Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















تبصرات ماجدی۔۔۔ کیا خوب آدمی تھا۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
صنف ادب (خاکے) تبصراتِ ماجدی کیا خوب آدمی تھا مرتبہ حالی پبلشنگ ہاوس کتاب گھر۔ دہلی آل انڈیا ریڈیو کے دہلی اسٹیشن کو 1939 میں یہ اپچ سوجھی کہ ہندوستان کے چند مشاہیر حال (خاص کر ادب) کو لے کر ان پر ان کے کسی جاننے والے سے کسی نیاز مند سے ایک ایک تقریر پندرہ منٹ والی کرادیجیے۔ عنوان عمومی یہ تھا ''کیا خوب آدمی تھا'' حالی، نذیر احمد، داغ، اقبال، چکبست، راشد الخیری، مولانا محمد علی و غیرہ کل ۱۱ مشاہیر انتخاب میں آئے، سلسلہ کا آغاز راشد الخیری مرحوم سے ہوا اور خاتمہ مولانا محمد علی پر۔ بولنے والو
جب حضور آئے۔۔۔(۱۸)۔۔۔ طلوع آفتاب رسالت ﷺ ۔۔۔ تحریر: محمد علی جناح
طلوع آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ قانون قدرت ہے کہ جب موسم خزاں میں درختوں کے پتے خشک ہو کر جھڑ جاتے ہیں ، تو بہار کی دلفریب ہوائیں بھی بہت دور پیچھے نہیں ہوتیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ مردہ درختوں کے جسم سے لہلہاتی ہوئی کونپلیں پھوٹتی ہیں اور قدرت پھر ایک دفعہ دلفریب دلہن کی طرح حسن کی آرائشوں سے مالا مال ہو جاتی ہے ۔ اسی طرح جب عرب گمراہی کی ضلالتوں میں ٹھوکریں کھا رہا تھا ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل نے ایک ایسے سورج کو طلوع کیا ، جس کی درخشانی اور تابانی نے تاریک ترین راہگزرو
تبصرات ماجدی۔۔۔ ناکام۔۔۔ از: خواجہ محمد شفیع دہلوی۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
#تبصراتِ ماجدی ناکام از خواجہ محمد شفیع دہلوی مٹیا محل دہلی دہلی کے جدید انشا پرداز خواجہ محمد شفیع کا نام اب نہ اردو کے طلبہ کے لیے نامانوس رہا ہے نہ ناظرین صدق کے لیے۔ ناکام ان کا تازہ ترین افادہ قلم ہے، سرسری نظر میں ایک دلکش افسانہ، گہری نظر میں حکمت و اخلاق کا خزانہ اور ہر صورت میں ادب و انشاء کا ایک گنج شائگان۔ زہرہ ایک مشہور بیسوا ہے اور حسین و حاضر جواب مغنیہ، اس کا سابقہ ایک نوجوان کاظم سے پڑ گیا ہے۔ کاظم ذہانت میں فرد، حاضر جوابی میں استاد، ہر رنگ میں رنگا ہوا، گھاٹ گھاٹ کا پانی پیے
عید الاضحیٰ اور گوشت کی تقسیم۔۔۔از:فیصل فاروق
اگر عید الاضحٰی سے قربانی کا تصور اور فلسفہ نکال دیا جائے تو پھر عید الاضحٰی کا مفہوم باقی نہیں رہے گا۔ قربانی مسلمانوں کا اہم مذہبی فریضہ ہے۔ عید قرباں کا پیغام ہی دراصل ایثار و قربانی ہے۔ فلسفۂ قربانی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نہ تو قربانی کے جانوروں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اللہ تعالیٰ کو مسلمانوں کا تقویٰ مطلوب ہے اور اِسی تقوے کے حصول کیلئے قربانی کی سنت ادا کرنے کا حکم ہے۔ عید الاضحٰی حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی اُسی عظیم اور بے مثال قربانی کی یاد تازہ کرنے کیلئے تمام عالم
خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ گشت، مذکر یا مونث۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی
۔27 جولائی کے ایک اخبار کے اداریے میں ”معمول کی گشت“ پڑھا۔ یعنی اداریہ نویس کے خیال میں ’گشت‘ مونث ہے۔ ہم تو اسے مذکر ہی کہتے اور لکھتے رہے ہیں۔ مونث تو گشتی ہوتی ہے جو اچھی نہیں سمجھی جاتی، اور پنجاب میں بطور گالی استعمال ہوتی ہے۔ دوسری طرف ’گشتی مراسلہ‘ اور ’گشتی سفیر‘ بھی عام ہے۔ اداریہ نویس نے ’گشت‘ کو مونث لکھا ہے تو خیال آیا کہ شاید یہی صحیح ہو، چنانچہ لغات سے رجوع کیا۔ یہ فارسی کا لفظ ہے اور ’فیروزاللغات‘ نے اسے مطلق مونث لکھا ہے۔ تاہم ’نوراللغات‘ نے وضاحت سے کام لیا ہے اور مونث، مذکر دو
کیا ’نئی قومی تعلیمی پالیسی‘ ہندوستان میں تبدیلی لا سکے گی؟۔۔۔۔۔از: محمد علم اللہ
ایک ایسے وقت میں جب کہ پورا ہندوستان ایک خطرناک وبائی مرض سے جوجھ رہا ہے، کئی ریاستوں میں سیلاب کی وجہ سے زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے، مرکزی کابینہ نے آنا فانامیں نئی تعلیمی پالیسی کو منظوری دے دی۔جب کہ سول سوسائٹی اور اہل علم نے پہلے ہی اس پر سوالیہ نشان کھڑے کئے تھے اوراسے ایک مخصوص نظریہ کا شاخسانہ قرار دیا تھا۔ بتاتے چلیں کہ آزاد ہند میں یہ تیسری تعلیمی پالیسی ہے، اس سے قبل یہاں دو قومی تعلیمی پالیسیاں بالترتیب 1968 ء اور 1986 میں اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے عہد میں بنائی گئی تھیں، تاہم
جب حضور آئے۔۔۔(۱۷)۔۔۔ نور کی چادر ہر سمت پھیل گئی۔۔۔ علامہ راشد الخیریؒ
" رات کا دورہ ختم ہو چکا، آسمان نے کروٹ بدلی، ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے ریگستان عرب کو سرد کر دیا، طائران خوش الحان یتیم عبداللہ کی تشریف آوری کا مژده چہک چہک کر گانے لگے، صبح صادق نے رات کی سیاہی دور کی اور نور کی چادر ہر سمت پھیلا دی، روشنی اندھیرے پر غالب آئی، صبا اٹھکیلیوں میں مصروف ہوئی اور سرسبز درختوں کی ہری بھری شاخیں فرط مسرت سے جھوم جھوم کر آپس میں گلے ملنے لگیں، آمنہ کے لال ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) پر زمینی کائنات نثار ہونے کو آگے بڑھی، نسیم نے ہزار جان سے قربان ہو کر بساط ارض
عید الاضحی۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
عیدالاضحیٰ (۱۰فروری ۱۹۶۸ءکولکھنو ریڈیو اسٹیشن کی فرمائش پر عیدالاضحیٰ کے موقعہ پر یہ نشریہ نشر کیا گیا۔ اس میں مولانا دریا بادی نے اپنے منفرد لب ولہجہ مںض سنت ابراہیمی پر روشنی ڈالی ہے اور بڑے دلچسپ انداز سے اس کے مختلف پہلوﺅں کو پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر زبیر احمد صدیقی) --------------------------------------------------------- تہوار کے معنی دوسرے مذہبوں اورتمدنوں میں جوکچھ بھی ہوں، اسلام میں تو بہر حال اس کے معنی کھلی چھٹی اور بھر پور آزادی کے نہیں، اورسو بار نہیں ۔ اور نہ ان کا کوئی تعلق موسم
مرحوم جناب مظفر کولا صاحب۔۔۔۔از: ابو احمد یس یم
2/ذی الحجة الحرام 1441مطابق 23 جولائی 2020 رات تقریبا 10:30 مینگلور سے یہ خبر آئی کہ قوم نوائط کے قدیم ومشہور تاجر جناب مظفر کولا صاحب اس دارفانی سے رخصت ہوکر اللہ کے دربار میں حاضر ہوگئے ۔۔ انا للہ وانا الیہ راجعون محترم مظفر کولا صاحب قوم نوائط کے قدیم و مشہورتاجر تھے۔ انہوں نے برصغیر (ہندوپاک) میں موجود سینکڑوں دینی اداروں کی اپنے ذاتی سرمایہ کے ذریعہ امداد کی۔ اور برصغیر(ہندوپاک ) میں سینکڑوں جگہوں پر جہاں مدارس،مکاتب ومساجد کی ضرورت تھی۔ مرحوم مظفر صاحب نے خود اپنے ذاتی سرمایہ
خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ محاوروں کی دلچسپ کتاب۔۔۔۔ تحریر: اطہر ہاشمی
پچھلے کالم کے حوالے سے ایک قاری عبدالحمید صاحب نے توجہ دلائی ہے کہ حضرت عزیر نبی نہیں بلکہ ایک بزرگ شخص تھے۔ ایسا ہی ہوگا، لیکن تفاسیر اور تراجم میں ان کے نام کے ساتھ علیہ السلام لکھا جاتا ہے اور یہ کلمہ عموماً انبیاءکرام کے نام کے ساتھ آتا ہے۔ ویسے تو اب غیر انبیاءکے ساتھ بھی علیہ السلام لکھا جارہا ہے۔ یہ ایک دعائیہ کلمہ ہے، تاہم مفسرین اور علماءکرام نے کچھ کلمات مخصوص کررکھے ہیں۔ رسول اکرم کے لیے صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام کے لیے رضی اللہ عنہ، اور دیگر بزرگوں کے لیے رحمت اللہ علیہ۔ حضرت ع
سچی باتیں ۔۔۔ حج کا موسم۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
حج کا موسم آگیا۔ دیار حبیبؐ کی زیارت کی گھڑی آگئی۔ دیوانوں کے جوش جنون کے تازہ ہونے کا زمانہ آن لگا۔ بچھڑے ہوؤں کے ملنے کا وقت آ پہونچا۔ جن جن کے نصیب میں تھا، وہ باوجود ہرطرح کی بے سروسامانی کے، اپنے دوردراز وطن سے چل کر، سخت گرمی کے موسم میں طویل سفر کی کلفتیں اُٹھاکر، عرب کے تمتماتے ہوئے آفتاب، حجاز کی جھُلسا دینے والی لُو، ریگستان کی تپتی ہوئی زمین، کو برداشت کرتے، امیر وغریب ، لاکھوں کی تعداد میں، سب ایک ہی قسم کا لباس پہنے، سب ایک ہی چادر اوڑھے، اور ایک ہی تہمد باندھے، اپنے ایک ہی پی
جناب محمد مظفر کولاصاحب۔۔۔ ہمت وحوصلہ کا ایک نادر نموبہ۔۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل
ایسا لگتا ہے کہ ذات باری تعالی اس وقت جلال میں ہے، کیا عزیز؟کیا قریب ؟ کیا عالم کیا عامی؟ سفر آخرت پر روانہ ہونے والوں کی ایک قطار لگی ہوئی ہے۔ جاننے والے، محبت رکھنے والے اس دنیا سے اٹھ رہے کہ ابھی ایک کا کفن میلا نہیں ہوپاتا کہ دوسرے کی اس جہان فانی سے گزرنے کی خبر آجاتی ہے، اور جنازے ایسے اٹھ رہے ہیں جن پر گور غریباں کا گمان ہوتا ہے۔ ابھی مولانا اقبال ملا صاحب کے غم سے نکل نہیں پائے تھے، کہ جناب محمد مظفر کولا صاحب کے اس دنیا سے دائمی سفر پرروانگی کی خبر نے دل ودماغ پر غم کی چادر چڑھا دی

قرآن کیا ہے؟۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
یہ نشریہ لکھنو ریڈیو اسٹیشن سے 18اپریل 1939ء کی شام کو نشرہوا ۔ اس میں مولانا عبدالماجد دریابادیؒ نے کلام مجیدکی خصوصیات ،تعلیمات اور افادیت کا ذکر بہت ہی جامع، اپنے خاص انداز، اور ۱۵ منٹ کے محدود وقفہ میں کیا ہے۔ تحریرکی شگفتگی، اسلوب کی ندرت اور چاشنی دل موہ لینے والی ہے۔ تحریر میں فنی خوبیاں؛ تشبیہ، استعارہ اور کنایہ کی بہترین مثالیں جا بہ جا بکھری ہوئی ہیں، لفظی اور معنوی صنعتوں کی ایسی کثیر خوبصورت ترکیبیں موجود ہیں کہ جنھیں پڑھ کر ان کی توصیف و خوبی کا حسن ذہن پر نقش ہو جاتا ہے ۔ ڈاکٹر ز
دہلی فسادات کے سلسلے میں اقلیتی کمیشن کی چشم کشا رپورٹ... سہیل انجم
شمال مشرقی دہلی میں فروری کے مہینے میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے تعلق سے شروع سے ہی ایسی رپورٹیں آرہی تھیں کہ یہ فرقہ وارانہ فساد نہیں تھا بلکہ سی اے اے کی مخالفت کرنے کی سزا تھی جو مسلمانوں کو دی گئی۔ یہ اپنے آپ پھوٹ پڑنے والا فساد نہیں تھا بلکہ منظم اور منصوبہ بند تھا۔ بی جے پی کے بعض رہنماؤں کے مبینہ اشتعال انگیز بیانات نے فساد کی آگ بھڑکائی تھی۔ تین روز تک مسلسل کشت و خون کا بازار گرم رہا اور حکومت اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ فساد کے دوران پولیس کا رول بھی سوالوں کے گھیرے می
جب حضور آئے۔۔(۱۶)۔۔۔ نور کی چادر پھیل گئی۔۔۔ تحریر: پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد
چاند چمک رہا ہے، ستارے کھل رہے ہیں ، نور کی پھوار پڑ رہی ہے ۔۔۔۔ اچانک غلغلہ بپا ہوا، ایک ندا دینے والا دے رہا تھا ۔۔۔ لوگو ! صدیوں سے جس ستارے کا انتظار تھا ، دیکھو دیکھو آج وہ طلوع ہو گیا ---- آج وہ آنے والا آ گیا --- وادی مکہ کے سناٹے میں یہ آواز گونج گئی ۔ سب حیران یہ ماجرا کیا ہے ؟ ---- کس کا انتظار تھا ، کون آ رہا ہے ؟ ------ ہاں سونے والو ! جاگ اٹھو ! آنے والا آگیا ۔۔۔ نور کی چادر پھیل گئی ، میلوں کی مسافتیں سمٹ گئیں ، بصرائے شام کے محلات نظر آنے لگے ۔ سارے عالم میں چاندنا ہو گیا ، ہاں یہ
خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ معیاد یا میعاد؟۔۔۔ تحریر: اطہر ہاشمی
آج پہلے خود اپنا جائزہ لیتے ہیں۔ 13 جولائی کے جسارت میں ایک خبر کی ذیلی سرخی ہے ”صوبوں سے دغا کیا جارہا ہے“۔ جسارت میں مختلف زبانیں بولنے والے لوگ کام کررہے ہیں۔ ہوسکتا ہے سرخی نکالنے والے صاحب کے نزدیک ”دغا“ مذکر ہو۔ ’دغا‘ فارسی کا لفظ ہے اور بالاتفاق مونث ہے۔ مومن خان مومن کا شعر ہے:۔ دیا علم و ہنر، حسرت کسی کو فلک نے مجھ سے یہ کیسی دغا کی ممکن ہے شمالی علاقوں میں ’دغا‘ مذکر ہو جیسا کہ ’قوم‘ ان علاقوں میں جاکر مذکر ہوجاتا ہے۔ ۔’میعاد‘ بھی ’عوام‘ کی طرح اُن الفاظ کی فہرست میں شامل ہوگیا ج
سچی باتیں۔۔۔ تباہی کے ذمہ دار کون؟۔۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
11-06-1926 کتابی مسیحیت کی اشاعت کے لئے ایک بہت بڑی انجمن برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی کے نام سے ، سوسوا سو برس سے قائم ہے۔ حال میں اُس نے اپنا ایک سو بائیسواں سالانہ جلسہ کیاتھا۔ اس کی روداد جواس نے شائع کرائی ہے، اُس سے معلوم ہوتاہے، کہ انجیل اور اس کے مختلف حصوں کے جتنے نسخے پچھلے سال اس نے شائع کئے، اُن کی مجموعی تعداد ۱۰۴۵۲۷۳۳ تقریبًا ایک کرور پانچ لکھا تک پہونچی! گویا پچیس سال قبل جتنی تعداد تھی ، اب اُس کے دوگنے سے زائد ہوگئی ہے، اور ایک سال قبل جو تعداد تھی، اُس کے مقابلہ میں ابکی ۴۱۲۱۵
ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ ساکہیں جسے(آہ!استادالاساتذہ حضرت مولانا اقبال ملاندوی،رحمۃاللہ علیہ)۔۔از: عبدالحفیظ ندوی
بدھ کے دن (15,جولائی2020)بعد نمازعصر اپنے محلے کی مسجد(مسجد امام شافعی)کے مرمتی کاموں کا جائزہ لے رہا تھاکہ اسی دوارن ایک صاحب خیرنے یہ غمناک خبردی کہ حضرت مولانااقبال ملاندوی(قاضی جماعت المسلمین،بھٹکل) ہم سب کو داغ مفارقت دیتے ہو ئے اس دارفانی سے کوچ کرگئےاس خبرکوسنتے ہی میں اور میرے ساتھیوں نے انالله وانااليه راجعون پڑ ھا. گذشتہ چنددنوں سے مولاناکی طبیعت کی ناسازی کی بناء پر ایڈمیٹ کیاگیاتھااسی وقت سے مولانا مرحوم کے نواسوں سےمسلسل ربط میں تھا جو میرے شاگردوں میں ہیں ،انکے واھل خانہ کے ذر