Search results

Search results for ''


خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ فرسا اور آسا ۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی

Bhatkallys Other

علامہ اقبال کی حمد کا بہت مشہور مصرع  ہے۔ سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے طالب علمی کے زمانے میں یہ ’بے ہمتا‘ سمجھ میں نہیں آتا تھا، بلکہ نئی اردو کے مطابق سمجھ نہیں لگتی تھی یا سمجھ نہیں آتی تھی۔ اب بھی ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو بے ہمتا کا مطلب معلوم نہ ہو، اور ہمارے مخاطب ہم جیسے ہی ہیں، ان کے لیے عرض ہے کہ ’بے‘ فارسی میں نفی کا حرف ہے اور ’با‘ کی ضد ہے۔ مثلاً بے اختیار اور بااختیار۔ ’بے‘ کے سابقے کے ساتھ بے شمار الفاظ اردو میں عام ہیں۔ ’بے ہمتا‘ بھی فارسی ہے جس کا مطلب ہے ’’بے مثا

ایک پیکر صبر ووفاء کی جدائی۔ ڈاکٹر حسن باپا یم ٹی۔۔۔ قسط ۰۲۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Bhatkallys Other

سال ۱۹۷۱ء  کی انجمن گولڈن جوبلی بھٹکل کی تعلیمی و سماجی تاریخ کا ایک زرین واقعہ تھی، اس کے لئے بحیثیت کنوینر الحاج محی الدین منیری مرحوم کا انتخاب عمل میں آیا تھا، مرحوم ایک بہترین منتظم تھے، وہ نوجوانوں کو قریب کر کے ان سے کام لینے کاہنر جانتے تھے،وہ بھی زیادہ تر ممبئی ہی  میں اقامت پذیر ہوا کرتے تھے، لہذا  ممبئی جماعت سے وابستہ نوجوانوں سید خلیل الرحمں یس یم، ارشاد ، عبد اللہ دامودی وغیر ہ نے سونیر کی ذمہ داری لی ، یہ لوگ پڑھے لکھے ہونے کے  ساتھ ساتھ پرنٹنگ اور اشتہارات اکٹھا کرنے کے فن سے آگا

مصری صحافی کی کتاب اور شیخ الہند کی تصویر... تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Bhatkallys Other

WA:00971555636151 گزشتہ چار سال سے ہمارا ایک واٹس اپ گروپ علم وکتاب کےنام سے جاری ہے، اس میں برصغیر کے منتخب علماء، اہل قلم اور دانشور شامل ہیں، چند دن قبل گروپ کے معززممبر اور گجرات کے معروف عالم حدیث مولانا محمد طلحہ بلال منیار صاحب نے ایک پوسٹ کے ذریعہ توجہ مبذول کرائی تھی کہ کوئی بیس سال قبل جب وہ مکہ مکرمہ میں زیر تعلیم تھے، تومصری صحافی محمد عبد الرحمن الصباحی کی کتاب خمس سنین فی مغاور الاسر کے بارے میں سنا تھا کہ یہ صحافی حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی علیہ الرحمۃ مالٹا میں اسیر

ایک پیکر صبر ووفاء کی جدائی۔ ڈاکٹر حسن باپا یم ٹی...قسط ۰۱۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Bhatkallys Other

جون  ۱۷ کی  تاریخ تھی ،نماز مغرب کے بعد دبی کے القوز قبرستان میں ہمارے ایک دوست سے نماز جنازہ سے فارغ ہو کر ابھی ڈاکٹر حسن باپا یم ٹی  کی صحت کے بارے میں دریافت کرہی رہا تھا، کہ خبر آئی کہ ڈاکٹر یم ٹی صاحب اللہ کو پیارے ہو گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ، ایک روز پہلے میں بھٹکل میں تھا، ان کے بعض خاص احباب وغیرہ سے ملاقات ہوئی تھی، لیکن ڈاکٹر صاحب کی علالت کی کوئی خبر اس وقت تک عام نہیں ہوئی تھی۔ خبر سنتے ہی آپ کا ہنستا مسکراتا، امید کی روشنی سے دمکتا کتابی چہرہ  نگاہوں کے سامنے گھومنے لگا،جب ب

حضرت شیخ الہند کی اکلوتی تصویر...تحریر: عبدالمتین منیری

Bhatkallys Other

گزشتہ چار سالوں سے علم وکتاب واٹس اپ گروپ جاری ہے، اس میں برصغیر کے منتخب علماء، دانشور اور اہل قلم شامل ہیں، اس میں طلبہ واساتذہ کے لئے مفید مواد پیش ہوتا رہتا ہے، اور مختلف فرمائشیں بھی آتی رہتی ہیں، علم وکتاب سے محبت رکھنے والے مولانا شبیر احمد میواتی بھی ابھی گزشتہ چند دنوں سے اس کے رکن رکین ہیں، گزشتہ دنوں ان کے توسط سے امیر شریعت حضرت مولانا منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ کے سفرنامہ حج سے ایک اقتباس موصول ہوا، جس میں مالٹا میں حضرت شیخ الہند کے  ساتھ رفیق زنداں ایک مصری صحافی محمد عبد الرحمن ال

خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ صحیح تو قسائی ہی ہے۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی

Bhatkallys Other

گزشتہ شمارے (28 جون تا 4 جولائی) میں عبدالمتین منیری نے بھارت کے ایک بڑے عالم مولانا ڈاکٹر عبیداللہ قاسمی، سابق استاد دارالعلوم دیوبند، حال پروفیسر دہلی یونیورسٹی کا تبصرہ ہمارے کالم پر ارسال کیا ہے۔ سب سے پہلے تو اتنے بڑے عالم کی ہماری ناپختہ اور کچی پکی تحریروں پر توجہ اور انہیں کسی تبصرے کے قابل سمجھنا ہی ہمارے لیے باعثِ شرف ہے، جس کا شکریہ۔ ہم نہ عالم نہ استاد، تاہم مؤدبانہ عرض ہے کہ ان کا پہلا اعتراض ہے ’’جاری و ساری میں ’ساری‘ کو غلط کہنا اور اس کا معنی سرایت کرنے والا قرار دینا

کاروان حیات کی آخری منزل۔۔۔ مولانا عبد الرحمن مظاہری کی وفات ۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر بدر الحسن قاسمی۔

Bhatkallys Other

‘‘کاروان زندگی’’ ‘‘کاروان حیات’’ ‘‘میری زندگی’’ ‘‘نقش حیات’’ جو بھی عنوان اختیار کیجئے، ‘‘زندگی’’ رہنے والی چیز نہیں ہے بغیر آپ کے طلب یا اختیار کے مل گئی ہے آپ نے اعزہ واقارب دوست اور احباب جمع کئے ہوں یا خدم وحشم اور محافظ دستے تشکیل دیئے ہوں بغیر آپ کی مرضی اور خواہش  معلوم کئے ایک دن آپ سے رخصت بھی ہوجائے گی بلکہ آپ خود ہی اس کے ساتھ دوسری دنیا کے لئے رخت سفر باندھ لیں گے۔ بقول اکبر: ایک ہی کام سب کو کرنا ہے یعنی جینا ہے اور مرنا ہے (کل من علیھا فان) اور (کل نفس ذائقۃ الموت) کا حاصل بھی

ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہئے۔۔۔۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی

Bhatkallys Other

جون کی آخری تاریخوں میں تبریز انصاری کے قتل اور اس کی نئی نویلی دولھن کے بارے میں جب یہ معلوم ہوا کہ دونوں نہ صرف یتیم ہی تھے بلکہ یسیر بھی تھے تو نہ چاہنے کے باوجود کچھ ایسے الفاظ قلم سے نکل گئے جس نے جذبات کو بھڑکا دیا۔ وہ مضمون جس جس اخبار میں چھپا اس کے پڑھنے والوں کے دلوں پر آرے چل گئے اور انہوں نے اس بیوہ کی محبت میں ایسے ایسے مشورہ دیئے جن پر وہی عمل کرسکتا ہے جو اُن کے قریب رہتا ہو۔ ہم نے مضمون کی ابتدا دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین امانت اللہ خاں صاحب کی پیشکش کو پڑھ کر کی تھی جو دہلی میں ر

اگر بات وعدہ پر آئے تو ہم تیار نہیں ہیں۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی

Bhatkallys Other

بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازعہ کو حل کرنے والی وہ کمیٹی جو سپریم کورٹ کی ہدایت پر تصفیہ کی جستجو کررہی ہے اس کے کسی رُکن نے سنی وقف بورڈ کے چیئرمین اور بعض ذمہ دار مسلمانوں سے ان کی رائے معلوم کرنا چاہی ہے۔ ہم نے گذشتہ سال اس مسئلہ پر ایک مضمون لکھا تھا اسے اودھ نامہ میں چند روز پہلے پھر شائع کرایا گیا ہے تاکہ اس سے بھی کوئی روشنی لی جائے۔ ہمارے علم میں بعض ذمہ دار مسلمانوں کا یہ فیصلہ آیا ہے کہ اگر بابری مسجد سے مسلمان دستبردار ہوجائیں تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ اس کے بعد ان مسجدوں سے دستبرد

محسن کتابیں۔۔۔تحریر۔۔۔ میاں بشیر احمد،آکسن

Bhatkallys Other

 میاں بشیر احمد، آکسن ولادت : لاہور رمضان ۱۰-۱۳۱۰ھ مطابق مارچ ۱۰- ۱۸۹۳ء باغبان پورہ لاہور کے رہنے والے تھے۔ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد سنٹرل ماڈل اسکول سے  ۱۹۰۸ء میں انٹرنس کیا،۱۹۱۰ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف۔اے کرکے آکسفورڈ گئے،اور ۱۹۱۳ء میں تاریخ میں بی۔اے آنرز کی ڈگری حاصل کی۔۱۹۱۴ء میں لندن سے بیرسٹری کاا متحان پاس کیا،وہاں سے واپس آکر اسلامیہ کالج لاہور میں تاریخ کے استاد مقرر ہوئے۔۱۹۲۲ء میں لاہور ہی سے اپنے والد جسٹس شاہ دین ہمایوں کی یاد میں ماہنامہ’’ہمایوں‘‘ جاری کیا،ج

ڈاکٹر تحسین فراقی، کالم نویسی سے دانشوری تک--- ڈاکٹر طاہر مسعود

Bhatkallys Other

ڈاکٹر تحسین فراقی کی شخصیت پر قلم اُٹھاتے ہوئے مجھے سوچنا پڑ رہا ہے۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ سوچنا اس لیے پڑ رہا ہے کہ ان سے شناسائی کو دوستی میں بدلے ہوئے اب کئی دہائیاں بیت چکی ہیں۔ اتنی مدت میں حالات و واقعات میں اتنے نشیب و فراز آئے ہیں۔ ہمارے کئی مشترکہ دوست اور کرم فرما جو ہمارے درمیان رشتۂ اخوت و انسیت کو مزید مضبوط و مستحکم کرنے کا سبب تھے، وہ بھی ہمیں چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے جیسے سراج منیر، مشفق خواجہ، ڈاکٹر وحید قریشی۔ اور اب یوں بھی ادب کی دُنیا میں نظر اُٹھا کے دیکھیں تو خاک سی اُڑتی

خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ دیوالیہ یا دوالا۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی

Bhatkallys Other

آج کل ایک لفظ ’’دیوالیہ‘‘ کا بڑا چرچا ہے۔ ’’ملک دیوالیہ ہونے لگا تھا، ہم نے بچالیا‘‘۔ ایسے نعرے لگ رہے ہیں جو نعرے ہی ہیں۔ لیکن یہ ’’دیوالیہ‘‘ کیا ہے؟ دراصل یہ لفظ ’دوالا‘ ہے اور ہم ایک عرصے تک یہی سنتے آئے ہیں ’’فلاں کا دوالا پٹ گیا‘‘ (بکسراول)۔ اس کی اصل ’دیوا‘ یعنی چراغ ہے۔ ہندی کا لفظ ہے لیکن اردو، پنجابی میں عام ہے۔ اس کا دوسرا حصہ ’آلا‘ ہے جس کا مطلب ہے طاق۔ تو مطلب یہ ہوا ’’طاق میں رکھا چراغ‘‘۔ پہلے دستور تھا کہ جب کسی دکان دار، تاجر وغیرہ کو ٹوٹا، گھاٹا آتا تھا تو وہ دن کو اپنی دکان

خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ جاری و ساری ۔۔۔ یہ ساری کیا ہے؟۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی

Bhatkallys Other

ہم لوگ ایسے کئی الفاظ بڑے اطمینان سے استعمال کرتے ہیں جن کا مفہوم معلوم ہوتا ہے، چنانچہ استعمال درست ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک لفظ ’ساری‘ ہے جو عموماً ’جاری‘ کے ساتھ آتا ہے۔ اکیلے آتے ہوئے شاید گھبراتا ہے، یعنی ’جاری و ساری‘۔ اب جاری کا مطلب تو ہر کوئی جانتا ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ ’ساری‘ کیا ہے؟ لغت کے مطابق ’ساری‘ عربی کا لفظ اور اسم صفت ہے۔ اس کا مطلب ہے: اثر کرنے والا، سرائیت کرنے والا۔ علاوہ ازیں اردو میں ساری، سارا کا مونث بھی ہے۔ یہ ہندی سے آیا ہے اور اسم صفت ہے۔ مثلا ’’ساری خدائی ایک طرف،

محسن کتابیں۔۔۔03۔۔۔ تحریر: مولانا مناظر احسن گیلانی

Bhatkallys Other

جاننے والے،دیوبند وخیر آبادی لاگ ڈانٹ سے واقف ہیں۔سینے پر پتھر رکھ کر اس مدرسے میں داخل ہوا۔خدا جزائے خیر دے غزالی کو،اسیرِابن سینا وباقر کو،اس نے حضرت شیخ الہند کے حلقۂ حدیث میں پہنچا دیا۔کچھ دن کشمکش میں گزرے،عجب کٹھن دن تھے،آخر میں جس کی غلامی کی سرفرازی نصیب ہوئی،تعجب سے سنیے گا،کہ تین مہینے تک اس کے مصافحے سے کراھۃً یا احتقاراً محروم رہا!ایمان و یقین کے الفاظ سے آشنا تھا،لیکن حقیقت سے بیگانہ،حق تعالی کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس دولت کی سعادت میسر آئی۔اب تک مولانا محمد قاسم ؒ کے متعلق سنا تھاک

خبر لیجئے زباں بگڑی۔۔۔ مکتب فکر یا مکتبہ فکر۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی

Bhatkallys Other

مکتب ِفکر یا مکتبۂ فکر؟ اس معاملے میں ہم اکثر بچل جاتے ہیں۔ بڑے معروف ادیبوں کو ’’مکتبۂ فکر‘‘ لکھتے ہوئے پڑھا اور بولتے ہوئے سنا، اس لیے ہم گڑبڑا جاتے ہیں کہ صحیح کیا ہے۔ ’مکتبِ فکر‘‘ اصل میں اسکول آف تھاٹ کا ترجمہ ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اسکول کو مکتب ہی کہتے ہیں۔ بقول شاعر: مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا اُس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا ’مکتب‘ عربی زبان کا لفظ ہے اور مطلب ہے: درس گاہ، لکھنے پڑھنے کی جگہ، اسکول، مدرسہ وغیرہ۔ جمع اس کی ’مکاتب‘ ہے۔ ’مکتبِ فکر‘ یا ’مکتبِ خیال‘ کا مطلب ہوا: کسی

محسن کتابیں۔۔۔02۔۔۔ تحریر: مولانا مناظر احسن گیلانی

Bhatkallys Other

اس ہوش ربائی داستان سرائی کی طوالت سے میں نے قصداً کام لیا ہے،کیونکہ اپنے ان ہی ذاتی تجربات کی بنیاد پر ،میں ان مسموم ادبی کتابوں اور رسالوں کو نوخیز بچوں اور نوجوانوں کے لئے سم قاتل قرار دیتا ہوں،جو حشراتی کیڑوں کی طرح آج آسمان و زمین سے ہر ہر گھر میں برس رہے ہیں،بچوں سے آگے بڑھ کر ،بچیوں تک کی تباہی و بربادی میں ،بے پناہ طوفانوں کاکام کر رہے ہیں،نسلیں برباد ہورہی ہیں، اور گھرانے اجڑ رہے ہیں،مگر اس شکل میں کہ ان کاغذی سانپوں اور بچھوؤںسے،ماں باپ بخوشی اپنے بچوں کوڈسا رہے ہیں،حکومت مدد کر رہی ہے

خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ بغیر ہمزہ کے ’گاے‘ اور’ چاے‘۔۔۔۔تحریر :اطہر علی ہاشمی

Bhatkallys Other

پاکستان میں روزِ اوّل سے اردو کو قومی زبان تسلیم کرنے کے بعد سے اس کے عملی نفاذ کی کوشش جاری ہے جو اب تک تو ناکام ہے۔ بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اردو کو قومی زبان قرار دیا تھا۔ 1973ء کے آئین میں بھی ایسا ہی کچھ ہے، چنانچہ 2015ء میں عدالتِ عظمیٰ نے بھی حکم جاری کیا کہ دفتری زبان اردو ہوگی، لیکن خود عدالتوں میں اس کا اطلاق نہیں ہوسکا۔ گزشتہ دنوں عدالتِ عالیہ لاہور کے ایک شجیع جج نے اردو میں فیصلہ لکھا۔ ممکن ہے بعد میں اس کا ترجمہ انگریزی میں کرایا گیا ہو۔ عدالتوں کے فیصلے انگریزی میں

محسن کتابیں۔۔۔01۔۔۔ تحریر: مولانا مناظر احسن گیلانی

Bhatkallys Other

مولانا سید مناظر احسن گیلانی             ولادت:استھانوں(ضلع پٹنہ) جو مولانا کا ننھیال تھا۔         مورخہ۹ربیع الاول  ۱۳۱۰ھ ،مطابق ۲  اکتوبر  ۱۸۹۲ء             عالم باعمل،فاضل بے بدل،حضرت مولانا سید مناظر احسن گیلانی،اپنے گوناگوں کمالات اور متعدد صفات کی وجہ سے دور حاضر میں برصغیر کے ان علماء میں سے تھے،جن کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے،بقول مولانا دریابادیؒ:دور حاضر کے طبقہ علماء کے خواص میں نہیں،بلکہ اخص الخواص میں تھے۔             آپ گیلانی (ضلع نالندہ ،بہار)کے مشہور خاندان سادات حسینیہ واسطی