Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















Sachchi Batain(1932-09-30) Insan ki Shaqiul Qalbi
سچی باتیں (۳۰؍ستمبر ۱۹۳۲ء)۔۔۔ انسانوں کی شقی القلبی تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ لکھنؤ اور جے پور، کلکتہ اور بمبئی کے زندہ عجائب خانے آپ نے دیکھے ہوں گے۔ شیر اور چیتے، لکڑ بگھّے اور تیندوے، ریچھ اور گینڈے، کیسے کیسے شریر اور مہیب وحشی جانور ان میں پَلے ہوئے۔ خادم اورمحافظ، بیسیوں کی تعداد میں موجود۔ اونچی اونچی تنخواہیں اور بیش قرار مشاہرے۔ خوداِن جانوروں کی خوراک اور سکونت کے انتظام میں ہزارہا ہزار روپیہ ہر سال بلا دریغ اُٹھ رہے ہیں۔ یورپ کے چڑیا گھر اُن سے ب
Akhirat Ki lain May Kab Aarahay Ho(06) Dr. F Abdur Rahim
ہمارے قصبے وائم باڑی میں ایک کالج ہے جو اسلامیہ کالج کہلاتا ہے، اور وہ مدراس یونیورسٹی سے affiliated ہے، میں ۱۹۵۷ سے یہاں انگریزی پڑھا رہا تھا۔ ایک صبح میں کالج جارہا تھا۔ راستے میں ایک صاحب ملے، علیک سلیک کے بعد ان کے ساتھ حسب ذیل گفتگو ہوئی۔ آپ کیا کرتے ہیں؟۔ میں پڑھاتا ہوں۔ کہاں؟ اسلامیہ کالج میں۔ کیا پڑھاتے ہیں ؟ - انگریزی۔ آخرت کی لائن میں کب آئیں گے ؟ وہ بہت ہی غصے کی حالت میں سوال کر رہے تھے، ملتے وقت بھی ان کے چہرے پر مسکر
Ahmed Hatib Siddiqui ...Aqriba Meray Qatl Ka Dawa Karain Kis Par
بہت دنوں کے بعد بہت دلچسپ سوال موصول ہوا ہے: ’’عالی جناب! نیشِ اقرب کے کیا معنی ہیں؟ میں نے بعض جگہ اس کا املا ’نیشِ عقرب‘ بھی لکھا دیکھا ہے۔ مگر مشتاق احمد یوسفی صاحب نے اپنی ’زرگزشت‘ میں اپنے بینک کے ساتھی خان سیف الملوک خان کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ ’’نیشِ اقرب سے بلبلا اُٹھتے‘‘۔ یہ بھی بتا دیجیے کہ دونوں میں سے درست املا کون سا ہے؟‘‘ (ساجد حسن۔ ساہیوال) غالباً پچھلے برس اپنے کسی کالم میں یوسفی صاحب کا یہ
Meray ek Amriki Shagird(05) Dr. F Abdur Rahim
تحریر: ڈاکٹر ف عبد الرحیم یہ کچھ چالیس سال پہلے کی بات ہے۔ میں ان دنوں جامعہ اسلامیہ میں شعبۃ اللغۃ کا director تھا، برٹش گیانا کا ایک نیا طالب علم انٹر ویو کے لیے میرے پاس آیا۔ میں نے اس سے کہا: ما اسمك ؟(یعنی تمہارا نام کیا ہے؟) ۔ یہ سن کر اس نے اپنے ساتھی سے کہا: ?What is this guy saying ( یہ شخص کیا کہہ رہا ہے؟) اس کو عربی کا ایک لفظ بھی معلوم نہیں تھا۔ چنانچہ اس کا داخلہ Arabic Language Programme میں ہو گیا۔ اس پروگرام سے فارغ ہونے کے بعد اس کی عربی اتنی اچھی تھی کہ اس نے Facul
Sachchi Batain 1931-09-14 . Lah o Laib
سچی باتیں (۱۶؍ستمبر ۱۹۳۲ء)۔۔۔ لہو ولعب تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی انَّا کُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ کلام پاک میں بعض بدترین قسم کے منافقین کا ذِکر آتاہے، کہ یہ طرح طرح کی بیہودگیوں اور اللہ کے دین کے ساتھ تمسخر میں لگے رہتے ہیں، اور جب ان سے سوال کیاجاتاہے کہ یہ کیا حرکتیں ہیں، تو جواب میں کہتے ہیں، کہ کچھ نہیں، ہم تو یوں ہی بطور مشغلہ وحکایت ، ہنسی اور تفریح کی باتیں کررہے تھے، کچھ ہمیں انکار تھوڑے ہی مقصود تھا! ولئن سألتہم لیقولنّ انّما کنا نخوض ونلعب۔ اگر تم اُن
Khanwadah Qazi Badrud Daulah Kay Do Gul Sar Sabd(02)
*بات سے بات: خانوادہ قاضی بدر الدولۃ کے دو گل سرسبد ( ۲)۔۔۔تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل )* ۱۹۷۰ء میں اس ناچیز کا مدرسہ جمالیہ مدراس(چنئی ) میں جب داخلہ ہواتھا، تو ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے چچا زاد بھائی اور اس خانوادے کے ہندوستا ن میں آخری عظیم بزرگ حضرت مولانا قاضی محمد حبیب اللہ مدراسی رحمۃ اللہ علیہ بقید حیات تھے۔ہمیں قاضی صاحب کی خدمت میں آپ کے بڑے ہی عقیدت مند فرد ملا محمد حسن مرحوم( سابق ناظم جامعہ اسلامیہ بھٹکل) لے گئے تھے، یہ ہماری
Khanwadah Qazi Badrud Daulah kay Do Gul Sar Sabd(01)
*بات سے بات: خانوادہ قاضی بدر الدولۃ کے دو گل سرسبد ( 1)* *تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل )* مورخہ ۱۷ / دسمبر ۲۰۰۲ء ڈاکٹر محمد حمید اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے داعی اجل کو لبیک کہا تھا، اس مناسبت سے ڈاکٹر صاحب کو یاد کرتے ہوئے ہم نے مسعود احمد برکاتی (مدیر ہمدرد نونہال کراچی ) کا ڈاکٹر صاحب پر لکھا ہوا ایک فراموش شدہ مضمون علم وکتاب گروپ پر پوسٹ کیا تھا، احباب محفل کی پہلے روز کی خاموشی سے تو یہ احساس بن رہا تھا کہ شاید ہم کسی اہم شخصیت کی رحلت پر ابتدائی دنوں میں جذباتی ہوکر ان
Allama Dr. Muhammad Hameedullah By Masud Ahmed Barkati
علامہ ڈاکٹر محمد حمید الله۔۔۔ تحریر: مسعود احمد برکاتی مدیر ہمدرد نہال کراچی (*ڈاکٹر محمد حمید اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی مورخہ ۱۷ / دسمبر ۲۰۰۲ء میں رحلت پائے ( ۲۱) سال ہورہے ہیں، اس دوران آپ کی شخصیت اور خدمات پر نہ جانے کتنے مقالات لکھے گئے اور سیمینار منعقد ہوئے، اور مجموعے شائع ہوئے، ان کا سلسلہ ہنوز جاری ہے، ان میں سے کئی سارے اس ناچیز کی نظر سے گذرے ، کئی سارے نہیں گذرے، لیکن ریاست ٹونک کی علمی وراثت کے امین حکیم مسعود احمد برکاتی مرحوم ن
Sachchi Batain. Tababat Ka Pesha. by Abdul Majid Daryabadi
سچی باتیں (۹؍ستمبر ۱۹۳۲ء)۔۔۔ آج کے دور میں طبابت کا پیشہ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ طبابت کا پیشہ ، دنیا کے شریف ترین پیشوں میں ہے۔ پُرانے اطباء کا مقصود وخدمت خلق، اور رضائے خالق تھا۔ دوائیں کرتے اور دعائیں لیتے۔ علاج کرکے بیمار پر کوئی احسان نہ رکھتے، خود اپنی عاقبت سنوارتے ۔ کہتے ہیں، یہ علم انھیں انبیاء علیہم السلام سے ورثہ میں ملا تھا۔ جاہ وناموری، زروجواہر، سے اس پیشہ کو دُور کا بھی علاقہ نہ تھا۔ آج آپ اپنے شہر میں سب سے بڑا حکیم، یا سب سے بڑا ڈاکٹر کسے کہتے ہیں؟ ی
Khush Kalami Kay Faiday (04) Dr. F Abdur Rahim
ایک بار میں نے برٹش ویزا کے لیے درخواست دی تھی، مجھے انٹرویو کے لیے قونصل خانہ بلایا گیا۔ وہاں ایک خاتون اہل کار نے میرا انٹر ویو لیا۔ کسی تمہید کے بغیر اس نے پوچھا: تم بر طانیہ کیوں جار ہے ہو ؟ میں نے کہا: تم نے ایک نہایت ہی عجیب و غریب سوال کیا ہے۔ وہ بولی: میرا سوال عجیب و غریب کیوں ہے؟ میں بولا: ایک برطانوی سے یہ پوچھنا کہ تم برطانیہ کیوں جارہے ہو عجیب و غریب نہیں ہے؟ وہ بولی تو کیا آپ British citizen ہیں؟ میں نے کہا: میری پیدائش برطانوی تاج کے سایہ تلے ہوئی تھی، میری پیدائ
Bhalai kay difa ki Himmat (03) Dr. F Abdur Rahim
ہر انسان کے اندر خیر کا پہلو ہوتا ہے لیکن بہت کم لوگوں کے اندر اس خیر کے دفاع کی ہمت ہوتی ہے۔ رمضان کا مہینہ تھا، میں امریکن ایئر لائنز کے ذریعہ اسطنبول سے کویت جارہا تھا۔ شام چار بجے ہم جہاز میں سوار ہوئے، تھوڑی ہی دیر بعد ڈنر سرو کیا جانے لگا۔ ڈنر لیکر جب ہوسٹس میرے پاس آئی تو میں نے کہا کہ میری کچھ مجبوری ہے، میں غروب آفتاب کے بعد ہی کھا سکتا ہوں۔ اگر ایئر لائنز کے rules اس کی اجازت دیتے ہوں تو فبہا، اور اگر آپ کے rules میں اس کی گنجائش نہیں ہے تو مجھے قطعا کوئی شکایت نہیں ہو گی۔
Quran May Mustamal Arabi Alafaz ka Urdu Imla By A.M.Muniri
آج علم وکتاب پر لفظ توریت کے سلسلے میں اہل علم نے تبادلہ خیال کیا ہے، بعض کی رائے میں اردو میں تورات درست ہے، اور توریت لکھنا غلط ہے۔ ہماری ناقص رائے میں اس الجھن کی اصل وجہ قرآن کے رسم املا کے سلسلے میں عموما ہماری ناواقفیت ہے۔ در اصل آج سے پندرہ سو سال قبل جب قرآن نازل ہورہا تھا توعربی زبان کی لکھائی خط کوفی کی ابتدائی شکل رائج تھی، لکھنے کے وسائل قلم دوات اور کاغذ کی متبادل چیزیں عام دسترس سے باہر تھیں۔ لہذا اس زمانے میں لکھنے کی جو زبان تھی اس میں نقطے اعراب وغیرہ نہیں
Sachchi Batain. Dua
اے بسا مخلص کہ نالد در دعا دور اخلاصش بر آید تا سما روزمرہ کا تجربہ ومشاہدہ ہے، کیسے کیسے مخلصین کس کس طرح رورو کر گڑگڑاگڑگڑاکر دعائیں کرتے رہتے ہیں اور قبول نہیں ہوتی ہیں۔ فرشتوں تک کو ترس آجاتاہے، اور وہ عرض کرتے ہیں، کہ بارِ الٰہا، تیری رحمت تو دشمنوں تک پر ہے، پھر دوستوں کے حق میں یہ تاخیر کیسی؟ بس ملائک با خدا نالند زار کائے مجیبِ ہر دعا و مستجار بندۂ مومن تضرّع می کند او نمی داند بجز تو مستند تو عطا بیگانگاں را می وہی از تو دار
Bat Say Bat . Fiqh Hanafi ki ktabain
یہ ۱۹۷۵ء بات ہے،اور اس پر نصف صدی کا عرصہ بیت رہا ہے، میں قدوائی روڈ پر واقع اپنے پھوپھا مولانا قاضی شریف محی الدین اکرمیؒ کے مکان اکرمی منزل سے مولانا آزاد روڈ ہوتا ہوا، مین روڈ پر مڑا، تو بائیں طرف کچھ دکانیں چھوڑ کر جہاں پہلے ملبار بیکری ہوا کرتی تھی، اور اب قاسمجی کامپلیس کھڑا ہے، وہاں مولانا محمود خیال مرحوم سے ملاقات ہوئی، خیال صاحب انجمن اسلامیہ اینگلو اسکول کے مدرس دینیات تھے ، آپ جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل کے قدیم فارغ اور مولانا محمد یوسف بنوریؒ کے ساتھیوں میں تھے،مولانا وہاں ایک
Hum Aak Bahut Sarshar Sahi
غلطی ہائے مضامین۔۔۔ ہم آج بہت سرشار سہی۔۔۔ تحریر : احمد حاطب صدیقی پچھلے کالم کا عنوان آنند نرائن ملا کے مشہور شعر کا معروف مصرع تھا ’’چاہے جس نام سے ہو، نام میں کیا رکھا ہے‘‘۔ کالم پڑھ کر سرگودھا سے تعلق رکھنے والے بزرگ شاعر جناب سرشارالحق نے اپنے نامِ نامی، اسمِ گرامی کے تعلق سے تحریر فرمایا: ’’میرا نام سرشارالحق ہے۔ میرے سرکاری اسکول کے اُردو کے استاد ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے تھے، وہ جماعت میں فرماتے تھے’’
Sharar Kay Tarikhi Navil
کل علم وکتاب کی اس بزم میں مولانا عبد الحلیم شرر کا کافی چرچا رہا، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا عبد الماجد دریابدی ، مولانا رئیس احمد جعفری نے جس انداز سے آپ کا تذکرہ کیا ہے، اس کے بعد تو یہ چرچا فطری لگتا ہے، اردو زبان بنیادی طور پردہلی کے قلعہ معلی سے نکلی ہے، مغلیہ سلطنت کے دور زوال میں فیض آباد اور لکھنو کی سلطنت اودھ نے اسے گود لیا، اور دہلی کے شعراء و ادیبوں کی سرپرستی کی جو یہاں منتقل ہوگئے تھے، یہاں ان کی بڑی پذیرائی ہوئی، چونکہ سلطنت اودھ ایرانی تہذیب وثقافت کی آئینہ دار تھی، تو
Cahay Jis nam say ho
پچھلے دنوں اُردوکے ایک پرچے پر نظرپڑی۔ ’پرچے‘ کا لفظ اخبارات کے لیے شاید اب استعمال نہیں ہوتا۔ پہلے خوب استعمال ہوتا تھا۔ آج کل پرچہ کم استعمال ہوتا ہے ’پرچی‘ زیادہ استعمال ہوتی ہے، سفارشی چٹھی کے طور پر۔ پرچہ یوں تو کاغذ کے ٹکڑے کو کہتے ہیں، مگر اخبار کے علاوہ یہ رقعہ، خط، خبر اور پیغام کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا تھا۔ شاہی ہرکارے کسی واقعے کی رُوداد اپنے دفتر میں جمع کراتے تو اُس تحریر کو بھی پرچہ کہتے تھے۔ کسی کے خلاف’رپٹ لکھوانا‘ بھی پرچہ کٹوانا کہلاتا
Dr. F Abdur Rahim . Ek Ajib Ittifaq
جلوہ ہائے پا بہ رکاب ( ۲)۔۔۔ایک عجیب اتفاق۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر ف عبد الرحیم انگریزی میں کہتے ہیں: .Truth is stranger than fiction جس کا مطلب یہ ہے کہ بعض اوقات حقیقت قصے کہانیوں میں بیان کیے جانے والے واقعات سے بھی زیادہ عجیب و غریب ہوتی ہے۔ میرے ساتھ بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ میری کتاب دروس اللغةالعربية لغير الناطقين بها کے دوسرے حصے کا تیسواں سبق منڈی کے بارے میں ہے۔ اس سبق کی ابتدا میں جو مکالمہ ہے اس کے تمام جملوں میں مثنی کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ اس سبق میں جو قصہ بتایا گیا