Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















پِل اور پُل
از: اطہر ہاشمی ہمارے ٹی وی اینکرز ہی نہیں، بظاہر پڑھے لکھے تجزیہ کار بھی اردو کے الفاظ کا تلفظ بگاڑتے ہیں تو اس کا ایک فائدہ بھی ہے۔ کچھ لوگ غلط تلفظ سن کر اسے صحیح کرنے پر تل جاتے ہیں۔ اب کوئی صاحب تُل کو تَل یا تِل نہ پڑھیں کہ یہ لفظ زیر اور زبر کے ساتھ بھی ہے اور مطلب ہر ایک کا جدا۔ یہ احتیاط اس لیے کہ گزشتہ جمعرات کو جب ہماری مقدس و محترم قومی اسمبلی میں دھینگا مشتی ہوئی تو ایک ٹی وی کے نیوز اینکر بتا رہے تھے کہ فریقین ایک دوسرے پر پَل پڑے۔ یہ پَل بالفتح اور بروزن جل یا پاگل، بادل کا ہم قاف
الیکشن کی سیاست اور مسلمان
از: حفیظ نعمانی مولانا ابوالکلامآزادؒ کو امام الہند مانیں نہ مانیں لیکن ان کی فراست کے بارے میں صرف ان کے مخالف ہی مخالفت کرسکتے ہیں ورنہ یہ سب نے تسلیم کیا ہے کہ وہ ملک اور مسلمانوں میں سب سے زیادہ دور اندیش تھے۔ ہم ان خوش نصیبوں میں ہیں جنھوں نے اس لکھنؤ میں انہیں تقریر کرتے ہوئے دیکھا اور سنا تھا اور انھوں نے 1948میں جیسے درد بھرے انداز میں کہا تھا کہ جو ہونا تھا وہ ہوگیا لیکن اب ہندوستان میں مسلمانوں کو اپنی الگ کوئی سیاسی پارٹی بنانے کی ضرورت نہیں اور مولانا نے جمعیۃعلماء ہند سے بھی جو ا
ایک اورایک گیارہ
از: حفیظ نعمانی لکھنؤ نے کل جودیکھا اس کے بارے میں اندازہ تھا کہ کچھ ایساہی ہوگا لیکن خطرہ کے بادل بھی اس لیے ڈرا رہے تھے کہ جو اتحاد نعروں اور بینڈ باجوں کے شور میں ہونا چاہیے تھا وہ ایسے ہوا تھا جیسے کسی کی ۱۳ویں یامسلمان کا تیجہ ہورہا ہے اور ہر کوئی اندازہ کررہا تھا کہ مارے باندھے کا سودا ہے۔ لیکن کل جو ہوا اور جس انداز میں ہوا اس کے بعد اس کا خطرہ نہیں رہا کہ انجام کیا ہوگا؟ جس کھلے دل سے راہل اور اکھلیش ایک دوسرے کے ساتھ تھے اور جس اپنائیت کا مظاہرہ کررہے تھے وہ مصنوعی نہیں ہوسکتا۔ اکھل
وزیر اعظم ظالم ہیں یا مظلوم فیصلہ آپ کریں
از: حفیظ نعمانی اپنے ملک کے وزیر اعظم پر بے انتہاظلم ہوں اور اس کے بارے میں کچھ نہ لکھا جائے یہ اس سے بھی بڑا ظلم ہے۔ جالندھر کے ایک انتخابی جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے درد بھرے انداز میں کہا کہ تین مہینوں میں میرے اوپر کیا کیا ظلم ہوئے ہیں یہ میں ہی جانتا ہوں لیکن میں ظلم کے سامنے جھکتا نہیں ہوں۔ یہ بات ہم نہیں کئی حضرات نے کہی ہے کہ مودی جی کو جھوٹ بولنا بہت پسند ہے۔ وہ یہاں بھی شاید اس لیے جھوٹ بول گئے کہ کوئی دوسرا یہ نہ کہہ دے کہ وزیر اعظم گزشتہ تین مہینوں میں ۱۲۵ کروڑ عوام پر
بدلتے روز و شب، نیا سال اور کیلنڈر کی کہانی۔۔(قسط نمبر ۲)
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے……….. از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ دنیامیں بدلتے موسموں کے لحاظ سے زمانے کو دنوں اور مہینوں میں تقسیم کرنے کا رواج قدیم زمانے سے رہا ہے۔ انسانی تاریخ میں سب سے پہلا کیلنڈر کس نے ایجاد کیا اس بارے میں کوئی یقینی بات سامنے نہیں آتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تقریباً تمام قدیم تہذیبوں کے اپنے کیلنڈر رہے ہیں۔ ماناجاتا ہے کہ مصری تہذیب نے سب سے پہلے چاند کی گردش کو بنیاد بناکر قمری کیلنڈر استعمال کرنے کے بجائے سورج کے گرد زمین کی گردش کو بنیاد بناکر شمسی کیلنڈر ایجاد کیا تھا
افتخار امام صدیقی کو ۔ ہندی والوں کا اعزاز دینا
تحریر: ندیم صدیقی کوئی بیس بر س اُدھر کی بات ہے کہ ہم نے ایک ایسے معذور امریکی شخص کو دیکھا کہ جو دونوں ٹانگوں سے محروم تھا کسی حادثے میں اُس کی ٹانگیں چلی گئی تھیں مگر وہ جو کہتے ہیں حوصلہ اور ہمت ہو تو کسی طرح کی جسمانی معذوری کوئی معنیٰ نہیں رکھتی۔ اس امریکی معذور شخص کی جرأت ، ہمت نیز حوصلے کوہم بھلا نہیں سکے۔ اُس کی دونوں اصلی ٹانگوں کی جگہ مصنوعی ٹانگیں لگی ہوئی تھیں اور وہ معذورں کی ایک ریس میں حصہ
اتحاد کی گولی کڑوی مگر مفید ہے
از: حفیظ نعمانی وہ منظر ہماری طرح نہ جانے کتنے لوگوں کی آنکھوں میں گھوم رہا ہوگا جب کانگریس کمیٹی کے دفتر کے باہر سماج وادی پارٹی سے کانگریس کے اتحاد کا اعلان ہورہا تھا اور صوبائی صدر راج ببر ایسے بیٹھے تھے جیسے ۸؍نومبر 2016کی رات کو نوٹوں سے بھرے بریف کیس ردّی کاغذبنادئے گئے تھے اور ۱۰؍ کی صبح کو ان کے گھر پر بارات آنے والی ہو اور وہ نہ استقبال کرنے کے قابل ہوں اور نہ بارات کو روکنے کی پوزیشن میں ہوں۔ اور دکھ اس کا بھی تھا کہ یہ اعلان کرتے وقت کہ کانگریس 105سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑا کریگی م
مَلک، مِلک اور مُلک
تحریر : اطہر ہاشمی آئیے آج پہلے اپنی خبر لیتے ہیں۔ سنڈے میگزین کے تازہ شمارے (22 تا 28 جنوری) میں ایک دلچسپ نظم ہے، صفحہ 24 پر۔ پہلا شعر ہے: بوچھار میں کلکاریاں بھرتا ہوا بچہ ماں ہول رہی ہے کہیں گر جائے نہ چھجہ شعر اچھا ہے، اس میں نیا پن ہے۔ لیکن شاعر کو شاید کلکاریاں کا مطلب نہیں معلوم۔ اول تو یہ کہ کلکاریاں بھری نہیں جاتیں، ماری جاتی ہیں اور اس عمل سے چھجے کے گرنے کا کوئی خدشہ نہیں ہوتا، ماں خوامخواہ ہول رہی ہے۔ شاید شاعر کا خیال ہے کہ کلکاریاں بھرنے کا مطلب اچھل، کود کرنا ہے۔ کلکاری
فی الوقت کے لئے
تحریر : اطہر ہاشمی گزشتہ دنوں عمرو عیار کے حوالے سے کچھ لکھا تھا، جس پر اسلام آباد سے محبی ظفر محمود شیخ کی فرمایش موصول ہوئی کہ ’’عمرو‘‘ کے صحیح تلفظ پرگ بھی توجہ دلا دیں۔ ان کی یہ فرمایش یا فہمائش گزشتہ پیر کو ایک اخبار میں نصف صفحے کا اشتہار دیکھ کر یاد آگئی۔ یہ ایک بینک کا اشتہار ہے جس کے مضمون میں ایک جملہ ہے ’’اتھمار گروپ کے چیئرمین شہزادہ امربن محمد الفیصل۔۔۔‘‘ اس اشتہار کا متن انگریزی میں ہوگا جس کا ترجمہ شائع ہوا ہے۔ ہمارا گمان ہے کہ اتھمار تو ’اثمار‘ ہوگا، کیوں کہ انگریزی میں ’’ث‘‘ کو
ہم کے ٹہرے لکھنوی ۔ تحریر : فرزانہ اعجاز
اپنے پیارے شہر لکھنؤ کے بارے میں اچھی اچھی باتیں لکھنا یا کہنا ایسا ہی لگتا ہے جیسے کوئ ’اپنے منھ میاں مٹھو بن رہا ہو ، ‘ لیکن ، وہ جو ایک شعر ہے نا کہ ’دوری نے کردیا ہے ، تجھے اور بھی قریب ۔۔۔۔ تیرا خیال آکے نہ جاۓ تو کیا کروں ‘۔۔۔ کچھ ایسا ہی معاملہ لکھنؤ چھوڑکر جانے والے لکھنویوں کے ساتھ اکثر ہوتا رہا ہے ، وہ اپنی مرضی خوشی سے جایئں یا کسی مجبوری کے تحت ، لکھنؤ انکے ساتھ ساتھ ہر جگہ موجود رہتا ہے ، دھیمے سروں میں بہنے والی دریاۓ گومتی کے اطراف بسا پرسکون اور خوبصورت شہر لکھنؤ ،وہ لکھنؤ کہ
کس منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشق باز
از: حفیظ نعمانی ملک میں جب اور جہاں الیکشن کی بات ہورہی ہے تو ذکر اترپردیش اور پنجاب کا ہورہا ہے۔ اترپردیش میں بی جے پی اور بی ایس پی دو پارٹیوں نے یہ سوچ لیا تھا کہ کانگریس اور سماج وادی پارٹی الگ الگ لڑیں گی تو مسلمان ووٹ تین جگہ تقسیم ہوجائیں گے اور نمبر ہمارا آجائے گا۔ ایک امید یہ بھی تھی کہ ملائم سنگھ کو سائیکل کا نشان مل جائے گا یا سائیکل کسی کو نہیں ملے گی تو سماج وادی ووٹ دو جگہ تقسیم ہوجائے گا۔ غرض کہ دونوں پارٹیوں کی ساری عمارت اس پر موقوف تھی کہ پرائی اینٹیں ملیں گی تو ہمارا گھر بھ
اوباما کا دور۔۔امیدوں کی کہکشاں کی گمشدگی کا دور
از: آصف جیلانی امریکا کا وہ تاریخی دور ختم ہوگیا جو پہلی بار ایک افریقی امریکی صدر کے انتخاب سے شروع ہوا تھا ، جس سے وابستہ امیدو ں کی جو کہکشاں ابھری تھی وہ آٹھ سال بعد ناکامیوں کی تاریکیوں میں گم ہوگئی۔سنہ 2008میں انتخابی مہم کے دوران ، اوباما نے بش کے دور میں قائمکئے گئے گوانتا ناموبے کے عقوبت خانہ کو امریکی تاریخ کا افسوس ناک باب قرار دیا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ وہ انتخاب جیتنے کے بعد فوراً گوانتاناموبے کو بند کردیں گے ، صدارت کا حلف اٹھانے کے دو روز بعد انہوں نے اس عقوبت خانہ کے 779قیدیو
ٹرمپ کے دور کا آغاز، طوفانوں کے جھرمٹ میں
از: آصف جیلانی ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم طوفان سے کم نہیں تھی، لیکن اب ٹرمپ کے صدارتی دور کا آغاز ، ایک نہیں بلکہ کئی طوفانوں کے جھرمٹ میں ہو رہا ہے۔ کئی دہائیوں کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ امریکا کے نئے صدر شدید تنازعات کے ساتھ اپنی معیاد شروع کر رہے ہیں۔ انتخابی مہم اور انتخابی جیت کے بعد ، ڈونلڈ ٹرمپ جو گہر افشانی کرتے رہے ہیں اس کے پیش نظر اس بارے میں کوئی شبہ نہیں کہ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالتے ہی میکسیکو کی سرحد سے لے کر چین تک افق پر تباہ کن طوفان امڈ آئیں گے۔ یہ طوفان چار علاقوں میں نمای
کانگریس بھی اکھلیش کو بوجھ لگنے لگی
از: حفیظ نعمانی اترپردیش میں بہار کے طرز پر متحدہ محاذ کی بات سال بھر سے چل رہی تھی۔ یہ تو ممکن ہی نہیں تھا کہ اکھلیش یادو کے ساتھ مایاوتی اتحاد کرلیں اور اگر وہ پیش کش کرتیں بھی تو اب کانگریس کے علاوہ کون تھا جو ان پر بھروسہ کرتا؟ کانگریس نے پرشانت کشور کے ذریعہ چاہا تھا کہ سماج وادی پارٹی اور کانگریس مل کر الیکشن لڑیں۔ اس سلسلہ میں ملائم سنگھ اور اکھلیش یادو سے گفتگو ہوئی تھی۔ چودھری اجیت سنگھ بھی چاہتے تھے کہ وہ بھی اس محاذ کا حصہ بن جائیں اور اکھلیش یادو نے بھی کئی بار کہا تھا کہ اگر ہم ا
امت شاہ کے دربار میں حاضری این ڈی کی سزا
از: حفیظ نعمانی ایسا بڑھاپا جس میں اتنا مجبور ہوجانا پڑے کہ اپنی رائے نہ ہو اور دوسروں کا حکم حرف آخر ہو سزا سے کم نہیں ہے۔ دو دن سے سابق وزیر اعلیٰ اترپردیش ، سابق وزیر اعلیٰ اتراکھنڈ اور سابق گورنر راجستھان شری نرائن دت تواری گفتگو کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ انہیں اپنی جوانی کی ایک غلطی کی سزا تو ۶ فٹ کے ایک بیٹے اور اس کی ماں کی شکل میں ملی ہے جو اب ان کی پتنی ہیں۔ اور دوسری سزا یہ ملی ہے کہ بتایا جارہا ہے کہ تواری جی اپنے بیٹے کو بی جے پی میں ایسے ہی داخل کرانے لے گئے ہیں جیسے اسے اس وقت کسی
سیاسی آوارگی بھی بند ہونا چاہیے
از: حفیظ نعمانی زیادہ دنوں کی بات نہیں ہے کہ بہوجن سماج پارٹی کے ہاؤس میں حزب مخالف لیڈر سوامی پرساد موریہ ہوا کرتے تھے وہ تو کماری مایاوتی پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ ان سے بھی ٹکٹ دینے پیسے کے مانگ رہی تھیں اس لیے انھوں نے پارٹی سے استعفیٰ دے دیا اور مایاوتی کہتی ہیں کہ وہ اپنے بیٹے اور بیٹی کے لیے بھی ٹکٹ مانگ رہے تھے اس لیے میں انہیں نکالنے والی ہی تھی کہ وہ بھاگ گئے۔اب یہ تو خدا جانے کہ اصلیت کیا تھی؟ لیکن ان کے باہر آنے پر وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے بھی ایسے جذبات کا اظہار کیا تھا جیسے انہی
بدلتے روز و شب، نیا سال اور کیلنڈر کی کہانی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے……….. از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ نئے سال کا جشن منانے کے حوالے سے بات جو شروع ہوئی تو مطالعہ اور تحقیق کے دوران کئی حقائق ایسے سامنے آئے جن کے تعلق سے اکثر ذہن میں سوال اٹھا کرتے تھے۔ اورکچھ باتیں جو ذہن و دل پر پہلے ہی سے واضح تھیں ان کے لئے دلائل بھی ہاتھ لگے۔ ہمارا دانشور طبقہ تو ان نکات سے آشنا ہوگا ہی، مگر میں چاہتا ہوں کہ ہمارے باشعور اور تعلیم یافتہ نوجوان دوستوں کے ساتھ ان معلومات کو شیئر کروں۔ کیونکہ نئے سال کا جشن منانے کے سلسلے میں ماڈرن طبقے کے علاوہ کچ
مودی کو مہاتما گاندھی بنانے کی کوش
از: کلدیپ نیئر اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ کھڈی بورڈ نے وزیراعظم نریندر مودی کی اس تصویر کی اشاعت کے لیے اجازت دی ہے جس میں انھیں مہاتما گاندھی کے انداز سے چرخہ کاتتے ہوئے دکھایا گیا ہے حالانکہ یہ وزیراعظم کے آفس کی اجازت کے بغیر کیا گیا ہے۔ غالباً کسی نے نچلی سطح سے بورڈ کو ایسا کرنے کا کہا ہو گا لیکن عوام کی طرف سے اس قدر شور و غوغا پیدا ہوا کہ اس کی تردید لازمی ہو گئی۔ حتیٰ کہ وزیراعظم کے دفتر کی طرف سے کسی ٹھوس موقف کا اظہار نہیں کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے پر بڑی سختی سے انتبا