Search results

Search results for ''


مذہب اور قومیت۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys Other

یہ تقریرلکھنئوریڈیواسٹیشن سےجولائی1951ءمیں نشرہوئی،اس میں مولانا نے مذہب اورقومیت کے صحیح حدود بڑے توازن کے ساتھ بیان کیے ہیں، اورایک ایسےلائحہ عمل کی طرف نشان دہی کی ہے جس پرچل کربلاکسی تشویش اورذہنی اضطراب کے اچھی زندگی کامیابی سے گذاری جاسکتی ہے۔ڈاکٹر زبیر احمد صدیقی -------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- "لڑکوں اورنوجوانوں کے لیے توخیرسنی سنائی ہے، لیکن آج کے بڑے بوڑھوں کے لیے 1919ء کی تحریک خلافت وترک موالات آنک

عید الفطر کا پیغام۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابابادی رحمۃ اللہ علیہ

Bhatkallys Other

لکھنوریڈیواسٹیشن کی دعوت پرکی گئی ، مولانا مرحوم کی15  منٹ کی یہ تقریر 13نومبر 1939ءکونشرکی گئی۔اس میں قرآن وحدیث کی روشنی میں عیدالفطر کی خصوصیات کااحاطہ لکھنوی سلیس روزمرہ میں کیاگیاہے۔ اللہ اکبر اللہ اکبر لاالٰہ الّااللہ واللہ اکبراللہ اکبر ولِلّٰہ الحمد!آپ نے سنا، یہ ہرمحلّہ سے اورہرگوشہ سے، ہرسڑک سے اورہرچوراہے سے تکبیرکی آوازیں کیسی چلی آرہی ہیں، گویا خدائے واحد کا کلمہ پڑھنے لگے ریت کے ذرّے اورخاک کے بگولے، اوراپنے رب کانام جپنے لگے مکانوں کے درودیواراوردرختوں کے برگ وبار!آپ نے دیکھا یہ

سچی باتیں۔۔ عید کی خوشیوں کے اصلی حقدار۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys Other

1927-03-28 عید آرہی ہے۔ آپ کے بچّے (خدا آپ کا سایہ اُن کے سروں پر عرصے تک قائم رکھے) خو ش ہورہے ہیں، کہ نئے نئے رنگین کپڑے پہننے کو ملیں گے، طرح طرح کی مٹھائیاں اور اچھے اچھے کھانے کھانے میں آئیں گے اور عیدگاہ میں نئے نئے کھلونے خرید کریں گے۔ آپ کو اپنے بچوں کی خوشیاں مبارک۔ لیکن یہ بھی کبھی آپ نے سوچاہے، کہ اِن مٹھائیوں اور کھانوں کی لذت کے لَمحوں تک، اور کپڑوں اور کھلونوں کی خوشی کتنی دیر تک قائم رہ سکتی ہے؟ کپڑے مَیلے ہوں گے، کھلونے ٹوٹیں گے، اور مٹھائیاں حلق کے نیچے اُتر جائیں گی۔ اپن

خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ زبان کی کساد بازاری۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی

Bhatkallys Other

اردو سیکشن میں دیکھیں  آج کل ایک نیا املا پڑھنے میں آرہا ہے مثلاً بلکل، کلعدم، بلخصوص، بلیقین وغیرہ۔ ایک بینک کے بڑے سے اشتہار میں بھی ’’بلکل‘‘ پڑھا۔ یہ کیا لاعلمی ہے، املا آسان کیا جارہا ہے، یا دانستہ بگاڑا جارہا ہے؟ برسوں سے جو املا رائج ہے اسے بدلنے کی شعوری کوشش کی جارہی ہے؟ شاید یہ وجہ ہوکہ بچے ’بالکل‘ کو ’’بال۔ کل‘‘ پڑھتے ہیں۔ عربی حروف کا املا بدلنے کی کوشش رشید حسن خان نے کی تھی جن کا ایک مقصد تھا۔ انھوں نے ’اعلیٰ‘ کو ’’اعلا‘‘ اور ’ادنیٰ‘ کو ’’ادنا‘‘ کردیا، اور اب کہیں کہیں یہ استعمال می

علمائے سلف (۲) افلاس ۔ تحریر مولانا حبیب الرحمن خان شروانی

Bhatkallys Other

    انسان کا حوصلہ پست کرنے والی اور ہمت کی کمر توڑ دینے والی دنیا میں کوئی چیز غالباً افلاس سے بڑھ کر نہیں ہے۔ مفلسی میں پھنس کر آ دمی عزم کا استحکام اور ارادے کی استواری بالکل کھو بیٹھتا ہے، اور دل و دماغ کی شگفتگی جو تمام بلند خیالیوں کا سر چشمہ ہے قطعاً معدوم ہو جاتی ہے۔ اگر ایک سر سبز چمن کی سیرابی کے سارے ذرائع مسدود کردیے جائیں تو وہ مایۂ بہجت سراپا وحشت بن جائے گا ، اور ظاہر ہے کہ جس چمن کے نشو نما یافتہ گلبن جل ہَیزُمِ خشک ( ہَیزُم خشک : سوکھی لکڑی ، جلانے کی لکڑی ۔ ( نوراللغات) ) ہو

شیخ الحدیث حضرت مولانا سعید احمد پالنپوری کا حادثہ وفات۔۔۔۔ نایاب حسن

Bhatkallys Other

مضمون اردو سیکش میں ملاحظہ فرمائیںانگلیاں فگار اپنی،خامہ خوں چکاں اپنا (استاذِ محترم کی یاد میں) نایاب حسن دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور کئی نسلوں کے معلم و مربی ،استاذ الاساتذہ حضرت مفتی سعید احمد پالنپوری آج صبح قضائے الہی سے وفات پا گئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ دل مغموم ہے ،آنکھیں نم ہیں،ذہن پر رنج و غم کے بادل منڈلا رہے ہیں ۔ میں نے ان کی وفات کی خبر قدرے تاخیر سے دیکھی اور دیکھتے ہی ان سے منسوب زمانۂ طالب علمی کی کتنی ہی یادیں ذہن کے پردے پر جھلملانے لگیں ۔ کیا شگفتہ و شاندار انس

سچی باتیں۔۔۔ اولاد کی تربیت۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys Other

 1925-05-08 اولاد کی تربیت اگرآپ خود صاحب اولاد ہیں، یا آپ کے کسی عزیز یا دوست کی اولاد آپ کی نگرانی میں ہے، توآپ نے کبھی ان کی تربیت کی طریقوں پر غور فرمایاہے؟ آپ نے کبھی اندازہ کیاہے، کہ اس سے کتنی اہم ذمہ داریاں آپ پر عائد ہوتی ہیں؟ اور یہ کہ آپ ان ذمہ داریوں کو کس حد تک پوراکررہے ہیں؟ ان بچوں کی آئندہ زندگیوں کا بننا یا بگڑنا، سنورنا یا اُجڑنا، ایک بڑی حد تک آپ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ ہر بچہ دنیا میں فطرت سلیم کے ساتھ قدم رکھتاہے، اس کو سیدھی راہ سے ہٹاکر غلط راستوں پر ڈالنے والے عمومً

جسٹس دیپَک گپتا کی کھری کھری باتیں... سہیل انجم

Bhatkallys Other

ایک وقت تھا جب ہندوستانی عدلیہ کو بہت وقار حاصل تھا۔ اس کی ایمانداری کی قسمیں کھائی جاتی تھیں۔ لیکن رفتہ رفتہ اس کا وقار گرتا چلا جا رہا ہے۔ حالانکہ اب بھی عوام کو ملک کے آئینی اداروں میں سے کسی پر اگر سب سے زیادہ بھروسہ ہے تو وہ عدلیہ ہی ہے۔ جب بھی کوئی تنازع ہوتا ہے تو لوگ یہی کہتے ہیں کہ میں تمھیں عدالت میں دیکھ لوں گا۔ وہ عدالت جاتے بھی ہیں۔ لیکن اس حقیقت کے باوجود عدالتوں پر عوام کا اعتبار اب پہلے جیسا نہیں رہ گیا۔  جب سے مرکز میں بی جے پی کی قیادت میں حکومت قائم ہوئی ہے ای

سچی باتیں۔۔۔ رسول خدا ,ﷺ کی زندگی کا مرکزی نقطہ۔۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys Other

1925-05-01 سیرت نبوی سے متعلق کوئی سی کتاب اُٹھالیجئے، اور اس کے مطالعہ کے بعد یہ سوچئے ، کہ رسول خدا ﷺ کی زندگی کا مرکزی نقطہ کیاتھا؟ سب سے زیادہ عزیز حضورؐ  کو کون سے شے تھی؟ سب سے زیادہ محبوب مشغلہ حضورؐ کا کیا تھا؟ اس کے جواب میں صرف ایک شے آپ کو ملے گی۔ ’’عبادت الٰہی‘‘ شب روز میںکتنی زائد نمازیں آپ پڑھتے تھے، رات کو کس ذوق وشوق کے ساتھ باربار بیدار ہوکر آپ نماز ومناجات میں مصروف ہوجاتے تھے، ہر سال اور ہرمہینے کتنے روزے آپ لگاتار رکھاکرتے تھے۔ صدقات وخیرات دینے پر آپ ہر وقت کیسے آمادہ

خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ ۔’’بے ڑا‘‘ اٹھانا ممکن نہیں۔۔۔ از : اطہر علی ہاشمی

Bhatkallys Other

بچے ہر عہد کے چالاک ہوتے ہیں، اپنے عہد کے اعتبار سے۔ بچوں کا ایک رسالہ ’ساتھی‘ ہے جس میں ہم کبھی کبھی بچوں کی تحریروں کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک بچے کا خط آیا ہے کہ ’’آپ ہمیں تو سمجھاتے ہیں کہ لالچ مذکر ہے، لیکن فرائیڈے اسپیشل میں ایک بڑے ادیب اور استاد اپنے مضمون میں لکھتے ہیں ’’جنت کی لالچ‘‘۔ آپ کا زور ہم ہی پر چلتا ہے‘‘۔ لالچ مونث ہونے کی دلیل بچے اس محاورے سے دیتے ہیں ’’لالچ بری بلا ہے‘‘۔ اس میں تو صاف صاف بری بلا کہا گیا ہے تو یہ مذکر کیسے ہوگیا! لیکن بری کی صفت ’لالچ‘ کے لیے نہیں ’ب

کورونا وائرس کی وبا اور ماہِ رمضان ۔۔۔از: محمد تعظیم قاضی

Bhatkallys Other

کرونا وائرس کے پنجے ہر طرف نظر آرہے ہیں۔دنیا کا ہر ملک اس کی سفاکیت کا شکار ہے۔ اس موذی وبا نے جہاں ہر عام و خاص کو پریشان کر رکھا ہے، وہیں اس نے مسلمانوں کو بھی کئی محرومیوں سے دوچار کردیا۔ پوری دنیا کے مسلمانوں کی طرح ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے بھی یہ رمضان گزشتہ رمضان کی طرح نہیں رہا۔ اس ماہ مبارک کی رونقیں مدھم ہوگئیں۔عبادت کا جوش وخروش اور روشن چہرے کہیں روپوش ہوگئے۔ بابرکت محفلیں، مساجد و مدارس میں گونجتی تلاوت کی صدائیں کہیں مفقود ہوگئیں۔ ہنستے مسکراتے چہرے اب آسودگی اور تفک

خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ نقص امن نہیں نقض امن۔۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی

Bhatkallys Other

بعض غلط العوام الفاظ اردو میں اس طرح جم کر بیٹھ گئے ہیں کہ صحیح ہونے ہی میں نہیں آرہے۔ ان ہی میں سے ایک لفظ ’’اژدہام‘‘ ہے۔ گزشتہ دنوں یہ اژدہام جسارت میں بھی نظر آیا۔ اصل لفظ ’ازدحام‘ ہے اور یہ عربی کا لفظ ہے۔ عربی میں ’ژ‘ نہیں ہوتی۔ جانے یہ لفظ کیسے فارسی زدہ ہوگیا۔ غلط العوام اور غلط العام کا فرق تو قارئین جانتے ہی ہیں۔ غلط العام فصیح ہوتا ہے، اور یہ وہ ہے جسے ہر خاص و عام، پڑھا لکھا اور ناخواندہ ایک ہی طرح سے بولے یا لکھے۔ اور غلط العوام وہ ہے جسے عام لوگ غلط بولیں اور لکھیں، مگر پڑھے لکھے ل

امیروں کی بھلائی غریبوں کی پٹائی! واہ بھئی واہ...سہیل انجم

Bhatkallys Other

موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ غریبوں کی سرکار ہے اور غریبوں کے لیے پلاننگ اور منصوبہ بندی کرتی ہے۔ وزیر اعظم بار بار اپنی تقریروں میں عوام کو مائی باپ بتاتے ہیں اور انھیں منتخب کرنے کے لیے ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ لیکن حکومت بار بار اپنے اقدامات سے یہ ثابت کرتی رہتی ہے کہ وہ غریبوں کی نہیں بلکہ امیروں کی سرکار ہے۔ انھی کے بارے میں سوچتی ہے اور انھی کے لیے پلاننگ اور منصوبہ بندی کرتی ہے۔  دور مت جائیے ابھی حال ہی میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ اس نے نیرو مودی، میہول چوکسی اور وجے مالی

سچی باتیں۔۔۔ شب قدر کی اہمیت۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys Other

2020-04-25 اس ماہ مبارک میں ایک شب مبارک ایسی آتی ہے ، جسے خدائے پاک نے ہزار مہینوں سے بہتر فرمایا ہے، اور رسول خداؐ نے جس کی برکتوں اور فضیلتوں کی بہت سی تفصیل بیان کی ہے۔ یہ رات ، ماہ رمضان کے آخری عشرہ کی کسی طاق رات (یعنی اکیسویں، تیئسویں، پچیسویں، ستائیسویں، یا انتیسویں) کو واقع ہوتی ہے۔ لوگ ا س کی بزرگیوں اور برکتوں سے کی تفصیلات سے واقف ہیں، اس لئے ان کے دوہرانے کی ضرورت نہیں۔ سوال صرف یہ ہے، کہ خود ہم میں اس مبارک رات، شب قدر ،کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے کی صلاٰحیت کہاں تک موجود ہے؟یہ ر

علمائے سلف (۱) طلب علم ۔ تحریر مولانا حبیب الرحمن خان شروانی

Bhatkallys Other

طلب علم    علماے سلف کے جن حالات سے ہم بحث کرنا چاہتے ہیں ان میں طلب علم کو سب سے اول ہم نے قائم کیا ہے ۔ اہلِ علم کی زندگی کے مختلف مدارج ہیں ۔یہ منزل سب سے پہلی ہے اور یہ تقدم نہ صرف بلحاظ زمانے کے ہے بلکہ باعتبار اہمیت اور شان کے بھی ، کیوں کہ یہی وہ منزل ہے جو اس بات کا فیصلہ کردیتی ہے کہ کون منزل مقصود تک پہنچے گا اور کون حرماں نصیب ہوگا۔ ایک عالم کا ذکر آپ آگے پڑھیں گے کہ ایک شب اپنے دو طالب علموں کو انھوںنے دیکھا کہ ایک تکیہ کا سہارا لیے کتاب دیکھ رہا تھا ،دوسرا دوزانوں مستعد مطالعے می

خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ بمعہ اہل و عیال کے ساتھ۔۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی

Bhatkallys Other

بمعہ اہل و عیال کے ساتھ - اطہرعلی ہاشمی -April 24, 2020 ہم اب تک ’’الیکٹرک سٹی‘‘ پڑھ کر حیران ہوتے تھے کہ یہ کون سا شہرِ برق ہے، کہ اب ایک نیا شہر ’’سٹی اسکین‘‘ سامنے آگیا ہے۔ استاد رئوف پاریکھ کو پہلے ہی یہ شکوہ ہے کہ انگریزی کے الفاظ بھی درست استعمال نہیں کیے جاتے۔ دراصل یہ انگریزی سے اس قوم کا انتقام ہے۔ سٹی اسکین کیا ہے، ہم نے کئی ساتھیوں سے پوچھا، اس لیے بھی کہ ہمیں خود معلوم نہیں تھا۔ اب یہ بتانے میں کوئی ہرج نہیں کہ یہ ’’سٹی‘‘ نہیں C.T ہے۔ اگر اردو ہی میں لکھنا ہے تو سی۔ ٹی لکھیں اور

سچی باتیں۔۔۔ روزہ کی روح۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys Other

روزہ کی روح مسلمان کے لئے سال بھر میں سب سے زیادہ متبرک مہینہ یہی رمضان کا ہے۔ قرآن مجید وحدیث نبویؐ دونوں اس کی بزرگیوں اور فضیلتوں پر گواہ ہیں۔ آپ اپنی جگہ پر سوچئے، کہ خود آپ کہاں تک اس کی برکتوں سے فائدہ اٹھارہے ہیں؟ آپ خود اورآپ کے گھر والے روزہ دار ہیں؟ اور اگر کسی عذر شرعی کی بنا پر مجبورًا ترک روزہ کئے ہوئے ہیں، تو اس کی قضا، یا مسکینوں کے کھلانے پر مستعد ہیں؟ آپ کے محلہ ، اور آپ کی بستی کی مسلمان آبادی میں، روزہ داروں، اور غیر روزہ دارون کی تعداد میں کیا تناسب ہے؟ شبرات ومحرم ک

رمضان المبَارک: کیا کسی نے کبھی ایسا سوچا تھا؟... سہیل انجم

Bhatkallys Other

کورونا وائرس اور اس کی وجہ سے نافذ لاک ڈاون نے پوری دنیا کے معمولات تبدیل کر دیئے ہیں۔ ”کورونا پیریڈ“ سے قبل کی دنیا کچھ اور تھی آج کی کچھ اور ہے اور ”مابعد کورونا پیریڈ“ کچھ اور ہو جائے گی۔ معمولات زندگی میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ لوگوں کے غور و فکر کا زاویہ بھی بدل گیا ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ رابط کاری کا انداز بھی اب پہلے جیسا نہیں رہا۔ اب دوستوں کی محافل نہیں جمتیں، اب کوئی کسی سے مصافحہ نہیں کرتا، اب کوئی کسی سے بغل گیر نہیں ہوتا۔  مہمان نوازی کی روایت تو بالکل اٹھ ہی گئی ہے۔ لا