Search results

Search results for ''


سادھوی پرگیہ پر اتنی مہربانیاں کیوں؟... سہیل انجم

Bhatkallys Other

جب پارلیمانی انتخابات کے دوران بھوپال سے بی جے پی کی امیدوار سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے شہید ہیمنت کرکرے کی شان میں گستاخی کی تھی اور کہا تھا کہ ان کے ’شراپ‘ کی وجہ سے ان کی موت ہوئی اور پھر انھوں نے گاندھی جی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کو دیش بھکت قرار دیا تھا تو اپنی ایک انتخابی تقریر میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ وہ دل سے پرگیہ ٹھاکر کو معاف نہیں کر پائیں گے۔ ان کے علاوہ بی جے پی صدر امت شاہ نے بھی سادھوی کے بیان کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ ان کے خلاف پارٹی تادیبی کارروائی

قوم کو جگانے والا شاعر۔۔۔ اعجاز رحمانی۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Bhatkallys Other

ammuniri@gmail.com یہ ۱۹۸۰ کے موسم سرماکی ایک ٹھنڈی شام تھی، دبی کریک پر واقع عالیشان ہوٹل شیراٹون کے وسیع وعریض ہال میں دبی کی تاریخ کے پہلے عالمی اردو مشاعرے کی محفل سجی تھی،اس میں اس وقت کے برصغیر کے مایہ ناز اور بزرگ شعراء شریک تھے، ان میں کلیم احمد عاجز، حفیظ میرٹھی، جگن ناتھ آزاد، فنا نظامی کانپوری، شاعر لکھنوی، قتیل شفائی، کلیم عثمانی، اقبال صفی پوری، احمد ندیم قاسمی، دلاور فگار، سید اقبال عظیم، جیسے عظیم شاعرحاضر تھے ، یہ مشاعرے کی تاریخ کا ایک ایسا معیاری مشاعرہ تھا، جس کے بعدنہ صرف

خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ ٹڈیوں کی کڑھائی۔۔۔ تحریر: اطہر ہاشمی

Bhatkallys Other

گزشتہ دنوں کراچی پر بھی ٹڈی دل کا حملہ ہوا تو سندھ کے وزیر زراعت نے مشورہ دیا کہ لوگ ٹڈیاں پکڑ کر ان کی بریانی بنائیں، کڑاہی بنا کر کھائیں۔ اُمید ہے کہ انہوں نے خود بھی اس پر عمل کیا ہوگا۔ لیکن لطیفہ یہ ہوا کہ بیشتر اخبارات نے کڑاہی کو ’’کڑھائی‘‘ لکھا۔ ایک اخبار نے درمیان کی راہ نکالی اور ’’کڑائی‘‘ لکھ دیا۔ ہم نے اپنے ساتھی سے پوچھا کہ جب کڑھائی لکھا ہے تو اس کے ساتھ ’’سلائی‘‘ بھی لکھا جائے، کیونکہ عموماً سلائی، کڑھائی ایک ساتھ آتے ہیں، اور ’کڑاہی‘ کا کوئی تعلق ’’کڑھائی‘‘ سے نہیں ہے۔ کڑاہی بڑی

دبئی میں بین الاقوامی اسلامی فقہ اکیڈمی کا ۲۴ واں اجلاس... تحریر: مولانا بدر الحسن قاسمی ۔ کویت

Bhatkallys Other

نئے مسائل کے بارے میں فقہاء امت کا فیصلہ مورخہ ۴، ۵، اور ۶؍ نومبر ۲۰۱۹ء کو دبی میں ‘‘مجمع الفقہ الاسلامی الدولی’’ یا بین الاقوامی فقہ اکیڈمی کا ۲۴واں اجلاس طے تھا جبکہ ۲۲ اکتوبر کو میں ہندوستان آگیا تھا اس لئے دوبارہ پھر ڈھائی ہزار کیلومیٹر سے زائد مسافت طے کرکے دبی جانا پڑا جہاں سے کویت کی مسافت تھوڑی ہی رہ جاتی ہے۔ اجلاس میں مسلم ملکوں کے نمائندوں، مستقل ممبران اور خبراء وخبیرات کی خاصی تعداد شریک ہوتی ہے اور اکیڈمی کے صدر عالیجناب امام حرم شیخ صالح بن حمید اور جنرل سکریٹری ڈاکٹر عبد السلام

کیا رام مندر تعمیر ہونے سے روکا جا سکتا ہے!... ظفر آغا

Bhatkallys Other

نریندر مودی دور حکومت میں ایودھیا معاملے میں جو فیصلہ آ سکتا تھا، ویسا ہی فیصلہ آیا ہے۔ یوں بھی اس سلسلے میں سپریم کورٹ سے اس سے زیادہ توقع ہونی بھی نہیں چاہیے تھی۔ کیونکہ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بابری مسجد کا انہدام بھی سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہی ہوا تھا۔ یاد دہانی کے لیے سنہ 1992 میں بابری مسجد گرائے جانے سے قبل جو واقعات پیش آئے تھے ان کا ذکر یہاں ضروری ہے۔ جب اس وقت بی جے پی کے صدر لال کرشن اڈوانی نے رتھ یاترا پر سوار ہو کر ایودھیا میں کارسیوا پر جانے کا اعلان کیا تو یہ معاملہ

خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ پَل، پِل اور پُل۔۔۔ تحریر: اطہر ہاشمی

Bhatkallys Other

 گزشتہ دنوں کئی اخبارات میں ’’دل کا وال‘‘ شائع ہوا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ لوگ دلوں میں وال یعنی دیوار اٹھا لیتے ہیں، لیکن دل میں بجائے خود کوئی وال یعنی دیوار نہیں ہوتی۔ اصل میں یہ لفظ والو ہے۔ حیرت ہے کہ ہمارے صحافی بھائی اس لفظ سے ناآشنا ہیں، اور اگر بتائیں تو اسے ’’والو‘‘ بروزن آلو اور خالو پڑھتے اور حیران ہوتے ہیں۔ اس والو کا ذکر پانی کی پائپ لائن کے حوالے سے بھی آتا ہے جہاں کوئی والو مین بھی ہوتا ہے۔ اسے بھی ہمارے بھائی وال مین ہی لکھتے ہیں۔ انگریزی کے الفاظ بگاڑے جائیں تو خوشی ہوتی ہے کہ صرف

سچی باتیں۔۔۔ ہمارا عمل کیسا رہا؟--- تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys Other

1925-10-16 ربیع الاول کا مہینہ ختم ہوگیا۔ جس مہینہ میں دنیا کے لئے آخری اور انتہائی پیام لانے والا دنیا میں آیاتھا، اُس کی آخری تاریخ آگئی۔ اب گیارہ مہینے تک پھراسی بابرکت مہینہ کی آمد کا انتظار دیکھنا ہوگا، اور اس درمیان میں خد امعلوم کتنی زندگیاں ختم ہوچکیں گی قبل اس کے کہ دوسروں کو حساب دنیا پڑے ، ذرا آئیے، ہم اور آپ مل کرخود اپنا اپنا حساب لیں۔ ہمارے سرور وسردارؐ  نمازیں بہت کثرت سے پڑھتے تھے، ہم نے اس مہینہ میں کوئی نماز ترک تو نہیں کی؟ فرض نمازوں کے علاوہ، وہ نماز تہجد پابندی واہتمام کے س

خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ سیاق و سباق سے ہٹ کر۔۔۔ تحریر: اطہر ہاشمی

Bhatkallys Other

۔’’سیاق و سباق سے ہٹ کر‘‘۔ یہ جملہ ہمارے جملہ سیاست دانوں اور مقتدر شخصیات کا پسندیدہ بیانیہ ہے۔ ویسے ’بیانیہ‘ کا لفظ بھی اردو میں نیا نیا ہے لیکن خوب رچ بس گیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ جو سیاست دان بیان دینے کے بعد ’’سیاق و سباق سے ہٹ کر‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں اُن میں سے اکثر کو اس کا مطلب معلوم نہیں ہوگا کہ ’سیاق‘ کیا ہے اور ’سباق‘ کا مطلب کیا ہے۔ چاہیں تو پوچھ دیکھیں۔ اور سچی بات یہ ہے کہ ہمیں بھی کب معلوم تھا۔ ہر کس و ناکس کے منہ سے سن سن کر ہمیں بھی جستجو ہوئی۔ سیاق اور سباق (پہلا حرف بالکسر) عربی

سچی باتیں ۔۔۔ صفات حمیدہ اور ہم۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys Other

1925-10-09 کیا آپ اپنے تئیں اُمتِ ’’احمد‘‘ میں کہتے ہیں؟ پھر آپ کو ’’حمدِ‘‘ الٰہی میں مصروف رہنے سے اس قدر گریز کیوں ہے؟کیا آپ ’’محمدؐ‘‘ کے نام کا کلمہ پڑھتے ہیں؟ پھر تو آپ کی حمد عرش وفرش دونوں جگہ ہونی چاہئے تھی، مگر یہ کیا ہے، کہ اس کے برعکس ہر جگہ آپ کے عیب ہی بیان ہورہے ہیں؟ کیا آپ رسولِ’’امین‘‘ کے پیروہی؟ مگر پھر آپ وصفِ امانت وجوہر دیانت سے اس قدر محروم کیسے رہ گئے ہیں؟ کیا آپ ’’رحمۃ للعالمین‘‘ کے نام پر جان نثار کرنے والے ہیں؟ پھر یہ کیاہے کہ غیروں سے تو کیا، خود اپنوں کی طرف سے بھی آپ

بابری مسجد پر مصالحت: یہ ثالثی نہیں ایک سازش تھی! ... راجیو دھون کی تحریر

Bhatkallys Other

(بابری مسجد حق ملکیت مقدمے میں اپنی مخلصانہ اور بے لوث خدمات پیش کرنے والے سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون نے، مقدمہ کی سماعت کے آخری دن مصالحت کی افسوسناک خبر موصول ہونے کے بعد ایک چشم کشا آرٹیکل لکھا ہے اوردوسری مرتبہ کی ثالثی یا مصالحت کے پیچھے کی اصل کہانی پر سے پردہ ہٹایا ہے۔ مقدمے کی حساسیت اور قارئین کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے، اس آرٹیکل کا ترجمہ پیش خدمت ہے) یہ میرا اصول ہے کہ میں جس مقدمہ کی پیروی کرتا ہوں اس پر اس وقت تک کوئی تبصرہ یا اظہارخیال نہیں کرتا جب ت

سچی باتیں۔۔۔ ماہ ربیع الاول کیسے گذاریں؟۔۔۔ تحریر: ،مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys Other

25-09-1925 اگر یہ سوال کیاجائے ، کہ خدائے کریم ورحیم نے اپنی سب سے بڑی رحمت کس مہینہ میں دُنیا پر اُتاری؟ تو اس کے جواب میں ہرشکر گزار بندہ کی زبان سے نکلے گا کہ ماہ ربیع الاول میں، اگر یہ دریافت کیاجائے، کہ نسلِ انسانی کو سب سے بڑی نعمت سال کے کس حصہ میں حاصل ہوئی؟ توا س کے جواب میں بھی ہرمسلمان کی زبان پر ربیع الاول کا نام آئے گا۔ اگر یہ پوچھاجائے کہ دنیا کا سویا ہوا نصیب کس زمانہ میں بیدارہوا؟ تو ایک بار پھر اسی ماہ مبارک کا نام لینا پڑے گا۔ کیا آپ چاہتے ہیں ، کہ اس ماہ مبارک کی یاد دلوں سے

خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ ہر ممالک لکھنا غلط ہے۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی

Bhatkallys Other

خوشی ہوتی ہے جب کوئی بھی اردو کے املا اور صحتِ زبان کے حوالے سے کچھ لکھتا ہے۔ ہمیں بھی سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ 25 اکتوبر کے ایک اخبار میں ایسی ہی ایک کوشش محترم علی عمران جونیر کی طرف سے نظر سے گزری۔ انہوں نے کئی اصلاحات کی ہیں، تاہم ان سے ایک گزارش ہے۔ انہوں نے لکھا ہے ’’ایڈریس کو اردو میں پتا لکھا جاتا ہے جب کہ کچھ نوجوان صحافی ’’پتہ‘‘ لکھتے ہیں‘‘۔ یہاں تک تو بات پتے کی ہے، لیکن آگے لکھتے ہیں ’’پتہ درخت والا پتّہ ہوتا ہے‘‘۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ بھی پتّا ہے، پتّہ نہیں۔ اسی طرح جسم کا ای

سچی باتیں۔۔۔ ماہ ربیع الاول کا تحفہ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys Other

12-10-1925 آپ نے بہت سے بادشاہوں کی سوانح عمریاں پڑھی ہوں گی، بہت سے عالمون کے حالاتِ زندگی دیکھے ہوں گے، بہت سے درویشوں کے ملفوظات کا مطالعہ کیاہوگا، تاریخ وسیرت کی بہت سی کتابیں آپ کی نظر سے گذری ہوں گی، دنیا میں اس فن پر بیشمار کتابیں موجود ہیں، یہ فرمائیے ، کہ دنیا میں کسی فرد بشر کے بھی حالات زندگی، اس تفصیل، اس جامعیت، اس تحقیق کے ساتھ محفوظ ہیں، جیسے عرب کے اُمّی ؐ، دنیا کے سب سے بڑے رہبر کے محفوظ ہیں؟ ہر شخص کی کتاب زندگی کا کوئی نہ کوئی صفحہ ضرور راز کا ہوتاہے، جس پر اُس کے مدّاح سوانح

پاسباں مل جائیں گے کعبہ کواسی صنم خانے سے۔۔۔از: محمد الیاس ندوی بھٹکلی

Bhatkallys Other

ملک کے سنگین حالات کے پس منظر میں دعوت فکروعمل ہمارے ملک میں اندلس کی تاریخ کا ریہرسل :۔آج سے نصف صدی قبل ہی  مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ  نے اپنی نگاہ بصیرت سے اس کی پیشین گوئی کی تھی کہ ہمارے ملک کی سرزمین پر اندلس کی تاریخ دہرانے کی پوری تیاری ہوچکی ہے،اگر مسلمان بالخصوص علماء اپنی فراست کا ثبوت دیتے ہوئے اس آنے والے طوفان بلاخیز پر بند باندھنے کی کوشش نہیں کریں گے اور امتِ مسلمہ کو خوابِ غفلت سے بیدار نہیں کریں گے تو انھیں اپنی آنکھوں سے اس ملک میں اندلس میں اسلامی حکوم

سچی باتیں۔۔۔ ربیع الاول کی آمد۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys Other

18-09-1925 ربیع الاول کا مہینہ آرہاہے،آپ اُس کی پیشوائی کے لئے تیار ہیں؟دنیا میں ہرشے اپنے جوڑ کی چیزیں تلاش کرتی ہے، ہر زوج اپنے زوج کی طلب میں ہے، ہر مخلوق، جاندار ہو یا بے جان، اپنے سے مناسبت رکھنے والی دوسری مخلوقات کی جستجو میں رہتی ہے۔ آفتاب نکلتاہے، تو کاروبار کی چہل پہل، ہنگامۂ عمل، اور قوتوں کی بیداری کو ڈھونڈتاہے۔ رات آتی ہے، تو اُس نے سکون وراحت، غفلت وخاموشی ، آرام وخلوت کی تلاش ہوتی ہے۔ جون کا آفتاب جب طلوع ہوتاہے، تو پنکھے گردش میں آنے لگتے ہیں، اور برف کے پکار ہونے لگتی ہے۔ دسمبر

خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ عربی کے تماشی کا تماشا۔۔۔ تحریر: اطہر ہاشمی

Bhatkallys Other

آج کل ہر طرف ایک تماشا لگا ہوا ہے۔ اور آج کل کیا، تماشا کب نہیں ہوتا! ایک شاعر نے اپنی غزل میں سوال بھی کیا ہے کہ ’’یہ تماشا ختم کب ہوگا؟‘‘ تماشا کو اخبارات ’’تماشہ‘‘ بھی لکھ دیتے ہیں۔ شاید اس طرح تماشے کی شدت یا اہمیت کم کرنا مقصود ہو۔ لیکن یہ تماشا عربی سے آیا ہے اور عربی میں یہ ’تماشی‘ ہے۔ اس کا مطلب ہے باہم مل کر پیدل چلنا۔ فارسی والوں نے اسے تمنا، تقاضا کے مثل تماشا کرلیا۔ چونکہ سیر و تفریح کے مقام پر اکثر پا پیادہ ہی چلتے ہیں یا چلتے تھے بشرطیکہ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر نہ ہوں۔ بہرحال اس طر

حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر سید عزیز الرحمن۔۔۔ مدیر تعمیر افکار

Bhatkallys Other

یہ ایک درس گاہ کا منظر ہے، بخاری شریف کا درس جاری ہے، استاذ محترم کے پاس دوران درس سوالات کی پرچیاں آتی ہیں، ایک پرچی پڑھتے ہی چہرے پر مسکراہٹ بکھر جاتی ہے، قدرے سیدھے ہوکر بیٹھتے ہیں اور اپنے مخصوص لہجے میں کہتے ہیں: ”مولوی صاحب !یہ پرچی جن صاحب نے بھیجی ہے اور جو بھاری بھرکم سوال کیا ہے، انہیں اگر میں کہوں کہ آپ کے سامنے کھڑے ہوجائیں تو آپ سب ہنس پڑیںگے“۔ اور یہ کہہ کر آپ خود ہنس پڑے۔ پھر مولانا وسیم راﺅ کی جانب اشارہ کرکے فرمایا! ”مولوی صاحب کھڑے ہوجائیے“۔ وہ تو سر جھکاکر کھڑے ہوگئے اور پ

خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ بغیر حلوے کے پوری۔۔۔تحریر: اطہر ہاشمی

Bhatkallys Other

ہم کیا اور ہماری بساط کیا، بڑوں کی غلطیاں پکڑ کر بڑا بننے کا شوق ہے۔ لیکن بڑوں کی غلطی چھوٹوں کے لیے سند بن جاتی ہے۔ ہمارے کچھ ساتھی تواتر سے ’’خانہ پوری‘‘ لکھتے ہیں۔ نظر پڑ جائے تو ٹھیک کروا دیتے ہیں۔ ایسے ہی ایک نوجوان ساتھی جمعہ 11 اکتوبر کا جسارت لے کر بیٹھ گئے جس کے ادارتی صفحے پر ایک بہت بڑے کالم نگار نے اپنے مضمون میں کئی جگہ ’’خانہ پوری‘‘ لکھا ہے، اور یہ کمپوزنگ کی غلطی بھی نہیں ہے۔ ان کے لکھے کو ’’مستند‘‘ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نوجوان ساتھیوں میں سے جب کوئی ’’خانہ پوری‘‘ لکھتا ہے تو ہم ا