Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















’’ ۔۔۔مگر کم بخت۔۔ آزاد۔۔ ہوگیا ‘‘ ۔۔۔۔۔۔از: ندیم صدیقی
روزنامہ’’ ممبئی اُردو نیوز‘‘ کا تازہ کالم ’’شب و روز‘‘ ہم ہندوستانی مسلمانوں میں ایک طبقہ تھا جو اپنے آپ کو پیدائشی کانگریسی کہا کرتا تھا(ہو سکتا ہے اب بھی ہو)، وہ سب سے پہلے کانگریسی ہوتے تھے پھر کچھ اور اُن کی وضع قطع بھی ایسی ہوتی تھی کہ دیکھ کر لگتا تھا کہ واقعی یہ گاندھیائی فکر و عمل کے آدمی ہوںگے مگر یہ معاملہ ہم مسلمانوں کے عام ظاہر و باطن جیسا ہی ہوتا تھا ، یہ لوگ اپنی قوم ملت کے وفادار ہوتے تھے یا نہیں مگر کانگریسی آقاؤں کے جاں نثار غلام ضرورہوتے تھے۔ ان کی وفاداریاں کس درجے
اتنی نہ بڑھا پاکیِ داماں کی حکایت۔۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی
یہ اچھا ہوا یا برا یہ تو ہم نہیں جانتے لیکن یہ حقیقت ہے کہ نہ ہمیں کسی نے وزیر بنایا اور نہ ہم نے بننا چاہا۔ اس لئے ہم یہ نہیں جانتے کہ جسے وزیر بنایا جاتاہے اور جو محکمہ اسے دیا جاتا ہے اس کے ذمہ صرف اس محکمہ کے ذریعہ ملک اور قوم کی خدمت ہوتی ہے یا اس سے اس کے علاوہ پارٹی کے کام یا اپنے لیڈر کی شان میں جھوٹا سچا قصیدہ بھی پڑھنا ہوتا ہے؟ ہم برسوں سے مختار عباس نقوی کو وزیر بنا دیکھ رہے ہیں سیاسی زبان میں وہ بی جے پی کا مسلم چہرہ ہیں۔ اور اس لئے جب ایک دوسرے مسلم چہرہ پر نوخیز لڑکیوں نے تیز انداز
اللہ کی رحمت سے مایوسی کفر ہے۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی
اکتوبر جسے برسوں سے مسلم یونیورسٹی کے سابق طلباء سرسید ڈے کے طور پر مناتے ہیں اور کئی برس سے لکھنؤ میں وہ سب سے زیادہ اہمیت حاصل کرتا جارہا ہے اسی تقریب میں اس سال کانگریس کے ایک ممتاز لیڈر غلام نبی آزاد مہمان خصوصی تھے۔ جنہوں نے بہت کچھ کہنے کے دوران یہ بھی کہہ دیا کہ ایک زمانہ میں کانگریس کے اُمیدواروں کی 95 فیصدی درخواستوں میں اپنے حلقہ میں تقریر کرنے کیلئے غلام نبی آزاد کا پروگرام رکھنے کا مطالبہ ہوتا تھا اب وہ گھٹ کر 20 فیصدی رہ گیا ہے۔ ان کی تقریر کے اس جملہ پر ممتاز صحافی افتخار گیلانی ن
تنظیم میڈیا ورکشاپ۔ مثبت سمت میں بڑھتے قدم۔ کیا ایک بڑی چھلانگ لگانا ممکن ہے! (دوسری قسط )۔۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... میں نے سابقہ قسط میں صحافت یا جرنلزم کے میدان میں بھٹکلی مسلم نوجوانوں کی شرکت اور فعالیت کے تعلق سے کچھ اشارے کیے تھے اور سوا ل اٹھایا تھا کہ کیا صحافتی میدان میں ملّی مفاد اور مسلمانوں کے کاذ کو اجاگر کرنے کی جدوجہدمیں ہمارا رول اطمینان بخش یا امید افزا ہے! اور یہ احساس ظاہر کیا تھا کہ اس کا مثبت جواب دینا ذرا مشکل ہے۔ اسی سوال کا جواب پانے کے لئے زمینی حقائق کا جائزہ لینا ضروری ہے جس کے لئے صحافتی میدان میں مواقع اورہماری سرگرمیوں کا تجزیہ کیاجانا چاہیے۔ مجل
خبر لیجئے زباں بگڑی ---راز افشاں ہوگئے ۔۔۔ تحریر :اطہر علی ہاشمی
گزشتہ دنوں جسارت کے صفحہ اوّل پر ایک خبر میں ’’استفادہ حاصل کرنا‘‘ شائع ہوا ہے۔ ہم اپنے ساتھیوں کو سمجھا رہے تھے کہ استفادہ میں حاصل کرنے کا مفہوم شامل ہے، چناں چہ استفادہ کرنا کافی ہے، کہ اسی وقت ہمارے بہت محترم منصفِ اعلیٰ (چیف جسٹس) جسٹس ثاقب نثار کی تقریر ٹی وی چینل پر آنے لگی (20 اکتوبر)۔ وہ بھی استفادہ حاصل کررہے تھے۔ اب اس لفظ کو عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ قرار دینا چاہیے۔ ایم کیو ایم کے ایک دھڑے کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار بہت اچھی اردو بولتے ہیں لیکن اپنے ایک خطاب میں وہ ’’دست بدستہ‘‘ معافی

سچی باتیں ۔۔۔ نفسیات بشری ۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی مرحوم
اللہم انی استغفرك مما تبت الیک منه ثم عدت فیه واستغفرك لما اعطیتک من نفسی ثم لم اوف لک بہ واستغفرک النعم التی تقویت بھا علی معصیتی و استغفرک لکل خیر اردت بہ الیک تخالطنی فیہ ما لیس لك اے اللہ میں تجھ سے معافی چاہتا ہوں اس گناہ سے جس سے میں نے توبہ کی اور پھر لوٹ کر اس میں بڑا اور میں تجھ سے معافی چاہتا ہوں اس چیز کے بارے میں جس کا میں نے تجھ سے وعدہ کیا اور پھر اسے پورا نہ کیا اور میں تجھ سے معافی چاہتا ہوں اس نیکی کے بارے میں کہ اسے میں نے خالص تیرے ہی لئے کرنا چاہیے

الہ آباد کو اب سابق الہ آباد لکھا جائے گا۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی
اُترپردیش کی حکومت نے دھرم کا ایک بہت بڑا قرض اُتار دیا یعنی الہ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج کردیا۔ حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس کا نام ہمیشہ سے پریاگ راج ہی تھا مسلمانوں نے اس کا نام تبدیل کردیا تھا۔ اس شہر میں گنگا جمنا اور سرسوتی کا سنگم ہوتا ہے جسے پریاگ راج کہا جاتا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ الہ آباد اسٹیشن اور یونیورسٹی کا نام بھی اب تبدیل کردیا جائے گا۔ یہ تبدیلی مغل سرائے اسٹیشن جیسی سادہ نہیں ہے الہ آباد ایک طرح سے ریاست کا لکھنؤ کے بعد دوسرا مرکزی شہر سمجھا جاتا ہے ہائی کورٹ بھی ال
خبر لیجے زباں بگڑی ۔۔۔ وہ قرض جو واجب تھے ۔۔۔ تحریر : اطہر علی ہاشمی
قوم کتنی مقروض ہے یہ سب کو معلوم ہے، لیکن ہم پر قارئین کا قرض چڑھا ہوا ہے اور ہم تو کسی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پاس بھی نہیں جاسکتے کہ یہ مکڑی کا ایسا جالا ہے جس میں کمزور پھنس جاتا اور طاقت ور اسے توڑ ڈالتا ہے، چنانچہ اپنا قرض آپ ہی اتارتے ہیں۔ اسلام آباد سے عبدالخالق بٹ کی رگِ ظرافت ’’ہاتھوں سے پائمال‘‘ پڑھ کر پھڑک اٹھی، چنانچہ انہوں نے بھی ردا جمایا ہے، لکھتے ہیں کہ ’’ہاتھوں سے پائمال پڑھ کر صورتِ حال کو تصور میں لائے تو ایک پل کے لیے دل دہل گیا اور ٹرانسپلانٹ کے عمل سے

تنظیم میڈیا ورکشاپ۔ مثبت سمت میں بڑھتے قدم۔ کیا ایک بڑی چھلانگ لگانا ممکن ہے! (پہلی قسط)۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... الحمدللہ مجلس اصلاح و تنظیم کی طرف سے منعقدہ صحافتی کارگاہ (جرنلزم ورکشاپ) بحسن و خوبی کامیابی سے ہمکنار ہوا جس کا اندازہ شاندارختتامی اجلاس( n veledictory functio)سے ہوا۔ دراصل اس ہفتے میں LGBTQکمیونٹی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے پس منظر میں مضمون لکھنے کے پروسیس میں تھا، لیکن تنظیم کے میڈیا ورکشا پ کے اختتامی اجلاس میں شرکت اور کچھ مقررین کے خطابات سننے کے بعدمیڈیا میں مسلم نمائندگی مسائل کے موضوع کو ہی ترجیح دینے کا ارادہ کرلیا ۔لہٰذا اسی حوالے سے آئ

غیرتمند کو اُنگلی اُٹھنے سے پہلے استعفیٰ دے دینا چاہئے۔۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی
ہم صحافی تو نہ پہلے تھے نہ آج ہیں لیکن اس خاندان میں پیدا ہونے کا اسے اثر کہا جائے گا جہاں سے ہماری پیدائش کے تین سال کے بعد والد نے ایک ماہنامہ رسالہ نکالنا شروع کیا تھا۔ اور ہم جب کھیلنے کی عمر میں آئے تو اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ وہیں کھیلتے تھے کہ رسالہ تیار ہوگیا اسے لفافہ میں بند کردیا اس پر ٹکٹ لگا دیا اور پورے ملک میں بھیج دیا۔ اور ایسے ہی کھیل کھیلتے کھیلتے رسالہ بھی نکالا اخبار بھی نکالے اور پریس کو بھی روزی روٹی کا ذریعہ شاید اسی شوق میں بنا لیا۔ اور دوستوں میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ حف
کیا جنگوں کی وجہ، مذہب ہے؟۔۔۔۔از: آصف جیلانی
وہ لوگ جو مذہب کے بارے میں تشکیک میں الجھے ہوئے ہیں، وہ بڑے یقین سے دعویٰ کرتے ہیں کہ جنگوں کی اصل وجہ مذہب ہے۔ اپنے اس دعوے کے حق میں وہ سولہویں صدی میں فرانس میں کیتھولک اور پرٹسٹنٹ فرقوں کے درمیان آٹھ جنگوں کی مثال پیش کرتے ہیں جو 36 سال تک جاری رہیں۔ پھر یہ صلیبی جنگوں کا ذکر کرتے ہیں جو کم و بیش ایک صدی تک جاری رہیں اور موجودہ دور کی دہشت گردی کی لہر کی وجہ مذہب قررار دیتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ اس بات کی شہادت نہیں دیتی کہ تمام بڑی جنگوں کے پس پشت بنیادی محرک مذہب تھا اس کے برعکس دنیا میں زیا
سچی باتیں ۔۔۔ موسیقی اور اسلام ۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی مرحوم
موسیقی یونان میں نصاب تعلیم کا ایک اہم جزو تھی(گروٹ کی ہسٹری آف گریس جلد 8 صفحہ 311)کوئی تعلیم مکمل نہ سمجھی جاتی،جب تک موسیقی نہ آ جاتی۔ ”فلاسفہ موسیقی کو اس کے قدیم ووسیع معنی نیز جدید و محدود معنوں میں دونوں طرح تربیت سیرت کا ایک خاص تعلیمی عنصر قرار دیتے تھے“ (انسائیکلوپیڈیا برناٹیکا جلد 16 صفحہ 3) اور موسیقی کے اس شرف و منزلت کو تنہا یونان ہی میں کیوں محدود رکھیئے مصر میں، بابل میں، ہندوستان میں، کس قدیم تہذیب اور کس جاہلی تمدن میں گانے بجانے کا مرتبہ ہٹیا، اور راگ مالا کا مقام ن

خبر لیجے زباں بگڑی - ایک جید عالم کی سند ۔۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی
نہایت محترم اور جیّد عالم حضرت مفتی منیب الرحمن نے تو ہمیں دنیا میں مشہور کردیا، بہت شکریہ۔ انہوں نے ہمیں مخاطب کرکے روزنامہ دنیا میں (6 اور 7 اکتوبر) بہت جامع مضمون تحریر کیا ہے۔ یہ پورا مضمون فرائیڈے اسپیشل کے اسی شمارے میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں تو خوشی اس بات کی ہے کہ اتنے بڑے عالم نے ہمیں درخور اعتنا جانا۔ ہم چپکے چپکے ان سے کسب علم کرتے رہتے ہیں اس طرح وہ بالواسطہ ہمارے استاد ہوئے۔ یہ ان کا انکسار ہے کہ وہ زبان و بیان کی اصلاح کے شعبے میں مبتدی ہیں اور ہمیں ’’متخصص‘‘ سمجھتے ہیں۔ اس مشک

جناب اطہر ہاشمی کے نام ۔۔۔ مفتی منیب الرحمن
حیدر علی آتش کا شعر ہے لگے منہ بھی چڑھانے، دیتے دیتے گالیاں صاحب زباں بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجے دہن بگڑا اس شعر سے استفادہ کرتے ہوئے روزنامہ جسارت کے چیف ایڈیٹر جنابِ اطہر ہاشمی نے فرائیڈے اسپیشل میں اپنے کالم کا عنوان باندھا ہے:’’خبر لیجے زباں بگڑی‘‘، اس میں وہ زبان وبیان کی اصلاح کا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔دورِ حاضر میں اردو زبان کے تحفظ کے لیے یہ وقت کی اہم ضرورت ہے ،کاش کہ ہماری جامعات میں شعبۂ اردو کے اساتذہ وطلبہ اور صحافت سے وابستہ لوگ ان تحریروں سے استفادہ کریں ۔ ’’خبر لیجے زبا
مجلس اصلاح و تنظیم کے لئے ایوارڈمبارک ہو۔۔مگر ان ریمارکس کا کیا؟!۔۔۔۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... بھٹکل کے مسلمانوں کے لئے اس ہفتے یقیناًدل خوش کردینے والی خبر یہ رہی کہ ٹائمز گروپ کے تحت چلنے والے کنڑا روزنامے وجئے کرناٹکا نے شمالی کرناٹکا کے جن 39اداروں کو ایوارڈ سے نوازا اس میں مسلمانوں کے باوقار اور معروف مرکزی ادارے مجلس اصلاح و تنظیم کا نام بھی شامل رہا۔حالانکہ ایک صدی سے قائم مجلس اصلاح و تنظیم کے ذریعے کی جارہی مخلصانہ خدمات اب کسی ایوارڈ اور اعزاز کی محتاج نہیں ہیں۔ کیونکہ ایک زمانہ اس کے بے لوث کارناموں پر گواہ ہے اور اہلِ نظر و اہلِ دل نے اس کے
ہم پر انگریزی کیسے مسلط ہوئی ۔۔۔ آصف جیلانی
برطانیہ کے مشہور تاریخ دان لارڈ مکالے 1834 سے 1838 تک ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے بورڈ آف کنٹرول کے سیکرٹری تھے۔ 1835میں انہوں نے برطانوی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’ میں نے ہندوستان کے طول و عرض کا سفر کیا ہے اور ہندوستان کی فضا میں سانس لی ہے۔ میں نے اس دوران ایک شخص بھی نہیں دیکھا جو بھک منگا اور چور ہو۔ اس ملک میں اتنی دولت دیکھی ہے، اتنی اعلیٰ اخلاقی قدریں دیکھی ہیں اور اعلیٰ قابلیت کے لوگ دیکھے ہیں۔ ہم اس ملک کو اس وقت تک فتح نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم اس قوم کی ریڑھ کی ہڈی کو
خبر لیجے زباں بگڑی ۔۔۔ ہاتھ میں ید بیضا۔۔۔ تحریر : اطہر علی ہاشمی
شہرِ اقتدار اسلام آباد سے ایک قاری نے اعتراض کیا ہے کہ پچھلے شمارے میں کسی بے نام شاعر کے ہاتھوں پامالی پر تو آپ نے پکڑ کی ہے لیکن ایسی بدحواسیاں تو بڑے نامور شاعروں سے بھی سرزد ہوئی ہیں، مثال کے طور پر عبیداللہ علیم کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے کن ہاتھوں کی تعمیر تھا میں کن قدموں سے پامال ہوا عبیداللہ علیم بڑے شاعروں میں شمار ہوتے ہیں اور ان کے کئی مجموعے موجود ہیں، اور یہ دعویٰ بھی کہ ’’پہلا شاعر میرؔ ہوا اور اس کے بعد میں‘‘۔ ان سے کسی نے نہیں پوچھا کہ ’’قدموں سے پامال‘‘ کیسے ہوتے ہیں۔ ظاہر

کیا ہماری اجتماعی زندگی میں کسی طوفان کے اشارے مل رہے ہیں؟۔۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... پچھلے کچھ دنوں سے مجلس اصلاح وتنظیم کی اجتماعی قیادت اور مختلف علاقوں کے چند نوجوانوں کا تصادم عوامی منظر نامے پر کچھ ایسے اشارے دے رہا ہے کہ جس کے بارے میں سوچ کر ہی دل و دماغ پریشان ہوجاتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ افراد ہی کی طرح قوموں کی اجتماعی زندگی میں بھی نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔اختلاف رائے مخالفت میں اورکسی فیصلے سے متفق نہ ہوناآپسی ناچاقیوں کا روپ بھی لیتے رہتے ہیں۔ لیکن افرادِ قوم اگرقرآنی حکم کے مطابق سیسہ پلائی ہوئی دیوار (بُنیانِ مرصوص) بننے کے بجائے بن