Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















حضرت مولانا محمد اقبال ملا ندوی ۔ چیف قاضی جماعت المسلمیں کی رحلت۔۔۔ تحریر:عبد المتین منیری۔ بھٹکل
تدبر، تفکر ، تفقہ ،زہد وتقشف کی نادر مثال ۔ایک سورج ، جس نے کئی چاند روشن کئے تحریر: عبد المتین منیری۔بھٹکل آج مورخہ 23 ذی قعدہ 1441ھ مطابق 15؍ جولائی 2020ء بوقت چاشت منگلور کے اسپتال میں حضرت مولانا محمداقبال ملا ندوی صاحب چیف قاضی جماعت المسلمین بھٹکل و صدر جامعہ اسلامیہ بھٹکل نے زندگی کی آخری سانس لی، وہ گزشتہ 16 دنوں سے شدید بیماری کی وجہ سے وینٹیلیٹر پر تھے۔ انہیں سانس میں تکلیف محسوس ہورہی تھی، اس کے علاوہ بھی انہیں کئی ایک عوارض تھے جن کاخاطر خواہ علاج لاک ڈون کے تین مہینوں میں نہ

بات سے بات: پی ڈی یف کتابوں سے استفادہ کیوں کر؟۔۔۔ عبد المتین منیری۔ بھٹکل
بات سے بات: پی ڈی یف کتابوں سے استفادہ کیوں کر ہو؟ عبد المتین منیری۔ بھٹکل اس وقت پی ڈیف پر اسکین شدہ کتابوں کی ایک باڑھ سی لگی ہوئی ہے۔ سینکڑوں ویب سائٹس، واٹس اپ گروپ ، ٹیلگرام چینل مفت الکٹرونک کتابیں بانٹنے میں لگے ہوئے ہیں،(اس کا اخلاقی جواز کہاں تک ہے؟ اس وقت یہ ہمارےموضوع سے خارج ہے)۔ چونکہ ان کے چینلوں، گروپوں کی تعداد بے حد وحساب ہے لہذا کتابوں کے شوقین افراد کا سارا وقت اب ان کتابوں کو ڈون لوڈ کرنے، ان کا نام لکھنے اور انہیں مرتب کرنے میں گزر جانے لگا ہے۔ جو ایک المیہ سے کم نہیں ہے۔
حکومت کی بوکھلاہٹ کا ایک اور نمونہ... سہیل انجم
چینی جارحیت پر سینئر کانگریسی رہنما راہل گاندھی کے تیکھے سوالوں کا بی جے پی یا حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ اسی لیے براہ راست گفتگو کرنے کے بجائے دائیں بائیں بھاگنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی طرح ڈرا دھمکا کر کانگریس صدر سونیا گاندھی، راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کو خاموش کرایا جا سکے۔ چونکہ حکومت بہت سے مخالفین کو انتقامی کارروائی کے تحت چپ کرا چکی ہے اس لیے وہ چاہتی ہے کہ کانگریس بھی چپ ہو جائے اور ا س کی ناکامیوں کے سلسلے میں کوئی سوال نہ پوچھے۔ ان پر پردہ
ایا صوفیۃ: مسلمانوں کے آخری فتح عظیم کی علامت۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل
ایاصوفیہ کی مسجد کی حیثیت بحال کرنے کی خبر شوشل میڈیا پر چھائی ہوئی ہے، کون مسلمان ہوگا جو اللہ کی بنائی ہوئی اس زمین پر اس نام بلند ہونے پر خوش نہ ہو، یہ بحث کہ پہلے یہ کلیسا تھا، پھرمحمد الفاتح نے قسطنطنیۃ کی فتح کے بعد ۱۴۵۳ء میں اسے خرید کر مسجد میں تبدیل کیا، پھر ۱۹۳۵ء میں کمال اتاترک نے خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد اسے میوزیم میں تبدیل کیا، اور یہاں پر نماز کی ادائیگی پر پابندی عائد کی گئی، یہاں کے مسلمانوں کی دیرینہ خواہش اسے مسجد قرار دینے کی تھی، جو پچاسی سال بعد اب پوری ہوئی۔ عیسائی ک

عید قرباں۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
عیدقرباں یہ تقریر لکھنو ریڈیو اسٹیشن سے فروری ۱۹۴۰ء میں عیدالاضحی کی شام کو نشر ہوئی تھی۔ ۱۵ منٹ کے مختصر وقفہ میں مولانا عبدالماجد دریابادی علیہ الرحمہ نے بقرعید کی خصوصیات، اس کے پیام اور دیگر جزئیات کی تصویر کمالِ بلاغت سے، بڑے دلچسپ انداز میں، کھینچی ہے۔ یہ نشریہ آج بھی اپنی لطافت اورمعنویت کے لحاظ سے تازہ اور تابندہ ہے۔ ڈاکٹرزبیراحمد صدیقی اللہ اللہ دو مہینے دس دن کی مدّت بھی کوئی مدّت ہے۔ بات کہتے کٹ گئی اورشوّال کی پہلی کی یاد ابھی مٹنے نہ پائی تھی کہ ذی الحجّہ کی دسویں آگئی۔ وہ مسلمان
جب حضور آئے۔۔۔ (۱۵)۔۔۔ خواب کی تعبیر مل گئی۔۔۔ تحریر: صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی
۔۔۔۱۲ربیع الاول کو صرف ظہور قدسی نہیں ہوا بلکہ عالم نو طلوع ہوا۔ اس تاریخ کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جہان خاکی میں قدم رکھا اور تاریخ عالم نے نئے سفر کا آغاز کیا۔ اس روز ایک ماں نے سعادت مند بیٹے ہی کو جنم نہیں دیا؛ بلکہ مادر گیتی نے ایک انقلاب کو جنم دیا۔ اس دن محض آمنہ کا گھر منور نہیں ہوا؛ بلکہ تیرہ و تار خاکدان ہستی روشن ہوا، جس کے قدم رنجا فرمانے سے زندگی پر شباب آگیا اور صدیوں سے دیکھے جانے والے خواب کو تعبیر مل گئی۔ اس کی تاب رو سے شش جہت کائنات کو روشنی ملی اور اس کے حلقہ
پہلا مغربی سامراج اور جنوبی ہند(قسط ۰۱)۔ ۔۔ تحریر: عبد المتین منیری ۔ بھٹکل
نشات ثانیہ کے اپنے ابتدائی دنوں میں یورپی ملکوں میں دوائی کی شیشیوں میں لکھی یہ عبارت ۔(( ہندوستان سے درآمد کی ہوئی یا دیار عرب سے درآمد کی ہوئی))۔ بہت سے مہم جویوں او ر دولت کے متلاشیوں کے جذبہ کو ابھارتی تھی اور انہیں مشرق سے آنے والی طبیعی اشیاء مصالحہ جات اور عطریات جیسی دولت کے سرچشموں کی تلاش اور وہاں کے سفر پر اکساتی تھی۔ اس دور کے جغرافیائی انکشافات پر تحقیق کرنے والے ایک محقق پانیکار نے مصالحہ جات میں ایک اہم عنصر کالی مرچ کی اس زمانے میں قدر وقیمت کے بارے میں درس
چارٹرڈ فلائٹ قومی تاریخ چو ایک سنہرا باب۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری
اللہ تعالی جیتا کوناچے بھلا چاہتا ترین تیکا نیکے کاما چی توفیق دیتا، کال ۷ ؍ جولائی راس الخیمہ ایرپورٹ ٹیکون( ۱۷۸ )گاوین مانساک گھینون روانہ زالی، انی ہیچان فوڑے ۱۲ ؍جون کوں اشی کچ (۱۸۴) مانساک گھینوں اڑلی وھتی، اشی چار شیں قریب قومی بھاوڑے ، بہنیو انی چڑویں گانوانت اپلے گھرے خیر وعافیت سرین پاولے۔ *ہی مانسات چند مانشے تین چار ماس ٹیکون بے کار زالے ہوتے، کورونا چی مار بھیتر تیں انی تینچے اہل وعیال ذریعہ معاش پاسون محروم زاؤن ہوتے، ایک مدت باہر خوش حال زندگی کاڑون ایتا تیں قلاش حالتیت پاؤن وھت
سچی باتیں۔۔۔ ندامت کی گھڑی۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
ندامت کی گھڑی اگر آپ مسلمان، اور سُنّی مسلمان ہیں، تو حشرونشر اور روز قیامت پر ضرور آپ کو عقیدہ ہوگا۔ پھر اُس روز اگر شہید کربلا امام حسین علیہ السلام کا اور آپ کا سامنا ہوگیا، اور وہ مُحرّم کی بابت کچھ سوالات آپ سے کربیٹھے ، تو کیا آ پ اُن کا تشفی بخش اور معقول جواب دے سکیں گے؟ اگر امام مظلوم نے سوال کردیا، کہ تم محرّم میری توہین ورسوائی کے لئے مناتے تھے ، یا میری عزت و تعظیم کے لئے؟ میں نے دسویں محرم بھوک او رپیاس کی شدت کے ساتھ گزاری ، اور تم میرانام لے لے کر اُس روز خوب مزے مزے کے حلوے
جب حضور آئے۔۔۔ (۱۴) ۔۔۔ شرف انسانی کو معراج نصیب ہوئی۔۔۔ تحریر: صاحبزادہ طارق محمود
عربی میں ربیع بہار کو کہتے ہیں اور بہار جب آتی ہے تو غنچے چٹکتے ہیں، پھول کھل اٹھتے ہیں، کلیاں مسکراتی ہیں، سبزہ زار مہک اٹھتے ہیں، پرندے چہچہاتے ہیں، بہار کی آمد سے دل و دماغ معطر ہو جاتے ہیں اور ہر طرف ایک کیف و مستی اور سرور کا عالم ہوتا ہے۔ آج سے چودہ سو برس پہلے عرب کی ویران وادی میں بہار آئی تھی، بی بی آمنہ کے گھر کے آنگن میں ایک سدا بہار پھول کھلا تھا، جس کی مہک سے ساری کائنات معطر ہو گئی، دلوں کے خلوت کدے روشن ہو گئے، تھکی ماندی انسانیت کو شادمانی نصیب ہوئی، نسل آدم کا وقار بلند ہوا، شرف
میں میں میں ۔ ایک خطرناک بیماری....:۔ڈاکٹر علیم خان فلکی
میں یہ سمجھتا ہوں۔۔میں حق بات کہتا ہوں۔۔۔۔میں نے اتنے لوگوں کی مدد کی ہے۔۔۔یہ ”میں میں میں“کے وائرس سے ہر دس افراد میں سے نو افراد اس کے شکار ہیں۔ یہ قوم میں لیڈرشِپ کی کمی کا دوسرا سبب ہے۔ ہم نے پہلے کمانڈمنٹ میں یہ واضح کیا تھا کہ جب تک قوم ”چاہئے چاہئے“ کا پہاڑہ بند نہیں کرے گی یعنی ”حکومت کو یہ کرنا چاہئے، مسلمانوں کو وہ کرنا چاہئے“ قوم کسی بھی مثبت کا م کی طرف ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ دوسرا کمانڈمنٹ یہ ہے کہ اچھے لیڈر بننے کے لئے پہلے ایک اچھا والنٹئر بننا ضروری ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ ی
بات سے بات: مجلات کے اشاریوں کی قدر وقیمت۔۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل
جناب محمد شاہد حنیف صاحب نے لاہور سے الفرقان لکھنو کی مطلوبہ فائلوں کے بارے میں علم وکتاب گروپ پر استفسار کیا ہے، شاہد حنیف صاحب کا شمار اردو مجلات کے چوٹی کے اشاریہ نگاروں میں ہوتا ہے، آپ نے بیسیوں قدیم مجلات کے اشارئے بڑی دیدہ ریزی سے مرتب کرکے ان مجلات کی افادیت کو عام کیا ہے۔ اس طرح علم وتحقیق کے وہ لاکھوں صفحات جو گزشتہ ایک صدی سے زیادہ عرصے سے ادھر ادھربکھرے پڑے تھے، ان سے استفاد کو آسان کردیا ہے، ان اشاریوں سے جہاں ان مجلات کی علمی قیمت کئی گنا بڑھ گئی ہے، وہیں انٹرنٹ پر ان کی دستیابی
بات سے بات: یاجوج ماجوج مولانا دریابادی کی نظر میں... تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل
آج کل کورونا اور قرنطینہ کا جگہ جگہ چرچا ہے۔ اسی مناسبت سے ہم نے علم وکتاب گرو پ پر مولانا عبد الماجد دریابادیؒ کے معرکۃ آراء سفر حجاز سے جزیرہ کامران میں عازمین حج کے قرنطینہ سے متعلق باب پوسٹ کیا تھا، اس میں مولانا دریابادی ؒ نے یاجوج ماجوج کی طرف جو اشارے اور تلمیحات کی ہیں اس سے بعض احباب نے اس خیال کر اظہار کیا ہے کہ(( شاید ایسا لگتا ہے کہ مولانا یوروپین اقوام کو ہی یاجوج کا مصداق مانتے ہیں))۔ چونکہ مولانا دریابادی کا یہ سفر ۱۹۲۹ء میں ہوا تھا، اور اس وقت یورپی سامراج کا دنیا پر مکمل غ
خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ ہمی سوگئے،اچھا کیا۔۔۔ تحریر: اطہر ہاشمی
سنڈے میگزین میں ایک شاہین صفت مضمون نگار نے بہت معروف اور دلکش شعر کو داغ دار کردیا ہے۔ شعر یوں چھپا ہے:۔ زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا ہمی سو گئے داستاں کہتے کہتے یہ ۔ہمی۔ کیا ہوتا ہے؟ شاعر زندہ ہوتا تو پھڑک کر رہ جاتا۔ لیکن یہ غلطی عام ہورہی ہے۔ آزاد کشمیر کے بہت اچھے شاعر احمد عطا اللہ نے بھی یہی غلطی کی ہے۔ اُن کا شعر ہے۔ جب غزل پھر رہی تھی سر کھولے یہ ہمی تھے جنہوں نے در کھولے شعر اچھا ہے لیکن لغت میں ’’ہمی‘‘ کا وجود نہیں۔ یہ ’ہم ہی‘ کا مخفف ہے، لیکن اس کی جگہ ’ہمیں‘ لکھنے میں کیا پریش
سچی باتیں۔۔۔ محبت کا ثبوت۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
محبت کا ثبوت آپ کو واقفیت ہے ، کہ امام حسین علیہ السلام نے کیوں دشتِ کربلا میں اپنی شہادت گوارافرمائی؟ کیا اس معرکہ سے اُنھیں ملک گیری مقصود تھی؟ کیا طمع دنیوی سے اُن کا دامن آلودہ تھا؟ کیا (نعوذ باللہ) وہ شہرت وناموری کے بھوکے تھے؟ دوست دشمن سب کو معلوم ہے، کہ ان میں سے کوئی شے امام موصوف کے پیش نظر نہ تھی۔ ایک فاسق حکمراں نے اُن سے بیعت لینا چاہی، انھوں نے انکار فرمایا، اوراُس انکار پر قائم رہے، یہاں تک کہ اس انکار کی قیمت اپنے سرمبارک سے دی، لیکن ایک بدکار وظالم حکمراں کی حکومت نہ تسلیم کی
بات سے بات: مولانا محمود حسن خان ٹونکی اور آپ عظیم علمی کارنامہ معجم المصنفین.۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل
گزشتہ دنوں مظہر محمو د شیرانی اللہ کو پیارے ہوئے، وہ رومانی شاعر اختر شیرانی کے فرزند تھے، لیکن ان کے بیٹے کو اپنے نامور دادا محمود خان شیرانی کی نسبت سے پہچان ملی، آخری دنوں میں ان کے خاکوں کو بڑی شہرت ملی، اپنے والد ماجد پر لکھا ان کا خاکہ بھاوجی اردو کے بہترین خاکوں میں شمار ہوا، لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ تحقیق وجستجو کا جو میدان ان کی حقیقی پہچان بننا چاہئے تھا، اس کا کم ہی لوگوں کو علم ہوسکا، حالانکہ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں فرہنگ دہخدا کے ترجمہ و تلخیص کا جو کام انہوں نے شروع کیا

جب حضور آئے۔۔۔(۱۳) ۔۔۔ سب سے بڑی عید کا دین۔۔۔۔ تحریر: مولانا کوثر نیازی
سب سے بڑی عید کا دن مولانا کوثر نیازی ۔۔۔۔۔۔۔۔ " ربیع الاول کا مہینہ پوری تاریخ انسانی میں ایک غیر فانی اہمیت کا حامل مہینہ ہے ۔ اس مہینے میں وہ ذات بابرکات پہلوئے آمنہ میں ہویدا ہوئی جس نے تاریخ انسانی کے دھارے کا رخ پلٹ دیا ۔ جس نے انسانیت کو پستی سے نکال کر عظمت و رفعت کے آسمان پر پہنچایا ۔ جس نے دکھی دنیا کو پیغام امن و راحت دیا ۔ اسے دکھوں اور آلام کا مداوا بخشا ۔ اس کی ان بیڑیوں کو کاٹا جس میں وہ صدیوں سے جکڑی چلی آرہی تھی ۔ اس کی پشت پر سے وہ بوجھ اتارے جس کے نیچے وہ قرن ہا قرن سے
محسن کتابیں۔۔۔ ۱۶۔۔۔ تحریر: خواجہ غلام السیدین
خواجہ غلام السیدین ۔ولادت:پانی پت،۵ /شعبان ۱۳۲۲ھ،/۱۶ اکتوبر ۱۹۰۴ء۔ ۔۱۹۰۴ وطن پانی پت نسلاً ایوبی انصاری، مولانا الطاف حسین حالی کے پر نواسے تھے۔ ان کے والد خواجہ غلام الثقلین اردو کے ممتاز لوگوں میں تھے۔ میٹرک تک حالی مسلم ہائی سکول پانی پت میں تعلیم حاصل کی ۔۱۹۱۹ء ۔ میں پنجاب یونیورسٹی سے انٹرنس کا امتحان پاس کیا، پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لے کر ۱۹۲۳ء میں بی اے کیا، اور حکومت ہند کے وظیفے پر انگلستان جاکر لیڈز یونیورسٹی سے ایجوکیشن میں ڈپلومہ کیا، اور۱۹۲۵ء