Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















ایک فقیہ کی وفات کا سانحہ۔۔۔ ڈاکٹر عبد السلام العبادی۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر بد رالحسن القاسمی
ڈاکٹر عبد السلام العبادی اردن کے نامور عالم اور فقیہ تھے کئی سالوں سے بین الاقوامی فقہ اکیڈمی یامجمع الفقہ الاسلامی الدولی کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے جدہ میں مقیم تھے اور وفات بھی وہیں اور کرونا کی بیماری کا شکار ہوکر ھوئی اس طرح اس عجیب وغریب آفت اورعالمی طاعون یا طوفان کا نشانہ بننے والی تازہ قیمتی شخصیت ڈاکٹر عبد السلام العبادی کی ھے ڈاکٹر صاحب کی پیدائش ١٩٤٣کی تھی انھوں نے ١٩٧٢میں جامعہ ازھر کی کلیة الشريعه والقانون سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری فقہ مکارم میں نہایت ھی امتیاز کے ساتھ حاصل کی تھی الم

یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے۔۔۔ معصوم مرادآبادی
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے معصوم مرادآبادی یہ گزشتہ یکم اگست کاواقعہ ہے۔ ملک بھر میں عید الاضحی کا تہوار جوش وخروش کے ساتھ منایا جارہا تھا۔لوگ جو ق در جوق سنت ابراہیمی کی پیروی میں مشغول تھے۔ اچانک ٹوئٹر پر ایک نوجوان کا دردانگیز پیغام ابھرتا ہے۔”سب کوعید مبارک۔یہ ہمارے لئے ایک مشکل گھڑی ہے۔ امّی اسپتال میں ہیں۔ اگر ممکن ہو تو برائے مہربانی ان کے علاج کے لئے دل کھول کر امدادکیجئے۔ شکریہ۔“ جس نوجوان کی طرف سے مدد طلب کی گئی تھی، وہ کسی معمولی خاندان کا چشم وچراغ نہیں تھا۔ یہ ایک ایسے خوشحال
ؒچند مظلوم ومرحوم شخصیتیں۔۔۔(۱) تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
چند مظلوم و مرحوم شخصیتیں تحریر:مولانا عبدالماجد دریابادیؒ (پہلی قسط) زندگی بھر میں حق ادا کسی کے بھی کر پایا ہوں، بڑوں، چھوٹوں، برابر والوں میں شرمندگی نہیں کس سے ہے؟ صفات ستّاری وغفّاری اگر آڑے نہ آجائیں تو حشر میں آنکھیں چار کر کے سامنا کسی ایک بھی سابقہ والے کا نہیں کر سکتا، پھر بھی چند ہستیاں تو خصوصیت سے ایسی ہوئی ہیں، جن کے معاملہ میں حق تلفی اتنی نمایاں اور سنگین رہی ہے کہ جب ان کی یاد آجاتی ہے تو جسم میں جھر جھری سی آنے لگتی ہے، اور آنکھیں فرط ندامت سے زمین پر گڑ کر ر ہ جاتی ہی
تبصرات ماجدی۔۔۔ (160)۔۔۔ جزیرہ سخنوران۔۔ از:غلام عباس۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
(160) جزیرہ سخنوران از غلام عباس صاحب کتاب خانہ ہزار داستان نئ دہلی یہ ایک افسانہ ہے نئے اور البیلے رنگ کا، پلاٹ یورپ سے لیا ہوا لیکن قصہ اردو میں بالکل اپنایا ہوا ایک جزیرہ ہے "جزیرہ سخنوران " تمام تر شاعروں اور ان کے مداحوں سے آباد، اخلاق کی قیود سے آباد وہاں یہ سیاح صاحب اپنی ہم سفر ایک حسین خاتون کے ساتھ اتفاق سے جا پہنچتے ہیں اور ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں۔ باتوں باتوں میں مجلس شوری تک پہنچا دیے جاتے ہیں۔ مجلس کے تین ارکان ہیں ایک ادھیڑ سن کے بزرگ افصح الفصحاء شاعر بے ہمتا
تبصرات ماجدی۔۔۔(۲)۔۔۔ چند افسانے ۔۔۔ از: خواجہ شفیع دہلوی۔۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
تبصراتِ_ماجدی (2) چند افسانے از خواجہ شفیع دہلوی اردو مجلس مٹیا محل، دہلی دہلی کے سحر طراز انشاء پرداز اہلِ زبان خواجہ شفیع سلمہٗ اب اس منزل سے گزر چکے ہیں کہ ان کی نئی کتاب کے تفصیلی تعارف کی ضرورت ہو۔ ان کا نام خود ہی ایک مکمل تعارف ہے۔ مضمون کے پاکیزہ، شستہ ولطیف ہونے کی ضمانت، زبان کی صحت، سلاست، شیرینی کی دستاویز۔ مجموعہ…جی میں آتا ہے اسے گلدستہ کے نام سے پکاریئے…اس میں دو نظمیں ہیں اور کوئی دس بارہ ہلکے پھلکے افسانے، پر بہار جیسے موسم گل دلاویز جیسے نغمہ بلبل۔ افسانوں کے پلاٹ کسی مسجد
جب حضور آئے۔۔۔(۱۹)۔۔۔ صبح ہدایت نمودار ہوئی۔۔۔ تحریر: علامہ سید سلیمان ندویؒ
خوش خبری کہو کہ اس ماہ ربیع الاول کا چاند طلوع ہوا جو اسلام کی بہار کا مہینہ ہے، وہ مہینہ ہے جس میں ہدایت کی صبح نمودار ہوئی اورنیکی کے چشمے نکلے، وہ مہینہ جس میں وہ شخص ظاہر ہوا جو عرب کو تاریکی سے روشنی میں، جہالت سے علم میں، وحشت سے تہذیب، کفر سے توحید، ذلت و پستی سے عزت و فضائل کی طرف لایا، پس اس وقت مذہباً سب سے بڑی قوم کے نزدیک سب سے بڑا مہینہ ہے اورمذہب خدا کے نزدیک صرف اسلام ہے۔ وہ مہینہ ہے جس کے لئے ہم پر واجب ہے کہ اس کا مسرت، تبسم، خوشی کے ساتھ استقبال کریں کیونکہ اس مہینہ میں جب کہ ق
بات سے بات: سندھ میں پیر جھنڈا کا کتب خانہ۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل
کتب خانہ پیر جھنڈا کا تذکرہ آیا ہے۔ آخری زمانے میں اس کتب خانے سے وابستہ دو بزرگان دین کی قلمی کتابوں کے نادر ذخیرے اور دینی واصلاحی خدمات کی وجہ سے بڑی شہرت رہی ، ان میں سے ایک مولانا محب اللہ شاہ راشدیؒ اور دوسرے مولانا بدیع الدین شاہ راشدیؒ تھے، آخر الذکر سے ہمیں ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے،سعودی علماء کو خاص طور پر ان کا بڑا احترام کرتے ہم نے پایا۔ یہ دراصل سندھ کے صوفی سلسلہ عالیہ راشدیہ قادریہ کی ایک شاخ کے سجادہ نشین تھے، یہ سلسہ امام الاحرار پیر سید محمد راشد شاہؒ کی طرف منسوب ہے، اور
سچی باتیں۔۔۔ بدعات محرم۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
سچی باتیں بدعات محرم آپ اہل قرآن ہیں؟ تو کیا کلام مجید کی کوئی آیت آپ کو رواجی محرّم کی تائید میں ملی ہے؟ آپ اہل ِ حدیث ہیں؟ تو کیا ااپ رسول خدا ﷺ کے کسی قول یا فعل سے رسوم محرّم کا جواز ثابت کرسکتے ہیں؟ آپ اہل فقہ ہیں ؟ تو کیا امام ابو حنیفہؒ وامام شافعیؒ ، امام مالکؒ وامام احمدؒ، امام محمدؒ وامام ابو یوسفؒ ، کسی کے ہاں کوئی جزئیہ آپ کو مُحرم کے عَلم اور تعزیہ ، بُراق وتابوت، باجہ اور شربت، حلوہ اور ملیدہ کی حمایت میں ملا ہے؟ آپ اہل تصوف ہیں؟ تو کیا حسن بصریؒ وجنید بغدادیؒ، سنانیؒ ورو
اطہر ہاشمی بھی رخصت ہوگئے۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل
اسی ہفتے دائرہ علم وادب میں اطہر ہاشمی صاحب کا واٹس اپ نمبر نظر آیا تو بہت حیرت ہوئی، جی چاہا کہ اس ترقی پر آپ کو مبارکباد دی جائے، اور دو روز قبل ان سے فون پر کچھ ہلکی پھلکی ہنسی مذاق کی باتیں ہوئیں، انہوں نے بتایا کہ وہ آفس جارہے ہیں۔ اور یہ کہ انہوں نے اپنی عادتیں نہیں بدلی ہیں، فون کو صرف بات چیت کے لئے استعمال کرتے ہیں،بچے واٹس اپ وغیرہ دیکھ کر بتلاتے ہیں، ان کی باتیں سن کر دل خوش ہوا، وہ بڑی اپنائیت سے بات کررہے تھے، لیکن آج صبح ان کی دائمی جدائی کی خبر آئی تو دل دھک سے بیٹھ گیا، خبر
تبصرات ماجدی(۷۲)۔۔۔ گنج ہائے گراں مایہ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
(72) گنج ہائے گرانمایہ از جناب رشید صاحب صدیقی،ضخامت 219 صفحے، اردو بک ایجنسی، علی گڑھ خنداں کے بعد گریاں! رشید صدیقی کا نام سب جانتے ہیں، یہ علم کم لوگوں کو ہوگا کہ وہ اگر ہنس سکتے اور ہنساسکتے ہیں تو رو بھی سکتے ہیں اور رلا بھی سکتے ہیں، ان کے مزا حیہ مضمون کے مجموعے پہلے نکل چکے ہیں، یہ تازہ مجموعہ ان کے تعززیتی مضامین کا ہے۔ ظریف کے آنسو! آنسو نہیں موتی کے دانے ہوتے ہیں۔ اردو کا یہ شوخ نگار آج سوگوار اپنے محبوبوں کے مزار پر عقیدت و محبت کے پھول ہاتھ میں لیے فاتحہ پڑھنے نکلا ہے، اس کا اداس
نظیر کی دلچسپی عام چیزوں میں۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
"نظیر کی دلچسپی عام چیزوں میں" مولانا دریا بادی کا یہ نشریہ دہلی ریڈیو اسٹیشن سے جولائی 1944ء میں نشر ہوا۔ مولانامرحوم اردوکے مشہورعوامی شاعر نظیر اکبرآبادی کی شاعری، ان کی قوت مشاہدہ اور آمد کے معترف تھے۔ اس نشریہ میں انھوں نے ان کی شاعری پراپنے مخصوص لب و لہجے میں پرمغز تبصرہ کیاہے ۔(ڈاکٹر زبیر احمد صدیقی) ---------------------------------------------------------------- "شعر اکبر میں کوئی کشف و کرامات نہیں دل پہ گزری ہوئی ہے اور کوئی بات نہیں شعرہے تو اکبر الہ آبادی کا لیکن
محسن کتابیں۔۔(۱۸)۔۔۔ مولانا سید ابو الاعلی مودودیؒ
مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ ولادت: اورنگ آباد،/۳ رجب ۱۳۲۱ھ ،مطابق،۲۵ / ستمبر۱۹۰۳ء آبائی وطن دہلی تھا۔ پیدائش اورنگ آباد میں ہوئی، جہاں ان کے والد وکالت کرتے تھے۔ میٹرک تک وہاں تعلیم حاصل کی، پھر حیدر آباد میں بھی علم حاصل کیا۔۱۹۲۱ء سے مستقل دہلی میں سکونت اختیار کی، جہاں مولانا عبدالسلام نیازی (متوفی ۱۹۶۶ء) سے عربی ادب و بلاغت اور معقولات کا علم حاصل کیا، نیز تفسیر وحدیث اور فقہ کی کتابیں بھی ان سے پڑھیں۔ اور مولانا اشفاق الرحمن کاندھلوی (متوفی ۱۹۵۷ء) سے حدیث کی سند ح
تبصرات ماجدی۔۔۔ کیا خوب آدمی تھا۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
صنف ادب (خاکے) تبصراتِ ماجدی کیا خوب آدمی تھا مرتبہ حالی پبلشنگ ہاوس کتاب گھر۔ دہلی آل انڈیا ریڈیو کے دہلی اسٹیشن کو 1939 میں یہ اپچ سوجھی کہ ہندوستان کے چند مشاہیر حال (خاص کر ادب) کو لے کر ان پر ان کے کسی جاننے والے سے کسی نیاز مند سے ایک ایک تقریر پندرہ منٹ والی کرادیجیے۔ عنوان عمومی یہ تھا ''کیا خوب آدمی تھا'' حالی، نذیر احمد، داغ، اقبال، چکبست، راشد الخیری، مولانا محمد علی و غیرہ کل ۱۱ مشاہیر انتخاب میں آئے، سلسلہ کا آغاز راشد الخیری مرحوم سے ہوا اور خاتمہ مولانا محمد علی پر۔ بولنے والو
جب حضور آئے۔۔۔(۱۸)۔۔۔ طلوع آفتاب رسالت ﷺ ۔۔۔ تحریر: محمد علی جناح
طلوع آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ قانون قدرت ہے کہ جب موسم خزاں میں درختوں کے پتے خشک ہو کر جھڑ جاتے ہیں ، تو بہار کی دلفریب ہوائیں بھی بہت دور پیچھے نہیں ہوتیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ مردہ درختوں کے جسم سے لہلہاتی ہوئی کونپلیں پھوٹتی ہیں اور قدرت پھر ایک دفعہ دلفریب دلہن کی طرح حسن کی آرائشوں سے مالا مال ہو جاتی ہے ۔ اسی طرح جب عرب گمراہی کی ضلالتوں میں ٹھوکریں کھا رہا تھا ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل نے ایک ایسے سورج کو طلوع کیا ، جس کی درخشانی اور تابانی نے تاریک ترین راہگزرو
تبصرات ماجدی۔۔۔ ناکام۔۔۔ از: خواجہ محمد شفیع دہلوی۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
#تبصراتِ ماجدی ناکام از خواجہ محمد شفیع دہلوی مٹیا محل دہلی دہلی کے جدید انشا پرداز خواجہ محمد شفیع کا نام اب نہ اردو کے طلبہ کے لیے نامانوس رہا ہے نہ ناظرین صدق کے لیے۔ ناکام ان کا تازہ ترین افادہ قلم ہے، سرسری نظر میں ایک دلکش افسانہ، گہری نظر میں حکمت و اخلاق کا خزانہ اور ہر صورت میں ادب و انشاء کا ایک گنج شائگان۔ زہرہ ایک مشہور بیسوا ہے اور حسین و حاضر جواب مغنیہ، اس کا سابقہ ایک نوجوان کاظم سے پڑ گیا ہے۔ کاظم ذہانت میں فرد، حاضر جوابی میں استاد، ہر رنگ میں رنگا ہوا، گھاٹ گھاٹ کا پانی پیے
عید الاضحیٰ اور گوشت کی تقسیم۔۔۔از:فیصل فاروق
اگر عید الاضحٰی سے قربانی کا تصور اور فلسفہ نکال دیا جائے تو پھر عید الاضحٰی کا مفہوم باقی نہیں رہے گا۔ قربانی مسلمانوں کا اہم مذہبی فریضہ ہے۔ عید قرباں کا پیغام ہی دراصل ایثار و قربانی ہے۔ فلسفۂ قربانی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نہ تو قربانی کے جانوروں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ اللہ تعالیٰ کو مسلمانوں کا تقویٰ مطلوب ہے اور اِسی تقوے کے حصول کیلئے قربانی کی سنت ادا کرنے کا حکم ہے۔ عید الاضحٰی حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی اُسی عظیم اور بے مثال قربانی کی یاد تازہ کرنے کیلئے تمام عالم
خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ گشت، مذکر یا مونث۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی
۔27 جولائی کے ایک اخبار کے اداریے میں ”معمول کی گشت“ پڑھا۔ یعنی اداریہ نویس کے خیال میں ’گشت‘ مونث ہے۔ ہم تو اسے مذکر ہی کہتے اور لکھتے رہے ہیں۔ مونث تو گشتی ہوتی ہے جو اچھی نہیں سمجھی جاتی، اور پنجاب میں بطور گالی استعمال ہوتی ہے۔ دوسری طرف ’گشتی مراسلہ‘ اور ’گشتی سفیر‘ بھی عام ہے۔ اداریہ نویس نے ’گشت‘ کو مونث لکھا ہے تو خیال آیا کہ شاید یہی صحیح ہو، چنانچہ لغات سے رجوع کیا۔ یہ فارسی کا لفظ ہے اور ’فیروزاللغات‘ نے اسے مطلق مونث لکھا ہے۔ تاہم ’نوراللغات‘ نے وضاحت سے کام لیا ہے اور مونث، مذکر دو
کیا ’نئی قومی تعلیمی پالیسی‘ ہندوستان میں تبدیلی لا سکے گی؟۔۔۔۔۔از: محمد علم اللہ
ایک ایسے وقت میں جب کہ پورا ہندوستان ایک خطرناک وبائی مرض سے جوجھ رہا ہے، کئی ریاستوں میں سیلاب کی وجہ سے زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے، مرکزی کابینہ نے آنا فانامیں نئی تعلیمی پالیسی کو منظوری دے دی۔جب کہ سول سوسائٹی اور اہل علم نے پہلے ہی اس پر سوالیہ نشان کھڑے کئے تھے اوراسے ایک مخصوص نظریہ کا شاخسانہ قرار دیا تھا۔ بتاتے چلیں کہ آزاد ہند میں یہ تیسری تعلیمی پالیسی ہے، اس سے قبل یہاں دو قومی تعلیمی پالیسیاں بالترتیب 1968 ء اور 1986 میں اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے عہد میں بنائی گئی تھیں، تاہم