Search results

Search results for ''


خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ گھر کی لونڈی۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی

Athar Hashmi Zaban O Adab

چلیے، سر پھٹوّل کا تلفظ تو طے ہوگیا۔ اب ایک اور دل چسپ لفظ سننے میں آیا۔ کراچی کی تازہ ترین صورت حال میں ایک صاحب ٹی وی چینل پر فرما رہے تھے کہ ’’نائن زیرو پر چھاپے سے متحدہ والے ’’بھونچ کے‘‘ رہ گئے‘‘۔ ہے ناں مزے کا لفظ۔ ہم خود یہ سن کر ’’بھونچ کے‘‘ رہ گئے۔ جو صاحب یہ فرما رہے تھے اُن پر اہلِ زبان ہونے کی تہمت بھی ہے، اور جب وہ انگریزی بولتے ہیں تو انگریزوں کو بھی مات کرتے ہیں۔ صحیح تلفظ، گرامر وغیرہ کا لحاظ رکھا جاتا ہے کہ

مولانا محمد اقبال ملا ندویؒ، جامعہ کے گل سرسبد(۶)... تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri Yadaun Kay Chiragh

جامعہ میں تدریسی خدمات مولانا اقبال صاحب کاتعلق اسی تکیہ محلے سے تھا جہاں اس ناچیز نے بھی آنکھیں کھولی تھیں،ایک لحاظ سے وہ میرے عزیز بھی لگتے تھے، ان کی دادی اور میرے نانا دونوں کا حافظ خاندان سے تعلق تھا، وہ رشتے میں میرے نانا کی چچا زاد بہن تھیں، اس زمانے میں یہ رشتے بہت قریب لگتے تھے، جس حافظ منزل میں ہم رہتے تھے کبھی وہ آپ کا آبائی مکان تھا، اس ناطے مولانا کو ہم نے بچپن سے اس وقت دیکھا تھا جب کہ ابھی آپ کی مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں، سوداگر بخار میں واقع مکتب جامعہ میں ۱۹۶۳ء میں جب باقاعدہ

بات سے بات: مدارس میں شورائی نظام۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri Bat Say Bat

مولانا زین العابدین صاحب نے سہ ماہی المظاہر کوہاٹ سے ایک فکر انگیز تحریر″ مدارس میں شورائی نظام کی پامالی″ کے عنوان سے پوسٹ کی ہے۔اس پر بعض احباب نے تبصرہ کیا ہے کہ ((ماشاء اللہ، بھت خوب، اس نظام میں ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے علاوہ دیگر ہمارے ملک کے مرکزی اداروں میں بھی کوئی نظیر نھیں ملتی))۔ اور بعض احباب نے اس ناچیز سے فرمائش کی ہے کہ اس پر کچھ اظہار خیال کیا جائے۔ پہلی نظر میں خیال ہوا کہ اس کا کیا فائدہ؟ یہ تو بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے، اور اس کی بڑی وج

صورت گر کچھ خوابوں کے۔۔۔ انٹرویو: اشفاق احمد۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر طاہر مسعود

Bhatkallys Other

کرداروں میں اس وقت زندگی پیدا ہوتی ہے جب ادیب اسے اپنا فلسفہ دینا چاہتا ہے کرداروں میں اس و قت زندگی پیدا ہوتی ہے جب ادیب اسے اپنا فلسفہ دینا چاہتاہے آدی دیکھتے ہی دیکھتے کیسے‘ کیوں کر بدل جاتا ہے؟ کون بدل دیتا ہے؟ مذہبی سے غیر مذہبی اور غیر مذہبی سے انتہائی مذہبی۔ یہ اندر کی تبدیلی‘ زاویۂ نظر کا بدل جانا‘ زندگی اور معاملات زندگی کو ایک خاص طریقے سے دیکھتے‘ سمجھتے اور محسوس کرتے بالکل ہی الگ اور مختلف زاویے سے دیکھنے لگ جانا اور اس کے زیر اثر لباس‘ چہرے مہرے‘ عادات و اطوار‘ طرز کلام سب میں یک

بات سے بات: خدا را سوشل میڈیا کی اشتہاری مہم کا حصہ نہ بنیں۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri Bat Say Bat

اس وقت واٹس اپ کی مذمت اور ٹیلگرام کے فضائل بیان کرنے کا سلسلہ چل نکلا ہے، اور سوشل میڈیا خاص طور پر واٹس اپ گروپ اس سے بھرے ہوئے ہیں، اس سلسلے میں ہماری چند معروضات ہیں۔ ۔ایسا لگتا ہے کہ سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والے زیادہ تر احباب اس کی اساس اور مزاج سے ناواقفیت کے ساتھ انہیں استعمال کررہے ہیں۔ ۔ واٹس اپ ، ٹیلگرام یا سگنل یہ بنیادی طور پر تجارتی مفادات پر قائم ہیں، اور ان مفادات کے حصول کے لئے یہ سبھی کچھ کررہے ہیں، ان کا پہلا اصول ہے منفعت کا حصول۔ اس سے جو اصول بھی ٹکرائے وہ اسے جوتی

سچی باتیں۔۔۔ موت کی یاد۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

1926-12-13 آپ کے تعلقات اگر وسیع ہیں، تو، اور اگر نہیں وسیع ہیں، تو بھی، اب تک آپ کے کتنے دوست اور عزیز، آپ کی نظروں کے سامنے اس دُنیا سے کوچ کرچکے ہیں۔ کیسے کیسے توانا، تندرست نوجوان، کیسے کیسے کسرتی وورزشی پہلوان، کیسے کیسے نوعمر ونازک اندام نونہال، کیسے کیسے ہنستے ہنستے بچّے، جن کی موت کبھی آپ کے وہم وگمان میں بھی نہ آتی ہوگی، دیکھتے ہی دیکھتے چل بسے ہیں۔ نامور علماء، جن کے علم وفضل کی شہرت سے ملک کی فضا گونج رہی تھی، ممتاز مصنفین، جن کے قلم کی ایک ایک سطر کے لئے شوق وعقیدت کی آنکھیں ک

بات سے بات: واٹس اپ اور سوشل میڈیا۔ اپنی حفاظت آپ کیجئے ۔۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri Bat Say Bat

 واٹس اپ پر ڈیٹا غیر محفوظ رہنے کی وجہ سے اسے چھوڑنے اور گروپ کو دوسری جگہ ٹرانسفر کرنے کی تجویزاحباب سے پیش ہورہی ہے۔ اس سلسلے میں ہماری چند معروضات ہیں۔ آج سے پینتیس سال قبل موبائل اور انٹرنٹ جیسی سہولتوں کے سلسلے میں مشہور تھا کہ انہیں ترقی یافتہ ممالک کی افواج اور خفیہ ادارے بیس تیس سال یا اس سے زیادہ عرصہ تک استعمال کرنے کے بعد عام کرتی ہیں، لیکن موبائل اور انٹرنٹ کی سہولت کو جلد ہی عام کردیا گیا، اور اسے زیادہ سے زیادہ عام ہونے کے لئے  انہیں بہت ہی سستا کردیا گیا، ہمیں اچھی ط

غلطی ہائے مضامین۔ عوام مخنث ہوگئے۔۔۔ تحریر :ابو نثر

Bhatkallys Other

اُستادِ محترم اطہر ہاشمی صاحب مرحوم یہ بات سمجھاتے سمجھاتے اللہ کو پیارے ہوگئے کہ عوام مذکر ہیں، انھیں مذکر ہی رہنے دیا جائے، مؤنث نہ کیا جائے۔ مگر ہمارے مطبوعہ اور برقی ذرائع ابلاغ ماشاء اللہ اب ہر شعبے میں ’’زبردست‘‘ ہوگئے ہیں۔ اردو کی ایک کہاوت ہے ’’زبردست کا ٹھینگا سر پر‘‘۔ سو، ذرائع ابلاغ نے خود عوام کو بھی زبردستی باور کرا دیا ہے کہ ہوتے ہوتے وہ مؤنث ہی ہوگئے ہیں۔ چناں چہ عام لوگ بھی اپنی عام بول چال میں اب عوام کو مؤنث ہی بولنے لگے ہیں۔ جہاں مرے پر سَو دُرّے، وہیں ایک دُرّہ مزید یہ کہ

مولانا محمد اقبال ملا ندویؒ، جامعہ کے گل سرسبد(۵)... تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri Yadaun Kay Chiragh

 دارالعلوم ندوۃ العلماء میں مولانا عبد الحمید ندوی رحمۃ اللہ نے جامعہ کے اس اولین درجے کے طلبہ پر حد درجہ محنت کی، اور تین سال تک مسلسل دن رات ایک کرکے انہیں اس قابل بنایا کہ اس اولین درجے نے۱۹۶۶ء میں جب جامعہ کا نصاب مکمل کرکے د ارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخلہ لیا تو درجہ میں شامل ان تینوں طالب علموں کا داخلہ عربی ہفتم میں ہوا، اور دو سال تعلیم پا کر ان تینوں طلبہ نے یہاں سے درجہ عالمیت کی سند حاصل کی اور ایک طالب علم نے مزید دو سال رہ کر سند فضیلت، پھر پندرہ سال کے بعد جامعہ کے ندوے سے

مولانا محمد اقبال ملا ندویؒ، جامعہ کے گل سرسبد(۴)... تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri Yadaun Kay Chiragh

مولانا عبد الحمید ندیؒ کی حکمت اور دانائی جامعہ کا قیام کن مشکل حالات میں ہوا، اور اس وقت بھٹکل کے اجتماعی اور جماعتی صورت حال جس خطرناک حد تک پہنچ گئے تھے، اور جماعتی اختلافات جس انتہائی عروج کو پہنچ گئے تھے، اس ماحول میں مولانا عبد الحمید ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے کون سی ایسی راہ اپنائی جس سے جامعہ کو ان اختلافات سے بلند ہوکر کام کرنے کا موقعہ مل گیا، مولانا اقبال صاحب اس سلسلے میں فرماتے ہیں: (( آپ کو معلوم نہیں،۱۹۵۸ء میں بھٹکل میں جماعتی اختلافات کے نتیجے میں بھائی بھائی میں اختلاف پیدا ہوا

علم وکتاب واٹس اپ گروپ کے نام ایک پیغام۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری ۔بھٹکل

Abdul Mateen Muniri Other

آج ظہر ڈھلے، جامعہ رحمت گھگرول،سہارنپور میں ایک خوبصورت محفل منعقد ہونے جارہی ہیں، جس میں سہارنپور واطراف  سے علم وکتاب واٹس اپ گروپ کے معزز اراکین ، منتخب اہل علم اور فکر مند شخصیات جمع ہونگی، دل تو چاہتا ہے کہ  ہمیں پر لگ جائیں اور اس بابرکت محفل میں پہنچ جائیں، لیکن ہوائیں اس طرف چل رہی ہیں جس طرف کشتیوں کو چلنا نہیں ہے،  حالات ایسے نہیں کہ جانے کے بعد اپنے مستقر پر واپسی آسان ہو،  اس محفل کو مولانا ڈاکٹر عبد المالک مغیثی  صاحب ناظم جامعہ رحمت  نے سجایا ہے، جن

صورت گر کچھ خوابوں کے۔۔۔ ممتاز مفتی کا انٹرویو۔۔آخری قسط۔۔ ڈاکٹر طاہر مسعود

Bhatkallys Other

دوسری و آخری قسط طاہر مسعود: کہا جاتا ہے کہ اس میں ایلی کا کردار خود آپ کا ہے؟ ممتاز مفتی: جی ہاں! میں خود ایلی ہوں اور اس میں کوئی بات غلط نہیں لکھی گئی ہے۔ اس کا ایک ایک حرف سچا ہے۔ طاہر مسعود: ’’علی پور کا ایلی‘‘ کے بعد آپ نے… ممتاز مفتی: (سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے) اور سنیے ’’علی پور کاایلی‘‘ کی کہانی 47ء پر آکر ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد میرا ارادہ تھا کہ میں 48ء سے لے کر اپنی موت تک کے عرصے پر دوسرا ناول لکھوں گا۔ میں نے اس کا نام رکھا تھا ’’ایلی اور الکھ نگری‘‘۔ اس می

غلطی ہائے مضامین۔ بات کچھ کی تھی، معانی اور پہنائے گئے۔۔۔ تحریر: ابو نثر

Bhatkallys Other

لو صاحبو! نیا سال شروع ہو گیا۔ سال فارسی زبان کا لفظ ہے۔ اُردو زبان میںسال کے لیے ہندی کا لفظ برس بھی استعمال کیا جاتا ہے۔عرب اِسے ’’عام‘‘ کہتے ہیں اور اس کے آتے ہی دعا دیتے ہیں ’’کل عام و انتم بخیر‘‘۔یعنی:۔ ’’ہر سال اسی طرح آتا رہے، درآں حالے (اس حال میں) کہ تم خیریت سے رہو‘‘۔ (تا کہ ہمیں بھی خیریت سے رہنے کا موقع ملے،درآں حالے کہ تم کوئی شر، کوئی فساد نہ کھڑا کر دو۔) جدید لغات میں لکھا ہے کہ: ’’سورج کے گرد زمین کی ایک پوری گردش کے برابر مدت کو سال کہتے ہیں‘‘۔ شمسی مہینوں کے حسا

سچی باتیں۔ سال نو کی آمد۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys Other

1929-04-01 آفتاب اپنا سالانہ دورہ ایک اور ختم کرچکا۔ زمین اپنی سالانہ گردش کی ایک باری تمام کرچکی۔ اور خیر، آفتاب وزمین کی حرکتوں کے نظرئیے صحیح ہوں یا نہ ہوں، بہرحال یقینی ہے، کہ کاغذ کا یہ چھپنے والا پُرزہ اپنی جو عمر لے کرآیاہے، اُس میں ایک سال کے اور کمی ہوگئی۔ اِن سطور کے لکھنے والے کی مَوت ایک سال قریب آگئی، اور پڑھنے والوں کی مدت زندگی بھی ایک ایک سال اور گھٹ گئی۔ ملک کے سال سرکاری کا آغاز ہے۔ کتنی جگہ سال نو کا جشن مسرت منایا جارہاہے، اورکتنی جگہ سالگرہ کے ڈورے میں ہنستے اور کھلکھل

مولانا محمد اقبال ملا ندویؒ، جامعہ کے گل سرسبد(۳) ۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔بھٹکل

Abdul Mateen Muniri Yadaun Kay Chiragh

جامعہ میں داخلہ ۔(مولانا اقبال فرماتے ہیں ) ایک دن عصر کے وقت ہم مولانا عبد الحمید ندوی ؒ کے درس قرآن کے انتظار میں بیٹھے تھے، کہ آپ نہیں آئے بلکہ آپ کی جگہ پر منیری صاحب درجہ میں داخل ہوگئے، اور تقریر شروع کردی، یہ آپ کی زندگی کی دو تین شاہکار تقریروں میں سے ایک تھی، جس کا خلاصہ یہ تھا، اور حقیقت بھی یہی تھی، کہ ہم سے پہلے بھی دو تین افراد نے اس قصبے میں ایک دینی مدرسہ قائم کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ ناکام ہوگئے، ہم نے بھی بہت کوشش کی، لیکن بڑی مشکل یہ ہے کہ ہمیں یہاں پڑھنے کے لئے بچے نہی

مولانا محمد اقبال ملا ندویؒ، جامعہ کے گل سرسبد(۲)۔۔تحریر: عبد المتیبن منیری۔بھٹکل

Bhatkallys Other

عثمان حسن ہیڈ ماسٹر کی نظر کرم مولانا اقبال صاحب فرماتے ہیں (( سچی بات تو یہ ہے کہ میں ہائی اسکول میں ٹاپ پر تھا، اور میر ا ارادہ ایک ڈاکٹر بننے کا تھا، اس زمانے میں گاؤں میں ڈاکٹر نہیں تھے، اورجو تھے وہ نیک نام نہیں تھے، عثمان ماسٹر صاحب کی نظر کرم مجھ پر تھی،ابھی جامعہ کے قیام کی تحریک شروع نہیں ہوئی تھی، اس زمانے میں ساتویں جماعت کے طالب علم کی صلاحیت نویں جماعت کے برابر ہوا کرتی تھی، میں نے اختیاری مضمون سائنس لیا تھا، عثمان ماسٹر صاحب تک منیری صاحب کی یہ بات پہنچی کہ وہ مجھے اعلی دینی تعلی

مولانا محمد ملا اقبال ندوی رحمۃ اللہ علیہ۔ جامعہ کے گل سرسبد ( ۱)۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri Yadaun Kay Chiragh

  یہ گزشتہ جنوری ۲۰۲۰ء کی بات ہے، میری دبی واپسی کا دن تھا، ظہر کی نماز میں نے جامعہ آباد مسجد میں اداکی، نماز کے بعد مولانا اقبال صاحب مسجد کے دروازے پر بائیں جانب بیٹھے میرا انتظار کررہے تھے، جاتے جاتے مولانا نے دریافت کیا کہ کیا اس مرتبہ آپ نے تخصص اور عالیہ درجات کے سامنے کچھ لکچر دئے؟، مولانا کو جب بھی ہماری وطن آمد ہوتی تو اس کی فکر رہتی تھی کہ طلبہ کو استفادہ کا موقعہ دیں، اور انہیں نئے، مفید اور اہم علمی موضوعات سے آگاہ کریں، وطن پہنچنے پر وہ ہم سے طلبہ کو مستفید کرنے کو کہ

صورت گر کچھ خوابوں کے۔۔۔ممتاز مفتی کا انٹرویو(1)۔۔۔ ڈاکٹر طاہر مسعود

Bhatkallys Other

’’ہم نے سوچا کہ نفسیات کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنانا چاہیے تو ہم نے دیکھا کہ دو فرد آپس میں لڑتے بھرتے رہتے ہیں لیکن اندر اصل محبت کا جذبہ ہے۔ اب ہمیں (اپنی کہانی میں) لوگوں کو بتانا ہے کہ بھائیو! یہ لڑائی نہیں ہے بلکہ اندر سے انہیں محبت کا روگ لگا ہوا ہے‘‘۔ ممتاز مفتی کا افسانے کا فن انوکھا اور کچھ کھردرا سا ہے۔ وہ الگ سے ہیں، ان کی زبان، بات کہنے کا ڈھنگ بھی مختلف ہے، منفرد ہے۔ جو کچھ وہ دیکھتے اور مشاہدہ کرتے ہیں اس کے اندر گہرائی میں اُتر کر دیکھنا اور سمجھنا چاہتے ہیں۔ آنکھوں پر انہیں ا