Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















مولانا ابوالجلال ندوی۔ دیدہ و شنیدہ و خواندہ۔۔۔ تبصرہ : ملک راشد شیخ
نام کتاب : مولانا ابوالجلال ندوی۔ دیدہ و شنیدہ و خواندہ مصنف : احمد حاطب صدیقی ضخامت : 212 صفحات قیمت : 400روپے ناشر : اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی،ڈی۔35، بلاک۔5، فیڈرل بی ایریا کراچی 75950 فون : (021)36809201-36349840 ای میل : irak.pk@gmail.com اردو کے معروف شاعر اکبر الٰہ آبادی نے ایک موقع پر برصغیر پاک و ہند کے تین معروف تعلیمی اداروں یعنی دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے باہمی فرق کو کچھ یوں بیان کیا تھا: ہے دلِ روشن مثالِ دیوبند اور ندوہ ہے

خبر لیجئے زباں بگڑی ۔۔۔ حامی اور ہامی کا جھگڑا ۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی
۔’حامی‘ اور ’ہامی‘ کا جھگڑا طے ہونے میں نہیں آرہا ہے۔ منگل کے ایک اخبار کی سرخی ہے ’’محتسب کے سامنے زبانی حامی بھرنے والا…‘‘ ارے بھائی، حامی کا مطلب تو حمایت کرنے والا ہے، یہ کہیں بھری نہیں جاتی۔ اور جو بھری جاتی ہے وہ ’ہامی‘ ہے جس کا مطلب ہے ہاں، اقرار۔ ہامی بھرنا: اقرار کرنا کسی کام کا جو کسی قدر دشوار ہو، وعدہ کرنا، زبان دینا وغیرہ۔ ایک شعر میں ہامی کا استعمال دیکھیے: کیوں مرے قتل پہ ہامی کوئی جلاد بھرے آہ جب دیکھ کے تجھ سا ستم ایجاد بھرے منگل ہی کے اخبار جسارت کے ادارتی صفحے پرکوئی ڈاکٹر

کیااسکولوں میں فیل نہ کرنے کی پالیسی معیارِتعلیم کو برباد کررہی ہے؟۔۔۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... haneefshabab@gmail.com ایک طرف موسم گرما کی آمدآمد ہے اور دوسری طرف اسکولوں کے تعلیمی سال کا اختتام قریب آگیا ہے اور نئے داخلوں کے موسم کا بھی آغازہوچکا ہے ۔ جہاں تک بڑے شہروں کا تعلق ہے نامورنجی اسکولوں میں داخلوں کے لئے والدین ہرامکانی کوشش اور اثر و رسوخ کااستعمال کرنے میں لگے ہوئے ہیں، کیونکہ ان ’معیاری انگلش میڈیم اسکولوں‘ میں جہاں پر سی بی ایس سی یا آئی سی ایس ای کا نصاب رائج ہو وہاں پر بچوں کا داخلہ کروانا جوئے شیٖر لانے سے کم نہیں ہوتا ۔ جبکہ سرکار

سچی باتیں ۔۔۔ مکر اللہ --- تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی
( فَلَمَّا نَسُوْا مَاذُکِّرُوْا بِہٖ فَتَحْنَا عَلَیْھِمْ اَبْوَابَ کُلِّ شَیٍْٔ حَتّیٰ اِذَا فَرِحُوْا بِمَا اُوْتُوْا اَخَذْنٰھُمْ بَغْتَۃً فَاِذَا ھُمْ مُبْسِلُوْن) (انعام۔ع۔۱۱) پھر جب وہ ان چیزوں کو بھولے رہے جن کی انھیں نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کشادہ کردیئے یہاں تک کہ جو چیزیں ان کو ملی تھیں،جب ان پر وہ خوب اتراگئے توہم نے دفعۃًانھیں پکڑ لیا پھر تو وہ ہکا بکاہوکر رہ گئے۔ کلام پاک میں بعض اگلی شامت زدہ گمراہ قوموں کا ذکر کرکے ارشاد ہوتاہے کہ جب وہ لوگ

تاریخ کے اوراق سے۔۔۔۔۔۔۔از:کلدیپ نیئر
کشمیر کے لیڈر فاروق عبداللہ کے اس بیان میں کسی قدر سچائی موجود ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ محمد علی جناح تقسیم ہند کے ذمے دار نہیں ہیں بلکہ جواہر لعل نہرو اور سردار پٹیل ذمے دار ہیں جب کہ میرے خیال میں یہ بات درست نہیں ہے۔ میں اس دور کا عینی شاہد ہوں اور میں ان واقعات کو کس طرح دیکھتا ہوں، جناح صاحب ہندو مسلم اتحاد کے سفیر تھے جیسا کہ اس زمانے کی کانگریس کی چوٹی کی لیڈر سروجنی نائیڈو کہتی تھیں کہ قائداعظم کو تقسیم کی طرف دھکیلا گیا جب کہ انھیں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہاجاتا تھ
خبر لیجئے زباں بگڑی ۔۔۔ طرز اسلوب? ۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی
معرکۃ الآرا کے بارے میں پہلے بھی توجہ دلائی تھی کہ یہ غلط ہے۔ اس کا مطلب ہے ’’جس میں اختلافِ رائے بہت ہو۔‘‘ یہ اصل میں ’’معرکہ آرا‘‘ ہے جس کے معنی زبردست اور پُرزور ہیں۔ اس میں آرا فارسی کا لفظ ہے اور آراستن مصدر سے بنا ہے۔ ایک بار پھر توجہ دلانے کا مقصد یہ ہے کہ جسارت ہی کے 5 مارچ کے اداریے میں جملہ ہے ’’سینیٹ کے معرکۃ الآرا الیکشن‘‘۔ ابراہیم اسماعیل چندریگر روڈ پر مجاہد بک اسٹال ہے۔ اس کے مالک راشد رحمانی کو بھی زبان و ادب سے دلچسپی ہے۔ انہوں نے خط لکھا ہے کہ ’’25 فروری کے اخبارات میں سوائے جس

ایڈوکیٹ شاہد اعظمی اور نوشاد قاسمجی کی شہادت رنگ لارہی ہے ! (چوتھی اور آخری قسط)۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ haneefshabab@gmail.com ایڈوکیٹ نوشاد اور شاہد اعظمی کی شہادتوں کے بعدقانون کے جبر وستم سے بے گناہ مسلم نوجوانوں کو رہائی دلانے کی منظم کوششیں ملک کے مختلف مقامات پرتیز سے تیز تر ہوگئیں۔ٹاڈا اور پوٹا کو کالعدم کیے جانے کے بعد اب جوبھی گرفتاریاں ہورہی ہیں وہ یاتو منصوبہ بند جرائم organised crimes کی روک تھام والے ریاستی قوانین کے تحت اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لئے Unlawful Activities (Prevention) Act (UAPA)کے تحت ہورہی ہیں۔ اوراس میں کوئی شک نہیں کہ ان مع
آخری مسافر ۔ ڈاکٹر علی ملپا صاحب علیہ الرحمۃ ۔ قسط 04۔۔۔۔ تحریر : عبد المتین منیری
پچاس کی دہائی میں ایک اعلی دینی تعلیمی ادارے کے قیام کے خواب کو ۱۰!شوال ۱۳۸۱ھ ۔ ۱۷!مارچ ۱۹۶۲ء ابو محل بھٹکل میں منعقدہ اجلاس میں تعبیر ملی ،یہاں ڈاکٹر علی ملپا اور ان کے بھٹکل کے رفقاء نے اس کے قیام کا فیصلہ کیا ، اور قوم کی تائید اور تعاون حاصل کرنے کے لئے بمئی روانہ ہوئے ،تین روز کا سفر طے کرکے وہاں پہنچے اور تین چار روز کے اندر ہی دسویں روز ۱۹!شوال ۱۹۸۱ھ۔ ۲۶!مارچ ۱۹۶۲ء بمبئی مسلم جماعت کا اجلاس جناب محی الدین منیری صاحب کی صدارت میں اجلاس ہوا ،اس اجلاس میں منیری صاحب کو جامعہ کے آغاز ک

ماہنامہ ’’سائنس‘‘ کی سلور جوبلی اسے کہتے ہیں ایک خواب کا حقیقت بننا۔۔۔۔۔از: سہیل انجم
ہندوستان میں اردو زبان کے بارے میں نامساعد حالات کے باوجود اردو رسائل و جرائد کی بھرمار ہے۔ جن میں مذہبی، ادبی، طبی، سائنسی اور دوسرے موضوعات پر بھی رسالے شامل ہیں۔ لیکن رسالوں کے ان ہجوم میں دلوں کو چھو لینے والے رسالے عموماً کم ہی نظر آتے ہیں۔ میں جن رسائل کا ایک زمانے سے گرویدہ ہوں ان میں اردو ماہنامہ ’’سائنس‘‘ سرفہرست ہے۔ آپ کہیں گے کہ یہ تو سائنسی مجلہ ہے۔ اس کا ادب سے کوئی تعلق ہے نہ صحافت سے۔ یہ ہمارے مسائل اٹھاتا ہے اور نہ ہی ان کے حل کی کوئی راہ سجھاتا ہے۔ یہ اتنا اہم پرچہ کیسے ہو گیا ک
خبرلیجئے زباں بگڑی ۔۔۔ نئی طرہ ، مگر کیا ؟ ۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی
کہتے ہیں بڑوں کی غلطیاں بھی بڑی ہوتی ہیں۔ بڑے اخبار کا دعویٰ رکھنے والے ایک کثیرالاشتہار اخبار میں پیر 26 فروری کو صفحہ اوّل پر بڑی دلچسپ سرخی ہے ’’رضا ربانی (چیئرمین سینیٹ) اور ایک نئی ’طرہ‘ ڈال رہے ہیں‘‘۔ ویسے تو ’اور ایک‘ کی جگہ ایک اور ہونا چاہیے تھا، لیکن یہ ’طرہ‘ کیا ہے؟ اور کون سی زبان کا لفظ ہے؟ احتیاطاً دستیاب لغات بھی دیکھ ڈالیں کہ شاید طرہ کوئی لفظ ہو۔ وہاں پر طُرہّ تو موجود ہے مگر اس کا مطلب کچھ اور ہے، اور اس کا کوئی تعلق نئی یا پرانی طرہ ڈالنے سے نہیں ہے۔ سرخی ہی نہیں متن میں بھی ن
ایڈوکیٹ شاہد اعظمی اور نوشاد قاسمجی کی شہادت رنگ لارہی ہے ! (تیسری قسط (از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... haneefshabab@gmail.com یہ توایک کھلی ہوئی سچائی ہے کہ مسلم نوجوانوں کے لئے انصاف کی جنگ لڑنے والے وکلاء کو انڈر ورلڈ کے سہارے جان سے مارڈالنے کا سلسلہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس کے تحت اسرار کے پردوں میں چھپے ان دیکھے ہاتھوں نے دو نوجوان وکیلوں کا کام تمام کیا اور تیسرامعاملہ جو کہ ممبئی کے معروف کریمنل اور سینئر وکیل مجید میمن پرناکام قاتلانہ حملے کاتھا۔جو کہ ایڈوکیٹ نوشاد اور شاہد کے قتل سے پہلے ہی ہواتھا۔پوٹا قانون کے تحت گرفتار مسلم نوجوانوں کو قانون

سچی باتیں ۔ خدا فراموشی اور خود فراموشی ۔۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی علیہ الرحمۃ
آپ انگریزی تعلیم یافتہ ہیں اور ریل کے کسی اونچے درجہ میں سفر کررہے ہیں اس وقت آپ کے اور آپ کے دوسرے ساتھیوں کے ہاتھ میں انگریزی اخبارات کا ہونا لازمی ہے یہ اخبارات کون سے ہوتے ہیں ؟ یہی پانیر اسٹیٹسمین، ٹائمس آف انڈیا، ہندوستان ٹائمس، لیڈر، بمبیٔ کرانیکل ہیں یا کوئی اور ؟ان اخبارات میں سے کوئی مسلمانوں کا بھی اخبار ہے؟ کوئی واقعات عالم کو مسلمان کے نقطۂ نظر سے بھی دیکھتاہے ؟ کوئی آپ کی نمائندگی کرتاہے؟ ریورٹر، ہو یا ایسوسی ایٹیڈ پریس ، ،فری پریس ہو یا کوئی اور کوئی بھی ہوا یجنسی آپ کے ہ
دین کا کام کرنے والی واحد جماعت بھی سیاسی بن گئی۔۔۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی
دہلی کی بستی نظام الدین میں بنگلہ والی مسجد اور اس سے ملے ہوئے ایک مدرسہ میں کاندھلہ کے ایک بزرگ حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی نے بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ ان کے بھائیوں اور باپ کو بھی دین کی ابتدائی باتیں سکھائیں اور انہیں نماز روزہ کا پابند بنایا۔ حضرت مولانا نے وہاں آنے والے میواتیوں کا جب حال دیکھا تو حضرت کے دل پر چوٹ لگی کہ وہ اپنے کو مسلمان کہتے ہیں مگر اسلام کی ایک بات بھی نہ جانتے ہیں نہ عمل کرتے ہیں۔ یہ 1920 ء کے آس پاس کی بات ہے کہ حضرت مولانا الیاس نے ان میواتیوں کو اسلام پر عمل
آخری مسافر ۔ ڈاکٹر علی ملپا صاحب علیہ الرحمۃ ۔ قسط 03۔۔۔۔ تحریر : عبد المتین منیری
بھٹکل میں مستقل قیام کے فیصلے اور دواخانہ کے آغاز کے بعد ڈاکٹر صاحب نے بھر پور طور پر یہاں کی سماجی اور اجتماعی زندگی میں حصہ لیا ، وہ یہاں کے مرکزی اداروں ، مجلس اصلا ح وتنظیم ، انجمن حامی مسلمین ، جماعت المسلمین میں متحرک رہے ، میونسپل کونسل میں بھی رہے ، ان اداروں میں وہ مختلف عہدوں پر بھی فائز رہے، لہذا انہیں معاشرے کی بیماریوں اور خامیوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ جاننے اور سمجھنے کا موقعہ ملا ا ور وہ نہ صرف جسم کے بلکہ روحانی امراض کے بھی ماہر معالج بن گئے ۔آخر الذکر میدان میں مہارت کی تکمی

ہولی بروز جمعہ۔۔۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی
یہ ہمارے اختیار کی بات نہیں ہے کہ چاند کی کس تاریخ کو دن کون سا ہو اور کون تہوار کس دن منایا جائے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ عید جمعہ کے دن پڑجاتی ہے اور حج بھی جمعہ کے دن پڑجاتا ہے اگر جمعہ کو حج پڑجاتا ہے تو عام شہرت ہوجاتی ہے کہ حج اکبر نصیب ہوگیا۔ علماء نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ صرف اس لئے ہے کہ حضور اکرمؐ نے حجۃ الوداع جس سال کیا تھا اس سال جمعہ کو حج ہوا تھا۔ ورنہ حج اکبر اور حج اصغر کچھ نہیں ہے۔ ہم بیٹھے تھے یہ لکھنے کے لئے کہ اس سال اتفاق سے جس دن ہولی کا رنگ کھیلا جائے گا اسی دن جمعہ ہے۔ عام ط
خبر لیجئے زباں بگڑی ۔۔۔ ایک صاحب علم کا خط۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی
اردو میں شامل ہونے والے کچھ الفاظ متروک تو نہیں ہوئے البتہ ان کا استعمال کم کم نظر آتا ہے۔ ایسے الفاظ نثر میں تو نہیں لیکن شاعری میں ضرور جگہ پالیتے ہیں۔ مثلاً ایک لفظ ہے ’بَکَس‘ ایک صاحب اسے بکس (Box) بمعنیٰ صندوقچہ پڑھ رہے تھے۔ بَکَس سے بَکسَا ہے یعنی مرجھا جانا۔ ایک خوبصورت شعر ہے نہ آئے تم گئیں کلیاں بَکس بھی ہوائیں لے اڑیں پھولوں کا رس بھی اب یہ لفظ شاعری میں زندہ ہے، نثر میں نظر نہیں آتا۔ لغت کے مطابق بَکسا ہندی کا لفظ ہے اور مطلب ہے: مژمردہ ہونا، مرجھانا، خشک ہونا۔ میر حسن نے یوں ا
ایڈوکیٹ شاہد اعظمی اور نوشاد قاسمجی کی شہادت رنگ لارہی ہے ! (دوسری قسط)۔۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ haneefshabab@gmail.com میں نے سابقہ قسط میں اشارہ کیا تھاکہ مسلم نوجوانوں کے حق میں قانون کے بے جا استعمال کے خلاف شاہد اعظمی نے ایک مہم چھیڑ رکھی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس میں زیادہ ترمقدماتpro bono بغیر مالی منفعت کے لڑے جار ہے تھے۔ان مقدمات میں اسے ایک طرف بڑی کامیابی مل رہی تھی تو دوسری طرف وہ پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کی آنکھوں میں کانٹابن کر کھٹکنے لگاتھا ۔اس کی تیز رفتار کامیابیوں کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ اپنے پیشۂ وکالت کے محض 7برس کے بہت مختصر سے

سچی باتیں ۔۔۔ تصویر اعمال ۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی
وَوَجَدُوْامَاعَمِلُوْا حَاضِرًا- کھف لوگوں نے جو کچھ عمل کئے ہیں انھیں موجود پائیں گے۔ یَوْمَ تَجِدُکُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍمُحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْئٍ-اٰل عمران- جس دن ہر شخص جو کچھ اس نے نیکی کی ہے اسے موجود پائے گا نیز جو کچھ اس نے بدی کی ہے۔ ددونوں آیتیں کلامِ مجید کی ہیں، دونوں موقعوں پر ذکرقیامت کا ہے،اہلِ تفسیر نے معنی یہ لئے ہیں کہ اس روز ہر انسان کا عمل،چھوٹاہو یا بڑا ، نیک ہو یا بد، اسے نامۂ اعمال میں مکتوب و