Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















سچی باتیں ۔۔۔ وقت کی قدر وقیمت۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
وقت کی قدر وقیمت آپ اگر امیر ہیں، تو اپنی اشرفیوں، اور اگر غریب ہیں تو اپنے پیسوں کو کس قدر عزیز رکھتے ہیں! ہر سکّہ کو آپ صرف اسی وقت صرف کرنا چاہتے ہیں ، جب اس کے معاوضہ میں آپ کو کسی خاص لذت یا نفع کی امید ہوتی ہے، لیکن خدا کی دی ہوئی اس بڑی نعمت، اور فطرت کی بخشی ہوئی اس بڑی دولت ، کا بھی کبھی آپ نے حساب کتاب رکھاہے، جس کا نام ’’وقت‘‘ ہے؟ آپ کو یہ معلوم ہے کہ آج جو کچھ بھی آپ کررہے ہیں، سب ’’وقت‘‘ ہی کے اندر ہورہاہے۔ پس اس کے معنی یہ ہیں، کہ آپ کو وقت ہی کے ہر جزئیہ ، ہر ساعت، ہر منٹ
سچی باتیں۔۔۔ اصل آزادی کیا ہے؟۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
سچی باتیں (۲۷؍مارچ ۱۹۲۵ء) 2-Ramadan-1343 اصل آزادی کیا ہے؟ آپ کے دل میں اپنے کسی بزرگ خاندان، استاد، عالم، فقیر، دوست، عزیز، قومی رہبر، مذہبی پیشوا، غرض کسی زندہ یا مردہ شخص کی عزت وعظمت ہے؟ کسی نہ کسی شخص کی یقینا ہوگی۔ اگر ہے تو اپنے دل میں ذرا غور کیجئے ، کہ کس بناپرہے؟ کیا اس بناپر، کہ وہ شخص لباس بہت قیمتی پہنتاہے؟ کیا اس لئے کہ وہ کھانا بہت لذیذ کھاتاہے؟ کیااس بنیاد پر، کہ اس کے پاس روپیہ بہت سا جمع ہے؟ کیا اس لئے کہ اس کے پاس نوکر چاکر بہت سے ہیں؟ کیاس لئے، کہ وہ اپنی دو
خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ کھڑاووں کی تخریب کاری۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی
اردو میں استعمال ہونے والے بعض الفاظ مرکب ہوتے ہیں، یا یوں کہیے کہ جوڑا ہوتے ہیں مثلاً زرِتلافی، جوارِ رحمت، مرض الموت وغیرہ۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ ان میں دوسرا لفظ چونکہ مؤنث ہے اس لیے ہمارے صحافی بھائی اس کا لحاظ رکھتے ہوئے پہلے کو بھی مؤنث بنادیتے ہیں، مثلاً ’’زرکی تلافی‘‘، ’’اپنی جوارِ رحمت‘‘، ’’اپنی مرض الموت‘‘ وغیرہ۔ جبکہ مذکر مؤنث کا تعلق پہلے لفظ سے ہے۔ اس کا آسان سا طریقہ یہ ہے کہ ترکیب کو الٹ کر دیکھ لیں، مثلاً تلافی کا زر، رحمت کا جوار، موت کا مرض وغیرہ۔ ایسے ہی ’’اپنے زیر نگرانی‘‘ پ
جگر مرادآبادی حضرت تھانوی کے دربار میں۔۔۔۔ تحریر: مولانا ازہر شاہ قیصر
جگر مرادآبادی حضرت تھانوی کے دربار میں ابن الانور ازہرشاہ قیصر سابق مدیر مجلہ دارالعلوم دیوبند حضرت جگر مرادآبادی اپنی زندگی کے ایک بڑے حصہ میں ایک رند لا ابالی اورشاعر بادہ بد مست رہے ہیں، خود انہوں نے اس دور میں کسی دینی اجتماع میں اپنی شرکت کے موقع پر کہا تھا۔ ہر طرف غل ہے کہ وہ آیا جگر بادہ پرست اثر نشۂ صہباسے سراپا بدمست شعر حافظ بزبان جام بکف شیشہ بدمست بے خبر از ہمہ عالم چہ بلند است و چہ پست شرر مستانہ کہاں اور سخن و وعظ کہاں آج یہ رند کہاں اور انجمن وعظ کہا
سچی باتیں۔۔۔ حق آپ کا رفیق وساتھی کب بنے گا؟ ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
اگر آپ اپنے تئیں مسلمان کہتے اور سمجھتے ہیں، تو اس لفظ کا مطلب بھی سمجھ لیجئے۔ مسلمان وہ ہے جو خداکا، اور صرف خداکا فرماں بردارہو۔ کسی مسلمان کے گھر میں پیداہوجانے ، یا مسلمانوں کا سا نام رکھ لینے سے کوئی مسلمان نہیں ہوجاتا۔ خدا کے حکم وہ ہیں، جو قرآن پاک کے ذریعہ سے ہم تک پہونچے ہیں، اور جن کو پوری طرح برت کر رسول خداﷺ نے اپنی زندگی میں دکھادیا۔ پس مسلمان وہی ہے جو خدا کے بتائے ہوئے رستہ پر چلے، اور اس کے جاننے کے ذریعے صرف دوہیں۔ ایک قرآن پاک کے الفاظ، دوسرے رسولؐ کا عمل۔ اپنی زندگی کی ہر ب
خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ تبصَرہ یا تبصِرہ۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی
اعجاز رحمانی مرحوم بہت اچھے شاعر ہی نہیں تھے، زبان پر بھی بھرپور عبور تھا۔ ایک مشاعرے میں وہ بڑے اصرار سے ’تبصرہ‘ کہہ رہے تھے، یعنی تیسرا حرف بالکسر (تبصِرہ)۔ انہوں نے بار بار یہ لفظ دوہرایا، اور مزے کی بات یہ ہے کہ جو حضرات بڑھ چڑھ کر داد دے رہے تھے، خاص طور پر معلن، وہ مصرع اٹھاتے ہوئے ’’تبصَرہ‘‘ یعنی ’ص‘ پر زبر کہہ رہے تھے (بروزن تذکرہ)۔ استاد کے منہ سے ’تبصِرہ‘ سن کر لغت دیکھنے کا خیال آیا کیونکہ ہم بھی تبصَرہ ہی کہتے تھے۔ لغت میں وہی ہے جو اعجاز رحمانی کہہ رہے تھے۔ عام طور پر لوگوں کے منہ
مولانا سراج الحسن ۔ ایک مخلص رہنما کی جدائی۔۔۔ تحریر :ابو صفا ۔ بھٹکل
آج ۲ ؍اپریل ۲۰۲۰ ء کی سہ پر کو خبر آئی کہ مولانا سراج الحسن صاحب نے داعی اجل کو لبیک کہا، ابھی جنوری میں ڈاکٹر سعد بلگامی صاحب ۔ امیر حلقہ کرناٹک سے ملاقات میں معلوم ہوا تھا کہ وہ گر گئے ہیں ، اور ان کی کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے، اور وہ اس حالت میں نہیں ہیں کہ رائچور سے بنگلور کسی ترقی یافتہ اسپتال میں منتقل کرکے ان کا علاج کیا جائے ، اسی وقت ذہن ٹھٹھک کر رہ گیا تھا اور ایک انجانا سا خوف دل ودماغ پر طاری ہوگیا تھا۔ کیونکہ وہ اٹھاسی سال کی عمر میں تھے، اور کچھ عرصہ سے پیرانہ عمری کی وجہ سے صاحب ف

کورونا سے پہلے بُھکمری مار ڈالے گی... سہیل انجم
’’کورونا سے بڑا خطرہ بھوک ہے۔ اگر کورونا سے بچ بھی گئے تو بھوک نگل لے گی‘‘۔ یہ اور ایسے جملے آج کل ان مزدوروں کی زبانی سننے کو مل رہے ہیں جو دہلی، ممبئی، کولکاتا، چنئی اور ایسے ہی دوسرے شہروں سے بے یار و مددگار اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے پر مجبور ہیں۔ وہ یو پی، بہار بنگال سے اپنے گھر چھوڑ کر ان شہروں میں اس لیے آئے تھے کہ اپنے اور اپنے خاندان کے پیٹ کی آگ بجھا سکیں گے۔ محنت مزدوری کریں گے۔ چند پیسے ملیں گے اور دو نوالے حلق کے نیچے اتریں گے۔ لیکن 21 روزہ لاک ڈاؤن نے ان کی زندگی کو ہی لاک ڈاؤن
خدارا گھر بیٹھیے، ورنہ اللہ حافظ!... ظفر آغا
دلوں میں دہشت، آنکھوں میں وحشت، دماغوں میں خوف، سڑکوں پر ہُو کا عالم، اسپتالوں میں ملک الموت کا سایہ، دکانیں بند، بازار خالی، سامانوں کی قلت، ریل گاڑیاں معطل، ہوائی جہاز ہوائی اڈوں پر خاموش کھڑے... بس چرند و پرند کی آوازیں اس سناٹے میں زندگی کا احساس دلاتیں۔ باقی تو یہ جانیے کہ سارے عالم پر موت کا سایہ طاری ہے۔ انسان ایسا بے بس کہ شاہ و گدا سب لاچار۔ برطانیہ کے شہزادے پرنس چارلس اور وہاں کے وزیر اعظم کورونا کے شکار۔ کینیڈا کے صدر سب سے الگ تھلگ۔ امریکہ پر اس وقت کورونا کا قہر عروج پر ہ
خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ قرنطینہ کہاں سے آیا۔۔۔ تحریر: اطہر ہاشمی
آج کل ہر جگہ ’’قرنطینہ‘‘ کا چرچا ہے۔ بعض لوگوں کا گمان ہے کہ یہ عربی کا لفظ ہے جو انگریزی میں کورنٹائن ہوگیا ہے۔ شاید اس کی وجہ قرنطینہ میں ’ق‘ اور ’ط‘ کی موجودگی ہے۔ ’ط‘ عام طور پر عربی کے الفاظ میں استعمال ہوتا ہے۔ تاہم قرنطینہ عربی سے نہیں آیا۔ یہ اطالوی زبان کا لفظ ہے اور اس کی اصل QUARANTINA ہے جو QURANTA سے ماخوذ ہے۔ اس کا مطلب ہے چالیس۔ ابتدا میں قرنطینہ کی مدت 40 دن ہوتی تھی۔ اب یہ مدت بیماری کی نوعیت پر منحصر ہے۔ یورپ کی بیشتر زبانوں میں یہی اطالوی لفظ تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ مستعمل
خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ ’’کے حوالے سے’’ غلط ہے۔۔۔ تحریر: اطہر ہاشمی
ماہرِ لسانیات محترم پروفیسر غازی علم الدین نے ’’ہمارے حوالے سے‘‘ گرفت کی ہے۔ وہ اس سے پہلے بھی توجہ دلا چکے ہیں، لیکن جس طرح ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں غلطیاں پختہ ہوگئی ہیں، اسی طرح شاید ہم بھی پختہ ہوچکے ہیں۔ تاہم پروفیسر صاحب کا شکریہ واجب ہے اور آئندہ خیال رکھیں گے۔ وہ میرپور آزاد کشمیر سے لکھتے ہیں کہ ’’آج فرائیڈے اسپیشل کے کچھ پرانے شمارے دیکھ رہا تھا۔ ’’خبر لیجے زباں بگڑی‘‘ میری دل چسپی کا کالم ہے۔ آپ کی قابلِِ قدر تحریروں میں کہیں کہیں ’’کے حوالے سے‘‘ کا استعمال میرے نزدیک
اہل علم کی محسن کتابیں۔۔۔۱۳۔۔۔ مولانا شاہ حلیم عطا سلونی
مولانا شاہ حلیم عطاسلونی ولادت: سلون،(ضلع رائے بریلی،یوپی) ۱۳۱۱ ھ،مطابق ۱۸۹۳ھ سلون کے مشہور خانوادہ کریمیہ کے قابل فخر فرزند تھے۔ تین سو سال سے خانقاہ کریمیہ آباد ہے۔ نسلاً آپ فاروقی تھے۔ آپ نے اپنے چچا شاہ حسام عطا کے زیر تربیت پرورش پائی اور اپنے برادر بزرگ مولانا شاہ نعیم عطا صاحب سے علم حدیث کی تحصیل کی، مولانا شاہ حلیم عطا عبقری ذہن و دماغ کے مالک تھے، آپ قوت حافظہ، وسعت مطالعہ، کثرت معلومات اور علمی استحضار میں دور حاضر کی زندہ مثالوں میں تھے،گویاچلتی پھرتی لائبریری تھے۔علم و مطالع
خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ کِلکل یا کَل کَل؟۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی
انور شعور بہت اچھے شاعر ہی نہیں، زبان و بیان پر بھی پورا عبور رکھتے ہیں۔ ایک اخبار میں روزانہ قطعہ لکھتے ہیں، اور یہ کوئی آسان کام نہیں۔ جمعرات 5 مارچ کو ان کا قطعہ پڑھا جس کا ایک شعر تھا:۔ فقط مہنگائی سے ہے گھر میں کل کل میاں بیوی میں ناچاقی نہیں ہے گھروں میں جو کل کل ہورہی ہے اس کی وجہ مہنگائی ہی ہے۔ تاہم ’کل کل‘ کے دونوں کاف پر بڑے اہتمام سے زبر لگایا گیا ہے یعنی بروزن دلدل۔ ہم سمجھے کہ اپنی قابلیت جھاڑنے کا موقع مل گیا کہ کِل کِل کے دونوں کاف بالکسر ہیں اور زبر لگانے کا سہو
پاکستان جاگیرداری نظام کے چنگل میں۔۔۔ آصف جیلانی
بہت کم لوگ اس بات پر یقین کریں گے کہ جاگیر دارانہ نظام کی تاریخ 5ہزار سال پرانی ہے۔ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اس استیصالی نظام کا آغاز اولین انسانی تہذیب کے مرکز، جنوبی عراق میں 2750 سال قبل مسیح ہوا تھا۔ جنوبی عراق اس زمانے میں URUK کہلاتا تھا۔ فرات اور دجلہ کے درمیانی علاقے میں سمیری بادشاہوں کی حکمرانی تھی جنہوں نے اس علاقے میں بارہ شہر بسائے تھے۔ اس علاقے کا دیو قامت بے حد طاقت ور بادشاہ گلگ میش تھا جس نے اپنے شہر کے اردگرد چھ میل لمبی دیوار تعمیر کی تھی۔ عوام کے دفاع اور تحفظ کے اس اقدام ک
سچی باتیں۔۔۔ شادی کی رسومات۔۔۔تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
1925-02-20 آپ کو اپنے خاندان ، وطن، اور برادری کی شادیوں میں شرکت کا بارہا موقع ملاہوگا۔ آپ نے کبھی یہ خیال کیا، کہ مسلمان لڑکے یا لڑکی کی شادی کا یہی طریقہ ہوناچاہئے؟ آپ کے رسول مقبولؐ، حبیب کبریا، جنہیں ہمارے اورآپ کے عقیدے میںد ونوں جہاں کی عزت ودولت، سرداری وبادشاہی سب کچھ حاصل تھی، بن بیاہے نہ تھے، باقی سب نکاح مرتبۂ رسالت پر فائز ہوچکنے کے بعد ہی کئے تھے، مگر حضورؐ کے کسی نکاح میں وہ دھوم دھام، وہ طویل سلسلۂ رسوم، اور وہ جشن منایاگیا ، جسے آج ہم میں سے ہرمعمولی شخص بھی شادی کے وق
خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ بنات النعش کا ثریا سے عقد منسوخ۔۔۔ اطہر علی ہاشمی
گزشتہ شمارے میں بنات النعش کے حوالے سے امریکہ سے جناب کمال ابدالی نے نہ صرف معلومات میں اضافہ کیا بلکہ بنات النعش کا ایک نام عقد ثریا لکھنے پر اس سے اختلاف کیا ہے۔ ان کی بات صحیح ہے، لیکن اس میں ہمارا قصور نہیں۔ اس مغالطے میں مولانا غلام رسول مہر (مرحوم) نے ڈالا ہے۔ انہوں نے دیوانِ غالب کی شرح میں غالب کے بنات النعش گردوں والے شعر کی تشریح کرتے ہوئے اس کا ایک نام عقد ثریا لکھا ہے۔ ہم نے اس پر اعتبار کیا، ورنہ اردو کی لغات میں بنات النعش اور عقد ثریا الگ الگ ہیں۔ لغت کے مطابق عقد ثریا میں 6 ستا
سچی باتیں۔۔۔ ماہ رجب کی رسومات ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
13-02-1925 اسلامی دنیا میں یہ مہینہ رجب کے نام سے موسوم ہے ، ایک ضعیف روایت یہ پھیلی ہوئی ہے کہ رسول خدا ﷺ کی معراج مبارک اسی مہینہ میں ہوئی تھی۔ بہت سے مسلمان اس روایت کو مان کر ، اس مہینہ میں طرح طرح کی خوشی کرتے ، اور بہت سی رسمیں بجا لاتے ہیں۔ اول تو یہ روایت ہی ثبوت کو نہیں پہنچی ہے، لیکن جو لوگ اس کے ماننے ہی پر زور دے رہے ہیں ، ذرا وہ اپنے دل میں سوچیں، کہ اس کے ماننے کے بعد خوشی منانے کا کیا طریقہ ہونا چاہئے۔ آیا وہی جس کے وہ عادی ہیں ، یا کچھ اور ! ایسا نہ ہو کہ ہم خوشی منانے کا کوئی
لفظ کمال کا کمال۔۔۔ تحریر: آصف جیلانی
یکم دسمبر 1965کو جب میرا بی بی سی لندن کی اردو سروس سے رشتہ استوار ہوا تھا تو اُس وقت زبان کے لحاظ سے امجدعلی صاحب اور خالد حسن قادری صاحب نہایت مقتدر ماہر مانے جاتے تھے جن سے میں نے براڈکاسٹنگ کے ہنر کے علاوہ زبان کے معاملہ میں بھی فیض حاصل کیا۔ شام کو پروگرام سے فارغ ہوکر کینٹین میں خالد حسن قادری صاحب کے ساتھ بیٹھ کر اردو کے الفاظ کے جادو اور اسرار و رموز پر گفتگو رہتی تھی اور بات سے بات نکلتی تھی۔ ایک شام پروگرام میں مارک ٹلی کے تبصرے کے بارے میں میں نے کہا کہ بڑے کمال کا تبصرہ تھا۔ قادری ص