Search results

Search results for ''


محسن کتابیں۔۔۔ تحریر: مولانا اعزاز علی امرہوی۔ قسط ۰۱

Bhatkallys Other

مولانا اعزاز علی امروہوی             ولادت: بدایوں،یکم محرم ۱۳۰۱ھ مطابق /۲ نومبر ۱۸۸۳ء              مشہور تاریخی قصبہ امروہہ( ضلع مراد آباد )کے رہنے والے تھے، مولانا کی عمر ابھی بہت چھوٹی تھی کہ والد صاحب کا بسلسلۂ ملازمت شاہ جہاں پور میں تبادلہ ہوا،یہیں انہوں نے بچپن میں قرآن مجید حفظ کیااور اپنے والد صاحب ہی سے فارسی کی تعلیم حاصل کی،عربی کی ابتدائی تعلیم مدرسہ’’ گلشن فیض‘‘ تلہر( ضلع شاہجہاں پور )میں، مولانا مقصود علی خان سے حاصل کی ،اور متوسط درجے تک مدرسہ عین العلم شاہجہانپور میں، مولانا م

عظیم معلم،مربی اور اولین معتمد جامعہ - ۰۳- تحریر: عبد المتین منیری

Bhatkallys Other

                                                         جامعہ اسلامیہ بھٹکل کا قیام           انجمن ستارہ حسنات اور مدرسہ اسلامیہ کے بند ہونے، پرائمری تعلیم کا نظم ونسق قوم  کے ہاتھوں سے مکمل طورپرختم ہونے، بورڈ اسکول کی ناقص کا رکردگی اورتقسیم ہند  کے بعد فروغ پانے والے قومی بگاڑنے بھٹکل میں ایک دینی مدرسہ کے قیام کی تحریک کوجنم دیا، اوراﷲ تعالی نے جناب ڈاکٹرملپاعلی صاحب کوتوفیق دی کہ اس تحریک کوآگے بڑھائیں، آپ نے دل درد مند رکھنے والے اپنے دوسرے رفقاء  کے ساتھ اس سلسلہ میں مشورہ کیا کہ اگر

خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ چولہے پر چڑھی ہنڈیا، افروختہ۔۔۔ تحریر : اطہر علی ہاشمی

Bhatkallys Other

اردو میں استعمال ہونے والے کچھ الفاظ ایسے ہیں جن کے لغوی معنیٰ کچھ اور ہوتے ہیں اور ان کا مفہوم کچھ اور ہوتا ہے۔ ایسے الفاظ زیادہ تر عربی اور فارسی کے ہیں جو اردو میں آئے ہیں، مثال کے طور پر ’’برافروختہ‘‘۔ اس کا مطلب ’’غصے میں بھرا ہوا‘‘ لیا جاتا ہے۔ فارسی کا لفظ ہے لیکن اس کے لغوی معنیٰ ہیں ’’آگ پر رکھا ہوا، جلتا ہوا‘‘۔ آگ پر تو ہنڈیا بھی رکھی جاتی ہے لیکن اسے کوئی برافروختہ نہیں کہتا۔ ’بر‘ سابقہ ہے جس کے متعدد معنیٰ ہیں۔ عربی میں ’بّر‘ بحر کی ضد ہے یعنی خشکی، بیابان، زمین وغیرہ۔ ایک م

عظیم معلم ومربی، اور اولین معتمد جامعہ ۔ قسط ۰۲۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Bhatkallys Other

          مولانا ندوی نے ندوۃالعلماء میں اس سال داخلہ لیا جس سال بھٹکل میں انجمن حامی مسلمین کی بنا پڑی، اتفاقاً مولانا کے شاگرد رشید الحاج محی الدین منیری مرحوم کاسال ولادت بھی یہی ہے، آپ نے مولانا عبدالحی حسنی ؒ کی نظامت کے تین سال دیکھے ، یہ وہ زمانہ تھاجب کہ مولانا آزادکے ’الھلال ‘کی گونج ابھی فضاؤں میں باقی تھی، یہ تحریک خلافت کانقطہ عروج تھا، اورکہنے لگی ’’جی اماں بیٹا جان خلافت پہ دے دو‘‘کانعرہ مستانہ وطن کے ہرسودلوں کوگرمارہاتھا، آزادی کا بگل بج رہا تھا اورپورا ملک آتش فشاں کے مانند

استادِ محترم مولانا عبدالعلیم ندوی مرحوم کی یاد میں  ۔ قسط ۰۲۔ ۔۔ از  :  محمد راشد شیخ ۔کراچی

Bhatkallys Other

۔بعض اوقات مولانا کلاس میں اپنے عہد شباب اور دور طالب علمی کے قصے بڑے پرلطف انداز میں بیان کرتے۔ان کی شخصیت میں ایک عجب طرح کی بے تکلفی تھی جس کی بنا پرمولانا کا موڈ دیکھ کرہم طلبہ بھی مولانا سے ہر طرح کے سوالات کرتے۔ ایک مرتبہ ایسی ہی گفتگو کے دوران ایک طالب علم نے پوچھا ’’کیا مولاناسیّد سلیمان ندویؒ آپ کے استاد تھے؟‘‘ مولانا نے کڑک کر جواب دیا ’’سیّد سلیمان ندوی ہمارے استاد تھے نہیں، ہمارے استاد ہیں‘‘۔ استاد ہیں پر خوب زور دیا۔ ۔طلبہ کی ذہنی تربیت کے لیے مولانا اپنی زندگی کے واقعات بھی بڑے د

خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ لغت ،مذکر یا مونث؟۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی

Bhatkallys Other

کشمیر کے مسئلے پر ایک جملہ عموماً سننے میں آتا ہے اور فرائیڈے اسپیشل کے ایک اداریے میں بھی جگہ پا گیا کہ ’’کشمیر پر کسی تیسرے ثالث کی ضرورت…‘‘ ضرورت ہے یا نہیں، یہ الگ مسئلہ ہے، لیکن ’’تیسرا ثالث‘‘ تو خود ایک مسئلہ ہے کہ ثالث کہتے ہی تیسرے کو ہیں۔ کہیں کوئی دوسرا ثالث اور چوتھا ثالث نہ لکھ دے۔ ثلث کا مطلب ہے تیسرا حصہ۔ عیسائیوں کا عقیدہ تثلیت تو سنا ہی ہوگا۔ لغت مذکر ہے یا مونث، ہم ایک عرصے سے اُلجھن میں ہیں۔ ایک بار لکھ دیا تھا کہ یہ مذکر ہے ایک ماہرِ لسانیات نے ڈانٹ دیا کہ کیا اس میں تائے تا

سچی باتیں۔۔۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا مخلص کون؟۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys Other

1925-08-21 ماہِ محرم ختم ہوگیا، حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے حالات زندگی آپ مختلف طریقوں سے سُن چکے، واقعات کربلا آپ اچھی طرح پڑھ چکے، ان تمام معلومات، اس ساری واقفیت، کے بعد آپ ک عقل، آپ کے ضمیر، آپ کی دیانت کا کیا فیصلہ ہے، کہ دَور موجودہ میں امام مظلومؓ کے سچے دوستدار، شہید ؓکربلا سے دلی محبت رکھنے والے کون لوگ ہیں؟ آیا وہ لوگ جو اُن کے طریقہ پر چلنا چاہتے ہیں، جو اُن کے نمونۂ زندگی کو اپنے سامنے رکھے ہوئے ہیں، جو اُن کی مبارک زندگی کی روشنی میں اپنا ہر قدم اُٹھانا چاہتے ہیں؟ یا وہ لوگ، جو

استادِ محترم مولانا عبدالعلیم ندوی مرحوم کی یاد میں  ۔قسط- ۰۱- از  :  محمد راشد شیخ.کراچی

Bhatkallys Other

                                                تقسیم برصغیر سے قبل برصغیر کے تین تعلیمی ادارے اپنی تعلیم ،تربیت اور دیگر محاسن کے لیے معروف تھے۔یہ ادارے دارالعلوم دیوبند، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو تھے۔تقسیم کے نتیجے میں یہ ادارے تو ہندوستان ہی میں رہ گئے اور آج تک تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں اور تینوں  سو سال سے زائد قدیم ہو چکے ہیں۔ تقسیم سے قبل کشمیر سے راس کماری اور مدراس سے پشاور تک تقریباً ہر علاقے کے طلبہ وہاں تعلیم حاصل کرتے بلکہ بیرون ممالک کے بھی۔ان ادا

عظیم معلم، مربی اور اولین معتمد جامعہ ۔ قسط ۰۱- تحریر: عبدالمتین منیری

Bhatkallys Other

یہ مضمون ۱۹۷۹ء  میں مولانا عبد الحمید ندوی علیہ الرحمۃ کی  رحلت کے بعد نقش نوائط ممبئی میں قسط وار شائع ہوا تھا، پھر اسے بانی جامعہ ڈاکٹر علی ملپاعلیہ الرحمۃ اور حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتھم سرپرست جامعہ کی موجود گی میں سنہ ۱۹۹۸ء جامعہ آباد میں منعقدہ سیمنار میں پیش کیا گیا تھا۔ استاذ محترم مولاناعبدالحمیدصاحب ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا ذکرخیرہو اوراس کاآغازانجمن حامی مسلمین کے تذکرہ سے نہ ہوکیوں کرممکن ہے! بھٹکل میں اسلامی نشأۃ ثانیہ کی داغ بیل تویہیں پرڈالی گئی تھی، تعلیمی بی

سچی باتیں۔۔۔ واقعہ کربلا کی اہمیت کا پہلو؟ ۔۔۔ تحریر:مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys Other

14-08-1925 محرّم ومراسم محرّم کے متعلق آپ ان صفحات میں کئی ہفتوں سے مسلسل مضامین پڑھ رہے ہیں، کیا ان مضامین سے امام مظلوم کی یاد دلوں سے مٹانا مقصود ہے؟ کیا یہ مضامین اس غرض سے لکھے گئے ہیں، کہ لوگوں کے دلوں میں امام حسین علیہ السلام کی وقعت وعظمت باقی نہ رہے؟ خدانخواستہ ان مضامین سے کوئی اس قسم کا مقصد تھا، یا برعکس اس کے، یہ تھا ، کہ واقعۂ کربلا کی پوری اہمیت ذہن نشین ہو، امام مظلوم ک ایثار وسرفروشی کا نقش دلوں پر اور گہرا ہو، اور اب تک جن نادانیوں کی بناپر، عشرۂ محرم کو ضائع کیاجاتارہاہے،

سچی باتیں ۔۔۔ماتم کس کا کریں؟ ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریا بادی

Bhatkallys Other

۰۷-۰۸-۱۹۲۵ء ہندوستان میں کئی سال سے مسئلہ خلافت کا جوچرچا آپ سن رہے ہیں، اور جس کی بابت چند سال اُدھر بہت جوش وخروش تھا، جو اب دھیما ہوگیاہے، کیا یہ مسئلہ جدید ونوپیداتھا؟ کیا اس ’’شورش‘‘ کو آج کل کے چند مولویوں نے گڑھ لیاتھا؟ کیا یہ سارا ’’شروفساد‘‘ خلافت کمیٹیوں کا پیدا کیاہواتھا؟ کیا یہ ’’ غل وشور‘‘ شوکت علی ومحمد علی نے خواہ مخواہ برپاکررکھاتھا؟ کیا یہ ساری تحریک محض ایک ’’سیاسی شورش‘‘ تھی؟ کیا مذہبی حیثیت سے آپ کی نظر میں اس کی کوئی اہمیت نہ تھی؟ کیا بحیثیت ایک مسلم کے، آپ کے لئے اس می

خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ اردو اور نفاذ اردو ۔۔۔ تحریر : اطہر علی ہاشمی

Bhatkallys Other

۔7 ستمبر کو جمعیت الفلاح نے ’’پاکستان میں نفاذِ اردو‘‘ کے عنوان سے ایک پروگرام کا انعقاد کیا، جس میں کئی اہلِ علم و ادب حضرات نے خطاب کیا۔ ہم نے صرف سننے پر اکتفا کیا کہ ایسے ماہرینِ لسانیات کے سامنے کیا منہ کھولتے۔ یوں بھی یہ کھٹکا رہتا ہے کہ ہم جو دوسروں کی غلطیاں پکڑتے ہیں ہماری زبان سے کوئی غلط لفظ، کوئی غلط تلفظ نکل گیا تو ’’خود میاں فضیحت‘‘ کا مصداق ٹھیریں گے۔ اس کا تجربہ کئی بار ہوچکا ہے۔ ایک محفل میں اچانک ایک صاحب نے ہمیں ’بابا اردو‘ سمجھ کر پوچھ لیا کہ ’’سبزۂ نورستہ‘‘ کا

ماہر القادری کی آخری سانسیں۔۔۔ تحریر : ڈاکٹر عبد اللہ عباس ندوی

Bhatkallys Other

" ماہر صاحب کو موت مکہ لائی تھی ۔ " "میں تو کہتا ہوں کہ مشاعرہ ہوا ہی اسی لیے تھا کہ ماہر صاحب کو جنت المعلیٰ میں جگہ مل جائے " "اللہ بخشے بڑی اچھی موت پائی " جی ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جمعہ بارہ مئی کو مغرب اور عشا کے درمیان جنت المعلیٰ کے اس حصے میں جہاں حاجی امداللہ صاحب مہاجر مکی کی قبر ہے ماہر صاحب کو دفن کیا گیا واپسی میں دفن کرنے والے آپس میں یہی باتیں کر رہے تھے " اس سے ٹھیک پچیس گھنٹے قبل شب جمعہ کو ماہر صاحب اپنے میزبان راؤ محمد اختر صاحب کے یہاں سے اس مشاعرہ میں جانے کی تیاری کر رہے ت

حضرت مولانا سید انظر شاہ کشمیری کا نثری بیانیہ۔۔۔ تحریر: مفتی محمد ساجد کھجناوری

Bhatkallys Other

احقر کاتب الحروف کے مطالعہ کی میزپر یکتائے روزگار محدث اور سحر طراز نثر نگار مولانا سید انظر شاہ مسعودی کشمیری ؒ (متوفی ۲۶؍اپریل ۲۰۰۸ء ) کے شاداب قلم فیض رقم کی مرہون سردست دوکتابیں لالہ وگل اور نقش دوام پیش نظرہیں ، جن کی افادیت کا جادو گردشِ شام وسحر اور مرورِ ایام کے باوصف سرچڑھ کر بول رہاہے۔ اول الذکر کتاب کے مشمولات ان زائد از ساٹھ کاروانِ دین ودانش کا تذکرہ جمیل ہے جن کے پڑھنے اور سننے سے خزاں رسیدہ چمن میں بہار ِنو عود کرآتی ہے اور گلشن حیات کا پتہ پتہ مسکرانے لگتاہے، ان اصحاب تذکرہ افرا

محسن کتابیں۔۰۱۔ تحریر: پروفیسر سید نواب علی

Bhatkallys Other

پروفیسر سید نواب علی ولادت:لکھنؤ،۱۲۹۴ھ،مطابق ۱۸۷۷ء نیوتنی ضلع اناؤ اصل وطن تھا۔لکھنؤ میں پیدائش ہوئی،جہاں آپ کے والد فرخند علی رضوی وکالت کرتے تھے۔۱۸۹۲ء میں اناؤ ہائی اسکول سے میٹرک کیا،اور ۱۸۹۳ء میں کیننگ کالج لکھنؤ میں داخل ہوئے،اور ۱۹۰۰ء میں یہیں سے ایم۔اے اور بی۔ٹی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ آپ کے خاندان مین شیعہ اور سنی عقائد و روایات قدر مشترک کی حیثیت رکھتی تھیں۔والد صاحب اور دادا صاحب شیعہ تھے اور چچا سنی۔آپ نے سنی مذہب اختیار کیا،جس کی وجہ  سے آپ کو گھروالوں کی طرف سے بہت مشقت جھیلنی

رشیدیت و ندویت کا عطر مجموعہ...تحریر: مولانا شاہ اجمل فاروق ندوی

Bhatkallys Other

         ؍   ۷/اگست ۲۰۱۹ کو مغرب کے قریب موبائل پر یہ خبر پڑھی کہ جامعہ اشرف العلوم رشیدی، گنگوہ میں تفسیر و حدیث کے استاد اور جامعہ کے ماہانہ ترجمان صدائے حق کے معاون مدیربرادرِ محترم مولانا عبدالواجد رشیدی ندوی کا انتقال ہوگیا۔ خبر پڑھ کر دل دھک سے رہ گیا۔ دو تین بار پڑھا۔ ہوسکتا ہے کوئی اور عبدالواجد ہوں۔ لیکن خبر اتنی واضح تھی کہ کسی ادنیٰ شبہے کی گنجائش نہ رہی۔ اناللہ و انا الیہ راجعون پڑھ کر حسب توفیق ایصال ثواب کیا۔ بعد میں برادر گرامی قدر مولانا محمد ساجد کھجناوری سے حادثے کی تفصیلات بھی

خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔شُکیب‘ شَکیب یا شِکیب ۔۔۔ اطہر علی ہاشمی

Bhatkallys Other

ایک بہت بزرگ اور عالم شخصیت نے ایک محفل میں بتایا کہ شکیب میں شین پر پیش ہے یعنی شُکیب۔ ہم تو اب تک اسے بالفتح (شین پر زبر کے ساتھ) پڑھتے رہے لیکن شُکیب پہلی بار سنا تو تجسس پیدا ہوا، جسے دور کرنے کے لیے لغات کا جائزہ لیا۔ لغت کے مطابق شین پر پیش ہے نہ زبر بلکہ زیر (بالکسر) ہے یعنی شِکیب۔ فارسی کا لفظ اور مذکر ہے۔ مطلب ہے صبر، تحمل، بردباری۔ اسی سے شکیبائی ہے لیکن یہ مونث ہے۔ داغؔ کا شعر ہے: ضعف نے ایسا بٹھایا اس کی بزمِ ناز میں میں نے یہ جانا مجھے حاصل شِکیبائی ہوئی گزشتہ دنوں ایک صاحبِ علم

محمد حسن عسکری - پیغمبر ادب۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر طاہر مسعود

Bhatkallys Other

محمد حسن عسکر ی اردو کی ادبی دنیا کے سب سے باخبر، بابصیرت اور سب سے متنازع نقاد تھے۔ انھوں نے اردو ادب اور ادیبوں پر جو اثرات مرتب کیے، اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ کہنے کو وہ مردم بیزار اور کم گو، خود کو لیے دیے رہنے والے ادیب تھے۔ لیکن حقیقتاً ایسا نہیں تھا۔ انھوں نے اپنے زمانے کے جن جواں سال ادیبوں کی جس طرح تربیت کی، انھیں اپنا ادبی نقطہ نظر وضع کرنے میں جس طرح فیض پہنچایا، ادب کو کُل وقتی سرگرمی بنانے میں جیسی مدد کی، کوئی شبہ نہیں کہ ایسا ادبی استاد پھر اردو ادب کو میسر نہ آیا۔ ان کے