Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















سچی باتیں ۔ خدا فراموشی اور خود فراموشی ۔۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی علیہ الرحمۃ
آپ انگریزی تعلیم یافتہ ہیں اور ریل کے کسی اونچے درجہ میں سفر کررہے ہیں اس وقت آپ کے اور آپ کے دوسرے ساتھیوں کے ہاتھ میں انگریزی اخبارات کا ہونا لازمی ہے یہ اخبارات کون سے ہوتے ہیں ؟ یہی پانیر اسٹیٹسمین، ٹائمس آف انڈیا، ہندوستان ٹائمس، لیڈر، بمبیٔ کرانیکل ہیں یا کوئی اور ؟ان اخبارات میں سے کوئی مسلمانوں کا بھی اخبار ہے؟ کوئی واقعات عالم کو مسلمان کے نقطۂ نظر سے بھی دیکھتاہے ؟ کوئی آپ کی نمائندگی کرتاہے؟ ریورٹر، ہو یا ایسوسی ایٹیڈ پریس ، ،فری پریس ہو یا کوئی اور کوئی بھی ہوا یجنسی آپ کے ہ
دین کا کام کرنے والی واحد جماعت بھی سیاسی بن گئی۔۔۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی
دہلی کی بستی نظام الدین میں بنگلہ والی مسجد اور اس سے ملے ہوئے ایک مدرسہ میں کاندھلہ کے ایک بزرگ حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی نے بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ ان کے بھائیوں اور باپ کو بھی دین کی ابتدائی باتیں سکھائیں اور انہیں نماز روزہ کا پابند بنایا۔ حضرت مولانا نے وہاں آنے والے میواتیوں کا جب حال دیکھا تو حضرت کے دل پر چوٹ لگی کہ وہ اپنے کو مسلمان کہتے ہیں مگر اسلام کی ایک بات بھی نہ جانتے ہیں نہ عمل کرتے ہیں۔ یہ 1920 ء کے آس پاس کی بات ہے کہ حضرت مولانا الیاس نے ان میواتیوں کو اسلام پر عمل
آخری مسافر ۔ ڈاکٹر علی ملپا صاحب علیہ الرحمۃ ۔ قسط 03۔۔۔۔ تحریر : عبد المتین منیری
بھٹکل میں مستقل قیام کے فیصلے اور دواخانہ کے آغاز کے بعد ڈاکٹر صاحب نے بھر پور طور پر یہاں کی سماجی اور اجتماعی زندگی میں حصہ لیا ، وہ یہاں کے مرکزی اداروں ، مجلس اصلا ح وتنظیم ، انجمن حامی مسلمین ، جماعت المسلمین میں متحرک رہے ، میونسپل کونسل میں بھی رہے ، ان اداروں میں وہ مختلف عہدوں پر بھی فائز رہے، لہذا انہیں معاشرے کی بیماریوں اور خامیوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ جاننے اور سمجھنے کا موقعہ ملا ا ور وہ نہ صرف جسم کے بلکہ روحانی امراض کے بھی ماہر معالج بن گئے ۔آخر الذکر میدان میں مہارت کی تکمی

ہولی بروز جمعہ۔۔۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی
یہ ہمارے اختیار کی بات نہیں ہے کہ چاند کی کس تاریخ کو دن کون سا ہو اور کون تہوار کس دن منایا جائے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ عید جمعہ کے دن پڑجاتی ہے اور حج بھی جمعہ کے دن پڑجاتا ہے اگر جمعہ کو حج پڑجاتا ہے تو عام شہرت ہوجاتی ہے کہ حج اکبر نصیب ہوگیا۔ علماء نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ صرف اس لئے ہے کہ حضور اکرمؐ نے حجۃ الوداع جس سال کیا تھا اس سال جمعہ کو حج ہوا تھا۔ ورنہ حج اکبر اور حج اصغر کچھ نہیں ہے۔ ہم بیٹھے تھے یہ لکھنے کے لئے کہ اس سال اتفاق سے جس دن ہولی کا رنگ کھیلا جائے گا اسی دن جمعہ ہے۔ عام ط
خبر لیجئے زباں بگڑی ۔۔۔ ایک صاحب علم کا خط۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی
اردو میں شامل ہونے والے کچھ الفاظ متروک تو نہیں ہوئے البتہ ان کا استعمال کم کم نظر آتا ہے۔ ایسے الفاظ نثر میں تو نہیں لیکن شاعری میں ضرور جگہ پالیتے ہیں۔ مثلاً ایک لفظ ہے ’بَکَس‘ ایک صاحب اسے بکس (Box) بمعنیٰ صندوقچہ پڑھ رہے تھے۔ بَکَس سے بَکسَا ہے یعنی مرجھا جانا۔ ایک خوبصورت شعر ہے نہ آئے تم گئیں کلیاں بَکس بھی ہوائیں لے اڑیں پھولوں کا رس بھی اب یہ لفظ شاعری میں زندہ ہے، نثر میں نظر نہیں آتا۔ لغت کے مطابق بَکسا ہندی کا لفظ ہے اور مطلب ہے: مژمردہ ہونا، مرجھانا، خشک ہونا۔ میر حسن نے یوں ا
ایڈوکیٹ شاہد اعظمی اور نوشاد قاسمجی کی شہادت رنگ لارہی ہے ! (دوسری قسط)۔۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ haneefshabab@gmail.com میں نے سابقہ قسط میں اشارہ کیا تھاکہ مسلم نوجوانوں کے حق میں قانون کے بے جا استعمال کے خلاف شاہد اعظمی نے ایک مہم چھیڑ رکھی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس میں زیادہ ترمقدماتpro bono بغیر مالی منفعت کے لڑے جار ہے تھے۔ان مقدمات میں اسے ایک طرف بڑی کامیابی مل رہی تھی تو دوسری طرف وہ پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کی آنکھوں میں کانٹابن کر کھٹکنے لگاتھا ۔اس کی تیز رفتار کامیابیوں کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ اپنے پیشۂ وکالت کے محض 7برس کے بہت مختصر سے

سچی باتیں ۔۔۔ تصویر اعمال ۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی
وَوَجَدُوْامَاعَمِلُوْا حَاضِرًا- کھف لوگوں نے جو کچھ عمل کئے ہیں انھیں موجود پائیں گے۔ یَوْمَ تَجِدُکُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍمُحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْئٍ-اٰل عمران- جس دن ہر شخص جو کچھ اس نے نیکی کی ہے اسے موجود پائے گا نیز جو کچھ اس نے بدی کی ہے۔ ددونوں آیتیں کلامِ مجید کی ہیں، دونوں موقعوں پر ذکرقیامت کا ہے،اہلِ تفسیر نے معنی یہ لئے ہیں کہ اس روز ہر انسان کا عمل،چھوٹاہو یا بڑا ، نیک ہو یا بد، اسے نامۂ اعمال میں مکتوب و
مشرقی علوم کے محسن اور اردو زبان کے شیدائی، منشی نول کشور۔۔۔۔۔از: عارف عزیز بھوپال
منشی نول کشور کا نام محسنِ اردو اور زبان وادب کے شیدائی کی حیثیت سے لیا جاتا ہے، اس میں ذرا بھی مبالغہ نہیں کیونکہ سو سواسو سال تک اردو کی اشاعت اور علم وفن کی ترقی کیلئے جو کارنامے منشی نول کشور اور ان کے قائم کردہ پریس نے انجام دیئے، وہ بے مثال ہیں، منشی جی نے لکھنؤ ، لاہور، کانپور وغیرہ میں چھاپہ خانے قائم کرکے اردو کتابوں کی اشاعت کا انتظام وانصرام ہی نہیں کیا بلند فکر ونظر کے حامل ادیبوں اور شاعروں کو تصنیف، تالیف اور ترجمے کے کام پر مامور کرکے اردو زبان وادب کی اشاعت کا وہ زبردست کارنامہ ب
شمع فروزاں (حضرت ڈاکٹر علی ملپا نوراللہ مرقدہ کی قابل رشک زندگی پر ایک نظر)۔۔۔۔۔۔از: عبداللہ دامداابو ندوی
یوں تو ابتدائے آفرینش سے اس عالم رنگ و بو میں کروڑہاکروڑ نفوس آئے اور اپنی مقررہ میعاد کی تکمیل کے بعد اس عالم فانی سے کوچ کرگئے،لیکن سلام ان نفوس قدسیہ اور بندگان رب العلی پر کہ جنھوں نے اپنے وجو د سے ظلمت گہہ آب وگل میں شمع فروزاں بن کر بندگان خدا کو رشدو ہدایت کی راہ دکھائی اور بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے چلے۔ بلاشک ان ہی پاک نفوس اورہشت اوصاف شخصیات میں حضرت ڈاکٹر علی ملپاصاحب نوراللہ مرقدہ تھے جن کی ذات والا صفات سے ہزاروں بندگان خدا مستفید ہوئے اور جن کے لگائے ہوئے پودے شجرہائے سایہ د
نئی نسل میں دینی تعلیم کے فروغ کے لیے حضرت مولانا کی کوششیں۔۔از: عبداللہ دامدا ابو ندوی
(دینی تعلیمی کونسل کے حوالے سے) حضرات! مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی ؒ کی تمام تقریریں اور تحریریں ایک جگہ جمع کی جائیں اورمحققین اور ریسرچ کرنے والے ان تقریروں اور تحریروں کے بنیادی عناوین پر غور کریں تو بلاشبہ ان تمام عناوین میں سب سے زیادہ اور سب سے مقدم تحفظ ایمان وتحفظ شریعت اور’’ نئی نسل میں ایمان کے فروغ کی کوششیں‘‘ جیسے عناوین رہیں گے۔ نئی نسل کے ایمانی تحفظ اور ان کو دین کے بنیادی علوم سے واقف کرانا‘‘یہ مولانا مرحوم کے مشن کا بنیادی مقصد تھا۔ آزادئ ہند کے خوں چکا
آنے والے 15 مہینوں میں حکومت صرف الیکشن لڑے گی۔۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی
پورا ملک نہیں بلکہ آدھی دنیا ملک کے بینکوں کے سب سے بڑے گھوٹالے پر انگشت بدنداں نظر آرہی تھی اور دنیا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے بھاری بھرکم صدر ہیلمٹ سر پر رکھے ہوئے موٹر سائیکل پر بیٹھے ہوئے ان نوجوانوں کے بائک جلوس کی قیادت کررہے تھے جو الیکشن کی فضا بنانے کے لئے اس ہریانہ سے نکالا گیا جس کے بارے میں ایک دن پہلے ہی کسان لیڈر یادو نے کہا تھا کہ ہریانہ میں ہم نے 50 سال میں ہر طرح کی حکومت دیکھی لیکن جتنی نکمی یہ سرکار دیکھی ایسی آج تک نہیں دیکھی۔ وہ کسان لیڈر تو ہریانہ کے ہی رہنے والے ہیں ان
زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے۔۔۔از:عارف عزیز (بھوپال)
مولانا ابوالکلام آزادؔ اور جوشؔ ملیح آبادی دونوں ہم عصر وہم نوا تھے ایک میدان سیاست میں آگے بڑھ کر امام الہند ہوئے تو دوسرے اقلیم شاعری کے فرماں روا بن گئے، جوشؔ کی شاعری جب اپنے شباب پر پہونچی تب تک آزاد شاعری اور صحافت سے کنارہ کش ہوکر صرف سیاست کے خارزار تک محدود ہوگئے تھے زبان وادب اور علم وفن کا یہ ایک ناقابل تلافی نقصان تھا لیکن اس کے ذریعہ اردو ادب کو ایک بیش بہا کتاب ’’غبارِخاطر‘‘ میسر آئی مولانا آزاد ۱۹۴۲ء میں قلعہ احمد نگر میں قید نہ ہوتے تو کبھی یہ کتاب وجود میں نہ آتی نہ ہی وہ رانچی
مولانا آزاد کی ادبی سیاسی خدمات۔۔۔از: ڈاکٹر مرضیہ عارف
* امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد سیاست و ادب کی اس عبقری شخصیت کا نام ہے جس پر دنیائے ادب وسیاست ناز کرتی ہے۔ وہ ۱۱؍نومبر۱۸۸۸ء کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے ان کا تاریخی نام فیروز بخت، اصل نام محی الدین احمد، کنیت ابوالکلام اور تخلص آزاد تھا۔ والد مولانا خیرالدین ہندوستان کے ایک علمی وروحانی خاندان کے چشم وچراغ اور بڑے وسیع حلقہ کے مرشد تھے جبکہ والدہ مدینہ منورہ کے ایک ذی مرتبہ خانوادے کی دختر تھیں اسی اعتبار سے مولانا کو ابتدائی ماحول پیری مریدی کا ملا۔ انہوں نے تعلیم بھی روایتی اور مذہبی پائ
خبر لیجئے زباں بگڑی ۔ ۔۔ سانس آتا ہے یا آتی ہے ۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی
ہمارے ایک ساتھی نے پوچھ لیا کہ ’سانس‘ مذکر ہے یا مونث۔ اس کا جواب تو یہی ہوسکتا ہے کہ اگر مرد سانس لے تو مذکراور کوئی خاتون لے تو مونث۔ لیکن ایک تیسری جنس بھی ہوتی ہے۔ اس کے سانس کی آمدورفت کے بارے میں ماہرین بتائیں۔ اس سوال پر مرزا فرحت اللہ بیگ کا ایک دلچسپ مضمون یاد آگیا جس میں انہوں نے 1261ہجری میں دہلی کے ایک مشاعرے کا نقشہ کھینچا ہے۔ ایک مغل زادے رحیم الدین حیا ؔنے شعر پڑھا: سانس اک پھانس سی کھٹکتی ہے دم نکلتا نہیں‘ مصیبت ہے اس پر ان کے والد مرزا کریم الدین رسا نے ٹوک دیا’’میاں حیا! لک
بغیر لیڈر کا ملک پاکستان۔۔۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی
سری نگر کشمیر کے علاقہ میں سی آر پی ایف کی ایک زیرتعمیر عمارت میں آکر چھپنے والے لشکر طیبہ کے دو دہشت گردوں سے 22 گھنٹے گولیوں کا تبادلہ ہوا جس میں دونوں دہشت گردوں کے مرنے کے بعد دیکھا گیا تو اپنے بھی سات جوان پاکستانی گولیوں کا نشانہ بنے جن میں پانچ کشمیری مسلمان تھے اور دو دوسری ریاستوں کے ہندو۔ یہ اس کشمیر کے بیٹے تھے جس کو آزاد کرانے کے لئے لشکر طیبہ کے بانی حافظ سعید نے اپنے کہنے کے مطابق بندوق اٹھائی ہے۔ ہندوستان میں جب مسلم لیگ کے پرچم کے نیچے ملک کی تقسیم اور پاکستان کے مطالبہ نے زور پ
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبران کو لڑانے کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال۔۔۔۔۔از: قاسم سید
ارکان سے گفتگو ریکارڈ کرکے ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانے کی مذموم کوشش، تدبر و تحمل کے مظاہرہ کی ضرورت مولانا سلمان ندوی کے معاملہ نے ملی سیاست میں طوفان برپا کردیا ہے۔ ایک طرف مولانا سلمان ندوی کو ہر قسم کی صلواتیں سنائی جارہی ہیں اور ہر طرح کے غیر مہذب الفاظ سے حملہ کیاجارہا ہے۔ وہیں مولانا سلمان ندوی کے عقیدت مندوں اور خیر خواہوں کی جانب سے بورڈ کے فیصلہ کو بہانہ بناکر اسے مطعون کیاجارہا ہے اور سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ ذاتی طور پر کی گئی فونک باتوں کو ریکارڈ کرکے سوشل میڈیا پر ڈالا جارہا
بابری مسجد ، پرسنل لا بورڈ اور مولانا سلمان ندوی ۔۔۔ تحریر: سید سعادت اللہ حسینی
بابری مسجد ، پرسنل لا بورڈ اور مولانا سلمان ندوی صاحب وغیرہ سے متعلق جو واقعات گذشتہ چند دنوں میں پیش آئے ان کے بارے میں ہر طرف سےسوالات کی بوچھار ہے۔ ان مسائل پر اپنی گذارشات اختصار کے ساتھ درج کررہاہوں۔اللہ تعالی ہم سب کی صحیح اور مبنی بر عدل و اعتدال ، سوچ کی طرف رہنمائی فرمائے آمین۔ ۱۔ یہ کہنا کہ بابری مسجد کی جگہ حوالہ کردی جائے تو فرقہ پرست قوتوں کے پاس ۲۰۱۹ کے لئے کوئی ایشو نہیں رہے گا، بڑی کمزور بات ہے۔اس کے بالمقابل واقعہ یہ ہے کہ، ان قوتوں کا اصل مسئلہ اب یہی ہے کہ یہ ایشو اب باقی ن
مسلم پرسنل لا بورڈ اور مولانا سلمان ندوی... تحریر : مولانا ندیم الواجدی
اختلاف رائے ہماری معاشرتی اور اجتماعی زندگی کا لازمی حصہ ہے، وہ قومیں فکری اعتبار سے بے حس کہی جائیں گی جو اپنے افکار ونظریات میں تنوع نہ رکھتی ہوں، اختلاف رائے کے ساتھ ساتھ وسیع النظری بھی ہونی چاہئے، یہ ضروری نہیں ہے کہ جو کچھ ہم کہتے ہوں وہی صحیح ہو ارو جو ہم سوچتے ہوں و ہی درست ہو، دوسرے لوگ بھی صحیح سوچ سکتے ہیں اور صحیح کہہ سکتے ہیں، ہوسکتا ہے ہمارے اور دوسروں کے نظریات میں ٹکراؤ ہو، یہ بھی ممکن ہے ہمارے نظریات زیادہ صحیح ہوں، اور دوسروں کے غلط ہوں، لیکن کسی کی اس بنا پر تحقیر کرنا کہ اس