Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















اتحاد کی گولی کڑوی مگر مفید ہے
از: حفیظ نعمانی وہ منظر ہماری طرح نہ جانے کتنے لوگوں کی آنکھوں میں گھوم رہا ہوگا جب کانگریس کمیٹی کے دفتر کے باہر سماج وادی پارٹی سے کانگریس کے اتحاد کا اعلان ہورہا تھا اور صوبائی صدر راج ببر ایسے بیٹھے تھے جیسے ۸؍نومبر 2016کی رات کو نوٹوں سے بھرے بریف کیس ردّی کاغذبنادئے گئے تھے اور ۱۰؍ کی صبح کو ان کے گھر پر بارات آنے والی ہو اور وہ نہ استقبال کرنے کے قابل ہوں اور نہ بارات کو روکنے کی پوزیشن میں ہوں۔ اور دکھ اس کا بھی تھا کہ یہ اعلان کرتے وقت کہ کانگریس 105سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑا کریگی م
مَلک، مِلک اور مُلک
تحریر : اطہر ہاشمی آئیے آج پہلے اپنی خبر لیتے ہیں۔ سنڈے میگزین کے تازہ شمارے (22 تا 28 جنوری) میں ایک دلچسپ نظم ہے، صفحہ 24 پر۔ پہلا شعر ہے: بوچھار میں کلکاریاں بھرتا ہوا بچہ ماں ہول رہی ہے کہیں گر جائے نہ چھجہ شعر اچھا ہے، اس میں نیا پن ہے۔ لیکن شاعر کو شاید کلکاریاں کا مطلب نہیں معلوم۔ اول تو یہ کہ کلکاریاں بھری نہیں جاتیں، ماری جاتی ہیں اور اس عمل سے چھجے کے گرنے کا کوئی خدشہ نہیں ہوتا، ماں خوامخواہ ہول رہی ہے۔ شاید شاعر کا خیال ہے کہ کلکاریاں بھرنے کا مطلب اچھل، کود کرنا ہے۔ کلکاری
فی الوقت کے لئے
تحریر : اطہر ہاشمی گزشتہ دنوں عمرو عیار کے حوالے سے کچھ لکھا تھا، جس پر اسلام آباد سے محبی ظفر محمود شیخ کی فرمایش موصول ہوئی کہ ’’عمرو‘‘ کے صحیح تلفظ پرگ بھی توجہ دلا دیں۔ ان کی یہ فرمایش یا فہمائش گزشتہ پیر کو ایک اخبار میں نصف صفحے کا اشتہار دیکھ کر یاد آگئی۔ یہ ایک بینک کا اشتہار ہے جس کے مضمون میں ایک جملہ ہے ’’اتھمار گروپ کے چیئرمین شہزادہ امربن محمد الفیصل۔۔۔‘‘ اس اشتہار کا متن انگریزی میں ہوگا جس کا ترجمہ شائع ہوا ہے۔ ہمارا گمان ہے کہ اتھمار تو ’اثمار‘ ہوگا، کیوں کہ انگریزی میں ’’ث‘‘ کو
ہم کے ٹہرے لکھنوی ۔ تحریر : فرزانہ اعجاز
اپنے پیارے شہر لکھنؤ کے بارے میں اچھی اچھی باتیں لکھنا یا کہنا ایسا ہی لگتا ہے جیسے کوئ ’اپنے منھ میاں مٹھو بن رہا ہو ، ‘ لیکن ، وہ جو ایک شعر ہے نا کہ ’دوری نے کردیا ہے ، تجھے اور بھی قریب ۔۔۔۔ تیرا خیال آکے نہ جاۓ تو کیا کروں ‘۔۔۔ کچھ ایسا ہی معاملہ لکھنؤ چھوڑکر جانے والے لکھنویوں کے ساتھ اکثر ہوتا رہا ہے ، وہ اپنی مرضی خوشی سے جایئں یا کسی مجبوری کے تحت ، لکھنؤ انکے ساتھ ساتھ ہر جگہ موجود رہتا ہے ، دھیمے سروں میں بہنے والی دریاۓ گومتی کے اطراف بسا پرسکون اور خوبصورت شہر لکھنؤ ،وہ لکھنؤ کہ
کس منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشق باز
از: حفیظ نعمانی ملک میں جب اور جہاں الیکشن کی بات ہورہی ہے تو ذکر اترپردیش اور پنجاب کا ہورہا ہے۔ اترپردیش میں بی جے پی اور بی ایس پی دو پارٹیوں نے یہ سوچ لیا تھا کہ کانگریس اور سماج وادی پارٹی الگ الگ لڑیں گی تو مسلمان ووٹ تین جگہ تقسیم ہوجائیں گے اور نمبر ہمارا آجائے گا۔ ایک امید یہ بھی تھی کہ ملائم سنگھ کو سائیکل کا نشان مل جائے گا یا سائیکل کسی کو نہیں ملے گی تو سماج وادی ووٹ دو جگہ تقسیم ہوجائے گا۔ غرض کہ دونوں پارٹیوں کی ساری عمارت اس پر موقوف تھی کہ پرائی اینٹیں ملیں گی تو ہمارا گھر بھ
اوباما کا دور۔۔امیدوں کی کہکشاں کی گمشدگی کا دور
از: آصف جیلانی امریکا کا وہ تاریخی دور ختم ہوگیا جو پہلی بار ایک افریقی امریکی صدر کے انتخاب سے شروع ہوا تھا ، جس سے وابستہ امیدو ں کی جو کہکشاں ابھری تھی وہ آٹھ سال بعد ناکامیوں کی تاریکیوں میں گم ہوگئی۔سنہ 2008میں انتخابی مہم کے دوران ، اوباما نے بش کے دور میں قائمکئے گئے گوانتا ناموبے کے عقوبت خانہ کو امریکی تاریخ کا افسوس ناک باب قرار دیا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ وہ انتخاب جیتنے کے بعد فوراً گوانتاناموبے کو بند کردیں گے ، صدارت کا حلف اٹھانے کے دو روز بعد انہوں نے اس عقوبت خانہ کے 779قیدیو
ٹرمپ کے دور کا آغاز، طوفانوں کے جھرمٹ میں
از: آصف جیلانی ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم طوفان سے کم نہیں تھی، لیکن اب ٹرمپ کے صدارتی دور کا آغاز ، ایک نہیں بلکہ کئی طوفانوں کے جھرمٹ میں ہو رہا ہے۔ کئی دہائیوں کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ امریکا کے نئے صدر شدید تنازعات کے ساتھ اپنی معیاد شروع کر رہے ہیں۔ انتخابی مہم اور انتخابی جیت کے بعد ، ڈونلڈ ٹرمپ جو گہر افشانی کرتے رہے ہیں اس کے پیش نظر اس بارے میں کوئی شبہ نہیں کہ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالتے ہی میکسیکو کی سرحد سے لے کر چین تک افق پر تباہ کن طوفان امڈ آئیں گے۔ یہ طوفان چار علاقوں میں نمای
کانگریس بھی اکھلیش کو بوجھ لگنے لگی
از: حفیظ نعمانی اترپردیش میں بہار کے طرز پر متحدہ محاذ کی بات سال بھر سے چل رہی تھی۔ یہ تو ممکن ہی نہیں تھا کہ اکھلیش یادو کے ساتھ مایاوتی اتحاد کرلیں اور اگر وہ پیش کش کرتیں بھی تو اب کانگریس کے علاوہ کون تھا جو ان پر بھروسہ کرتا؟ کانگریس نے پرشانت کشور کے ذریعہ چاہا تھا کہ سماج وادی پارٹی اور کانگریس مل کر الیکشن لڑیں۔ اس سلسلہ میں ملائم سنگھ اور اکھلیش یادو سے گفتگو ہوئی تھی۔ چودھری اجیت سنگھ بھی چاہتے تھے کہ وہ بھی اس محاذ کا حصہ بن جائیں اور اکھلیش یادو نے بھی کئی بار کہا تھا کہ اگر ہم ا
امت شاہ کے دربار میں حاضری این ڈی کی سزا
از: حفیظ نعمانی ایسا بڑھاپا جس میں اتنا مجبور ہوجانا پڑے کہ اپنی رائے نہ ہو اور دوسروں کا حکم حرف آخر ہو سزا سے کم نہیں ہے۔ دو دن سے سابق وزیر اعلیٰ اترپردیش ، سابق وزیر اعلیٰ اتراکھنڈ اور سابق گورنر راجستھان شری نرائن دت تواری گفتگو کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ انہیں اپنی جوانی کی ایک غلطی کی سزا تو ۶ فٹ کے ایک بیٹے اور اس کی ماں کی شکل میں ملی ہے جو اب ان کی پتنی ہیں۔ اور دوسری سزا یہ ملی ہے کہ بتایا جارہا ہے کہ تواری جی اپنے بیٹے کو بی جے پی میں ایسے ہی داخل کرانے لے گئے ہیں جیسے اسے اس وقت کسی
سیاسی آوارگی بھی بند ہونا چاہیے
از: حفیظ نعمانی زیادہ دنوں کی بات نہیں ہے کہ بہوجن سماج پارٹی کے ہاؤس میں حزب مخالف لیڈر سوامی پرساد موریہ ہوا کرتے تھے وہ تو کماری مایاوتی پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ ان سے بھی ٹکٹ دینے پیسے کے مانگ رہی تھیں اس لیے انھوں نے پارٹی سے استعفیٰ دے دیا اور مایاوتی کہتی ہیں کہ وہ اپنے بیٹے اور بیٹی کے لیے بھی ٹکٹ مانگ رہے تھے اس لیے میں انہیں نکالنے والی ہی تھی کہ وہ بھاگ گئے۔اب یہ تو خدا جانے کہ اصلیت کیا تھی؟ لیکن ان کے باہر آنے پر وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے بھی ایسے جذبات کا اظہار کیا تھا جیسے انہی
بدلتے روز و شب، نیا سال اور کیلنڈر کی کہانی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے……….. از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ نئے سال کا جشن منانے کے حوالے سے بات جو شروع ہوئی تو مطالعہ اور تحقیق کے دوران کئی حقائق ایسے سامنے آئے جن کے تعلق سے اکثر ذہن میں سوال اٹھا کرتے تھے۔ اورکچھ باتیں جو ذہن و دل پر پہلے ہی سے واضح تھیں ان کے لئے دلائل بھی ہاتھ لگے۔ ہمارا دانشور طبقہ تو ان نکات سے آشنا ہوگا ہی، مگر میں چاہتا ہوں کہ ہمارے باشعور اور تعلیم یافتہ نوجوان دوستوں کے ساتھ ان معلومات کو شیئر کروں۔ کیونکہ نئے سال کا جشن منانے کے سلسلے میں ماڈرن طبقے کے علاوہ کچ
مودی کو مہاتما گاندھی بنانے کی کوش
از: کلدیپ نیئر اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ کھڈی بورڈ نے وزیراعظم نریندر مودی کی اس تصویر کی اشاعت کے لیے اجازت دی ہے جس میں انھیں مہاتما گاندھی کے انداز سے چرخہ کاتتے ہوئے دکھایا گیا ہے حالانکہ یہ وزیراعظم کے آفس کی اجازت کے بغیر کیا گیا ہے۔ غالباً کسی نے نچلی سطح سے بورڈ کو ایسا کرنے کا کہا ہو گا لیکن عوام کی طرف سے اس قدر شور و غوغا پیدا ہوا کہ اس کی تردید لازمی ہو گئی۔ حتیٰ کہ وزیراعظم کے دفتر کی طرف سے کسی ٹھوس موقف کا اظہار نہیں کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے پر بڑی سختی سے انتبا
پارٹی ٹوٹی نہیں منتقل ہوئی ہے
از:حفیظ نعمانی اگر سماج وادی پارٹی کی گھر بدلی کی کہانی غور سے پڑھی جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ یہ اصلی مال کا بورڈ لگا کر نقلی مال بیچنے کی سزا ہے جو ملائم سنگھ کو بڑھاپے میں ملی ہے۔ وہ جمہوریت کا بورڈ لگائے ہوئے تھے اور آمریت کا کاروبار کررہے تھے۔ ان کا بار بار یہ کہنا کہ میں نے تنکا تنکا جوڑ کر یہ پارٹی بنائی تھی، یہی آمریت ہے۔ تنکا تنکا جوڑ کر گھونسلہ بنتا ہے باغ نہیں بنتا۔ الیکشن کمشنر نے جو فیصلہ کیا وہ جمہوریت پر کیا ہے آمریت پر نہیں۔ الیکشن جمہوریت کا سب سے روشن چہرہ ہے اور ۲۲۸ میں ۲۰
مزہ اس ملاپ میں ہے جو صلح ہوجائے جنگ ہوکر
از:حفیظ نعمانی ملائم سنگھ نے دیکھ لیا کہ اب ان کے پاس کچھ نہیں بچا ہے اور لڑنے کا وقت نہیں ہے تو انھوں نے لالو جیسے دوست اور خاندان کے دباؤ میں آکر وہ فیصلہ کیا جس سے دشمنوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور اکھلیش نے پھر ثابت کیا کہ وہ صرف جسمانی طور پر ہی نہیں دماغی طور پر بھی بہت پھرتیلے ہیں۔ انھوں نے ملائم سنگھ کو پوری طرح شیشے میں اتارنے کے صرف ایک گھنٹے کے اندر اندر ان کے سامنے وہ خوبصورت پوسٹر رکھ دیا جس میں ملائم سنگھ کی تصویر پر بڑی تھی اور اکھلیش کی چھوٹی۔ اور دوسرا پوسٹر بھی جس م یں درم
ٹرمپ کی کابینہ، تضادات سے بھرپور پٹارہ
از: آصف جیلانی امریکا کے منتخب صدر ،ڈونلڈ ٹرمپ نے جب اپنی کابینہ کے اراکین نامزد کئے تھے تو اس وقت کہا گیا تھا کہ یہ بھان متی کا کنبہ ہے لیکن اب سینیٹ کی کمیٹی کے سامنے ، نامزدگیوں کی سماعت کے دوران ، کابینہ کے اراکین کے جو نظریات اور موقف سامنے آئے ہیں ،ان کے پیش نظر کابینہ تضادات سے بھر پور پٹارہ نظر آتی ہے۔ بہت سے اہم امور اور مسائل کے بارے میں ان کا موقف منتخب صدر ٹرمپ سے بالکل مختلف اور ان کے نظریات کے بر عکس نظر آتے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران، ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ امریکا میں مس
صدارتی نظام کے پہلے مرحلے میں کامیابی۔۔۔۔از: فرقان حمید
ایردوان ترکی کا ایک ایسا سپوت ہے جس نے ناکامیوں کو ٹھوکر مارکر اپنے لئے کامیابی کی راہ ہموار کی ہے۔ ان کی زندگی کا مقصد پسے ہوئے اور مظلوم ترکوں کے ساتھ ماضی میں کئے جانے والے ظلم و ستم اور زیادتیوں کا ازالہ کروانا ہے۔ اسی سوچ کے ساتھ انہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغا زکیا۔ ایردوان ترکی کے ایک ایسے رہنما ہیں جن کو مختلف چالوں، حربوں اور بغاوتوں کے ذریعے اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے لیکن یہ چالباز کبھی اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوسکے بلکہ ان حربوں اور ناکام بغاوتوں کے بعد ایردوان کی مقب
ہر شاخ پہ الّو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا
از:حفیظ نعمانی سماج وادی پارٹی میں اب تلواریں باہر آگئی ہیں، کہیں سے کوئی آواز ایسی نہیں آتی جس میں مصالحت کا اشارہ ہو۔ اعظم خاں بھی اپنی پوری طاقت اور صلاحیت قربان کرکے اب خاموش ہیں۔ سنا ہے کہ آخری ٹیلی فون ملائم سنگھ نے اپنے بیٹے کو کیا تھا کہ اب بھی مان لو کہ میں قومی صدر ہوں لیکن رام گوپال کو وہ چھوڑنے پر تیار نہیں ہوئے۔ آج شہرت کی حد تک انتخابی نشان کا فیصلہ ہوجائے گا۔ اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ سائیکل کسے ملی یا کسی کو بھی نہیں ملی۔ اس لیے کہ دونوں نے متبادل پارٹی اور نشان تیار کر
مسلمانوں کو بچانے والے اور مروانے والے کیا برابر ہوسکتے ہیں؟
از:حفیظ نعمانی دیش نیتا مہاتما گاندھی کی پہچان صرف چرخہ نہیں ہے۔وہ کھدر کی دھوتی بھی ہے جس میں اتنا کپڑا بھی نہیں ہوتا تھا جتنا مودی جی کی ایک پگڑی میں ہوتا ہے اور ایک پہچان یہ بھی ہے کہ انھوں نے زیادہ تو برت اس لیے رکھے کہ ملک کی اقلیت مسلمانوں کو نہ مارا جائے اور نہ ستایا جائے۔ ان کی پرارتھنا سبھا میں رگھوپتی راگھو راجا رام ہی نہیں قرآن پاک کی آیات اور انجیل کی تعلیم کا بھی کچھ حصہ سنایا جاتا تھا۔ وغیرہ وغیرہ۔ اور مودی جی کی پہچان یہ ہے کہ وہ پروین تگڑیاں کے ساتھ ایک زمانے میں گجرات میں ہن