Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















بات سے بات: امام جصاص اور بعض کتابوں کا ذکر۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری
آج بزم میں نورالانوار کا تذکرہ آیا ہے، یہ کتاب ہمارے استاد مولانا محمد حسین بنگلوری مرحوم نے ہمیں پڑھائی تھی۔ مولانا باقیات الصالحات ویلور کے فارغ التحصیل اور افضل العلماء کے سند یافتہ، اور برطانوی دور میں مدراس کی کے باوقار پریزیڈنسی کالج سے قانون میں یل یل یم پاس تھے، ان کی زندگی زیادہ تر حیدرآباد دکن، بنگلور اور کرنول کے کالجوں کی پروفیسری اور پرنسپلی میں گذری تھی۔ ۔۱۹۷۲ء میں جب آپ ہمارے دارالعلوم میں آئے تو پہلے درس میں فرمایا کہ آپ مولوی حضرات فقہ کی درسیات سے فروع یاد کرتے ہو، اور
سچی باتیں۔ محبت میں شراکت۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1928-03-16 حضرت سمنون محبؒؔ، حضرت جنیدؓؔ کے معاصر، ایک ولی کامل گزر ے ہیں،جن کی بزرگی اور فضیلت پر مشائخ قدیم کا اتفاق ہے۔ حضرت شیخ فرید الدین عطارؓؔ ان کے تذکرے میں لکھتے ہیں، کہ ایک عمر کے مجاہدہ وریاضت کے بعد بوڑھاپے میں ،سنتِ نبویؐ کی پیروی میں ، عقد کیا۔ اور کچھ روز کے بعد ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ جب تین برس کی ہوچکی، اور باپ کی آنکھوں کا تارابن چکی، توایک شب کو خواب آیا دیکھتے ہیں، کہ قیامت برپاہے، اور ہرہر گروہ ایک ایک جھنڈے کے نیچے ہے، اور ایک جھنڈا اس قدر منوّر ہے، کہ اُس کی نورانیت سے سا
غلطی ہائے مضامیں۔۔۔ خطائے بزرگان۔۔۔ تحریر: ابو نثر
حضرت مولانا مفتی منیب الرحمٰن مدّظلہٗ العالی تفقّہ فی الدین ہی نہیں رکھتے، تفقّہ فی اللسان بھی رکھتے ہیں۔ اصلاحِ زبان پر ان کے مضامین ہم بہت اشتیاق و احترام سے پڑھتے ہیں۔ آپ نہ صرف عالمِ دین اور فقیہ ہیں، بلکہ اردو، عربی اور فارسی زبانوں کے شناور بھی۔ مفتی صاحب بھی اکثر لوگوں کی طرح اس بات کے قائل نظر آتے ہیں کہ مشہور محاورے ’خطائے بزرگاں گرفتن خطاست‘ کا مفہوم یہ ہے کہ بزرگوں کی غلطی پکڑنا بھی غلطی ہے۔ اس خیال کا استدلال محترم مفتی منیب صاحب نے اپنی ایک تحریر میں شیخ سعدیؒ کے مشہور شعر سے کیا

تبصرات ماجدی۔۔۔(۱۱۸۔۱۱۹)۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
*(118) دیوان نظیر آبادی* مرتبہ مرزا فرحت اللہ بیگ صاحب انجمن ترقی اردو، دہلی۔ میاں نظیر اکبر آبادی اردو کے دو رسوم کے شعراء میں شہرت رکھتے تھے، اپنے دور کے عوام میں تو جیسی مقبولیت ان کو نصیب ہوئی شاید ہی کسی کو ہوئی ہو، ان کی کلیات جو اب تک موجود و معروف تھی، بیشتر نظموں ہی پر مشتمل تھی، غزلیات اس میں گنتی کی چند تھیں۔ حال میں ملک کے نامور ادیب مرزا فرحت اللہ بیگ صاحب دہلوی کی ہمت نے تلاش کر کے ان کے ایک چھوڑو دو دو دیوان پردۂ خفا سے ڈھونڈھ نکلے، تلاش سے بھی بڑھ کر قابل داد ان کی وہ محنت
علامہ محمد حسین بہاری۔۔۔ ڈاکٹر بدر الحسن قاسمی۔ الکویت
استاد گرامی حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی نے متعدد اساتذہ دارالعلوم کے بارے میں ايك ايك ظریفانہ شعر كها تھا مولانا محمد حسین بہاری کے بارے میں شعر تھا در بغل دارد بہاری صد بہار بےخزا ں از سجستانی ستاند فقہ شاہ انس و جاں وہ اساتذہ جن سے پڑھ کر اور ان سے شرف تلمذ حاصل کرکے آدمی فخر محسوس کرے اور شاگردی کی نسبت کا برملا اظہار کرسکے کم ہی میسر آتے ہیں گوکہ جس سے بھی دوحرف سیکھے احترام تو ساری زندگی کیلئے اس کا لازم ہوجاتا ہے۔ مولانا محمد حسین بہاری یا علامہ بہاری کا دار العلوم کے ان مایہ ناز
تبصرات ماجدی۔۔۔ ۱۱۶۔۔۔ رنگ محل ۔۔ از : مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
*تبصرات ماجدي* *(116) رنگ محل از ساغر نظامی* ادرہ اشاعت اردو، حیدر آباد۔ حسب تشریح سرورق یہ ساغر نظامی ادارہ اشاعت اردو حیدر آبادی رومانی نظموں، گیتوں اور غزلوں کا مجموعہ ہے، ساغر صاحب کا ایک خاص رنگ ہے اور وہ رنگ خوب جانا ہوا پہچانا ہو ہے، نازک اتنا کہ مفصل تحلیل اور مبسوط تنقید کا بار شاید اٹھا نہ سکے۔ ساغر کو غالباً اپنے تغزل کی قدر نہیں لیکن جو شاعر اس قسم کے شعر کہہ سکتا ہے: پھر میری عرض شوق میں پیدا ہیں جرأتیں جھک کر یہ کیا کہا نگہ شرمسار نے تم جو چھیڑو مسکرا کر ساز ہے
غلطی ہائے مضامین۔۔۔ لو!خطیب شہر کی تقریر کا جوہر کھلا۔۔۔ تحریر: ابو نثر
غلطی ہائے مضامین پر جمعے کے جمعے وعظ کرنے سے ہماری عادت ایسی بگڑی کہ ہم جمعے کے وعظ کی غلطیاں بھی پکڑنے لگے۔ پچھلے جمعے کو بیرونِ شہر جانا پڑا۔ جمعے کی نماز کا وقت ہوا تو بھاگم بھاگ قریبی مسجد پہنچے۔ وعظ جاری تھا۔ سفید رِیش واعظِ محترم اپنے سر پر سفید صافہ باندھے ایک بار، دو بار یا تین بار نہیں، باربار سامعین کا ’’سَرے تسلیمے خم‘‘ کروائے جارہے تھے۔ ہم سے ہو نہیں پارہا تھا۔ وطنِ عزیز کی دانش گاہوں میں اگر کہیں کچھ اردو باقی رہ گئی ہے تو صرف اُن تعلیمی اداروں میں جو ’’دینی مدارس‘‘ کہے جات

سچی باتیں۔۔۔روزہ داری کے فوائد۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1928-03-02 کھانا کھانے میں آپ کو لطف کس وقت آتاہے؟ اُس وقت جبکہ بھوک کھُل کر لگی ہو، یعنی کچھ دیر پیشتر سے کھانا نہ کھایاہو۔ پانی کے گلاس میں مزہ کس وقت ملتاہے۔ اُس وقت جبکہ پیاس لگی ہوئی ہو، اور پانی پینے کی طلب بیقرار کررہی ہو۔ نیند سُکھ سے کِس وقت آتی ہے؟ اُس وقت جبکہ کچھ گھنٹے قبل سے آپ برابر جاگ رہے ہوں ۔ اِن ساری مثالوں میں آپ کو روزمرّہ، ہروقت اور ہرجگہ تجربہ ہوتارہتاہے، کہ مادی لذتوں سے بھی پوری طرح لطف اُٹھانے کے لئے کسی قدر ضبط، صبر واحتیاط لازمی ہے۔ یہی آپ کا مشاہدہ ہے، یہی آپ
سچی باتیں۔۔۔ دعاء کی ضرورت۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
1928-12-28 ۔۱۳؍دسمبر کا چلا ہوا رائٹر ایجنسیؔ کا تار، ساری دنیا کو خبر دیتاہے، کہ اُس روز ویسٹ منسٹر ؔ کے مشہور گرجامیں، ہر طبقہ اور ہر عقیدہ کے ایک بہت بڑے۔ مجمع نے اکٹھا ہوکر بادشاہ سلامت جارج پنجمؔ کی صحت وسلامتی کے دعائیں مانگیں، اور آئندہ بھی یہ دعائیں روزانہ دوپہر کے وقت مانگی جاتی رہیں گی۔ حاضرین ہر دعا کے خاتمہ پرجوش وخروش سے آمین کہتے جاتے تھے، اور پادری اسٹار کی زبان سے نکل نکل کر یہ الفاظ ہوا میں گونج رہے تھے:- ’’اے پروردگار ، اپنے بندہ جارج پنجمؔ کو شفا عطافرما‘‘۔ ’’ہماری مہربان
تبصرات ماجدی۔۔۔ ۱۱۴۔۔۔ کلیات سلطان محمد قلی شاہ۔۔۔ مرتبہ: ڈاکٹر محی الدین زور
*تبصرات ماجدی* *(114) کلیات سلطان محمد قلی شاہ* مرتبہ ڈاکٹر محی الدین زور *(115) کلیات سراج* مرتبہ سید عبد القادر سروری کتاب گھر خیریت آباد، حیدر آباد دکن کی مجلس اشاعت دکنی مخطوطات اپنے ہاں کی علمی و ادبی تاریخ کو جس قابل رشک طریقہ سے زندہ کر رہی ہے اس کا تازہ نمونہ دکن کے دو قدیم شاعروں کی کلیات کی اشاعت ہے، محمد قلی قطب شاہ کا زمانہ گیارھویں صدی ہجری کا اور سراج کا بارھویں صدی کا تھا۔ دونوں کلیات کے مرتبوں نے کام چونکہ کسی تجارتی غرض کے ما تحت نہیں بلکہ دلی شوق کے جذبہ صادق سے کیا ہے
تبصرات ماجدی۔۔۱۱۵۔۔۔ نغمہ زندگی۔۔۔ سید فضل احمد کریم فضلی
نام کتاب: نغمہ زندگی از سید فضل احمد کریم فضلی انجمن ترقی اردو، دریا گنج، دہلی۔ کتاب کہیے یا ننھے منے سے قد، ہلکی پھلکی قامت کی مناسبت سے کتابچہ اردو دیوان ہے، ایک آئی سی ایس شاعر کا اور مجموعہ ہے ایک ‘‘آکسن’’ کے اردو کلام کا ...... اپنی نوعیت میں شاید پہلی اور انوکھی چیز، جدت ندرت صرف اس حیثیت سے کب ہے؟ قدرتاً نظر سب سے پہلے فہرست پر پڑی اور پہلا عنوان ‘‘تصویر شاعر’’ نظر آیا، ورق الٹا لیکن ایں! تصویر کہاں؟ کسی نے تصویر والا صفحہ پھاڑ تو نہیں ڈالا! جی نہیں، صفحہ سالم لیکن درج بجائے تصویر کے
غلطی یائے مضامین۔۔۔ یہ لشکری زبان ہے یا لشکرِ فرنگ؟ ۔۔۔۔ تحریر: ابو نثر
میرؔ و غالبؔ ہی کیا؟ اب تو بابائے اُردو مولوی عبدالحق کا شمار بھی اگلے وقتوں کے لوگوں میں ہونے لگا ہے۔مولوی ہی صاحب پر کیا موقوف، اب تو اگر حمید نظامی مرحوم یا ذوالفقار علی بخاری مرحوم بھی عالمِ بالا سے اُتر آئیں اور ہمارے اخبارات کی خبریں پڑھیں یا ہمارے نشریاتی اداروں سے خبریں سنیں اور دیکھیں تو گھبرا کر دوبارہ پرواز کرجائیں کہ یا مظہر العجائب! یہ کون سی بولی یہاں بولی جارہی ہے؟ جس زبان کو اقبال اشہرؔ نے میرؔ کی ہمراز، غالبؔ کی سہیلی اور خسروؔ کی پہیلی قرار دیا ہے، یہ وہ جانِ حیا تو نہیں۔ یہ
ناوزے فاترار زاللے پروگراما سلسلات چند گزارشات۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری
آج سگلو دیس بھلی ذہنی تکلیف انی اذیت بھیتر گزرلو، دون دیسا فوڑے ناوزے فاترا اوپر جے کائیں پروگرام زالوہوتو انی ہیں سلسلات امچے محترم مولانا محمد صادق اکرمی ندوی صاحب جیکائیں نکیر کیلے، انی ہیجی مخالفت انی تائید بھیتر جے کائیں تبصرے سامیں ایلے، چند مانسا طرفین، جیکونتو منفی رویہ اپنون گیلو، قوما سامیں ایک سوالیہ نشان دھرون واٹے۔ مولانا قوما سبب نوے نوہیں، گذشتہ پنتالیس ورسا فوڑے سلطان مزگتی امامت چی ذمہ داری شروع کیلو وقت ٹیکون اصلاح معاشرہ سبب وڑلو فعال کردار ادا کرتے واٹیت، ایتا تینچےاصلاحی د
ان کے رخسار پہ ڈھلکے ہوئے آنسو توبہ... سہیل انجم
مشہور شاعر آنند نرائن ملا کا ایک شعر ہے: رونے والے تجھے رونے کا سلیقہ ہی نہیں اشک پینے کے لیے ہیں کہ بہانے کے لیے؟ لیکن دنیا کی آنکھوں نے گزشتہ دنوں پارلیمنٹ میں ایک منظر دیکھا کہ سربراہ حکومت کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اور اس انداز میں آئے کہ متعدد افراد جذباتی ہو گئے۔ معاملہ تھا راجیہ سبھا میں کسانوں کے احتجاج پر ہونے والی بحث کا۔ دو تین روز تک بحث کا دروازہ کھلا رہا اور معزز ارکان اپنی اپنی پارٹیوں کے حساب سے تقریر کر رہے تھے۔ اسی درمیان راجیہ سبھا سے چار ارکان کی مدت رکنیت
ویلنٹائن ڈے بے حیائی کا عالمی دن۔۔۔۔۔۔! از:محمد فرقان
اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک پاکیزہ مذہب اور تہذیب عطاء کیا۔ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات کا نام ہے۔ جس نے انسان کو زندگی کے ہر گوشے میں رہنمائی فراہم کی ہے۔ اسلام نے جہاں ہمیں نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دیگر عبادات کے حوالے سے رہنمائی فراہم کی وہیں سیاست، معاشرت، معاشیات، اخلاقیات اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی بھرپور تعلیمات عطاء کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی کرنیں مکہ و مدینہ سے نکل کر پوری دنیا میں پہنچ چکی ہیں۔ اور دن بدن بلاد کفار میں بسنے والے لوگ دائرہئ اسلام میں
سچی باتیں۔۔۔ محلہ والوں کی گواہی۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1928-02-10 اکبر کی بُرائی اچھائی پوچھ اُس کے محلہ والوں سے ہاں شعر تو اچھا کہتے ہیں، دیوان تو ان کا دیکھاہے اس ’’پیر ظریف‘‘ کا یہ شعر محض دل لگی کے لئے ہے، یا اس کے اندر کوئی معنی ومفہوم بھی ہے؟ واعظ اور خوش بیان واعظ، آپ کے نظر سے خدا معلوم کتنے گزرچکے ہوں گے، شاعر اور جادوبیان شاعر معلوم نہیں کتنے، آپ کے تجربہ میں آچکے ہوں گے لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ جو شخص بول اچھا سکتاہے، وہ خود بھی ہو؟ کیا یہ فرض ہے ، کہ جس کا ’’ظاہر‘‘ خوشنما ہو، اُس کا ’’باطن‘‘ بھی آراستہ ہو؟ آج آپ نے عزت وتکریم کا
غلطی ہائے مضامین۔۔۔دستِ ہمشیر کی چوڑیوں کی قَسم۔۔۔ ابو نثر
یاد نہیں کہ کون سا ٹی وی چینل تھا۔ اب تو اتنے ہیں کہ بقول ناصرؔکاظمی… ’’یاد آئیں بھی تو سب یاد نہیں‘‘… ہر روز کی طرح اُس روز بھی وہاں ایک سیاسی ملاکھڑا برپا تھا۔ ہمارے معزز سیاسی قائدین اصیل مرغوں اور مرغیوں کی طرح سینے پُھلا پُھلا کر اور اُچھل اُچھل کر ایک دوسرے سے چونچیں لڑا رہے تھے۔ اسی گھمسان میں ایک سیاسی رہنما نے یہ سنسنی خیز انکشاف کر ڈالا:۔ ۔’’مریم، بلاول کی ہمشیرہ ہیں‘‘۔ مریم بنتِ نوازشریف، بلاول ابنِ آصف زرداری کی ’’ہمشیرہ‘‘ ہیں یا نہیں؟ ہم اس کی تصدیق کرنے کی توفیق رکھتے ہیں نہ تک
بات سے بات: مولانا ابو العرفان اور مولانا ضیاء الحسن کی یاد۔ ۔تحریر: عبد المتین منیری
ندوے کی خوفناک راتیں کے عنوان سے ڈاکٹر محمد اکرم ندوی صاحب کی تحریر آنکھوں کو نم کرنے والی ہے،اس تحریر میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے دو محترم اساتذہ کرام مولانا ابو العرفان ندویؒ اور مولانا محمد ضیاء الحسن ندویؒ کی یاد تازہ کی ہے، اور یکے بعد دیگرے ان کی رحلت کے یاد کو اور اس پر اپنے تاثر کو قلم بند کیا ہے۔ان اساتذہ سے استفادے سے تو ہمیں محرومی رہی، لیکن برکت کے لئے ان کی زیارت کا موقعہ ضرور نصیب ہوا۔ مولانا ابو العرفان ؒ صاحب ندوے کے قائم مقام مہتمم رہے، لیکن بنیادی طور پر وہ قدی