Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors
Abdul Haleem Mansoor
Abdul Majid Daryabadi
Abdul Mateen Muniri
Abdur Raqeeb M.J Nadwi
Ahmed Hatib Siddiqui
Asif Jilani
Athar Hashmi
Bhatkallys
Dr Badrul Hasan Qasmi
Dr Haneef Shabab
Dr. F Abdur Rahim
Dr. Tahir Masud
Hafiz Naumani
Kaldip Nayar
Masoom Muradabadi
Masud Ahmed Barkati
Mohammed Mateen Khalid
Nizamuddin Nadwi
Riyazur Rahman Akrami Nadwi
Suhail Anjum
خبر لیجئے زباں بگڑی ۔۔ آسامی یا اسامی ۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی
گزشتہ پیر (5 فروری) کے جسارت سمیت کئی اخبارات میں ’’آسامی‘‘، ’’آسامیاں‘‘ نظر سے گزرا کہ خالی آسامیاں پُر کی جائیں گی۔ یہ سرکاری خبر ایجنسی اے پی پی کی جاری کردہ خبر تھی اور اس میں آسامیاں ہی لکھا گیا تھا۔ نیوز ڈیسک پر بیٹھے ہوئے فاضل سب ایڈیٹرز نے تصحیح کرنے کے بجائے مکھی پر مکھی مار دی۔ اس طرح شہر سے مکھیاں تو کم ہوگئی ہوں گی لیکن آسامی (الف پر مد) کا مطلب تو آسام کا رہنے والا ہے جیسے چاٹگامی، بلگرامی وغیرہ۔ یہ لفظ ’’اسامی‘‘ ہے۔ اسی طرح کچھ اخبارات میں ’’آئمہ‘‘ پڑھنے میں آیا۔ یہاں بھی الف پر مد
کشمیر چاہئے کشمیری نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی
وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے اپنے خاص تیور کے ساتھ کہا ہے کہ کسی نے ایسی ماں کا دودھ نہیں پیا ہے جو کشمیر کو ہم سے الگ کردے۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے کیا کتیا کا دودھ پیا ہے جو کشمیر کے بیٹوں کو دیکھ کر پاگل کتوں کی طرح ان پر دوڑتے ہیں؟ بات صرف ہریانہ چنڈی گڑھ کی نہیں ہے آج سے 25 سال پہلے ہمارے بیٹے کے ایک دوست کشمیر سے کان پور یونیورسٹی میں ایم اے کا پرائیویٹ امتحان دینے آئے تھے اور انہوں نے ہمارے گھر لکھنؤ میں قیام کیا تھا۔ پروگرام کے اعتبار سے تو انہیں ایک ہفتہ میں فارغ ہوجانا تھا لیکن یہ
ہم نے بھی بھینس کے آگے بین بجادی۔۔۔از: حفیظ نعمانی
کاس گنج کے شرمناک واقعہ کو 10 دن ہورہے ہیں ہمیں یقین ہے کہ ہمارا کالم شوق سے پڑھنے والے ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ ہم اب تک کیوں خاموش ہیں؟ واقعہ یہ ہے کہ ہم نے تو ایسے ہی حالات سے متاثر ہوکر 1962 ء میں ہفت روزہ ندائے ملت نکالا تھا۔ اور برسوں ہم سے جو ہوسکا وہ ہم نے کیا اور جس قدر ہوسکا وہ ملت کے دردمندوں سے لکھوایا۔ لیکن موجودہ حکومت کے مزاج کو دیکھتے ہوئے ہم یہ سوچ کر خاموش ہیں کہ جب اوپر سے نیچے تک سب ایک ہی رنگ میں رنگے ہیں اور سب کچھ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ہورہا ہے تو کیا کہیں اور کس س
اگر اب بھی مودی نہ سمجھے تو! ۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی
یہ تو سب کو معلوم ہوچکا ہوگا کہ راجستھان اور بنگال میں ضمنی الیکشن میں کیا ہوا۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کیوں ہوا؟ 26 مئی 2014 ء کے بعد سے ملک میں جو حکومت آئی ہے اس میں ایک مخصوص ذہنیت کے عناصر کو اتنی چھوٹ دی گئی ہے کہ ملک کی شناخت ہی تبدیل ہوگئی۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ مسلمان گائے کا گوشت کھاتے تھے اور یہ بھی دیکھنے اور جاننے والے ابھی ملک میں کروڑوں ہندو ہوں گے جنہوں نے انگریزوں کی حکومت میں اور اس کے بعد بھی کافی دنوں تک ان صوبوں میں گائے کی قربانی کے لئے گایوں کی ہندوؤں کے ہاتھوں خر
اب یہ ہانڈی بھی منکال کے سر پر نہ پھوڑیں تو پھرکیاکریں؟!۔۔۔ از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... آخر وہی ہوا جس کا اندیشہ جاگتے ذہن اور کھلی آنکھوں سے جائزہ لینے والے ظاہر کررہے تھے کہ اس مرتبہ اسمبلی الیکشن میں ہمارے مرکزی ادارے مجلس اصلاح و تنظیم کی قیادت کو بھاری چیلنج کا سامنا ہے اور پورے اسمبلی حلقے کی مسلم جماعتوں کو متحد رکھتے ہوئے ملّی مفاد کو سامنے رکھ کر کوئی اجتماعی فیصلہ کرنا اور پھر اس کو نافذکروانا آسان بات نہیں ہوگی۔ اس کے لئے جماعتی سطح پر باہمی رابطے اور مشوروں کا سلسلہ جلد سے جلد شروع کرنا چاہیے ۔ لیکن کیا کیا جائے کہ فیصلہ کن ادارے کی
خبر لیجئے زباں بگڑی ۔ ۔۔ کسر اور کَسَر ۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی
ڈاکٹر انعام الحق جاوید فیصل آبادی بڑے استاد اور مزاح میں ہمارے پسندیدہ شاعر ہیں۔ اردو میں انگریزی کا تڑکا لگاتے ہیں تو مزا آجاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب ایم اے اردو اور ایم اے پنجابی میں تغمائے زر (گولڈ میڈل) رکھتے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی سے پنجابی میں پی ایچ ڈی ہیں۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں شعبہ پاکستانی زبانوں کے چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ اکادمی ادبیات پاکستان سے ہوتے ہوئے مقتدرہ قومی زبان سے منسلک ہوگئے۔ کئی ایوارڈ حاصل کرچکے ہیں اور برسوں سے اردو کو اپنا اوڑھنا اور پنجابی کو بچ
جگر مراد آبادی کے خطوط - قسط 02 - تحریر : محمد رضا انصاری فرنگی محلی
۷۸۶ گونڈہ مولاۓ مخلص و مکرم زاد لطفہ علیکم السلام ورحمتہ اللہ برکاتہ آپکے دو مکتوبات نظر نواز ہوۓ،میری علالت کا سلسلہ جاری ہے ۔روزانہ لکھنؤ جانے کا ارادہ کرتا ہوں اور روزانہ ختم کر دینا پڑتا ہے ، کل کسی ٹرین سے غالبا ً روانہ ہو سکوں ۔ میرا یہ عالم ہے کہ جیسے اب کسی چیز میں کوئ دلکشی باقی نہیں رہ گئ ہے یہی علامت ہے کہ غالبا ً زمانہ طلبی کا قریب تر آتا جا رہا ہے ، میں نے یہ محسوس کر کے کہ صحت بھی جواب دیتی جارہی ہے،خدا جانے کس وقت دنیاۓ اعتبار کو الفراق کہہ دین
پچیس سال پہلے کی وہ سرد راتیں اور جیل یاترا !! (پانچویں اور آخری قسط)۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... haneefshabab@gmail.com غالباً جیل میں وہ چھٹا یا ساتواں دن تھاجب ہمارا انتظار اور اضطراب ختم ہوگیا اور ہمیں یہ خوشخبری مل گئی کہ ہماری ضمانت ہوگئی ہے۔ بھٹکل سے ہمیں چھڑانے اور اپنے ساتھ لے جانے کے لئے ہمارے ہمدرد اور نوجوان ساتھیوں کا وفدصبح کے وقت بیلگام سنٹرل جیل پہنچا۔ چونکہ وہ اتوار کا دن تھااس لئے جیلر کے آنے اور کاغذی کارروائی انجام دینے میں کافی تاخیر ہوئی۔ ہماری جمع شدہ رقم واپس لینے کے بعد اندر قیدیوں سے لی گئی ادھار سودے کی رقم اور کچھ تھوڑی بہت
سچی باتیں ۔۔۔ حیات دنیوی کی حقیقت ۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی مرحوم
قَدْخَسِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِلِقَاء اللّٰہِ حَتّٰی اِذَا جَاء تْھُمُ السَّاعَۃُ بِغْتَۃً قَالُوْا یٰحَسْرَتَنَا عَلٰی مَا فَرَّطْنَا فِیْھَا وَھُمْ یَحْمِلُوْن اَوْزَارَھُمْ عَلٰی ظُھُوْرِھِمْ اَلَا سَاء مَایَزِرُوْنَ، وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا اِلَّا لَعِبٌ وَلَھْوٌ وَلَدَارُ الْاٰ خِرَۃُ خَیْرٌلِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۔(انعام۔ع۔۴) نھوں نے اللہ سے ملنے کو جھٹلائے رکھا وہ بڑے خسارے میں آ پڑے یہاں تک کہ جب وہ وقت مقرر آپہنچا تو کہنے لگے ہائے افسوس ہماری کوتا ہیو
خبر لیجئے زباں بگڑی ۔ فرزین اور شاطر --- تحریر : اطہر ہاشمی
مفتی منیب الرحمن مدظلہٗ بڑے عالم ہیں اور تعلیم و تعلم میں مصروف رہتے ہیں۔ بھلا انہوں نے کب شطرنج کھیلی ہوگی جو وقت ضائع کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے جسارت میں 20 جنوری کو شائع ہونے والے اپنے بہت دلچسپ مضمون ’’میڈیا کے محبوب‘‘ میں علامہ اقبالؒ کے شعر: شاطر کی عنایت ہے تُو فرزیں میں پیادہ فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ میں لکھا ہے کہ ’’فرزیں بساطِ شطرنج کے مہروں میں شاہ کو کہتے ہیں‘‘۔ شطرنج کی اصطلاحات سے اُن کی لاعلمی قابلِ فہم ہے، لیکن اچھا تھا کہ شطرنج کھیلنے والے کسی شخ
جگر مراد آبادی کے خطوط 01- تحریر : مفتی محمد رضا فرنگی محلی
’ جگر ‘ صاحب [علی سکندر’جگر‘ مرادآبادی ]۔ وفات گونڈہ میں نو ستمبر1960ء مطابق 16 ربیع الاول جمعہ 1380ھ ، کچھ افتاد طبع اور کچھ مشاعروں میں مصروف تر زندگی کی بدولت خط و کتابت کے جھمیلے میں کم پڑتے تھے ، ایسے ضروری خطوط بھی ، جن میں انکی منفعت مضمر ہو ،جواب سے اکثر و بیشتر محروم رہ جاتے تھے ، یہ تو بعض مخلصین کی خیر خواہی تھی کہ ایسے ضروری خط موصول ہوتے ہی وہ جواب لکھوا دیتے یا ان سے پوچھ کر لکھ دیتے تھے ۔ میرے سلسلے میں ایک حسن اتفاق یہ بھی تھا کہ وہ مہینے دو مہینے میں ایک پھیرا لکھنؤ کا ضرور کرت
حج کمیٹی کو بااختیار بنائیں۔۔۔۔از: محمد طاهر مدنی
اس وقت عازمین حج کے مسائل زیر بحث ہیں، جب سے حکومت نے اچانک سبسڈی کے خاتمے کا اعلان کیا ہے، مختلف زاویوں سے بحث و گفتگو ہورہی ہے. موجودہ صورتحال یہ ہے کہ حج کمیٹی بااختیار نہیں ہے، مکمل طور پر حکومت کے کنٹرول میں ہے، صرف درخواستوں کو جمع کرنا اور قرعہ اندازی کرانا اس کا کام ہے اور حج کے سلسلے میں بنیادی امور حکومت کے ہاتھ میں ہیں. دو اہم کام ہیں، جن میں اصلاح کی سخت ضرورت ہے؛ ایک عازمین حج کے ہوائی سفر کا مناسب انتظام اور دوسرے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں رہائش کا معقول بندوبست. ہوائی سفر کیلئ
پچیس سال پہلے کی وہ سرد راتیں اور جیل یاترا ! (چوتھی قسط ۔۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... haneefshabab@gmail.com اللہ کا بڑا احسان یہ ہوا تھاکہ ہمیں دیگر عادی مجرموں اورقیدیوں کے ساتھ کمروں میں بند نہیں کیا گیا تھا بلکہ ہم 22قیدیوں کو بہت وسیع و عریض علاحدہ ہال میں ایک ساتھ رہنے کی سہولت فراہم کردی گئی تھی۔جہاں ہم پاک و صاف رہنے اور نمازیں وغیرہ پڑھنے کے لئے بالکل آزاد تھے۔ہم نے سب سے پہلے ڈاکٹر چترنجن اور ان کے ساتھیو ں کی طرف سے عنایت کردہ ناشتے (اڈلی او رچٹنی) پر ہاتھ صاف کیا،جو کہ اس وقت بڑی نعمت ثابت ہوئی۔پھر ڈاکٹر چترنجن کی طرف سے دئے گئے
آپ مقالہ كيسے لكھیں؟ تحریر : ڈاکٹر محمد اکرم ندوی - آکسفورڈ
دارالعلوم ندوۃ العلماء کے طلبہ کو ایک مشورہ[highlight][/highlight] اس تحرير كے دو حصے ہیں: پهلا حصه: ايكـ اچها مقالہ كيا ہوتا ہے؟ اس كا جواب ہے: 1- مقالہ كا موضوع اچهى طرح اور پورى وضاحت كے ساتهـ آپ كے ذہن میں متعين ہو. 2- اس موضوع سے مربوط مقصد آپ كے ذہن میں صاف ہو. 3- آپ كے ذہن میں مقالہ كے عناصر كى ترتيب كا تصور واضح ہو، اور اس ترتيب كى وجه كے متعلق آپ كے ذہن میں كوئى ابهام نه ہو. 4- آپ كے ذہن میں مختلف اجزاء وفصول میں مقالہ كى تقسيم، اور ہر جزء وفصل كى پيرا گرافس میں تقسيم معقول بنياد
سچی باتیں ۔ گپ شپ ۔۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی رحمۃ اللہ علیہ
کلامِ پاک میں بعض بدترین قسم کے منافقین کا ذکر آتا ہے کہ یہ طرح طرح کی بیہودگیوں اور اللہ کے دین کے ساتھ تمسخر میں لگے رہتے ہیں اور جب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ یہ کیا حرکتیں ہیں تو جواب میں کہتے ہیں کہ کچھ نہیں ہم تو یوں ہی بطورِ مشغلہ و ہدایت ،ہنسی اور تفریح کی باتیں کر رہے تھے انکار تھوڑے ہی مقصود تھا۔ وَلَئِنْ سَاَ لْتَھُمْ لَیَقُولنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَب۔ اگر تم ان سے پوچھو تو یہ کہہ دیں گے کہ ہم بس مشغلہ اور دل لگی کی باتیں کر رہے تھے۔
خبر لیجئے زباں بگڑی ۔۔۔ پھاوڑا اور گول دائرہ۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی
سندھ کے ریکارڈ ساز سابق گورنر عشرت العباد کا طویل انٹرویو، جو ایک انگریزی اخبار میں شائع ہوا اور اس کا اردو ترجمہ اسی اخبار سے منسلک اردو اخبار میں شائع ہوا۔ انٹرویو میں ایک سوال پر عشرت العباد نے کہا کہ ’’میں نے ہمیشہ پھاوڑے کو پھاوڑا ہی کہا‘‘۔ پھاوڑا نہ کہتے تو کیا اسے گیتی و بلم کہتے! سابق گورنر نے انگریزی کا محاورہ استعمال کرتے ہوئے کہا تھا "I CALL A SPADE, A SPADE" ترجمہ کرنے والے کو اس انگریزی محاورہ میں SPADE کا مطلب معلوم ہوگا، چنانچہ لفظ بہ لفظ ترجمہ کرڈالا، تصحیح بھلا کون کرتا۔ اگر ترج
اُترپردیش کی مسجدوں سے بلند ہونے والی اذانیں نشانہ پر۔۔۔از: حفیظ نعمانی
آج جنوری کی 15 تاریخ ہے۔ آج کے بعد مسجد کے ہر متولی کو کوشش کرنا چاہئے کہ خانۂ خدا کے احاطہ میں کوئی خاکی وردی والا نظر نہ آئے۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جس نے بھی صوتی آلودگی کو روکنے کیلئے مفاد عامہ کی آڑ میں ہائی کورٹ میں رِٹ دائر کی کیا اس کے پیش نظر نئے نئے مندروں میں رات دن بجنے والے لاؤڈ اسپیکر تھے؟ ظاہر ہے کہ اس کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اس لئے کہ برسوں سے جس ملک میں مسجد بنانے پر پابندی ہو اور مندر بنانے کے لئے بڑے بڑے فٹ پاتھ بھی ہضم کرلئے جائیں وہاں مندروں کے لاؤڈ اسپیکر کو کون نش
راج سنگھاسن ڈانواڈول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی
وزیراعظم اپنے ساتھی اور دوست امت شاہ کے لئے کہاں تک جاسکتے ہیں اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ جو اب تک ہر کسی کا آخری سہارا تھا وہ بھی پھٹتا نظر آرہا ہے ۔ سپریم کورٹ کی زندگی میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ چار محترم سینئر جج اندرونی طور پر اپنی سی کوششوں کو ناکام دیکھ کر عوام کی عدالت میں آگئے۔ اور وہ سب کہہ دیا جس کے بعد اچھا تو یہ تھا کہ چیف جسٹس دیپک مشراجی استعفیٰ دے کر باہر آجاتے یا اسی کانفرنس میں آکر معذرت کرلیتے۔ گجرات کا سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر کیس سی بی آئی دیکھ رہی تھ