Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















جگر مراد آبادی کے خطوط - قسط 02 - تحریر : محمد رضا انصاری فرنگی محلی
۷۸۶ گونڈہ مولاۓ مخلص و مکرم زاد لطفہ علیکم السلام ورحمتہ اللہ برکاتہ آپکے دو مکتوبات نظر نواز ہوۓ،میری علالت کا سلسلہ جاری ہے ۔روزانہ لکھنؤ جانے کا ارادہ کرتا ہوں اور روزانہ ختم کر دینا پڑتا ہے ، کل کسی ٹرین سے غالبا ً روانہ ہو سکوں ۔ میرا یہ عالم ہے کہ جیسے اب کسی چیز میں کوئ دلکشی باقی نہیں رہ گئ ہے یہی علامت ہے کہ غالبا ً زمانہ طلبی کا قریب تر آتا جا رہا ہے ، میں نے یہ محسوس کر کے کہ صحت بھی جواب دیتی جارہی ہے،خدا جانے کس وقت دنیاۓ اعتبار کو الفراق کہہ دین
پچیس سال پہلے کی وہ سرد راتیں اور جیل یاترا !! (پانچویں اور آخری قسط)۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... haneefshabab@gmail.com غالباً جیل میں وہ چھٹا یا ساتواں دن تھاجب ہمارا انتظار اور اضطراب ختم ہوگیا اور ہمیں یہ خوشخبری مل گئی کہ ہماری ضمانت ہوگئی ہے۔ بھٹکل سے ہمیں چھڑانے اور اپنے ساتھ لے جانے کے لئے ہمارے ہمدرد اور نوجوان ساتھیوں کا وفدصبح کے وقت بیلگام سنٹرل جیل پہنچا۔ چونکہ وہ اتوار کا دن تھااس لئے جیلر کے آنے اور کاغذی کارروائی انجام دینے میں کافی تاخیر ہوئی۔ ہماری جمع شدہ رقم واپس لینے کے بعد اندر قیدیوں سے لی گئی ادھار سودے کی رقم اور کچھ تھوڑی بہت
سچی باتیں ۔۔۔ حیات دنیوی کی حقیقت ۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی مرحوم
قَدْخَسِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِلِقَاء اللّٰہِ حَتّٰی اِذَا جَاء تْھُمُ السَّاعَۃُ بِغْتَۃً قَالُوْا یٰحَسْرَتَنَا عَلٰی مَا فَرَّطْنَا فِیْھَا وَھُمْ یَحْمِلُوْن اَوْزَارَھُمْ عَلٰی ظُھُوْرِھِمْ اَلَا سَاء مَایَزِرُوْنَ، وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا اِلَّا لَعِبٌ وَلَھْوٌ وَلَدَارُ الْاٰ خِرَۃُ خَیْرٌلِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۔(انعام۔ع۔۴) نھوں نے اللہ سے ملنے کو جھٹلائے رکھا وہ بڑے خسارے میں آ پڑے یہاں تک کہ جب وہ وقت مقرر آپہنچا تو کہنے لگے ہائے افسوس ہماری کوتا ہیو

خبر لیجئے زباں بگڑی ۔ فرزین اور شاطر --- تحریر : اطہر ہاشمی
مفتی منیب الرحمن مدظلہٗ بڑے عالم ہیں اور تعلیم و تعلم میں مصروف رہتے ہیں۔ بھلا انہوں نے کب شطرنج کھیلی ہوگی جو وقت ضائع کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے جسارت میں 20 جنوری کو شائع ہونے والے اپنے بہت دلچسپ مضمون ’’میڈیا کے محبوب‘‘ میں علامہ اقبالؒ کے شعر: شاطر کی عنایت ہے تُو فرزیں میں پیادہ فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ میں لکھا ہے کہ ’’فرزیں بساطِ شطرنج کے مہروں میں شاہ کو کہتے ہیں‘‘۔ شطرنج کی اصطلاحات سے اُن کی لاعلمی قابلِ فہم ہے، لیکن اچھا تھا کہ شطرنج کھیلنے والے کسی شخ

جگر مراد آبادی کے خطوط 01- تحریر : مفتی محمد رضا فرنگی محلی
’ جگر ‘ صاحب [علی سکندر’جگر‘ مرادآبادی ]۔ وفات گونڈہ میں نو ستمبر1960ء مطابق 16 ربیع الاول جمعہ 1380ھ ، کچھ افتاد طبع اور کچھ مشاعروں میں مصروف تر زندگی کی بدولت خط و کتابت کے جھمیلے میں کم پڑتے تھے ، ایسے ضروری خطوط بھی ، جن میں انکی منفعت مضمر ہو ،جواب سے اکثر و بیشتر محروم رہ جاتے تھے ، یہ تو بعض مخلصین کی خیر خواہی تھی کہ ایسے ضروری خط موصول ہوتے ہی وہ جواب لکھوا دیتے یا ان سے پوچھ کر لکھ دیتے تھے ۔ میرے سلسلے میں ایک حسن اتفاق یہ بھی تھا کہ وہ مہینے دو مہینے میں ایک پھیرا لکھنؤ کا ضرور کرت
حج کمیٹی کو بااختیار بنائیں۔۔۔۔از: محمد طاهر مدنی
اس وقت عازمین حج کے مسائل زیر بحث ہیں، جب سے حکومت نے اچانک سبسڈی کے خاتمے کا اعلان کیا ہے، مختلف زاویوں سے بحث و گفتگو ہورہی ہے. موجودہ صورتحال یہ ہے کہ حج کمیٹی بااختیار نہیں ہے، مکمل طور پر حکومت کے کنٹرول میں ہے، صرف درخواستوں کو جمع کرنا اور قرعہ اندازی کرانا اس کا کام ہے اور حج کے سلسلے میں بنیادی امور حکومت کے ہاتھ میں ہیں. دو اہم کام ہیں، جن میں اصلاح کی سخت ضرورت ہے؛ ایک عازمین حج کے ہوائی سفر کا مناسب انتظام اور دوسرے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں رہائش کا معقول بندوبست. ہوائی سفر کیلئ
پچیس سال پہلے کی وہ سرد راتیں اور جیل یاترا ! (چوتھی قسط ۔۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... haneefshabab@gmail.com اللہ کا بڑا احسان یہ ہوا تھاکہ ہمیں دیگر عادی مجرموں اورقیدیوں کے ساتھ کمروں میں بند نہیں کیا گیا تھا بلکہ ہم 22قیدیوں کو بہت وسیع و عریض علاحدہ ہال میں ایک ساتھ رہنے کی سہولت فراہم کردی گئی تھی۔جہاں ہم پاک و صاف رہنے اور نمازیں وغیرہ پڑھنے کے لئے بالکل آزاد تھے۔ہم نے سب سے پہلے ڈاکٹر چترنجن اور ان کے ساتھیو ں کی طرف سے عنایت کردہ ناشتے (اڈلی او رچٹنی) پر ہاتھ صاف کیا،جو کہ اس وقت بڑی نعمت ثابت ہوئی۔پھر ڈاکٹر چترنجن کی طرف سے دئے گئے
آپ مقالہ كيسے لكھیں؟ تحریر : ڈاکٹر محمد اکرم ندوی - آکسفورڈ
دارالعلوم ندوۃ العلماء کے طلبہ کو ایک مشورہ[highlight][/highlight] اس تحرير كے دو حصے ہیں: پهلا حصه: ايكـ اچها مقالہ كيا ہوتا ہے؟ اس كا جواب ہے: 1- مقالہ كا موضوع اچهى طرح اور پورى وضاحت كے ساتهـ آپ كے ذہن میں متعين ہو. 2- اس موضوع سے مربوط مقصد آپ كے ذہن میں صاف ہو. 3- آپ كے ذہن میں مقالہ كے عناصر كى ترتيب كا تصور واضح ہو، اور اس ترتيب كى وجه كے متعلق آپ كے ذہن میں كوئى ابهام نه ہو. 4- آپ كے ذہن میں مختلف اجزاء وفصول میں مقالہ كى تقسيم، اور ہر جزء وفصل كى پيرا گرافس میں تقسيم معقول بنياد
سچی باتیں ۔ گپ شپ ۔۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی رحمۃ اللہ علیہ
کلامِ پاک میں بعض بدترین قسم کے منافقین کا ذکر آتا ہے کہ یہ طرح طرح کی بیہودگیوں اور اللہ کے دین کے ساتھ تمسخر میں لگے رہتے ہیں اور جب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ یہ کیا حرکتیں ہیں تو جواب میں کہتے ہیں کہ کچھ نہیں ہم تو یوں ہی بطورِ مشغلہ و ہدایت ،ہنسی اور تفریح کی باتیں کر رہے تھے انکار تھوڑے ہی مقصود تھا۔ وَلَئِنْ سَاَ لْتَھُمْ لَیَقُولنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَب۔ اگر تم ان سے پوچھو تو یہ کہہ دیں گے کہ ہم بس مشغلہ اور دل لگی کی باتیں کر رہے تھے۔

خبر لیجئے زباں بگڑی ۔۔۔ پھاوڑا اور گول دائرہ۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی
سندھ کے ریکارڈ ساز سابق گورنر عشرت العباد کا طویل انٹرویو، جو ایک انگریزی اخبار میں شائع ہوا اور اس کا اردو ترجمہ اسی اخبار سے منسلک اردو اخبار میں شائع ہوا۔ انٹرویو میں ایک سوال پر عشرت العباد نے کہا کہ ’’میں نے ہمیشہ پھاوڑے کو پھاوڑا ہی کہا‘‘۔ پھاوڑا نہ کہتے تو کیا اسے گیتی و بلم کہتے! سابق گورنر نے انگریزی کا محاورہ استعمال کرتے ہوئے کہا تھا "I CALL A SPADE, A SPADE" ترجمہ کرنے والے کو اس انگریزی محاورہ میں SPADE کا مطلب معلوم ہوگا، چنانچہ لفظ بہ لفظ ترجمہ کرڈالا، تصحیح بھلا کون کرتا۔ اگر ترج

اُترپردیش کی مسجدوں سے بلند ہونے والی اذانیں نشانہ پر۔۔۔از: حفیظ نعمانی
آج جنوری کی 15 تاریخ ہے۔ آج کے بعد مسجد کے ہر متولی کو کوشش کرنا چاہئے کہ خانۂ خدا کے احاطہ میں کوئی خاکی وردی والا نظر نہ آئے۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جس نے بھی صوتی آلودگی کو روکنے کیلئے مفاد عامہ کی آڑ میں ہائی کورٹ میں رِٹ دائر کی کیا اس کے پیش نظر نئے نئے مندروں میں رات دن بجنے والے لاؤڈ اسپیکر تھے؟ ظاہر ہے کہ اس کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اس لئے کہ برسوں سے جس ملک میں مسجد بنانے پر پابندی ہو اور مندر بنانے کے لئے بڑے بڑے فٹ پاتھ بھی ہضم کرلئے جائیں وہاں مندروں کے لاؤڈ اسپیکر کو کون نش
راج سنگھاسن ڈانواڈول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی
وزیراعظم اپنے ساتھی اور دوست امت شاہ کے لئے کہاں تک جاسکتے ہیں اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ جو اب تک ہر کسی کا آخری سہارا تھا وہ بھی پھٹتا نظر آرہا ہے ۔ سپریم کورٹ کی زندگی میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ چار محترم سینئر جج اندرونی طور پر اپنی سی کوششوں کو ناکام دیکھ کر عوام کی عدالت میں آگئے۔ اور وہ سب کہہ دیا جس کے بعد اچھا تو یہ تھا کہ چیف جسٹس دیپک مشراجی استعفیٰ دے کر باہر آجاتے یا اسی کانفرنس میں آکر معذرت کرلیتے۔ گجرات کا سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر کیس سی بی آئی دیکھ رہی تھ
دنیا مسلمانوں سے قائم ہے اور مسلمان دینی مدارس سے۔۔۔از: مولانا محمد الیاس جاکٹی ندوی
Nadviacademy@hotmail.com (وسیم رضوی کے مدارس کے خلاف بیان کے پس منظر میں ایک فکر انگیز تحریر) چینی مسلمانوں کے خوش کن حالات :کچھ مدت پہلے راقم الحروف آبادی میں دنیا کے سب سے بڑے ملک چین کے دعوتی دورہ سے واپس ہوا تو اس کے لیے وہاں کی غیر معمولی صنعتی وتجارتی ترقی تو متاثرکن تھی ہی لیکن بحیثیت ایک مسلمان اور مدرسہ کے ایک طالب علم کے جس چیز نے سب سے زیادہ متاثرکیا وہ وہاں کے مسلمانوں کی دین پر استقامت تھی جو دین ومذہب کے حوالہ سے گذشتہ پون صدی کے ناگفتہ بہ حالات اور ان پر ہونے والے انسانیت سو
مدرسوں کی روح اور اُن کا مقصد۔۔۔از: حفیظ نعمانی
مدرسوں سے متعلق ہم جو لکھ رہے ہیں وہ نہ شاید کتابوں میں کہیں ملے گا اور نہ اب کوئی اس نسل کا باقی ہے جو اس کی تفصیل بتا سکے۔ ہم نے ان بزرگوں سے سنا ہے جن کا اوڑھنا بچھونا دارالعلوم دیوبند، اس کی ترقی اور اس کی حفاظت تھی۔ دارالعلوم سے جب لڑکے عالم بن کر نکلنے لگے تو ان میں سے چند لڑکے حیدر آباد گئے اور وہاں نظام حیدر آباد کے ذاتی دفتر میں کام کرنے لگے۔ ایک سال کے بعد نظام حیدر آباد کے ایک وزیر کا خط دارالعلوم دیوبند کے مہتمم کے نام آیا۔ اس میں لکھا تھا کہ آپ کے مدرسہ کے پانچ لڑکے حضور نظام کے ذات
خبر لیجئے زباں بگڑی ۔ اطراف کا قضیہ ۔۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی
ہمیں ماہر لسانیات ہونے کا دعویٰ تو کبھی نہیں رہا، بس کبھی کبھار ’’پنگا‘‘ لے لیتے ہیں۔ گزشتہ شمارے میں ہم نے لکھا تھا کہ ’اطراف‘ کا مطلب ہے دو طرف، چناں چہ کئی اطراف اور چاروں اطراف لکھنا غلط ہے۔ اس پر دو ماہرینِ لسانیات، ادیب اور اہلِ علم میں نمایاں مقام رکھنے والے افراد نے گرفت کی ہے۔ ان میں سے پہلے تو عربی اور اردو پر استادانہ گرفت رکھنے والے محترم عبدالغفار عزیز ہیں۔ ہمیں تو اس بات کی خوشی ہے کہ اس طرح ان کے قلم پر ہمارا نام تو آیا۔ برسوں پہلے ان سے منصورہ میں ایک مختصر سی ملاقات ہوئی تھی جو

گجرات نے بھی کجریوال ملک کو دے دیا۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی
گجرات اسمبلی کے انتخابات نے ملک کی سیاست کا رُخ موڑ دیا ہے۔ بی جے پی نے 99 سیٹیں جیت کر حکومت سازی کی تقریب اتنی ہی دھوم دھام سے منائی جیسے پندرہ سال کے بعد اترپردیش میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد منائی تھی کہ جہاں جہاں بی جے پی کی حکومت تھی وہاں کے وزیر اعلیٰ کو تالی بجانے کے لئے بلایا تھا۔ اور یہ سب بی جے پی کے دل برداشتہ کارکنوں کے دلوں سے اس دہشت کے مٹانے کے لئے تھا جو اس الیکشن میں ان کے دلوں میں بیٹھ گئی تھی۔ الیکشن سے پہلے مودی جی اور امت شاہ کی زبان پر 150 سے زیادہ سیٹوں کا چرچا تھا اور یہ
خبر لیجئے زباں بگڑی ۔ ۔۔ خوشی کے شادیانے /تحریر : اطہر ہاشمی
ایک جملہ اکثر پڑھنے میں آتا ہے ’’خوشی کے شادیانے بجنے لگے‘‘۔ سال 2018ء کے پہلے دن ادارتی صفحے پر حافظ عاکف سعید کا مضمون چھپا ہے۔ اس میں شروع ہی میں ایک جملہ ہے ’’اسرائیل میں خوشی کے شادیانے بجائے جارہے ہیں‘‘۔ اگر اس میں سے ’’خوشی کے‘‘ نکال دیا جائے تو بھی مفہوم پورا ہوجائے گا اور جملہ تکرارِ قبیح سے محفوظ ہوجائے گا۔ ’شادیانے‘ کا مطلب ہی خوشی ہے۔ فارسی کا لفظ ہے اور مطلب ہے: خوشی کا باجا، وہ نوبت جو شادی میں بجائی جاتی ہے، خوشی کے گیت گانا وغیرہ۔ اس کی اصل ’شاد‘ ہے (بروزن باد)۔ مطلب ہے: خوش و خر

مدارس اسلامیہ کے لیے لمحہ فکریہ اور اس کی سب سے بڑی ضرورت ۔۔۔۔ از: محمد الیاس بھٹکلی ندوی
گذشتہ دوتین ماہ کے دوران ملک کے متعدد صوبوں میں جانے اور مختلف دعوتی پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا، ان اسفار میں کئی ایسے واقعات پیش آئے جس سے ایک مدرسہ کے طالب علم اور خادم ہونے کی حیثیت سے دل بیٹھ گیا۔ ایک سیمنار میں شرکت کے دوران قریب کے ایک بڑے مدرسہ میں جاناہوا، وقت کم تھا، مدرسہ کے تفصیلی معائنہ کی گنجائش نہیں تھی، اس لیے ہم نے معذرت کردی، لیکن بعض بڑے اساتذہ کا اصرار تھا کہ ہم کم از کم ان کے ایک اہم شعبہ کو ضرور دیکھیں، یہ کہہ کر وہ ہمیں کمپیوٹر کے شعبہ میں لے گئے ، وہ اس شعبہ کا اس طرح