Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















قوم نوائط کا ایک مایہ ناز سپوت ۔۔۔ بانی انجمن ایف ،اے حسن: از: ایف، اے محمد الیاس جاکٹی ندوی
تاریخ نوائط ایک ورق (سنہرا باب) پہلی صدی ہجری کے اوائل میں اشاعت اسلام کی غرض سے تشریف لانے والے ان عربی النسل مسلمانوں پر مشتمل بحیرہ عرب کے مشرقی ساحل پر آباد ایک چھوٹی سی بستی ،چند ہزار کی آبادی گنے چنے محلے، نہ صرف ہر محلہ میں ایک مدرسہ ،بلکہ کئی کئی مدرسے ،پورے شہر میں جملہ ۲۳ دینی مدارس ، درجنوں حافظ پورے گاؤں میں نہیں بلکہ ہر خاندان میں ،ہر بچی حافظ قرآن ،ہر خاتون برقعہ پوش ،مسجدیںآباد،ہر شخص نہ صرف نمازی بلکہ تہجد گذار ، مسلمان دیندار،ثقافت عربی ،تہذیب اسلامی ،اس کا چشم دید گواہ مشہور
جہد مسلسل و اخلاص عمل کی ایک عمدہ مثال ۔۔۔از:مولانا بدر الحسن قاسمی
مولانا اسرار الحق قاسمیؒ جہد مسلسل واخلاص عمل کی ایک عمده مثال مولانا بدر الحسن قاسمی ۔ الکویت عربی زبان کے نامور ادیب اور بلند پایہ مصنف احمد امین نے ‘‘موت ’’ کے حتمی ہونے کی تعبیر اس طرح کی ہے:‘‘الموت قافیۃ کل حیّ’’ (ہر زندہ شخص کی انتہا موت ہے)۔لیکن قرآن کریم کی تعبیر اس سے زیادہ دقیق اور معنی خیز ہے (کل نفس ذائقۃ الموت) ‘‘ہر نفس کو موت کا مزا چکھنا ہے’’۔اللہ رب العزت نے جس طرح ‘‘زندگی’’ بنائی ہے اسی طرح ‘‘موت’’ کی بھی تخلیق کی ہے (خلق الموت والحیاۃ لیبلوکم أیکم أحسن عملاً)۔ اب نہ تو ہر ش

قوم مسلم کا خونِ شہیداں آخرکب رنگ لائے گا ؟)!دوسری قسط( ۔۔۔۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف جو فسادات کا سلسلہ چل پڑا ہے اس کا جائزہ لینے کی ضرورت اس وجہ سے بھی آن پڑی ہے کہ اس کے پیچھے فسطائی ایجنڈا ہے اور ایک منظم پالیسی کے تحت اسے آگے بڑھا یا گیا ہے۔ اور آج ا س کا گراف عروج پر پہنچ چکا ہے تو فسادات کی تاریخ کے مطالعے سے حقیقی ایجنڈے کو سمجھنا آسان ہوجائے گا۔ مضمون کی سابقہ قسط پرجہاں بہت سے احباب نے ستائشی کلمات کہے وہیں،ہمارے ممبئی کے گروپ میں ایک ساتھی کچھ برہم سے نظر آئے۔ ان کا ردعمل یہ تھا کہ سب سے زیادہ فسادات ت
اُردو زبان کا پہلا صحافی۔ منشی پیارے لال شاکر میرٹھی... عابد رضا بیدار
اس مراسلہ میں ہم ایک نیا تحفہ پیش کرتے ہیں۔ یہ ایک تعارف ہے اردو زبان کے سب سے پہلے صحافی کا۔ ان کا نام تھا منشی پیارے لال شاکر میرٹھی۔ انہوں نے کئی صحافتی جریدوں پر کام کیا تھا اور پوری عمر اسی کام میں صرف کی ۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے میرٹھ (اُتر پردیش) کے رہنے والے تھے اور مذہباً عیسائی تھے۔ یہ مضمون جو یہاں تعارف کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے یہ انکے گزشتہ پرچے العصر کی پانچ سالہ اشاعت کا نچوڑ ہے۔ العصر لکھنؤ سے شایع ہوتا تھا کیونکہ شاکر میرٹھ سے لکھنؤ منتقل ہو گئے تھے اور العصر کی اشاعت کے دور
نماز تقریب نہیں عبادت ہے۔۔۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی
جیسے جیسے دن گذرتے گئے ہندو اور مسلمانوں کی دوری بڑھتی گئی اور یہ لعنت آر ایس ایس کی ہے جس نے ہر ہندو کے دماغ میں یہ بٹھا یا کہ مسلمان ملچھ ہوتے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پولیس کا ایس پی جسے ہر مذہب کے بارے میں سب کچھ معلوم ہونا چاہئے تھا وہ نوئیڈا میں کہہ رہا ہے کہ ’’صرف نماز ہی نہیں بلکہ ہر مذہبی تقریب کے لئے اجازت لینی ہوگی‘‘ وہ یہ بات اس لئے کہہ رہا ہے کہ وہ نماز کو تقریب سمجھ رہا ہے۔ نوئیڈا میں جو سرکاری اور غیرسرکاری مسلمان ملازم ظہر کی نماز ایک پارک میں پڑھ لیتے ہیں اس کے بارے میں اگر ایس
Kid saved from slavery by Kailash Satyarthi is now a Lawyer fighting for a rape survivor
“That person who helps others simply because it should or must be done, and because it is the right thing to do, is indeed without a doubt, a real superhero.” This is a quote by Stan Lee that flashes at the very end of ‘Spider-Man: Into The Spider-Verse’ and encapsulates the core meaning of being a superhero. And if we take a look at Kailash Satyarthi’s body of work, he’s as much of a superhero as the fictional ones we see on-screen. Today, my son Amar Lal stood in the court for a 17 yrs o

شہپر آتش ۔۔ عبد الکلام ۔۔۔ تحریر: آصف جیلانی
سن ساٹھ کے عشرے کے اوایل میں جب میں دہلی میں ہندوستان کے ممتاز ساینس دان اے پی جے عبدالکلام سے ملا تو دھان پان ایسے شخص کو دیکھ کر جس کے بال بیچ کی مانگ کے ساتھ شانوں تک بکھرے ہوئے تھے اور جس کے خواب زدہ چہرے پر گھنی بھنویں دو کمانوں کی مانند نظر آتی تھیں ان پرخوابوں میں گم ایک شاعر کا زیادہ گمان ہوتا تھا۔ عبد الکلام امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا میں مختصر تربیتی کورس مکمل کرنے کے بعد امریکا سے وطن لوٹے تھے اور وہ ہندوستان کے پہلے راکٹ کی تیاری میں مصروف تھے۔ جب عبدالکلام ناسا میں تھے تو ان ک

خبر لیجے زباں بگڑی ۔۔۔ تار، مذکر یا مونث ؟ ۔۔۔ تحریر : اطہر علی ہاشمی
اردو میں ہم ایسے کئی الفاظ بے مُحابا استعمال کرتے ہیں جن کا مفہوم اور محل واضح ہوتا ہے لیکن کم لوگ جن میں ہم بھی شامل ہیں‘ ان الفاظ کے معانی پر غور کرتے ہیں۔ اب اسی لفظ ’’بے مُحابا‘‘ کو دیکھ لیجیے، استعمال صحیح کیا ہے لیکن اگر ’’بے‘‘ ہے تو ’’محابا‘‘ بھی کچھ ہوگا۔ ’’بے‘‘ تو فارسی کا حرفِ نفی ہے، یعنی بغیر مُحابا کے… اور مُحابا کی شکل کہہ رہی ہے کہ یہ عربی ہے۔ عربی میں اس کے کئی معانی ہیں مثلاً لحاظ، مروت، پاسداری، صلح، اطاعت، فروگزاشت، ڈر، خوف، احتیاط۔ اردو میں بے مُحابا عموماً بے خوف و خطر یا بل

قوم مسلم کا خونِ شہیداں آخرکب رنگ لائے گا ؟! (پہلی قسط)۔۔۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... 2018 ء کے آخری مہینے میں ہندوستان کے امن اور جمہوریت پسند عوام کے لئے دو خوشگوارواقعات پیش آئے۔ایک تو سیاسی منظر نامے میں ہلکے ہلکے ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے آمد بہار کی طرف اشارے کیے اور جمہوریت نواز گروہوں نے اس وقت کچھ راحت کی سانس لی جب فاشزم کی اندھیری رات میں چند جگمگاتے سے تارے نظر آنے لگے جو نئی صبح کے نمودار ہونے کے امکانات کا احساس دلارہے تھے۔ دوسری بات یہ ہوئی کہ دہلی ہائی کورٹ نے اندرا گاندھی کے قتل کے ردعمل میں ہوئے سکھ مخالف فسادات کے ایک ملزم سج
ہار برداشت کرنا کانگریس سے سیکھو۔۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی
زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ آسام کی مردم شماری کے رجسٹر کے اعتبار سے ایک خبر میڈیا نے پھیلائی کہ 40 لاکھ بنگلہ دیش کے رہنے والے 1971 ء کے زمانہ میں چوری چھپے آسام میں آگئے۔ ان گھس پیٹھیوں کو حکومت آسام واپس بھیج دے گی۔ یہ تو بتانے کی ضرورت نہیں کہ آسام میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ یہ خبر کیا اُڑی کہ امت شاہ جیسے مزاج کے نیتا کے دل میں لڈو پھوٹ گئے اور انہوں نے اُٹھتے بیٹھتے چالیس لاکھ گھس پیٹھیوں بنگلہ دیشیوں یعنی مسلمانوں کو آسام سے نکلتا ہوا دیکھنے کا پروگرام بنالیا۔ اس کے بعد ہر شہر کے اور ہر جلس
تین صوبوں نے ملک کی سوچ بدل دی۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی
پانچ ریاستوں کے وہ الیکشن جن کو اکثر لوگوں نے پارلیمانی الیکشن کا سیمی فائنل کہا اور لکھا اس میں بی جے پی کے صفر پر آؤٹ ہونے سے وزیراعظم مودی اور بی جے پی کے صدر امت شاہ کی اس شہرت کو ختم کردیا ہے کہ وہ الیکشن جتانے کی مشین ہیں۔ اور پانچ میں سے تین اہم ریاستوں میں کانگریس کی جیت نے راہل گاندھی کی ٹانگوں میں قد اونچا کرنے کیلئے بانس باندھ دیئے ہیں۔ 11 دسمبر سے پہلے ملک میں جو کچھ ہوا تھا اس کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو مودی اور راہل کا مقابلہ شیر اور بکری کا سمجھا جارہا تھا۔ ان تین ریاستوں میں کام
صرف تین صوبوں کی جیت سے بدہضمی!.....از: حفیظ نعمانی
ملک کی آزادی کے ساتھ ساتھ گروپ بندی بھی ملک کو تحفہ میں ملی۔ حکومت کے بنتے ہی معلوم ہوگیا کہ کانگریس کا ایک گروپ سردار پٹیل کو وزیراعظم بنانا چاہتا تھا اور گاندھی جی نے نہرو کو بنوا دیا۔ ناتھو رام گوڈسے نے جو کیا وہ اسی گروپ بندی کا مظاہرہ تھا۔ اور پھر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پورے ملک میں کانگریس دو خانوں میں بٹ گئی۔ اترپردیش میں پنڈت گووند ولبھ پنت کو وزیراعلیٰ بنانا صرف پٹیل گروپ کا دباؤ تھا۔ اگر پنت جی وزیراعلیٰ نہ بنتے تو بابری مسجد شہید نہ ہوتی۔ نومبر اور دسمبر میں ہونے والے پانچ ریاستوں کے
Meet Bhatkal man whose Calligraphic work were displayed at Islamic Calligraphy exhibition in Japan
Bhatkal 15 December 2018: (Bhatkallys News Bureau) Muhib Kola, a young man from Bhatkal had keen interest in arts like Calligraphy and others right since his childhood, but as he grew up he says, he was disconnected with it, only to reignite the flames in 2015, which eventually led to his interest in Islamic cultural arts during his stay in Bengaluru. Ever since then, for past three years, his interest and stature as an calligraphy artist has grown stronger and stronger day in and day out, so

کیا تبلیغی اجتماع کی قیمت 10 کروڑ ہے؟۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی
ماہنامہ الفرقان لکھنؤ کے دسمبر کے شمارہ میں مدیر الفرقان مولانا سجاد نعمانی نے نگاہ اوّلیں کے زیرعنوان تبلیغی جماعت کو موضوع بنایا ہے۔ اس مضمون میں انہوں نے جماعت یا تبلیغ کے کام کا پس منظر بیان کرنے کیلئے مولانا ابوالحسن علی ندوی کی اہم کتاب اور حضرت مولانا یوسف حضرت جیؒ کو خراج عقیدت پیش کرنے والا الفرقان کا خصوصی شمارہ حضرت جی نمبر سے اقتباسات نقل کرکے بتایا ہے کہ تبلیغی جماعت کیا تھی اور اس کا اصل مقصد کیا تھا اور اسے فتنہ پروروں سے بچانے کیلئے بزرگوں نے کیا کیا؟ اسی رسالہ کے صفحہ 20 پر مولا
خبر لیجے زباں بگڑی ۔۔۔ رضا علی عابدی کی تشویش۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی
جیسے پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ عربی میں ’مَحبت‘ کے میم پر زبر ہے جیسا کہ سورہ طٰہٰ میں ہے کہ ’’میں نے اپنی طرف سے تجھ (موسیٰ) پر مَحبت طاری کردی۔ ’’القَیتُ علیک مَحبۃً‘‘ (39) اسی طرح عربی کے اور بھی کئی الفاظ ہیں جو اردو میں آگئے ہیں مگر ان کا تلفظ بدل گیا ہے۔ عجیب بات ہے کہ یُوسُف علیہ السلام کے تذکرے کے لیے قرآن کریم میں سورہ یُوسف ہے۔ عام مسلمان قرآن کریم پر ایک نظر ڈالتے ہیں، اور کچھ نہیں تو سورتوں کے نام ضرور پڑھ لیتے ہیں۔ لیکن پنجاب میں ’یُوسُف‘ کا تلفظ عموماً غلط کیا جاتا ہے اور ’’یوس
آنے والے چار مہینے ملک کی تقدیر کا فیصلہ کریں گے۔۔۔۔۔۔ از:حفیظ نعمانی
2017 ء میں اُترپردیش کے الیکشن کے بعد کس کی ہمت تھی جو زبان سے کہہ سکے کہ دس سال تک نریندر مودی کو کوئی ٹکر دینے کی بات چھیڑ کے دیکھے۔ یہ عوام کی دل سے نکلی فریاد اور مودی اور شاہ کا فرعونیت کے نشہ میں غرق ہونے کی سزا ہے جو قادر مطلق نے دی ہے۔ کانگریس بحیثیت پارٹی اور راہل بحیثیت لیڈر صرف مقابلہ کی بات کرنے کے قابل تھے مقابلہ کی نہیں۔ جن تین بی جے پی کی ریاستوں میں اس کا صفایا کیا ہے وہ عوام ہیں اور وہ ہے جس نے کہا ہے کہ ’انا انّ عندی منکر القلوب‘ (بیشک میں ٹوٹے ہوئے دلوں کے پاس ہوں) اب سب سے ا
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے(مولانا اسرار الحق قاسمی کے سانحہ ارتحال رپر خصوصی مضمون)۔۔۔۔از:فیصل فاروق
معروف عالم دین اور رکن پارلیمنٹ مولانا اسرارالحق قاسمی کی دورۂ قلب پڑنے سے اچانک انتقال کی خبر سن کر بیحد افسوس ہوا۔ حالیہ دِنوں میں ملک کے حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں، اُس پر وہ کافی فکرمند تھے۔ اُن کی رحلت قوم و ملت کا نہ قابلِ تلافی نقصان ہے جس کی بھرپائی مستقبل قریب میں نظر نہیں آتی۔ اُن کی طبیعت میں ملنساری اور انکساری کا جوہر بہت نمایاں تھا۔ مشکل ترین حالات میں بھی کبھی پریشان نہ ہونا مولانا کی امتیازی پہچان تھی۔ آپ نے اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعہ ملت کی رہبری و رہنمائی فرمائی۔
نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی سزا کا عمل شروع۔۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی
صحیح تاریخ اور سال تو یاد نہیں لیکن یہ یاد ہے کہ لکھنؤ کے سی بی گپتا ڈاکٹر سمپورنانند کے بعد وزیراعلیٰ بنے تھے۔ اس زمانہ میں ہمارا راجہ احمد مہدی (پیرپور) کے گھر سے اچھا تعلق تھا راجہ صاحب کی بہن سکینہ باجی ولی عہد رام پور مرتضیٰ علی خاں کی بیگم تھیں اور احمد بھائی کے تعلق کی وجہ سے ہمیں بھی حفیظ بھائی کہتی تھیں۔ ایک دن ان کا پیر پور ہاؤس سے فون آیا کہ کل اگر دن میں فرصت ہوسکے تو ایک گھنٹہ کے لئے آجایئے۔ ہم گئے تو انہوں نے جو فرمائش کی اسے سن کر حیران رہ گئے۔ کہنے لگیں کہ یہ آپ کے بھانجے مراد می