Search results

Search results for ''


یوم مزدور: تاریخ کا اہم دن خود تاریخ ہوتا جا رہا ہے

Bhatkallys Other

دنیا بھر میں الگ الگ تاریخوں کو الگ الگ چیزوں سے منسوب کیا جاتا ہے ۔ کسی تاریخ کو مدرس ڈے، کسی کو بیٹیوں کا دن یعنی ڈاٹرس ڈے وغیرہ وغیرہ اور آج کی تاریخ کو یعنی یکم مئی کو کئی ممالک میں مزدوروں سے منسوب کیا جاتا ہے ۔ اسے یوم مزدور بھی کہا جاتا ہے اور لیبر ڈے بھی کہا جاتا ہے ۔اس تاریخ کو ہم یوم مزدور کے طور پر ہر سال کیوں یاد کرتے ہیں اور آج کے دن ایسا کیا ہوا تھا کہ ہم نے اس کو مزدوروں سے منسوب کیا ہوا ہے۔ دراصل یکم مئی 1886کوامریکی شہر شکاگو میں اپنے حقوق کیلئے

مولانا قاضی اطہر مبارکپوری ۔ برصغیر میں اسلامی کی اولین کرنوں کے امین۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Bhatkallys Other

          ہندوستان میں اسلام کی ہزار سالہ تاریخ کا ذکر ہو اور مولانا قاضی اطہر مبارکپوری یاد نہ آئیں، یہ کیونکر ممکن ہے۔ آپ نے عمر عزیز کی اسّی سے زیادہ بہاریں دیکھیں، اور زندگی کا ایک وافر حصہ تحقیق وجستجو میں صرف کر کے اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔           قاضی صاحب کا نام پہلے پہل کب سنا تھا  یہ کہناہمارے لئے مشکل ہے کیونکہ جب شعور نے آنکھیں کھولیں اور حرفوں کی کچھ شدبد ہونے لگی تو البلاغ بمبئی کے شماروں پر تایا مرحوم الحاج محی الدین منیری صاحب کے نام کے ساتھ آپ کا بھی نام نظر آیا، اور جب اس ک

محسن کتابیں۔۔۔ مولانا عبد الباری ندوی۔ 02-

Bhatkallys Other

            ابتدا میں شب سے زیادہ موحش،اس کتاب کا بظاہر بے ربط اسلوب بیان رہا،لیکن اب تلاوت کرتا ہوں،تو جو چیز اس کے لفظ لفظ کو اور حرف حرف کو ’’کلام اللہ‘‘ ثابت کرتی ہے،وہ سب سے زیادہ عین یہی اسلوب بیان’’اسٹائل‘‘ہے۔کسی طرح یہ بات تصور میں نہیں آتی کہ کوئی انسان بھی ،انسانی دل ودماغ اور بشری نفسیات کے ساتھ اس طرح بہ تکلف دو چار آیات بھی بول سکتا ہے،جس طرح یہ کتاب ابتدا سے انتہا تک بے تکلف ایک فوق البشری انداز بیان میں ناطق ہے۔حد یہ ہے کہ لفظی غیر لفظی کوئی ترجمہ خود اسی کتاب کا ،جب کسی دوسری زبا

ڈاکٹر جمیل جالبی ابدیت کے سفر پر --- تحریر: ڈاکٹر طاہر مسعود

Bhatkallys Other

  ڈاکٹر جمیل جالبی جن کا بیمار جسم بے حس و حرکت ایک مدت تک سانس کی ڈور سے بندھا رہا، مگر اس طرح کہ چلنا پھرنا تو الگ، بات چیت کے بھی قابل نہ تھے۔ کبھی کبھی آنکھیں کھولتے تھے مگر اپنے اوپر جھکے ہوئے ملاقاتی کو پہچان نہ پاتے تھے۔ ان کے بڑے بیٹے خاور جمیل نے باپ کی تیمار داری میں کوئی کسر، کوئی کمی نہ چھوڑی۔ جب بیماری نے شدت اختیار نہ کی تھی اور وہ ملنے ملانے کے قابل تھے تو ایک دوپہر مَیں ان کی خدمت میں عیادت کی غرض سے حاضر ہوا تھا، انہوں نے سر پر اونی ٹوپی اوڑھ رکھی تھی اور وہیل چیئر پہ

راج ٹھاکرے نے الیکشن میں بغیر اترے ہی کیا بی جے پی-شیوسینا کی ناک میں دَم

Bhatkallys Other

بہار اور مشرقی یو پی میں جب کوئی کہتا ہے کہ ’ذرا لاؤ رے‘، تو اس کا مطلب یہ نکالا جاتا ہے کہ وہ اپنا ہتھیار لانے کو کہہ رہا ہے۔ ایسا عام طور پر دبنگ لوگ ہی کہتے ہیں۔ لیکن مہاراشٹر نو نرمان سینا (این این ایس) سربراہ راج ٹھاکرے جب ایسا ہی جملہ مراٹھی میں بولتے ہیں تو اس کا مطلب ہے، ذرا اس ویڈیو کلپ (پی ایم مودی کے) کو آن کرو۔ یہ جملہ وزیر اعظم نریندر مودی کی پوری ٹیم کے لیے خوفزدہ کرنے والا ہے کیونکہ اس کے ذریعہ راج ٹھاکرے مہاراشٹر میں مودی حکومت کی قلعی کھول رہے ہی

خبرلیجے زباں بگڑی۔۔۔ امالہ کیا اور کیوں؟۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی

Bhatkallys Other

امالہ کے بارے میں ہمارے صحافی ساتھیوں میں اب تک ابہام پایا جاتا ہے کہ اس کا استعمال کہاں اور کیوں کیا جائے۔ اس حوالے سے پہلے بھی کچھ لکھا تھا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ بار بار یاد دہانی ضروری ہے۔ امالہ کا مطلب ہے مائل کرنا۔ عربی کا لفظ ہے۔ الف، ہائے ہوز (ہ) یا الف مقصورہ کو جو الفاظ کے آخر میں آئیں جمع کی حالت میں، یا حرفِ ربط کے ساتھ یائے مجہول سے بدل دینا جیسے بندہ سے بندے، گدھا سے گدھے، کمرہ سے کمرے۔ حرفِ ربط یہ ہیں: سے، میں، تک، پر، نے، کو، کا، کے، کی۔ یاد رہے کہ عربی، فارسی، ترکی کے اصلی الف

مولانا فیاض محی الدین لطیفی ۔ ایک قدیم مشفق کی یاد میں۔۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Bhatkallys Other

 یہ مضمون 42 سال قبل مولوی فیاض محی الدین  مرحوم کے رحلت کے فورا بعد جنوری ۱۹۷۷ء میں لکھا گیا تھا، معمولی تبدیلی اور آخری پیرے گراف کے اضافے کے ساتھ از سر نو پیش کیا جارہا ہے۔ واضح رہے شہر مدراس کا نیا نام چنئی ہے۔ یہ ۱۹۶۹ھ کا موسم گرما تھا،اسکولوں اور کالجوں میںتعطیلات زمانہ تھا،بھٹکل کے تکیہ محلے میں واقع تھائیکاپا صاحب کے مزار کے سامنے واقع ایک مکان سے  دو نو وارد افراد نکلتے ہوئے نظر آنے لگے،یہ دونوں میرے لیے اجنبی تھے،میں ان دونوں کے نام اور احوال سے ناواقف تھا۔ان میں سے ایک ادھیڑ عمرکے او

محسن کتابیں۔۔۔ مولانا عبد الباری ندوی- 01-

Bhatkallys Other

مولانا عبدالباری صاحب ندویؒ             ولادت:گدیا۔ ضلع بارہ بنکی ،یوپی            مورخہ ۱۴ذی الحجہ ۱۳۰۶  ھ،مطابق ۱۱  اگست ۱۸۸۹  ء             آپ بارہ بنکی کے ایک خوشحال اور دین دار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔آپ کے والد حکیم عبدالخالق صاحب  اپنے وقت کے مشہور شیخ طریقت، اور حضرت مولانا محمد نعیم فرنگی محلی کے خلیفۂ مجاز تھے۔والد صاحب نے حصول علم کے لئے دار العلوم ندوۃ العلماء میں داخل کیا،ندوہ ابھی ابتدائی مرحلے میں تھا،والد صاحب کو وہاں کی تعلیمی و تربیتی حالت سے اطمینان نہ ہواتومولانا ادریس صا

جوش نہیں صرف ہوش سے ووٹ ڈالیے، ورنہ.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔..از:۔ظفر آغا

Bhatkallys Other

سنہ 2019 کا لوک سبھا چناؤ معمولی چناؤ نہیں ہے۔ بلکہ اقلیتوں کے لیے یہ چناؤ موت و زندگی کے بیچ کا فیصلہ ہے۔ یاد ہے پچھلے سنہ 2014 کے چناوی کیمپین کے دوران نریندر مودی نے گجرات فسادات کے بارے میں کیا کہا تھا۔ جب ان سے ایک صحافی نے یہ سوال کیا کہ ان کو 2002 کے گجرات قتل عام پر افسوس ہے کہ نہیں۔ ان کا جواب تھا کہ انھیں ’’ان فسادات پر اتنا ہی افسوس ہے جتنا ایک کتے کے پلے کے کار سے کچل کر مر جانے پر ہوتا ہے‘‘۔ تب ہی تو مودی حکومت کے دوران اقلیتوں کو کتے کی طرح مارا گیا اور حکومت خاموش تما

خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ تغیّر اور تغییر ۔۔۔ تحریر: اطہر ہاشمی

Bhatkallys Other

اب تک تو ’تعینات‘ (تعی نات) ہی سنتے اور پڑھتے آئے تھے، تاہم اب ٹی وی چینلوں پر اس کا مختلف تلفظ سننے میں آرہا ہے، یعنی ’ی‘ پر تشدید کے ساتھ ’’تعیّنات‘‘ (تعیونات) کہا جارہا ہے۔ نوراللغات کے مطابق تعینات بروزن رسیدات ہے۔ تعیّن عربی کا لفظ اور مذکر ہے۔ مطلب ہے: مخصوص ہونا، مقرر ہونا، تقرر، مطلق کے خلاف۔ لغت کے مطابق تعیناتی (تعی ناتی) اردو کا لفظ ہے، کرنا، ہونا کے ساتھ آتا ہے، اور مطلب وہی ہے یعنی تقرر، تعین۔ اردو میں یہ مونث ہے۔ ایک اور لفظ ہے ’تعیین‘۔ اس میں دو ’ی‘ آتی ہیں۔ عربی کا یہ لفظ مونث ہے

فیض احمد فیض کے ایک سو آٹھویں یوم پیدایش پر...تحریر: آصف جیلانی

Bhatkallys Other

کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے میں اپنے آپ کو بے حد خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ میں نے اپنی صحافتی زندگی کا سفر روزنامہ امروز کراچی سے شروع کیا جس کے چیف ایڈیٹر فیض احمد فیض تھے۔ جنوری 1953میں جب میں نے امروز میں کام شروع کیا تو اس وقت فیض صاحب راولپنڈی سازش کیس میں حیدر آباد سندھ کی جیل میں قید تھے ۔ انہیں 1951کے اوایل میں پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ سجاد ظہیر ، جنرل اکبر خان اور دوسرے فوجی افسرون کے ساتھ لیاقت علی خاں کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیاتھا۔ ۵ جنوری 19

مولانا مفتی محمد تقی عثمانی پر قاتلانہ حملہ ۔۔۔ تحریر: مولانا ڈاکٹر بدر الحسن القاسمی

Bhatkallys Other

عصر حاضر کے علمائے دین میں حضرت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب کو رب کائنات نے خصوصی امتیاز بخشا ہے ان کا خاص میدان اسلامی فقہ ہے لیکن حدیث، تفسیر اور دیگر اسلامی فنون میں بھی ان کی مہارت مسلم ہے اور ان کے علمی کارناموں، جدید فقہی مسائل میں ان کی تحقیقات، تدریسی، تصنیفی اور اصلاحی کوششوں کے آثار کو دیکھا جائے تو بلاشبہ وہ ‘‘شیخ الاسلام’’ کے لقب کے مستحق ہیں اور ان کا وجود امت مسلمہ کی فقہی وفکری رہنمائی کے لئے بے حد ضروری ہے اور ان کے بارے میں وہ بات کہی جاسکتی ہے جو حضرت امام احمد بن حنبلؒ نے اپنے

محسن کتابیں۔ قسط : 02 ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys Other

اب دل مسلمان صوفیہ کے اقوال واحوال میں بھی لگنے لگا تھا،کشف وکرامت کے ذکر پر اب یہ نہ ہوتا کہ بے ساختہ ہنسی  آجاتی،بلکہ تلاش اس قسم کے ملفوظات و منقولات کی رہنے لگی۔فارسی اور اردو کتابیں بہت سی اس سلسلے میں پڑھ ڈالیں۔مسلمان تو اب بھی نہ تھا،لیکن طغیان اور عداوت کا زور ٹوٹ چکا تھا،محسن کتابو ں کے سلسلے میں محسن شخصیتوں کا ذکر یقیناًبے محل ہے،لیکن اتنا کہے بغیر آگے نہیں بڑھا جاتاکہ اس دور میں دو یا تین زندہ ہستیاں بھی ایسی تھیں جن سے طبیعت رفتہ رفتہ اور بہت تدریجی رفتار سے سہی،لیکن بہرحال اصلاحی ا

قرۃ العین حیدر کے روبرو۔۔۔ تحریر آصف جیلانی

Bhatkallys Other

اردو کی ممتاز ناول نویس اور افسانہ نگار قرۃ العین حیدر کو ہم سے جدا ہوئے ۱۲ سال گذر گئے۔ انہوں نے اردو میں ناول نگاری کو ایک نئی جہت ، وسعت اور گہرائی کے ساتھ ایک نیا اسلوب بخشاہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ وہ چھ دہائیوں سے زیادہ عرصہ تک اردو ادب کے افق پر چھائی رہیں۔ ان کا تخلیقی سف 1944سے شرو ع ہوا تھا جب کہ ان کا پہلا افسانہ رسالہ ہمایوں میں شایع ہوا تھا اور اس کے تین سال بعد ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ۔ستاروں سے آگے ۔منظر عام پر آیا تھا۔ 1949 میں ان کا پہلا ناول ۔ میرے بھی صنم خانے۔ شایع ہو

خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ شوگا، شگہ یا شقہ؟ ۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی

Bhatkallys Other

نوجوان صحافی احسان کوہاٹی ’سیلانی‘ کے نام سے اخبارامت میں مضامین لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں۔ کوہاٹ سے تعلق ہونے کے باوجود اردو پر عبور ہے۔ آج کل ترکی کی سیر پر نکلے ہوئے ہیں اور کسی دوست کے ’’شوگے‘‘ میں ٹھیرے ہوئے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ترکی زبان میں ’’شوگا‘‘ فلیٹ یا اپارٹمنٹ کو کہتے ہیں۔ یہ ترکی زبان کا نہیں، عربی کا لفظ ہے۔ اور ہرچند کہ عربی میں ’’گ‘‘ نہیں ہے لیکن یہ حرف شاید مصر سے آگیا ہے، گوکہ وہاں بھی عربی ہی بولی جاتی ہے۔ مصر میں ’ج‘ کو ’گ‘ کرلیا گیا تو سعودی عرب میں ’ق‘ کو ’گ‘ میں بدل

یوپی ایس سی امتحانات، مسلم امیدواروں کی کامیابی اورمسلم قوم۔۔۔از:۔ محمد علم اللہ، نئی دہلی 

Bhatkallys Other

ہندوستانی مسلمان بہت جذباتی واقع ہوئے ہیں، ممکن ہے اس کا سبب آزادی کے بعد سے ملک میں ان کے ساتھ جاری ظلم و تشدد ہو یا پھران کی اپنی پسماندگی، بے بضاعتی اور بے وقعتی_ یہ ایک الگ بحث کا موضوع ہے۔ دیکھنے میں اکثر یہی آیا ہے کہ ہندستانی مسلمانوں کو کہیں بھی اگر تھوڑی سی امید کی کوئی کرن نظر آتی ہے تو اس کے لئے وہ پلکیں بچھانا شروع کر دیتے ہیں، خوشی سے سرشار قوم اس پر سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار ہو جاتی ہے، ایسے افراد کی کامیابی کے ہر جگہ چرچے ہوتے ہیں۔ یہ بہت اچھی اور خوش آئند بات ہے لیکن تکلیف اس و

محسن کتابیں۔ قسط : 01۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys Other

مولانا عبدالماجد دریابادیؒ ولادت:دریاباد، ضلع بارہ بنکی،یوپی تاریخ:۱۶۔ شعبان ۱۳۰۹  ھ ،مطابق  ۱۶ ۔مارچ ۱۸۹۲  ء             مفسر قرآن،ادیب شہیر،مولانا عبدالماجد دریابادیؒ کا تعلق دریاباد ضلع بارہ بنکی (یوپی)کے قد وائی خاندان سے تھا۔کیننگ کالج لکھنؤ سے بی۔اے کیا،طالب علمی ہی سے مطالعے کی عادت نہیں ،لت پڑگئی تھی۔ہر قسم کا مطالعہ کرتے۔اسی زمانہ میں تشکک وارتیاب سے لے کر الحاد ودہریت کے مرحلوں سے گزرے،پھر اللہ نے صحیح اسلام کی طرف باز گشت کی توفیق عطا فرمائی۔کالج کی زندگی ہی میں خاصی عربی سیکھ لی ت

خبرلیجے زباں بگڑی۔۔۔ ہر کسی پر جائز اعتراض۔۔۔ تحریر: اطہر ہاشمی

Bhatkallys Other

کچھ نام ایسے ہیں جن کا یا تو املا بگڑ گیا یا تلفظ۔ مثلاً ’ہاجرہ‘ عموماً ’’حاجرہ‘‘ پڑھنے میں آتا ہے، یا ’طہٰ ‘کو ’’طحہٰ‘‘ لکھا جارہا ہے، اور وہ بھی غلط املا کررہے ہیں جن کا یہ نام ہے۔ اس پر پہلے بھی توجہ دلائی گئی تھی۔ اب ایک نام مہوش ہے جس کا تلفظ بگاڑ دیاگیا ہے۔ یہ نام مہ وَش ہے، وائو پر زبر ہے۔ لیکن جن خواتین کا یہ نام ہے وہ بھی وِش (wish) کردیتی ہیں۔ جسارت میں 29 مارچ کو ایک بابا جی نے اپنے کالم میں نکتہ آفرینی کی ہے کہ نام میں سے ’مہ‘ نکال دیا جائے تو یہ انگریزی کا وِش بن جائے گا، جب کہ ای