Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















آنکھ نے جو کچھ کہ دیکھا:ایک تجزیہ ۔۔۔تحریر : ڈاکٹر عباس رضا نیر
محترمہ فرزانہ اعجاز کا شمار ادیبوں کی اس فہرست میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی تصنیف و تالیف سے شہر لکھنو کا نام روشن کیا ہے۔وہ باذوق شاعرہ،افسانہ نگار اور صاحبِ طرز ادیبہ ہیں اور سماجی اور ادبی حلقوں میں کافی معروف و مشہو ر ہیں۔ان کا تعلق لکھنو کے مشہور فرنگی محل خاندان سے ہے۔وہ خاندان جس میں آج سے پچاس برس قبل بھی تعلیم نسواں کا رواج تھا۔علاوہ اس کے گھر کا ماحول بھی بے حد علمی و ادبی تھا۔حیات اللہ انصاری کے خاندان سے تعلق رکھنے والی فرزانہ اعجاز کا بچپن بھی قدآور علمی شخصیات کے درمیان گزرا،یہی وجہ ہ
لال قلعہ سے وزیراعظم کی چوتھی تقریر ۔۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی
15 اگست 2017 ء کو لال قلعہ سے وزیراعظم نریندر مودی کی یہ چوتھی تقریر تھی۔ اور اس کے بعد 15 اگست 2018 ء کو وہ اس پارلیمنٹ کی آخری تقریر کریں گے۔ اس تقریر میں انہیں صرف یہ بتانا تھا کہ گذرے ہوئے تین برسوں میں انہوں نے اور ان کی حکومت نے کس کا کتنا ساتھ دیا اور ملک کا کتنا وکاس کیا؟ اور جن بے روزگار نوجوانوں نے 2014 ء میں ہر قدم پر مودی مودی کے نعرے لگائے تھے اور کسی دوسرے کے منھ سے ایک لفظ بھی سننے کے بجائے بس مودی مودی کے نعرے لگائے تھے ان میں سے کتنوں کو روزگار ملا۔ اور انہوں نے نعرے لگانے چھوڑے
سینٹ جانسن اسکول ۔ لال اسکول ۔۔۔ : از : فرزانہ اعجاز
زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ جب ’اسکول دو طرح کے ہوا کرتے تھے ، ایک تو سرکاری یا غیر سرکاری اسکول یا دوسری طرح کے اسکول جو انگریزی میڈیم اسکول یا ’مشن اسکول ‘ کہلاتے تھے ۔جہاں سینیئر کیمرج اور جویئر کیمرج کے امتحان ہوا کرتے تھے ، جنکی کاپیاں پانی کے جہازوں میں لد لدا کر لندن جاتی تھیں اور مہینوں بعد وہاں سے ’ ، رزلٹ ‘ آتا تھا ،سنتے ہیں کہ کبھی کاپیاں کسی سمندر میں ڈوب جاتی یا مرطوب ہوا کی وجہ سے کاپیوں پر لکھی تحریر مٹ جاتی تھی ،پتہ نہیں سنا تھا ۔ ایسے اسکول جنوری میں اپنا نیا تعلیمی سال شروع کرتے
Keep children away from Blue Whale Challenge
New Delhi: Blue Whale Challenge has claimed several lives across the globe. In the name of a challenge, the deadly game urges children to commit suicide. Those who accept the challenge are encouraged to complete a number of given tasks which get more and more sinister and at the end of the game, the player is forced to take their own life in order to win the game. The Blue Whale suicide game goes by many names including ‘A Silent House,’ ‘A Sea of Whales’ and ‘Wake Me Up At 4:20 am.’ It ta
تبصرہ کتب : محدثین اندلس
نام کتاب :محدثینِ اندلس مصنفہ :ڈاکٹر جمیلہ شوکت پروفیسر امریطس۔ شعبہ علوم اسلامیہ جامعہ پنجاب۔ لاہور صفحات : 532 قیمت 800 روپے ناشر : یو ایم ٹی پریس۔ پبلشنگ ہاؤس یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی۔ C-11 جوہر ٹاؤن لاہور ای میل : umtpress@umt.edu.pk ویب گاہ : www.umt.edu.pk اندلس یا ہسپانیہ یا اسپین وہ ملک ہے جس پر مسلمانوں نے سیکڑوں سال حکومت کی ہے۔ اب ان کا وجود وہاں مفقود ہے۔ اندلس، یورپ کے جنوب مغرب میں ایک جزیرہ نما ہے جس کے تین طرف سمندر اور ایک طرف خشکی ہے۔ مشرق میں بحیرہ روم
اردو کاجذب اُس کی گیرائی اور سمائی ۔۔۔ تحریر: ندیم صدیقی
ریگل سینما (ممبئی) اور جس سرکل پر میوزیم واقع ہے، عین اُسی کے سامنےسرکاؤس جی جہانگیر ہال ہے ، جو، اب ہماری ناقص معلومات کے مطابق آرٹس گیلری میں تبدیل ہوگیا ہے۔ شاید آج لوگوں کو یہ یقین کرنے میں تردد ہو کہ اسی جہانگیر ہال میں ہم نے اُردو مشاعرہ سنا ہے۔ یومِ ِاقبال کے موقع پر’ اُردو ادب عالیہ‘ کے زیر ِاہتمام جلسہ ومشاعرہ منعقد ہواتھا ۔ اس جلسے کی مسندِ صدارت پر ڈاکٹر ظ انصاری جلوہ افروز تھے تو اسی جلسے میں ہم نے پہلی بار مشہورمراٹھا وِدوان، فارسی کے اسکالر سیتو مادھو راؤ پاگڑی کی تقر
آفت زدہ افرادکی اعانت ہماراانسانی ودینی فریضہ ۔۔۔۔از: مولانااسرارالحق قاسمی
اسلام نے ویسے تو ہمیشہ ہی اپنے بھائیوں،پڑوسیوں اور جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں وہاں کے لوگوں کے ساتھ بلاتفریق مذہب و ملت احسان اور اچھے برتاؤ،خیرخواہی و ہمدردی کا حکم دیاہے مگر بعض خاص موقعوں اور ناگہانی حالات میں ہماری یہ ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔قدرت کی جانب سے بعض دفعہ ہماری آزمائش کے لئے اور کبھی کبھی ہماری بداعمالیوں کی وجہ سے بھی مصیبت و آفت کا سامنا کرنا پڑتاہے ،ایسے حالات میں سب سے پہلے توہمیں اپنے روزمرہ کے اعمال اور اپنے کردار و اخلاق کا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم بطورمسلمان اپنے دین اور دینی اح
چھلنی بھی بولی جس میں 72 چھید۔۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی
گورکھ پور میڈیکل کالج میں ایک ہفتہ پہلے جو کچھ ہوا اور اس کا سلسلہ برابر جاری ہے اس کے متعلق حکومت اور اپوزیشن وہی کررہی ہیں جو ہمیشہ ہوتا رہا ہے کہ حکومت کہتی ہے کہ اس کی کوئی غلطی نہیں ہے اور حزب مخالف کی ہر پارٹی کا دعویٰ ہے کہ صرف حکومت کی غلطی ہے۔ گورکھ پور کے معاملہ میں ہم جیسوں کا خیال تھا کہ شاید وہ نہ ہو جو ہر حکومت کرتی رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ریاست کے وزیر اعلیٰ کلف دار سفید کرتہ اور دودھ کی طرح سفید دھوتی پہنے ہوئے نہیں ہیں بلکہ وہ کپڑے اور اسی رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے جن کے پہننے ک
فرنگی بیماریاں۔ اطہر ہاشمی
ہمارے ہاں بہت کچھ باہر سے آتا ہے حتیٰ کہ کبھی کبھار وزیراعظم بھی۔ ہمارے اداروں کے نام بھی فرنگی ہیں۔ اور تو اور بیماریاں بھی انگریزی یا لاطینی میں حملہ آور ہوتی ہیں۔ چکن گونیا کا شکار ہوئے تو یہی سوچتے رہے کہ اپنی زبان میں اسے کیا نام دیں۔ لیکن یہی کیا، ڈینگی بخار، یلو فیور، نیگلریا وغیرہ بھی ہیں۔ ملیریا، ٹائیفائیڈ اور نمونیہ تو اپنے ہی سے لگتے ہیں۔ کسی ڈاکٹر سے جاکر کہیں کہ باری کا بخار، یا تپِ محرقہ یا میعادی بخار ہے تو وہ ذہنی حالت پر شک کرے گا۔ ممکن ہے کوئی حکیم صاحب سمجھ لیں کہ یہ ملیریا او
سچی باتیں ، عورت پرستی ۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی
عورتوں کی آزادی آپ دیکھ رہے ہیں کہ آپ کے دیکھتے دیکھتے کہاں سے کہا ں پہنچی۔ابھی یہی بحث چھڑی ہوئی تھی کہ عورتوں کو تعلیم دینا بھی چاہیے یا نہیں کہ آپ کی قوم کی عورتوں نے تعلیم حاصل کرنی شروع کردی ،اور آپ کے فیصلہ کا انتظار نہیں کیا،زنانہ مدرسے کھل گئے ،زنانہ کالج کھل گئے ،لیڈیز کانفرنس کے اجلاس ہونے لگے ،زنانے رسالے نکلنے لگے ،زنانے اخبار چھپنے لگے ،برقعے اور نقاب رخصت ہونے لگے ،ڈولی اورپالکی کی جگہ ’’عجائب گھر‘‘رہ گئی ،پردہ کلب اور مزید ترقی کر کے بے پردہ کلب کھلنے لگے ،جو بیچاریاں ب
وہ لڑکیاں ۔۔۔ تحریر : فرزانہ اعجاز
ویسے تو وہ عام سی لڑکیاں ہیں ۔اتنی عام کہ ہر گلی ہر محلے اور ہر متوسط گھر میں پائ جاتی تھیں اور اب بھی پائ جاتی ہیں ،میلی کچیلی ۔ننھی منی لڑکیاں جو اکثر اپنی اماں کے ساتھ َسر کھجاتی اور ناک سڑکتی ،اپنی متحیر ملگجی آنکھوں سے اطراف کا حیرانی سے جائزہ لیتی کسی گاؤں یا قصبے سے ۔ گھروں میں وارد ہوا کرتی ہیں ۔ اگر قسمت سے ’اماں ‘ کو نوکری مل گئ تو پھر اماں اس گھر کے ’ بڑے بڑے کام کرتی یعنی جھاڑو برتن یا کھانا پکاتیں اور انکی ننھی منی بچی اپنے ننھے منے ہاتھوں سے ننھا منا کام کرتی ، اماں کی مدد کرتی یا
کیا کرناٹکامیں لسانی اورصوبائی جنون ،نئے طوفان کا پیش خیمہ ہے ؟ (دوسری قسط)۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... ہندی زبان کو قومی زبان(راشٹر بھاشا) قرار دینے اوراسے پورے ملک میں نافذکرنے کا جو معاملہ ہے وہ ابتدا ہی سے متنازعہ رہا ہے۔1950میںآئین ہند کی منظوری کے ساتھ یہ طے ہواتھا کہ آئندہ 15برسوں تک دستوری طور پر 1965تک ہندی زبان کے ساتھ انگریزی کے لئے بھی سرکاری زبان کا درجہ باقی رکھا جائے گا اورپھر اس کے بعد صرف ہندی کو ہی قومی زبان کا درجہ دیا جائے گا۔اس پالیسی کے تحت سرکاری طورپر ملک بھر میں ہندی لاگو کرنے کے لئے وقتاً فوقتاً مختلف اسکیمیں اپنائی جانے لگیں۔اور غیر ہ
اگر سیکولرازم بچانا ہے تو جے پی کا راستہ اپناؤ۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی
بہار کے گیارہ کروڑ عوام کے ساتھ نتیش کمار نے جو فریب اور غداری کی ہے اس کے خلاف جے ڈی یو کے سابق صدر شرد یادو میدان میں آگئے ہیں۔ نتیش کمار کے ساتھ جو ایم ایل اے ہیں ان میں اکثر سیکولر ذہن کے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ اگر کمیونل ہوتے تو بی جے پی کا ٹکٹ لیتے اور اگر نہ ملتا تب بھی اس کا الیکشن لڑاتے۔ ان تمام سیکولر ذہن والوں کو ہمت کرکے باہر آجانا چاہئے اور اگر دوبارہ الیکشن کی نوبت آتی ہے تو یقین ہے کہ وہ اور زیادہ ووٹوں سے کامیاب ہوں گے۔ شرد یادو جو دو بار مسلسل صدر رہے اور یہ کہہ کر تیسری با
سفر تمام ہوا نیند آئی جاتی ہے حفیظ نعمانی
آؤ کہ آج ختم کریں داستان عشق اب ختمِ عاشقی کے فسانے سنائیں ہم دس سال تک ہندوستان کے نائب صدر اور راجیہ سبھا کے چیئرمین کی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے پوری کرکے حامد انصاری صاحب سرکاری پابندیوں سے آزاد ہوگئے۔ انہوں نے رُخصت ہوتے ہوئے جو کچھ کہا اس کے ایک ایک لفظ سے محسوس ہورہا تھا کہ یہ دس برس انہوں نے پھولوں ہی پر نہیں کانٹوں پر بھی گذارے ہیں۔ اور یہ تو پانچ برس پہلے بھی ہم نے لکھا تھا اور پھر دُہرایا بھی تھا کہ جب صدر کا انتخاب ہورہا تھا تو حامد انصاری صاحب نائب صدر تھے اور ہمیشہ تو نہیں لیکن ب
کیا وزیراعلیٰ یوگی نے ہتھیار ڈالدیئے؟ ۔۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی
اُترپردیش کے وزیراعلیٰ نے حلف لینے کے بعد بڑے تیور کے ساتھ کہا تھا کہ اب ریاست میں قانون کی حکومت ہوگی وہ تمام غنڈے اور بدمعاش جن کی پہلے حکومتیں پردہ پوشی اور ہمت افزائی کرتی رہی ہیں وہ یا تو سدھر جائیں یا صوبہ چھوڑکر کہیں اور منھ کالا کریں۔ اس اعلان کے چند روز کے بعد ہی انہوں نے یہ دیکھنا شروع کیا کہ سابق وزیر اعلیٰ نے کہاں کہاں کھایا ہے؟ اور اسی دن سے صرف ان کا ایک ہی کام ہے کہ گومتی ندی کے کنارے کنارے بنائی ہوئی تفریح گاہوں میں کیا کیا یا قبرستانوں کی چہار دیواری میں کتنا کھایا لکھنؤ آگرہ جو
سچی باتیں ۔۔۔ جزائے اعمال ۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی
کلام مجید کے تیسویں پارہ کے وسط میں سورہ غاشیہ ہے جس میں قیامت کا بیان ہے اس کے شروع میں آتا ہے وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ ۔ عَامِلَةٌ نَاصِبَةٌ ، تَصْلَى نَارًا حَامِيَةً ۔ کتنے چہرے ہیں جو اس روز ذلیل و خوار ہوں گے ،محنت کرنے والے تھکے ماندے اشخاص اس روز کون ہوں گے ؟ اسکے جواب میں صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس کا قول ملتاہے۔’’وقال ابن عباس عاملۃٌناصبۃ النصاری‘‘ (کتاب التفسیر)کہ اس سے مراد نصاریٰ ہیں اورمتعدد مفسروں نے اسی قول کو نقل و اختیار کیا ہے،یہی وہ گروہ ہے جسے جلتی ہوئی آگ میں جھونکا
اللہ رے سناٹا آواز نہیں آتی۔۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی
پوری ذمہ داری سے کہا جاسکتا ہے کہ ملک کے جو حالات آج ہیں ایسے بدتر حالات کبھی اور کسی کی حکومت میں نہیں رہے۔ اور جتنی خاموشی اور دہشت آج نظر آرہی ہے ایسے کبھی نہیں تھی۔ سب سے پہلے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے یہ بیڑہ اُٹھایا تھا کہ وہ ہر مہینے دو مہینے کے بعد گاؤں سے مردوں اور عورتوں کو نکال لاتے تھے اور یہ سرکار نکمی ہے، یہ سرکار بدامنی ہے۔ سڑی گلی سرکار کو ایک دھکا اور دو اور جتنے نعرے تھے وہ لگاتے ہوئے شہر کا چکر لگاکر واپس قیصر باغ آجاتے تھے۔ پھر جب سی پی آئی سمٹ کر ایک لیڈر اتل کمار انجان تک
سفر نامه هند۔۔(پہلی قسط)۔۔۔از: ڈاکٹر محمد اكرم ندوی
جولائى 09 سنه 2017 كى شام كو آكسفورڈ سے لندن ہيتهرو ايرپورٹ كے لئے نكلا، اور جٹ ايرويز كى ايكـ فلائٹ سے هندوستان كے لئے پا به ركاب هوا، يه سفر والد محترم مد ظله كى ملاقات اور وطن كى زيارت كے علاوه علمى، فكرى اور دعوتى اغراض ومقاصد پر مشتمل تها، اس لئے يه بات ذهن كے نهاں خانه ميں جا گزين تهى كه واپسى پر اس سفر كى تفصيلات قلمبند كرنى هے، سفر سے انسان جو كچهـ سيكتها هے كتابوں سے ممكن نهيں، شبلى نے كتنى سچى بات كهى: "مجھ كو معلوم هوا كه انسان جب تک دنيا كے بڑے بڑے حصے نه ديكهے انسان نهيں هوسكتا، اف