Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















خبر لیجے زباں بگڑی --- ہاتھوں سے پائمال کرنا ۔۔۔۔ تحریر : اطہر علی ہاشمی
شعر تو خوب ہے، آپ بھی سنیے ، یا پڑھیے کوئی تو بات ہوگی جو کرنے پڑے ہمیں اپنے ہی خواب، اپنے ہی ہاتھوں سے پائمال اس شعر میں ’ہی۔ہی‘ کی معیوب تکرار سے قطع نظر ’’ہاتھوں سے پائمال‘‘ کرنے کا جواب نہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ شاعر کو پائمال کا مطلب نہیں معلوم۔ ’پامال‘ یا ’پائمال‘ کا مطلب ہے ’’پیروں سے روندنا، کچلنا‘‘۔ ’پا‘ کا مطلب ’پیر‘ ہے۔ شاعری میں پائے کوب کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے یعنی پیروں سے کوٹنا، لاتیں مارنا وغیرہ۔ اب یہ کوئی شاعر ہی بتائے کہ ہاتھوں سے پیروں کا کام کیسے لیا جاتا ہے؟ اور پھر خواب

سچی باتیں ۔۔۔ کلمہ توحید کی اہمیت ۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادی
بعثَنا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم إلى الحُرَقَةِ، فصَبَّحْنا القومَ فهزَمْناهم، ولَحِقْتُ أنا ورجلٌ من الأنصارِ رجلًا منهم : فلما غَشِيناه قال : لا إلهَ إلا اللهُ، فكَفَّ الأنصاريُّ عنه، فطَعَنْتُه برُمحي حتى قَتَلْتُه، فلما قَدِمْنا بلَغ النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فقال : ( يا أسامةُ، أقَتَلْتَه بعد ما قال لا إلهَ إلا اللهُ ) . قُلْتُ : كان مُتَعَوِّذًا، فما زال يُكَرِّرُها، حتى تَمَنَّيْتُ أني لم أكُنْ أسلَمْتُ قبلَ ذلك اليومِ (بخاری باب بعثۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم
بربط دل کے تاروں کو چھیڑنے والا شاعر ۔ ڈاکٹر محمد حسین فطرت ۔۔۔۔ تحریر : عبد المتین منیری
Whatsapp:00971555636151 ستمبر 19 کی صبح ابھی مسجد وں سے اللہ اکبر کی صدائیں بلند نہیں ہوئی تھیں ، خبر آئی کی محمد حسین فطرت صاحب اب ہم میں نہیں رہے ، رات دیڑھ بجے انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا اور سب کو چھوڑ کر دائمی سفر پر روانہ ہوگئے ۔ ان کی عمر اس وقت (۸۴) سال تھی ۔آپ نے مورخہ جون ۱۹۳۲ء اس دنیائے رنگ و بو میں حاجی عبد القادر شینگیری مرحوم کے گھرمیں جنم لیا تھا۔ آپ کی رحلت کے ساتھ بھٹکل میں اردو شعرو ادب کا ایک عہد اختتام کو پہنچا جس کا آغاز بھی آپ ہی سے ہوا تھا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ پہلے

کرناٹکا کی مخلوط ریاستی حکومت پر لٹکتی ’آپریشن کنول۔۳‘ کی تلوار۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... ایسا لگ رہا ہے کہ کرناٹکا کی ریاستی مخلوط حکومت اور زعفرانی کنول میں چل رہی سیاسی بقا کی جنگ اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ چکی ہے اور آئندہ چند دنوں کے اندرکوئی دھماکہ خیز نتیجہ سامنے آنے والا ہے۔ ریاست کے سیاسی منچ پر کھیلے جارہے اس ڈرامے کا آخری سین کس کے لئے المیہ(Tragedy) بنے گا اور کس کے لئے خوشگوار اختتام(Happy Ending) بن کر سامنے آئے گا ،یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا ۔محسوس یہ ہورہا ہے کہ ’آپریشن کنول ۔۳ ‘ کی افواہوں کے بیچ دن بدن کروٹ لیتے ہوئے حالات نے
Court holds fastest trial in Madhya Pradesh, sentences rape accused to death in 3 days
India’s judicial system has been criticised for a long time due to its pace. And the criticism is justified because it took five brutal years for the Supreme Court to uphold the death sentences in the Nirbhaya case. Additionally, the time that’s being taken on the Kathua case is already taking its toll as evidences are being botched. However, a court in Madhya Pradesh might’ve ignited some hope among Indians. According to Hindustan Times, a court in Datia, Madhya Pradesh held a three day tria
سچی باتیں ۔۔۔ مومن فاسق ۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی رحمۃ اللہ علیہ
عن عمر بن الخطاب ان رجلا علی عہد النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم کان اسمہ عبد اللّٰہ کان یلقب حمار، کان یضحک رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم قد جلدہ فی الشراب فاتی بہ یوما فامر بہ فاجلدہ فقال رجل من القوم اللّٰھم العنہ ما یؤتی بہ فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم لا تلعنوہ فو اللّٰہ ما علمت الا اللّٰہ یحب اللّٰہ ورسولہ ۔بخاری ، الحدود حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص نام عبداللہ تھا اور وہ حمار کے لقب سے مشہور تھے اور وہ

شیعہ اہل علم اور اہل قلم اپنا فرض ادا کررہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی
یہ 2013 ء کی بات ہے، قمری مہینہ ذی الحجہ کا ہی تھا کہ عزیز محترم خواجہ انورالدین پروپرائٹر نامی پریس کا فون آیا کہ آپ تو قیصر باغ میں ہیں ہم جیسے لوگ جو پرانے لکھنؤ میں ہیں ان پر کل کیا بیت جائے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ افسوس اس کا ہے کہ ماحول خراب کرنے کی ذمہ داری سنی حضرات پر ہے۔ اور یہ کوئی نئی تنظیم ہے جس کا تعلق پاٹانالہ سے نہیں ہے۔ ہم تو سوچتے ہیں کہ دو مہینے کے لئے بیٹے کے پاس دوبئی چلے جائیں؟ یہ پوری بات سن کر میرے جیسے آدمی پر جو گذری ہوگی اس کے ذکر سے فائدہ کیا۔ اس گفتگو کے دو دن کے بعد م
یوپی کے عظیم اتحاد کی حفاظت سب مل کر کریں گے۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی
اترپردیش میں عظیم اتحاد کے خاکہ کی شہرت ایسی گولی نہیں ہے جسے سب حلق سے اتارلیں، اس اتحاد کے ایک فریق کانگریس کے اہم لیڈر کپل سبل نے کل منورنجن بھارتی سے صاف الفاظ میں کہا کہ ان کے وزیراعظم راہل گاندھی ہیں۔ اور ابھی کسی اتحاد کا خاکہ پوری طرح تیار نہیں ہے۔ سبل صاحب خود راجیہ سبھا کے ممبر کانگریس کے بل پر نہیں ہیں بلکہ دوسری پارٹیوں کی دوست نوازی کا صلہ ہیں۔ انہیں 2017 ء میں صوبائی اسمبلی کے اتحاد میں صرف 7 سیٹوں پر کامیابی ملی تھی جس کا سبب اکھلیش یادو نہیں تھے راج ببر اور غلام نبی آزاد تھے جو ا
بھٹکل فسادات اور جگن ناتھ شیٹی کمیشن میں دلچسپ معرکہ! (آٹھویں اور آخری قسط)۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... (گزشتہ سے پیوستہ....) تحقیقاتی کمیشن میں ڈاکٹر چترنجن سے ہمارے وکلاء کی جرح کا آخری دن تھا۔ الحمدللہ اس جرح کے دوران ممکنہ حد تک ڈاکٹر کو گھیرنے اور سنگھ پریوار کے مسلم دشمن نظریا ت کا پرچار کرکے بھٹکل کے امن و امان بگاڑ کر ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ نفرت کے بونے اور فسادات برپا کرنے کا ذمہ دار ٹھہرانے کی پوری کوشش کی گئی۔ڈاکٹر چترنجن نے بھی سوالات کے اس گھیرے سے بچ کر نکلنے پوری کوشش کی توبعض مقامات پر ان سے کوئی جواب بن نہیں پڑا اور صرف الزامات کی تردید
سچی باتیں ۔۔۔ عورت سے مصافحہ ۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادی رحمۃ اللہ علیہ
قال معمرٌ: فأخبرَني ابنُ طاووسٍ، عن أبيهِ، قالَ: ما مَسَّت يدُ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ يدَ امرأةٍ إلَّا امرَأةً يملِكُها - جامع الترمذی کتاب التفسیر جامع ترمذی، حدیث کی مشہورومستند کتابوں میں سے ہے، اس میں معمرروایت کرتے ہیں ابن طاؤس سے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی زندگی بھر کسی عورت کے ہاتھ کو مس کیا ہی نہیں، بجز اپنی بیوی صاحبوں کے۔ راوی نے "امراۃ یملکھا" (بجز اس عورت کے جو آپ کے ملک میں تھی) کہہ کر عالم انسانیت کی جو ناقابل

Rajasthan Judge recites emotional hard-hitting poem while sentencing a rapist to death
In a country where crimes against women are increasing at an alarming rate, we came across another barbaric one on August 2. A 22-year-old man in Rajasthan’s Jhunjhunu district was found guilty of raping a 3-year-old minor girl. The man responsible for the brutal act was slammed with a death sentence Friday by a POCSO court in Jhunjhunu under Section 376AB of IPC which was introduced under The Criminal Law Amendment Act, 2018 last month and has a provision for a death sentence for the rape of
خبر لیجے زباں بگڑی ۔۔۔ سناؤنی آگئی ۔۔۔ تحریر : اطہر علی ہاشمی
بعض پڑھے لکھے لوگ بھی ’برخاست‘ کا املا درخواست کی طرح کرتے ہیں یعنی برخواست۔ برسبیلِ تذکرہ درخواست کا تلفظ بھی درخاست ہے۔ اس کا وائو خاموش رہتا ہے جیسے خویش اور خواب وغیرہ۔ تلفظ خیش اور خاب ہوگا۔ فرائیڈے اسپیشل کے ایک پرانے شمارے میں مرحوم رسا چغتائی کے بارے میں صحافیوں کے استاد اور ادیب طاہر مسعود کا ایک جملہ تھا ’’سناؤنی موت کی آگئی‘‘۔ بڑا اچھا اور ادبی جملہ تھا لیکن لفظ سناونی شاید نئے لوگوں کے لیے نامانوس ہوگیا ہے چنانچہ پروف ریڈر یا کسی ایڈیٹر نے اسے آسان بنادیا کہ ’’بلاوا موت کا آگیا‘‘۔ ا

داغی ممبر حکومت اور سپریم کورٹ ۔۔۔از: حفیظ نعمانی
پورے سال میں عید کا دن ایسا ہوتا ہے کہ میرے اپنے بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں اور پرنواسے پرنواسیاں جو ہندوستان میں ہیں وہ میرے پاس ہوتے ہیں۔ ان میں وہ بہوئیں بھی شامل ہیں جن کو بہو بناکر لایا تھا اور بیٹی بناکر رکھے ہوئے ہوں۔ اللہ رب کریم کا کرم ہے کہ ان کی تعداد چالیس سے زیادہ ہے۔ اگر عید کے اس دن جب میرا ہر چھوٹا میرے پاس ہو کوئی غیر آئے اور لان میں کھڑا ہوکر مجھے پھٹکارنے لگے کہ ہم نے تم سے معلوم کیا تھا کہ تمہارے بچوں میں کون کون بیمار ہے اور وہ کس کس مرض کا مریض ہے؟ جس کا جواب
نیّرِ تاب دار تھا نہ رہا.... کلدیپ نیر جدید ہندوستان میں کئی تاریخی اور اہم واقعات کے گواہ تھے۔۔۔از:فیصل فاروق
حالیہ دِنوں کئی ایسی عظیم شخصیتیں ہم سے رخصت ہوئیں جنہوں نے اپنی ادبی اور صحافتی سرگرمیوں کی وجہ سے قارئین کا ایک وسیع حلقہ بنا لیا تھا۔ اُنہی محترم شخصیات میں سے ایک کلدیپ نیر بھی ہیں۔ کلدیپ نیر طویل مدت سے بیمار چل رہے تھے اور ۹۵/سال کی عمر میں اِس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ آزاد ہندوستان کی صحافت کے اہم ستون کلدیپ نیر نہ صرف عظیم صحافی بلکہ ایک عظیم انسان تھے۔ اُن کی خاص بات یہ تھی کہ وہ ہندوستان کے بٹوارے سے لے کر نریندر مودی کے عروج تک کے تاریخ ساز عہد کے چشم دید گواہ تو تھے ہی بلکہ اُنہوں ن
خبر لیجے زباں بگڑی ۔۔۔ دوران سعی اچک کر جانا ۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی
پچھلے سے پچھلے شمارے میں عبدالخالق بٹ نے ہند اور ہندو کے حوالے سے تحقیقی مقالہ لکھ ڈالا ہے۔ ہندو کالے کو کہتے ہیں، اس پر شیخ ابراہیم ذوق کا ایک شعر سن لیجیے: خط بڑھا، کاکل بڑھے، زلفیں بڑھیں، گیسو بڑھے حسن کی سرکار میں جتنے بڑھے ہندو بڑھے پہلے مصرع میں جن چار چیزوں کا ذکر ہے وہ سب کالی ہوتی ہیں، کم از کم جوانی میں۔ پھر تو چونڈا سفید ہوجاتا ہے۔ کہاں کی زلفیں اور گیسو۔ شعر استاد کا ہے لیکن کبھی یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ ذوقؔ کے محبوب کا ’خط‘ سے کیا تعلق؟ اگر وہ کاکلوں اور زلفوں والا ہے تو اس ک

بھٹکل فسادات اور جگن ناتھ شیٹی کمیشن میں دلچسپ معرکہ! (ساتویں قسط)۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
(گزشتہ سے پیوستہ) جب کمیشن میں میری حاضری ہوئی تھی اور سنگھ پریوار کے وکیلوں کے ساتھ دلچسپ معرکہ چلا ہواتھا تو شاید دوسرے دن بھٹکل سے ہمارے مزید کچھ گواہان کی ٹیم کمیشن کے سامنے حاضر ہونے کے لئے تنظیم کی طرف سے بنگلورو پہنچی تھی۔ اس میں 1993کے فسادات کے دوران شدید زخمی ہونے والے مولانا علی سکری اکرمی صاحب مرحوم کے علاوہ جناب ایس ایم عبدالقادرصاحب اور دیگرکچھ احباب تھے۔ جناب ثناء اللہ گوائی کے بقول اس دوران انہوں نے بھی کمیشن کی کارروائی ملاحظہ کی تھی۔ ہمارے نقطۂ نظر سے جناب مولانا علی سکری اکرمی
Telugu IAS Officer saves 2 lakh people in Alleppey during Kerala flood with quick thinking
Often times we find ourselves complaining about inefficient government officials for everything that’s wrong with the way our country is run. They are written off as lazy corrupt men and women who don’t care about doing their jobs right. And to be fair, this is true in many cases. However, credit should be given where it is due and that’s what we’re going to do today. This is Krishna Teja Mylavarapu. He is a Telugu IAS officer who serves as the sub-collector of Alappuzha district in Kerala.
خبر لیجے زباں بگڑی ۔ تمہیں اور ہمیں ۔۔۔ تحریر : اطہر علی ہاشمی
ہم پنجابی محاورے کے مطابق شہتیراں نوں جپھے (شہتیروں سے معانقہ) کے اہل ہرگز نہیں ہیں۔ جناب عطا الحق قاسمی بڑے کینڈے کے ادیب و شاعر ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ان کو پڑھ پڑھ کر تو ہم نے اپنی اردو صحیح کی۔ کچھ سال قبل انہوں نے اپنے ایک دوست کی یاد میں کالم لکھا جس کا عنوان ہے ’’تمہی سوگئے داستاں کہتے کہتے‘‘۔ اصل مصرع ہے ’’ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے‘‘۔ اس میں حسبِ موقع ترمیم کرنی تھی تو مناسب تھا کہ ’’ہمیں‘‘ کی جگہ ’’تمہیں‘‘ استعمال کرتے۔ تمہیں (ضمیر حاضر) لغت سے باہر کا لفظ نہیں ہے۔ اردو کا ایک محاورہ
