Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















تجلیات رحمانی۔۔۔ تحریر:مولانا بدر الحسن قاسمی۔ الکویت
تجلیات رحمانی یا فیوض رحمانی کا یہ مبارک سلسلہ تو حضرت شاہ فضل رحمن گنج مراد آبادی رح سے جڑا ہوا ہے حضرت مولانا محمد علی مونگیری رح انکے فیض سے اس طرح بہرہ ور ہوئے کے ایک عالم کو سیراب کیا ندوة العلماءکی بنیاد رکھی خانقاہ رحمانی کو آباد کیا جامعہ رحمانی کی بنیاد ڈالی لو گوں کے دلوں کو صیقل کیا ایک خلقت کی اخلاقی تر بیت کی معاشرہ کو شرک و بدعات سے پاک کیا عیسائی مشنری کا مقابلہ کیا اور مسلمان بچوں کو عیسائیت کے پنجہ سے نکالا اور پادریوں کے قدم ملک میں جمنے نہیں دئے ہر باطل تحریک کا مقابلہ
بی جے پی کی ’ایوارڈ پالیٹکس‘ بے نقاب... سہیل انجم
یوں تو بی جے پی کے بیشتر رہنما اور بالخصوص وزیر اعظم نریندر مودی بار بار اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ الیکشن کی سیاست نہیں کرتے۔ الیکشن آتے جاتے رہیں گے۔ وہ ملک کی خدمت کے مقصد سے اقدامات کرتے ہیں۔ لیکن اگر بہ نظر غائر ان کے اور ان کی پارٹی کے اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو ان کا ہر قدم انتخابی مفاد کو سامنے رکھ کر اٹھتا ہے۔ وزیر اعظم تو خاص طور پر ہمیشہ الیکشن ہی کے موڈ میں رہتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے جو اسکیمیں بنائی جاتی ہیں وہ بھی مختلف ریاستوں کی آبادیوں اور ووٹروں کے نفع نقصان کی
سچی باتیں ۔۔۔ آج کے انصار ومہاجر۔۔۔از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1928-04-20 ’’اہل عرب عمومًا اور اہل یثرت خصوصًا باہمی معرکہ آرائیوں کی بدولت حسد، دشمنی، بُغض، اور کینہ توزی کے اس درجہ عادی ہوگئے تھے، کہ غیر تو غیر، خود اپنوں پر بھی کسی کو اعتماد نہ ہوتاتھا…لیکن اسلام کی برکات، اور آنحضرت ﷺ کے فیض صحبت سے یہ حالت بہت جلد بدل گئی، اور وہ دن آگیا کہ انصارؔ باہمی بُغض وعداوت کو چھوڑ کر مہاجرینؔ اور اجنبی مسلمانوں کے ساتھ وہ کریں، جو دنیا خود اپنے بڑے سے بڑے عزیز کے ساتھ نہیں کرسکتی…مہاجرینؔ جس وقت مکہ سے مدینے آئے تو اُن کے پاس کچھ نہ تھا۔ انصارؔ نے اپنی جا
غلطی ہائے مضامین۔۔۔ ہماری چائے کافی ہے۔۔۔ تحریر: ابو نثر
یادش بخیر، یہ وہ زمانہ تھا جب روزنامہ ’جسارت‘ کراچی کا دفتر محمد بن قاسم روڈ پر ہوا کرتا تھا۔ یہ سڑک ایم اے جناح روڈ سے نکل کر شاہراہِ لیاقت اور ابراہیم اسمٰعیل چندریگر روڈ کو پار کرتی ہوئی قومی ریلوے لائن تک جاتی ہے۔ اسی سڑک کے اختتام پر ایور ریڈی چیمبرز کی عمارت ہے۔ اس عمارت کی دوسری اور تیسری منزل پر ’جسارت‘ کا دفتر واقع تھا۔ دوسری منزل پر انتظامی دفاتر تھے اور تیسری منزل پر ادارتی۔ اُس زمانے میں ’جسارت‘کی جرأت و بے باکی پاکستان بھر میں اپنی دھوم مچائے ہوئے تھی۔ پاکستان بھی تو اُس وقت کیماڑی
تبصرات ماجدی: میخانہ ریاض۔۔۔ ن۔م راشد۔۔۔ادبی تبصرے۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی:
تبصراتِ ماجدی (۴۰) از مولانا عبد الماجد دریابادی (40) میخانۂ ریاض از تسنیم مینائی دارالاشاعت اردو بازار، حیدرآباد ریاض خیرآبادی اس دور کے ایک خوش گو شاعر ہوئے ہیں۔ شاعر کے علاوہ انشا پرداز بھی۔ یہ ان کے حالات اور کلام پر ایک دلچسپ تبصرہ ان کے استاد زادہ یعنی امیر مینائی کے پوتے تسنیم مینائی کے قلم سے ہے۔ اصل کتاب 65 صفحوں پر ختم ہوگئی ہے، باقی حصہ انتخاب کلام کے لیے وقف ہے، کسی تبصرہ و تشریح کے بغیر۔ تسنیم اچھے لکھنے والے ہیں، ان کے بعض مضامین ان کی ادبیت و حسن انشاء کے شاہد عادل ہیں۔ ریاض
غلطی ہائے مضامین۔۔۔ ناں نہ کی جاوے ہے۔۔۔ تحریر: ابو نثر
پڑھنے کا رواج کم ہوگیا ہے۔ لکھنے کا رواج ہے کہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ لکھنے والے اگر پڑھتے بھی ہیں تو شاید توجہ سے نہیں پڑھتے۔ یہی وجہ ہے کہ لکھتے وقت بھی اپنے لکھے پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ بالخصوص املا کی اغلاط اسی وجہ سے سرزد ہوتی ہیں۔ اگر پڑھے ہوئے الفاظ کا املا توجہ سے دیکھا ہوتا تو لکھتے وقت بھی پوری توجہ سے درست املا لکھتے۔ معمولی سی توجہ سے معمولی معمولی غلطیاں دور کی جاسکتی ہیں۔ ان غلطیوں سے بچنے کی کوشش کی جائے تو تحریر کا سقم دور ہوجاتا ہے اور عبارت دل کش معلوم ہونے لگتی ہے۔
24 آیتیں ۔۔۔۔از: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے، یہ انسانیت کے لیے ابدی پیغام اور زندہ دستور العمل ہے، یہ بیک وقت دماغ کو بھی مطمئن کرتی ہے اور بربط دل کو بھی چھیڑتی ہے، یہ ایک انقلاب انگیز کتاب ہے، جیسے سورج کی تمازت میں کبھی کمی نہیں آسکتی اور سمندرکی وسعتوں کو کم نہیں کیا جا سکتا ، اسی طرح اس کتاب کی اثر انگیزی ، اس کی تاثیر ، دلوں کو زیر و زبر کردینے کی صلاحیت اور فکر و نظر پر چھا جانے کی طاقت میں کبھی کوئی کمی نہیں ہوسکتی، یہ رواں دواں زندگی میں انسان کی رہنمائی کی پوری صلاحیت رکھتی ہے، اس لئے اس کی آب
سچی باتیں۔۔۔ شیطان شیطان ہے۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1928-04-13 اُسے اقرار اغوا ہے یہ اغوا کو چھپاتے ہیں علیہ الطعن ہے شیطان، لیکن اِن سے اچھا ہے بہت مبہم تمہارا مصرعۂ ثانی ہے اے اکبرؔ اشارہ ہے کدھر؟ شیطان آخر کن سے اچھاہے؟ کیا آپ کے نزدیک بھی پہلے شعر کا مصرعۂ ثانی مبہم ہے؟ کیاآپ کو بھی اس کے اشارۂ قریب کے متعین کرنے میں کچھ دشواری پیش آرہی ہے؟ کیاآپ کی سمجھ میں ا ب تک نہیں آیا، کہ زہر کا نام تریاق رکھ کر، جنون کو عقل کا لقب دے کر، جھوٹ کو سچ کی صورت بناکر کون آپ کے سامنے، دنیا کے سامنے، اور خود اپنے سامنے پیش کررہاہے؟ کلوں کی کثر
’وہ مجھ کو تنہا کر گیا‘۔۔!مظہر محی الدین:متاعِ نطق کو ترجمانِ حق بنانے والا شاعر ۔۔۔۔ از: برماور سید احمد سالک ندوی بھٹکلی
نحیف و لاغر جسم، پچکے ہوئے گال، موٹی سی ناک پر ڈٹے ہوئے پرانے چشمے سے نئی چیزیں دیکھنے والی آنکھیں، سادہ لباس زیب تن کیے ہوئے بغل میں جھولا دبائے ایک عمر رسیدہ شخص کو دور سے دیکھ کر پہچان لیا جاسکتا تھا کہ یہ مظہر محی الدین صاحب ہوں گے۔ ادب، خالص ادب اور اسلامی رنگ میں رنگا ہوا ادب ان کے نزدیک متاع جاں کی حیثیت رکھتا تھا۔ وہ قرآن مجید کی تفاسیر کا مطالعہ کرتے تو اس میں قرآن کی بلاغت اور ادبی اعجاز کے نکتے تلاش کرتے۔ کوئی چیز انہیں مل جاتی تو اسے محفوظ کرتے۔ اپنی شاعری میں اس کا خوبصورتی سے
سچی باتیں۔۔۔ بدگمانی۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
11928-04-06 وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (نور۔۴) جو لوگ پاک دامن عورتوں پر عیب لگاتے ہیں، اور پھر چار گواہ اس پر نہ لاسکے، تو مارواُن کے اسی کوڑے، اور کبھی ان کی گواہی نہ قبول کرو، اور وہی لوگ نافرمان ہیں۔ إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُمْ مَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِنْ
غلطی ہائے مضامین ۔ سماجی فاصلہ یا جسمانی فاصلہ؟۔ ۔۔ ابو نثر
آج کل دنیا بھر میں آج کی دنیا بھر میں سوشل ڈسٹنسنگ کی اصطلاح کا بڑا چرچا ہے۔. جب سے کورونائی وبا کی تیسری لہر آئی ہے، یہ اصطلاح کچھ زیادہ ہی لہرا رہی ہے۔ اردو میں اس کا ترجمہ ’سماجی فاصلہ‘ کیا گیا ہے۔ لفظی ترجمہ تو ٹھیک ہی ہے، مگرشاید اس کا درست ترجمہ ’تفاصُل‘ ہونا چاہیے تھا۔ شاید اس لیے نہیں ہوا کہ اگر لوگوں سے کہہ دیا جاتا کہ ’سماجی تفاصُل‘ اختیارکیجیے، تو لوگ بدک جاتے ۔’’کورونا کی وبا ہی کیا کم تھی کہ یہ ایک نئی بلا بھی آگئی… سماجی تفاصُل‘‘۔ اہل ِ خبر بھی اِدھر اُدھر بھاگتے پھرتے کہ ’
یوگی حکومت میں کرپشن کا بول بالا... سہیل انجم
جب 2014 کا پارلیمانی الیکشن ہونے والا تھا تو بی جے پی برسراقتدار آنے کے لیے بری طرح بے چین تھی۔ مرکز میں کانگریس کی قیادت میں حکومت چل رہی تھی۔ کانگریس کو مسلسل دو پارلیمانی انتخابات میں کامیابی ملی تھی۔ دونوں مدتوں میں ڈاکٹر من موہن سنگھ وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہے۔ کانگریس کی اس شاندار کامیابی کا کریڈٹ کانگریس صدر اور یو پی اے کی چیئرپرسن سونیا گاندھی کو گیا تھا۔ کیونکہ انھوں نے انتھک محنت کرکے پارٹی کو کامیابی دلائی تھی۔ وہ ایک مخلوط حکومت تھی۔ اس میں کانگریس کے علاوہ دیگر پارٹیاں
تبصرات ماجدی۔۔ ۱۲۲۔ لہو ترنگ۔۔۔۱۲۳۔ نقش امرورز۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
*(122) لہو ترنگ* از سکندر علی وجد عبد الحق اکیڈمی، حیدر آباد (دکن)۔ وجد صاحب حیدر آبادی جامعہ عثمانیہ کے بہترین فرزندوں میں سے ہیں اور خود تو پرانے نہیں لیکن ان کی شاعری کی عمر خاصی پرانی ہوچکی ہے، کلام ان کا عرصہ سے دیکھنے میں آرہا ہے ------ شاعری کی فطرت لے کر آئے ہیں، وجد خود ہیں تو کلام وجد آفریں۔ ‘‘لہو ترنگ’’ کا لفظ اقبال کے ایک شعر سے لیا گیا ہے اور خود اقبال کا رنگ ہے کہ کتاب کے صفحے صفحے سے پھوٹا نکلتا ہے ------ کتاب کلیات وجد ہے یعنی ان کی غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ہے، نظمیں صفحہ 12
سچی باتیں۔۔۔زیردستوں کے ساتھ ہمارا رویہ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
1928-03-30 اعلیٰ حضرت جب ’’اقصر‘‘ میں مصری فراعنہ کے مقبروں کا معائنہ کررہے تھے توآپ کے جوتے پر گرد بہت جم گئی تھی۔ ایک مصری خادم بُرش لے کر حاضر ہوا، کہ جوتا صاف کردے۔ مگر بادشاہ نے اُسے منع کردیا اورکہا ’’استغفر اللہ یہ ناممکن ہے!‘‘ مسجد محمد علی پاشا میں جب داخل ہونے لگے تو مسجد کا ایک دربان چرمی موزے لے کر آگے بڑھا، تاکہ بادشاہ کے جوتوں پر چڑھادے، مگر بادشا ہ نے خادم کا ہاتھ پکڑلیا۔ موزے خود اپنے ہاتھ سے پہنے اور کہا’’میں کسی انسان کے لئے بھی گوارا نہیں کرسکتا کہ میرا جوتا چھوئے۔ مجھے اپ
غلطی ہائے مضامیں۔ گُل افشانیِ گُفتار۔۔۔ از: ابو نثر
کل ہم ایک گھر میں مہمان گئے۔ خاتونِ خانہ نے خوش ہوکر اپنے بچے سے ملوایا۔ ملتے ہوئے عادتاً منہ سے نکل گیا:۔ ’’السلامُ علیکم۔ کہیے جناب! مزاجِ گرامی بخیر؟‘‘ خاتون ہنس پڑیں۔ کہنے لگیں: ’’آپ بہت ثقیل اردو بولتے ہیں‘‘۔ عرض کیا: ’’آپ بھی تو کچھ کم نہیں۔ ’ثقیل‘ کون سا ہلکا لفظ ہے‘‘۔ فرمایا: ’’ثقیل توآسان لفظ ہے۔ سلیس کی ضد ہے نا؟ مشکل کو کہتے ہیں نا؟‘‘ سوال سُن کر ہم خود مشکل میں پڑ گئے۔ ہر جگہ تو کالم نگاری یا ’کالم گوئی‘ کرنے سے رہے۔ ’’جی ہاں‘‘ کہہ کر جان چھڑائی۔ بہت سے الفاظ ہیں، جن کے استع
تبصرات ماجدی۔۔ کیفیہ۔۔۔ ذکر جمیل۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
(120) کیفیہ از: پنڈت برج موہن ناتھ کیفی انجمن ترقی اردو، دہلی۔ کیفی صاحب دہلوی اردو کے کہنہ مشق لکھنے والے اور استادانہ معلومات رکھنے والے اہل قلم ہیں۔ یہ مجموعہ ان کی ایک عمر کی ادبی، انشائی اور نحوی تحقیق کا گویا نچوڑ ہے اور کتاب کی حیثیت ایک لسانی کشکول کی سی ہے، جس میں صرف، نحو، عروض، قافیہ، معانی، بیان، املا اور تاریخ اردو سے متعلق سیکڑوں مسائل کا بیان آگیا ہے۔ کتاب متفرق معلومات کے لحاظ سے اچھی ہے اور تاریخ اردو سے متعلق سیکڑوں مسائل کا بیان آگیا ہے، اردو کے ہر طالب علم کے مطالعہ
بات سے بات: امام غزالیؒ اور مولانا گیلانی کی رائے۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری
مولانا عزیر فلاحی صاحب نے مولانا مناظر احسن گیلانی رحمۃ اللہ کی یہ رائے پیش کی ہے کہ ((امام غزالیؒ کے بعد ہونے والے تمام دینی انقلابات کے پیچھے غزالیؒ ہی کا ہاتھ ہے))، جہاں تک اس سلسلے میں ناقدانہ رائے کا تعلق ہے تو ہمارے اکابر ہی کچھ بتائیں گے، لیکن امام غزالیؒ کے تعلق سے چند باتیں ہمارے ذہن میں بھی پھدکنے لگیں، تو انہیں پیش کرنا ہم نے مناسب سمجھا، واضح رہے کہ امام غزالیؒ جن علوم وفنون کے امام تھے، ا ن میداںوں میں اس ناچیز کو کوئی مہارت حاصل نہیں ان ٹوٹی پھوٹی چند سطور کا مقصد صرف ایک تحر
ایک قیمتی تاریخی دستاویز۔۔۔ ماہنامہ البلاغ بمبئی کا تعلیمی نمبر ۱۹۵۵۔۔ عبد المتین منیری
تقسیم ہند کا طوفان گزرنے کے فورا بعد جمعیت علمائے ہند نے مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی قیادت میں ہندوستان میں دینی تعلیمی اداروں کی نشات ثانیہ کے لئے ۱۹۵۵ء میں دہلی اور ممبئی میں دو دینی تعلیمی کانفرنسیں منعقد کی تھیں،ممبئی کانفرنس کے کنوینرجناب الحاج احمد غریب سیٹھ مرحوم تھے، اور ان کے خصوصی معاون جناب الحاج محی الین منیری مرحوم۔ اس مناسبت سے انجمن خدام النبی ممبئی کے ترجمان ماہنامہ البلاغ کا ایک خصوصی نمبر نکلا تھا، یہ نمبر ایک تاریخی دستاویز ہے، کیونکہ اس وقت کے تقریبا جملہ دینی تع
