Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















سفر حجاز۔۔۔(05)۔۔۔ سمندر ۔۔۔ کامران۔۔۔ تحریر:مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
باب (۵)۔ سمندر۔۔۔۔ کامران 29مارچ ساحل بمبئی سے جہاز 11 بجے شب کو چھوٹا تھا۔رات تو خیر جوں توں کٹ گئی، صبح اٹھ کر دیکھا تو ہر طرف عالم آب، جہاں تک بھی نظر کام کرتی ہے بجز پانی کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا، اپنی عمر میں یہ منظر کبھی کاہے کو دیکھا تھا۔ بڑے سے بڑے دریا جو ابتک دیکھے تھے، وہ بھلا سمندر کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتے ہیں، صبح سے دوپہر، اور دوپہر سے شام اور شام سے پھر صبح، نہ کہیں جہاز رکتا ہے، نہ کوئی اسٹیشن آتا ہے، ہر وقت ایک ہی فضا محیط، ہر سمت ایک ہی منظر قائم! دن طلوع ہوت
بات سے بات: کچھ جوش کے بارے میں۔۔۔ عبد المتین منیری
جوش ملیح آبادی، خمار بارہ بنکوی، اور ماہر القادری ان معدودے چند شعراء میں تھے جنہوں نے مادی منفعت کے لئے اپنے معیار سے سمجھوتہ نہیں کیا، یہ تینوں فلمی گیت لکھنے کی دنیا میں قدم رکھا تھا، اور چند ایک فلموں کے گانے لکھنے بعد ہی اس سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی،حالانکہ ان کے گیتوں کو اپنے وقت میں بڑی مقبولیت ملی تھی، آخر الذکر کو تو اس مرحلے پر آخر عمر تک پشیمانی رہی، کہ کاش یہ مرحلہ ان کی زندگی میں نہ آتا۔ جوش اور احسان دانش تحت اللفظ پڑھنے والوں میں تھے، اور خمار اور ماہر نے اپنے ترنم کا لو
سفرِ حجاز(03)۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
باب (۳) جہاز جہاز کی روانگی کی تاریخ خدا معلوم کتنی بار بدلی، ہماری اطلاعیں براہ راست کمپنی کے دفتر سے حاصل شدہ ہوتی تھیں۔ ٹرنرماریسن کے دفتر میں ایک صاحب قاری محمد بشیر اعظم گڑھی بڑی کام کے اور مستعد آدمی ہیں، وہ بیچارے ہمارے ہر کام کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے، اس پر بھی ہر اطلاع غلط ہی ثابت ہوتی اور روانگی برابر ٹلتی رہی، اس میں خاصا قصور ہم لوگوں کا بھی تھا، جو اپنی ناواقفیت اور ناتجربہ کاری سے حاجیوں کے جہاز کو ریل پر قیاس کی ہوئے تھے، ان جہازوں کے چھوٹنے میں بہت سے ایسے موثرات کام ک
سفر حجاز۔۔۔(04)۔۔۔جہاز ۔۔۔سمندر۔۔۔از: مولانا عبد الماجد دریابادی
سفر حجاز ۔۔(02)۔۔۔ بمبئی ۔۔۔ جہاز۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
باب (۰۲) بمبئی۔۔۔ جہاز سفر کا ایک اہم جزو، رفقائے سفر ہوتے ہیں، سفرِ حج میں یہ اہم جزو بہت زائد اہم ہوجاتا ہے اور جی چاہتا ہے کہ اس سفر نامہ کا پڑھنے والا اس اہمیت کو خاص طور پر ذہن نشین کرلے، اپنا جس وقت سے سفر حج کا ارادہ ہوا تھا، اسی وقت سے شریکِ زندگی بھی آمادہ سفر تھیں، اور آمادگی محض زبان تک محدود نہ تھی، بلکہ اپنا زیور علیحدہ کرکے روپیہ کا بھی انتظام کرلیا تھا، خوشد امن صاحبہ (والدہ خان بہادر شیخ مسعود الزماں بیرسٹر باندہ جو بعد کو ماشاءاللہ خود بھی حاجی ہوگئے، اور اس وقت صوبہ کونسل ک
غلطی ہائے مضامین۔۔۔ اصل جہول، وجاہل و مجہول ایک ہے۔۔۔ تحریر: ابو نثر
ہر شخص اپنی دانست میں دانا ہوتا ہے۔ ہونا ہی چاہیے۔ وگرنہ کیسے کٹے زندگی کہاں گزرے؟ جمیل ؔمظہری فرما گئے ہیں:۔ بقدرِ پیمانۂ تخیل سُرور ہر دل میں ہے خودی کا اگر نہ ہو یہ فریبِ پیہم تو دَم نکل جائے آدمی کا مگر احتیاط لازم ہے۔اتنا فریب بھی نہ کھائے کہ دُم نکل آئے آدمی کی۔ خود کو دانا سمجھنے کے باوجود ہر مردِ دانا سے کبھی نہ کبھی کوئی نہ کوئی نادانی ایسی ضرور سرزد ہوجاتی ہے کہ خودی کا سارا سُرور غارت ہوکر خمار میں بدل جاتا ہے (پینے والوں کو تو پتا ہی ہوگا کہ سُرور چڑھتے نشے کو کہتے ہیں اور خما
سفر حجاز ۔۔۔(01)۔۔۔ باب اول ۔ روانگی۔۔۔ بمبئی۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
۔(۰۱)۔۔۔ باب اول ۔ روانگی۔۔۔ بمبئی۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ عید ہرسال آتی ہے۔ اب کی عید ہر سال کی معمولی عید نہ تھی، کسی کے آستانے پر ذوقِ جبیں سائی دل کو بتیاب کیے ہوئے تھا۔ کسی کے دربار میں حاضری کا دن ایک ایک کر کے گنا جا رہا تھا۔ رمضان ختم ہوا عید آئی، انتظار کی گھڑیاں کٹیں، وعدۂ دیدار پورا ہونے کی ساعت آئی، مہجوری کے بعد حضوری، انتظار کے بعد دیدار، پیاس کے بعد سیرابی، جس کار فرمائے فطرت نے ازل سے یہ قانون رکھ دیا ہے۔ اسی نے ماہ مبارک کا خاتمہ موسم حج کے آغاز پر رکھا ہے۔
سچی باتیں۔۔۔ نئی ایجادات کے فائدے۔۔۔ تحریر: مولا نا عبد الماجد دریابادیؒ
1941-11-03 ’’سائنس کے فضائل سنتے ایک عمر گزر گئی۔دُنیا کی ترقیاں سائنس سے وابستہ ہیں‘‘۔سائنس ہی نے ہمارے دماغوں کو منوّر، ہماری عقلوں کا روشن کردیاہے‘‘۔ قومیں سائنس ہی کے سہارے ترقی کرسکتی ہیں‘‘۔ کیسے کیسے عالی دماغوں نے اپنی زندگیاں سائنس کی خدمت کے لئے وقف کردیں‘‘۔ دنیا پر کیسے کیسے احسانات ہیں ، سائنٹفک ایجادات کے، اکتشافات کے، آلات کے‘‘!……فضائل سب درست، ارشادات سب بجاسہی، گزارش صر ف اتنی ہے، کہ ان ایجادات سے، آلات سے، نفع کن کن طبقوں کو پہونچا؟ لذت اندوز کون کون ہوئے یا ہورہے ہیں؟جو پست
سفر حجاز (ب)۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
سفرنامہ حجازاز مولانا عبد الماجد دریابادی قسط 02 غرض نیت قائم ہوچکی ہے۔حج کے مہینے تین ہیں۔شوال، ذیقعدہ، عشرہ اول ذی الحجہ (الحج اشھر معلومات) جس تاریخ کو ماہِ مبارک رمضان ختم ہوتا ہے۔ ٹھیک اسی تاریخ سے موسمِ حج کی ابتدا ہوجاتی ہے۔ انشاءاللہ تعالیٰ یکم شوال کو گھر سے نکلنا ہوگا اور ۳ شوال کو ۱۰ بجے شب کی اکسپریس سے لکھنؤ کے لیے روانگی اور ۵/ شوال کو بمبئی پہونچ کر مغل کمپنی کے پہلے جہاز سے عزمِ سفر، پہلے زیارتِ دیار حبیب ﷺ و حاضری روضہ انور جتنے دنوں تک بھی قسمت یاوری کرے پھر آغاز ذی الحجہ می
سفر حجاز۔۔۔(الف)۔۔۔ الوداع۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
الوادع لبیک اللہم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک یہ الوداع ہے، ماہِ رمضان کی سالانہ ’’الوداع‘‘ نہیں، ناظرینِ سچ سے ان کے خادم مدیر سچ کی الوادع ہے۔ حج بیت اللہ چند شرائط کے جمع ہو جانے پر ہر مسلمان پر اسی طرح فرض ہے جس طرح ہر روز پانچ وقت کی نماز، یہاں نماز ہی کا فریضہ کب خوش دلی اور اپنے شرائط کے ساتھ ادا ہو پاتا ہے جس میں نہ کچھ خرچ ہے اور نہ کوئی خاص محنت، جو فریضہ حج کے نہ ادا کرنے کا رونا رویا جائے! عمر کی گھڑیاں خاموشی اور تیزی کے ساتھ گزرتی رہیں، دن ہفتوں
غلطی ہائے مضامین۔۔۔ ذمے واری سے بچنے کے لئے ذمہ واری کی آڑ۔۔۔ تحریر: ابو نثر
اوسلو (ناروے) سے محمد شارق صدیقی صاحب نے سوال فرمایا ہے: ’’ذمہ دار اور ذمہ وار میں سے کون سا درست ہے؟ میرا خیال ہے کہ دونوں ہی درست ہیں کیوں کہ دونوں مستعمل ہیں‘‘۔ صاحب! ہمارا بھی یہی خیال ہے کہ آپ کا خیال درست ہے۔ شارق بھائی اپنے اور ہمارے برادرِ بزرگ محامد صدیقی صاحب کے برادرِ خورد ہیں۔ محامد صدیقی صاحب کوپن ہیگن (ڈنمارک) میں مقیم ہیں۔ مدتوں پہلے قارئین ’جسارت‘ جناب محامد صدیقی کے دلچسپ معلوماتی کالم ’’مکتوبِ ڈنمارک‘‘ سے مستفید ہوا کرتے تھے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ محامد بھائی یہ مفید سلسلہ دوبارہ
سچی باتیں۔۔۔ تجدید جاہلیت۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1941-10-20 ’’ہندوستان کی خاتون جدید نے احساس کرلیاہے، کہ حُسنِ خیال اور رعنائی قامت اُس کا نہ صرف سب سے قیمتی حربہ ہیں،بلکہ اس کا پیدائشی حق ہیں۔ سنسکرت کے عالموں نے عورت کو کنول سے تشبیہ دی ہے اور کہا ہے کہ عورت کا چہرہ چاند کی طرح روشن ہو، اس کا جسم پھول کی طرح نازک ہو، جلد نرم وملائم ہو سنہری کنول کی طرح اور آنکھیں بکری کی جیسی ہوں۔ چال بھینس کی طرح ہو۔ لباس شوخ رنگ کا ہو اور زیوروں سے لدی ہو۔ اس تخیل کو پیش نظر رکھ کر خاتونِ نَو نے ہندوستان کے بہترین مظہر حسن سے اپنی لو لگائی ہے، یعنی ناچ
بات سے بات: یہ بھی سوچنے کا مقام ہے۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری
کل ہم نے ریختہ ڈاٹ کام کے سلسلے میں جو پوسٹ کی تھی،اس کی تحریک یوں ہوئی تھی، کہ علم وکتاب گروپ پر ایک ممبرنے جب ریختہ سے کتابوں کے ڈون لوڈ کا طریقہ طلب کیا تو یہ ہمیں ناپسند لگا، ہم نے گروپ پر اسے پوسٹ نہ کرنے کی درخواست کی، اس پر جو تبصرے آئے، وہ ہماری سوچ کے عکاس نہیں تھے۔ایسے امور جو بلوائے عام کی صورت اختیار کرجاتے ہیں، ان کے جائز یا ناجائز، قانونی یا غیر قانونی ہونے کی بحثوں میں ہم شامل ہونے سے عموما احتراز کرتے ہیں، کیونکہ ان امور پر بحث کا نتیجہ کچھ نہیں نکلتا۔ بلاضرورت فروعی مسائل میں ا
بات سے بات: اردو دنیا ریختہ ڈاٹ کام کی احسان مند ہے۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری
اردو انٹرنٹ کی دنیا میں اس وقت ریختہ ڈاٹ کام ایک بہت بڑا نام ہے، اور اردو کے علمی وادبی ورثہ کی حفاظت کے لئے اس نے جو کام کیا ہے اس کی حدوں کو چھونا اس میدان میں کام کرنے والے بہتوں کے لئے ایک خواب ہی ہوسکتا ہے۔ اس کے مالک ہندوستان کے ایک غیر مسلم تاجر *سنجیو صراف* ہیں،جنہوں نے مطبوعہ اردو لٹریچر کو محفوظ کرنے اور آئندہ نسل تک پہنچانے کے اس پر کروڑوں روپئے لگادئے ہیے،اور چھپائی کے آغاز سے ابتک شائع شدہ اردو لٹریچر اور نایاب مجلات کو معیاری اسکیننگ کے ذریعہ نہ صرف ضائع اور گمنام
بات سے بات: فضائل اعمال کی بات۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری
آج گروپ پرایک ویڈیو پوسٹ ہوئی ہے، جس میں فضائل اعمال اور تبلیغی نصاب پر ایک عرب عالم دین نے تنقید کی ہے، جن صاحب نے اسے پوسٹ کیا ہے غالبا ان کے علم میں یہ بات پہلی مرتبہ آئی ہے، اگر ایسا ہے تو ہمارے علماء کو اتنا بھی نابلد نہیں ہونا چاہئے۔ اس جیسے منافرانہ خیالات کو روکنے کے لئے جیسی سنجیدہ کوششیں ہونی چاہئیں ، حقیقتا ابھی تک نہیں ہوئی ہیں۔ ہمارے علم کی حد تک بس ہمارے یہاں کے ایک عالم دین نے کوئی پندرہ سال قبل بڑی ہی سنجیدہ کوشش کی تھی، جو ایک حد تک کامیاب بھی رہی ، کیونکہ وہ اہل زبان
محمد میراں صدیق، ایک مخلص خادم قوم کی جدائی۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل
آج بھٹکل وخلیجی ممالک میں جہاں بھٹکلی احباب زیادہ تر بستے ہیں، عید الفطر کا مبارک دن تھا، ابھی سورج کے غروب کے بعد رات کی تاریکی اپنا سیاہ چادر تان رہی تھی کہ منگلور سے خبر آئی کہ جناب محمد میراں صدیق ہندا نے بھی اس دار فانی کو الوداع کہا،اور اپنے چاہنے والوں کو داغ جدائی دے کر دائمی سفر پر روانہ ہوگئے، انہوں نے اس دنیا میں عمر عزی کے پچھتر سال پورے کئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ یہ کتنی حیران کن بات ہے کہ کورونا اپنے دوسرے مرحلے میں وطن عزیز میں ایک آسمانی عذاب کی طرح نازل ہوگیا ہے،
بات سے بات: ملیشیا کا عالمی مقابلہ حسن قراءت۔۔۔ عبد المتین منیری۔ بھٹکل
اب تو لوگ بھول بھال گئے ہیں، حیدرآباد دکن کے پرانے لوگوں کو بھی شاید یاد نہ ہو کہ یہاں پر ایک قاری ہوا کرتے تھے، اپنے دور کے بہت ہی مشہور، قاری عبد الباری مرحوم، نظام کے دور میں آپ کی تلاوت سے ریڈیو حیدراباد سننے والوں کی صبحیں روشن ہوا کرتی تھیں، ہم نے انہیں ۱۹۷۱ء میں دیکھا تھا، اس وقت آپ نے قرآن مجید کا ترجمہ مکمل کیا تھا، اور اس کی اشاعت کی فکر میں ہمارے مولانا سید عبد الوہاب بخاری علیہ الرحمۃ کے پاس آئے تھے۔ بخاری صاحب شخصیت بڑی عظیم تھی، فجر بعد طلبہ کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرنے
تجربات ومشاھدات (14)۔۔۔ ڈاکٹر بدر الحسن القاسمی
فکری انحراف کے اسباب ******* کرونا کی وبا پھیلنے سے پہلے رابطہ عالم اسلا می مکہ مکرمہ کی طرف سے جو آخری بڑی موضوعاتی کانفرنس منعقد ہوئی تھی اس کاعنوان تھا، ۔"اسباب الا۔نحراف الفکری وعلاجه پس منظر اس کا یہ تھا کے بعض عرب ملکوں میں فکری انحراف بلکہ دین سے بیزاری اورارتداد کی لہر پھیل رہی ہے اور نوجوانوں کی ایک تعداد دینی احکام کی پا بند یوں سے آزاد زندگی گزارنا چاہتی ہے ،اس صورت حال کا جائزہ لیا جائے اسباب کا تجزیہ کیا جائےاور پھر اس کاعلاج تلا ش کیا جائے۔ چنانچہ میں نے تقریبا 50 صفحات پ