Search results

Search results for ''


الہ آباد کو اب سابق الہ آباد لکھا جائے گا۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی

Bhatkallys Other

اُترپردیش کی حکومت نے دھرم کا ایک بہت بڑا قرض اُتار دیا یعنی الہ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج کردیا۔ حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس کا نام ہمیشہ سے پریاگ راج ہی تھا مسلمانوں نے اس کا نام تبدیل کردیا تھا۔ اس شہر میں گنگا جمنا اور سرسوتی کا سنگم ہوتا ہے جسے پریاگ راج کہا جاتا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ الہ آباد اسٹیشن اور یونیورسٹی کا نام بھی اب تبدیل کردیا جائے گا۔ یہ تبدیلی مغل سرائے اسٹیشن جیسی سادہ نہیں ہے الہ آباد ایک طرح سے ریاست کا لکھنؤ کے بعد دوسرا مرکزی شہر سمجھا جاتا ہے ہائی کورٹ بھی ال

خبر لیجے زباں بگڑی ۔۔۔ وہ قرض جو واجب تھے ۔۔۔ تحریر : اطہر علی ہاشمی

Bhatkallys Other

قوم کتنی مقروض ہے یہ سب کو معلوم ہے، لیکن ہم پر قارئین کا قرض چڑھا ہوا ہے اور ہم تو کسی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پاس بھی نہیں جاسکتے کہ یہ مکڑی کا ایسا جالا ہے جس میں کمزور پھنس جاتا  اور طاقت ور اسے توڑ ڈالتا ہے، چنانچہ اپنا قرض آپ ہی اتارتے ہیں۔ اسلام آباد سے عبدالخالق بٹ کی رگِ ظرافت ’’ہاتھوں سے پائمال‘‘ پڑھ کر پھڑک اٹھی، چنانچہ انہوں نے بھی ردا جمایا ہے، لکھتے ہیں کہ ’’ہاتھوں سے پائمال پڑھ کر صورتِ حال کو تصور میں لائے تو ایک پل کے لیے دل دہل گیا اور ٹرانسپلانٹ کے عمل سے

تنظیم میڈیا ورکشاپ۔ مثبت سمت میں بڑھتے قدم۔ کیا ایک بڑی چھلانگ لگانا ممکن ہے! (پہلی قسط)۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ 

Bhatkallys Other

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........  الحمدللہ مجلس اصلاح و تنظیم کی طرف سے منعقدہ صحافتی کارگاہ (جرنلزم ورکشاپ) بحسن و خوبی کامیابی سے ہمکنار ہوا جس کا اندازہ شاندارختتامی اجلاس( n veledictory functio)سے ہوا۔ دراصل اس ہفتے میں LGBTQکمیونٹی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے پس منظر میں مضمون لکھنے کے پروسیس میں تھا، لیکن تنظیم کے میڈیا ورکشا پ کے اختتامی اجلاس میں شرکت اور کچھ مقررین کے خطابات سننے کے بعدمیڈیا میں مسلم نمائندگی مسائل کے موضوع کو ہی ترجیح دینے کا ارادہ کرلیا ۔لہٰذا اسی حوالے سے آئ

غیرتمند کو اُنگلی اُٹھنے سے پہلے استعفیٰ دے دینا چاہئے۔۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی

Bhatkallys Other

ہم صحافی تو نہ پہلے تھے نہ آج ہیں لیکن اس خاندان میں پیدا ہونے کا اسے اثر کہا جائے گا جہاں سے ہماری پیدائش کے تین سال کے بعد والد نے ایک ماہنامہ رسالہ نکالنا شروع کیا تھا۔ اور ہم جب کھیلنے کی عمر میں آئے تو اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ وہیں کھیلتے تھے کہ رسالہ تیار ہوگیا اسے لفافہ میں بند کردیا اس پر ٹکٹ لگا دیا اور پورے ملک میں بھیج دیا۔ اور ایسے ہی کھیل کھیلتے کھیلتے رسالہ بھی نکالا اخبار بھی نکالے اور پریس کو بھی روزی روٹی کا ذریعہ شاید اسی شوق میں بنا لیا۔ اور دوستوں میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ حف

کیا جنگوں کی وجہ، مذہب ہے؟۔۔۔۔از: آصف جیلانی

Bhatkallys Other

وہ لوگ جو مذہب کے بارے میں تشکیک میں الجھے ہوئے ہیں، وہ بڑے یقین سے دعویٰ کرتے ہیں کہ جنگوں کی اصل وجہ مذہب ہے۔ اپنے اس دعوے کے حق میں وہ سولہویں صدی میں فرانس میں کیتھولک اور پرٹسٹنٹ فرقوں کے درمیان آٹھ جنگوں کی مثال پیش کرتے ہیں جو 36 سال تک جاری رہیں۔ پھر یہ صلیبی جنگوں کا ذکر کرتے ہیں جو کم و بیش ایک صدی تک جاری رہیں اور موجودہ دور کی دہشت گردی کی لہر کی وجہ مذہب قررار دیتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ اس بات کی شہادت نہیں دیتی کہ تمام بڑی جنگوں کے پس پشت بنیادی محرک مذہب تھا اس کے برعکس دنیا میں زیا

سچی باتیں ۔۔۔ موسیقی اور اسلام ۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی مرحوم

Bhatkallys Other

        موسیقی یونان میں نصاب تعلیم کا ایک اہم جزو تھی(گروٹ کی ہسٹری آف گریس جلد 8 صفحہ 311)کوئی تعلیم مکمل نہ سمجھی جاتی،جب تک  موسیقی نہ آ جاتی۔ ”فلاسفہ موسیقی کو اس کے قدیم ووسیع معنی نیز جدید و محدود معنوں میں دونوں طرح تربیت سیرت کا ایک خاص تعلیمی عنصر قرار دیتے تھے“ (انسائیکلوپیڈیا برناٹیکا جلد 16 صفحہ 3) اور موسیقی کے اس شرف و منزلت کو تنہا یونان ہی میں کیوں محدود رکھیئے مصر میں، بابل میں، ہندوستان میں، کس قدیم تہذیب اور کس جاہلی تمدن میں گانے بجانے کا مرتبہ  ہٹیا، اور راگ مالا کا مقام ن

خبر لیجے زباں بگڑی - ایک جید عالم کی سند ۔۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی

Bhatkallys Other

نہایت محترم اور جیّد عالم حضرت مفتی منیب الرحمن نے تو ہمیں دنیا میں مشہور کردیا، بہت شکریہ۔ انہوں نے ہمیں مخاطب کرکے روزنامہ دنیا میں (6 اور 7 اکتوبر) بہت جامع مضمون تحریر کیا ہے۔ یہ پورا مضمون فرائیڈے اسپیشل کے اسی شمارے میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں تو خوشی اس بات کی ہے کہ اتنے بڑے عالم نے ہمیں درخور اعتنا جانا۔ ہم چپکے چپکے ان سے کسب علم کرتے رہتے ہیں اس طرح وہ بالواسطہ ہمارے استاد ہوئے۔ یہ ان کا انکسار ہے کہ وہ زبان و بیان کی اصلاح کے شعبے میں مبتدی ہیں اور ہمیں ’’متخصص‘‘ سمجھتے ہیں۔ اس مشک

جناب اطہر ہاشمی کے نام ۔۔۔ مفتی منیب الرحمن

Bhatkallys Other

حیدر علی آتش کا شعر ہے لگے منہ بھی چڑھانے، دیتے دیتے گالیاں صاحب زباں بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجے دہن بگڑا اس شعر سے استفادہ کرتے ہوئے روزنامہ جسارت کے چیف ایڈیٹر جنابِ اطہر ہاشمی نے فرائیڈے اسپیشل میں اپنے کالم کا عنوان باندھا ہے:’’خبر لیجے زباں بگڑی‘‘، اس میں وہ زبان وبیان کی اصلاح کا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔دورِ حاضر میں اردو زبان کے تحفظ کے لیے یہ وقت کی اہم ضرورت ہے ،کاش کہ ہماری جامعات میں شعبۂ اردو کے اساتذہ وطلبہ اور صحافت سے وابستہ لوگ ان تحریروں سے استفادہ کریں ۔ ’’خبر لیجے زبا

مجلس اصلاح و تنظیم کے لئے ایوارڈمبارک ہو۔۔مگر ان ریمارکس کا کیا؟!۔۔۔۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ 

Bhatkallys Other

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........  بھٹکل کے مسلمانوں کے لئے اس ہفتے یقیناًدل خوش کردینے والی خبر یہ رہی کہ ٹائمز گروپ کے تحت چلنے والے کنڑا روزنامے وجئے کرناٹکا نے شمالی کرناٹکا کے جن 39اداروں کو ایوارڈ سے نوازا اس میں مسلمانوں کے باوقار اور معروف مرکزی ادارے مجلس اصلاح و تنظیم کا نام بھی شامل رہا۔حالانکہ ایک صدی سے قائم مجلس اصلاح و تنظیم کے ذریعے کی جارہی مخلصانہ خدمات اب کسی ایوارڈ اور اعزاز کی محتاج نہیں ہیں۔ کیونکہ ایک زمانہ اس کے بے لوث کارناموں پر گواہ ہے اور اہلِ نظر و اہلِ دل نے اس کے

ہم پر انگریزی کیسے مسلط ہوئی ۔۔۔ آصف جیلانی

Bhatkallys Other

برطانیہ کے مشہور تاریخ دان لارڈ مکالے 1834 سے 1838 تک ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے بورڈ آف کنٹرول کے سیکرٹری تھے۔ 1835میں انہوں نے برطانوی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’ میں نے ہندوستان کے طول و عرض کا سفر کیا ہے اور ہندوستان کی فضا میں سانس لی ہے۔ میں نے اس دوران ایک شخص بھی نہیں دیکھا جو بھک منگا اور چور ہو۔ اس ملک میں اتنی دولت دیکھی ہے، اتنی اعلیٰ اخلاقی قدریں دیکھی ہیں اور اعلیٰ قابلیت کے لوگ دیکھے ہیں۔ ہم اس ملک کو اس وقت تک فتح نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم اس قوم کی ریڑھ کی ہڈی کو

خبر لیجے زباں بگڑی ۔۔۔ ہاتھ میں ید بیضا۔۔۔ تحریر : اطہر علی ہاشمی

Bhatkallys Other

شہرِ اقتدار اسلام آباد سے ایک قاری نے اعتراض کیا ہے کہ پچھلے شمارے میں کسی بے نام شاعر کے ہاتھوں پامالی پر تو آپ نے پکڑ کی ہے لیکن ایسی بدحواسیاں تو بڑے نامور شاعروں سے بھی سرزد ہوئی ہیں، مثال کے طور پر عبیداللہ علیم کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے کن ہاتھوں کی تعمیر تھا میں کن قدموں سے پامال ہوا عبیداللہ علیم بڑے شاعروں میں شمار ہوتے ہیں اور ان کے کئی مجموعے موجود ہیں، اور یہ دعویٰ بھی کہ ’’پہلا شاعر میرؔ ہوا اور اس کے بعد میں‘‘۔ ان سے کسی نے نہیں پوچھا کہ ’’قدموں سے پامال‘‘ کیسے ہوتے ہیں۔ ظاہر

کیا ہماری اجتماعی زندگی میں کسی طوفان کے اشارے مل رہے ہیں؟۔۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

Bhatkallys Other

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........   پچھلے کچھ دنوں سے مجلس اصلاح وتنظیم کی اجتماعی قیادت اور مختلف علاقوں کے چند نوجوانوں کا تصادم عوامی منظر نامے پر کچھ ایسے اشارے دے رہا ہے کہ جس کے بارے میں سوچ کر ہی دل و دماغ پریشان ہوجاتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ افراد ہی کی طرح قوموں کی اجتماعی زندگی میں بھی نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔اختلاف رائے مخالفت میں اورکسی فیصلے سے متفق نہ ہوناآپسی ناچاقیوں کا روپ بھی لیتے رہتے ہیں۔ لیکن افرادِ قوم اگرقرآنی حکم کے مطابق سیسہ پلائی ہوئی دیوار (بُنیانِ مرصوص) بننے کے بجائے بن

خبر لیجے زباں بگڑی --- ہاتھوں سے پائمال کرنا ۔۔۔۔ تحریر : اطہر علی ہاشمی

Bhatkallys Other

شعر تو خوب ہے، آپ بھی سنیے ، یا پڑھیے کوئی تو بات ہوگی جو کرنے پڑے ہمیں اپنے ہی خواب، اپنے ہی ہاتھوں سے پائمال اس شعر میں ’ہی۔ہی‘ کی معیوب تکرار سے قطع نظر ’’ہاتھوں سے پائمال‘‘ کرنے کا جواب نہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ شاعر کو پائمال کا مطلب نہیں معلوم۔ ’پامال‘ یا ’پائمال‘ کا مطلب ہے ’’پیروں سے روندنا، کچلنا‘‘۔ ’پا‘ کا مطلب ’پیر‘ ہے۔ شاعری میں پائے کوب کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے یعنی پیروں سے کوٹنا، لاتیں مارنا وغیرہ۔ اب یہ کوئی شاعر ہی بتائے کہ ہاتھوں سے پیروں کا کام کیسے لیا جاتا ہے؟ اور پھر خواب

سچی باتیں ۔۔۔ کلمہ توحید کی اہمیت ۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys Other

        بعثَنا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم إلى الحُرَقَةِ، فصَبَّحْنا القومَ فهزَمْناهم، ولَحِقْتُ أنا ورجلٌ من الأنصارِ رجلًا منهم : فلما غَشِيناه قال : لا إلهَ إلا اللهُ، فكَفَّ الأنصاريُّ عنه، فطَعَنْتُه برُمحي حتى قَتَلْتُه، فلما قَدِمْنا بلَغ النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فقال : ( يا أسامةُ، أقَتَلْتَه بعد ما قال لا إلهَ إلا اللهُ ) . قُلْتُ : كان مُتَعَوِّذًا، فما زال يُكَرِّرُها، حتى تَمَنَّيْتُ أني لم أكُنْ أسلَمْتُ قبلَ ذلك اليومِ  (بخاری باب بعثۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم

بربط دل کے تاروں کو چھیڑنے والا شاعر ۔ ڈاکٹر محمد حسین فطرت ۔۔۔۔ تحریر : عبد المتین منیری

Bhatkallys Other

Whatsapp:00971555636151   ستمبر 19 کی صبح ابھی مسجد وں سے اللہ اکبر کی صدائیں بلند نہیں ہوئی تھیں ، خبر آئی کی محمد حسین فطرت صاحب اب ہم میں نہیں رہے ، رات دیڑھ بجے انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا اور سب کو چھوڑ کر دائمی سفر پر روانہ ہوگئے ۔ ان کی عمر اس وقت (۸۴) سال تھی ۔آپ نے مورخہ  جون ۱۹۳۲ء اس دنیائے رنگ و بو میں حاجی عبد القادر شینگیری مرحوم کے گھرمیں جنم لیا تھا۔ آپ کی رحلت کے ساتھ بھٹکل میں اردو شعرو ادب کا ایک عہد اختتام کو پہنچا جس کا آغاز بھی آپ ہی سے ہوا تھا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ پہلے

کرناٹکا کی مخلوط ریاستی حکومت پر لٹکتی ’آپریشن کنول۔۳‘ کی تلوار۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ 

Bhatkallys Other

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........  ایسا لگ رہا ہے کہ کرناٹکا کی ریاستی مخلوط حکومت اور زعفرانی کنول میں چل رہی سیاسی بقا کی جنگ اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ چکی ہے اور آئندہ چند دنوں کے اندرکوئی دھماکہ خیز نتیجہ سامنے آنے والا ہے۔ ریاست کے سیاسی منچ پر کھیلے جارہے اس ڈرامے کا آخری سین کس کے لئے المیہ(Tragedy) بنے گا اور کس کے لئے خوشگوار اختتام(Happy Ending) بن کر سامنے آئے گا ،یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا ۔محسوس یہ ہورہا ہے کہ ’آپریشن کنول ۔۳ ‘ کی افواہوں کے بیچ دن بدن کروٹ لیتے ہوئے حالات نے

Court holds fastest trial in Madhya Pradesh, sentences rape accused to death in 3 days

Bhatkallys Other

India’s judicial system has been criticised for a long time due to its pace. And the criticism is justified because it took five brutal years for the Supreme Court to uphold the death sentences in the Nirbhaya case. Additionally, the time that’s being taken on the Kathua case is already taking its toll as evidences are being botched. However, a court in Madhya Pradesh might’ve ignited some hope among Indians. According to Hindustan Times, a court in Datia, Madhya Pradesh held a three day tria

سچی باتیں ۔۔۔ مومن فاسق ۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی رحمۃ اللہ علیہ

Bhatkallys Other

         عن عمر بن الخطاب  ان رجلا علی عہد النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم کان اسمہ عبد اللّٰہ کان یلقب حمار، کان یضحک رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم قد جلدہ فی الشراب فاتی بہ یوما فامر بہ فاجلدہ فقال رجل من القوم اللّٰھم العنہ ما یؤتی بہ فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ و سلم لا تلعنوہ فو اللّٰہ ما علمت الا اللّٰہ یحب اللّٰہ ورسولہ ۔بخاری ، الحدود         حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص نام عبداللہ تھا اور وہ حمار کے لقب سے مشہور تھے اور وہ