Search results

Search results for ''


تبصرات ماجدی۔۔۔(۸) ۔۔۔ پس چہ باید کر اے اقوام شرق۔۔۔ از: علامہ اقبالؒ۔۔۔ تحریر: مولانا دریابادیؒ

Bhatkallys Other

#تبصراتِ_ماجدی از مولانا عبد الماجد دریابادی (8) پس چہ باید کرد اے اقوام شرق معہ مثنوی مسافر از علامہ اقبال طلوعِ اسلام، لاہور اقبال کی ایک تازہ اور ایک کسی قدر قدیم دو فارسی مثنویوں کا مجموعہ ہے۔ اقبال کے کلام کی مدح و توصیف میں اب کچھ کہنا شاعر سے زیادہ خود اپنی سخن فہمی کا اعلان کرنا ہے اور اپنی جوہر شناسی کا اشتہار دینا ہے۔آفتاب کے روشن ہونے میں اگر آپ شہادت دے رہے ہیں تو یہ ثبوت تو آفتاب کی روشنی سے بڑھ کر خود آپ کی بصارت کے صحیح و تندرست ہونے کے حق میں ہے۔ بقول حضرت رومی: ایں دو چشمم ر

کربلا اور اسلام۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

کربلااوراسلام یہ تقریر لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن سے 5 دسمبر 1946(مطابق 10محرم) کی شام کو نشرہوئی۔ اس میں مولانا دریا بادی ؒ نے بڑے بلیغ اورحکیمانہ اندازمیں واقعۂ کربلا اور اس کے اثرات پر روشنی ڈالی ہے نیز اس کے پس منظر اور نتائج کو عام فہم انداز میں پیش کیا ہے، جس سے حضرت حسینؓ کی بے مثال قربانی اور صبر و ہمت کی تصویر آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔ ڈاکڑ زبیر احمد صدیقی ------------------------------------------------------ "چشم تصوّر کے سامنے تاریخ عرب کے ایک قدیم بہت قدیم دور کو لائیے، تاریخ اسلام سے

تبصرات ماجدی۔۔۔ 164۔۔۔ کف گلفروش۔۔۔ از: غلام احمد فرقت کاکوروی۔۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

*(164)   کف گلفروش*             *از غلام احمد فرقت کاکوروی، ایم اے* 223 صفحہ، مجلد مع گرد پوش، قیمت تین روپیہ، انوار بک ڈپو، امین آباد پارک لکھنؤ۔ (پاکستان میں: مبارک بک ڈپو، بندر روڈ، مقابل ڈینسو ہال، کراچی۔2) ادارۂ فروغ اردو کی تازہ مطبوعات میں صحیح و شستہ زبان سکھانے والی کتاب " اپنی موج میں " کے بعد یہی ہے۔ بلکہ ایک لحاظ سے اس کا نمبر بڑھا ہوا ہے۔ جہاں تک زبان سیکھنے سکھانے کا تعلق ہے، " اپنی موج میں " صرف خواص کے لائق ہے اور کف گلفروش خواص و عوام دونوں کے ہاتھ میں جانے کے قابل ہے۔ فرقت

سچی باتیں .۔۔ اہل بیت سے محبت کا تقاضہ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys Other

محرّم ومراسم محرّم کے متعلق آپ ان صفحات میں کئی ہفتوں سے مسلسل مضامین پڑھ رہے ہیں، کیا ان مضامین سے امام مظلوم کی یاد دلوں سے مٹانا مقصود ہے؟ کیا یہ مضامین اس غرض سے لکھے گئے ہیں، کہ لوگوں کے دلوں میں امام حسین علیہ السلام کی وقعت وعظمت باقی نہ رہے؟ خدانخواستہ ان مضامین سے کوئی اس قسم کا مقصد تھا، یا برعکس اس کے، یہ تھا ، کہ واقعۂ کربلا کی پوری اہمیت ذہن نشین ہو، امام مظلوم ک ایثار وسرفروشی کا نقش دلوں پر اور گہرا ہو، اور اب تک جن نادانیوں کی بناپر، عشرۂ محرم کو ضائع کیاجاتارہاہے، ان کے بجائے

امالہ کیا ہے ۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی

Bhatkallys Other

پچھلے کالم میں ہم نے ’’امالہ‘‘ کا ذکر کیا تھا۔ ہمیں اب تک یہ اندازہ نہیں ہے کہ اسے کہاں استعمال کرنا چاہیے اور کہاں نہیں۔ امالہ کے حوالے سے سابق صدر شعبہ اردو جامعہ پنجاب، اورینٹل کالج حضرت رفیع الدین ہاشمی ’’صحتِ املا کے اصول‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’جن واحد مذکر لفظوں کے آخر میں ’’ہ‘‘ یا ’’الف‘‘ ہو اور ان کی جمع یاے تحتانی (بڑی یے) لگانے سے بن سکتی ہو اور ان کے فوراً بعد حرف عاملہ (مغیرہ) یعنی تک۔ سے۔ کو۔ کی۔ ہیں۔ پر، وغیرہ میں سے کوئی حرف آئے تو اردو املا میں اس ’ہ‘ یا ’الف‘ کو یاے تحتانی سے بدل

کتابیں جو بولتی ہیں۔۔۔ تحریر: فرزانہ اعجاز

Bhatkallys Other

کتابیں ' جو بولتی ہیں' فرزانہ اعجاز ' کارونا ' بیماری کی وجہ سے 'تمام عالم ' میں 'لاک ڈاؤن 'تو ہو گیا ،خدا کا شکر ہے کہ "انسان کا دماغ " شٹ ڈاؤن " نہیں ہوا ہے ۔اب تو مہینوں ہو گئے کہ کسی ماہوار رسالے کا دیدار نصیب ہوا ہو  یا کتابوں کا اجراءہوا ہو ،کچھ نہیں ہو سکا اور نہ معلوم "کب تک کچھ نہیں ہو سکے گا ۔' اگر موبائل فون کا سہارا نہ ہوتا تو سچ مچ زندگی اجیرن ہو جاتی ،آجکل کے  بیشتراخبار بھی ایسے نہیں ہوتے کہ انکی 'پھیلائی' خبروں پر اعتبار کیا جاےء۔بس – دوچار اچھے مضامین پڑھ لیےء یا 'اڈیٹوریل' یا

فیس بُک کا ’بی جے پی کنکشن‘ کیا گل کھلائے گا؟... سہیل انجم

Bhatkallys Other

یہ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ جس نے اس پر اثر ڈال دیا اس نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ جس نے اسے نظرانداز کیا شکست اس کا مقدر بن گئی۔ نریندرمودی نے اسی وقت سوشل میڈیا کی اہمیت پہچان لی تھی جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ انھوں نے بحیثیت وزیر اعلیٰ گجرات کے اسمبلی الیکشن میں سوشل میڈیا کا جم کر استعمال کیا تھا۔ جس کے نتیجے میں انھیں شاندار کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ لہٰذا جب 2014 کے پارلیمانی انتخابات کا بگل بجا اور نریند رمودی کو بی جے پی کی جانب سے وزیر اعظم کے عہدے کا امیدوار قرار دے دیا گیا تو ان

مرتضی ساحل تسلیمی کا انتقال... ادبِ اطفال کا ایک روشن چراغ بجھ گیا۔۔۔از: سراج عظیم

Bhatkallys Other

نئی دہلی: ادبِ اطفال کی مایۂ ناز شخصیت مرتضی ساحل تسلیمی کا ۲۱/اگست کی شب گیارہ بجے نئی دہلی، لاجپت نگر کے میٹرو اسپتال میں انتقال ہو گیا۔ مرتضی ساحل کو ۱۷/اگست کو رامپور کے سائی اسپتال سے دہلی کے میٹرو اسپتال بہت تشویشناک حالت میں داخل کرایا گیا تھا۔ جہاں اُن کا کووِڈ کا ٹیسٹ مثبت آیا۔ جس کے بعد اُن کو انتہائی نگہداشت والے قرنطینہ وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔ اُس سے پہلے مرتضی ساحل پچھلے ایک سال سے سروائیکل کی تکلیف میں مبتلا تھے اور زیرِ علاج تھے لیکن بقرعید کے دوسرے دن سے اُن کی حالت بگڑنے لگی

یاد مجاز۔۔۔۔ تحریر: محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Mufti Mohammed Raza Anasari Yadaun Kay Chiragh

 یاد ’مجاز‘ محمد رضا انصاری [ یہ مضمون مارچ اننیس سو چھپپن کے ’نقوش ‘لاہور میں شآئیع ہوا تھا ،’مجاز ‘ کے  اچانک انتقال کے تین ماہ بعد ] ’مجاز ‘ کی آخری زیارت ،اسکے مرنے سے تقریبا ً پچیس گھنٹے قبل اور بیہوش ہونے سے چند گھنٹے پہلے اس طرح ہوئیی کہ میں بس سے اتر کر ،تیزی  کے ساتھ اپنے دفتر جا رہا تھا ، رات کے پونے نو بجے تھے ،’مجاز ‘ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ’سینٹرل ہوٹل [امین آباد ] کے نیچے سڑک پر کھڑا ،حسب م

مرتضی ساحل تسلیمی۔۔۔ بچوں کے ادب کا اہم ستون۔۔۔ تحریر:عبد المتین منیری ۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri Other

ایسا لگتا ہے کہ شان خداوندی جلال میں آگئی ہے، مختصر وقفے سے کسی نہ کسی قریبی یا قیمیتی شخصیت کے اس دنیا سے اٹھ جانے کی خبریں آرہی ہیں، خبریں بھی اس تیزی سے مل رہی ہیں کہ ہم ماتم کرنا بھی بھولتے جارہے ہیں، کتنی قمیتی شخصیات تھیں کہ جن کی خدمات اور رہنمائی کی امت شدید ضرورت محسوس کرتی تھی آنا فانا  اس دنیا سے رخصت ہوگئیں، کورونا کا قہر کچھ ایسا ٹوٹا ہے کہ زیادہ تر بڑے بڑے اسپتالوں میں مریضوں کے داخل ہونے کے بعد ان کی میتیں ہی واپس آرہی ہیں، مریضوں کو اسپتال لے جاتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ مع

سچی باتیں۔۔۔ محرم کی بدعات۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

سچی باتیں محرم کی بدعات محرّم کا چاند طلوع ہوچکا۔ مسلمانوں کے گھرگھر میں ایک نئی چہل پہل پیدا ہوگئی۔ گویا عید اور عید قرباں کی طرح، بلکہ اُن سے بھی بڑھ کر مُحرم بھی کسی مذہبی جشن وتقریب کا نام ہے! عید صرف ایک دن کے لئے آتی ہے، محرّم کی تقریب پورے دس دن تک قائم رہتی ہے! عید کے دن سوئیاں پکتی ہیں، محرم میں اس سے کہیں زیادہ لذیذ وپُرتکلف حلوے، شیرمال، ملیدہ، شربت، اور بجائے پان کے خوشبودار مصالحہ کا اہتمام ہوتاہے! عید میں صرف صبح کے وقت دوگانہ پڑھنا ہوتاہے، محرّم میں عشرہ بھر برابر مجلسوں کا سلس

تبصرات ماجدی۔۔۔163۔۔۔ اپنی موج میں۔۔۔ از: آوارہ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

*تبصراتِ ماجدی* *(163)  اپنی موج میں*               از "آوارہ" 120 صفحہ، مجلد مع گرد پوش، قیمت دو روپیہ آٹھ آنے، ادراۂ فروغ اردو، امیں آباد پارک لکھنؤ۔ پاکستان میں: مبارک بک ڈپو، بندر روڈ، مقابل ڈینسو ہال، کراچی ۔ 2  ۔ آل انڈیا ریڈیو کے دہلی اسٹیشن کے ایک کارکن آوارہ مار ہروی مدت سے اپنی مزاحیہ تقریریں سناتے رہتے ہیں۔ زبان خصوصا دہلی کے محاورات کے گویا بادشاہ ہیں اور مزاح کے لفافہ میں پند لطیف بھی، یہ انکے 26 مزہ دار نشریوں کا مجموعہ ہے۔ عنوانات بگڑے رئیس، بیٹر باز، چابک سوار، کرخندار، بان

شعب ابی طالب کی گھاٹی ۔۔۔ تحریر : اطہر ہاشمی

Bhatkallys Other

بعض لکھنے والے ’’بذاتِ خود‘‘ اور ’’بجائے خود‘‘ میں فرق نہیں کرتے۔ ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ جب ذات کا ذکر ہو یا زندہ وجود کا تذکرہ، تو وہاں ’’بذاتِ خود‘‘ استعمال کرنا چاہیے، اورجہاں بے جان چیز کا ذکر ہو تو وہاں ’’بجائے خود‘‘ استعمال کیا جائے۔ ایک ادبی پرچے میں ’’نقدِ سفر: ایک مختصر جائزہ‘‘ کے عنوان سے مضمون کا پہلا جملہ ہے ’’زندگی بذاتِ خود سفر ہے‘‘۔ ہمارے خیال میں یہاں ’’بجائے خود‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ مزید وضاحت جناب منظر عباسی کردیں گے۔ ’’اصلاحِ تلفظ و املا‘‘ میں طالب الہاشمی نے ایک عمومی غلطی کی نش

تبصرات ماجدی۔۔۔162۔۔۔بزم بے تکلف۔۔۔ از: ڈاکٹر سید عابد حسین۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

 (162)   بزم بے تکلف                از ڈاکٹر سید عابد حسین قیمت ڈھائی روپیہ - سنگم کتاب گھر، دہلی ۔ جامعہ ملیہ کے ڈاکٹر سید عابد حسین اردو کے پرانے لکھنے والوں میں ہیں، گاندھی جی کی "تلاش حق" "تاریخ فلسفۂ اسلام" قسم کے ترجموں کے علاوہ ان کی اپنی لکھی ہوئی چیزیں بھی متعدد ہیں۔ ایک ٹھوس قلم کے اہل قلم وہ ہمیشہ  سے ہیں اور بدگمانی یہ تھی کہ ٹھوس ہی نہیں ذرا " ٹھس " قسم کے بھی ہیں۔ان کی ذہانت، ذکاوت اور زندہ دلی کے جوہر تو کہنا چاہئیے کہ حال ہی میں یعنی 1946 کے بعد کھلے ______ ان کی قلم کی شوخی ج

تبصرات ماجدی۔۔۔ 161۔۔۔ شوکتیات۔از:شوکت تھانوی۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

ّ(161) تبصراتِ ماجدی   شوکتیات              از شوکت تھانوی  صفحات۲۴۰، مجلد مع گرد پوش، قیمت درج نہیں،اردو بک اسٹال، لاہور.پاکستان اردو کے مشہور مزاحیہ نویس شوکت تھانوی مدت ہوئی اس منزل سے گزر چکے ہیں، کہ ان کا تعارف ہما ہمی سے کرایا جائے۔ یا ان کے مزاح و شوخ نگاری کے ذکر کے لیے کوئی تمہید لمبی سی اٹھائی جائے ! بہ قول شخصے "آفتاب آمد دلیل آمد"۔ وہ خود ایک ادارہ بن چکے ہیں اور تازہ تاریخ ادب اردو کا ایک مستقل باب۔ مزاح کے ڈانڈے تمسخر سے اور ظرافت کے حدود تضحیک سے کچھ ایسے ملے جلے ہوئے ہیں کہ

تبصرات ماجدی۔۔( 4)۔۔۔ خلاصہ فسانہ آزاد۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

(4) خلاصہ فسانہ آزاد از ابوتمیم فرید آبادی  کتب خانہ انجمن ترقی اردو، جامع مسجد دہلی ۔ قیمت 3 روپے۔ سرشار کی فسانہ آزاد اردو ادب و افسانہ کی ایک مشہور کتاب ہے، لکھنؤ کی بیگماتی زبان کا مرقع۔ اب ذرا پرانی البتہ ہوگئی ہے۔ 75 سال کا فاصلہ بڑا ہوا۔ اور پھر ضخیم اتنی کہ بیسویں صدی کے وسط میں آدمی کو اس دفتر کو ختم کرنے کی فرصت کہاں سے لائے۔ سید ابوتمیم فرید آبادی بھی کمال کے مردِ ظریف و صاحبِ ذوقِ لطیف نکلے کہ اس زمانے میں اس دریا کو کوزے میں بند کرنے بیٹھے اور جو سوچتے تھے، اسے کر کے دکھا دیا یعن

سچی باتیں۔۔۔ اسلامی جنتری کا آغاز۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

اسلامی جنتری کاآغاز چاند کی سالانہ گردش ایک بار پھر اپنا دورہ تمام کرچکی۔ اسلامی جنتری میں ’’قربانی‘‘ کا مبارک مہینہ اور مبارک دن گذر چکا، اور ’’شہادت‘‘ کا مبارک مہینہ اور مبارک دن آپہونچا۔ عبد قربان کا مہینہ اگر اس لئے تھا، کہ آپ اپنا سب کچھ حق کی راہ میں لُٹادیں، تو محرم کا مہینہ یہ پیام لاتاہے، کہ آپ خود اپنے کو شہادت کے لئے پیش کردیں۔ پچھلا مہینہ ’’آپ سے‘‘ مانگ رہاتھا، اگلا مہینہ ’’آپ کو‘‘ مانگ رہاہے۔ دنیا کی ایک نہایت زبردست، متمدن وظالم حکومت کی کشتیِ حیات اسی مہینہ کی ۱۰؍تاریخ کو د

چند مظلوم و مرحوم شخصیتیں۔۔۔(۲)۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

چند مظلوم و مرحوم شخصیتیں تحریر:مولانا عبدالماجد دریابادیؒ (دوسری/آخری قسط) ملازم یا خدمت گار اتنی زندگی میں میرے پاس کئی ایک رہے، زیادہ تر گھر ہی کے پروردہ ۔ زمانہ لڑکپن اور جوانی کا میں نے وہ پایا، جہاں بچاروں کے کوئی انسانی حقوق تھے ہی نہیں اور ان کا شمار بس ایک طرح کے معزز جانوروں میں تھا، آنکھ کھول کربرادری بھر میں یہی منظر دیکھا اور پھر میں تو گرم مزاج و تندخو بھی تھا قدرۃً اس سارے طبقہ کے ساتھ برتاؤ ناگفتہ ہی رہا ۔ کس کس سے معافی کیا کہہ کہہ کر مانگوں؟ سب سے زیادہ مدت رفاقت حاجی محب