Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















غلطی ہائے مضامین۔۔۔ہماری سیاست گری خوار ہے، مگر کیوں؟۔۔۔ ابو نثر
ادب اور صحافت والے کالم پر ایک صحافی بھائی نے سوال بھیج دیا:۔ ’’صحافت کیسے شائستہ ہوسکتی ہے جب سیاست ہی شائستہ نہیں رہی۔ صحافت تو سیاست کا عکس ہوتی ہے‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاست کی عکاسی کرتے کرتے صحافت خود معکوس ہوگئی ہے۔ مگر کیا مار آئی ہوئی ہے کہ صحافی صرف عکاس بن کر رہ جائیں، پھر حیران ہو ہو کر صحافی و سیاست دان باہم پوچھتے پھریں کہ ’’میں ترا عکس ہوں کہ تُو میرا؟‘‘۔ صاحبو! صحافی کا ایک کردار معلم اور مصلح کا بھی ہے۔ آخر آپ مغرب کے بدنام صحافیوں کی طرف رشک بھری نظروں سے دیکھ دیکھ ک
سچی باتیں۔۔۔ سول سرجن کی منطق۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1930-03-07 مولانا حالیؔ مرحوم، بڑے متین، سنجیدہ اور ’’مقطع‘‘ تھے، اکبرؔ مغفور کی طرح ظریف، شوخ نگار، اور ’’ہنسوڑ‘‘ نہ تھے۔ سرکار برطانیہ کے وفادار، ہواخواہ، ودعاگوتھے، باغی اور غوغائی نہ تھے۔ اس کے باوجود، اپنے دیوان میں، یہ روایت بیان کرتے ہیں، کہ ایک مرتبہ ایک صاحب بہادر، اور ایک نیٹو(کالا آدمی)، دونوں سرکاری ملازم بیمار پڑے، اور رخصت بیماری کے لئے ڈاکٹری سرٹیفکٹ حاصل کرنے کو سول سرجن بہادر کے بنگلے کی طرف چلے۔ ’’صاحب‘‘ باوجود بیمار ہونے کے ماشاء اللہ اتنے مضبوط وتواناتھے، کہ بے تکلف پیدل چل
بات سے بات۔۔۔ شورش کاشمیری اور مولانا آزاد۔۔۔ عبد المتین منیری۔ بھٹکل
مولانا آزاد کے یوم وفات کی مناسبت سے ہم نے شورش کاشمیری مرحوم کے قلم سے آپ کے جنازے کا آنکھوں دیکھا حال پوسٹ کیا تھا، جس پر اہل علم کی مختلف آراء سامنے آئی ہیں، جن میں سے ایک شورش کی جنازے کے منظر کے بیان میں حد درجہ مبالغہ آرائی ہے۔ اس کے علاوہ بھی مثبت اور منفی تبصرے موصول ہوئے ہیں۔ شورش کاشمیری مرحوم کی تقریبا جملہ کتابوں کو پڑھنے کا ہمیں موقعہ ملا ہے، آپ ہمارے چند چہیتے مصنفین میں سے ہیں، ہماری رائے میں شورش کی بوئے گل، پس دیوار زنداں، اور دوسری کئی ایک کتابوں کو پڑھے بغیر برصغیر م
غلطی ہائے مضامین۔۔۔ ایک علامہ نے اظہار لیاقت کردیا۔۔۔ ابو نثر
پاکستان کے مردُم خیز خطے خوشاب میں واقع جوہر آباد سے محترم حاجی عبدالغفور زاہدؔ صاحب کا مکتوب موصول ہوا ہے۔ حاجی صاحب کا خط خاصی تاخیر سے ملا۔ آپ نے30دسمبر2021ء کو یہ خط ’برقی ڈاک‘ سے ارسال فرمایا تھا، شاید پتا غلط تھا، خط برق رفتاری سے گم ہوگیا، ہمیں نہیں ملا۔ پھر آپ نے6فروری 2022ء کو اصل خط کی نقل اور شکایتی خط ’ورقی ڈاک‘ سے بھیجا۔ پتا غلط تھا، مگر مل گیا۔ خیر، سبب کچھ بھی ہو، حاجی صاحب کو انتظارکی جو زحمت اُٹھانی پڑی اُس پر ہم معذرت خواہ ہیں۔ عبدالغفور زاہدؔ صاحب نے کالم ’’پوش، پوش‘‘ (مطب
سچی باتیں۔۔۔ سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1930-02-21 کلکتہؔ کی مشہور رقّاصہ، جس کے گانے کی دھوم سارے ہندوستان میں مچی ہوئی تھی، مرگئی۔ مسلمان کے گھر میں پیداہوئی تھی، خداکرے مَوت بھی مسلمانوں کی طرح آئی ہو۔ اخبارات میں چھَپ رہاہے، کہ اتنا چھوڑ کر مری۔ یہ کوئی نہیں لکھتا کہ ساتھ لے کر کیاگئی۔ دنیا میں گانے کی فن کی، گلے کی، اداؤں کی بڑی قدر ہوئی۔ خدامعلوم یہ قدر دانیاں اُس وقت کیا کام آئیں، جب روح جسم کے پور پور سے کھنچنے لگی، آنکھیں پھرنے لگیں، اور سانس گلے میں رُکنے لگی۔ محفلوں میں خوب واہ واہ ہوتی رہتی تھی، معلوم نہیں ملک الموت ن
غلطی ہائے مضامین۔کھرب پتی دیو۔۔۔ ابو نثر
February 18, 2022 http://www.bhatkallys.com/ur/author/abunasr/ وطنِ عزیز کے بلند و بالا مقام دِیر بالا سے جناب عبید خان نے پوچھا ہے: ’’لکھ پتی، کروڑ پتی اور ارب پتی میں ’پتی‘ کے معنی کیا ہیں؟‘‘ عبید خان کے سوال کا جواب دینے سے پہلے اپنے صحافی بھائیوں سے ایک گلہ کرتے چلیں۔ ہمارے ہر قسم کے ذرائع ابلاغ خیبر پختون خوا کے اِس خوب صورت خطے کو ’اَپر دِیر‘ اور ’لوئر دِیر‘ لکھنے اور بولنے کا رواج عام کررہے ہیں۔ جب کہ اس علاقے کے باشندے آج بھی لفظ ’بالا‘ اور ’پائیں‘ استعمال کرتے ہیں۔ بالا کا مطلب ہ
سچی باتیں۔۔۔ شہرت کو بقا نہیں۔۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1930-02-14 پچھلے دِنوں مسلمانوں کی قومی زندگی سے دوبڑے شخص اُٹھ گئے۔ صوبۂ بہار میں مظہر الحق، اور علی گڑھ میں صاحبزادہ آفتاب احمد خاں۔ دونوں شخصیتیں آج سے چند سال قبل اِس پایہ کی تھیں، کہ ان کی مَوتوں پراُس وقت مُلک کے طول وعرض میں ہلچل مچ گئی ہوتی۔ صاحبزادہ صاحب کا انتقال اگر کہیں 10ء یا 11ء میں، اور مظہر الحق صاحب کا اگر کہیں 14ءو 15ء میں ہواہوتا، تو خدامعلوم گھر گھر کیسا شور ماتم برپا ہوگیاہوتا۔ سیاہ جدولوں کے ساتھ ہر چھوٹا بڑا اخبار ہفتوں بلکہ مہینوں ماتم کرتا رہتا۔ سیکڑوں ہزاروں تعزی
یاد ایام۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادی
(یہ مولانامرحوم کا آخری نشریہ ہے،جو اگست ۱۹۷۶ءمیں لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہوا تھا۔ڈاکٹر زبیر احمد صدیقی) "ع ”ہم جھوٹے ہیں توآپ ہیں جھوٹوں کے بادشاہ“ مصرعہ آپ نے سناہویانہ سناہو، ایک زمانہ میں خاص وعام کی زبان پر ایساتھا جیسے کہاوت یاضر ب المثل بن گیاہو،اورشان نزول یہ ہے کہ بیسویں صدی کے شروع میں ایک وائسرائے بڑی آن کابڑی شان کابڑے ہمہمہ کا، بڑے طنطنہ کالارڈکرزن تھا، اس کی شامت جوآئی تووہ کہیں یہ کہہ گذراکہ ”ہندوستانی بڑے جھوٹے ہیں۔“ یہ مصرعہ اسی زیٹ کا جواب تھا اودھ پنچ کی طرف سے
غلطی ہائے مضامین۔۔۔ وہ رضائے الہی سے وفات پاگئے۔۔۔ ابو نثر
آج کا کالم شروع کرنے سے پہلے شکریہ محترمہ پروین اسحاق کا، جنھوں نے پچھلا کالم کینیڈا میں پڑھ کر وہیں سے یاد دلایا:۔ ’’ڈرامے کو اُردو زبان میں نوٹنکی بھی کہا جاتا ہے۔ کراچی میں اکثر اُردو بولنے والے یہی کہتے ہیں کہ لو ہو گئی اس کی نوٹنکی شروع‘‘۔ دیکھیے کتنی کثرت سے استعمال ہونے والا لفظ ہم بھول بیٹھے تھے۔ اگرچہ ’نوٹنکی‘ دیہاتی ناٹک کو کہا جاتا تھا، مگر جو شہری اعزہ ہر روز ایک نیا ڈراما کرنا چاہتے ہیں اور کر نہیں پاتے، انھیں پروین آپا نے یہ سہولت فراہم کردی ہے کہ وہ ناکام ہوکر نوٹنکی شروع کرد
بات سے بات: ایک نہتی لڑکی ، اور اس کے بعد کیا؟۔۔۔ عبد المتین منیری
کرناٹک کے قصبہ منڈیا میں جنگلی مزاج ہجوم کےغول کے درمیان اٹھارہ انیس سالہ ایک نہتی لڑکی مسکان نے اللہ تعالی کی ذات پرایمانی ہمت، اعتماد اور بھروسہ کا جومظاہرہ کیا ہے، اس نے اچانک دنیا کے نظر ہندوستانی مسلمانوں کی حالت زار پر موڑ دی ہے، اور چند منٹ کی ایک ویڈیو نے وہ معجزاتی کرشمہ کردکھایا ہے، جو ہزاروں جلسے جلوسوں اور احتجاجات کے بعد بھی شاید رونما نہیں ہوسکتا تھا۔ اللہ تعالی اس بچی کو نظر بد سے بچائے، اور قیامت تک کے لئے یہ مسلمانان ہند وعالم کے لئے ہمت اور حوصلہ کا ایک روشن م
بات سے بات: اکابر کے شطحات کو اجاگر نہ کریں۔۔۔ عبد المتین منیری
ایک دوست نے گروپ پر حافظ ابن حجر عسقلانیؒ کے خفیہ طور پر تسبیح رکھنے کا واقعہ نقل کیا ہے۔ اس نقل میں ایک طرح سےنکیر بھی محسوس ہوتی ہے۔ اس پر تقریبا علماء کا اتفاق ہے کہ حافظ رحمہ اللہ کے بعد اس پایہ کا کوئی اور حافظ ومحدث پیدا نہیں ہوا، اوریہ کہ فتح الباری شرح البخاری میں آپ کی نقل کردہ سبھی حدیثیں صحیح ہیں۔ تسبیح کو ایک بڑا حلقہ بدعت اور ریا سمجھتا ہے۔ ان کی بھی دلیلیں ہیں۔ لیکن یہاں اس مسئلہ پر ہمیں بات نہیں کرنی ہے۔ایسے مسائل جنہیں علماء کا ایک بڑا حلقہ بدعات میں تصور کرتا ہے، اور حافظ ابن ح
سچی باتیں۔۔ نظریہ ڈارون۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1930-01-24 ڈاکٹر ہنری فیٹر فیلڈ آسیرنؔ کا شمار اس وقت سائنس کے مشاہیر علماء میں ہے۔ امریکنؔ میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے ڈاکٹر ہیں، بہت سے علمی ڈگریوں کا ضمیمہ اُن کے نام کے ساتھ لگاہواہے، متعدد مستند کتابوں کے مصنف ہیں، اور علم الحیات علم الحیوانات میں ان کا ماہر فن ہونا ، آج سے نہیں، بیس پچیس سال قبل سے مسلّم چلاآتاہے ۔ ڈارونؔ کے مسئلہ ارتقاء کے زبردست نقیبوں میں تھے۔ لیکن پانچ سال ہوئے اپنے ایک شریک کار ڈاکٹر اینڈریوزؔ کے ہمراہ وسطی ایشیا کے صحرائے گوبیؔمیں تحقیق وتفتیش کے لئے گئے، اُس وقت
سچی باتیں۔۔۔ نزول قرآن کا مقصد۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1930-01-03 ’’روشن خیال‘‘ طبقہ میں غلغلہ برپاہے، کہ قرآن ایک نہایت صاف، سادہ، وآسان کتاب ہے، مولویوں اور مُلّاؤں نے خواہ مخواہ اسے مشکل سمجھ رکھا، اور سمجھا رکھاہے۔ ’’تعلیم یافتہ‘‘ گروہ نے طے کرلیاہے، کہ قدیم مفسرین کے پیداکئے ہوئے ’’ڈھکوسلوں‘‘ سے آزاد ہوکر بغیر کسی اور کی وساطت کے براہِ راست خود ہی قرآن سمجھ لیا کریں گے، اور ہر مقرر ، ہر خطیب، ہر واعظ، ہر لکچرار، ہر مضمون نگار، ہر اڈیٹر، ہرانشاء پرداز، ہراہل قلم نے اپنی جگہ پریہ سمجھ رکھاہے، کہ قرآن کو جس طرح دل چاہے سمجھ لیا کریں گے، جس
یوگی آدتیہ ناتھ: آگے کنواں پیچھے کھائی... سہیل انجم
پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات پر پوری دنیا کی نظریں ہیں۔ بالخصوص اترپردیش کے الیکشن کو بڑی توجہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اترپردیش ایک ایسی ریاست ہے جو دہلی کی حکومت بناتی اور بگاڑتی ہے۔ یعنی جس نے یو پی کو فتح کر لیا وہ فاتح دہلی ہو گیا۔ مرکزی حکومت اس کے زیر نگیں آگئی۔ پورے ملک پر اس کا قبضہ ہو گیا۔ یوپی اسمبلی انتخابات کو 2024 کے پارلیمانی انتخابات کا سیمی فائنل سمجھا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ پوری بی جے پی بلکہ پوری حکومت یو پی کے قلعے
ایک چراغ اور بجھا۔۔۔ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری ی
مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کے انتقال کی رحلت نے واقعی غمزدہ کردیا، آپ کی عمر اندازا پچانوے کے قریب تھی،آپ اور مولانا محمد سالم قاسمیؒ، مولانا سید اسعد مدنیؒ،مولانا سلیم اللہ خانؒ اور مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتھم ہم جولی وہم درس تھے، ان کی حیثیت قوس قزح کے رنگوں کی تھی، جن میں سے اب ایک ہی رنگ باقی نظر آرہا ہے، اللہ آپ کا سایہ تادیر قائم رکھے، کیونکہ اب آپ کی بھی عمر ( ۹۳) بہاروں کو متجاوز کررہی ہے۔ ۔۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کی دہائی مولانا عتیق الرحمن مرحوم کی شہرت اور ع
سچی باتیں۔۔۔ مولانا عین القضاۃ فرنگی محلی۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1929-02-22 سیکڑوں برس اُدھر نہیں، اِسی بیسویں صدی عیسویں میں، اور کہیں بہت دُور نہیں، اسی شہر لکھنؤ میں ایک مشہور متقی ومرتاض بزرگ مولانا عین القضاۃؒ تھے، جن کی وفات ۱۹۲۵ء میں ہوئی ہے۔آپ نے تجدیدِ قرآن وعلم دین کا ایک بہت بڑا مدرسہ ، مدرسۂ فرقانیہ کے نام سے قائم فرمایا تھا، جو اب تک چل رہاہے۔ سیکڑوںطلبہ، بیسیوں اساتذہ، بہت بڑی عمارت، استادوں کی اچھی معقول تنخواہیں، انگریزی کالجوں اور اسکولوں کے بالکل برخلاف، طلبہ سے فیس لینا الگ رہا، اُلٹی خود اُنھیں کے مدرسہ کی طرف سے کھانے اور کپڑے، بلکہ
تبصرات ماجدی(۱۳۱)۔۔۔ اردو ۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادی
*(131) اردو* از جگن ناتھ صاحب آزاد 24صفحہ، قیمت چھ آنے، دہلی کتاب گھر، دہلی۔ نثر نہیں نظم ہے، ایک ہندو شاعر کی زبان سے چند سال قبل کی کہی ہوئی، لیکن حال میں دھرائی ہوئی، شاعر اب لاہوری نہیں 1947 کے خونیں واقعات کے بعد سے دہلوی ہیں، اپنا لٹا پٹا تحریری سرمایہ وطن سے لاسکے ہوں یا نہیں لیکن بڑی بات یہ ہے کہ اپنی شرافت کا سرمایہ تمام تر لیتے آئے ہیں – کلام آپ سنیں گے؟ سنا ہے ہند پر یوں حکمراں تھی آل تیموری کہ ملک ایک جسم تھا اور اس میں جاں تھی آل تیموری یہ تھا دور آدمیت کا شرافت کا مروت کا وط
غلطی ہائے مضامین ۔۔۔غوغائے رقیباں۔۔۔ ابو نثر
پچھلے ہفتے کی بات ہے، ایک عزیز دوست نے مشورہ دیا:۔ ’’حضور! اُردو میں استعمال ہونے والے فارسی محاوروں کی طرف بھی توجہ دیجیے‘‘۔ عرض کیا: ’’حضرت! یہاں تو اُردو محاوروں ہی کی مت ماری جارہی ہے، آپ کو فارسی کی پڑی ہے‘‘۔ مگر اتفاق سے اُسی دن اُردو صحافت کے ایک مردِ صالح کی تحریر میں ایک فارسی محاورہ یوں لکھا نظر آگیا: ’’صحبتِ طالع تُرا طالع کُند، صحبتِ صالح تُرا صالح کُند‘‘۔ جب اُردو ہی سے ناواقفیت میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے، تو اب فارسی کوکیا روئیں؟ ’طالع‘ تو اُردو میں بھی استعمال ہوتا ہے