Search results

Search results for ''


اگر کچھ ہوا تو ذمہ دار پاکستان ہوگا۔۔۔۔۔از: حفیظ نعمانی

Bhatkallys Other

ہندوستان کی مغربی سرحد پر سی آر پی ایف کے قافلہ کے ساتھ پلوامہ میں جو کچھ ہوا اور اب بھی ہورہا ہے اس کے بارے میں پاکستان کی طرف سے جو کچھ کہا جارہا ہے وہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ بات پاکستان بھی جانتا ہے کہ فوج میں جو سپاہی میدان میں ہوتے ہیں ان کی عمر 25 اور 45 کے درمیان ہوتی ہے۔ ان میں جو شادی شدہ ہوتے ہیں ان کے پسماندگان میں جوان بیوہ اور معصوم بچے ہوتے ہیں یا بوڑھے ماں باپ۔ اور یہ ہندوستان کی ہی بات نہیں پاکستان میں بھی سب دیکھتے ہیں کہ جس گھر میں جوان کا جنازہ آتا ہے وہ اگر گاؤں ہے تو پورا

یاد مجذوب۔ قسط 02۔۔۔ تحریر: محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Mufti Mohammed Raza Anasari Yadaun Kay Chiragh

مجذوب صاحب اسسٹنٹ انسپکٹر آف سکولز ہوکر لکھنؤ میں متعین ہوئے تو ان کا قیام وکٹوریہ سٹریٹ میں ہوا۔ یعنی ہمارے اور ان کے گھروں کے درمیان صرف ایک سڑک حائل تھی۔ یہ نہیں معلوم اور نہ میں نے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ وہ کب سے ہمارے پڑوسی تھے۔ لیکن سن 30 یا 31ء میں پہلے پہل ان کا ان کی شاعری اور ان کی والہانہ زندگی کا ذکر اپنے چچا مولانا صبغت اللہ شہید صاحب کی زبانی سنا جو ایک دوسرے عزیز سے کہہ رہے تھے اور میں اپنے ساتھیوں سے سمیت نحو میر یا فصول اکبری کا سبق پڑھنے بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا سڑک پر

پاکستان کے جید علماء سے اپیل۔۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی

Bhatkallys Other

آج سے ایک مہینہ پہلے 13 جنوری کو دارالعلوم کراچی میں حضرت مولانا محمد تقی عثمانی اور حضرت مولانا محمد رفیع عثمانی کی دعوت پر علمائے کرام کی ایک مجلس نے نظام الدین دہلی، رائے ونڈ اور ٹونکی و کاکرائل کو ایک خط بھیج کر تبلیغی جماعت کے باہمی اختلاف کو دور کرنے کی کوشش کی ہے اور توقع ہے کہ دیر سویر اس کے اثرات ظاہر ہوں گے اس طرح ہم 20 کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کی خاطر پاکستان میں ہر مسلک کے علماء کو ساتھ لے کر اگر مصلحت کے خلاف نہ ہو تو ایک فتویٰ پاکستان میں ہر زبان میں ہر صوبہ کے لئے جاری کیا جائے جس

یاد مجذوب ۔ 01 ۔۔۔۔ تحریر: محمد رضا انصاری فرنگی محلی مرحوم

Mufti Mohammed Raza Anasari Yadaun Kay Chiragh

شخصیت نگاری، اور سوانح نگاری کے فرق کی بدولت مجذوب صاحب کے شخصیت نگار پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ وہ ان کا سنِ پیدائش، عمر اورسالِ وفات وغیرہ کی تفصیل بھی بیان کرے۔ جن میں سے ایک چیز بھی بدقسمتی سے میرے علم میں نہیں ہے۔ سنِ پیدائش اور عمر کے معاملےمیں بڑی بڑی شخصیتیں گمنامی کا شکار پائی جاتی ہیں، لیکن کسی نمایاں شخصیت کا سالِ وفات نہ معلوم ہونا یقینا جہالت ہے، اس جہالت کا مجذوب صاحب کے بارے میں مجھے اعتراف ہے۔ عجیب اتفاق ہے آخر جولائی یا شروع اگست 1944 میں حیدرآباد کی ایک نجی صحبت میں جہ

خبر لیجے زباں بگڑی---دانش مستعار۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی

Bhatkallys Other

آج دانش مستعار سے استفادہ کرتے ہیں تاکہ اس سرد موسم میں قارئین تازہ ہوا کے جھونکوں کا مزہ لے سکیں۔ برعظیم پاک و ہند کے بیشتر علاقے زمستانی ہوا کی زد میں ہیں، ہم اسے ’’مستانی ہوا‘‘ پڑھتے رہے یہ سوچ کر کہ ’’ز‘‘ کا سابقہ سہوِکاتب ہے۔ بہت سے لوگ اسے سہوِکتابت کہہ ڈالتے ہیں، لیکن سہو تو انسان سے ہوسکتا ہے، کتابت سے نہیں۔ فروغِ اردو میں مستغرق دبئی کے جناب عبدالمتین منیری نے ایک نئی بحث کی طرح ڈالی ہے۔ نسیم کی طرح عبدالمتین منیری ملکوں ملکوں بوئے اردو پھیلا رہے ہیں۔ علامہ اقبال نے داغ دہلوی کے انتقا

مجاز۔۔جواں مرگ شاعر انقلاب... آصف جیلانی

Bhatkallys Other

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گردش دوراں کی بھول بھلیوں میں ہم مجاز کے انقلاب آفریں فن کے محاسن کو فراموش کرتے جارہے ہیں اور ایک رجحان تراش شاعر کی حیثیت سے انہوں نے اردو شاعری کو فکر و نظر کی جو ؤی راہیں دکھأیں اور جو نقوش انہوں نے چھوڑے ہیں ان کو صحیح طورپر پرکھا نہیں گیا۔ بر صغیر کی یہ خوش نصیبی ہے کہ آزادی کی طویل جدوجہد کے دوران اسے سیاست دانوں’ دانشوروں’ شاعروں اور ادیبوں کی ایسی ضو فشاں کہکشاں نصیب ہؤی جو اس سے پہلے اس سرزمین کو نہ تو دیکھنے کو ملی اور نہ اب دور دور تک ایسی کہکشاں کے آثار نظر آ

فیض احمد فیض کے ایک سو آٹھویں یوم پیدایش پر...کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے۔۔۔ تحریر: آصف جیلانی

Bhatkallys Other

میں اپنے آپ کو بے حد خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ میں نے اپنی صحافتی زندگی کا سفر روزنامہ امروز کراچی سے شروع کیا جس کے چیف ایڈیٹر فیض احمد فیض تھے۔ جنوری 1953میں جب میں نے امروز میں کام شروع کیا تو اس وقت فیض صاحب راولپنڈی سازش کیس میں حیدر آباد سندھ کی جیل میں قید تھے ۔ انہیں 1951کے اوایل میں پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ سجاد ظہیر ، جنرل اکبر خان اور دوسرے فوجی افسرون کے ساتھ لیاقت علی خاں کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیاتھا۔ ۵ جنوری 1953کو اس کیس کا فیصلہ سنایا گیا ت

آنچہ من گم کردہ ام آنچہ من گم کردہ ام۔۔۔ جواں سال وباکمال بیٹے کی موت کا غم

Bhatkallys Other

از: ڈاکٹر بدر الحسن قاسمی آہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  میرا لخت جگر ’’محمد‘‘ جس کے لئے اﷲ نے عمر کی صرف32 بہاریں ہی لکھی تھیں۔ کویت میں پیدا ہوا، خالص عربی ماحول میں نشو و نما پائی، عربی مدارس و جامعات میں تعلیم حاصل کی اور تقریبا 5/6 سالوں کی غریب الوطنی اور شب و روز کی محنت کے بعد اُردن یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد اُردن ہی کی ایک دوسری یونیورسٹی میں ماجستیر(ایم، اے) کے مرحلہ تک پہنچا، تمہیدی کورس کے بعد مقالہ کیلئے ایک نئے اور اچھوتے موضوع کا خاکہ پیش کرکے منظوری لی کہ اچانک اس کا وقت موعود آ پہنچا

شکست کا خوف اور رام مندر پر پسپائی... از: سہیل انجم

Bhatkallys Other

نفرت و جنون کا آتش فشاں جب پھٹتا ہے تو دوسرے بھی اس کے شکار ہوتے ہیں اور اپنے بھی۔ اس آتش فشاں کو ہوا دینے والے بھی اس کی زد میں آتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ ساتھ وہ بھی تباہی و بربادی سے دوچار ہوتے ہیں۔ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے نام پر بھڑکائے جانے والے نفرت و جنون کے جوالہ مکھی کے شعلوں کی آنچ جب بی جے پی سمیت پورے سنگھ پریوار پر آنے لگی تو اس جوالہ مکھی کو ٹھنڈا کرنے کی کوششیں کی جانے لگیں۔ رام مندر کے نام پر گزشتہ دو تین ماہ سے جو ہنگامہ آرائی جاری تھی وہ اب کمزور پڑ گئی

مسلمانوں کو جو کھلونا سمجھے گا وہ نقصان اُٹھائے گا۔۔۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی

Bhatkallys Other

آج 9 فروری کے اودھ نامہ میں ایک خبر نے جھنجھوڑکر رکھ دیا کہ کانگریس کے صدر راہل گاندھی اترپردیش کے جنرل سکریٹری کی طرح صدر بھی دو بنانے پر غور کررہے ہیں۔ اس میں چونکانے والی بات یہ ہے کہ مشرقی اضلاع کے صدر کوئی پنڈت جی ہوں گے اور مغربی اضلاع کے میاں صاحب۔ یعنی وہ مسلمان جن کو گجرات میں اچھوت سمجھا گیا تھا اور برسوں سے پارٹی کوشش یہ کرتی ہے کہ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں مسلمان کم سے کم آئیں۔ خبر کے ذمہ دار سید کاظم رضا شکیل ہیں جو ادارہ کے ذمہ دار رکن ہیں انہوں نے مسلمان صدر کا نام بھی عمران مسع

خبرلیجے زباں بگڑی۔۔۔ چولی دامن کا ساتھ۔۔۔ تحریر: اطہر ہاشمی

Bhatkallys Other

ایک عمومی اصطلاح ہے ’چولی دامن کا ساتھ‘۔ چولی کو عموماً خواتین کا پہناوا سمجھا جاتا ہے تو یہ سوال اٹھنا لازم ہے کہ چولی کا دامن سے کیا تعلق۔ دراصل پہلے شرفا عموماً انگرکھا پہنتے تھے۔ اس کے اوپر کا حصہ تنگ ہوتا تھا اور اس کو چولی کہتے تھے۔ دامن یا چولی کا باقی حصہ منسلک ہوتا تھا۔ اسی لیے چولی دامن کا ساتھ ہو گیا۔ لغت کے مطابق ’’انگرکھے کے دامن کا اوپری حصہ، اوپر کے دھڑکا کپڑا۔ یعنی چولی اور دامن انگرکھے کے دو جز ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہتے ہیں گویا لازم و ملزوم امیر مینائی کا شعر ہے:جنوں اب

سچی باتیں۔۔۔مسلمان کون ہے؟۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys Other

09/01/1925 مسلمان کون ہے؟ خدا کا قانون بتاتاہے کہ وہی جو سارے جہانوں کے رب کا کہنا مانے۔ کام تو یہ کچھ بڑا اور کٹھن نہیں ہے، پر دیکھو اور دل کو ٹٹولو تو جان جاؤ گے کہ رب کاکہنا ماننے والے کتنے ہیں اور نہ ماننے ولے کتنے۔ مگر جو کہنا مانتے ہیں وہ بھی مسلمان کہتے جاتے ہیں اور جو نہیں مانتے لوگ ان کو بھی مسلمان ہی جانتے ہیں۔شاید رب کا کہنا ماننے کا مطلب لوگوں نے نہیں سمجھا۔ رب کا کہنا ماننے کا کیا مطلب ہے؟ یہی کہ رب نے جو قانون بھیجا ہے اس کے موافق سب کام کئے جائں۔ بات تو یہ بھی بڑی سہل ہے مگر مشک

عیدگاہ کے بعد حج ہاؤس بنے گا شادی گھر۔۔۔از:حفیظ نعمانی

Bhatkallys Other

کوئی بھی جائیداد وقف کی جاتی ہے تو سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ وقف کرنے والے کی منشاء کیا ہے؟ اسی طرح جو عمارت بنائی جاتی ہے اس کے بنانے والے کے دماغ میں یہ ہوتا ہے کہ وہ کس کام کے لئے بنائی گئی ہے؟ ملک پر جب انگریز حکومت کررہے تھے تو لکھنؤ کے کمشنر نے عیش باغ میں زمین کا ایک ٹکڑا مسلمانوں کو دیا تھا کہ وہ وہاں عیدین کی نماز پڑھ لیا کریں اور شرط یہ تھی کہ اگر تین سال تک عیدین کی نماز مسلمانوں نے وہاں پابندی سے ادا کی تو اس زمین کو عیدگاہ کے لئے مسلمانوں کو دے دیا جائے گا۔ اس زمانہ میں دینی علم ک

خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ قواعد یا وقوائد۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی

Bhatkallys Other

گزشتہ دنوں ”صحیح املا کیسے لکھا جائے“ کے موضوع پر ایک ورکشاپ میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ طالبات میں خاص طور پر صحیح اردو لکھنے اور املا درست کرنے کی لگن ہے۔ لطیفہ یہ ہوا کہ جن چند الفاظ کے املا کی تصحیح کرنے کی کوشش کی تھی اسی دن کے اخبار میں وہ غلطیاں موجود تھیں۔ مثلاً ”اہلیان“، ”خردبرد“ وغیرہ۔ لطیفہ یہ ہے کہ چند دن پہلے ایک ٹی وی چینل پر مشاعرہ ہورہا تھا جس میں ایک شاعر نے ”اشیائے خَرد“ کی مہنگائی کا شکوہ کیا۔ مشاعرے میں جناب اعجاز رحمانی جیسے استاد بھی موجود تھے لیکن سرِ بزم

خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔’کے‘ اور’ کہ‘ کا فرق اور استعمال ۔۔۔تحریر:اطہر علی ہاشمی

Bhatkallys Other

پہلے بہت دور سے بھیجے گئے ایک صاحبِ علم کا خط۔ یہ محبت نامہ پروفیسر محمد حمزہ نعیم، ایم اے عربی، ایم اے علوم اسلامیہ، ڈپلومہ ریاض یونیورسٹی سعودیہ، سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج جھنگ نے بھیجا ہے۔ پروفیسر صاحب نے 7 اکتوبر 2018ء کو روزنامہ ’اسلام‘ میں وہ مضمون پڑھ لیا جس میں ’علاوہ‘ اور ’سوا‘ پر بات کی گئی ہے۔ ہم نے تو اپنے محدود علم کے مطابق فرق واضح کیا تھا کہ بہت سے لوگ سوا کی جگہ علاوہ استعمال کرجاتے ہیں، تاہم پروفیسر محمد حمزہ نعیم نے اس پر بڑی وضاحت سے گفتگو کی ہے۔ وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ایسے عن

چینی قیادت: ناقابلِ شکست

Bhatkallys Other

چین جس تیزی سے ابھرا ہے اُسے دیکھتے ہوئے دنیا کا اُس کی طرف متوجہ ہونا کسی بھی طور حیرت انگیز نہیں۔ آج کی دنیا چین کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتی ہے۔ یہ بات کیا کم حیرت انگیز ہے کہ اِتنی زیادہ آبادی کے باوجود چین نے عالمی سطح پر اپنے آپ کو منوانے میں غیر معمولی کامیابی ہی حاصل نہیں کی بلکہ اب عالمی سیاست و معیشت پر نمایاں تصرّف کی کوشش میں مصروف ہے۔ دنیا بھر میں لوگ یہ جاننے کے لیے بے تاب ہیں کہ چینی قیادت معاشرے پر کس طور تصرّف قائم رکھے ہوئے ہے۔ ایک ارب ۴۰ کروڑ کی آبادی کو قابو میں

مولانا واضح رشید اعلیٰ اللہ مقامہ۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی

Bhatkallys Other

علی کا گھر بھی کیا گھر ہے کہ اس گھر کا ہر ایک بچہ جہاں پیدا ہوا شیر خدا معلوم ہوتا ہے 1945ء میں جب والد ماجد بریلی سے ہمیں لے کر ندوہ میں داخل کرانے کیلئے آئے تو ندوہ میں ہی مولانا علی میاں کے ساتھ مہمان خانہ میں قیام ہوا۔ اس وقت دارالعلوم ندوہ کے مہتمم مولانا محمد عمران خاں صاحب تھے اور ناظم مولانا علی میاں کے بڑے بھائی ڈاکٹر سید عبدالعلیؒ تھے۔ ہمارا داخلہ عربی کے تیسرے درجہ میں ہوا اور شبلی ہاسٹل میں رہنے کے لئے کمرہ ملا درجہ میں پہلے دن آئے تو ان لڑکوں سے تعارف ہوا جو شہر میں رہتے تھے اور ا

تبصرہ کتب۔۔۔ بنام ممد حسن عسکری۔نو دریافت خطوط: محمد یاسر عرفات مسلم

Bhatkallys Other

   کسی فرد کی قلبی و نفسی کیفیات اور علمی و ادبی میلانات اور رجحانات سے آگاہی کے لیے اس کے لکھے گئے یا اس کو لکھے گئے خطوط ایک اہم ذریعہ ہیں۔ہماری علمی اور ادبی تاریخ میں مکاتیب کو نہایت اہمیت حاصل ہے۔ بلاشبہ خط کو تہذیبِِ انسانی کے محیرالعقول عجائبات میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ تحقیق کے باب میں بھی مکاتیب کو بنیادی معلومات کا بہترین ماخذ تصور کیا جاتا ہے۔ کیونکہ خط میں مخاطب فردِ واحد ہوتا ہے جس کے باعث لکھنے والا بلاتکلف ذہن و قلب کی کیفیات رقم کرتا چلا جاتا ہے۔ علامہ اقبالؔ شاعر کے اد