Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















ملائم سنگھ اب جو کررہے ہیں وہ زیادہ مہلک ہے۔۔۔از: حفیظ نعمانی
یادو خاندان میں اگر کسی سے تعارف اور تعلق ہے تو وہ شیوپال یادو سے ہے۔ ان کے بھائی نیتاجی ملائم سنگھ اور بھتیجا اکھلیش یادو کو جتنا کچھ جانتے ہیں وہ ان کی سیاست اور انداز حکومت تک محدود ہے۔ ملائم سنگھ نے اپنی خوشی سے اکھلیش یادوکو وزیر اعلیٰ بنایا تھا اور ان کے اس فیصلہ سے عام طور پر خوشی نہیں منائی گئی تھی۔ اکھلیش یادوکے بارے میں یہ محسوس ہوتا تھا کہ انہیں حکومت تو دے دی ہے لیکن شاید وہ ایسی حکومت ہے جیسی لالو پرشاد یادونے اپنی بیوی رابڑی دیوی کو دے دی تھی۔ کہ قدم قدم پر ملائم سنگھ انہیں ٹوکتے ت
ہماری ہیروئن کا عروج و زوال۔۔۔از: وسعت اللہ خان
انیس سو نواسی میں ایک اخبار میں یہ خادم ریڈیو مانیٹرنگ کرتا تھا۔ایک روز اچانک سے برما طویل آمرانہ گمنامی سے نمودار ہوا اور خبری ریڈار پر چھا گیا۔ برمی فوج نے رنگون میں جمہوریت نواز مظاہروں پر گولی چلا دی۔ درجنوں افراد ہلاک ، بیسیوں زخمی اور سیکڑوں گرفتار۔ برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گذارنے والی برمی قائدِ اعظم آنگ سان کی صاحبزادی سوچی گرفتار اور رنگون کے یونیورسٹی روڈ پر جھیل کے کنارے نوآبادیاتی دور کے بنے آبائی گھر میں نظر بند۔حالانکہ وہ صرف چار ماہ کے لیے اپنے وطن آئی تھیں اور ان کا
شریعت اور یونیفارم سول کوڈ : اصل مسئلہ کچھ اور ہے۔۔۔ از: ڈاکٹر ظفر الاسلام خان
آر ایس ایس خاندان اور کچھ دوسرے لوگ یونیفارم سول کوڈ کا مطالبہ کررہے ہیں ۔یہ لوگ دستورہند کے توجیہی مبادیDirective principlesکا سہارا لے کر یہ بات کرتے ہیں، حالانکہ دستور ہند میں اس کے علاوہ مزیدبائیس (۲۲ (توجیہی مبادی موجود ہیں جن پر آج تک عمل نہیں ہوا اور وہ یہ ہیں: شراب بندی اور منشیات پر پابندی (آرٹیکل ۴۷) ،حفظان صحت(آرٹیکل ۴۷) ، سب کو تعلیم ، غذا اور معیاری معیشت کی فراہمی اور غریب عوام کو ہر طرح کے استحصال سے بچانا(آرٹیکل ۴۶)، مردو زن کی برابری ، وسائل کی عادلانہ تقسیم اوردولت کو چند ہاتھو
نربھیا کے بعد بلقیس کو بھی ایسا ہی انصاف ملے۔۔از: حفیظ نعمانی
یہ وقت کی بات ہے یا اپنا اپنا نصیب کہ ایک 23 سالہ طالبہ کو بس میں سفر کے دوران وہ سب جھیلنا پڑا جو خدا کسی کو نہ دکھائے۔ اور اس دردناک اور شرمناک واقعہ کے ردّعمل میں ہزاروں لڑکیاں جلتی ہوئی شمع لے کر سڑکوں پر آگئیں، پورا سیاسی سماج انگشت بدنداں رہ گیا لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی خواتین ممبروں نے ہاؤس کو سر پر اٹھا لیا اور میڈیا وہ ٹی وی ہو یا اخبار خبروں سے رنگ گئے۔ اور حکومت نے دہلی ہی نہیں سنگاپور تک کے اسپتالوں میں علاج کے ذریعہ اسے بچانا چاہا اور جب وہ جانبر نہ ہوسکی تو اس کے تابوت کو لینے کے
کسی قیامت کا انتظار ہے؟ ایم ودودساجد
ممبئی اور دہلی سے یکے بعد دیگرے دو فیصلے آئے۔ ممبئی ہائی کورٹ نے گجرات میں 2002میں رونما ہونے والے بدنام زمانہ بلقیس جہاں اجتماعی عصمت دری واقعہ میں سفاک مجرموں کو عمر قید کی توثیق کی۔اورسپریم کورٹ نے دسمبر 2012میں رونما ہونے والے دہلی کے بدنام زمانہ ’نربھیااجتماعی عصمت دری ‘ واقعہ میں سفاک درندوں کی سزائے موت کی توثیق کی۔ اب دردمندافراد اس پر متفکر ہیں کہ نربھیا کے مجرموں کوتو سزائے موت مگر بلقیس کے مجرموں کو سزائے عمر قید ؟۔بظاہر یہ ایک بڑا سوال تو ہے۔اس سوال کی اہمیت کو یکسر مسترد نہیں کیا جا
جی چاہتا ہے ؟ کس نے کہا ’ مت خریدیے‘!۔۔۔۔از: ندیم صدیقی
( روزنامہ ’’ ممبئی اردو نیوز‘’ کا تازہ کالم۔ شب و روز) آج اس کالم کو لکھنے سے پہلے ہم نے اسی اخبار میں(عالِم نقوی کے) ایک مضمون میں مولانا علی میاںؒ ندوی کے تعلق سے جوکچھ پڑھا وہی اس کالم کو لکھنے کا سبب بنا۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ’ اب ہمارے ہاں حق گو نہیں رہے۔‘ لوگوں کا یہ بھی خیا ل ہے کہ حق گو تو ہمارے ہاں گاجر مولی کی طرح موجود ہیں یہ اور بات کہ جب آزمائش کا وقت آتا ہے تو یہی ’ حق گو‘ لوگ صرف Go ہی گو ہو جاتے ہیں۔ ۔۔۔دراصل زندگی کا ہر شعبہ آج بازار بن گیا ہے اوربازار کے اپ
دلتوں سے نفرت نہ کرو اُن کو علم سکھاؤ۔۔۔از: حفیظ نعمانی
بہوجن سماج پارٹی میں طرہ کہ اور مایاوتی کی غلامی میں ہاؤس کے اندر نیلی ٹوپی پہن کر پانچ برس تک غنڈہ گردی کرنے والے موریہ نے جب مایاوتی کو چھوڑا تھا تو الزام لگایا تھا کہ ٹکٹ دینے کے لئے وہ مجھ سے بھی پیسے مانگ رہی تھیں۔ جس کے جواب میں مایاوتی نے کہا تھا کہ صرف اپنے لئے نہیں بیٹے اور بیٹی کے لئے بھی ٹکٹ مانگ رہے تھے اور انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ میں انہیں نکالنے والی ہوں اس لئے وہ بھاگ گئے۔ انہوں نے جب پارٹی چھوڑی تو سماج وادی پارٹی کو اُمید تھی کہ وہ اُن کے ساتھ آجائیں گے۔ لیکن 70 سال سے دلت کی
روٹیاں سیدھی کرنا ۔۔۔۔ از: اطہر ہاشمی
سنڈے میگزین کے تازہ شمارے (۳۰!اپریل تا۶مئی) میں دونئے محاورے نظر سے گزرے ۔یہ ٹھیک ہے کہ زبان وہی برقرار رہتی اور وسعت پاتی ہے جس میں انجذاب کی صلاحیت ہو،یعنی وہ دوسری زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر جذب کرکے ان کو اپنے طور پر نئے معنی بھی پہناسکے۔لیکن کسی بھی زبان میں محاوروں سے چھیڑ چھاڑنہیں کی جاتی۔ مذکورہ شمارے میں ایک ادیبِ طبیب شیر شاہ سید کا انڑویوشائع ہوا ہے جسے تحریر کرنے والے بھی ایک شاعر اور ادیب ڈاکٹر نثار احمد نثارہیں ۔ڈاکٹر شیر شاہ کے افسانوں کے مجموعوں کی تعداد ۸ہے او
راج ببر بھی شوق پورا کرکے دیکھ لیں
از: حفیظ نعمانی قانونی طور پر ہمارا تعلق نہ کبھی کانگریس سے رہا اور نہ سماج وادی پارٹی سے بلکہ کسی بھی سیاسی پارٹی کی ممبر شپ یا عہدے یا ذمہ داری کا کوئی تعلق نہیں رہا۔ لیکن کانگریس کے حق میں بھی بہت کچھ لکھا اور کہا اور اس کی مخالفت میں بھی اگر حالات کا تقاضہ ہوا تو گھوڑے دوڑائے۔ 2017 ء کا الیکشن کتنا نازک تھا اس کا اندازہ آج ہر اس آدمی کو ہورہا ہوگا جو بی جے پی کی سیاست کو غلط سمجھ رہا تھا۔ اور یہ بھی اسے اندازہ ہورہا ہوگا جو وہ اب دیکھ رہا ہے کہ یہ تو سوچا بھی نہیں تھا۔ مس مایاوتی اگر خود
ندائے ملت کی خصوصی اشاعت(مسلم یونیورسٹی نمبر)۔۔۔از: حفیظ نعمانی
یہ وہ نمبر ہے جس کی 15ہزار کاپیاں چھپی تھیں جن میں سے صرف 1550ہم اپنی مرضی سے باہر بھیج سکے باقی 13450حکومت نے ضبط کرلیں یہ بات ۲۹؍ اپریل کی ہے کہ میرے بھانجے میاں اویس سنبھلی کا فون آیا کہ مسلم یونیورسٹی نمبر جو آپ کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے وہ کب سے نہیں دیکھا؟ میں نے بتایا کہ ۳۱؍ جولائی 1965کی رات کو اسے آخری بار ۴؍ بجے دیکھا تھا اس کے کے بعد ۹ مہینے جیل میں گذر گئے پھر الٰہ آباد ہائی کورٹ میں اس کی واپسی کی کے چکر میں بار بار الہ آباد ہائی کورٹ جانا ہوا۔ اور وہاں ناکامی کے بعد سپریم
کامن سول کوڈ صرف مسلمانوں کا مسئلہ تھوڑی ہے؟ !( پہلی قسط)۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
ہندوستان میں یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کی راہیں ہموار کرنے کی کوششوں کا سلسلہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایک زمانے سے یہ مسئلہ وقفے وقفے سے سر اٹھاتا اور سرخیوں میں اچھلتا رہا ہے۔مگر اب کے تشویش ضرور اس بات پر ہے کہ مرکز میں فسطائیت کی علمبردار طاقت کے برسر اقتدار آجانے اور پورے ملک میں زعفرانی آندھی تیز ہوجانے کی وجہ سے سے اب اسے عملی طورپر لاگو کرنے کی طرف پوری قوت اور شدت سے قدم اٹھائے جانے کے آثار نظر آرہے ہیں اور امکانات بڑھتے جارہے ہیں۔ مگرمسئلے کا پیچیدہ پہلویہ ہے کہ فسطائی سنگھ پریوار نے ماحو
ہماری غفلت کا ہی یہ نتیجہ ہے۔۔۔از:حفیظ نعمانی
ممتاز صحافی سہیل انجم ایک ایسے دوست ہیں جن کی دوستی قابل فخر ہے۔ وہ آج کے ان چند صحافیوں میں ہیں جو اُردو صحافت پر چھائے ہوئے ہیں۔ مسلم لڑکیوں کو ہندو بنانے کی وہ مہم جو بنگال میں بی جے پی نے لوجہاد کے جواب میں چلائی ہے۔ اس کی رپورٹ پر انہوں نے فکر کا اظہار کیا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ ہر مسلمان کو وہ چاہے جس پیشے سے وابستہ ہو اس خبر سے تکلیف ہوگی۔ لیکن ہندوستان ایک ملک کے بجائے ایک چھوٹی سی دنیا ہے اور مختلف علاقوں کے اپنے اپنے حالات ہیں۔ مغربی بنگال وہ علاقہ ہے جہاں مسلمانوں میں غربت اور جہالت سب س
حیدرآباد پر ۱۹۴۸ کے فوجی حملے کے بارے میں نئی کتاب
سنہ ۱۹۴۸ میں ریاست حیدرآباد پر ہندوستانی افواج نے ہر طرف سے حملہ کرکے قبضہ کرلیا اور اس پورے عمل کو ’’پولیس ایکشن‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس حملے کے دوران ہزاروں بے قصور مسلمان مارے گئے، لاتعداد عورتوں کی عصمتیں تار تار کی گئیں اور بے شمار گھروں کو لوٹا اور تباہ کیا گیا۔ اس حملے کی تفاصیل اب تک بڑی حد تک پردۂ نسیان میں پڑی رہی ہیں اور آج تک ان کا اعتراف نہیں کیا گیا ہے۔ اب اس حملے کا شکار ہونے والے ایک شخص نے آگے آکر حملے سے پہلے ، اس کے دوران اور بعد میں جو کچھ ہوا اسے ریکارڈ پر رکھا ہے۔ اس حملے

کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی
راجستھان کی ریاست الور میں یکم اپریل کو یعنی تقریباً ایک مہینہ پہلے ایک شرمناک واقعہ پیش آیا تھا کہ جے پور کے مویشی میلے سے دودھ دینے والی گائیں خریدکر چند مسلمان ہریانہ لئے جارہے تھے الور میں ان کی گاڑی کو روک کر غنڈوں کی ایک بھیڑ نے ان مسلمانوں کو اتارا اور الزام لگایا کہ وہ گایوں کو اسمگل کرکے لئے جارہے ہیں۔ گائے لانے والوں کے پاس خریداری کی رسیدیں تھیں وہ دکھانے پر بھی بھیڑ نہیں مانی اور مارپیٹ شروع کردی جن میں ایک پہلو خاں نام کے مسلمان کو سب نے پیٹ پیٹ کر لاتوں گھونسوں سے اتنا مارا کہ اس ن
ہندی اور انگریزی کا جھگڑا
از: کلدیپ نیئر پہلے یہ کام اس وقت کے وزیر داخلہ گلزاری لال نندہ نے کیا تھا جب انھوں نے ہندی زبان کو خصوصی اہمیت دینے کا سوال اٹھایا تھا۔ اب مرکزی وزیر مملکت برائے امور داخلہ کرن ریجی جو نے وہی بات کی ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ گلزاری لال نندہ کے اعلان پر تامل ناڈو کے بہت سے لوگوں نے احتجاج کرتے ہوئے خود کو آگ لگا لی تھی۔ مگر شکر ہے کہ اس مرتبہ ایسا نہیں ہوا۔ نندہ نے مرکزی حکومت کے اداروں کو ہدایت کی تھی کہ فائلوں پر نوٹ ہندی زبان میں لکھے جائیں اور افسر لوگ اپنا مؤقف بھی ہندی زبان م
دوہرا یا دہرا ۔۔۔ از : اطہر ہاشمی
خاکساری اور انکساری پر ہمارا کالم(۷تا۱۳ اپریل) فرائیڈے اسپیشل کے ذمہ داران کو اتنا پسند آیا کہ اگلے ہفتے بھی وہی لگادیا تاکہ جو پڑھنے سے رہ گیا ہو وہ بھی پڑھ لے۔اس کالم کے حوالے سے عزیزم کلیم چغتائی نے تبصرہ کیاکہ انکسا ر کو انکساری لکھنے کا جرم عرصہ دراز تک ان سے بھی سرزد ہوتارہاتا آنکہ استادِ محترم مشکور حسین یاد نے تحریری توبیخ کی کہ یہ آپ کیا انکساری لکھتے رہتے ہیں، درست لفظ انکسار ہے۔ اس پر بھی کلیم چغتائی باز نہ آئے تو دوسرے بڑے استادِ محترم ڈاکٹر فرمان فتح
حمیت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے! (دوسری اور آخری قسط)
حمیت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے دوسری اور آخری قسط آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ اسلاف کے پاک سروں کی عظمت کے طفیل جنہیں سرداری کا اعزاز ملا تھا جب ملک گیر سطح پران کے سر محض دنیاوی لذّتِ فانی کے لئے اغیارکے در پر خم ہونگے تو حمیت ملّی سے سرشار دلوں کا خون کے آنسو رونا فطری رد عمل ہے۔طرفہ تماشہ تویہ ہے کہ دعوت دین کے علمبردارکہ جن پر نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے کی ذمہ داری سب سے زیادہ عائد ہوتی ہے،وہ سیاسی و سماجی قائدین کی اسی نامبارک و نا مسعود جر
ایڈوانی گروپ کی سزا میں دو سال کا اضافہ ۔۔۔از: حفیظ نعمانی
سپریم کورٹ کے محترم جج صاحبان نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ہندو نواز فیصلہ کو مسترد کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ ایل کے ایڈوانی سے لے کر ونے کٹیار تک بی جے پی کے ان تمام لیڈروں پر مقدمہ چلتا رہے گا جن پر 6 دسمبر 1992کو مسجد کو منہدم کرنے کی سازش کا مقدمہ ۲۵ برس سے رائے بریلی کی عدالت میں چل رہا تھا۔ اور ان کے ماتھے پر جو اپرادھی لکھ دیا گیا تھا وہ اتنے ہی روشن الفاظ میں لکھا رہے گا جو مقدمہ قائم کرتے وقت لکھ دیا گیا تھا۔ دن کی روشنی میں انجام دیا جانے والا شرم ناک واقعہ اور ۱۹۹۵ء سے رتھ یاترا کے ذ