Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















خبر لیجئے زباں بگڑی۔۔۔ فی الوقت کے لئے ۔۔۔ تحریر: اطہر ہاشمی
ٹی وی چینلز پر خبروں کے اختتام پر ایک جملہ کہا جاتا ہے ’’فی الوقت کے لیے اتنا ہی…‘‘ جملہ صحیح تو ہے لیکن اس میں ’’کے لیے‘‘ زائد ہے۔ اسے نکال دیں تو مفہوم بھی پورا ہوجائے گا اور جملہ چست ہوجائے گا، یعنی ’’فی الوقت اتنا ہی‘‘ یا ’’فی الحال اتنا ہی‘‘۔ ’فی‘ عربی کا لفظ ہے اور اس کے متعدد معانی ہیں۔ یہ حرف جار ہے اور مطلب ہے: بیچ میں، ہر ایک کے لیے، ہر آدمی اور ہر چیز کے لیے جیسے فی کس، فی من، فی صدی۔ علاوہ ازیں نقص، کمی، غلطی، عیب، کھوٹ (اردو میں ’فی نکالنا‘ کا مطلب عیب نکالنا، رہ جانا، ہونا کے ساتھ)

محسن کتابیں 02 تحریر: مولانا عبید اللہ سندھی
اس کے بعد میری محسن کتابوں میں ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ہے،جس کے زور سے میں قرآن سمجھا،حدیث سمجھا،فقہ سمجھا۔حجۃ اللہ کو میں ایک مرکزی حیثیت سے اپنی محبوب کتاب مانتا ہوں،ورنہ شاہ صاحب کی ہر سطر میری محسن ہے۔حجۃ اللہ کے بعد شاہ صاحب کی کتابوں میں سے ’’الفوز الکبیر‘‘، فتح الرحمٰن،بدور بازغہ کی بہت زیادہ اہمیت میرے دماغ میں ہے۔ محسن کتابوں کے سلسلے میں اگر میں ان دو کتابوں کے بعد کوئی کتاب لکھوا سکتا ہوں،تو وہ مولانا شہیدؒ کی عبقات ہے،جس نے حجۃاللہ کے مقدمے کا کام دیا۔ شاہ صاحب کی تصنیفات ک

بھٹکل کے پہلے حافظ قرآن۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری
TEL: +971555636151 مورخہ ۷ فروری ۲۰۱۱ء کے سورج کے غروب ہونے کے ساتھ ہی خبر آئی کہ ہمارے استاد مولانا حافظ اقبال ندوی صاحب کی زندگی کا سورج بھی غروب ہوگیا ، وہ اب ہم میں نہیں رہے۔ ابھی تین ماہ قبل تعطیلات گذارنے کے لئے وطن جانا ہوا تھا تو آپ کی زیارت کے لئے گھر پر حاضری ہوئی تھی، جسم کا ایک ڈھانچہ رہ گیا تھا، چہرہ سکڑ کر پنجربن گیا تھا، ہوش و حواس کہاں تھے کہ بات کرتے ؟ جو پہنچانتے اور سلام کا جواب دیتے ؟ایک لاشہ تھا جو چارپائی پر خاموش پڑا تھا، آنکھوں میں آنسو آگئے اور سامنے ۱۹۶۴ء
محسن کتابیں۔۔۔ تحریر: مولانا عبید اللہ سندھی
مولانا عبیداللہ سندھیؒ ولادت:سیالکوٹ، /۱۲ محرم ۱۲۸۹ ھ،مطابق ۱۰ /مارچ ۱۸۷۲ ء مشہور مجاہد آزادی،حضرت شیخ الھندؒ کے دست راست اور معتمد خاص،جید عالم،ماہر متکلم،باکمال مفسر،مولانا عبیداللہ سندھیؒ سیالکوٹ کے ایک سکھ خاندان میں پیدا ہوئے،پندرہ سال کی عمر میں تحفۃ الھند( از مولانا عبیداللہ پائلی) اور تقویۃ الایمان(از شاہ اسماعیل شہیدؒ) پڑھ کر مسلمان ہوئے۔سندھ اور بہاولپور میں ابتدائی عربی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دیوبند پہنچ کر علوم کی تکمیل کی۔پھر حضرت شیخ الھندؒ نے دہلی بھیج

خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ اشتہار شور و غوغا۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی
گزشتہ کچھ دنوں سے کراچی پولیس کی طرف سے اخبارات میں ایک عجیب اشتہار شائع ہورہا ہے ’’اشتہار شو رو غوغا‘‘۔ اردو اخبارات کے علاوہ انگریزی روزنامہ ڈان میں بھی شائع ہوا جو تھانہ عیدگاہ کے افسر کی طرف سے تھا۔ کئی اردو اخبارات میں بھی ایک ڈی ایس پی صاحب کی طرف سے یہ اشتہار غوغا شائع ہوا ہے۔ اب چونکہ اشتہارات پولیس کی طرف سے ہیں چنانچہ ایف آئی آر کی طرح زبان بھی ویسی ہی استعمال کی گئی ہے۔ ممکن ہے کہ اشتہارات کا مضمون کسی ’’دہ جماعت پاس ڈائرکٹ حولدار‘‘ نے تیار کیا ہو۔ یہ غوغائی اشتہارات برائے تلاشِ گمش

مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دینا — بھارت کی بڑی سفارتی فتح۔۔۔از:ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین
اقوامِ متحدہ میں ہندوستان کے مستقل نمائندہ سید اکبرالدین نے اطلاع دی ہے کہ یو.این. سیکورٹی کاؤنسل نے اپنی مئی 2019کی میٹنگ میں قرارداد نمبر 1267کے ذریعہ پاکستانی شہری مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد مان لیا ہے۔ یہ ہندوستان کی بڑی سفارتی فتح مانی جارہی ہے۔ بھارت 2009سے مسعود اظہر کو دہشت گرد ڈکلیئر کرانے کی کوشش کررہا تھا۔ مگر چین ہمیشہ اس طرح کے قرار داد پر ویٹو لگا کر اس کو رکوادیتا تھا۔ مگر اس بار بھارت نے اپنی سفارتی دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چین پر عالمی دباؤ بنایا جس کے نتیجے میں چین اپنی
یوم مزدور: تاریخ کا اہم دن خود تاریخ ہوتا جا رہا ہے
دنیا بھر میں الگ الگ تاریخوں کو الگ الگ چیزوں سے منسوب کیا جاتا ہے ۔ کسی تاریخ کو مدرس ڈے، کسی کو بیٹیوں کا دن یعنی ڈاٹرس ڈے وغیرہ وغیرہ اور آج کی تاریخ کو یعنی یکم مئی کو کئی ممالک میں مزدوروں سے منسوب کیا جاتا ہے ۔ اسے یوم مزدور بھی کہا جاتا ہے اور لیبر ڈے بھی کہا جاتا ہے ۔اس تاریخ کو ہم یوم مزدور کے طور پر ہر سال کیوں یاد کرتے ہیں اور آج کے دن ایسا کیا ہوا تھا کہ ہم نے اس کو مزدوروں سے منسوب کیا ہوا ہے۔ دراصل یکم مئی 1886کوامریکی شہر شکاگو میں اپنے حقوق کیلئے
مولانا قاضی اطہر مبارکپوری ۔ برصغیر میں اسلامی کی اولین کرنوں کے امین۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری
ہندوستان میں اسلام کی ہزار سالہ تاریخ کا ذکر ہو اور مولانا قاضی اطہر مبارکپوری یاد نہ آئیں، یہ کیونکر ممکن ہے۔ آپ نے عمر عزیز کی اسّی سے زیادہ بہاریں دیکھیں، اور زندگی کا ایک وافر حصہ تحقیق وجستجو میں صرف کر کے اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ قاضی صاحب کا نام پہلے پہل کب سنا تھا یہ کہناہمارے لئے مشکل ہے کیونکہ جب شعور نے آنکھیں کھولیں اور حرفوں کی کچھ شدبد ہونے لگی تو البلاغ بمبئی کے شماروں پر تایا مرحوم الحاج محی الدین منیری صاحب کے نام کے ساتھ آپ کا بھی نام نظر آیا، اور جب اس ک

محسن کتابیں۔۔۔ مولانا عبد الباری ندوی۔ 02-
ابتدا میں شب سے زیادہ موحش،اس کتاب کا بظاہر بے ربط اسلوب بیان رہا،لیکن اب تلاوت کرتا ہوں،تو جو چیز اس کے لفظ لفظ کو اور حرف حرف کو ’’کلام اللہ‘‘ ثابت کرتی ہے،وہ سب سے زیادہ عین یہی اسلوب بیان’’اسٹائل‘‘ہے۔کسی طرح یہ بات تصور میں نہیں آتی کہ کوئی انسان بھی ،انسانی دل ودماغ اور بشری نفسیات کے ساتھ اس طرح بہ تکلف دو چار آیات بھی بول سکتا ہے،جس طرح یہ کتاب ابتدا سے انتہا تک بے تکلف ایک فوق البشری انداز بیان میں ناطق ہے۔حد یہ ہے کہ لفظی غیر لفظی کوئی ترجمہ خود اسی کتاب کا ،جب کسی دوسری زبا

ڈاکٹر جمیل جالبی ابدیت کے سفر پر --- تحریر: ڈاکٹر طاہر مسعود
ڈاکٹر جمیل جالبی جن کا بیمار جسم بے حس و حرکت ایک مدت تک سانس کی ڈور سے بندھا رہا، مگر اس طرح کہ چلنا پھرنا تو الگ، بات چیت کے بھی قابل نہ تھے۔ کبھی کبھی آنکھیں کھولتے تھے مگر اپنے اوپر جھکے ہوئے ملاقاتی کو پہچان نہ پاتے تھے۔ ان کے بڑے بیٹے خاور جمیل نے باپ کی تیمار داری میں کوئی کسر، کوئی کمی نہ چھوڑی۔ جب بیماری نے شدت اختیار نہ کی تھی اور وہ ملنے ملانے کے قابل تھے تو ایک دوپہر مَیں ان کی خدمت میں عیادت کی غرض سے حاضر ہوا تھا، انہوں نے سر پر اونی ٹوپی اوڑھ رکھی تھی اور وہیل چیئر پہ
راج ٹھاکرے نے الیکشن میں بغیر اترے ہی کیا بی جے پی-شیوسینا کی ناک میں دَم
بہار اور مشرقی یو پی میں جب کوئی کہتا ہے کہ ’ذرا لاؤ رے‘، تو اس کا مطلب یہ نکالا جاتا ہے کہ وہ اپنا ہتھیار لانے کو کہہ رہا ہے۔ ایسا عام طور پر دبنگ لوگ ہی کہتے ہیں۔ لیکن مہاراشٹر نو نرمان سینا (این این ایس) سربراہ راج ٹھاکرے جب ایسا ہی جملہ مراٹھی میں بولتے ہیں تو اس کا مطلب ہے، ذرا اس ویڈیو کلپ (پی ایم مودی کے) کو آن کرو۔ یہ جملہ وزیر اعظم نریندر مودی کی پوری ٹیم کے لیے خوفزدہ کرنے والا ہے کیونکہ اس کے ذریعہ راج ٹھاکرے مہاراشٹر میں مودی حکومت کی قلعی کھول رہے ہی
خبرلیجے زباں بگڑی۔۔۔ امالہ کیا اور کیوں؟۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی
امالہ کے بارے میں ہمارے صحافی ساتھیوں میں اب تک ابہام پایا جاتا ہے کہ اس کا استعمال کہاں اور کیوں کیا جائے۔ اس حوالے سے پہلے بھی کچھ لکھا تھا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ بار بار یاد دہانی ضروری ہے۔ امالہ کا مطلب ہے مائل کرنا۔ عربی کا لفظ ہے۔ الف، ہائے ہوز (ہ) یا الف مقصورہ کو جو الفاظ کے آخر میں آئیں جمع کی حالت میں، یا حرفِ ربط کے ساتھ یائے مجہول سے بدل دینا جیسے بندہ سے بندے، گدھا سے گدھے، کمرہ سے کمرے۔ حرفِ ربط یہ ہیں: سے، میں، تک، پر، نے، کو، کا، کے، کی۔ یاد رہے کہ عربی، فارسی، ترکی کے اصلی الف

مولانا فیاض محی الدین لطیفی ۔ ایک قدیم مشفق کی یاد میں۔۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری
یہ مضمون 42 سال قبل مولوی فیاض محی الدین مرحوم کے رحلت کے فورا بعد جنوری ۱۹۷۷ء میں لکھا گیا تھا، معمولی تبدیلی اور آخری پیرے گراف کے اضافے کے ساتھ از سر نو پیش کیا جارہا ہے۔ واضح رہے شہر مدراس کا نیا نام چنئی ہے۔ یہ ۱۹۶۹ھ کا موسم گرما تھا،اسکولوں اور کالجوں میںتعطیلات زمانہ تھا،بھٹکل کے تکیہ محلے میں واقع تھائیکاپا صاحب کے مزار کے سامنے واقع ایک مکان سے دو نو وارد افراد نکلتے ہوئے نظر آنے لگے،یہ دونوں میرے لیے اجنبی تھے،میں ان دونوں کے نام اور احوال سے ناواقف تھا۔ان میں سے ایک ادھیڑ عمرکے او

محسن کتابیں۔۔۔ مولانا عبد الباری ندوی- 01-
مولانا عبدالباری صاحب ندویؒ ولادت:گدیا۔ ضلع بارہ بنکی ،یوپی مورخہ ۱۴ذی الحجہ ۱۳۰۶ ھ،مطابق ۱۱ اگست ۱۸۸۹ ء آپ بارہ بنکی کے ایک خوشحال اور دین دار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔آپ کے والد حکیم عبدالخالق صاحب اپنے وقت کے مشہور شیخ طریقت، اور حضرت مولانا محمد نعیم فرنگی محلی کے خلیفۂ مجاز تھے۔والد صاحب نے حصول علم کے لئے دار العلوم ندوۃ العلماء میں داخل کیا،ندوہ ابھی ابتدائی مرحلے میں تھا،والد صاحب کو وہاں کی تعلیمی و تربیتی حالت سے اطمینان نہ ہواتومولانا ادریس صا

جوش نہیں صرف ہوش سے ووٹ ڈالیے، ورنہ.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔..از:۔ظفر آغا
سنہ 2019 کا لوک سبھا چناؤ معمولی چناؤ نہیں ہے۔ بلکہ اقلیتوں کے لیے یہ چناؤ موت و زندگی کے بیچ کا فیصلہ ہے۔ یاد ہے پچھلے سنہ 2014 کے چناوی کیمپین کے دوران نریندر مودی نے گجرات فسادات کے بارے میں کیا کہا تھا۔ جب ان سے ایک صحافی نے یہ سوال کیا کہ ان کو 2002 کے گجرات قتل عام پر افسوس ہے کہ نہیں۔ ان کا جواب تھا کہ انھیں ’’ان فسادات پر اتنا ہی افسوس ہے جتنا ایک کتے کے پلے کے کار سے کچل کر مر جانے پر ہوتا ہے‘‘۔ تب ہی تو مودی حکومت کے دوران اقلیتوں کو کتے کی طرح مارا گیا اور حکومت خاموش تما
خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ تغیّر اور تغییر ۔۔۔ تحریر: اطہر ہاشمی
اب تک تو ’تعینات‘ (تعی نات) ہی سنتے اور پڑھتے آئے تھے، تاہم اب ٹی وی چینلوں پر اس کا مختلف تلفظ سننے میں آرہا ہے، یعنی ’ی‘ پر تشدید کے ساتھ ’’تعیّنات‘‘ (تعیونات) کہا جارہا ہے۔ نوراللغات کے مطابق تعینات بروزن رسیدات ہے۔ تعیّن عربی کا لفظ اور مذکر ہے۔ مطلب ہے: مخصوص ہونا، مقرر ہونا، تقرر، مطلق کے خلاف۔ لغت کے مطابق تعیناتی (تعی ناتی) اردو کا لفظ ہے، کرنا، ہونا کے ساتھ آتا ہے، اور مطلب وہی ہے یعنی تقرر، تعین۔ اردو میں یہ مونث ہے۔ ایک اور لفظ ہے ’تعیین‘۔ اس میں دو ’ی‘ آتی ہیں۔ عربی کا یہ لفظ مونث ہے

فیض احمد فیض کے ایک سو آٹھویں یوم پیدایش پر...تحریر: آصف جیلانی
کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے میں اپنے آپ کو بے حد خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ میں نے اپنی صحافتی زندگی کا سفر روزنامہ امروز کراچی سے شروع کیا جس کے چیف ایڈیٹر فیض احمد فیض تھے۔ جنوری 1953میں جب میں نے امروز میں کام شروع کیا تو اس وقت فیض صاحب راولپنڈی سازش کیس میں حیدر آباد سندھ کی جیل میں قید تھے ۔ انہیں 1951کے اوایل میں پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ سجاد ظہیر ، جنرل اکبر خان اور دوسرے فوجی افسرون کے ساتھ لیاقت علی خاں کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیاتھا۔ ۵ جنوری 19
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی پر قاتلانہ حملہ ۔۔۔ تحریر: مولانا ڈاکٹر بدر الحسن القاسمی
عصر حاضر کے علمائے دین میں حضرت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب کو رب کائنات نے خصوصی امتیاز بخشا ہے ان کا خاص میدان اسلامی فقہ ہے لیکن حدیث، تفسیر اور دیگر اسلامی فنون میں بھی ان کی مہارت مسلم ہے اور ان کے علمی کارناموں، جدید فقہی مسائل میں ان کی تحقیقات، تدریسی، تصنیفی اور اصلاحی کوششوں کے آثار کو دیکھا جائے تو بلاشبہ وہ ‘‘شیخ الاسلام’’ کے لقب کے مستحق ہیں اور ان کا وجود امت مسلمہ کی فقہی وفکری رہنمائی کے لئے بے حد ضروری ہے اور ان کے بارے میں وہ بات کہی جاسکتی ہے جو حضرت امام احمد بن حنبلؒ نے اپنے
