Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















کانگریس زیادہ خوش فہمی کا شکار نہ ہو۔۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی
کانگریس ورکنگ کمیٹی نے 21 جولائی کی میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ عام انتخابات سے پہلے مختلف ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات بھی یکساں خیالات رکھنے والی پارٹیوں کے ساتھ مل کر لڑنے اور ان سے تال میل کرنے کی ذمہ داری صدر مسٹر راہل گاندھی کے سپرد کردی گئی ہے۔ بعد میں پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ ملک کی 12 ریاستوں میں کانگریس کو 150 سیٹیں مل سکتی ہیں اور پچاس سیٹیں ان صوبوں سے مل سکتی ہیں جہاں اتحاد کرکے پارٹی الیکشن لڑے گی۔ اس کے بعد یہ کہا کہ کانگریس الیکشن میں راہل گاندھی کے چہرہ کو وزیراعظ
اندھیرے میں اُجالے کی کرن۔۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی
موجودہ حکومت پر عدم اعتماد کی تحریک بظاہر بہت بڑے فرق سے ناکام ہوگئی لیکن جو ہوا اس سے اندازہ نہیں یقین ہے کہ اس کے ذریعہ جو حاصل کرنا تھا وہ کم از کم کانگریس کو حاصل ہوگیا۔ صرف پچاس مہینے پرانی بات ہے کہ نریندر مودی نام کے لیڈر نے اچانک اپنی پہلی انتخابی تقریر میں ایک بار نہیں بار بار کہا کہ بھارت کو کانگریس مکت بنانا ہے۔ ہماری عمر اور گراں گوشی کا نتیجہ یہ تھا کہ پہلی بار سنا تو ہم سمجھ ہی نہ سکے کہ کیا کہہ رہے ہیں؟ اور پھر جب شری مودی نے اسے تکیۂ کلام بنالیا تو ہم بھی کانگریس کی طرف سے اتنے ز
آب بیتی الحاج محی الدین منیری ۔20۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی علیہ الرحمہ سے تعلق بیعت
تحریر : عبد المتین منیری M : 00971555636151 سہارنپور کے سفر میں حضرت رائے پوری کے یہاں رات گزارکر صبح کے وقت حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃاللہ علیہ کی مجلس میں حاضر ہوا ، یہ ناشتے کا وقت تھا چالیس پچاس افراد گھیرا ڈالے بیٹھے تھے، پاکستان سے چند مقتدر شخصیات بھی آئی ہوئی تھیں، بھوپال میں تبلیغی جماعت کے امیر مولاناعمران خان ندوی بھی موجود تھے حضرت شیخ نے مجلس میں مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا منیری صاحب! اس محفل میں کسی کے ساتھ اگرا متیازی سلوک کیا جائے تو کیا اس م
سچی باتیں ۔۔۔ وطن سے محبت ۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی مرحوم
عن ابن عباس قال قال رسول اللّٰہ المکة ما اطیبک بلد واحبک الی ولو ان قومی اخرجونی منك ما سکنت غیرك حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ(مکہ سے ہجرت کے وقت)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ تو کتنا پاکیزہ اور مجھے کتنا پیارا شہر ہے۔ اگر میری قوم نے مجھے نکلنے پر مجبور نہ کردیا ہوتا تو میں تجھے چھوڑکہیں اور جاکر (ہرگز) نہ بستا۔ یہ روایت جامع ترمذی کی ہے زرقانی وغیرہ سیر کی کتابوں میں بھی اسی مضمون کی روایات ہیں، زبان مبارک سے مکہ کی محبت ومحبوبیت کے یہ الفا

خبر لیجئے زباں بگڑی ۔۔۔ نہ ہی کا استعمال ۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی
ابوالاثر حفیظ جالندھری کو کسی نے یہ شعر سنایا دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی حفیظ صاحب نے پوچھا ’’یہ کس کا شعر ہے؟‘‘ کہا ’’آپ ہی کا تو ہے‘‘۔ کہنے لگے ’’میں نے تو یہ کہا تھا ’’دیکھا جو کھا کے تیر کمین گاہ کی طرف‘‘۔ اس شعر کا چرچا یوں ہوا کہ اے این پی کے رہنما غلام احمد بلور نے سانحہ یکہ توت کے پس منظر میں یہ شعر پڑھا ہے اور اسی طرح پڑھا جیسا عوام کی زبان پر چڑھا ہوا ہے۔ مگر حفیظ نے اسے اپنا شعر تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غلط العوام شع
تبصرہ کتب : باتیں مشفق خواجہ کیں ۔۔۔ تحریر : ملک احمد اعوان
نام کتاب: باتیں مشفق خواجہ کی (مکتوبات مشفق خواجہ بنام تحسین فراقی) مرتب: ڈاکٹر حمیرا ارشاد صفحات: 360روپے قیمت 600 روپے ناشر: رنگِ ادب پبلی کیشنز۔ آفس نمبر 5 ،کتاب مارکیٹ اردو بازار۔ کراچی فون: 021-32761100 0345-2610434 ای میل: rangeadab@yahoo.com www.facebook.com/rangeadab ڈاکٹر تحسین فراقی کے نام جناب مشفق خواجہ کے 202 خطوط اس کتاب میں جمع کردیے گئے ہیں، اور یہ کام ڈاکٹر صاحب کی ایک شاگرد ڈاکٹر حمیرا ارشاد صاحبہ صدر شعبہ اردو لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی کے ہاتھوں مکمل
بھٹکل فسادات اور جگن ناتھ شیٹی کمیشن میں دلچسپ معرکہ! (دوسری قسط )۔۔۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... (...گزشتہ سے پیوستہ)یہ بات بھی ذہن میں ضرور رہے کہ کمیشن کے رو برو سوالات کے جواب میں اور خصوصاً مخالف وکیلوں کے الزامات Suggestions کے جواب میں صرف انکار یا اقرار کرنا ہوتا ہے۔ زیادہ تفصیل سے بات رکھنے کا موقع بھی نہیں ملتا اور تفصیل میں جانے کے چکّر میں آدمی خود ہی اپنے جال میں پھنسنے کاپورا خطرہ رہتاہے۔جبکہ مخالف پارٹی کے وکیلوں کی طرف سے الزامات اور سوالات، گواہوں کو کمزور کرنے، اشتعال دلانے اور ان کی زبان سے اپنے مطلب کے جوابات حاصل کرنے کی غرض سے ہی کئے
آب بیتی الحاج محی الدین منیری ۔19-حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری کی خدمت میں ۔۔۔ تحریر : عبد المتین منیری
M:00971555636151 اس کے واقعہ کے کچھ عرصہ بعد حضرت شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا کاندھلوی ؒ کی خدمت میں سہارنپور حاضری ہوئی ۔ وہاں پرمجھے معلوم ہوا کہ حضرت مولانا رائے پوری ؒبے ہٹ ہاؤ س میں ٹہرے ہوئے ہیں۔ مولانا رائے پوری اس دور میں روحانیت کے امام تسلیم کئے جاتے تھے ، بڑے بڑے جید علماء آپ کے سامنے زانو تہہ کرتے تھے۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے آپ کے حالات زندگی پر ایک کتاب لکھی ہے۔ حضرت کی یہاں پرموجودگی کی خبر سے مجھے آپ کی ملاقات کا شوق پیدا ہوا۔ چونکہ میں حضرت شیخ کا مہمان تھا

میں تمہیں کیسے بتاؤں کیا کہوں۔۔۔۔۔ از:حفیظ نعمانی
کانگریس کے صدر راہل گاندھی نے مسلم دانشوروں کے ساتھ دو گھنٹے کی ایک ملاقات میں ’’ہاں کانگریس مسلمانوں کی پارٹی ہے‘‘ کہا یا نہیں کہا اس پر بلاوجہ کی بحث چھڑ گئی ہے۔ اگر انہوں نے جوش میں آکر یہ کہا بھی تھا تو سب جانتے ہیں کہ اس کا کہنا نہ کہنا برابر ہے۔ ان کی والدہ محترمہ گذشتہ دنوں بڑے دُکھ کے ساتھ یہ کہہ چکی ہیں کہ کانگریس کو مسلمانوں کی پارٹی کہا جانے لگا ہے۔ صدر کانگریس کیا کہتے ہیں اور کون کیا کہتا ہے یہ بحث ہی فضول ہے۔ اگر وزیر اعظم کہہ دیں کہ بی جے پی مسلمانوں کی پارٹی ہے تو کیا کسی کو یقین
MP Court gives ₹1 Lakh to accused who already spent 12 years in jail for false charges
India will complete 71 years of independence from British rule this August. And seven decades is ample time to figure out a country’s laws, set guidelines for our citizens and weed out crime occurring in each state. However, going by our present condition, India’s lawmakers look like they still don’t have proper solutions, because of which innocent lives are being ripped apart. According to Live Law, the case of two accused people was placed before the Madhya Pradesh High Court. However, Just
خبر لیجئے زباں بگڑی ۔۔۔ قاموس الفصاحت اور ماہر القادری۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی
حضرتِ ماہرالقادری (مرحوم) بجائے خود ایک لغت تھے، لیکن اردو کی کوئی لغت ایسی نہیں جو غلطیوں سے پاک ہو۔ یہ غلطیاں عموماً کتابت کی ہیں جسے سہوِ کاتب کہا جاتا تھا، اب یہ کمپوزر کے سر جاتی ہیں۔ ماہرالقادری نے ’’ہماری نظر میں‘‘ کے عنوان سے مختلف موضوعات پر نثر اور نظم میں لکھی گئی 76 کتابوں پر فاضلانہ تبصرے کیے ہیں اور تبصرے کا حق ادا کردیا۔ اس تبصرے کی لپیٹ میں ’قاموس الفصاحت‘ بھی آگئی ہے جو سید محمد محمود رضوی مخمور اکبر آبادی کی تالیف ہے، اور بقول مصنف اردو زبان کی کہاوتوں، محاوروں اور ’’روز مروں‘

بھٹکل فسادات اور جگن ناتھ شیٹی کمیشن میں دلچسپ معرکہ! (پہلی قسط ) ۔۔۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... سماجی زندگی کے سفر میں کچھ واقعات اورحادثات ایسے ہوتے ہیں کہ قصۂ پارینہ ہونے کے باوجود گاہے بگاہے انہیں یاد کرنا اور نئی نسلوں کے سامنے انہیں پیش کرنا ضروری ہوتا ہے، تاکہ آنے والے زمانے کے لئے وہ اس سے سبق حاصل کریں اور ایسی تدابیر اختیار کریں کہ اگر خدانخواستہ تاریخ پھر سے اپنے آپ کو دہرانے پر آجائے تو وہ اس کا سامنا کرنے کے لئے پہلے سے ہی تیار ہوں۔فارسی کا بہت ہی مشہور شعر ہے: تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را گاہے گاہے باز خواں ایں دفترِ پارینہ را یع
آب بیتی الحاج محی الدین منیری ۔ 18 ۔ نہ کچھ کام آئے جناب منیری ۔۔۔ تحریر : عبد المتین منیری
M:00971555636151 شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ کا جب بھی حج کا سفرہوتا۔ صابو صدیق مسافر خانہ ضرور تشریف لاتے ، میری ان سے ملاقاتیں رہتیں ، ان کی مجالس میں اٹھنا بیٹھنا ہوتا۔ آپ کے ایک خلیفہ تھے مولانا عبدالمنان صاحب۔ دہلی میں کوئی دینی مدرسہ چلاتے تھے۔ ایک مرتبہ جب حضرت مدنی ؒ سفرِ حج پر جانے لگے تو انہیں بھی حضرت کی معیت میں سفر کا شوق چراّیا۔ ان کی زبان میں بڑی روانی تھی ، عربی اور اردو دونوں زبانوں میں یہ شعر کہتے تھے۔ ایسا چرب زبان شخص اپنی عمر میں میں نے کم ہی دیکھا ہے۔

مودی۔ایردوان، تقابلی جائزہ
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے اب تک پوری ریاست کو اُس طرح مٹھی میں نہیں لیا ہے جس طرح ترکی کے صدر ایردوان نے لے رکھا ہے پھر بھی دونوں کے درمیان چند ایک معاملے میں موازنہ تو کیا جاسکتا ہے۔ ایک حقیقت تو یہ ہے کہ رجب طیب ایردوان کم و بیش پندرہ سال سے اقتدار میں ہیں۔ اس اعتبار سے مودی اُن سے گیارہ سال پیچھے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کے درمیان موازنہ عام طور پر متوازن نہیں ہوتا۔ اس کا بنیادی سبب ہے کہ ان کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔ ترک رہنما ایردوان بھارتی وزیر اعظم سے گیارہ سال پہلے ایوان اقتدار میں دا
جو نوکر کو بگاڑے گا وہ خود کل پچھتائے گا۔۔۔۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی
دہلی کی نازک حکومت اور مرکز کی دیوقامت حکومت کے درمیان تنازعہ اس وقت کا نہیں ہے جب نریندر مودی صاحب وزیراعلیٰ تھے بلکہ اس وقت کا ہے جب وہ 280 سیٹیں جیت کر ایک مضبوط حکومت بنا چکے تھے اور پورے طور پر ہریانہ کو فتح کرچکے تھے اور بڑی حد تک مہاراشٹر میں پاؤں جما چکے تھے۔ 2014 ء کے لوک سبھا الیکشن کے بعد ہریانہ اور مہاراشٹر فتح کرکے وہ دہلی آئے تو اسے ایک کھیل سمجھا جہاں دس سال کی منموہن حکومت کی سرپرستی میں پندرہ سال سے مسز شیلا دکشت راج کررہی تھیں۔ مودی جی نے سمجھا تھا کہ وہ دکشت حکومت کو پھونکوں س
ان تہی دستوں کے ہاتھوں میں نہ چادر ہے نہ خاک۔۔۔۔ از: حفیظ نعمانی
وزیراعظم کے لئے ہر گٹھ بندھن کی خبر ایسی ہوتی ہے جیسے ملک پر کسی نے حملہ کردیا ہو۔ وہ فوراً اقتدار کی لالچ کا الزام لگا دیتے ہیں اور محاذ بنانے کی کوشش کرنے والے لیڈروں کو کتابلی سانپ چھچھوندر نائی اور بندر غرض کہ جتنی گالیاں ہوسکتی ہیں دے ڈالتے ہیں۔ ان کے من کی بات یہ ہے کہ اپنے کو سیکولر کہنے والی ہر پارٹی الگ الیکشن لڑے اور مسلمانوں اور سیکولر ہندوؤں کے ووٹ تقسیم ہوجائیں اور ان کو اگر 25 فیصدی بھی ووٹ ملیں تب بھی حکومت ان کی بن جائے۔ کیا 2014 ء میں جو کچھ نریندر مودی نام کے لیڈر نے نعرے دیئے
خبر لیجے زباں بگڑی ۔۔۔ پھوٹی پڑی روشنی ۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی
ہم تو اپنی کوشش میں لگے ہوئے ہیں لیکن بڑے بڑے علما، فضلا، ٹی وی چینلز اور اہلِ قلم بالٹیاں لیے کھڑے ہیں اور پانی پھیر نہیں رہے بلکہ اوندھا رہے ہیں۔ حالانکہ سوائے لاہور کے، پورے ملک میں پانی کی شدید قلت ہے۔ کراچی میں تو پانی کو ترسے عوام رہنمائوں پر خالی گھڑے پھوڑ رہے ہیں، حالانکہ محاورہ تو ہے ’’بادل دیکھ کر گھڑے پھوڑنا‘‘۔ بادل ہیں کہ کراچی کے ساحل سے اٹھ کر کہیں اور جا برستے ہیں، بقول شاعر: دشتِ بے آب نے دیکھے ہیں وہ کالے بادل جو کہیں اور برسنے کو اِدھر سے گزرے لاہور کا پیرس تو ڈوب گیا

جو جان بوجھ کر کرے اُسے کیا سمجھانا۔۔۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی
یہ آج کی بات نہیں، کئی دن پرانی ہے کہ مسٹر اسد الدین اویسی نے ہاپوڑ کے ایک جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں بیٹر کے مسلمانوں سے یہ نہیں کہتا کہ وہ یہاں بیٹھ کر آنسو بہائیں بلکہ میں ان کا ضمیر جھنجھوڑنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے اس تقریر میں سیکولرازم کا نام لینے والوں کو منافق بتاتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ مسلمانوں پر مظالم کے سب سے بڑے ذمہ دار ہیں۔ جو سیکولرازم کا دعویٰ کرتے ہیں۔ تقریر کا کافی حصہ نقل کرکے انقلاب کے فاضل ایڈیٹر شکیل شمسی نے۔ ’’نہیں اویسی صاحب نہیں‘‘ کے عنوان سے بہت ہی درد بھرے اند