیاری‘‘۔ یہ مختیاری کیا ہوتی ہے؟‘‘ یہ ’’مختیاری‘‘ یا ’’مختیارکار‘‘
کیا یہ مسلمانوں کو دو نمبر کے شہری بنانے کی تیاری ہے؟... سہیل انجم
اس وقت پورے ملک میں طوفان آیا ہوا ہے۔ جگہ جگہ احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں اور نئے شہریت قانون کے خلاف لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ حکومت اپنی طاقت کے بل بوتے پر ان مظاہروں کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن ان کو جتنا دبایا جا رہا ہے وہ اتنی ہی شدت سے تیز ہوتے جا رہے ہیں۔ دراصل یہ حکومت کے ظلم و جبر اور ایک سیکولر ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی کوشش کے خلاف ایک عوامی ہُنکار ہے۔ نریندر مودی کا پہلا دور حکومت ترقیاتی سرگرمیوں اور سوچھتا ابھیان، اجولا اسکیم اور دیگر اسکیموں
دہلی اور اس کے اطراف کا ایک مختصر علمی سفر۔۰۱- تحریر: عبد المتین منیری
بروز بدھ مورخہ ۴ دسمبر کی شام پانچ بجے جب اسپائس جٹ کا طیارہ منگلور ہوائی اڈے پر ایک جھٹکے کے ساتھ اترا تو ایسا لگا کہ کوئی خواب ادھورا ہی درمیان سے ٹوٹ گیا ہو، اور بات کچھ ایسی ہی تھی، علم وکتاب گروپ کے نادیدہ احباب سے ملاقات کی جو خواہش عرصے سے دل میں تڑپ رہی تھی، اسے پورا کرنے کے لئے ۳۰ /نومبر کی صبح نوبجے ہم دہلی کے ہوائی اڈے پر دبی سےجاکر اترے تھے، ارادہ تھا کہ علم وکتاب کی بزم سجانے والے باذوق رفیق مولانا مفتی محمد ساجد کھجناروی صاحب سے بھی بالمشافہ ملاقات کا شرف حاصل کیا جائے، اوران کی رف
سچی باتیں ۔۔۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رح کی وصیت۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
1925-10-06 میں تمہیں وصیت کرتاہوں ، کہ اللہ کی اطاعت کرتے رہنا، او راُس کی راہ میں پرہیز گاری پر قائم رہنا، اور شریعتِ ظاہر کے احکام کی پابندی کرنا، اور اپنے سینے کو آفات نفس سے محفوظ رکھنا، اور اپنے نفس میں سخاوت وجواں مردی قائم رکھنا، اور کشادہ رو رہنا، اور عطا کے لائق چیزوں کو عطا کرتے رہنا، اور لوگوں کی سختیوں کو برداشت کرنا، اور بزرگوں کے مرتبہ کا لحاظ رکھنا، اور اپنے بھائی بندوں کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھنا، اور اپنے چھوٹوں کو نصیحت کرتے رہنا، اور اپنے دوستوں سے لڑائی نہ کرنا، اور ایثار و

خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ دلی کی عدالت بمقابلہ اردو۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی
اردو زبان ہندوستان میں پیدا ہوئی، وہیں پلی بڑھی۔ دہلی، لکھنؤ اس کے بڑے دبستان سمجھے جاتے تھے۔ لیکن اب یہیں اس کو ’’ستی‘‘ کیا جارہا ہے۔ گزشتہ دنوں دہلی کی عدالت نے پولیس ایف آئی آر میں اردو کے الفاظ کو مشکل قرار دے کر انہیں نکالنے کا حکم دیا ہے اور پولیس کی سرزنش بھی کی ہے۔ کبھی اردو زبان پورے ہندوستان میں رابطے کی زبان سمجھی جاتی تھی، تاہم ہندوئوں نے اسے صرف مسلمانوں کی زبان قرار دیا۔ چنانچہ اس کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک ہورہا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عدالت نے اس لفظ کا متبادل نہیں بتایا ا
اسلامیہ اینگلو اردو ھائی اسکول میں سفلی درجات کے طلبہ کے لیے ادبی مقابلوں کا انعقاد
بھٹکل: 12 دسمبر، 19 (بھٹکلیس نیوز بیورو) اسلامیہ اینگلو اردوہائی اسکول (آئی اے یو ایچ ایس) میں سفلی گروپ کے مابین ادبی مقابلے منعقد ہوئے جس میں چھٹی جماعت سے آٹھویں جماعت تک کے طلباء کے مابین قرآت حمد ،اردو ،کنڑا،انگریزی زبان کاتقریری مقابلہ کے ساتھ دینیات تقریر کا بھی مقابلہ ہوا ۔ اس نشست کاآغاز محمد مستقیم ابن غوث کھومی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا مہمانوں کااستقبال جناب عبدالناصر خان نے کیا تو مہمان خصوصی کا تعارف مولاناسید مبشر برماور ندوی نے کیااسکے بعد مقابلوں کا آغاز ہوا ان جملہ مقابلو

چراغ آخر شب۔ حفیظ نعمانی۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری ۔ بھٹکل
حفیظ نعمانی کی رحلت کے ساتھ اردو صحافت کا ایک زرین عہد ختم ہوگیا ، مرحوم صحافت کے زرین دور کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے تقسیم ہند کے بعد کے پر آشوب دور میں مسلمانوں کی رہنمائی کی اور ان کی ہمت بندھائی، اس کے لئے انہوں نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں، اس نسل کے صحافت کے عظیم میناروں میں مولانا محمد مسلم ، مولانا عثمان فارقلیط، مفتی رضا انصاری فرنگی محلی، جمیل مہدی مرحوم کے نام یاد آرہے ہیں، سنہ ۱۹۶۰ اور ۱۹۷۰ کی دہائی میں ندائے ملت کے ذریعہ آپ نے ملت کی رہنمائی کی ، یہ دور ہندومسلم فسادا
سچی باتیں۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رح کی بزرگی کا راز۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
1925-10=30 شیخ سعدیؒ کی مشہور ومعروف کتاب گلستاںؔ سے کون واقف نہیں، اس کے دوسرے باب کی تیسری حکایت میں، وہ الفاظ ذیل درج فرماتے ہیں ’’عبد القادر گیلانیؒ رادیدند رحمۃ اللہ علیہ در حرم کعبہ روئے برحصاتہا وہ بود، و می گفت اے خدا وند بخشاے، واگر مستوجب عقوبتم، مراروز قیامت، نابینا برانگیز تاومدارے نیکاں شرمسار نہ باشم روے بر خاک عجز می گویم ہر سحر گہ کہ بادمی آید اے کہ ہرگز فرامشت نہ کنم ہیچت از بندہ یا دمی آید عبد القادر گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو لوگوں نے دیکھا، کہ حرم کعبہ میں کنکریوں پر م
خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ نیا کٹّا کھولنا۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی
ایک باراں دیدہ سیاست دان نے گزشتہ دنوں مشورہ دیا ہے کہ ’’نیا کٹّا‘‘ نہ کھولا جائے۔ یہ کٹّا کون ہے جو پہلے کبھی ہٹا، کٹا تھا… اس کی تفصیل میں جاکر ہم کوئی سیاسی کٹا نہیں کھولنا چاہتے، چنانچہ لفظ ’’کٹا‘‘ کی بات کرتے ہیں۔ اردو میں استعمال ہونے والے جن الفاظ میں ’’ٹ‘‘ آجائے، سمجھ لیں کہ یہ ہندی سے درآمد کردہ ہیں لیکن اردو میں یہ کثیر المعنیٰ ہیں۔ مذکورہ سیاست دان نے کٹا کھولنے کی جو بات کی ہے تو پنجابی میں اس کا مطلب چھوٹی بوری یا تھیلہ ہے، جیسے آٹے کا کٹا ۔اس کو انگریزی اصطلاح کے مطابق ’’پنڈور