Search results

Search results for ''


بات سے بات۔۔۔ مولانا ابو الکلام آزاد اور مصر۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Bhatkallys Other

مولانا ابو الکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کا جادو کچھ ایسا ہے کہ انہیں چاہنے والوں نے ٹوٹ کر چاہا،تو  ناپسند کرنے والوں نے بھی تمام حدیں پار کردیں، آپ میں انہیں خامیاں ہی خامیاں نظر آئیں۔ ان میں وہ  دانشور بھی ہیں جن کی تحریریں دیکھ کر ابکائی آتی ہے،  جیسے گٹر کھل گیا ہو، ایسی اخلاق سے گری ہوئی باتیں کسی کے خلاف شاید ہی کہی گئی ہوں۔ لیکن مولانا تھے بلند وبالا ہاتھی کے مانند تھے، جس پر بونے جتنا چاہیں چلائیں اور گالیاں بکیں تو ااس پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ وہ جھولتے آگے بڑھتا جاتا ہے۔ مول

محسن کتابیں۔۔۔۱۵۔۔۔ تحریر : مولانا عبد السلام ندوی

Bhatkallys Other

مولانا عبدالسلام ندوی              ۔ولادت: علاء الدین پٹی (ضلع اعظم گڑھ، یوپی)۔              ۔۸ربیع الثانی ۱۳۰۰ھ، مطابق، /۱۶فروری۱۸۸۳ء۔              اعظم گڑھ کے رہنے والے تھے، ابتدائی فارسی کی تعلیم وطن میں پائی، عربی کی تعلیم متوسطات تک کانپور،آگرہ اور غازی پور میں حاصل کی، پھر بعض اسباب سے تعلیم کا سلسلہ دو برس تک منقطع رہا۔ اس کے بعد۱۹۰۶ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء میں درجہ پنجم میں داخلہ لیا۔۱۹۰۹ء میں فراغت کے بعد دارالعلوم کے شعبہ تکمیل ادب میں داخل ہوئے، اور۱۹۱۰ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔

جب حضور آئے (۱۲)۔۔۔ خالق کا اپنے حسن تخلیق پر ناز۔۔۔ تحریر: قمر یزدانی

Mohammed Mateen Khalid Seeratun Nabi

خالق کا اپنے حسن تخلیق پر ناز قمر یزدانی ۔۔۔۔۔۔۔۔ چمن زار فصل میں بہار آتی ہے تو دلفریب رعنائیوں اور کیف زالطافتوں، روح پرور نزہتوں اور دلکش رنگینیوں کو اپنے جلو میں لے کر جب اس شان و وقار سے بہار کا ورود ہوتا ہے تو گلشن میں گلہائے رنگا رنگ کھلتے ہیں، غنچے مہکتے ہیں، کلیاں مسکراتی ہیں، عندلیب زار بہاروں کی اس بوقلمونی پر نثار ہوتی ہے اور اپنے کیف آفرین اور دلنشیں نغمات ، حسن چمن پر نچھاور کرتی ہے۔ تمام کائنات، قدرت کے ان روح پرور مظاہر اور حسن ازل کی دل فریبیوں کی داد دیتی ہے۔ اس کے ساتھ دل آ

سچی باتیں۔۔۔ جواب دہی کا احساس۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

1925-06-05 جواب دہی کا احساس آپ کو علم ہے ، کہ آپ کی بستی میں مسلمانوں کی آبادی کس قدر ہے؟ اس علم کے حاصل کرنے کے بعد اب ذرا یہ دیکھئے، کہ ان میں سے کتنی تعداد ایسی ہے، جو روزانہ پانچ وقت پابندی کے ساتھ، اکٹھا ہوکر، اپنے ایک قبلہ کی طرف رخ کرکے، اپنی ایک کتاب آسمانی کی ہدایت کے موافق، اپنے ایک رسولؐ کی پیروری میں، اپنے ایک خدا کو یادکرتی ہے؟ کتنی تعداد ایسی ہے ، جو پابندی کے ساتھ ماہ رمضان میں روزہ رکھتے، اور اپنے امکان بھر روزہ کی شرائط کا لحاظ رکھتے ہیں؟ کتنے ایسے ہیں ، جن پر زکوٰۃ واجب

خبرلیجے زباں بگڑی۔۔۔ جس کا کام اسی کو سانجھے۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی

Bhatkallys Other

ایک ٹی وی اینکر بتا رہے تھے کہ یہ پرانی کہاوت ہے ’’جس کا کام اسی کو سانجھے‘‘۔ یہ کہاوت تو ہے لیکن اس میں ’’سانجھے‘‘ نہیں ”ساجے“ ہے۔ ممکن ہے یہ سجنے سے ہو۔ سجنا ہندی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے موزوں ہونا، آراستہ ہونا، مرتب ہونا۔ بطور فعل متعدی موزوں کرنا، آراستہ کرنا، یعنی جس کا کام ہے وہ ہی اسے ٹھیک طرح کرسکتا ہے۔ اس کہاوت کا دوسرا ٹکڑا ہے ’’کوئی اور کرے تو ٹھینگا باجے“۔ اس سے ظاہر ہے کہ باجے کے قافیے میں ساجے آئے گا۔ جہاں تک ساجھے کا تعلق ہے تو اس کی اصل بھی ہندی ہے اور اس کے کئی معانی ہیں۔ معر

گلزار دہلوی: میں عجب ہوں امام اردو کا... معصوم مرادآبادی

Bhatkallys Other

گلزار دہلوی کے انتقال سے اردو دنیا سوگوار ہے۔وہ ہماری صدیوں پرانی گنگاجمنی تہذیب کا ایک جیتا جاگتا نمونہ تھے۔وہ خالص دہلی والے تھے اور ان کی زندگی کا بیشتر حصہ ان ہی گلی کوچوں میں گزرا تھا، جنھیں خدائے سخن میر تقی میر نے اوراق مصور سے تشبیہ دی تھی۔ وہ دہلی کی ایک توانا آوازتھے اور اس مٹتی ہوئی تہذیب کے امین تھے ، جس نے اس شہر کو وقار بخشا تھا۔گلزار دہلوی کے بغیر اس دہلی کی ادبی زندگی کا تصور کرتا ہوں تو مجھے بڑی ویرانی محسوس ہوتی ہے۔ وہ ہر شعری نشست کی آبرو تھے اور انھیں ان کی بزرگی کی وجہ

اردو کی گنگا جمنی تہذیب کا آخری پیکر بھی رخصت ہوا... معصوم مرادآبادی

Bhatkallys Other

اردو زبان وتہذیب کی آخری چلتی پھرتی نشانی گلزار دہلوی بھی چل بسے۔ انھوں نے ابھی چند روز پہلے ہی تو نوئیڈا کے ایک اسپتال میں کورونا جیسی موذی بیماری کوشکست دے کر زندگی کا پرچم بلند کیا تھا۔94برس کی عمر میں اپنی بے مثال قوت ارادی سے کورونا کو شکست دینے والے گلزار دہلوی جب اسپتال سے باہر نکلے تو کئی اخباری نمائندے ان کے منتظر تھے۔ان کی کہانی کئی بڑے اخباروں نے جلی عنوانات کے ساتھ شائع کی۔ مجھے یقین ہوچلا تھا کہ وہ ابھی اور جئیں گے اور جام وصبو سے اپنا رشتہ بحال رکھیں گے، لیکن یہ کیا ہوا کہ وہ کور

ظہور قدسیﷺ۔۔۔ تحریر: علامہ شبلی نعمانیؒ

Bhatkallys Other

ظہورِ قدسی علامہ شبلی نعمانی رح ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " چمنستان دہر میں بارہا روح پرور بہاریں آ چکی ہیں، چرخ نادرۂ کار نے کبھی کبھی بزم عالم اس سر و سامان سے سجائی کہ نگاہیں خیرہ ہو کر رہ گئیں۔ لیکن آ ج کی تاریخ وہ تاریخ ہے جس کے انتظار میں پیر کہن سال دہر نے کروڑوں برس صرف کر دیئے۔ سیارگان فلک اسی دن کے شوق میں ازل سے چشم براہ تھے۔ چرخ کہن مدت ہائے دراز سے اسی صبح جان نواز کے لئے لیل و نہار کی کروٹیں بدل رہا تھا۔ کارکنان قضا و قدر کی بزم آرائیاں، عناصر کی جدت طرازیاں، ماہ و خورشید کی فروغ انگیزیاں، ا

سچی باتیں۔۔۔ پس ماندگی کا راز۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

1925-05-29 پس ماندگی کا راز آپ مسلمان ہیں ، اور ہندوستان میں، آپ فرماتے ہیں کہ آپ کے ہم مذہب قریب سات کرور کی تعداد میں موجود ہیں۔ آپ کے علاوہ اسی سرزمین پر، آپ سے بڑی تعداد رکھنے والی ایک قوم اور بھی آبادہے۔ جو فضا آپ کے لئے ہے، وہی اس کے لئے بھی ہے، جس آب وہوا میں آپ پرورش پارہے ہیں، اُسی میں وہ بھی پل رہی ہے۔ جس خاک کے آپ جزو ہیں، اُسی کی وہ بھی ہے، آپ جس طرح ایک اجنبی حکومت کے غلام اور بے بس وبے اختیار ہیں، ٹھیک اسی طرح وہ بھی ہے۔ مگر باوجود اس کے، یہ کیا بات ہے، کہ آپ روز بروز

خبرلیجے زباں بگڑی۔۔۔ قوس وقزح کے رنگ۔۔۔۔ تحریر: اطہر ہاشمی

Bhatkallys Other

قوس و قزح کے رنگ ۔30 مئی کے ایک اخبار میں رنگین تصویر کا عنوان (کیپشن) ہے ’’ٹوکیو میں قوس و قزح کے رنگ بکھرے ہوئے ہیں‘‘۔ ایک تو ہمارے صحافی بھائیوں کو بے جا طور پر ’و‘ کا استعمال بہت پسند ہے۔ جیسے بلندوبانگ، چاق و چوبند اور اب قوس و قزح۔ اصل میں یہ’قوس قُزح‘ ہے۔ ’قوس‘ کا مطلب کمان اور ’قزح‘ (ق پر پیش) کا مطلب ہے رنگ، یعنی رنگوں کی کمان۔ چنانچہ ’’قُزح کے رنگ‘‘ بالکل بے معنی ہے لیکن بار بار پڑھنے میں آتا ہے۔ قوس عربی کا لفظ اور مونث ہے۔ قوس آسمان کو بھی کہتے ہیں، کیوں کہ یہ بھی مثل کمان کے ہے۔

بات سے بات۔۔۔ مولانا محب اللہ لاری ندوی رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔۔ تحریر: عبد عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Bhatkallys Other

ڈاکٹر رضئ الاسلام ندوی صاحب نے مولانا محب اللہ لاری ندوی مرحوم کاذکر چھیڑا ہے، ڈاکٹر صاحب ندوے میں آپ کے عہد زریں کے عینی گواہ ہیں۔ ہمارا حال تو سنی مسلمانوں کا ہے، سنی سنائی  باتیں نقل کرنا ہمارا مشغلہ ہے،  مولانا سے  چند ایک بار ملنے کا شرف اس ناچیز کو حاصل ہوا ہے، چونکہ مولانا کم گو اور انتظامی آدمی تھے لہذا کبھی علمی استفادے کا موقعہ ہاتھ نہ آسکا۔ لیکن مولانا چونکہ ہمارے سن شعور میں ندوے کے اہتمام سے وابستہ ہوئے تھے، اور اس وقت  ہمارے کئی ایک دوست احباب ندوے میں زیر تعلیم تھے، تو آپ کے د

ؒادبی انٹرویو۔۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys Other

ادبی انٹرویو (مولانادریابادی  کایہ انٹرویو آل انڈیا ریڈیو اسٹیشن دہلی کی فرمائش پر لکھنو یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر پروفیسراحتشام حسین نے لیا تھا جو 8جون 1960ءکونشرہوا۔اس نشریہ  میں سوال وجواب کی شکل میں درج تفصیلات سے مولاناکی ادبی زندگی  کے مختلف پہلوؤں  سےمتعلق  بہت سی گراں قدر معلومات فراہم ہوتی ہیں، جن میں عبرت بھی ہے درس بھی۔ ڈاکٹر زبیر احمد صدیقی) --------------------------------------------------- احتشام صاحب یہ میری خوش قسمتی ہے کہ آل انڈیاریڈیوکے ارباب حل وعقد نے آج آپ سے ایک "ا

زنجیر کی شکست ( مولانا محمد رفیق قاسمی کی وفات)۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر محمد رضی الاسلام قاسمی

Bhatkallys Other

یہ کالم اردو سیکشن میں دستیاب ہےزنجیر کی شکست (مولانا محمد رفیق قاسمی کی وفات) ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی تحریکی و دینی حلقوں میں یہ خبر نہایت افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن مولانا محمد رفیق قاسمی کا آج صبح تقریباً 8 بجے اچانک حرکتِ قلب بند ہوجانے سے انتقال ہوگیا _ وہ 76 برس کے تھے _ گزشتہ سال بھی انہیں دل کا دورہ پڑا تھا _ اس وقت علاج معالجہ کے بعد وہ صحت یاب ہوگئے تھے _ آج صبح دل کا شدیدہ دورہ پڑا ، جس سے وہ جاں بر نہ ہوسکے اور روح قفسِ عنصری سے پر

حضرت حکیم عزیز الرحمٰن صاحبؒ ۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر بد رالحسن قاسمی (کویت)

Bhatkallys Other

         حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ کے عہد زریں میں دار العلوم دیوبند کے ما تحت جامعہ طبیہ بھی قائم تھا جہاں سے سینکڑوں علماء ،حکیم و طبیب اور بعد میں بی یو ایم ایس کا کورس کرکے ڈاکٹر پیدا ہوئے جو انقلاب کے ساتھ بے نشان ہو گیا۔ کریدتے ہو جو اَب راکھ جستجو کیا ہے؟          حضرت حکیم عزیز الرحمن صاحبؒ کے تعارف کیلئے یہی کافی ہے کہ ان کے والد حضرت مولانا محمد ایوب اعظمیؒ جامعہ اسلامیہ ڈابھیل کے شیخ الحدیث رہے ہیں جبکہ انکے چھوٹے بھائی مولانا سعید الأعظمی عربی ماہنامہ البعث الاسل

جب حضور آئے۔۔۔(۱۰)۔۔۔ آفتاب ہدایت نمودار ہوا۔۔۔ تحریر: مولانا حفظ الرحمن سیوہاورویؒ

Mohammed Mateen Khalid Seeratun Nabi

آفتاب ہدایت نمودار ہوا مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رح ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  خدایا وہ صبح کیسی سعادت افروز تھی، جس نے کائنات ارضی کو رشد و ہدایت کے طلوع کا مژدۂ جاں فزا سنایا۔ وہ ساعت کیسی مبارک و محمود تھی جو معمورۂ عالم کے لئے پیغام بشارت بنی، عالم کا ذرہ ذرہ زبان حال سے نغمے گا رہا تھا کہ وقت آ پہنچا کہ اب دنیائے ہست و بود کی شقاوت دور اور سعادت مجسم سے عالم معمور ہو۔ ظلمت شرک و کفر کا پردہ چاک اور آفتاب ہدایت روشن اور تابناک ہو۔ مظاہر پرستی باطل ٹہرے اور خدائے واحد کی توحید، حیات

مناظروں کی افادیت، چند پہلو؟؟؟ ۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Bhatkallys Other

(( علم کتاب واٹس اپ گروپ پر مناظروں کی افادیت کے موضوع پر ہوئی بحث پر ایک تبصرہ )) مناظرے کی افادیت کے سلسلے میں مولانا محمد عمرین محفوظ صاحب کی باتیں بڑی مفید ہیں، چونکہ مولانا مسلمانوں کے ایک ایسے بڑے پلیٹ فارم کے ذمہ داران میں ہیں جس میں بریلوی ،  بوہرہ اور شیعوں کی بھی نمائندگی ہے، فکری اور مسلکی فرق، اور اصولی اختلافات کو باقی رکھتے ہوئے مشترکہ مفادات کا حصول اس پلیٹ فارم کا ایک اہم مقصد ہے۔ اور یہ ہدف تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے،اللہ مولانا کو اپنے مشن میں کامیاب کرے، اور قوم کو ان

سچی باتیں ۔۔۔ موت کی فکر۔۔۔ تحریر:مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

 1925-05-22 موت کی فکر آپ نے کبھی اندازہ کیاہے ، کہ آپ کے وقت عزیز کا کتنا حصہ خدا کی یاد اور اس کی مخلوق کی خدمت میں صرف ہوتاہے، اور کتنا اپنے نفس کی ناز برداریوں میں؟ آپ نے کبھی حساب لگایاہے کہ آپ کی کمائی کا کتنا حصہ خدا کی راہ میں اس کے دوسرے بندوں کے کام آتاہے، اور کتنا اپنے نفس کی خاطرداریوں میں اُٹھ جاتاہے؟ آپ نے اپنے دل کو ٹٹول کر کبھی یہ دیکھاہے ، کہ اس پر سب سے زیادہ ہیبت کس چیز کی طاری رہتی ہے؟ آیا خدا کی؟ خدا کے احکام کی؟ رسولؐ کے پیامات کی؟ اور یا پھر سرکارکی؟ برادری کی؟ دن

خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ ٹڈی دل کا لشکر۔۔۔ تحریر :اطہر علی ہاشمی

Bhatkallys Other

ٹڈی دل نے پاکستان میں تباہی مچا دی ہے۔ اس کا حملہ زبان پر بھی ہوا ہے۔ اخبارات میں کئی جگہ ’’ٹڈی دل کا لشکر‘‘ پڑھنے کا شرف حاصل ہوا، جب کہ ’دَل‘ تو کہتے ہی لشکر، فوج، انبوہ کو ہیں۔ ٹی وی چینلز پر کچھ لوگ بڑی دل جمعی سے اسے ’’ٹڈی دِل‘‘ (’د‘ بالکسر) کہہ رہے تھے۔ سیاست دان احسن اقبال بھی ٹی وی پر ’’دِل‘‘ ہی کہہ رہے تھے۔ گزشتہ جمعرات کو ایک ٹی وی چینل کے بہت شریف اینکر بھی ’’ٹڈی دِل‘‘ کہہ رہے تھے، جب کہ این ڈی ایم اے کے جنرل صحیح تلفظ ادا کررہے تھے۔ ’دَل‘ ہندی کا لفظ ہے اور اس کے اور بھی کئی معانی ہی