Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















جب حضور آئے (۲) تمام انسانوں کے لئے رحمت۔۔۔۔ مولانا سید ابو الاعلی مودودی رح
" ١٢/ ربیع الاول اللہ تعالیٰ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جنم دن ہے جو زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے لئے رحمت بن کر آئے، اور وہ اصول اپنی ساتھ لائے جن کی پیروی میں ہر فرد انسانی، ہر قوم و ملک اور تمام نوع انسانی کے لئے یکساں فلاح اور سلامتی ہے۔ یہ دن اگر چہ ہر سال آتا ہے، مگر اب کے سال یہ ایسے نازک موقع پر آیا ہے جب کہ زمین کے باشندے ہمیشہ سے بڑھ کر اس دانائے کامل کی رہنمائی کے محتاج ہیں۔ معلوم نہیں مسٹر برنارڈ شا نے اچھی طرح جان بوجھ کر کہا تھا یا بغیر جانے بوجھے۔ مگر جو کچھ اس ن
جب حضور آئے (۱) زمشرق تا مغرب منور ہوگیا۔۔۔ حافظ ابن کثیر
محمد بن اسحاق کا بیان ہے کہ حضرت آمنہ رسول الله کی والدہ نے ذکر کیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حمل کے دوران مجھے کسی نے کہا، تیرے شکم میں اس امت کا سید ہے۔جب وہ پیدا ہو تو کہنا میں پناہ مانگتی ہوں، ایک اللہ کے ساتھ، ہر حسد کرنے والے سے، ہر بدخو انسان سے، دفاع کرنے والا میرا دفاع کرے، بے شک وہ حمید اور ماجد کے پاس ہے۔ یہاں تک کہ میں اس کو دیکھوں کہ وہ مشاہد و مجالس میں آئے اور علامت یہ ہے کہ پیدائش کے وقت اس کے ہمراہ ایک نور خارج ہوگا جس سے شام کے علاقہ بصری‘‘ کے محلات
کیجروال حکومت اور ملی پالیسی۔۔۔۔ عبد المتین منیری
کیجروال حکومت اور ملی پالیسی ودود ساجد بڑے منجھے ہوئے صحافی ہیں، اور اپنے کالموں میں امت اسلامیہ ہندیہ جذبات کی درست نمائندگی کرتے ہیں ودود ساجد نے کیجریوال کو اپنے ایک کالم میں جو آئینہ دکھایا ہےاسکی درستگی اپنی جگہ، لیکن الیکشن کے وقت مسلمانوں نے جو فیصلہ کیا تھا وہ بھی درست تھا، اگر دہلی میں مرکزی پارٹی نہ ہارتی تو صورت حال اس سے بہت زیادہ خراب ہوتی ، فرعونیت کا مزید بول بالا ہوتا، یہاں یوپی سے بد تر صورت حال ہوتی،کیونکہ تقسیم ہند کے فورا بعد نہرو اور پٹیل کی کیبینٹ نے فیصلہ کیا تھا کہ دہ
آن لائن دینی تعلیم، چند گزارشات۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری
نصاب تعلیم کے محدود دائرے میں آن لائن تدریس کے سلسلے میں مثبت اور منفی آراء سامنے آرہی ہیں، اس سلسلے میں ہمارے ذہن میں بھی چند باتیں آرہی ہیں۔ ۔ ہمارے دینی نظام تعلیم کا ایک بڑا نقص یہ ہے کہ جو طلبہ یہاں تعلیم پاتے ہیں، وہ زیادہ تر اپنی معاشی صورت حال یا والدین کی خواہش کے تحت آتے ہیں، اور جب وہ سن شعور کو پہنچتے ہیں، تو پھر ان کے سامنے اپنی تعلیم کو جاری رکھنے کے علاوہ دوسرا آپشن نہیں ہوتا۔ چونکہ یہ تعلیم ان کی اختییاری نہیں ہوتی لہذا انہیں اس سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی ، اور کوئی بھی
معاف کرنا مسلمان سمجھ کر پیٹ دیا تھا۔۔۔از:سہیل انجم
”ہاں جی کہاں جا رہے ہو؟“ ”جی اسپتال جا رہا ہوں“۔ ”کیوں اسپتال کیوں جا رہے ہو؟“ ”جی میں شوگر اور بلڈ پریشر کا پرانا مریض ہوں، مجھے دواؤں کی اشد ضرورت ہے“۔ ”تمہیں پتہ نہیں کہ کرونا وائرس کی وجہ سے شہر میں پابندیاں نافذ ہیں؟“ ”جی پتا ہے لیکن کیاں کروں کہ مجھے دواؤں کی ضرورت ہے، اسی لیے اسپتال جا رہا تھا“۔ ”اچھا اگر اپنا بھلا چاہتے ہو تو فوراً واپس جاؤ“۔ ”دیکھیے! مجھے تو دوا ہر حال میں لینی ہے ورنہ میری طبیعت بہت خراب ہو جائے گی“۔ ”زبان چلاتا ہے“ اور پھر پول
اللہ یہ کیسی عید، پروردگار ایسی عید پھر کبھی نہ آئے... ظفر آغا
اللہ، یہ کیسی عید آئی پروردگار! نہ مسجد میں نماز، نہ بازار میں خریداری، نہ چاند رات کی بے چینی، نہ وہ گلے ملنا اور نہ ہی وہ گلے مل کر عطر سے معطر ہو جانا... کچھ بھی تو نہیں۔ گھروں میں بند، سیوئیاں بھی بے مزہ۔ وہ شام کی دعوتیں، وہ گھر گھر جا کر عید ملنا، سب خواب ہو گیا۔ ارے رمضان بھی بس یوں ہی سادہ سا کٹ گیا۔ نا تراویح اور نہ ہی وہ افطار کی رونق۔ اس بار تو جیسے دنیا ہی بدل گئی۔ ایسے میں بھلا عید کی خوشی کیسی اور کوئی عید منائے بھی تو کیسے! عجب عالم ہے اس کورونا وائرس کی وبا سے دنیا کا۔ اور
مذہب اور قومیت۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
یہ تقریرلکھنئوریڈیواسٹیشن سےجولائی1951ءمیں نشرہوئی،اس میں مولانا نے مذہب اورقومیت کے صحیح حدود بڑے توازن کے ساتھ بیان کیے ہیں، اورایک ایسےلائحہ عمل کی طرف نشان دہی کی ہے جس پرچل کربلاکسی تشویش اورذہنی اضطراب کے اچھی زندگی کامیابی سے گذاری جاسکتی ہے۔ڈاکٹر زبیر احمد صدیقی -------------------------------------------------------------------------------------------------------------------- "لڑکوں اورنوجوانوں کے لیے توخیرسنی سنائی ہے، لیکن آج کے بڑے بوڑھوں کے لیے 1919ء کی تحریک خلافت وترک موالات آنک
عید الفطر کا پیغام۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابابادی رحمۃ اللہ علیہ
لکھنوریڈیواسٹیشن کی دعوت پرکی گئی ، مولانا مرحوم کی15 منٹ کی یہ تقریر 13نومبر 1939ءکونشرکی گئی۔اس میں قرآن وحدیث کی روشنی میں عیدالفطر کی خصوصیات کااحاطہ لکھنوی سلیس روزمرہ میں کیاگیاہے۔ اللہ اکبر اللہ اکبر لاالٰہ الّااللہ واللہ اکبراللہ اکبر ولِلّٰہ الحمد!آپ نے سنا، یہ ہرمحلّہ سے اورہرگوشہ سے، ہرسڑک سے اورہرچوراہے سے تکبیرکی آوازیں کیسی چلی آرہی ہیں، گویا خدائے واحد کا کلمہ پڑھنے لگے ریت کے ذرّے اورخاک کے بگولے، اوراپنے رب کانام جپنے لگے مکانوں کے درودیواراوردرختوں کے برگ وبار!آپ نے دیکھا یہ
سچی باتیں۔۔ عید کی خوشیوں کے اصلی حقدار۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی
1927-03-28 عید آرہی ہے۔ آپ کے بچّے (خدا آپ کا سایہ اُن کے سروں پر عرصے تک قائم رکھے) خو ش ہورہے ہیں، کہ نئے نئے رنگین کپڑے پہننے کو ملیں گے، طرح طرح کی مٹھائیاں اور اچھے اچھے کھانے کھانے میں آئیں گے اور عیدگاہ میں نئے نئے کھلونے خرید کریں گے۔ آپ کو اپنے بچوں کی خوشیاں مبارک۔ لیکن یہ بھی کبھی آپ نے سوچاہے، کہ اِن مٹھائیوں اور کھانوں کی لذت کے لَمحوں تک، اور کپڑوں اور کھلونوں کی خوشی کتنی دیر تک قائم رہ سکتی ہے؟ کپڑے مَیلے ہوں گے، کھلونے ٹوٹیں گے، اور مٹھائیاں حلق کے نیچے اُتر جائیں گی۔ اپن
خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ زبان کی کساد بازاری۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی
اردو سیکشن میں دیکھیں آج کل ایک نیا املا پڑھنے میں آرہا ہے مثلاً بلکل، کلعدم، بلخصوص، بلیقین وغیرہ۔ ایک بینک کے بڑے سے اشتہار میں بھی ’’بلکل‘‘ پڑھا۔ یہ کیا لاعلمی ہے، املا آسان کیا جارہا ہے، یا دانستہ بگاڑا جارہا ہے؟ برسوں سے جو املا رائج ہے اسے بدلنے کی شعوری کوشش کی جارہی ہے؟ شاید یہ وجہ ہوکہ بچے ’بالکل‘ کو ’’بال۔ کل‘‘ پڑھتے ہیں۔ عربی حروف کا املا بدلنے کی کوشش رشید حسن خان نے کی تھی جن کا ایک مقصد تھا۔ انھوں نے ’اعلیٰ‘ کو ’’اعلا‘‘ اور ’ادنیٰ‘ کو ’’ادنا‘‘ کردیا، اور اب کہیں کہیں یہ استعمال می
علمائے سلف (۲) افلاس ۔ تحریر مولانا حبیب الرحمن خان شروانی
انسان کا حوصلہ پست کرنے والی اور ہمت کی کمر توڑ دینے والی دنیا میں کوئی چیز غالباً افلاس سے بڑھ کر نہیں ہے۔ مفلسی میں پھنس کر آ دمی عزم کا استحکام اور ارادے کی استواری بالکل کھو بیٹھتا ہے، اور دل و دماغ کی شگفتگی جو تمام بلند خیالیوں کا سر چشمہ ہے قطعاً معدوم ہو جاتی ہے۔ اگر ایک سر سبز چمن کی سیرابی کے سارے ذرائع مسدود کردیے جائیں تو وہ مایۂ بہجت سراپا وحشت بن جائے گا ، اور ظاہر ہے کہ جس چمن کے نشو نما یافتہ گلبن جل ہَیزُمِ خشک ( ہَیزُم خشک : سوکھی لکڑی ، جلانے کی لکڑی ۔ ( نوراللغات) ) ہو
شیخ الحدیث حضرت مولانا سعید احمد پالنپوری کا حادثہ وفات۔۔۔۔ نایاب حسن
مضمون اردو سیکش میں ملاحظہ فرمائیںانگلیاں فگار اپنی،خامہ خوں چکاں اپنا (استاذِ محترم کی یاد میں) نایاب حسن دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور کئی نسلوں کے معلم و مربی ،استاذ الاساتذہ حضرت مفتی سعید احمد پالنپوری آج صبح قضائے الہی سے وفات پا گئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ دل مغموم ہے ،آنکھیں نم ہیں،ذہن پر رنج و غم کے بادل منڈلا رہے ہیں ۔ میں نے ان کی وفات کی خبر قدرے تاخیر سے دیکھی اور دیکھتے ہی ان سے منسوب زمانۂ طالب علمی کی کتنی ہی یادیں ذہن کے پردے پر جھلملانے لگیں ۔ کیا شگفتہ و شاندار انس
سچی باتیں۔۔۔ اولاد کی تربیت۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
1925-05-08 اولاد کی تربیت اگرآپ خود صاحب اولاد ہیں، یا آپ کے کسی عزیز یا دوست کی اولاد آپ کی نگرانی میں ہے، توآپ نے کبھی ان کی تربیت کی طریقوں پر غور فرمایاہے؟ آپ نے کبھی اندازہ کیاہے، کہ اس سے کتنی اہم ذمہ داریاں آپ پر عائد ہوتی ہیں؟ اور یہ کہ آپ ان ذمہ داریوں کو کس حد تک پوراکررہے ہیں؟ ان بچوں کی آئندہ زندگیوں کا بننا یا بگڑنا، سنورنا یا اُجڑنا، ایک بڑی حد تک آپ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ ہر بچہ دنیا میں فطرت سلیم کے ساتھ قدم رکھتاہے، اس کو سیدھی راہ سے ہٹاکر غلط راستوں پر ڈالنے والے عمومً
جسٹس دیپَک گپتا کی کھری کھری باتیں... سہیل انجم
ایک وقت تھا جب ہندوستانی عدلیہ کو بہت وقار حاصل تھا۔ اس کی ایمانداری کی قسمیں کھائی جاتی تھیں۔ لیکن رفتہ رفتہ اس کا وقار گرتا چلا جا رہا ہے۔ حالانکہ اب بھی عوام کو ملک کے آئینی اداروں میں سے کسی پر اگر سب سے زیادہ بھروسہ ہے تو وہ عدلیہ ہی ہے۔ جب بھی کوئی تنازع ہوتا ہے تو لوگ یہی کہتے ہیں کہ میں تمھیں عدالت میں دیکھ لوں گا۔ وہ عدالت جاتے بھی ہیں۔ لیکن اس حقیقت کے باوجود عدالتوں پر عوام کا اعتبار اب پہلے جیسا نہیں رہ گیا۔ جب سے مرکز میں بی جے پی کی قیادت میں حکومت قائم ہوئی ہے ای
سچی باتیں۔۔۔ رسول خدا ,ﷺ کی زندگی کا مرکزی نقطہ۔۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
1925-05-01 سیرت نبوی سے متعلق کوئی سی کتاب اُٹھالیجئے، اور اس کے مطالعہ کے بعد یہ سوچئے ، کہ رسول خدا ﷺ کی زندگی کا مرکزی نقطہ کیاتھا؟ سب سے زیادہ عزیز حضورؐ کو کون سے شے تھی؟ سب سے زیادہ محبوب مشغلہ حضورؐ کا کیا تھا؟ اس کے جواب میں صرف ایک شے آپ کو ملے گی۔ ’’عبادت الٰہی‘‘ شب روز میںکتنی زائد نمازیں آپ پڑھتے تھے، رات کو کس ذوق وشوق کے ساتھ باربار بیدار ہوکر آپ نماز ومناجات میں مصروف ہوجاتے تھے، ہر سال اور ہرمہینے کتنے روزے آپ لگاتار رکھاکرتے تھے۔ صدقات وخیرات دینے پر آپ ہر وقت کیسے آمادہ
خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ ۔’’بے ڑا‘‘ اٹھانا ممکن نہیں۔۔۔ از : اطہر علی ہاشمی
بچے ہر عہد کے چالاک ہوتے ہیں، اپنے عہد کے اعتبار سے۔ بچوں کا ایک رسالہ ’ساتھی‘ ہے جس میں ہم کبھی کبھی بچوں کی تحریروں کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک بچے کا خط آیا ہے کہ ’’آپ ہمیں تو سمجھاتے ہیں کہ لالچ مذکر ہے، لیکن فرائیڈے اسپیشل میں ایک بڑے ادیب اور استاد اپنے مضمون میں لکھتے ہیں ’’جنت کی لالچ‘‘۔ آپ کا زور ہم ہی پر چلتا ہے‘‘۔ لالچ مونث ہونے کی دلیل بچے اس محاورے سے دیتے ہیں ’’لالچ بری بلا ہے‘‘۔ اس میں تو صاف صاف بری بلا کہا گیا ہے تو یہ مذکر کیسے ہوگیا! لیکن بری کی صفت ’لالچ‘ کے لیے نہیں ’ب
کورونا وائرس کی وبا اور ماہِ رمضان ۔۔۔از: محمد تعظیم قاضی
کرونا وائرس کے پنجے ہر طرف نظر آرہے ہیں۔دنیا کا ہر ملک اس کی سفاکیت کا شکار ہے۔ اس موذی وبا نے جہاں ہر عام و خاص کو پریشان کر رکھا ہے، وہیں اس نے مسلمانوں کو بھی کئی محرومیوں سے دوچار کردیا۔ پوری دنیا کے مسلمانوں کی طرح ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے بھی یہ رمضان گزشتہ رمضان کی طرح نہیں رہا۔ اس ماہ مبارک کی رونقیں مدھم ہوگئیں۔عبادت کا جوش وخروش اور روشن چہرے کہیں روپوش ہوگئے۔ بابرکت محفلیں، مساجد و مدارس میں گونجتی تلاوت کی صدائیں کہیں مفقود ہوگئیں۔ ہنستے مسکراتے چہرے اب آسودگی اور تفک
خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ نقص امن نہیں نقض امن۔۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی
بعض غلط العوام الفاظ اردو میں اس طرح جم کر بیٹھ گئے ہیں کہ صحیح ہونے ہی میں نہیں آرہے۔ ان ہی میں سے ایک لفظ ’’اژدہام‘‘ ہے۔ گزشتہ دنوں یہ اژدہام جسارت میں بھی نظر آیا۔ اصل لفظ ’ازدحام‘ ہے اور یہ عربی کا لفظ ہے۔ عربی میں ’ژ‘ نہیں ہوتی۔ جانے یہ لفظ کیسے فارسی زدہ ہوگیا۔ غلط العوام اور غلط العام کا فرق تو قارئین جانتے ہی ہیں۔ غلط العام فصیح ہوتا ہے، اور یہ وہ ہے جسے ہر خاص و عام، پڑھا لکھا اور ناخواندہ ایک ہی طرح سے بولے یا لکھے۔ اور غلط العوام وہ ہے جسے عام لوگ غلط بولیں اور لکھیں، مگر پڑھے لکھے ل