Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















مولانا محمد اقبال ملا ندویؒ، جامعہ کے گل سرسبد(۸) ۔۔۔از: عبد المتین منیری۔ بھٹکل
جامعہ کے بعد اللہ کا کر م ہوا کہ جامعہ سے علحدگی کے فورا بعد، مسجد فاروقی میں امامت کی ذمہ داری آپ کو مل گئی،جہاں آپ نے زندگی کے آخر ی لمحے تک تقریبا چالیس سال یہ ذمہ داری سنبھالی، اس دوران آپ نے محلے کے نوجوانوں کی اصلاح اور انہیں منظم کرنے پر توجہ دی، اور اصلاح معاشرہ کی عظیم ذمہ داری انجام دی، اس دوران فاروقی مسجد میں آپ نے بلاناغہ ماہ رمضان المبارک میں اعتکاف کرنے کا اہتمام کیا، فراغت کے بعد جب آپ جامعہ سے وابستہ ہوئے تھے، تب ہی سے وہ دینی امور جن کی ادائیگی میں مخصوص مذہبی طبقے کا
صورت گر کچھ خوابوں کے۔۔۔ انٹرویو غلام عباس۔۔۔ از: ڈاکٹر طاہر مسعود
اردو افسانے میں غلام عباس کا مقام متعین کرنا تو سکہ بند نقادوں کی ذمہ داری ہے۔ ہماری رائے میں تو غلام عباس نے جس زمانے میں افسانہ نگاری کا آغاز کیا اردو کی ادبی دنیا میں منٹو، عصمت، بیدی اور کرشن چندر کا طوطی بول رہا تھا۔ ان بڑے اور بے مثال افسانہ نگاروں کی موجودگی اور مقبولیت میں اپنی راہ الگ کرنا، اپنی انفرادیت کو منوانا کوئی آسان نہ تھا لیکن غلام عباس نے مطالعے، محنت و ریاضت سے اپنے فن میں ایسی مہارت پیدا کی ماجرے کے بیان، کردار نگاری، واقعے کی جزئیات اور چھوٹی چھوٹی بامعنی تفصیلات سے افس
*مولانا محمد اقبال ملا ندویؒ، جامعہ کے گل سرسبد(۷)... تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل*
*مولانا محمد اقبال ملا ندویؒ، جامعہ کے گل سرسبد(۷)... تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل* دینی اداروں میں دینی وعصری تعلیم کا امتزاج مولانا کی علوم عصریہ سائنس تاریخ و جغرافیہ سے بھر پور آگاہی کی وجہ سے بعض لوگ اس غلطی فہمی میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ آپ خالص دینی مدرسے کے بجائے دینی وعصری علوم کے امتزاج کے قائل تھے، لیکن حقیقت یہ نہیں تھی، مولانا کی رائے تھی ابتدائی تعلیم میں عصری علوم کا امتزاج ہو، لیکن اعلی درجات میں خالص دینی تعلیم ہو، اس طرح آپ سرکاری اداروں سے دینی اداروں کے الحاق کے بھی سخت
غلطی ہائے مضامین۔کان ’’کَن‘‘ یا کان ’’کُن‘‘۔۔۔۔ از : ابونثر
اب سے دو ہفتے پہلے کی بات ہے، پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا۔ بلوچستان کی تحصیل بولان کے علاقے مچھ میں کوئلے کی کان میں کُھدائی کرنے والے گیارہ مزدوروں کو دہشت گردوں نے اغوا کرکے وحشیانہ انداز میں قتل کردیا۔ اس دل خراش سانحے کی خبر دیتے ہوئے ہمارے مطبوعہ اور برقی ذرائع ابلاغ (دونوں) نے ان مظلوم مزدوروں کے لیے ’’کان کَن‘‘ کی جگہ ’’کان کُن‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔ ایک اخبار نے تو اپنی شہ سُرخی میں ’’کن‘‘ کے کاف پر باقاعدہ پیش بھی لگایا، تاکہ ایسا نہ ہو کہ کوئی اسے ’’کان کُن‘
سچی باتیں۔۔۔ تعلیم یا وبال۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1927-01-03 آپ کے پڑوس میں ایک کمر جھکی ہوئی بوڑھی رہتی ہیں، جن کا کوئی والی ووارث نہیں۔ آپ کبھی اگراُن کے آگے دوچار پیسے پھینک دیتے ہیں، تو گویا اپنے نزدیک حاتمؔ طائی کی سخاوت کو مات کردیتے ہیں، لیکن کبھی ساری عمرمیں یہ بھی توفیق آپ کو ہوئی ہے، کہ اُن کا کوئی کام اپنے ہاتھ سے کردیں؟ آپ کی والدہ ماجدہ کا اب پیرانہ سالی کا زمانہ ہے، نہ اعضا میں قوت باقی ہے، نہ ہوش وحواس پوری طرح باقی ہیں، آپ اپنی ساری فضول خرچیوں کے مقابلہ میں کوئی حقیر رقم اُنھیں بھی دے دیتے ہین، اور اس طرح گویا اُن کے سار
بات سے بات : ملبار کا قصبہ پوننانی اور معبر کا کایل پٹن۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری
آج اکولہ کے محترم ریاض خان صاحب نے ملبار میں اسلامی تہذیب کے ایک قدیم نشان پوننانی کا تذکرہ کیا ہے، اور وہاں کی تاریخی جامع مسجد کی تصاویر شیر کی ہیں،آج سے دس سال قبل ۲۰۱۱ء میں ہمیں بھی اس قصبے کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ ملبار کی اسلامی تاریخ کے سلسلے میں اردو میں مواد نہ ہونے کے برابر ہے، حالانکہ مبلغین اسلام کا اولین قافلہ یہیں کے ساحلوں پر آکر اترا تھا، کہا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ سبا دور سے یہ یمن کے تاجروں کا مرکز رہا ہے، یہاں کی ایک بندرگاہ ہے کوڈن

خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ گھر کی لونڈی۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی
چلیے، سر پھٹوّل کا تلفظ تو طے ہوگیا۔ اب ایک اور دل چسپ لفظ سننے میں آیا۔ کراچی کی تازہ ترین صورت حال میں ایک صاحب ٹی وی چینل پر فرما رہے تھے کہ ’’نائن زیرو پر چھاپے سے متحدہ والے ’’بھونچ کے‘‘ رہ گئے‘‘۔ ہے ناں مزے کا لفظ۔ ہم خود یہ سن کر ’’بھونچ کے‘‘ رہ گئے۔ جو صاحب یہ فرما رہے تھے اُن پر اہلِ زبان ہونے کی تہمت بھی ہے، اور جب وہ انگریزی بولتے ہیں تو انگریزوں کو بھی مات کرتے ہیں۔ صحیح تلفظ، گرامر وغیرہ کا لحاظ رکھا جاتا ہے کہ
مولانا محمد اقبال ملا ندویؒ، جامعہ کے گل سرسبد(۶)... تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل
جامعہ میں تدریسی خدمات مولانا اقبال صاحب کاتعلق اسی تکیہ محلے سے تھا جہاں اس ناچیز نے بھی آنکھیں کھولی تھیں،ایک لحاظ سے وہ میرے عزیز بھی لگتے تھے، ان کی دادی اور میرے نانا دونوں کا حافظ خاندان سے تعلق تھا، وہ رشتے میں میرے نانا کی چچا زاد بہن تھیں، اس زمانے میں یہ رشتے بہت قریب لگتے تھے، جس حافظ منزل میں ہم رہتے تھے کبھی وہ آپ کا آبائی مکان تھا، اس ناطے مولانا کو ہم نے بچپن سے اس وقت دیکھا تھا جب کہ ابھی آپ کی مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں، سوداگر بخار میں واقع مکتب جامعہ میں ۱۹۶۳ء میں جب باقاعدہ
بات سے بات: مدارس میں شورائی نظام۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری
مولانا زین العابدین صاحب نے سہ ماہی المظاہر کوہاٹ سے ایک فکر انگیز تحریر″ مدارس میں شورائی نظام کی پامالی″ کے عنوان سے پوسٹ کی ہے۔اس پر بعض احباب نے تبصرہ کیا ہے کہ ((ماشاء اللہ، بھت خوب، اس نظام میں ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے علاوہ دیگر ہمارے ملک کے مرکزی اداروں میں بھی کوئی نظیر نھیں ملتی))۔ اور بعض احباب نے اس ناچیز سے فرمائش کی ہے کہ اس پر کچھ اظہار خیال کیا جائے۔ پہلی نظر میں خیال ہوا کہ اس کا کیا فائدہ؟ یہ تو بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے، اور اس کی بڑی وج
صورت گر کچھ خوابوں کے۔۔۔ انٹرویو: اشفاق احمد۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر طاہر مسعود
کرداروں میں اس وقت زندگی پیدا ہوتی ہے جب ادیب اسے اپنا فلسفہ دینا چاہتا ہے کرداروں میں اس و قت زندگی پیدا ہوتی ہے جب ادیب اسے اپنا فلسفہ دینا چاہتاہے آدی دیکھتے ہی دیکھتے کیسے‘ کیوں کر بدل جاتا ہے؟ کون بدل دیتا ہے؟ مذہبی سے غیر مذہبی اور غیر مذہبی سے انتہائی مذہبی۔ یہ اندر کی تبدیلی‘ زاویۂ نظر کا بدل جانا‘ زندگی اور معاملات زندگی کو ایک خاص طریقے سے دیکھتے‘ سمجھتے اور محسوس کرتے بالکل ہی الگ اور مختلف زاویے سے دیکھنے لگ جانا اور اس کے زیر اثر لباس‘ چہرے مہرے‘ عادات و اطوار‘ طرز کلام سب میں یک
بات سے بات: خدا را سوشل میڈیا کی اشتہاری مہم کا حصہ نہ بنیں۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری
اس وقت واٹس اپ کی مذمت اور ٹیلگرام کے فضائل بیان کرنے کا سلسلہ چل نکلا ہے، اور سوشل میڈیا خاص طور پر واٹس اپ گروپ اس سے بھرے ہوئے ہیں، اس سلسلے میں ہماری چند معروضات ہیں۔ ۔ایسا لگتا ہے کہ سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والے زیادہ تر احباب اس کی اساس اور مزاج سے ناواقفیت کے ساتھ انہیں استعمال کررہے ہیں۔ ۔ واٹس اپ ، ٹیلگرام یا سگنل یہ بنیادی طور پر تجارتی مفادات پر قائم ہیں، اور ان مفادات کے حصول کے لئے یہ سبھی کچھ کررہے ہیں، ان کا پہلا اصول ہے منفعت کا حصول۔ اس سے جو اصول بھی ٹکرائے وہ اسے جوتی
سچی باتیں۔۔۔ موت کی یاد۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1926-12-13 آپ کے تعلقات اگر وسیع ہیں، تو، اور اگر نہیں وسیع ہیں، تو بھی، اب تک آپ کے کتنے دوست اور عزیز، آپ کی نظروں کے سامنے اس دُنیا سے کوچ کرچکے ہیں۔ کیسے کیسے توانا، تندرست نوجوان، کیسے کیسے کسرتی وورزشی پہلوان، کیسے کیسے نوعمر ونازک اندام نونہال، کیسے کیسے ہنستے ہنستے بچّے، جن کی موت کبھی آپ کے وہم وگمان میں بھی نہ آتی ہوگی، دیکھتے ہی دیکھتے چل بسے ہیں۔ نامور علماء، جن کے علم وفضل کی شہرت سے ملک کی فضا گونج رہی تھی، ممتاز مصنفین، جن کے قلم کی ایک ایک سطر کے لئے شوق وعقیدت کی آنکھیں ک
بات سے بات: واٹس اپ اور سوشل میڈیا۔ اپنی حفاظت آپ کیجئے ۔۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری
واٹس اپ پر ڈیٹا غیر محفوظ رہنے کی وجہ سے اسے چھوڑنے اور گروپ کو دوسری جگہ ٹرانسفر کرنے کی تجویزاحباب سے پیش ہورہی ہے۔ اس سلسلے میں ہماری چند معروضات ہیں۔ آج سے پینتیس سال قبل موبائل اور انٹرنٹ جیسی سہولتوں کے سلسلے میں مشہور تھا کہ انہیں ترقی یافتہ ممالک کی افواج اور خفیہ ادارے بیس تیس سال یا اس سے زیادہ عرصہ تک استعمال کرنے کے بعد عام کرتی ہیں، لیکن موبائل اور انٹرنٹ کی سہولت کو جلد ہی عام کردیا گیا، اور اسے زیادہ سے زیادہ عام ہونے کے لئے انہیں بہت ہی سستا کردیا گیا، ہمیں اچھی ط
غلطی ہائے مضامین۔ عوام مخنث ہوگئے۔۔۔ تحریر :ابو نثر
اُستادِ محترم اطہر ہاشمی صاحب مرحوم یہ بات سمجھاتے سمجھاتے اللہ کو پیارے ہوگئے کہ عوام مذکر ہیں، انھیں مذکر ہی رہنے دیا جائے، مؤنث نہ کیا جائے۔ مگر ہمارے مطبوعہ اور برقی ذرائع ابلاغ ماشاء اللہ اب ہر شعبے میں ’’زبردست‘‘ ہوگئے ہیں۔ اردو کی ایک کہاوت ہے ’’زبردست کا ٹھینگا سر پر‘‘۔ سو، ذرائع ابلاغ نے خود عوام کو بھی زبردستی باور کرا دیا ہے کہ ہوتے ہوتے وہ مؤنث ہی ہوگئے ہیں۔ چناں چہ عام لوگ بھی اپنی عام بول چال میں اب عوام کو مؤنث ہی بولنے لگے ہیں۔ جہاں مرے پر سَو دُرّے، وہیں ایک دُرّہ مزید یہ کہ

مولانا محمد اقبال ملا ندویؒ، جامعہ کے گل سرسبد(۵)... تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل
دارالعلوم ندوۃ العلماء میں مولانا عبد الحمید ندوی رحمۃ اللہ نے جامعہ کے اس اولین درجے کے طلبہ پر حد درجہ محنت کی، اور تین سال تک مسلسل دن رات ایک کرکے انہیں اس قابل بنایا کہ اس اولین درجے نے۱۹۶۶ء میں جب جامعہ کا نصاب مکمل کرکے د ارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخلہ لیا تو درجہ میں شامل ان تینوں طالب علموں کا داخلہ عربی ہفتم میں ہوا، اور دو سال تعلیم پا کر ان تینوں طلبہ نے یہاں سے درجہ عالمیت کی سند حاصل کی اور ایک طالب علم نے مزید دو سال رہ کر سند فضیلت، پھر پندرہ سال کے بعد جامعہ کے ندوے سے
مولانا محمد اقبال ملا ندویؒ، جامعہ کے گل سرسبد(۴)... تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل
مولانا عبد الحمید ندیؒ کی حکمت اور دانائی جامعہ کا قیام کن مشکل حالات میں ہوا، اور اس وقت بھٹکل کے اجتماعی اور جماعتی صورت حال جس خطرناک حد تک پہنچ گئے تھے، اور جماعتی اختلافات جس انتہائی عروج کو پہنچ گئے تھے، اس ماحول میں مولانا عبد الحمید ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے کون سی ایسی راہ اپنائی جس سے جامعہ کو ان اختلافات سے بلند ہوکر کام کرنے کا موقعہ مل گیا، مولانا اقبال صاحب اس سلسلے میں فرماتے ہیں: (( آپ کو معلوم نہیں،۱۹۵۸ء میں بھٹکل میں جماعتی اختلافات کے نتیجے میں بھائی بھائی میں اختلاف پیدا ہوا
علم وکتاب واٹس اپ گروپ کے نام ایک پیغام۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری ۔بھٹکل
آج ظہر ڈھلے، جامعہ رحمت گھگرول،سہارنپور میں ایک خوبصورت محفل منعقد ہونے جارہی ہیں، جس میں سہارنپور واطراف سے علم وکتاب واٹس اپ گروپ کے معزز اراکین ، منتخب اہل علم اور فکر مند شخصیات جمع ہونگی، دل تو چاہتا ہے کہ ہمیں پر لگ جائیں اور اس بابرکت محفل میں پہنچ جائیں، لیکن ہوائیں اس طرف چل رہی ہیں جس طرف کشتیوں کو چلنا نہیں ہے، حالات ایسے نہیں کہ جانے کے بعد اپنے مستقر پر واپسی آسان ہو، اس محفل کو مولانا ڈاکٹر عبد المالک مغیثی صاحب ناظم جامعہ رحمت نے سجایا ہے، جن
صورت گر کچھ خوابوں کے۔۔۔ ممتاز مفتی کا انٹرویو۔۔آخری قسط۔۔ ڈاکٹر طاہر مسعود
دوسری و آخری قسط طاہر مسعود: کہا جاتا ہے کہ اس میں ایلی کا کردار خود آپ کا ہے؟ ممتاز مفتی: جی ہاں! میں خود ایلی ہوں اور اس میں کوئی بات غلط نہیں لکھی گئی ہے۔ اس کا ایک ایک حرف سچا ہے۔ طاہر مسعود: ’’علی پور کا ایلی‘‘ کے بعد آپ نے… ممتاز مفتی: (سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے) اور سنیے ’’علی پور کاایلی‘‘ کی کہانی 47ء پر آکر ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد میرا ارادہ تھا کہ میں 48ء سے لے کر اپنی موت تک کے عرصے پر دوسرا ناول لکھوں گا۔ میں نے اس کا نام رکھا تھا ’’ایلی اور الکھ نگری‘‘۔ اس می