Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















شعب ابی طالب کی گھاٹی ۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی
بعض لکھنے والے ’’بذاتِ خود‘‘ اور ’’بجائے خود‘‘ میں فرق نہیں کرتے۔ ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ جب ذات کا ذکر ہو یا زندہ وجود کا تذکرہ، تو وہاں ’’بذاتِ خود‘‘ استعمال کرنا چاہیے، اورجہاں بے جان چیز کا ذکر ہو تو وہاں ’’بجائے خود‘‘ استعمال کیا جائے۔ ایک ادبی پرچے میں ’’نقدِ سفر: ایک مختصر جائزہ‘‘ کے عنوان سے مضمون کا پہلا جملہ ہے ’’زندگی بذاتِ خود سفر ہے‘‘۔ ہمارے خیال میں یہاں ’’بجائے خود‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ مزید وضاحت جناب منظر عباسی کردیں گے۔ ’’اصلاحِ تلفظ و املا‘‘ میں طالب الہاشمی نے ایک عمومی غلطی کی نش
تبصرات ماجدی۔۔۔162۔۔۔بزم بے تکلف۔۔۔ از: ڈاکٹر سید عابد حسین۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
(162) بزم بے تکلف از ڈاکٹر سید عابد حسین قیمت ڈھائی روپیہ - سنگم کتاب گھر، دہلی ۔ جامعہ ملیہ کے ڈاکٹر سید عابد حسین اردو کے پرانے لکھنے والوں میں ہیں، گاندھی جی کی "تلاش حق" "تاریخ فلسفۂ اسلام" قسم کے ترجموں کے علاوہ ان کی اپنی لکھی ہوئی چیزیں بھی متعدد ہیں۔ ایک ٹھوس قلم کے اہل قلم وہ ہمیشہ سے ہیں اور بدگمانی یہ تھی کہ ٹھوس ہی نہیں ذرا " ٹھس " قسم کے بھی ہیں۔ان کی ذہانت، ذکاوت اور زندہ دلی کے جوہر تو کہنا چاہئیے کہ حال ہی میں یعنی 1946 کے بعد کھلے ______ ان کی قلم کی شوخی ج
تبصرات ماجدی۔۔۔ 161۔۔۔ شوکتیات۔از:شوکت تھانوی۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
ّ(161) تبصراتِ ماجدی شوکتیات از شوکت تھانوی صفحات۲۴۰، مجلد مع گرد پوش، قیمت درج نہیں،اردو بک اسٹال، لاہور.پاکستان اردو کے مشہور مزاحیہ نویس شوکت تھانوی مدت ہوئی اس منزل سے گزر چکے ہیں، کہ ان کا تعارف ہما ہمی سے کرایا جائے۔ یا ان کے مزاح و شوخ نگاری کے ذکر کے لیے کوئی تمہید لمبی سی اٹھائی جائے ! بہ قول شخصے "آفتاب آمد دلیل آمد"۔ وہ خود ایک ادارہ بن چکے ہیں اور تازہ تاریخ ادب اردو کا ایک مستقل باب۔ مزاح کے ڈانڈے تمسخر سے اور ظرافت کے حدود تضحیک سے کچھ ایسے ملے جلے ہوئے ہیں کہ
تبصرات ماجدی۔۔( 4)۔۔۔ خلاصہ فسانہ آزاد۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
(4) خلاصہ فسانہ آزاد از ابوتمیم فرید آبادی کتب خانہ انجمن ترقی اردو، جامع مسجد دہلی ۔ قیمت 3 روپے۔ سرشار کی فسانہ آزاد اردو ادب و افسانہ کی ایک مشہور کتاب ہے، لکھنؤ کی بیگماتی زبان کا مرقع۔ اب ذرا پرانی البتہ ہوگئی ہے۔ 75 سال کا فاصلہ بڑا ہوا۔ اور پھر ضخیم اتنی کہ بیسویں صدی کے وسط میں آدمی کو اس دفتر کو ختم کرنے کی فرصت کہاں سے لائے۔ سید ابوتمیم فرید آبادی بھی کمال کے مردِ ظریف و صاحبِ ذوقِ لطیف نکلے کہ اس زمانے میں اس دریا کو کوزے میں بند کرنے بیٹھے اور جو سوچتے تھے، اسے کر کے دکھا دیا یعن
سچی باتیں۔۔۔ اسلامی جنتری کا آغاز۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
اسلامی جنتری کاآغاز چاند کی سالانہ گردش ایک بار پھر اپنا دورہ تمام کرچکی۔ اسلامی جنتری میں ’’قربانی‘‘ کا مبارک مہینہ اور مبارک دن گذر چکا، اور ’’شہادت‘‘ کا مبارک مہینہ اور مبارک دن آپہونچا۔ عبد قربان کا مہینہ اگر اس لئے تھا، کہ آپ اپنا سب کچھ حق کی راہ میں لُٹادیں، تو محرم کا مہینہ یہ پیام لاتاہے، کہ آپ خود اپنے کو شہادت کے لئے پیش کردیں۔ پچھلا مہینہ ’’آپ سے‘‘ مانگ رہاتھا، اگلا مہینہ ’’آپ کو‘‘ مانگ رہاہے۔ دنیا کی ایک نہایت زبردست، متمدن وظالم حکومت کی کشتیِ حیات اسی مہینہ کی ۱۰؍تاریخ کو د
چند مظلوم و مرحوم شخصیتیں۔۔۔(۲)۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
چند مظلوم و مرحوم شخصیتیں تحریر:مولانا عبدالماجد دریابادیؒ (دوسری/آخری قسط) ملازم یا خدمت گار اتنی زندگی میں میرے پاس کئی ایک رہے، زیادہ تر گھر ہی کے پروردہ ۔ زمانہ لڑکپن اور جوانی کا میں نے وہ پایا، جہاں بچاروں کے کوئی انسانی حقوق تھے ہی نہیں اور ان کا شمار بس ایک طرح کے معزز جانوروں میں تھا، آنکھ کھول کربرادری بھر میں یہی منظر دیکھا اور پھر میں تو گرم مزاج و تندخو بھی تھا قدرۃً اس سارے طبقہ کے ساتھ برتاؤ ناگفتہ ہی رہا ۔ کس کس سے معافی کیا کہہ کہہ کر مانگوں؟ سب سے زیادہ مدت رفاقت حاجی محب
ایک فقیہ کی وفات کا سانحہ۔۔۔ ڈاکٹر عبد السلام العبادی۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر بد رالحسن القاسمی
ڈاکٹر عبد السلام العبادی اردن کے نامور عالم اور فقیہ تھے کئی سالوں سے بین الاقوامی فقہ اکیڈمی یامجمع الفقہ الاسلامی الدولی کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے جدہ میں مقیم تھے اور وفات بھی وہیں اور کرونا کی بیماری کا شکار ہوکر ھوئی اس طرح اس عجیب وغریب آفت اورعالمی طاعون یا طوفان کا نشانہ بننے والی تازہ قیمتی شخصیت ڈاکٹر عبد السلام العبادی کی ھے ڈاکٹر صاحب کی پیدائش ١٩٤٣کی تھی انھوں نے ١٩٧٢میں جامعہ ازھر کی کلیة الشريعه والقانون سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری فقہ مکارم میں نہایت ھی امتیاز کے ساتھ حاصل کی تھی الم

یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے۔۔۔ معصوم مرادآبادی
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے معصوم مرادآبادی یہ گزشتہ یکم اگست کاواقعہ ہے۔ ملک بھر میں عید الاضحی کا تہوار جوش وخروش کے ساتھ منایا جارہا تھا۔لوگ جو ق در جوق سنت ابراہیمی کی پیروی میں مشغول تھے۔ اچانک ٹوئٹر پر ایک نوجوان کا دردانگیز پیغام ابھرتا ہے۔”سب کوعید مبارک۔یہ ہمارے لئے ایک مشکل گھڑی ہے۔ امّی اسپتال میں ہیں۔ اگر ممکن ہو تو برائے مہربانی ان کے علاج کے لئے دل کھول کر امدادکیجئے۔ شکریہ۔“ جس نوجوان کی طرف سے مدد طلب کی گئی تھی، وہ کسی معمولی خاندان کا چشم وچراغ نہیں تھا۔ یہ ایک ایسے خوشحال
ؒچند مظلوم ومرحوم شخصیتیں۔۔۔(۱) تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
چند مظلوم و مرحوم شخصیتیں تحریر:مولانا عبدالماجد دریابادیؒ (پہلی قسط) زندگی بھر میں حق ادا کسی کے بھی کر پایا ہوں، بڑوں، چھوٹوں، برابر والوں میں شرمندگی نہیں کس سے ہے؟ صفات ستّاری وغفّاری اگر آڑے نہ آجائیں تو حشر میں آنکھیں چار کر کے سامنا کسی ایک بھی سابقہ والے کا نہیں کر سکتا، پھر بھی چند ہستیاں تو خصوصیت سے ایسی ہوئی ہیں، جن کے معاملہ میں حق تلفی اتنی نمایاں اور سنگین رہی ہے کہ جب ان کی یاد آجاتی ہے تو جسم میں جھر جھری سی آنے لگتی ہے، اور آنکھیں فرط ندامت سے زمین پر گڑ کر ر ہ جاتی ہی
تبصرات ماجدی۔۔۔ (160)۔۔۔ جزیرہ سخنوران۔۔ از:غلام عباس۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
(160) جزیرہ سخنوران از غلام عباس صاحب کتاب خانہ ہزار داستان نئ دہلی یہ ایک افسانہ ہے نئے اور البیلے رنگ کا، پلاٹ یورپ سے لیا ہوا لیکن قصہ اردو میں بالکل اپنایا ہوا ایک جزیرہ ہے "جزیرہ سخنوران " تمام تر شاعروں اور ان کے مداحوں سے آباد، اخلاق کی قیود سے آباد وہاں یہ سیاح صاحب اپنی ہم سفر ایک حسین خاتون کے ساتھ اتفاق سے جا پہنچتے ہیں اور ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں۔ باتوں باتوں میں مجلس شوری تک پہنچا دیے جاتے ہیں۔ مجلس کے تین ارکان ہیں ایک ادھیڑ سن کے بزرگ افصح الفصحاء شاعر بے ہمتا
تبصرات ماجدی۔۔۔(۲)۔۔۔ چند افسانے ۔۔۔ از: خواجہ شفیع دہلوی۔۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
تبصراتِ_ماجدی (2) چند افسانے از خواجہ شفیع دہلوی اردو مجلس مٹیا محل، دہلی دہلی کے سحر طراز انشاء پرداز اہلِ زبان خواجہ شفیع سلمہٗ اب اس منزل سے گزر چکے ہیں کہ ان کی نئی کتاب کے تفصیلی تعارف کی ضرورت ہو۔ ان کا نام خود ہی ایک مکمل تعارف ہے۔ مضمون کے پاکیزہ، شستہ ولطیف ہونے کی ضمانت، زبان کی صحت، سلاست، شیرینی کی دستاویز۔ مجموعہ…جی میں آتا ہے اسے گلدستہ کے نام سے پکاریئے…اس میں دو نظمیں ہیں اور کوئی دس بارہ ہلکے پھلکے افسانے، پر بہار جیسے موسم گل دلاویز جیسے نغمہ بلبل۔ افسانوں کے پلاٹ کسی مسجد
جب حضور آئے۔۔۔(۱۹)۔۔۔ صبح ہدایت نمودار ہوئی۔۔۔ تحریر: علامہ سید سلیمان ندویؒ
خوش خبری کہو کہ اس ماہ ربیع الاول کا چاند طلوع ہوا جو اسلام کی بہار کا مہینہ ہے، وہ مہینہ ہے جس میں ہدایت کی صبح نمودار ہوئی اورنیکی کے چشمے نکلے، وہ مہینہ جس میں وہ شخص ظاہر ہوا جو عرب کو تاریکی سے روشنی میں، جہالت سے علم میں، وحشت سے تہذیب، کفر سے توحید، ذلت و پستی سے عزت و فضائل کی طرف لایا، پس اس وقت مذہباً سب سے بڑی قوم کے نزدیک سب سے بڑا مہینہ ہے اورمذہب خدا کے نزدیک صرف اسلام ہے۔ وہ مہینہ ہے جس کے لئے ہم پر واجب ہے کہ اس کا مسرت، تبسم، خوشی کے ساتھ استقبال کریں کیونکہ اس مہینہ میں جب کہ ق
بات سے بات: سندھ میں پیر جھنڈا کا کتب خانہ۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل
کتب خانہ پیر جھنڈا کا تذکرہ آیا ہے۔ آخری زمانے میں اس کتب خانے سے وابستہ دو بزرگان دین کی قلمی کتابوں کے نادر ذخیرے اور دینی واصلاحی خدمات کی وجہ سے بڑی شہرت رہی ، ان میں سے ایک مولانا محب اللہ شاہ راشدیؒ اور دوسرے مولانا بدیع الدین شاہ راشدیؒ تھے، آخر الذکر سے ہمیں ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے،سعودی علماء کو خاص طور پر ان کا بڑا احترام کرتے ہم نے پایا۔ یہ دراصل سندھ کے صوفی سلسلہ عالیہ راشدیہ قادریہ کی ایک شاخ کے سجادہ نشین تھے، یہ سلسہ امام الاحرار پیر سید محمد راشد شاہؒ کی طرف منسوب ہے، اور
سچی باتیں۔۔۔ بدعات محرم۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
سچی باتیں بدعات محرم آپ اہل قرآن ہیں؟ تو کیا کلام مجید کی کوئی آیت آپ کو رواجی محرّم کی تائید میں ملی ہے؟ آپ اہل ِ حدیث ہیں؟ تو کیا ااپ رسول خدا ﷺ کے کسی قول یا فعل سے رسوم محرّم کا جواز ثابت کرسکتے ہیں؟ آپ اہل فقہ ہیں ؟ تو کیا امام ابو حنیفہؒ وامام شافعیؒ ، امام مالکؒ وامام احمدؒ، امام محمدؒ وامام ابو یوسفؒ ، کسی کے ہاں کوئی جزئیہ آپ کو مُحرم کے عَلم اور تعزیہ ، بُراق وتابوت، باجہ اور شربت، حلوہ اور ملیدہ کی حمایت میں ملا ہے؟ آپ اہل تصوف ہیں؟ تو کیا حسن بصریؒ وجنید بغدادیؒ، سنانیؒ ورو
اطہر ہاشمی بھی رخصت ہوگئے۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل
اسی ہفتے دائرہ علم وادب میں اطہر ہاشمی صاحب کا واٹس اپ نمبر نظر آیا تو بہت حیرت ہوئی، جی چاہا کہ اس ترقی پر آپ کو مبارکباد دی جائے، اور دو روز قبل ان سے فون پر کچھ ہلکی پھلکی ہنسی مذاق کی باتیں ہوئیں، انہوں نے بتایا کہ وہ آفس جارہے ہیں۔ اور یہ کہ انہوں نے اپنی عادتیں نہیں بدلی ہیں، فون کو صرف بات چیت کے لئے استعمال کرتے ہیں،بچے واٹس اپ وغیرہ دیکھ کر بتلاتے ہیں، ان کی باتیں سن کر دل خوش ہوا، وہ بڑی اپنائیت سے بات کررہے تھے، لیکن آج صبح ان کی دائمی جدائی کی خبر آئی تو دل دھک سے بیٹھ گیا، خبر
تبصرات ماجدی(۷۲)۔۔۔ گنج ہائے گراں مایہ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
(72) گنج ہائے گرانمایہ از جناب رشید صاحب صدیقی،ضخامت 219 صفحے، اردو بک ایجنسی، علی گڑھ خنداں کے بعد گریاں! رشید صدیقی کا نام سب جانتے ہیں، یہ علم کم لوگوں کو ہوگا کہ وہ اگر ہنس سکتے اور ہنساسکتے ہیں تو رو بھی سکتے ہیں اور رلا بھی سکتے ہیں، ان کے مزا حیہ مضمون کے مجموعے پہلے نکل چکے ہیں، یہ تازہ مجموعہ ان کے تعززیتی مضامین کا ہے۔ ظریف کے آنسو! آنسو نہیں موتی کے دانے ہوتے ہیں۔ اردو کا یہ شوخ نگار آج سوگوار اپنے محبوبوں کے مزار پر عقیدت و محبت کے پھول ہاتھ میں لیے فاتحہ پڑھنے نکلا ہے، اس کا اداس
نظیر کی دلچسپی عام چیزوں میں۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
"نظیر کی دلچسپی عام چیزوں میں" مولانا دریا بادی کا یہ نشریہ دہلی ریڈیو اسٹیشن سے جولائی 1944ء میں نشر ہوا۔ مولانامرحوم اردوکے مشہورعوامی شاعر نظیر اکبرآبادی کی شاعری، ان کی قوت مشاہدہ اور آمد کے معترف تھے۔ اس نشریہ میں انھوں نے ان کی شاعری پراپنے مخصوص لب و لہجے میں پرمغز تبصرہ کیاہے ۔(ڈاکٹر زبیر احمد صدیقی) ---------------------------------------------------------------- "شعر اکبر میں کوئی کشف و کرامات نہیں دل پہ گزری ہوئی ہے اور کوئی بات نہیں شعرہے تو اکبر الہ آبادی کا لیکن
محسن کتابیں۔۔(۱۸)۔۔۔ مولانا سید ابو الاعلی مودودیؒ
مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ ولادت: اورنگ آباد،/۳ رجب ۱۳۲۱ھ ،مطابق،۲۵ / ستمبر۱۹۰۳ء آبائی وطن دہلی تھا۔ پیدائش اورنگ آباد میں ہوئی، جہاں ان کے والد وکالت کرتے تھے۔ میٹرک تک وہاں تعلیم حاصل کی، پھر حیدر آباد میں بھی علم حاصل کیا۔۱۹۲۱ء سے مستقل دہلی میں سکونت اختیار کی، جہاں مولانا عبدالسلام نیازی (متوفی ۱۹۶۶ء) سے عربی ادب و بلاغت اور معقولات کا علم حاصل کیا، نیز تفسیر وحدیث اور فقہ کی کتابیں بھی ان سے پڑھیں۔ اور مولانا اشفاق الرحمن کاندھلوی (متوفی ۱۹۵۷ء) سے حدیث کی سند ح