سچی باتیں۔۔۔ انگریزی حکومت کی لوٹ مار۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

01:20PM Sun 27 Mar, 2022

 http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/

1930-03-21

گاندھی جیؔ کے اخبار میں مستند ذارئع سے حساب لگاکریہ شائع ہواہے، کہ ہندوستان کے بڑے لاٹ صاحب ، جناب وائسرائے ؔبہادر کی تنخواہ اور دوسرے سرکاری مصارف ملاکراُن کی ذات پر ہرسال ہندوستان کے خزانہ سے ۱۷۱۸۹۰۰(تقریبًا سواسترہ لاکھ) روپیہ خرچ ہوتاہے! یہ سالانہ مشاہرہ صرف ایک فرد کاہوا۔ اب سے سِول سروس اور دوسری اُن سروسوں کے عہدہ دار ، جن کے لئے فرنگی ڈگریوں اور فرنگی امتحانات کی، اور عملًا ایک بڑی حدتک فرنگی نسل ونسب کی بھی، قید لگی ہوئی ہے، اُن کے مشاہروں کی میزان جوڑنا ہی دشوارہے۔ موٹے اندازہ کے لئے یہ کافی ہے، کہ لی کمیشنؔ، جو ابھی چند سال ہوئے تحقیقات کے لئے مقرر ہواتھا، وہ سواکرور روپیہ سالانہ کی سفارش کرگیا ہے، علاوہ دوسرے مالی مراعات اوراُن افسروں کے بیوی بچوں کے لئے واپسی کے ٹکٹ وغیرہ کی……یہ کروروں روپئے کا باراُس ملک کے خزانہ پر پڑرہاہے، جس کے لاکھوں بلکہ کروروں بدنصیب باشندے یہی نہیں جانتے، کہ صبح سے لے کر شام تم دووقت پیٹ بھرکر کھانا مل جانا کسے کہتے ہیں؟

ہندو اپنے ’’ست جُگ‘‘ کو بھُلادیں۔ اپنے عہد کے راجوں مہاراجوں کا خیال دل سے نکال ڈالیں۔ آپ بھی کچھ دیر کے لئے یہ بھول جائیے، کہ حجاز ہی نہیں، سارے ملک عربؔ کے فرماں روا، ابو بکر صدیقؓؔ کس سادگی وغربت کے ساتھ زندگی بسر فرماتے رہے، فاتحِ اعظم عمر فاروقؓؔ نے پیوند لگے ہوئے پھٹے کپڑے پہن پہن کر، اور فرش زمین پر ہاتھ کا تکیہ لگالگاکر کس طرح عمر گزاردی، عثمان ذی النورینؓؔ باوجود غنی ہونے اور غنی کہلانے کے اپنی ذات کے لئے سرکاری خزانہ سے کیا لیتے رہے، علی مرتضیؓؔ نے عسرت وتنگدستی کو کس طرح ہنسی خوشی جھیل کر ساری عمر تمام فرمادی، اور سلمان فارسیؓؔ صوبہ کے گورنر ہونے کے باوجود بغیر گھر کے کس طرح بسرفرماتے رہے!آپ اپنے عمر بن عبد العزیزؒؔکو، سلطان ناصر الدین محمود ؒؔ  کو ، شاہ اورنگ زیب عالمگیرؒؔ کو بھی بھولے ہوئے رہئے۔ پراِسے کیا کیا کیجئے گا، کہ عین اسی بیسویں صدی میں، آپ کی آنکھوں کے سامنے، روسؔ کے وزرائے سلطنت تین ہزار سے زائد تنخواہ نہیں پاتے! روسؔ کو بھی چھوڑئیے، کہ ، وہ روسیہ بالشویک ہے، اور سرمایہ داری کا دشمن۔ خود فرانسؔ کے صدر جمہوریہ ۵۵ہزار روپیہ سالانہ، اور اس سے بھی بڑھ کر برطانیہ عظمیٰؔ کے وزیر اعظم ۷۰ہزار روپیہ سالانہ سے زائد نہیں پاتے! آخر میں دنیا کے سب سے زیادہ دولتمند ، اور صحیح معنی میں ’’زرخیز‘‘ مُلک امریکہ کو لیجئے، وہاں کے بھی صدر جمہوریہ ؔکا مشاہرہ ۲۰لاکھ روپیہ سالانہ سے بڑھنے نہیں پاتا!

اِن حالات کے معلوم ہوجانے کے بعد بھی کیا آپ کو اس پر تعجب رہے گا، کہ آپ کا ملک روز بروز مفلس سے مفلس ترہوتا جارہاہے؟ اور گرانی ہے، کہ برابر بڑھتی چلی جارہی ہے؟ اور پھر کیا اس پر حیرت باقی رہے گی، کہ ملک میں آزادی کی طلب برابر بڑھتی جارہی ہے، ’’شور‘‘و’’شورش‘‘ کی لہر ترقی پر ہے، قانون شکنی کی  تیاریاں زوروشور سے جاری ہیں، ’’بغاوت‘‘ کے چرچے دلوں سے گزر کر زبانوں پرآنے لگے ہیں، ’’انقلاب‘‘ کے نعرے علانیہ لگائے جانے لگے ہیں؛ اور کل تک جو وفاداری، ہواخواہی اور جاں نثاری کا دَم بھررہے تھے، وہ بھی آج ’’غدّاروں‘‘ اور شوریدہ سروں، باغیوں اور انقلابیوں کے ہمزبان وہمدردہوتے چلے جارہے ہیں؟ ہندوستان کی رعایا بڑی حلیم ، بردبار، بڑی قانع ومتحمل، بڑی صابر وشاکر سہی، پھر بھی بہرحال پہلو میں دل رکھتی ہے، سنگ وخشت تو نہیں رکھتی۔