Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















وقت ہر ظلم تمہارا تمہیں لوٹا دے گا ۔۔۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی
پورے ملک میں عظیم صحافی گوری لنکیش کے قتل کے خلاف احتجاج ہورہا ہے اور عدالت عظمیٰ نے ریاستی حکومتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ جلد از جلد اپنی ریاست میں گؤ رکشکوں کے خلاف ٹاسک فورس بنائیں اور سینئر پولیس افسروں کو اس میں لگائیں۔ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو بھی یاد دلایا ہے کہ وہ تشدد کے واقعات کو صرف نظم و نسق کا معاملہ کہہ کر اپنا دامن نہیں بچاسکتی کیونکہ مرکزی حکومت کو آئین کی دفعہ 356 کے تحت یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ریاستی حکومتوں کو ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے ہدایت دے سکے۔ جس وقت دستور بنا تھا
نرم روی ، اخلاص و محبت کے پیکر ...مولانا مفتی محمد اشرف علی باقوی علیہ الرحمۃ
تحریر : عبد المتین منیری ۔ بھٹکل ۔ کرناٹک ammuniri@gmail.com دس روز قبل فون آیا تھا کہ منیری صاحب آپ کیسے ہیں ؟ بھٹکل سے جانے کی ہمیں اطلاع بھی نہیں ملی ،صحت کا کیا حال ہے؟اور مجھ پر شرم کے مارے گھڑوں پانی پڑ گیا ، فروری میں ہمارا بنگلور میں آپریشن ہوا تھا تو سفر کی تکان کے باوجود بنگلور پہنچتے ہی دیکھنے اسپتال آگئے تھے ، بنگلور سے بھٹکل پہنچا تو وہاں بھی خیر خیریت دریافت کرنے کے لئے فون آیا ۔ مولانا بہت عظیم تھے ، اور ہمارا کوئی ایسا مقام نہیں تھا کہ آپ کو صرف خیر خیریت کے لئے وقت
ستمبر 09 :-:نامور شاعر اکبر الہٰ آبادی کی برسی ہے
از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اکبر سید گھرانے کے فرد تھے۔اکبر کی پیدائش سید تفغل حسین کے دو بیٹے ہوۓ۔بڑے بیٹے اکبر حسین(اکبر الہٰ آبادی) اور چھوٹے بیٹے اکبر حسن۔اکبر الہٰ آبادی 1261ھ میں پیدا ہوۓ۔ان کا سال پیدائش بلاتفاق یہی ہے اور اس کے قطعی ثبوت موجود ہیں۔ان کے فرزند عشرت حسین کے بقول ان کا تاریخی نام خورشید عالم تھا حسن نظامی نے ان لفظوں میں اس تاریخی نام کی تصدیق کی ہے۔خورشید عالم نام کا حضرت اکبر نے مجھ سے ذکر فرمایا تھا اور ک
ستمبر09 :-: ممتاز شاعر " شاعر رومان" اخترؔ شیرانی کی برسی ہے
از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیسویں صدی کے جن اردو شعرا نے رومانوی شاعر کی حیثیت سے نام پیدا کیا ان میں اختر شیرانی کو غیر معمولی حیثیت حاصل ہے۔ اختر شیرانی کا اصل نام محمد داؤد خان تھا۔ وہ 4مئی 1905 کو بھارتی ریاست راجستھان کے علاقے ٹونک میں پیدا ہوئے۔ وہ چھوٹی عمر میں ہی لاہور چلے آئے۔ انہوں نے منشی فاضل اور ادبی فاضل کیا، یہ عربی اور فارسی کی ڈگریاں تھیں۔ اپنے والد کی تمام تر کاوشوں کے باوجود وہ اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور ک
ابھی تک تن اردو ہی میں پڑے ہوئے ہو ۔۔۔۔ تحریر : ندیم صدیقی
جامعہ ملیہ اسلامیہ (دہلی) کے پروفیسر خالد محمود معروف ہی نہیں ایک امتیازی تشخص کے حامل ادیب و شاعر ہیں۔ اخبار کےلئے ان سے ایک گفتگو ہو رہی تھی تو انہوں نے ایک افسوس ناک بات ہمیں سنائی۔ کہنے لگے:’’ جب میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا تو میرے کمرے میں اُردو کی کتابیں بکھری ہوئی تھی کہ اسی دوران ہمار ے ہاں ایک بزرگ رشتے دارخاتون کا آنا ہوا، اتفاق سے وہ میرے کمرے میں تشریف لائیں اور جب اُنہوں نے میرے اِرد گرد اُردو کی کتابیں بکھری ہوئی دیکھیں تو اُن کے منہ سے برجستہ جو جملہ نکلا وہ میرے لئے ناقابلِ فراموش
دُکھ سہیں بی فاختہ اور کوّ ے انڈے کھائیں ۔۔۔از:حفیظ نعمانی
دہلی میں یہ بات عام تھی کہ مسز شیلا دکشت نے پندرہ برس مسلسل اس لئے حکومت کی کہ انہوں نے دلی والوں کو میٹرو کا تحفہ دیا تھا۔ لکھنؤ میں کامیابی کے اس فارمولے کو اگر یہ سن کر ہی اپنایا گیا تو یہ اس لئے غلط ہے کہ لکھنؤ کو دہلی بننے میں ابھی پچاس برس لگیں گے۔ جب کبھی دہلی جانا ہوا تو ہم جیسے لکھنؤ والے کو محسوس ہوا کہ ایک دن میں صرف ایک دوست سے ہی ملا جاسکتا ہے۔ دہلی میں کسی جگہ کے بارے میں یہ کہنا کہ چالیس کلومیٹر ہے ایسا ہی ہے جیسے لکھنؤ میں کوئی کہہ دے کہ دس منٹ کا راستہ ہے۔ دہلی میں ہمارے ایک بیٹ
ٹک ٹک دیدیم ۔۔۔ تحریر : فرزانہ اعجاز
انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو اسکا ذہن مکمل طور پر ایک سادہ سلیٹ یا ایک سادہ ورق کے مانند ہوتا ہے ۔پھر گزرتا ہوا وقت اس سادہ کاغذ یا سادہ سلیٹ پر حالات اور واقعات کی آڑی ترچھی لکیریں کبھی گہری اور کبھی ہلکی لکیریں اور نقش و نگارکی بہت واضح تصاویر بناتا چلا جاتا ہے ، اکثر یہ لکیریں یا تصویریں دھندھلا جاتی ہیں اور کچھ تا زندگی ایسی واضح اور نمایاں رہتی ہیں کہ ’آج ہی کی بات ‘ محسوس ہوتی ہیں ۔ دوسرے کسی بھی انسان کی طرح ہم بھی سادہ سلیٹ کی طرح اس دنیا میں آۓ ۔ فرق صرف یہی ہے کہ ایک مختلف ماحول میں
سچی باتیں ۔۔۔ عزت کا معیار۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی مرحوم
کلام مجید ،سورۂ توبہ میں ایک آیت میں اُن اہلِ کتاب سے جو اللہ کے دشمن ہیں،جنگ کرنے کا حکم وارد ہوا ہے،اور آیۂ پاک کا خاتمہ ان الفاظ پر ہوا ہے، حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ۔ یہاں تک کہ وہ جزیہ دینا منظور کریں،اور ذلیل ہوکررہیں،’’صَاغِرُوْن‘‘کے مفہوم میں وہ لوگ داخل ہیں،جو دب کر،محکوم ہوکر،پست وگمنام ہو کر رہیں۔اس حالت میں کون لوگ ہیں؟آیۂ کریمہ کے شروع کے الفاظ ہیں: الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّه
لکیریں کھینچ دینا پھر لکیروں کو مٹا دینا۔۔۔۔ از:حفیظ نعمانی
ذیقعدہ کے آخری ہفتہ سے یہ فکر روز بروز بڑھ رہی تھی کہ عیدالاضحی کیسے منائی جائے گی؟ حکومت کی طرف سے نہ کوئی بیان تھا اور نہ مسلم تنظیموں کی طرف سے کوئی آواز ہر طرف سکوت اور سناٹا تھا۔ عازمین حج کے معاملہ میں جو حکومت کا رویہ رہا وہ قابل تعریف کہا جائے گا۔ کئی برس سے خادم الحجاج کا مسئلہ اختلاف کی وجہ سے پھنسا ہوا تھا اسے بھی حکومت نے صاف کردیا اور مرکزی حج کمیٹی کا وہی فیصلہ باقی رکھا کہ مسلمان سرکاری ملازم ہی جائیں گے۔ آخر میں اُترپردیش کے خادموں کا مسئلہ اٹک گیا کہ حکومت ان کا خرچ ادا کرے۔ اور
جناب اب کتابیں کون پڑھتا ہے ۔۔۔۔ تحریر : ندیم صدیقی
غالب اکادیمی(دہلی) کے ایک سمینارسے فارغ ہوکر ہم اسی کے دفتر میں اکادیمی سیکریٹری عقیل صاحب کے ساتھ بیٹھے تھے ، ہم سے پہلے الہ ٰ آباد کے ایک ادیب اور میرٹھ کے ایک پروفیسر وہاں سے اٹھ کر گئے تھے۔ کرسی پر ہماری نظر پڑی تو وہاں ایک کتاب دیکھی جو الہ آباد والے ادیب کی تصنیف تھی اور میرٹھ کے پروفیسر صاحب کو ہدیہ کی گئی تھی نیچے الہ آباد والے ادیب کے دستخط نے سارا راز کھول دیا۔ ہم نے عقیل صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے عرض کی کہ۔۔۔ ’’ پروفیسر صاحب تو یہ کتاب یہاں بھول گئے۔ ‘‘ عقیل صاحب نے پہلے ت
ستمبر 05 :-: اردو کے مایہ ناز ادیب ابو الفضل صدیقی کا یومِ پیدائش ہے
از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابوالفضل صدیقی اردو زبان کے وہ ممتاز، منفرد اور صاحبِ اسلوب افسانہ نگار ہیں، جن کے ذکر کے بغیر بقول ڈاکٹر جمیل جالبی ’’تاریخِ ادب مکمل نہیں ہو سکتی۔‘‘ ابوالفضل صدیقی نے بڑی فعال، بھرپور، غم و الم، نشیب و فراز، اقبال و زوال سے پُر ایک سچی حقیقی زندگی گزاری۔ انھوں نے زندگی کے تمام رخ اور انداز دیکھے، ہر طرح اور طور سے اسے برتا اور بڑی بالغ نظری سے ان سے سبق حاصل کیا۔ ان کا مشاہدہ گہرا تھا اور قدرت نے انھیں
ستمبر 04:-: عہد حاضر کے سب سے بڑے مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی صاحب کا یومِ پیدائش ہے
از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مشتاق احمد یوسفی ایک رجحان ساز اور صاحب اسلوب مزاح نگار ہیں، یوسفی صاحب اردو کے مزاحیہ ادب کا ایک ایسا نام ہیں جنھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آپ کے بارے میں اگر میں (ناچیز) یہ کہوں کہ آپ مزاح کی امتیازی اور جداگانہ روایت کے موجد بھی ہیں اور آخری رکن بھی۔ انھوں نے بلاشبہ اردو ادب کو مزاح کے میدان میں بے پایاں عزت دی۔ اردو مزاح کا کوئی بھی دور ان کے بغیر ناممکن ہے، یوسفی صاحب اردو زبان وادب کے صف اول کے ادیبوں
ستمبر 04 : ممتاز شاعر غلام محمد قاصر کا یومِ پیدائش ہے
از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غلام محمد قاصر 4 ستمبر 1941ء کو پہاڑپور، ڈیرہ اسماعیل خان کے مقام پر پیدا ہوئے تھے۔ وہ ایک خوش گو شاعر تھے اور ان کے شعری مجموعے تسلسل، آٹھواں آسمان بھی نیلا ہے اور دریائے گماں اردو کے اہم شعری مجموعوں میں شمار ہوتے ہیں۔ غلام محمد قاصر کی کلیات بھی ’’اک شعر ابھی تک رہتا ہے‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔انہوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے لئے بھی کئی ڈرامے تحریر کئے جو ناظرین میں بے حد مقبول ہوئے۔ 20 فروری 1999
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی
یہ بات ایک مہینہ پہلے بھی شکایت کے طور پر لکھیم پور سے ہی آئی تھی کہ ایکھ کے کھیتوں میں پالتو گائے، بیل، بھینس، سانڈ دندناتے پھر رہے ہیں اور گنے کی پیڑیوں کو برباد کررہے ہیں۔ کسانوں کی شکایت یہ تھی کہ نیل گائے تو آدمی کو دیکھ کر بھاگ جاتی ہیں لیکن یہ گائیں اور بیل پلے ہوئے ہیں انہیں جب تک نہ مارو یہ کھت نہیں چھوڑتے۔ ان ہی دنوں میں بارہ بنکی کے مشہور گاؤں کھجنہ میں ایک زمین دیکھنے کے لئے میرے بیٹے اور نواسے کو جانا پڑا۔ وہاں بھی دیکھا کہ ہر کھیت کے چاروں طرف بانس گڑے ہیں اور رسیاں بندھی ہیں۔ خیال
اسے پہلے پڑھئے اور فیصلہ کیجئے ۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی
میں قارئین کرام سے معافی چاہتا ہوں کہ یہ مضمون کم از کم گذشتہ کل ورنہ اور پہلے لکھنا چاہئے تھا۔ تاخیر صرف اس وجہ سے ہی ہوئی کہ وہ جو لکھنؤ سے لاکھوں روپئے بھیجے گئے تھے اور تاکید کی گئی تھی کہ اس کا سامان خرید کر اس طرح تقسیم کیا جائے کہ ایک بھی بدقسمت بھوکا نہ رہے۔ اس کی تفصیل اب آئی ہے اور درجنوں فوٹوؤں کے ساتھ آئی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ ان حضرات نے ہم سے زیادہ سلیقہ سے پیکیٹ بنائے جس میں چاول، ستو، تیل، دال، نمک، مرچ اور ضرورت کا صابن، شکر، چائے کی پتی وغیرہ وغیرہ سب رکھا۔ بہار میں پان
سچی باتیں ۔۔۔ بے حیائی کے چرچے ۔۔۔ : تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی مرحوم
إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ - وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ۔َ(نور۔ع۔۱) جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی کی باتوں کا چرچا ہوتارہے ،ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور اللہ جانتاہے ،اور تم نہیں جانتے۔ آیت قرآن کی ہے تفسیر میں کسی کا اختلاف نہیں ،مفہوم واضح
اگست 31: معروف افسانہ نگار اور شاعرہ امرتا پریتم کا یوم پیدائش ہے
از: ابوالحسن علی بھٹکلی اُن کی پیدائش 31 اگست 1919 کی ہےاور جائے پیدائش گوجرانوالہ! تقسیمِ ہند کے بعد انھوں نے دہلی میں سکونت اختیار کر لی لیکن تقسیمِ پنجاب کی خونی لکیر عبور کرنے کا گمبھیر تجربہ ساری عمر ایک ڈراؤنے خواب کی طرح اُن کے تعاقب میں رہا۔بٹوارے کے بطن سے پھوٹنے والی لہو کی ندی پار کرتے ہوئے امرتا پریتم نے اُن ہزاروں معصوم خواتین کی آہ وبکا سُنی جو جُرمِ بےگُناہی کی پاداش میں زندہ درگور کر دی گئی تھیں۔ اس موقع پر امرتا نے وارث شاہ کی دہائی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ اے دکھی انسایت کے
کیا حکومت بھی اب عدلیہ کو دے دی جائے۔۔۔از: حفیظ نعمانی
بابا گرمیت رام رہیم کو اس مقام تک پہونچانے میں سب سے اہم کردار ہریانہ کی سرکاروں کا ہے۔ جب ہائی کورٹ نے اس خط کی بنیاد پر سی بی آئی سے تحقیقات کرانے کا فیصلہ کیا تو اس وقت کے وزیر اعلیٰ اوم پرکاش چوٹالہ نے سختی کے ساتھ مخالفت کی تھی۔ بات وہی ہے کہ ہر کسی کو الیکشن میں کامیابی کے لئے ووٹ چاہئے۔ اور اگر مداری کے پاس بھی پچاس ووٹ ہیں تو وہ قابل احترام ہے۔ گرمیت رام نام کے بنے ہوئے بابا کے ماننے والے کروڑوں ہیں۔ یہ تو معلوم ہے کہ گنا کسی نے نہیں ہے لیکن کوئی پانچ کروڑ بتا رہا تھا کوئی چھ اور سات کرو