Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















پہلا مغربی سامراج اور جنوبی ہند(قسط ۰۱)۔ ۔۔ تحریر: عبد المتین منیری ۔ بھٹکل
نشات ثانیہ کے اپنے ابتدائی دنوں میں یورپی ملکوں میں دوائی کی شیشیوں میں لکھی یہ عبارت ۔(( ہندوستان سے درآمد کی ہوئی یا دیار عرب سے درآمد کی ہوئی))۔ بہت سے مہم جویوں او ر دولت کے متلاشیوں کے جذبہ کو ابھارتی تھی اور انہیں مشرق سے آنے والی طبیعی اشیاء مصالحہ جات اور عطریات جیسی دولت کے سرچشموں کی تلاش اور وہاں کے سفر پر اکساتی تھی۔ اس دور کے جغرافیائی انکشافات پر تحقیق کرنے والے ایک محقق پانیکار نے مصالحہ جات میں ایک اہم عنصر کالی مرچ کی اس زمانے میں قدر وقیمت کے بارے میں درس
چارٹرڈ فلائٹ قومی تاریخ چو ایک سنہرا باب۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری
اللہ تعالی جیتا کوناچے بھلا چاہتا ترین تیکا نیکے کاما چی توفیق دیتا، کال ۷ ؍ جولائی راس الخیمہ ایرپورٹ ٹیکون( ۱۷۸ )گاوین مانساک گھینون روانہ زالی، انی ہیچان فوڑے ۱۲ ؍جون کوں اشی کچ (۱۸۴) مانساک گھینوں اڑلی وھتی، اشی چار شیں قریب قومی بھاوڑے ، بہنیو انی چڑویں گانوانت اپلے گھرے خیر وعافیت سرین پاولے۔ *ہی مانسات چند مانشے تین چار ماس ٹیکون بے کار زالے ہوتے، کورونا چی مار بھیتر تیں انی تینچے اہل وعیال ذریعہ معاش پاسون محروم زاؤن ہوتے، ایک مدت باہر خوش حال زندگی کاڑون ایتا تیں قلاش حالتیت پاؤن وھت
سچی باتیں۔۔۔ ندامت کی گھڑی۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
ندامت کی گھڑی اگر آپ مسلمان، اور سُنّی مسلمان ہیں، تو حشرونشر اور روز قیامت پر ضرور آپ کو عقیدہ ہوگا۔ پھر اُس روز اگر شہید کربلا امام حسین علیہ السلام کا اور آپ کا سامنا ہوگیا، اور وہ مُحرّم کی بابت کچھ سوالات آپ سے کربیٹھے ، تو کیا آ پ اُن کا تشفی بخش اور معقول جواب دے سکیں گے؟ اگر امام مظلوم نے سوال کردیا، کہ تم محرّم میری توہین ورسوائی کے لئے مناتے تھے ، یا میری عزت و تعظیم کے لئے؟ میں نے دسویں محرم بھوک او رپیاس کی شدت کے ساتھ گزاری ، اور تم میرانام لے لے کر اُس روز خوب مزے مزے کے حلوے
جب حضور آئے۔۔۔ (۱۴) ۔۔۔ شرف انسانی کو معراج نصیب ہوئی۔۔۔ تحریر: صاحبزادہ طارق محمود
عربی میں ربیع بہار کو کہتے ہیں اور بہار جب آتی ہے تو غنچے چٹکتے ہیں، پھول کھل اٹھتے ہیں، کلیاں مسکراتی ہیں، سبزہ زار مہک اٹھتے ہیں، پرندے چہچہاتے ہیں، بہار کی آمد سے دل و دماغ معطر ہو جاتے ہیں اور ہر طرف ایک کیف و مستی اور سرور کا عالم ہوتا ہے۔ آج سے چودہ سو برس پہلے عرب کی ویران وادی میں بہار آئی تھی، بی بی آمنہ کے گھر کے آنگن میں ایک سدا بہار پھول کھلا تھا، جس کی مہک سے ساری کائنات معطر ہو گئی، دلوں کے خلوت کدے روشن ہو گئے، تھکی ماندی انسانیت کو شادمانی نصیب ہوئی، نسل آدم کا وقار بلند ہوا، شرف
میں میں میں ۔ ایک خطرناک بیماری....:۔ڈاکٹر علیم خان فلکی
میں یہ سمجھتا ہوں۔۔میں حق بات کہتا ہوں۔۔۔۔میں نے اتنے لوگوں کی مدد کی ہے۔۔۔یہ ”میں میں میں“کے وائرس سے ہر دس افراد میں سے نو افراد اس کے شکار ہیں۔ یہ قوم میں لیڈرشِپ کی کمی کا دوسرا سبب ہے۔ ہم نے پہلے کمانڈمنٹ میں یہ واضح کیا تھا کہ جب تک قوم ”چاہئے چاہئے“ کا پہاڑہ بند نہیں کرے گی یعنی ”حکومت کو یہ کرنا چاہئے، مسلمانوں کو وہ کرنا چاہئے“ قوم کسی بھی مثبت کا م کی طرف ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ دوسرا کمانڈمنٹ یہ ہے کہ اچھے لیڈر بننے کے لئے پہلے ایک اچھا والنٹئر بننا ضروری ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ ی
بات سے بات: مجلات کے اشاریوں کی قدر وقیمت۔۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل
جناب محمد شاہد حنیف صاحب نے لاہور سے الفرقان لکھنو کی مطلوبہ فائلوں کے بارے میں علم وکتاب گروپ پر استفسار کیا ہے، شاہد حنیف صاحب کا شمار اردو مجلات کے چوٹی کے اشاریہ نگاروں میں ہوتا ہے، آپ نے بیسیوں قدیم مجلات کے اشارئے بڑی دیدہ ریزی سے مرتب کرکے ان مجلات کی افادیت کو عام کیا ہے۔ اس طرح علم وتحقیق کے وہ لاکھوں صفحات جو گزشتہ ایک صدی سے زیادہ عرصے سے ادھر ادھربکھرے پڑے تھے، ان سے استفاد کو آسان کردیا ہے، ان اشاریوں سے جہاں ان مجلات کی علمی قیمت کئی گنا بڑھ گئی ہے، وہیں انٹرنٹ پر ان کی دستیابی
بات سے بات: یاجوج ماجوج مولانا دریابادی کی نظر میں... تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل
آج کل کورونا اور قرنطینہ کا جگہ جگہ چرچا ہے۔ اسی مناسبت سے ہم نے علم وکتاب گرو پ پر مولانا عبد الماجد دریابادیؒ کے معرکۃ آراء سفر حجاز سے جزیرہ کامران میں عازمین حج کے قرنطینہ سے متعلق باب پوسٹ کیا تھا، اس میں مولانا دریابادی ؒ نے یاجوج ماجوج کی طرف جو اشارے اور تلمیحات کی ہیں اس سے بعض احباب نے اس خیال کر اظہار کیا ہے کہ(( شاید ایسا لگتا ہے کہ مولانا یوروپین اقوام کو ہی یاجوج کا مصداق مانتے ہیں))۔ چونکہ مولانا دریابادی کا یہ سفر ۱۹۲۹ء میں ہوا تھا، اور اس وقت یورپی سامراج کا دنیا پر مکمل غ
خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ ہمی سوگئے،اچھا کیا۔۔۔ تحریر: اطہر ہاشمی
سنڈے میگزین میں ایک شاہین صفت مضمون نگار نے بہت معروف اور دلکش شعر کو داغ دار کردیا ہے۔ شعر یوں چھپا ہے:۔ زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا ہمی سو گئے داستاں کہتے کہتے یہ ۔ہمی۔ کیا ہوتا ہے؟ شاعر زندہ ہوتا تو پھڑک کر رہ جاتا۔ لیکن یہ غلطی عام ہورہی ہے۔ آزاد کشمیر کے بہت اچھے شاعر احمد عطا اللہ نے بھی یہی غلطی کی ہے۔ اُن کا شعر ہے۔ جب غزل پھر رہی تھی سر کھولے یہ ہمی تھے جنہوں نے در کھولے شعر اچھا ہے لیکن لغت میں ’’ہمی‘‘ کا وجود نہیں۔ یہ ’ہم ہی‘ کا مخفف ہے، لیکن اس کی جگہ ’ہمیں‘ لکھنے میں کیا پریش
سچی باتیں۔۔۔ محبت کا ثبوت۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
محبت کا ثبوت آپ کو واقفیت ہے ، کہ امام حسین علیہ السلام نے کیوں دشتِ کربلا میں اپنی شہادت گوارافرمائی؟ کیا اس معرکہ سے اُنھیں ملک گیری مقصود تھی؟ کیا طمع دنیوی سے اُن کا دامن آلودہ تھا؟ کیا (نعوذ باللہ) وہ شہرت وناموری کے بھوکے تھے؟ دوست دشمن سب کو معلوم ہے، کہ ان میں سے کوئی شے امام موصوف کے پیش نظر نہ تھی۔ ایک فاسق حکمراں نے اُن سے بیعت لینا چاہی، انھوں نے انکار فرمایا، اوراُس انکار پر قائم رہے، یہاں تک کہ اس انکار کی قیمت اپنے سرمبارک سے دی، لیکن ایک بدکار وظالم حکمراں کی حکومت نہ تسلیم کی
بات سے بات: مولانا محمود حسن خان ٹونکی اور آپ عظیم علمی کارنامہ معجم المصنفین.۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل
گزشتہ دنوں مظہر محمو د شیرانی اللہ کو پیارے ہوئے، وہ رومانی شاعر اختر شیرانی کے فرزند تھے، لیکن ان کے بیٹے کو اپنے نامور دادا محمود خان شیرانی کی نسبت سے پہچان ملی، آخری دنوں میں ان کے خاکوں کو بڑی شہرت ملی، اپنے والد ماجد پر لکھا ان کا خاکہ بھاوجی اردو کے بہترین خاکوں میں شمار ہوا، لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ تحقیق وجستجو کا جو میدان ان کی حقیقی پہچان بننا چاہئے تھا، اس کا کم ہی لوگوں کو علم ہوسکا، حالانکہ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں فرہنگ دہخدا کے ترجمہ و تلخیص کا جو کام انہوں نے شروع کیا

جب حضور آئے۔۔۔(۱۳) ۔۔۔ سب سے بڑی عید کا دین۔۔۔۔ تحریر: مولانا کوثر نیازی
سب سے بڑی عید کا دن مولانا کوثر نیازی ۔۔۔۔۔۔۔۔ " ربیع الاول کا مہینہ پوری تاریخ انسانی میں ایک غیر فانی اہمیت کا حامل مہینہ ہے ۔ اس مہینے میں وہ ذات بابرکات پہلوئے آمنہ میں ہویدا ہوئی جس نے تاریخ انسانی کے دھارے کا رخ پلٹ دیا ۔ جس نے انسانیت کو پستی سے نکال کر عظمت و رفعت کے آسمان پر پہنچایا ۔ جس نے دکھی دنیا کو پیغام امن و راحت دیا ۔ اسے دکھوں اور آلام کا مداوا بخشا ۔ اس کی ان بیڑیوں کو کاٹا جس میں وہ صدیوں سے جکڑی چلی آرہی تھی ۔ اس کی پشت پر سے وہ بوجھ اتارے جس کے نیچے وہ قرن ہا قرن سے
محسن کتابیں۔۔۔ ۱۶۔۔۔ تحریر: خواجہ غلام السیدین
خواجہ غلام السیدین ۔ولادت:پانی پت،۵ /شعبان ۱۳۲۲ھ،/۱۶ اکتوبر ۱۹۰۴ء۔ ۔۱۹۰۴ وطن پانی پت نسلاً ایوبی انصاری، مولانا الطاف حسین حالی کے پر نواسے تھے۔ ان کے والد خواجہ غلام الثقلین اردو کے ممتاز لوگوں میں تھے۔ میٹرک تک حالی مسلم ہائی سکول پانی پت میں تعلیم حاصل کی ۔۱۹۱۹ء ۔ میں پنجاب یونیورسٹی سے انٹرنس کا امتحان پاس کیا، پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لے کر ۱۹۲۳ء میں بی اے کیا، اور حکومت ہند کے وظیفے پر انگلستان جاکر لیڈز یونیورسٹی سے ایجوکیشن میں ڈپلومہ کیا، اور۱۹۲۵ء
سی اے اے مخالف مظاہرین اور اقوام متحدہ کے ماہرین... سہیل انجم
شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کا سلسلہ اگرچہ اب اس طرح سے نہیں چل رہا ہے جیسا کہ پہلے چلتا تھا تاہم سوشل میڈیا پر اس کے خلاف آوازیں تو اٹھ ہی رہی ہیں۔ نہ صرف سی اے اے کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں بلکہ احتجاج کرنے والوں کی گرفتاریوں کے خلاف بھی بلند ہو رہی ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے بلند آواز جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ریسرچ اسکالر اور جامعہ کوآرڈینیٹشن کمیٹی کی رکن صفورہ زرگر کی گرفتاری کے خلاف اٹھی۔ نہ صرف ہندوستان کے اندر ان کی گرفتاری کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی اور انھیں رہا
سچی باتیں ۔۔۔ محرم کی بدعتیں۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریاباد
1925-06-13 محرّم کا زمانہ قریب آتاجاتاہے، اور آپ دیکھیں گے کہ عشرۂ محرّم کے آتے ہی مسلمان کیا سے کیا ہوجائیں گے۔ وہی مسلمان جو نماز میں سُست وکاہل تھے، تعزیہ داری میں چست ومستعد نظر آئیں گے۔ وہی مسلمان جو جماعت کی پابندی اپنے لئے بار سمجھتے تھے، تعزیوں کے غول قائم کرنا خوشگوار محسوس کریں گے۔وہی مسلمان جو مسجد کی مسافت طے کرنا اپنی قوت سے باہر سمجھتے تھے ، تعزیوں کے ساتھ گشت کرنا اپنی عین سعادت تصور کریں گے۔ وہی مسلمان جو اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضری کے لئے ہر روز پانچ مرتبہ پکار کو سنت
بات سے بات: ،مولانا لطف اللہ مظہر رشادی ۔۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل
بنگلور سے مولانا لطف اللہ صاحب مظہر رشادی صاحب کے انتقال کی خبر موصول ہوئی ہے، اللہ ان کے درجات بلند کرے۔ آپ حضرت امیر شریعت کرناٹک مولانا ابو السعود احمد باقوی رحمۃ اللہ علیہ کے چوتھے اور سب سے چھوٹے فرزند تھے۔ مولانا مفتی محمد اشرف علی باقوی، مولانا ولی اللہ رشادی، اور قاری امداد اللہ رشادی آپ سے بڑے تھے۔مفتی اشرفعلی صاحب نے جانشین کی حیثیت سے اپنے والد ماجد کے مشن کو آگے بڑھایا، مولانا ولی اللہ مرحوم وانمباڑی کے تاریخی دینی تعلیمی ادارے معدن العلوم کے مہتمم کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔قاری

بات سے بات : سید منور حسن کی یاد میں۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری
آج کراچی سے جناب سید منور حسن صاحب کی رحلت کی خبرآئی ہے۔ آپ کی جدائی کے ساتھ پاکستان جماعت اسلامی کی تاریخ کا ایک باب بند ہوگیا ہے، مرحوم قاضی حسین احمد کے بعد جماعت کے چوتھے امیر منتخب ہوئے تھے، وہ اپنے من کی بات سیاسی اور وقتی مصلحتوں سے بلند ہوکر کہتے والے انسان تھے،شاید اس لئے دوسری بار امیر منتخب نہ ہوسکے، وہ بانی تحریک کے بعد پہلے امیر تھے جو علمی وتحقیقی کا پس منظر رکھتے تھے، اور امید تھی کہ جو جماعت کتاب اور لٹریچر سے تعلق کی ایک شناخت رکھتی تھی، بجھتی ہوئی اپنی اس شناخت کو اجاگ
خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ زبان کی نزاکتیں۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی
ایک ٹی وی چینل پر ’جرگہ‘ کے عنوان سے پروگرام ہوتا ہے لیکن اس کا تلفظ جِرگہ ۔(ج کے نیچے زیر)۔ کیا جاتا ہے۔ انگریزی میں بھی اسے لکھا جاتا ہے، جب کہ یہ فارسی کا لفظ ہے اور ’ج‘ پر زبر ہے ۔(جَرگہ)۔ آدمیوں کا مجمع، گروہ، جماعت، پنچایت وغیرہ… سرحدی قبائلی علاقوں میں وہ جماعت جو سنگین یا اہم معاملات کے بارے میں فیصلہ دیتی ہے۔ سرحدی علاقوں کے علاوہ جہاں جہاں پٹھان آباد ہیں، جَرگہ وہاں بھی ہوتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ پروگرام کرنے والے بھی پٹھان ہیں، اور پٹھانوں سے ہمیشہ جَرگہ ہی سنا ہے۔ لغات کے مطابق
امراؤ جان ادا۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
امراﺅ جان ادا ۔(یہ تقریر لکھنؤ کے مشہور ادیب اور ناول نویس مرزامحمدہادی رسوا کی مایہ ناز کتاب امراﺅ جان ادا پرلکھنؤ ریڈیو اسٹیشن سے 28دسمبر 1950ءکونشر ہوئی، اس میں مولاناؒ نے اپنے مخصوص شگفتہ اندازمیں ناول اورناول نویس دونوں پرجامع ومانع تبصرہ کیاہے۔ دریابادی اس کتاب کی اخلاقی افادیت کے قائل تھے ، اس کتاب کےاولین پارکھ تھے اورانھوں نے اس کاتعارف ادبی وعلمی حلقوں میں باربار داد وتحسین کے ساتھ کرایاہے۔اس ناول سے متعلق دریابادی کی پیشن گوئی آج حرف بہ حرف صادق نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر زبیر احمد صدیقی)