Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















سی اے اے مخالف مظاہرین اور اقوام متحدہ کے ماہرین... سہیل انجم
شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کا سلسلہ اگرچہ اب اس طرح سے نہیں چل رہا ہے جیسا کہ پہلے چلتا تھا تاہم سوشل میڈیا پر اس کے خلاف آوازیں تو اٹھ ہی رہی ہیں۔ نہ صرف سی اے اے کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں بلکہ احتجاج کرنے والوں کی گرفتاریوں کے خلاف بھی بلند ہو رہی ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے بلند آواز جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ریسرچ اسکالر اور جامعہ کوآرڈینیٹشن کمیٹی کی رکن صفورہ زرگر کی گرفتاری کے خلاف اٹھی۔ نہ صرف ہندوستان کے اندر ان کی گرفتاری کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی اور انھیں رہا
سچی باتیں ۔۔۔ محرم کی بدعتیں۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریاباد
1925-06-13 محرّم کا زمانہ قریب آتاجاتاہے، اور آپ دیکھیں گے کہ عشرۂ محرّم کے آتے ہی مسلمان کیا سے کیا ہوجائیں گے۔ وہی مسلمان جو نماز میں سُست وکاہل تھے، تعزیہ داری میں چست ومستعد نظر آئیں گے۔ وہی مسلمان جو جماعت کی پابندی اپنے لئے بار سمجھتے تھے، تعزیوں کے غول قائم کرنا خوشگوار محسوس کریں گے۔وہی مسلمان جو مسجد کی مسافت طے کرنا اپنی قوت سے باہر سمجھتے تھے ، تعزیوں کے ساتھ گشت کرنا اپنی عین سعادت تصور کریں گے۔ وہی مسلمان جو اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضری کے لئے ہر روز پانچ مرتبہ پکار کو سنت
بات سے بات: ،مولانا لطف اللہ مظہر رشادی ۔۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل
بنگلور سے مولانا لطف اللہ صاحب مظہر رشادی صاحب کے انتقال کی خبر موصول ہوئی ہے، اللہ ان کے درجات بلند کرے۔ آپ حضرت امیر شریعت کرناٹک مولانا ابو السعود احمد باقوی رحمۃ اللہ علیہ کے چوتھے اور سب سے چھوٹے فرزند تھے۔ مولانا مفتی محمد اشرف علی باقوی، مولانا ولی اللہ رشادی، اور قاری امداد اللہ رشادی آپ سے بڑے تھے۔مفتی اشرفعلی صاحب نے جانشین کی حیثیت سے اپنے والد ماجد کے مشن کو آگے بڑھایا، مولانا ولی اللہ مرحوم وانمباڑی کے تاریخی دینی تعلیمی ادارے معدن العلوم کے مہتمم کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔قاری

بات سے بات : سید منور حسن کی یاد میں۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری
آج کراچی سے جناب سید منور حسن صاحب کی رحلت کی خبرآئی ہے۔ آپ کی جدائی کے ساتھ پاکستان جماعت اسلامی کی تاریخ کا ایک باب بند ہوگیا ہے، مرحوم قاضی حسین احمد کے بعد جماعت کے چوتھے امیر منتخب ہوئے تھے، وہ اپنے من کی بات سیاسی اور وقتی مصلحتوں سے بلند ہوکر کہتے والے انسان تھے،شاید اس لئے دوسری بار امیر منتخب نہ ہوسکے، وہ بانی تحریک کے بعد پہلے امیر تھے جو علمی وتحقیقی کا پس منظر رکھتے تھے، اور امید تھی کہ جو جماعت کتاب اور لٹریچر سے تعلق کی ایک شناخت رکھتی تھی، بجھتی ہوئی اپنی اس شناخت کو اجاگ
خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ زبان کی نزاکتیں۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی
ایک ٹی وی چینل پر ’جرگہ‘ کے عنوان سے پروگرام ہوتا ہے لیکن اس کا تلفظ جِرگہ ۔(ج کے نیچے زیر)۔ کیا جاتا ہے۔ انگریزی میں بھی اسے لکھا جاتا ہے، جب کہ یہ فارسی کا لفظ ہے اور ’ج‘ پر زبر ہے ۔(جَرگہ)۔ آدمیوں کا مجمع، گروہ، جماعت، پنچایت وغیرہ… سرحدی قبائلی علاقوں میں وہ جماعت جو سنگین یا اہم معاملات کے بارے میں فیصلہ دیتی ہے۔ سرحدی علاقوں کے علاوہ جہاں جہاں پٹھان آباد ہیں، جَرگہ وہاں بھی ہوتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ پروگرام کرنے والے بھی پٹھان ہیں، اور پٹھانوں سے ہمیشہ جَرگہ ہی سنا ہے۔ لغات کے مطابق
امراؤ جان ادا۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
امراﺅ جان ادا ۔(یہ تقریر لکھنؤ کے مشہور ادیب اور ناول نویس مرزامحمدہادی رسوا کی مایہ ناز کتاب امراﺅ جان ادا پرلکھنؤ ریڈیو اسٹیشن سے 28دسمبر 1950ءکونشر ہوئی، اس میں مولاناؒ نے اپنے مخصوص شگفتہ اندازمیں ناول اورناول نویس دونوں پرجامع ومانع تبصرہ کیاہے۔ دریابادی اس کتاب کی اخلاقی افادیت کے قائل تھے ، اس کتاب کےاولین پارکھ تھے اورانھوں نے اس کاتعارف ادبی وعلمی حلقوں میں باربار داد وتحسین کے ساتھ کرایاہے۔اس ناول سے متعلق دریابادی کی پیشن گوئی آج حرف بہ حرف صادق نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر زبیر احمد صدیقی)
بات سے بات۔۔۔ مولانا ابو الکلام آزاد اور مصر۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری
مولانا ابو الکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کا جادو کچھ ایسا ہے کہ انہیں چاہنے والوں نے ٹوٹ کر چاہا،تو ناپسند کرنے والوں نے بھی تمام حدیں پار کردیں، آپ میں انہیں خامیاں ہی خامیاں نظر آئیں۔ ان میں وہ دانشور بھی ہیں جن کی تحریریں دیکھ کر ابکائی آتی ہے، جیسے گٹر کھل گیا ہو، ایسی اخلاق سے گری ہوئی باتیں کسی کے خلاف شاید ہی کہی گئی ہوں۔ لیکن مولانا تھے بلند وبالا ہاتھی کے مانند تھے، جس پر بونے جتنا چاہیں چلائیں اور گالیاں بکیں تو ااس پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ وہ جھولتے آگے بڑھتا جاتا ہے۔ مول

محسن کتابیں۔۔۔۱۵۔۔۔ تحریر : مولانا عبد السلام ندوی
مولانا عبدالسلام ندوی ۔ولادت: علاء الدین پٹی (ضلع اعظم گڑھ، یوپی)۔ ۔۸ربیع الثانی ۱۳۰۰ھ، مطابق، /۱۶فروری۱۸۸۳ء۔ اعظم گڑھ کے رہنے والے تھے، ابتدائی فارسی کی تعلیم وطن میں پائی، عربی کی تعلیم متوسطات تک کانپور،آگرہ اور غازی پور میں حاصل کی، پھر بعض اسباب سے تعلیم کا سلسلہ دو برس تک منقطع رہا۔ اس کے بعد۱۹۰۶ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء میں درجہ پنجم میں داخلہ لیا۔۱۹۰۹ء میں فراغت کے بعد دارالعلوم کے شعبہ تکمیل ادب میں داخل ہوئے، اور۱۹۱۰ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔
جب حضور آئے (۱۲)۔۔۔ خالق کا اپنے حسن تخلیق پر ناز۔۔۔ تحریر: قمر یزدانی
خالق کا اپنے حسن تخلیق پر ناز قمر یزدانی ۔۔۔۔۔۔۔۔ چمن زار فصل میں بہار آتی ہے تو دلفریب رعنائیوں اور کیف زالطافتوں، روح پرور نزہتوں اور دلکش رنگینیوں کو اپنے جلو میں لے کر جب اس شان و وقار سے بہار کا ورود ہوتا ہے تو گلشن میں گلہائے رنگا رنگ کھلتے ہیں، غنچے مہکتے ہیں، کلیاں مسکراتی ہیں، عندلیب زار بہاروں کی اس بوقلمونی پر نثار ہوتی ہے اور اپنے کیف آفرین اور دلنشیں نغمات ، حسن چمن پر نچھاور کرتی ہے۔ تمام کائنات، قدرت کے ان روح پرور مظاہر اور حسن ازل کی دل فریبیوں کی داد دیتی ہے۔ اس کے ساتھ دل آ
سچی باتیں۔۔۔ جواب دہی کا احساس۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1925-06-05 جواب دہی کا احساس آپ کو علم ہے ، کہ آپ کی بستی میں مسلمانوں کی آبادی کس قدر ہے؟ اس علم کے حاصل کرنے کے بعد اب ذرا یہ دیکھئے، کہ ان میں سے کتنی تعداد ایسی ہے، جو روزانہ پانچ وقت پابندی کے ساتھ، اکٹھا ہوکر، اپنے ایک قبلہ کی طرف رخ کرکے، اپنی ایک کتاب آسمانی کی ہدایت کے موافق، اپنے ایک رسولؐ کی پیروری میں، اپنے ایک خدا کو یادکرتی ہے؟ کتنی تعداد ایسی ہے ، جو پابندی کے ساتھ ماہ رمضان میں روزہ رکھتے، اور اپنے امکان بھر روزہ کی شرائط کا لحاظ رکھتے ہیں؟ کتنے ایسے ہیں ، جن پر زکوٰۃ واجب
خبرلیجے زباں بگڑی۔۔۔ جس کا کام اسی کو سانجھے۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی
ایک ٹی وی اینکر بتا رہے تھے کہ یہ پرانی کہاوت ہے ’’جس کا کام اسی کو سانجھے‘‘۔ یہ کہاوت تو ہے لیکن اس میں ’’سانجھے‘‘ نہیں ”ساجے“ ہے۔ ممکن ہے یہ سجنے سے ہو۔ سجنا ہندی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے موزوں ہونا، آراستہ ہونا، مرتب ہونا۔ بطور فعل متعدی موزوں کرنا، آراستہ کرنا، یعنی جس کا کام ہے وہ ہی اسے ٹھیک طرح کرسکتا ہے۔ اس کہاوت کا دوسرا ٹکڑا ہے ’’کوئی اور کرے تو ٹھینگا باجے“۔ اس سے ظاہر ہے کہ باجے کے قافیے میں ساجے آئے گا۔ جہاں تک ساجھے کا تعلق ہے تو اس کی اصل بھی ہندی ہے اور اس کے کئی معانی ہیں۔ معر
گلزار دہلوی: میں عجب ہوں امام اردو کا... معصوم مرادآبادی
گلزار دہلوی کے انتقال سے اردو دنیا سوگوار ہے۔وہ ہماری صدیوں پرانی گنگاجمنی تہذیب کا ایک جیتا جاگتا نمونہ تھے۔وہ خالص دہلی والے تھے اور ان کی زندگی کا بیشتر حصہ ان ہی گلی کوچوں میں گزرا تھا، جنھیں خدائے سخن میر تقی میر نے اوراق مصور سے تشبیہ دی تھی۔ وہ دہلی کی ایک توانا آوازتھے اور اس مٹتی ہوئی تہذیب کے امین تھے ، جس نے اس شہر کو وقار بخشا تھا۔گلزار دہلوی کے بغیر اس دہلی کی ادبی زندگی کا تصور کرتا ہوں تو مجھے بڑی ویرانی محسوس ہوتی ہے۔ وہ ہر شعری نشست کی آبرو تھے اور انھیں ان کی بزرگی کی وجہ
اردو کی گنگا جمنی تہذیب کا آخری پیکر بھی رخصت ہوا... معصوم مرادآبادی
اردو زبان وتہذیب کی آخری چلتی پھرتی نشانی گلزار دہلوی بھی چل بسے۔ انھوں نے ابھی چند روز پہلے ہی تو نوئیڈا کے ایک اسپتال میں کورونا جیسی موذی بیماری کوشکست دے کر زندگی کا پرچم بلند کیا تھا۔94برس کی عمر میں اپنی بے مثال قوت ارادی سے کورونا کو شکست دینے والے گلزار دہلوی جب اسپتال سے باہر نکلے تو کئی اخباری نمائندے ان کے منتظر تھے۔ان کی کہانی کئی بڑے اخباروں نے جلی عنوانات کے ساتھ شائع کی۔ مجھے یقین ہوچلا تھا کہ وہ ابھی اور جئیں گے اور جام وصبو سے اپنا رشتہ بحال رکھیں گے، لیکن یہ کیا ہوا کہ وہ کور

ظہور قدسیﷺ۔۔۔ تحریر: علامہ شبلی نعمانیؒ
ظہورِ قدسی علامہ شبلی نعمانی رح ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " چمنستان دہر میں بارہا روح پرور بہاریں آ چکی ہیں، چرخ نادرۂ کار نے کبھی کبھی بزم عالم اس سر و سامان سے سجائی کہ نگاہیں خیرہ ہو کر رہ گئیں۔ لیکن آ ج کی تاریخ وہ تاریخ ہے جس کے انتظار میں پیر کہن سال دہر نے کروڑوں برس صرف کر دیئے۔ سیارگان فلک اسی دن کے شوق میں ازل سے چشم براہ تھے۔ چرخ کہن مدت ہائے دراز سے اسی صبح جان نواز کے لئے لیل و نہار کی کروٹیں بدل رہا تھا۔ کارکنان قضا و قدر کی بزم آرائیاں، عناصر کی جدت طرازیاں، ماہ و خورشید کی فروغ انگیزیاں، ا
سچی باتیں۔۔۔ پس ماندگی کا راز۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1925-05-29 پس ماندگی کا راز آپ مسلمان ہیں ، اور ہندوستان میں، آپ فرماتے ہیں کہ آپ کے ہم مذہب قریب سات کرور کی تعداد میں موجود ہیں۔ آپ کے علاوہ اسی سرزمین پر، آپ سے بڑی تعداد رکھنے والی ایک قوم اور بھی آبادہے۔ جو فضا آپ کے لئے ہے، وہی اس کے لئے بھی ہے، جس آب وہوا میں آپ پرورش پارہے ہیں، اُسی میں وہ بھی پل رہی ہے۔ جس خاک کے آپ جزو ہیں، اُسی کی وہ بھی ہے، آپ جس طرح ایک اجنبی حکومت کے غلام اور بے بس وبے اختیار ہیں، ٹھیک اسی طرح وہ بھی ہے۔ مگر باوجود اس کے، یہ کیا بات ہے، کہ آپ روز بروز
خبرلیجے زباں بگڑی۔۔۔ قوس وقزح کے رنگ۔۔۔۔ تحریر: اطہر ہاشمی
قوس و قزح کے رنگ ۔30 مئی کے ایک اخبار میں رنگین تصویر کا عنوان (کیپشن) ہے ’’ٹوکیو میں قوس و قزح کے رنگ بکھرے ہوئے ہیں‘‘۔ ایک تو ہمارے صحافی بھائیوں کو بے جا طور پر ’و‘ کا استعمال بہت پسند ہے۔ جیسے بلندوبانگ، چاق و چوبند اور اب قوس و قزح۔ اصل میں یہ’قوس قُزح‘ ہے۔ ’قوس‘ کا مطلب کمان اور ’قزح‘ (ق پر پیش) کا مطلب ہے رنگ، یعنی رنگوں کی کمان۔ چنانچہ ’’قُزح کے رنگ‘‘ بالکل بے معنی ہے لیکن بار بار پڑھنے میں آتا ہے۔ قوس عربی کا لفظ اور مونث ہے۔ قوس آسمان کو بھی کہتے ہیں، کیوں کہ یہ بھی مثل کمان کے ہے۔
بات سے بات۔۔۔ مولانا محب اللہ لاری ندوی رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔۔ تحریر: عبد عبد المتین منیری۔ بھٹکل
ڈاکٹر رضئ الاسلام ندوی صاحب نے مولانا محب اللہ لاری ندوی مرحوم کاذکر چھیڑا ہے، ڈاکٹر صاحب ندوے میں آپ کے عہد زریں کے عینی گواہ ہیں۔ ہمارا حال تو سنی مسلمانوں کا ہے، سنی سنائی باتیں نقل کرنا ہمارا مشغلہ ہے، مولانا سے چند ایک بار ملنے کا شرف اس ناچیز کو حاصل ہوا ہے، چونکہ مولانا کم گو اور انتظامی آدمی تھے لہذا کبھی علمی استفادے کا موقعہ ہاتھ نہ آسکا۔ لیکن مولانا چونکہ ہمارے سن شعور میں ندوے کے اہتمام سے وابستہ ہوئے تھے، اور اس وقت ہمارے کئی ایک دوست احباب ندوے میں زیر تعلیم تھے، تو آپ کے د
ؒادبی انٹرویو۔۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادی
ادبی انٹرویو (مولانادریابادی کایہ انٹرویو آل انڈیا ریڈیو اسٹیشن دہلی کی فرمائش پر لکھنو یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر پروفیسراحتشام حسین نے لیا تھا جو 8جون 1960ءکونشرہوا۔اس نشریہ میں سوال وجواب کی شکل میں درج تفصیلات سے مولاناکی ادبی زندگی کے مختلف پہلوؤں سےمتعلق بہت سی گراں قدر معلومات فراہم ہوتی ہیں، جن میں عبرت بھی ہے درس بھی۔ ڈاکٹر زبیر احمد صدیقی) --------------------------------------------------- احتشام صاحب یہ میری خوش قسمتی ہے کہ آل انڈیاریڈیوکے ارباب حل وعقد نے آج آپ سے ایک "ا