Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















بات سے بات: شیخ احمد دیدات۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری
مولانا بدر الحسن قاسمی صاحب نے اپنی یاداشتوں کی قسط نمبر ۱۳ میں مناظرہ کے موضوع پر خوب اظہار خیال کیا ہے۔ اس سلسلے میں آپ نے جن شخصیات کا تذکرہ کیا ہے، ان میں سے ہمیں شیخ احمد دیدات سے ملنے کا شرف نصیب ہوا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ وہ دینی و دعوتی شخصیات جو اپنے ملکوں یا ایک مخصوص حلقہ تک محدود تھیں، وہ دبی اور امارات سے عالمی افق پر مشہور ہوتے تھے، دبی کی حیثیت ہی کچھ ایسی ہے کہ یہ دنیا کا جنکشن بن گیا ہے۔ ایسی کئی ایک شخصیات جنہیں بعد میں عالمی شہرت ملی، ان کی ابتدائی آمد کے
تجربات ومشاھدات (13)۔۔۔ بدر الحسن القاسمی
دین کی طرف سے دفاع میں مکالمہ کا اثر ******* ناموس رسالت کی حفاظت کیلئے فدا کاروں کے بڑے البیلے انداز رہے ہیں ،۔ كانفرنس كا عنوان:۔ "حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دفاع میں مکالمہ کا رول " دعوت نامہ: محمدبن سعود یونیور سیٹی کی طرف سے ۔ جگہ : جامعة الامام رياض کا وسیع کانفرنس ہال ۔ منتظم : مركز الملك عبداللہ للحوار الحضاري۔ شرکاء: دنیا کے منتخب علماء دانشور اوریورپ کا وہ شخص بھی جس نے گستاخی کے بعد ہدایت کی راہ پائی اور حلقہ بگوش اسلام ہو گیا اور اسطرح :۔ رسیدی ازرہ ا
بات سے بات: جامعات میں فقہ کی تعلیم۔۔۔ از: عبد المتین منیری
مولانا بدر الحسن صاحب کا قلم سیل رواں کی طرح جاری ہوچکا ہے، وہ برجستہ اور قلم برداشتہ لکھتے ہیں،خدا کرے وہ بولتے رہیں، اور ہم سنتے رہیں، ان میں انقطاع نہ آنے پائے، مولانا نے آج کی قسط میں افتاء پر جو باتیں لکھی ہیں وہ قابل توجہ ہیں، مولانا نے خاص طور پر عالم عرب کی جامعات میں فتوے کی جو صورت حال بیان کی ہے، اور اسکے جن منفی پہلوؤں پر توجہ دلائی ہے ، ان میں سچائی ہے، لیکن جہاں تک حکومتوں کے ماتحت افتاء کے ادارے ہیں، ان میں سے بہتوں کا معیار اب بھی بلند ہے، مثال کے طور پر دبی،
تجربات و مشاھدات (12)۔۔۔ مولانا بدر الحسن القاسمی
اجتھاد وتجدید :۔ **** جامعہ الاما م محمد بن سعود ریاض میں میری پہلی حاضری 1979ء میں ہوئی تھی جب میں دار العلوم دیوبند میں مدرس اور الداعی کا اڈیٹر تھا اور میں نے پہلی اسلامی جغرفیائی عالمی کانفرنس میں "قضیة فلسطين وابعادها السياسية والجغرافية " كے عنوان سے مقالہ پیش کیا تھا اور لیبیا کے ڈاکٹر فوزی الاسدی کے اس دعوے کی تردید بھی کی تھی کہ فلسطین کا مسئلہ دینی نہیں اقتصادی ہے، اور پہلی بار خصوصی انتظام اور شرکائے کانفرنس کی معیت میں مکہ مدینہ کی حاضری اور عمرہ اور روضہ رسول اللہ
مولانا سید علیم الحق عمری بھی ہم سے جدا ہوگئے۔۔۔ از: عبد المتین منیری
ابھی ابھی ۲۷ رمضان المبارک افطار کے وقت مولانا محمد رفیع کلوری مدیر ماہنامہ راہ اعتدال عمرآباد نے اطلاع دی ہے کہ مولانا علیم الحق عمری نے بھی اس دار فانی کوچ کیا، غم کس کس کا کیا جائے؟ کس کس کے لئے عظیم سانحہ، شدید صدمہ وغیرہ الفاظ استعمال کئے جائیں، جانے والوں کی قطار اتنی دراز ہوتی جارہی ہے کہ صدموں کے بیان کے لئے لغت میں الفاظ کا ذخیرہ ختم ہوگیا ہے، دل ہے کہ ان حادثات کے زخم جھلینے پر مجبور ہے، جس کے بھی اس دنیا سے اٹھ جانے کی خبر آتی ہے، وہ جان ملت کے لئے بڑی قیمتی ہوتی ہے، مدرسے جنہ
رئیس الشاکری:اب نہ پائے گا زمانہ کبھی ان کی تمثیل (۳)۔۔۔ محمد اویس سنبھلی
اردو غزل کے گیسو سنوارنے اور نعتیہ شاعری میں اپنا ایک خاص مقام بنا لینے کے بعد رئیس الشاکری صاحب نے رباعی کی ِصنف میں خصوصی محنت کی اور ان کی محنت کا اندازہ ’’القاء‘‘ کے مطالعہ سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔فنی لحاظ سے رباعی بہت ہی مشکل فن ہے اس فن سے عہدہ برا ہونے کے لیے فنی بصیرت و نظر کی وسعت کے ساتھ ساتھ کافی مشقِ سخن اور پختگی عمر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس صنف میں کامیابی اس وقت حاصل ہوتی ہے جب شاعر معمر ہوجاتا ہے۔ جوش نے کہا تھا: ’’رباعی ایسی کمبخت ِصنف ہے جو سارا جوبن کھالے تو ایک بالک پالے کی طرح
رئیس الشاکری:اب نہ پائے گا زمانہ کبھی ان کی تمثیل (۲)۔۔۔ محمد اویس سنبھلی
رئیس الشاکری کی غزل کا پیرایۂ اظہار سادہ اور راست ہوتے ہوئے بھی شعری حسن اور تاثیر کا حال ہے۔ ان کے لسانی اور تہذیبی پس منظر نے انھیں لفظوں کے انتخاب و استعمال کا سلیقہ اور کلاسیکی روایات سے آگاہی ودیعت کی ہے اور یہ دونوں ہی خصوصیات آج کے دور میں کمیاب ہوتی جارہی ہیں‘‘۔ رئیس الشاکری کی غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:۔ لذت غم ہے کہ لفظوں میں سماتی ہی نہیں بے سخن جھوم اٹھے عشق کے آزار سے ہم دل کو چھو رہی ہے بے گناہی لہو چپ ہے تو خنجر بولتا ہے سب ہراساں دکھائی دیتے ہیں جیسے بستی میں کوئی
رئیس الشاکری:اب نہ پائے گا زمانہ کبھی ان کی تمثیل (۱)۔۔۔ محمد اویس سنبھلی
گذشتہ ایک ماہ علم و ادب کی دنیا پر قہر بن کر ٹوٹاہے۔۔۔اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ روز کسی اپنے کی جدائی کا صدمہ غم میں مزید اضافہ کردیتا ہے۔مشرف عالم ذوقی، تبسم فاطمہ، شاہد علی خاں،وجاہت فاروقی،انجم عثمانی، مناظر عاشق ہرگانوی ، پروفیسر مولا بخش، رخسانہ نکہت لاری، احسن اعظمی، رضا حیدر، فرقان سنبھلی ، مہتاب حیدر صفی پوری،شوکت حیات ، پروفیسر منظر عباس نقوی جیسی ادبی شخصیات گذشتہ چند دنوں میں دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ مولانا ولی رحمانی، مولانا نورعالم خلیل امینی اور مولانا عبدالمومن ندوی جیسے دین اسلام کے
تجربات و مشاھدات (11)۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر بدر الحسن القاسمی
ھیولی برق خرمن کا ******* طالب علمی کا زمانہ اپنی تعمیر کا ہوتا ہے کسی تعلیم گاہ کا رخ آدمی کرتا تو اسی لئے ہے کہ اپنے دامن کو موتیوں سے بھر لے، مختلف علوم وفنون میں مہارت حاصل کر لے لیکن داخلی اور خارجی عوامل اثر انداز ہوتے ہیں اور آدمی بسا اوقات وہ نہیں بن پاتا جو وہ بننا چاہتا ہے ،کبھی طلب کی کمی ہوتی ہے،کبھی ذہانت قوت حفظ اور جسمانی صحت ساتھ نہیں دیتی ،کبھی مؤثر یعنی استاذ اچھے نہیں ملتے،اور کبھی بیرون ادارہ کے لوگوں کے مفاد میں یہ ہوتا کہ اندر اضطراب کا ماحو
غلطی ہائے مضامین۔۔۔ تیسرے مصرعے میں ″ور″ کیا ہے۔۔۔ تحریر: ابو نثر
تیسرے مصرعے میں’وَر‘ کیا ہے؟ آسام (بھارت) سے محترم محمد محسن صاحب نے علامہ اقبالؔ کی اُس مشہور رباعی کے متعلق ایک سوال اُٹھایا ہے جو علامہ نے اپنے ایک مدّاح محمد رمضان عطائی کو عطا فرمادی تھی۔ اسی وجہ سے یہ رباعی علامہ کے کسی مجموعہ کلام میں نہیں ملتی۔ محسن صاحب رقم طراز ہیں:۔ ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے، اگر مناسب سمجھیں تو وقت نکالیں اور اہلِ ادب کے لیے سوغات پیش کریں۔ علامہ اقبالؔ کی اس رُباعی میں:۔ تو غنی از ہر دو عالم من فقیر روزِ محشر عُذر ہائے من پزیر ور
سچی باتیں۔۔۔ عید کا دن۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1957-05-10 آج یوم عید ہے۔ کتنی تفریح کا دن ہے۔ مہینہ بھر کے مسلسل روزے، اور وہ بھی بیساکھ کے گرم وخشک مہینے کے۔ کوئی بہت ہلکی اور معمولی سی بات نہیں ۔ صبروبرداشت کا اچھا خاصہ امتحان ہوجاتاہے۔ کل تک جسم پر جو خستگی اور کاہلی، کمزوری اور کام چوری سی طاری تھی، آج وہ کافور ہے اور طبیعت ہر طرح چاق وشگفتہ ہے۔ کام کرنے پر پوری طرح مستعد ۔ رمضان کی فضیلتیں اور روزہ کی برکتیں سب اپنی جگہ مسلم یہاں ذکر ان کا نہیں، صرف جسمانی تعب وخستگی کا ہے۔ اب آج کوئی فکر نہیں ۔ عید الفطر کے ورود سے وہ ساری پابندیاں
محمد زبیر چمپا، ایک مخلص استاد۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل
ایک ایسے قصبے میں جہاں ذرائع معاش بہت ہی محدود رہے ہوں،اور جہاں کے باشندے تلاش معاش میں اپنا گھر بارچھوڑنے پر مجبوررہے ہوں، اورانہیں سال دو سال کے بعد ہی اپنے اہل وعیال سے ملنے اور کچھ عرصہ ساتھ گزارنے کے بعد پھرعلی الصبح روزی کی تلاش میں اڑنے والے پنچھی کی طرح اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑتا ہو، اقتصادی حالات ایسے ہوں کہ چند گھرانے ہی تجارت پیشہ ہوں، دس بیس فیصد لوگ قصبوں قصبوں، شہروں شہروں پھر کر کپڑوں اور ضروریات زندگی کے سامان کی پھیری لگا کر خوشحال زندگی کی تلاش میں سرگرداں رہے ہوں، اور بقیہ وطن
تجربات ومشاھدات (10)۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر بدر الحسن القاسمی۔ الکویت
زیارت کی سعادت ***** رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنا بڑی سعادت کی بات ہے۔ وایں سعادت بزور بازو نیست حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت سنت کی اتباع اور درود کی کثرت سے اس کی امید ہوتی ہے، حضورکی محبت ایمان کی علامت ہی نہیں اس کے لئے شرط ہے :لا يؤمن احد کم مؤمنا حتي اکون احب الیه من نفسه و من ولده ووالده والناس اجمعين۔ جس سے پکی محبت ہو تو دل میں خیال ہوتاہےتو اس کا، زبان پر ذکر ہوتا ہے تو اس کا، اور سوتے جاگتے دھیان ہوتا ہے تو اس کی طرف، اور خواب میں زیارت ہوت
تجربات و مشاھدات (9)۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر بدر الحسن القاسمی۔ الکویت
عزیمت کے کرشمے :۔ مولانا ظفر احمد عثمانی ایک عالم اور علامہ ہی نہیں، بلکہ مکمل" دائرہ علم" تھے انکی تعلیم کی تکمیل حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی نگرانی اور مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ، مولانا اسحاق بردوانیؒ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ وغیرہ جیسے اساتذہ سے ہوئی۔ نحو میر پڑھانے والے استاد ایسے تھے کہ پڑھنے والے میں شعر گوئی کی صلاحیت پیدا ہونے لگتی تھی ۔انکے علمی کارناموں میں اعلاء السنن ،احکام القرآن ، اور امداد الا حکام ہی انکی عبقریت، فقہ و حدیث کی جامعیت اور غیر معمولی محنت کی د
بات سے بات: جناب عبد الباقی بن مولانا عبد الباری معدنی ؒ کی رحلت۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری
اب تو واٹس اپ کھولتے ہوئے ڈر سا لگتا ہے، کہیں اپنے کسی چہیتے کی اس دنیا سے داغ جدائی کی خبر نہ آجائے، آخر خوف کیوں نہ لگے ، کئی دنوں سے ایک قطارلگی ہوئی ہے ، دائمی سفر پر جانے والے دوست واحباب کی ، احبہ واعزہ کی، اس موقعہ پر خادم الحجاج جناب محی الدین منیری مرحوم کی زبانی وہ جملہ یاد آتا ہے جب ۱۹۵۱ ء کے حج کے دوران میدان عرفہ میں لو کے جھکڑ چل رہے تھے، اور صحت مند لوگ بھی چلتے چلتے بیٹھ جاتے ، اور پھر وہ جنت المعلاء کی آخری آرام گاہ میں ہمیشہ کے لئے سوجاتے، اس
تجربات و مشاھدات (8)۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر بدر الحسن القاسمی ۔ الکویت
نصیحت :۔ دیوبند میں اپنے برزخی عھد میں ایک دن خیال ہواکہ حضرت مولانا مسیح اللہ خاں صاحب کی زیارت کی جائے,حضرت تھانوی رح کے خلفاء میں ان کا ایک خاص اور امتیازی مقام تھا، چنانچہ عمران ذاکر کے ساتھ ہم جلال آباد پہنچے ، نماز کے بعد مسجد سے حضرت کے پیچھے چلنے لگے تھوڑی دور چلنے کے بعد اچانک رکے پھر ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ:۔ دل میں خشیت ہو تو انسان کے قدم غلط نہیں ااٹھتے پھر چلنے لگے ہم تو یہی سننے کیلئے گئے ہی تھے کچھ دور چلنے کے بعد پھر رکے اورمیری طرف متوجہ ہوکر فرمایا :۔ بیان ا
مولانا نور عالم امینی۔ ایک روشن چراغ جو بجھ گیا۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل
آخر وہی ہوا جس کا دھڑکا چند روز سے لگا رہتا تھا، آج ۲۱ رمضان المبارک علی الصبح خبر آئی کہ موت وزیست کی کشمکش میں آخر زندگی ہار گئی، نبض کی سانسیں ٹوٹ گئیں اور مولانا نور عالم امینی صاحب اپنے خالق حقییقی سے جاملے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا کا دارالعلوم دیوبند کے عربی ترجمان الداعی کے مدیر، عربی کے ایہ مایہ ناز اور مقبول استاد کے حیثیت سے بڑا نام تھا، ایک ایسے وقت جبکہ ملت کے لئے اہم اور ضروری اہل قلم اور شخصیات بڑی تیزی سے رخصت ہورہے ہیں، اور کورونا کا قہر نہ عامی نہ خواص اپنے جکڑ م
تجربات ومشاھدات (7)۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر بدر الحسن قاسمی۔ الکویت
صد سالہ اجلاس کے عرب مہمان اجلاس صدسالہ کے شرکاء میں عربوں کی نمائندگی بھر پور تھی سعودی عرب سے بادشاہ کے نمائندہ کی حیثیت سے ڈاکٹر عبد اللہ الترکی اپنے اعضائے وفد کے ساتھ، رابطہ عالم اسلامی کاوفد امین عام مساعد شیخ علی مختار کی قیادت میں، دار الافتاء ریاض کا وفد شیخ محمد بن قعود کی قیادت میں ، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کےنائب رئیس الجامعہ ڈاکٹر عبد اللہ الزاید اور کئی اخباروں کے نمائندے اور مذھبی کالم نویس شیخ ابراھیم سرسیق وغیرہ کویت کے وفد میں وزیر اوقاف شیخ یوسف جاسم الحجی مدیر شئون ا