Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















اکتوبر 24 ، 1991: اردو کی معروف افسانه نگار ادیبہ عصمت چغتائی کی برسی ہے
از: ابوالحسن علی بھٹکلی عصمت چغتائی کی پیدائش 21 اگست، 1915ء میں ہندوستان کے شہر بدایوں میں ہوئی۔ اور ۷۶ سال کی عمر میں ۱۹۹۱ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔ فلمی سفر ضدی یہ فلم ۱۹۴۸ میں عصمت چغتائی نے لکھی تھی۔ ۱۹۵۰ میں آرزو فلم کے انھوں نے ڈاءیلاگ بھی لکھے اور اسکرین پلے بھی جب کہ کہانی بھی عصمت چغتائی کی ہی تھی۔ ۱۹۵۸ ء میں سونے کی چڑیا فلم کی کہانی بھی انھوں نے ہی لکھی۔ ۱۹۷۴ ء میں ایک فلم آئی تھی جس کا نام گرم ہوا تھا جو عصمت چغتائی کے ایک افسانہ کو بنیاد بنا کر بنائی گئی تھی۔ اس فل
اکتوبر 24 :-: نامور شاعر اور نغمہ نگار ساحر لدھیانوی کی برسی ہے
از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساحر کا اصل نا م عبدالحئی تھا، وہ 8 مارچ1921ء لدھیانہ کے ایک جاگیردار خاندان میں پیدا ہوئے۔ طالبِ علمی کے زمانے میں ہی ان کا شعری مجموعہ تلخیاں شائع ہوچکا تھا، جس نے اشاعت کے بعد دھوم مچا دی تھی۔ سن 1949 میں وہ لاہور سے بمبئی گئے اور اسی سال ان کی پہلی فلم 'آزادی کی راہ' ریلیز ہوئی۔ لیکن اصل شہرت موسیقار ایس ڈی برمن کے ساتھ 1950 میں فلم نوجوان میں ان کے لکھے ہوئے نغموں کو نصیب ہوئی ان میں سے ای
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی
ہم تاریخ کے طالب علم نہیں ہیں اس لئے ہم نہیں بتاسکتے لیکن سنا ہے کہ اجودھیا کی عمر دو ہزار برس سے زیادہ نہیں ہے۔ اس لئے ہم نہیں بتا سکتے ہیں کہ یہ انسانیت کی دھرتی لاکھوں برس سے ہے یا اس وقت سے جب ایران سے آنے والے آریوں نے اسے انسانیت کی دھرتی بنا لیا۔ یہ بات تو ہر ہندو جو رام چندر جی کو بھگوان مانتا ہے وہ کہتا ہے کہ ان کا زمانہ لاکھوں برس پہلے تھا۔ اور یہ بھی سب مانتے ہیں کہ آج جو ملک پر حکومت کررہے ہیں یہ چار ہزار برس پہلے بھی ہندوستان میں نہیں تھے۔ اور جو تھے وہ اب ملک میں پہاڑوں کے دامن میں
اکتوبر 23 : کو مشہور و معروف شاعر اور ادیب آنند نارائن ملاؔ کا یومِ پیدائش ہے
از؛ ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ملاؔ صاحب 23 اکتوبر 1901ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوۓ۔ والد کا نام جگت نرائن ملا تھا جو لکھنؤ کے مشہور وکیل تھے اور لکھنو کی اہم شخصیت تھے۔اردو اور فارسی کی تعلیم گھر پر حاصل کی۔1923 میں انگریزی میں ایم کیا۔1925 میں وکالت کا امتحان پاس کر کے لکھنو میں وکالت شروع کی۔ملا صاحب نے انگریزی میں شاعری 1917 میں شروع کی۔طالب علمی کے زمانے میں انیسؔ،غالبؔا اور علام اقبالؔ کے اشعار کے اردو ترجمے کۓ۔اس طرح سے عالمی ادب سے واقفیت کا موقع
اکتوبر 23 : کو اردو کے نامور مزاح نگار کرنل محمد خان کی برسی ہے
از؛ ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کرنل محمد خان پاکستان کےنامور مزاح نگار اور پاک فوج کے شعبۂ تعلیم کے ڈائریکٹر تھے۔ نیز انھوں نے برطانوی دور میں ہندوستانی فوج میں بھی کام کیا اور دوسری جنگ عظیم میں مشرق وسطیٰ اور برما کے محاذ پر خدمات انجام دیں۔ پاک فوج کی ملازمت کے دوران کرنل محمدخان نے کتاب بجنگ آمد تصنیف کی جو ایک مزاحیہ سوانح ہے، ان کی اس کتاب کو اردو ادب میں سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ اسی کتاب "بجنگ آمد" کی کامیابی کے بعد انھیں ارد
خبر لیجئے زباں بگڑی ۔۔۔ یہ صنادید کیا ہے ؟ ۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی
کراچی سے شائع ہونے والا ماہ نامہ ’’قومی زبان‘‘ زبان کی خدمت تو کرہی رہا ہے لیکن جنہوں نے اردو زبان کی خدمت کی، اُن کا تعارف بھی کرا رہا ہے۔ تقریباً ہر شمارے میں مشاہیر میں سے کسی کے بارے میں سرورق کے ساتھ بھرپور معلومات بھی ہوتی ہیں۔ غالب سے لے کر مولوی عبدالحق تک اور اب سرسید احمد خان۔ اکتوبر 2017ء کا شمارہ سرسید احمد خان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ انجمنِ ترقی اردو پاکستان کی طرف سے سرسید کی دو سو سالہ سالگرہ کے حوالے سے اُن کی چار کتب کی اشاعت کی جارہی ہے جن میں سے ایک ’’آث
اکتوبر 19 : کو معروف شاعر مجاز لکھنوی کا یوم پیدائش ہے
از؛ ابوالحسن علی بھٹکلی -------------------------------------------------------------- مجاز19 اکتوبر 1911ء کو قصبہ رودولی ضلع بارہ بنکی میں پیدا ہوئے۔ نام اسرارالحق اور مجاز تخلص اختیار کیا۔ حصول تعلیم کے لیے لکھنوآئے اور یہاں سے ہائی اسکول پاس کیا۔ لکھنو کی مخصوص تہذیب اور شعر و ادب کی سرزمین ہونے پر ان کو لکھنو سے اس قدر لگائو ہوا کہ اپنے تخلص میں لکھنوجوڑ لیا اور مجاز لکھنوی کے نام سے مشہور و معروف ہوئے۔ 1935ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کر کے 1936ء میں دہلی ریڈیو اسٹیشن سے شائع
اکتوبر 17 : نامور شاعر مرزا یاس یگانہؔ ‘ غالب شکن’ کا یومِ پیدائش ہے
از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یاسؔ یگانہ کا نام تو بہت ہی طویل ہے ،یعنی مرزا واجد حسین یاس ؔیگانہ چنگیزی لکھنوی ثم عظیم آبادی،لیکن اُن کو اپنے یکتا ہونے کا احساس تھا، اسی لیے اُنھوں نے لکھا: کلامِ یاسؔ سے دنیا میں ایک آگ لگی یہ کون حضرتِ آتشؔ کا ہم زباں نکلا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یگانہؔ اپنی شاعری میں یگانہ تھے۔ اُنھوں نے ہمیشہ وہ راہ ترک کر دی، جو پہلے سے مستعمل تھی۔ اس لیے لکھنؤ سکول میں آتشؔ کے بعد یگانہؔ ہی سب سے منفرد
اکتوبر 16 : ممتاز اردو شاعر، ادیب، براڈ کاسٹر، نقاد اور مفسر قرآن حمید نسیم کی برسی ہے
از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حمید نسیم 16 اکتوبر 1920ء کو شاہ پور ضلع ڈلہوزی میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے ریڈیو پاکستان سے وابستگی اختیار کی اور ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان کے عہدے تک پہنچے۔ بعدازاں انہوں نے پی آئی اے آرٹس اکیڈمی کی سربراہی سنبھال لی۔ وہ ڈرامے اور موسیقی کا بہت اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ تاہم ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے علوم اسلامی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا۔ حمید نسیم کے شعری مجموعوں میں دود تحیر، جست جنوں اور
اکتوبر 13: کو ممتاز مصنف ، ڈراما نگارامتیاز علی تاج کا یومِ ولادت ہے
از: ابوالحسن علی بھٹکلی وہ13 اکتوبر 1900ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید ممتاز علی دیوبند ضلع سہارنپور کے رہنے والے تھے جو خود بھی ایک بلند پایہ مصنف تھے۔ تاج کی والدہ بھی مضمون نگار تھیں۔ تاج نے ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کی۔ سنٹرل ماڈل اسکول سےمیٹرک اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کی سند حاصل کی۔ انہیں بچپن ہی سے علم و ادب اور ڈراما سے دلچسپی تھی ۔ ابھی تعلیم مکمل بھی نہیں کر پائے تھے کہ ایک ادبی رسالہ ’’ کہکشاں‘‘ نکالنا شروع کردیا۔ ڈراما نگاری کا شوق کالج میں پیدا ہوا۔ گورنم
اکتوبر 13: کو نامور شاعر امیرالشعراء منشی امیر احمد صاحب امیرؔمینائی داغؔ دہلوی کے ہم عصر کی برسی ہے
از؛ ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی غزل " سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ" کے لئے مشہور ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امیرؔ اور داغؔ رام پور میں ایک طویل مدت تک ساتھ رہے۔ان میں بڑا خلوص تھا۔ایک دوسرے سے محبت رکھتے تھے اور ایک دوسرے کی عزت کرتے تھے۔ داغؔ کے نزدیک امیرؔ اور ان کے کلام کا کیا مرتبہ تھا وہ صنم خانہٗ عشق کے قطعہٗ ربایات تاریخ طباعت کے ان اشعار میں ملاحظہ کیجیےٗ یہ کلام ایسا کلام اتنا کلام ہے نشان مصحفیؔ شان اسیرؔ محو ہ
اکتوبر12: معروف شاعر ندا فاضلی کا یومِ پیدائش ہے
از: ابوالحسن علی بھٹکلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ندا فاضلی کا اصلی نام مقتدا حسن تھا وہ 12 اکتوبر 1938 میں بھارتی ریاست گوالیار میں پیدا ہوئے تھے۔ بالی وڈ کی فلمی دنیا کے لیے بعض یادگار گیت تخلیق کرنے کے علاوہ ان کے لکھے گئے دوہوں اور غزلوں کو جگجیت سنگھ نے لاکھوں لوگوں تک پہنچایا۔ان کے والد بھی شاعر تھے جو 1960 میں مذہبی فسادات کے دوران مارے گئے۔ ان کے خاندان کے باقی افراد پاکستان منتقل ہو گئے لیکن ندا ہندوستان ہی میں رہے۔ وہ اپنے والدِ گرامی کے جنازے میں بھی شرکت نہ کر سکے، جس
بھٹکل نامدھاری سنگھا اپنے لیڈروں کی حمایت میں۔۔کیا ہم ایسا نہیں کرسکتے؟! (پہلی قسط)۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... کچھ دنوں پہلے بلدیہ کی دکانوں کی نیلامی سے شروع ہونے والا تنازعہ اور اس کے بعد بگڑتا ہوا ماحول ابھی سرد ہوتا نظر نہیں آتا۔دن بدن اس کے سیاسی، سماجی، فرقہ وارانہ اور قانونی رنگ سامنے آتے جارہے ہیں۔ اس مسئلے کی جڑ اور اس سے متعلقہ تمام تفصیلات کا احاطہ میں نے اپنے سابقہ مضامین میں کیا ہے۔ اب اس مسئلے کے حوالے سے چند روز قبل ایک نیا زاویہ جو ابھر کر سامنے آیا ہے ، یعنی دو چار نوجوان لیڈروں کی گرفتاری کے خلاف پورے نامدھاری طبقے نے سیاسی پارٹیوں سے اپنی وابستگی کو
ندائے ملت اور مسلم یونیورسٹی نمبر کو سرسید ایکسیلینسی ایوارڈ۔۔۔۔۔ از: حفیظ نعمانی
ندائے ملت کا مسلم یونیورسٹی نمبر جسے یکم اگست 1965 ء کو نکلنا تھا مرکزی حکومت کے حکم اور اترپردیش حکومت کی تعمیل حکم کی بدولت وہ نکلتے ہی بحق سرکار ضبط کرلیا گیا تھا اور ہم جیسے نکالنے والوں اور آپ جیسے انتظار کرنے والوں کے لئے ایک بھولی بسری کہانی بن گیا تھا۔ اس کے بارے میں میری کتاب رودادِ قفس کے ہندی ایڈیشن کی رونمائی کی تقریب میں برسوں ممتاز وزیر رہنے والے ڈاکٹر سید عمار رضوی نے فرمایا کہ جس کتاب یا اخبار کو حکومت ضبط کرتی اور پابندی لگاتی ہے اس کی مدت 30 برس ہوتی ہے۔ اس کے بعد اگر وہ پھر با
سچی باتیں ۔۔۔ افترا پردازیاں ۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی ،
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جب بعض منافقین کی شرارت سے امت کی سب سے بڑی مؤمنہ صدیقہ پر ایک نہایت گندی تہمت لگی اور اس کے چرچے پھیلے تو کلام مجید میں یہ دو آیتیں نازل ہوئیں۔ ’’لَوْ لَا اِذْسَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤمِنُونَ وَالْمُؤ مِنَاتُ بِاَنْفُسِھِمْ خَیْرًا وَقَالُوْا ھٰذَا اِفْک ٌمّبِیْنٌ‘‘(نور۔ع ۔۲) جب تم لوگوں نے یہ گندی حکایت سنی تھی تو مسلمان مردوں اور عورتوں نے اپنے لوگوں سے متعلق گمان نیک سے کام کیوں نہ لیا اورچھوٹتے ہی یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح افتراء
فرزانہ اعجاز سے گفگتو۔۔۔از : ڈاکٹر شاہنواز جہاں
’غربت میں ہوں اگر ہم، رہتا ہے دل وطن میں سمجھو وہیں ہمیں بھی ۔ دل ہو جہاں ہمارا ‘ اقبال کا یہ شعر ہمیں ان لوگوں کی یاد دلاتا ہے ،جو وطن سے ہزاروں میل دور ہوتے ہوۓ بھی ، وطن کی یادوں کو دل میں بساۓہوۓ ہیں ،ممالک غیر میں رہتے ہوۓ بھی اپنے شہر اور وہاں کے لوگوں کے لۓ اور اپنی مادری زبان کے لۓ انکے دل میں محبت کو، الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے ، ایسی ایک شخصیت ہیں ، محترمہ فرزانہ اعجاز صاحبہ،لگ بھگ چالیس سالوں سے اپنے وطن دور ہونے کے باوجود انکا دل اپنے وطن ہی میں لگا ہے ، جب میں نے انک
یک صدی سے زائد عرصے سے شائع ہونے والا ماہنامہ ۔ رہنمائے تعلیم ۔۔۔۔ تحریر : سہیل انجم دہلی
اردو کے ادبی رسائل و جرائد کی تاریخ میں ماہنامہ رہنمائے تعلیم نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔ اس نے نہ صرف ایک صدی سے زائد کی عمر پائی بلکہ اب بھی مسلسل اور بلا ناغہ شائع ہو رہا ہے۔ اس کی اشاعت 113 ویں سال میں داخل ہو گئی ہے اور غالباً یہ ایک ریکارڈ ہے۔ اس کا جون 2017کا شمارہ اس کے بانی ایڈیٹر سردار جگت سنگھ اور ان کے بیٹے سردار ہر بھجن سنگھ تھاپر کی خدمات پر مشتمل ہے۔ سردار جگت سنگھ ایک اسکول ٹیچر تھے۔ انھوں نے اسے 1905 میں پنڈی کھیپ (موجودہ پاکستان) سے جاری کیا تھا۔ چونکہ وہ ایک اسکول ٹیچر تھے اس لیے
علی گیرین ، فرنگی محلی۔۔۔۔ تحریر : فرزانہ اعجاز
’ علی گیرین ‘ فرنگی محلی فرزانہ اعجاز کوئ بھی گروہ۔ قوم یا انسان اس وقت تک مکمل نہیں بن سکتا جبتک اس نے مکمل تعلیم و تربیت نہ حاصل کر لی ہو ، محسن قوم حضرت سر سید احمد خان نے بس یہی ایک نکتہ سمجھ لیا اور جی جان سے اس کوشش میں مصروف ہو گۓ کہ انکے ملک والے، انکی قوم والے اپنے مروج علم کے ساتھ ساتھ انگریزی تعلیم بھی صحیح طریقے سے حاصل کریں ،تب کہیں جاکر انکی حالت سدھرے گی ، ایسا بھی نہیں تھا کہ سب کی حالت ابتر تھی، ہاں، یہ بات ضرور تھی کہ زمانے کی ترقی سے مستفید ہونے کے لۓجس علم و سمجھ کی ضرورت