Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















’ہم کہ ٹھہرے لکھنوی‘۔۔۔۔۔از:فرزانہ اعجاز
اپنے پیارے شہر لکھنؤ کے بارے میں اچھی اچھی باتیں لکھنا یا کہنا ایسا ہی لگتا ہے جیسے کوئ ’اپنے منھ میاں مٹھو بن رہا ہو ، ‘ لیکن ، وہ جو ایک شعر ہے نا کہ ’دوری نے کردیا ہے ، تجھے اور بھی قریب ۔۔۔۔ تیرا خیال آکے نہ جاۓ تو کیا کروں ‘۔۔۔ کچھ ایسا ہی معاملہ لکھنؤ چھوڑکر جانے والے لکھنویوں کے ساتھ اکثر ہوتا رہا ہے ، وہ اپنی مرضی خوشی سے جایئں یا کسی مجبوری کے تحت ، لکھنؤ انکے ساتھ ساتھ ہر جگہ موجود رہتا ہے ، دھیمے سروں میں بہنے والی دریاۓ گومتی کے اطراف بسا پرسکون اور خوبصورت شہر لکھنؤ ،وہ لکھنؤ
طلاق ، بہانہ شریعت، نشانہ۔۔۔از: مولانا سید احمد ومیض ندوی
عام انتخابات سے قبل جب وزیر اعظم نریندر مودی بی جے پی کی انتخابی مہم چلارہے تھے تو انہوں نے بار بار عوام کو تیقن دیا تھا کہ اقتدار ملنے کی صورت میں بہت جلد عوام کے لئے اچھے دن آئیں گے، کانگریس کی بے عملی سے بیزار عوام نے یہ سوچ کر کہ شاید مودی جی کچھ کرشمہ کردکھائیں گے، بی جے پی کو بھاری اکثریت سے کامیابی دلائی، اور خود اچھے دن کے ا نتظار میں دن شمار کرنے لگے، لیکن جب بی جے پی کے دو سالہ اقتدار نے ملکی عوام کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا تو مودی جی کے اچھے دنوں کی حقیقت کھل کر سامنے آئی، اچھے د
کیا پھر بھٹکل میں خون کی ہولی کھیلی جائے گی؟ ! (دوسری قسط)
از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... بھٹکل کے اس بھیانک اور مسلم کش فساد کو آج دو دہائیاں گزر چکی ہیں۔ ایک طرف وہ نسل ہے جو اس خونریز دور سے گزر چکی ہے۔اور آگ و خون کی گزری ہوئی اس ہولی کے مناظر ابھی اس کے ذہن و دل پر تازہ ہیں۔ دوسری طرف ایک پوری نئی نسل وجودمیںآئی ہے جوان خوفناک دنوں سے نابلد اور ناآشنا ہے۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ ہندو فسطائی طاقتیں اس کے بعد ہماری طرح خاموش ہوکر بیٹھ نہیں گئیں۔بلکہ انہوں نے اپنی نئی نسل کو اپنے زاویۂ نگاہ سے باخبر رکھا۔ حالانکہ فساد کا عذاب ت
شراب باہرشہاب جیل میں
از: حفیظ نعمانی اگر کسی کو دوچار لفظ لکھنا آتے ہوں تو یہ ضروری نہیں کہ وہ قانون سے بھی پوری طرح واقف ہو۔ ہم تو جمہوریت میں جمہوریت کے فیصلے کو اس لیے آخری فیصلہ سمجھتے ہیں کہ الیکشن میں ایسا ہی ہوتا ہے، بہار میں شراب بندی پر ووٹ تو نہیں ڈالے گئے تھے لیکن ہر عدالت اور انتظامیہ کو معلوم ہے کہ پورے بہار میں سو دو سو عورتوں کو چھوڑ کر تمام عورتوں کا مطالبہ تھا کہ بہار میں شراب بند کردی جائے، وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو دوسری بار جو بہار میں شاندار کامیابی ملی تو صرف اس وجہ سے کہ عورتوں کی اکثریت نے
اسلام کے پیمانے پر بدترین پڑوسی پاکستان
از: حفیظ نعمانی ساڑھے چار برس سے زیادہ ہوگئے بابو اکھلیش یادو اترپردیش جیسے جہازی صوبہ کے وزیر اعلیٰ ہیں اور وہ ہماری معلومات کی حد تک وہ اپنے بہن بھائیوںمیں بھی سب سے بڑے ہیں اور جس صوبہ کے وزیر اعلیٰ ہیں وہ بھی سب سے بڑا صوبہ ہے، اس کی وجہ سے انھیں اندازہ ہوگیا ہوگا کہ بڑا ہونا صرف انعام ہی نہیں امتحان بھی ہے۔اور انھیں اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ بڑے ملک کی ذمہ داری بھی بڑی ہوتی ہے۔ انھوں نے برسوں کے بعد پہلی بار اپنی حدوںسے نکل کر وزیر اعظم کو مخاطب کیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان سے ج
کیا پھر بھٹکل میں خون کی ہولی کھیلی جائے گی؟ !۔۔۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... بھٹکل شہر اور اس کے اطراف میں بسنے والے مسلمانوں کی دو خاصیتیں ہمیشہ فرقہ پرستوں کی آنکھ کانٹا ثابت ہوئی ہیں۔ ایک ہے ان کی مادی خوشحالی اور دوسری چیز ا ن کا دینی تشخص اور حمیت۔جس کی وجہ سے فسطائی قوتیں اسی منصوبہ بندی میں مصروف رہتی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح یہاں کے مسلمانوں کو زک پہنچانے کا موقع ہاتھ آئے۔اور آج کل سوشیل میڈیا پر شدت پسند گروپ کے پیغامات اور ان کا لب ولہجہ خاصا تشویشناک لگ رہا ہے۔جس ارباب حل و عقد کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ گئے دنوں کی بات!: آج
نتیش کمار کو شہاب الدین کا کھیل مہنگا پڑے گا۔۔۔۔۔۔ از:عابد انور
ہندوستان میں میڈیا کی گندی ذہنیت، پراگندہ سوچ، فرقہ پرستانہ جذبات و خیالات،سطحی اور منصفانہ احساسات سے عاری رویہ اور مسلمانوں کے تئیں نفرت و عداوت ایک بار پھر سامنے آگئی ۔اس کا ثبوت ہندوستانی میڈیا مستقل طور پر دیتا رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہندوستانی میڈیا پر لوگوں کا اعتبار اٹھ گیا ہے اور پوری دنیا میں ہندوستانی میڈیا کا واقار داؤ پر لگا ہوا ہے۔ لیکن ہندوستانی میڈیا ہندوتوا کے رتھ پر سوار عزت و وقار اور میڈیا کی آبروسے لاپروا ہوکر بار بار اپنی عزت تار تار کرواتا ہے۔ کئی بار منہ کی کھانے کے باوجود
بجنور میں پانچ مسلمانوں کا قتل: اترپردیش کو فساد میں جھونکنے کی تیاری۔۔۔۔۔۔۔۔از:عابد انور
ہندوستان میں کہیں بھی لڑکی کے ساتھ چھیڑ خانی کی جاتی ہے اور اس کا تعلق اعلی ذات کے ہندو سے ہوتا ہے تو ہندوستان قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ وزیر اعظم لیکر چپراسی تک بے چین ہوجاتا ہے اور میڈیا تو پھانسی دینے پر آمادہ نظر آتا ہے۔ اگر خدا نہ خواستہ چھیڑنے والوں کا تعلق مسلمان سے ہوتا ہے تو پھر کہنا ہی کیا۔ ہندوستانی جمہوریت کے چاروں ستون کو قانون کی یاد آنے لگتی ہے۔یہ چاروں ستون اتنے بے چین ہوجاتے ہیں جیسے کہ اس طرح کا ملک میں پہلا واقعہ پیش آیا ہو۔ زمین آسمان ایک کردیتے ہیں۔ ہائی کورٹ اور عدالت عظمی از خود
پرشانت کشور کی صلاحیت تسلیم!۔
از: حفیظ نعمانی ہم نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ اگر ہمارے قلم سے کوئی بات کسی کے خلاف نکلے تو ہم اپنی غلطی مان کر معافی مانگتے ہیں۔ ہم نے پرشانت کشورکے بارے میں جب بھی لکھا صرف یہ لکھا کہ انھوں نے اگر ۲۰۱۴ء میں مودی جی کی سرکار بنوائی تو ان کا کمال نہیں تھا بلکہ وہ تو کانگریس کی بداعمالیوں کی وجہ سے ہر آدمی ان سے ناراض تھا اور وہ کانگریس کو ہرانا چاہتا تھا۔ اسی طرح جب کہا گیا کہ بہار میں نتیش لالو محاذ کی کامیابی پرشانت کشور صاحب کی وجہ سے ہوئی تب بھی ہم نے کہا کہ اگر لالو یادو پر الیکشن لڑنے کی پا

A strategic vision for transformation
SAUDI ARABIA celebrates its 86th National Day on Sept. 23, 2016 with a strategic vision at hand that would take the Kingdom to new heights of progress and prosperity under the wise leadership of Custodian of the Two Holy Mosques King Salman, who has given top priority for the welfare and well-being of his citizens across the country. The Vision 2030, which was unveiled by Deputy Crown Prince Muhammad Bin Salman, chairman of the Council of Economic and Development Affairs on April 25, 2016, is

کیا پاکستان کے معنی چین ہیں؟
از: حفیظ نعمانی ۳۱؍جولائی 1965ء کی رات کو ۱۰ بجے 15افسروں اور 300پولیس کے جوان ہمیں گرفتار کرنے اور ندائے ملت کے مسلم یونیورسٹی نمبر کی جتنی بھی کاپیاں ملیں، ضبط کرنے اور میرے مکان ’’اخبار کے ادارتی دفتر‘‘ میرے پریس اور ڈاکٹر آصف قدوائی کے مکان کی تلاشی میں رات کے ۳ بجے تک مصروف رہے۔اس کے بعد گرفتاری کی رسم ادا کی گئی۔ یکم اگست اتوار تھا۔ عدالتیں بند تھیں اس لیے وہ پورا دن ہر قلم اور ہر سطح کے افسروں سے سوال و جواب میں گذرا اور شام کو ایک مجسٹریٹ کے گھر پر حاضری ہوئی اور جیل روانگی کا پروانہ
وزیر دفاع بتائیں کہ شہیدکو کیا کیا دیتے ہیں؟
از: حفیظ نعمانی این ڈی ٹی وی انڈیا میں ہفتے میں چار دن رات کو 9 بجے سے ایک گھنٹہ کا پروگرام پرائم ٹائم آتا ہے جسے رویش کمار ایڈٹ کرتے ہیں، کل پروگرام شروع ہوا تو مخدوم محی الدین کے کہے ہوئے ایک گیت ’’تو کہاں جارہا ہے سپاہی‘‘ بجنا شروع ہوا اور فلیش بیک میں فوجیوں کی نقل و حرکت ، گاڑیوں کے اتار چڑھائو، اسلحہ کی نمائش اور اُڑی کے حادثہ میں قربان ہونے والے فوجیوں کی آخری رسوم کی تیاری کے مناظر دکھائے گئے۔ اس کے بعد رویش کمار خود سامنے آئے اور انھوں نے نمدیدہ آنکھوں سے اور غم میں ڈوبی ہوئی آو
بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے!۔
از: حفیظ نعمانی دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو یہ نہ سوچیں کہ میں جو کہہ رہا ہوں اس سے اسی(۸۰) فیصد لوگ ناراض ہوجائیں گے اور صرف ۲۰ فیصدی خوش ہوں گے لیکن اس کی پرواہ نہ کریں اور جسے حق سمجھیں وہ کہہ دیں۔ سپریم کورٹ کے سابق جج مسٹر مارکنڈے کاٹجو بھی ان میں سے ایک ہیں جو کبھی اس کا خیال نہیں کرتے کہ کون خوش ہوگا اور کون ناراض۔ وہ اس بات کو کہہ دیتے ہیں جسے سمجھتے ہیں۔ ۲۰۰۲ء میں گجرات میں جو ہوا وہ اب آخری مرحلہ میں ہے اور جسے سزا دینا تھی دے دی گئی اور جسے رہا کرنا تھا رہا کردیا گیا، صرف دو
حملہ کا جواب مذمت نہیں،حملہ ہے
از: حفیظ نعمانی فوج کے 17جوانوں کی قربانی اور 25جوانوں کے زخمی ہونے کا واقعہ حادثہ نہیں، حملہ ہے۔ جیش محمد ہو، لشکر طیبہ ہو یا جماعت الدعوہ، جنھوں نے بھی چار بدبختوں کو جہاد اور شہادت کے فضائل سنا سنا کر جنت کا یقین دلا کر ہندوستان کی سرحد میں داخل ہو کر اندھا دھند گولیاں برسانے کے لیے اور جواب میں شہادت کی موت حاصل کرنے کے لیے تباہی کے سامان لاد کر بھیجا تھا انھوں نے میلوں پاکستا ن کی سرحد پر سفر کیا ہوگا اور ہندوستانی تجربہ کاروں کے نزدیک چار گھنٹے ہندوستان کی سرحد کے اندر سفر کیا ہوگا۔ ان
اچھے دن آ گئے!..........مگر کس کے؟!(دوسری قسط)۔۔۔۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... ّ آج سے تقریباً بارہ سال قبل گجرات کے ہولناک مسلم کش فسادات کے پس منظر میں بنگلورکے ایک ریسارٹ میں ملک گیر سطح کی ایک میڈیا کانفرنس ہوئی تھی۔ جس میں تیستا ستیلواد، کلدیپ نیر ، مکل سکند، عزیز برنی، پرواز رحمانی، سید شہاب الدین وغیرہ جیسی سیکولرازم اور امن و سلامتی کے لیے جدو جہد کرنے والی ہندوستان کی نامورغیر سیاسی شخصیات اور صحافت کے ستون موجود تھے۔ آنے والے دور کی تصویر: اس وقت میں نے اوپن سیشن میں اسٹیج پر موجود ان شخصیات سے ایک سوال کیا تھا کہ مجھے یہ محسوس
حکومت کسی کی ہو جان مسلمان کی جائے گی
از: حفیظ نعمانی بجنور وہ شہر ہے جو کبھی حافظ ابراہیم کی وجہ سے ہندو مسلم اتحاد کا نمونہ ہوا کرتا تھا۔ حافظ صاحب کے بعد ان کے بڑے بیٹے عتیق صاحب بجنور کی نمائندگی کرتے رہے اور ان کے بعد ان کے چھوٹے بھائی عزیز صاحب بجنور کی نمائندگی کرتے رہے، لیکن یاد نہیں کہ کبھی بجنور میں ہندو مسلم مسئلہ پیدا ہوا ہو اور نوبت وہ آگئی ہو جو ۱۶ ستمبر کو پیش آئی کہ ذرا سی بات پر ۴ مار دئے اور ۱۲ زخمی ہوگئے۔ اگر اس کی جڑ تلاش کی جائے تو وہی نکلے گی کہ ملک کے پہلے وزیرداخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کو حکم دیا گیا
کیا دفعہ 324کی تلوار چلے گی؟
از: حفیظ نعمانی یہ بات آج کی نہیں کہ اترپردیش کانگریس کے صدر مسٹر راج ببر نے کہہ دیا کہ اگر ہماری حکومت بنی تو کسانوں کے تمام قرض معاف کردئے جائیںگے اور بجلی کا بل آدھا کردیا جائے گا۔ اگر الیکشن کمیشن کانگریس کے ہر الیکشن کے انتخابی منشور اور اس کی پانچ سال کی کارکردگی کو دیکھے گا تو اسے ایک گھنٹہ نہیں لگے گا کہ وہ اس کا رجسٹریشن کینسل کردے گا۔ اترپردیش کی حکومت کو ساڑھے چارسال سے زیادہ اور مرکزی حکومت کو دو سال سے زیادہ ہوچکے ہیں، اگر الیکشن کمیشن دونوں کا جائزہ لے تو آئین کی دفع
شام: فائر بندی کا سمجھوتہ،تقسیم کا پیش خیمہ؟
از: آصف جیلانی شام میں صلح کی خاطر، امریکا اور روس کے درمیان ، فائر بندی کے سمجھوتہ پر بہت غلغلہ ہے ، لیکن گذشتہ پانچ سال سے جاری تباہ کن اور خونریز خانہ جنگی پر گہری نظر رکھنے والوں کے نزدیک یہ سمجھوتہ در اصل ، عراق کی طرح شام کو ، شیعہ، سنی اور کرد علاقوں میں تقسیم کرنے کا پیش خیمہ ہے۔ جنیوا میں گذشتہ سنیچر کو ۱۳ گھنٹوں کے طویل مذاکرات کے بعد ، امریکا کے وزیر خارجہ جان کیری اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لیوروف نے اعلان کیا ہے کہ شام میں فائر بندی کے بارے میں سمجھوتہ طے پاگیا ہے۔ پیر کو عید ا