Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















راج سنگھاسن ڈانواڈول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی
وزیراعظم اپنے ساتھی اور دوست امت شاہ کے لئے کہاں تک جاسکتے ہیں اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ جو اب تک ہر کسی کا آخری سہارا تھا وہ بھی پھٹتا نظر آرہا ہے ۔ سپریم کورٹ کی زندگی میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ چار محترم سینئر جج اندرونی طور پر اپنی سی کوششوں کو ناکام دیکھ کر عوام کی عدالت میں آگئے۔ اور وہ سب کہہ دیا جس کے بعد اچھا تو یہ تھا کہ چیف جسٹس دیپک مشراجی استعفیٰ دے کر باہر آجاتے یا اسی کانفرنس میں آکر معذرت کرلیتے۔ گجرات کا سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر کیس سی بی آئی دیکھ رہی تھ
دنیا مسلمانوں سے قائم ہے اور مسلمان دینی مدارس سے۔۔۔از: مولانا محمد الیاس جاکٹی ندوی
Nadviacademy@hotmail.com (وسیم رضوی کے مدارس کے خلاف بیان کے پس منظر میں ایک فکر انگیز تحریر) چینی مسلمانوں کے خوش کن حالات :کچھ مدت پہلے راقم الحروف آبادی میں دنیا کے سب سے بڑے ملک چین کے دعوتی دورہ سے واپس ہوا تو اس کے لیے وہاں کی غیر معمولی صنعتی وتجارتی ترقی تو متاثرکن تھی ہی لیکن بحیثیت ایک مسلمان اور مدرسہ کے ایک طالب علم کے جس چیز نے سب سے زیادہ متاثرکیا وہ وہاں کے مسلمانوں کی دین پر استقامت تھی جو دین ومذہب کے حوالہ سے گذشتہ پون صدی کے ناگفتہ بہ حالات اور ان پر ہونے والے انسانیت سو
مدرسوں کی روح اور اُن کا مقصد۔۔۔از: حفیظ نعمانی
مدرسوں سے متعلق ہم جو لکھ رہے ہیں وہ نہ شاید کتابوں میں کہیں ملے گا اور نہ اب کوئی اس نسل کا باقی ہے جو اس کی تفصیل بتا سکے۔ ہم نے ان بزرگوں سے سنا ہے جن کا اوڑھنا بچھونا دارالعلوم دیوبند، اس کی ترقی اور اس کی حفاظت تھی۔ دارالعلوم سے جب لڑکے عالم بن کر نکلنے لگے تو ان میں سے چند لڑکے حیدر آباد گئے اور وہاں نظام حیدر آباد کے ذاتی دفتر میں کام کرنے لگے۔ ایک سال کے بعد نظام حیدر آباد کے ایک وزیر کا خط دارالعلوم دیوبند کے مہتمم کے نام آیا۔ اس میں لکھا تھا کہ آپ کے مدرسہ کے پانچ لڑکے حضور نظام کے ذات
خبر لیجئے زباں بگڑی ۔ اطراف کا قضیہ ۔۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی
ہمیں ماہر لسانیات ہونے کا دعویٰ تو کبھی نہیں رہا، بس کبھی کبھار ’’پنگا‘‘ لے لیتے ہیں۔ گزشتہ شمارے میں ہم نے لکھا تھا کہ ’اطراف‘ کا مطلب ہے دو طرف، چناں چہ کئی اطراف اور چاروں اطراف لکھنا غلط ہے۔ اس پر دو ماہرینِ لسانیات، ادیب اور اہلِ علم میں نمایاں مقام رکھنے والے افراد نے گرفت کی ہے۔ ان میں سے پہلے تو عربی اور اردو پر استادانہ گرفت رکھنے والے محترم عبدالغفار عزیز ہیں۔ ہمیں تو اس بات کی خوشی ہے کہ اس طرح ان کے قلم پر ہمارا نام تو آیا۔ برسوں پہلے ان سے منصورہ میں ایک مختصر سی ملاقات ہوئی تھی جو

گجرات نے بھی کجریوال ملک کو دے دیا۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی
گجرات اسمبلی کے انتخابات نے ملک کی سیاست کا رُخ موڑ دیا ہے۔ بی جے پی نے 99 سیٹیں جیت کر حکومت سازی کی تقریب اتنی ہی دھوم دھام سے منائی جیسے پندرہ سال کے بعد اترپردیش میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد منائی تھی کہ جہاں جہاں بی جے پی کی حکومت تھی وہاں کے وزیر اعلیٰ کو تالی بجانے کے لئے بلایا تھا۔ اور یہ سب بی جے پی کے دل برداشتہ کارکنوں کے دلوں سے اس دہشت کے مٹانے کے لئے تھا جو اس الیکشن میں ان کے دلوں میں بیٹھ گئی تھی۔ الیکشن سے پہلے مودی جی اور امت شاہ کی زبان پر 150 سے زیادہ سیٹوں کا چرچا تھا اور یہ
خبر لیجئے زباں بگڑی ۔ ۔۔ خوشی کے شادیانے /تحریر : اطہر ہاشمی
ایک جملہ اکثر پڑھنے میں آتا ہے ’’خوشی کے شادیانے بجنے لگے‘‘۔ سال 2018ء کے پہلے دن ادارتی صفحے پر حافظ عاکف سعید کا مضمون چھپا ہے۔ اس میں شروع ہی میں ایک جملہ ہے ’’اسرائیل میں خوشی کے شادیانے بجائے جارہے ہیں‘‘۔ اگر اس میں سے ’’خوشی کے‘‘ نکال دیا جائے تو بھی مفہوم پورا ہوجائے گا اور جملہ تکرارِ قبیح سے محفوظ ہوجائے گا۔ ’شادیانے‘ کا مطلب ہی خوشی ہے۔ فارسی کا لفظ ہے اور مطلب ہے: خوشی کا باجا، وہ نوبت جو شادی میں بجائی جاتی ہے، خوشی کے گیت گانا وغیرہ۔ اس کی اصل ’شاد‘ ہے (بروزن باد)۔ مطلب ہے: خوش و خر

مدارس اسلامیہ کے لیے لمحہ فکریہ اور اس کی سب سے بڑی ضرورت ۔۔۔۔ از: محمد الیاس بھٹکلی ندوی
گذشتہ دوتین ماہ کے دوران ملک کے متعدد صوبوں میں جانے اور مختلف دعوتی پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا، ان اسفار میں کئی ایسے واقعات پیش آئے جس سے ایک مدرسہ کے طالب علم اور خادم ہونے کی حیثیت سے دل بیٹھ گیا۔ ایک سیمنار میں شرکت کے دوران قریب کے ایک بڑے مدرسہ میں جاناہوا، وقت کم تھا، مدرسہ کے تفصیلی معائنہ کی گنجائش نہیں تھی، اس لیے ہم نے معذرت کردی، لیکن بعض بڑے اساتذہ کا اصرار تھا کہ ہم کم از کم ان کے ایک اہم شعبہ کو ضرور دیکھیں، یہ کہہ کر وہ ہمیں کمپیوٹر کے شعبہ میں لے گئے ، وہ اس شعبہ کا اس طرح
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی
مسلم پرسنل لاء بورڈ نے خطرہ ظاہر کیا ہے کہ راجیہ سبھا میں ایک وقت میں تین طلاق بل کے منظور نہ ہونے سے ناراض حکومت آرڈی نینس کے ذریعہ اس بل کو مسلمانوں پر مسلط کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ بورڈ نے کہا ہے کہ وہ محترم صدر سے درخواست کرے گا کہ وہ ایسے بل کو منظور نہ کریں۔ یہ بات اب کہنے کی نہیں ہے کہ وزیر اعظم نے اب تک کے اپنے اقتدار میں سب کا ساتھ سب کا وکاس کا تو صرف نعرہ لگایا ہے لیکن کام صرف یہ کیا ہے کہ پورے ملک پر کیسے حکومت ان کی ہو اور ہر کلیدی عہدہ پر انہیں بٹھایا جائے جن کے لئے مودی جی اتن
پچیس سال پہلے کی وہ سرد راتیں اور جیل یاترا ! (تیسری قسط)۔۔۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... haneefshabab@gmail.com تعلقہ میجسٹرئٹ کے پاس پیشی کے بعد جب ہمیں واپس سب جیل کے ورانڈے میں لایا گیاتو پولیس کی اجازت ملنے پر ہم نے ہوٹل سے ناشتہ منگوایا۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے ہوئے اپنی بھوک اور پیاس مٹارہے تھے کہ سب جیل کے سامنے، ہتھیار بند گارڈس کے ساتھ ایک پولیس ویان آکر رک گئی اور سب جیل کے گارڈ نے ہم لوگوں کو جلد ی جلدی کھانا ختم کرنے اور تیار ہوجانے کے لئے آواز لگائی۔ہم سب ہکا بکّا رہ گئے۔ہمارے ہاتھ میں نوالے رک گئے اورہم ایک دوسرے کی
سچی باتیں ۔۔۔ دنیا کی لگاوٹ ۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی مرحوم
اِنَّ الَّذِیْنَ لَایَرْجُوْنَ لِقَاء نَا وَرَضُوْا بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَاطْمَأَنُّوْا بِھَا وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ آ یا تِنَا غَافِلُوْنَ * أُوْلٰئِکَ مَأْوٰھُمُ النَّارُ بَمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ۔ یونس ع ۱ جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور دنیاکی زندگی پر راضی ہیں او ر اسی پر مطمئن ہوگئے ہیں اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں ایسے ہی لوگوں کا ٹھکانہ آگ ہے ،اس کے بدلے میں جو کچھ وہ کرگئے۔ آیۂ پاک کے آخر میں بعض لوگوں کے حق میں ارشاد ہوتا ہے کہ انھوں نے جیسے
طلاق بل صرف مسلمانوں کے گلے میں پھندہ کیلئے۔۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی
ایک نشست میں تین طلاق بل راجیہ سبھا میں پیش تو ہوا مگر پاس اس لئے نہ ہوسکا کہ بی جے پی کی مخالف تمام پارٹیوں نے اس بل کو سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیجنے کا مشورہ دیا۔ یہ بل جسے تین طلاق بل کے غلط نام سے پکارا جارہا ہے اس کے بارے میں وزیر قانون روی شنکر پرشاد کی عجلت سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے۔ انہوں نے منھ بگاڑکر کہا کہ لوک سبھا میں کانگریس کا رویہ یہ نہیں تھا تو راجیہ سبھا میں دوسرا چہرہ اس نے کیوں دکھایا؟ ہم نہیں جانتے کہ جس کانگریس کو ان کے آقا ملک سے باہر کرنے کا نعرہ دے کر میدان میں آئے تھے انہی
نیا انتباہ یا طبلِ جنگ۔۔۔۔۔۔۔از: کلدیپ نیئر
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان میں رتی بھر سچ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے ملک نے پاکستان کو گزشتہ 15 سال میں بڑی بے وقوفی سے 33 بلین ڈالر کی رقم امداد میں دیدی، لیکن موصوف کا یہ کہنا غلط ہے کہ امریکا کو اتنی بھاری رقم کے عوض کچھ نہیں ملا۔ یہ بات تو ظاہر ہے کہ پاکستان ڈالروں میں تو ادائیگی نہیں کر سکتا اور نہ ہی امریکا کو اس کی توقع ہے لیکن پاکستان نے اپنے ملک میں امریکا کو فوجی اڈے قائم کرنے کی اجازت دی۔ صدر ٹرمپ نے خوامخواہ کی بدکلامی کی۔ جب انھوں نے کہا کہ ان کے ملک کو جواب میں دروغ گوئی اور
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی
عمر میں ہم سے پندرہ سال چھوٹے، ٹوٹ کر محبت کرنے والے بھائی زیادہ دوست کم انور جلال پوری بھی داغ مفارقت دے گئے اور یہ پیارے انور کا ہی شعر ہے لوہے کا جگر جس کا تھا فولاد کا بازو تھک ہار کے اس نے بھی کفن اوڑھ لیا ہے اور یہ تھکنا ہارنا بظاہر اس کا تھا کہ اپنی جوان بیٹی کو لندن کے قبرستان میں سلاکر آگئے اور اپنے ساتھ قبر کا نمبر ہی لاسکے۔ وہ باپ جو بیٹی سے محبت کرتا ہے وہ اپنے آقا مولا حضرت محمدؐ کا اس لئے پیارا ہے کہ یہ ان کی سنت ہے۔ اخبار میں جب برین ہیمبریج کی پہلی خبر پڑھ کر ٹیلیفون کیا

انور جلال پوری اپنی نثر کے آئینے میں / تحریر: : سہیل انجم
اگر کوئی مجھ سے پہلے پوچھتا کہ انور جلال پوری ایک اچھے شاعر اور ناظمِ مشاعرہ تھے یا ایک اچھے نثر نگار تو میں فوراً جواب دیتا کہ وہ تو شاعر اور ناظم تھے ان کا نثر سے کیا تعلق؟ لیکن جب میں نے ان کے مضامین کے مجموعے ’’روشنائی کے سفیر‘‘ کا مطالعہ کیا تو میں شش و پنج میں پڑ گیا۔ میرے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ وہ ایک اچھے شاعر اور ناظمِ مشاعرہ تھے یا ایک بہترین نثر نگار۔ سچ بات یہ ہے کہ وہ جتنے اچھے شاعر اور ناظم تھے اتنے ہی اچھے نثر نگار بھی تھے۔ (وہ بہت اچھے انسان بھی تھے اس پر گفتگو پھر کبھی

انور جلال پوری ۔۔۔ روشنائی کا سفیر ۔۔۔ تحریر : راحت علی صدیقی قاسمی
روشنائی کا سفیر، قلم کا خادم مشاعروں کی زینت رخصت ہوگیا، مشاعروں کی فضاء تاریک ہوگئی، اہل اردو کے قلوب میں غم چہروں پر افسردگی کے آثار نمایاں ہیں، مشاعروں پر حکومت کرنے والی شخصیت، ایک عہد تک مشاعروں میں گونجنے والی آواز اب کانوں میں نہیں پڑیگی، سامعین کے قلوب پر حکومت کرتی وہ دلکش آواز ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئی، موت کے سخت ترین حملہ نے اسے بھی خاموش کر دیا، جو بولتا تو رات بھر بولتا رہتا، جس کی آواز سامعین کے قلوب پر دستک دیتی، فضا پر سکوت وجمود طاری کردیتی، لوگ گفتگو میں محو ہوجاتے، زبان سے الف
بیمار قوم پرستی کی علامت کیوں بن گئے جوہر؟۔۔۔۔۔۔۔۔از: محمد علم اللہ
چار جنوری یوم وفات کی مناسبت سے خاص کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں، جن کا نقش آپ کے ذہن پر کنداں ہوجاتا ہے اور پھر وہ مٹائے نہیں مٹتا۔ اُنھی میں سے ایک مولانا محمد علی جوہر کی شخصیت ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں نے مولانا محمد علی جوہر کے بارے میں پہلی مرتبہ کب اور کیا سنا؟ لیکن ان کے بارے میں اتنا سنا کہ ان کی شخصیت کا ایک ہیولا سا میرے ذہن میں بن گیا۔ شیروانی، مخملی دوپلی ٹوپی اور گاندھی نما گول شیشے والی عینک زیب تن کیے ہوئے، ایک با رُعب شخصیت، جو انتہائی مختصر مدت میں بہت سے کام انجام دے کر، اس د
تبصرہ : مولانا ابو الجلال ندوی ۔۔۔ رفیع الزماں زبیری
مولانا ابوالجلال ندوی شمالی ہند کے علما کے ایک نامور خاندان کے فرد تھے۔ ندوہ سے اور پھر دارالمصنفین اعظم گڑھ سے تعلق تھا۔ ہندی، فارسی، عربی اور انگریزی پر عبور تھا۔ قرآن، تفسیر، حدیث، فقہ کے عالم تھے، لسانیات اور ادبیات عالم ان کا خاص موضوع تھا تاریخ و تحقیق کے آدمی تھے، دماغ ان کا ہزاروں کتابوں کا حافظ تھا۔ احمد حاطب صدیقی نے جو ان کے چھوٹے بھائی کے بیٹے ہیں، ان کی یاد داشتیں مرتب کی ہیں۔ یہ یادداشتیں دیدہ، شنیدہ اور خواندہ ہیں۔ اس کتاب کا عنوان بھی یہی ہے۔ مولانا ابوالجلال کے آبائی گاؤں محی ا

ایک صدی کی شخصیت - تحریر: عبد المتین منیری
یہ تاثرات انڈین اسلامک سنٹر دبی کے زیر اہتمام منعقدہ تعزیتی اجلاس میں ۲۷ رمضان المبارک ۱۴۲۰ھ مطابق ۴ جنوری ۲۰۰۰ء پیش کئے گئے تھے . قند مکرر کے طور دوبارہ پیش کیا جارہا ہے بیسویں صدی کے اختتام اور اکیسویں صدی کے آغاز پر جہاں ساری دنیا جشن کے شادیانے بجارہی تھی اور نئی صدی کے پر جوش استقبال کی تیاریوں میں مگن تھی، مسلمانا ن عالم ایک عظیم سانحہ سے دوچار ہوگئے ۔ ان کے عظیم قائد و رہنما و مفکر حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی عمر عزیز کی ۸۶ بہاریں طاعت خداوندی اور رہنمائی
