Search results

Search results for ''


سفر حجاز۔۔۔(الف)۔۔۔ الوداع۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

الوادع لبیک اللہم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک یہ الوداع ہے، ماہِ رمضان کی سالانہ ’’الوداع‘‘ نہیں، ناظرینِ سچ سے ان کے خادم مدیر سچ کی الوادع ہے۔ حج بیت اللہ چند شرائط کے جمع ہو جانے پر ہر مسلمان پر اسی طرح فرض ہے جس طرح ہر روز پانچ وقت کی نماز، یہاں نماز ہی کا فریضہ کب خوش دلی اور اپنے شرائط کے ساتھ ادا ہو پاتا ہے جس میں نہ کچھ خرچ ہے اور نہ کوئی خاص محنت، جو فریضہ حج کے نہ ادا کرنے کا رونا رویا جائے! عمر کی گھڑیاں خاموشی اور تیزی کے ساتھ گزرتی رہیں، دن ہفتوں

غلطی ہائے مضامین۔۔۔ ذمے واری سے بچنے کے لئے ذمہ واری کی آڑ۔۔۔ تحریر: ابو نثر

Bhatkallys Other

اوسلو (ناروے) سے محمد شارق صدیقی صاحب نے سوال فرمایا ہے: ’’ذمہ دار اور ذمہ وار میں سے کون سا درست ہے؟ میرا خیال ہے کہ دونوں ہی درست ہیں کیوں کہ دونوں مستعمل ہیں‘‘۔ صاحب! ہمارا بھی یہی خیال ہے کہ آپ کا خیال درست ہے۔ شارق بھائی اپنے اور ہمارے برادرِ بزرگ محامد صدیقی صاحب کے برادرِ خورد ہیں۔ محامد صدیقی صاحب کوپن ہیگن (ڈنمارک) میں مقیم ہیں۔ مدتوں پہلے قارئین ’جسارت‘ جناب محامد صدیقی کے دلچسپ معلوماتی کالم ’’مکتوبِ ڈنمارک‘‘ سے مستفید ہوا کرتے تھے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ محامد بھائی یہ مفید سلسلہ دوبارہ

سچی باتیں۔۔۔ تجدید جاہلیت۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

1941-10-20 ’’ہندوستان کی خاتون جدید نے احساس کرلیاہے، کہ حُسنِ خیال اور رعنائی قامت اُس کا نہ صرف سب سے قیمتی حربہ ہیں،بلکہ اس کا پیدائشی حق ہیں۔ سنسکرت کے عالموں نے عورت کو کنول سے تشبیہ دی ہے اور کہا ہے کہ عورت کا چہرہ چاند کی طرح روشن ہو، اس کا جسم پھول کی طرح نازک ہو، جلد نرم وملائم ہو سنہری کنول کی طرح اور آنکھیں بکری کی جیسی ہوں۔ چال بھینس کی طرح ہو۔ لباس شوخ رنگ کا ہو اور زیوروں سے لدی ہو۔ اس تخیل کو پیش نظر رکھ کر خاتونِ نَو نے ہندوستان کے بہترین مظہر حسن سے اپنی لو لگائی ہے، یعنی ناچ

بات سے بات: یہ بھی سوچنے کا مقام ہے۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri Other

کل ہم نے ریختہ ڈاٹ کام کے سلسلے میں جو پوسٹ کی تھی،اس کی تحریک یوں ہوئی تھی، کہ علم وکتاب گروپ پر ایک ممبرنے جب ریختہ سے کتابوں کے ڈون لوڈ کا طریقہ طلب کیا تو یہ ہمیں ناپسند لگا، ہم نے گروپ پر اسے پوسٹ نہ کرنے کی درخواست کی، اس پر جو تبصرے آئے، وہ ہماری سوچ کے عکاس نہیں تھے۔ایسے امور جو بلوائے عام کی صورت اختیار کرجاتے ہیں، ان کے جائز یا ناجائز، قانونی یا غیر قانونی ہونے کی بحثوں میں ہم شامل ہونے سے عموما احتراز کرتے ہیں، کیونکہ ان امور پر بحث کا نتیجہ کچھ نہیں نکلتا۔ بلاضرورت فروعی مسائل میں ا

بات سے بات: اردو دنیا ریختہ ڈاٹ کام کی احسان مند ہے۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri Other

اردو انٹرنٹ کی دنیا میں اس وقت ریختہ ڈاٹ کام ایک بہت بڑا نام ہے، اور اردو کے علمی وادبی ورثہ کی حفاظت کے لئے اس نے جو کام کیا ہے اس کی حدوں کو چھونا اس میدان میں کام کرنے والے بہتوں کے لئے ایک خواب ہی ہوسکتا ہے۔ اس کے مالک ہندوستان کے ایک غیر مسلم تاجر *سنجیو صراف*  ہیں،جنہوں نے مطبوعہ اردو لٹریچر کو محفوظ کرنے اور آئندہ نسل تک  پہنچانے کے اس پر کروڑوں روپئے لگادئے ہیے،اور چھپائی کے آغاز سے ابتک شائع شدہ اردو لٹریچر اور نایاب مجلات کو معیاری اسکیننگ کے ذریعہ نہ صرف ضائع اور گمنام

بات سے بات: فضائل اعمال کی بات۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri Other

آج گروپ پرایک ویڈیو پوسٹ ہوئی ہے، جس میں فضائل اعمال اور تبلیغی نصاب پر ایک عرب عالم دین نے تنقید کی ہے، جن صاحب نے اسے پوسٹ کیا ہے غالبا ان کے علم میں یہ بات پہلی مرتبہ آئی ہے، اگر ایسا ہے تو ہمارے علماء کو اتنا بھی نابلد نہیں ہونا چاہئے۔ اس جیسے منافرانہ خیالات کو روکنے کے لئے جیسی سنجیدہ کوششیں ہونی چاہئیں ، حقیقتا ابھی تک نہیں ہوئی ہیں۔ ہمارے علم کی حد تک بس ہمارے یہاں کے ایک عالم دین نے کوئی پندرہ سال قبل بڑی ہی سنجیدہ کوشش کی تھی، جو ایک حد تک کامیاب  بھی رہی ، کیونکہ وہ اہل زبان

محمد میراں صدیق، ایک مخلص خادم قوم کی جدائی۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri Other

آج بھٹکل وخلیجی ممالک میں جہاں بھٹکلی احباب زیادہ تر بستے ہیں، عید الفطر کا مبارک دن تھا، ابھی سورج کے غروب کے بعد رات کی تاریکی اپنا سیاہ چادر تان رہی تھی کہ منگلور سے خبر آئی کہ جناب محمد میراں صدیق ہندا نے بھی  اس دار فانی کو الوداع کہا،اور اپنے چاہنے والوں کو داغ جدائی دے کر دائمی سفر پر روانہ ہوگئے، انہوں نے اس دنیا میں عمر عزی کے پچھتر سال پورے کئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ یہ کتنی حیران کن بات ہے کہ کورونا اپنے دوسرے مرحلے میں وطن عزیز میں ایک آسمانی عذاب کی طرح نازل ہوگیا ہے،

بات سے بات: ملیشیا کا عالمی مقابلہ حسن قراءت۔۔۔ عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri Other

اب تو لوگ بھول بھال گئے ہیں، حیدرآباد دکن کے پرانے لوگوں کو بھی شاید یاد نہ ہو کہ یہاں پر ایک قاری ہوا کرتے تھے، اپنے دور کے بہت ہی مشہور، قاری عبد الباری مرحوم، نظام کے دور میں آپ کی تلاوت سے ریڈیو حیدراباد سننے والوں کی صبحیں روشن ہوا کرتی تھیں، ہم نے انہیں ۱۹۷۱ء میں دیکھا تھا، اس وقت آپ نے قرآن مجید کا ترجمہ مکمل کیا تھا، اور اس کی اشاعت کی فکر میں ہمارے مولانا سید عبد الوہاب بخاری علیہ الرحمۃ کے پاس آئے تھے۔ بخاری صاحب شخصیت بڑی عظیم تھی، فجر بعد طلبہ کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرنے

تجربات ومشاھدات (14)۔۔۔ ڈاکٹر  بدر الحسن القاسمی

Bhatkallys Other

 فکری انحراف کے اسباب   ******* کرونا کی وبا پھیلنے سے پہلے  رابطہ عالم اسلا می مکہ مکرمہ کی طرف سے جو آخری بڑی موضوعاتی  کانفرنس منعقد ہوئی تھی اس کاعنوان تھا، ۔"اسباب الا۔نحراف الفکری وعلاجه پس منظر اس کا یہ تھا کے بعض عرب ملکوں میں فکری انحراف بلکہ دین سے بیزاری اورارتداد کی لہر پھیل رہی ہے اور نوجوانوں کی ایک تعداد دینی احکام کی پا بند یوں سے آزاد زندگی گزارنا چاہتی ہے ،اس صورت حال کا جائزہ لیا جائے اسباب کا تجزیہ کیا جائےاور پھر اس کاعلاج تلا ش کیا جائے۔  چنانچہ میں نے تقریبا 50 صفحات پ

بات سے بات: شیخ احمد دیدات۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri Other

مولانا بدر الحسن قاسمی صاحب نے اپنی یاداشتوں کی قسط نمبر ۱۳ میں مناظرہ کے موضوع پر  خوب اظہار خیال کیا ہے۔ اس سلسلے میں آپ نے جن شخصیات کا تذکرہ کیا ہے، ان میں سے ہمیں شیخ احمد دیدات سے ملنے کا شرف نصیب ہوا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ وہ دینی و دعوتی شخصیات جو اپنے ملکوں یا ایک مخصوص حلقہ تک محدود تھیں، وہ دبی اور امارات سے عالمی افق پر مشہور ہوتے تھے، دبی کی حیثیت ہی کچھ ایسی ہے کہ یہ دنیا کا جنکشن  بن گیا ہے۔  ایسی کئی ایک شخصیات جنہیں بعد میں عالمی شہرت ملی، ان کی ابتدائی آمد کے

تجربات ومشاھدات (13)۔۔۔   بدر الحسن القاسمی

Bhatkallys Other

  دین کی طرف سے دفاع میں مکالمہ کا اثر ******* ناموس رسالت کی حفاظت کیلئے فدا کاروں کے بڑے البیلے انداز رہے ہیں ،۔ كانفرنس كا عنوان:۔  "حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دفاع میں مکالمہ کا رول "  دعوت نامہ: محمدبن سعود یونیور سیٹی کی طرف سے ۔  جگہ : جامعة الامام رياض  کا وسیع کانفرنس ہال ۔  منتظم : مركز الملك عبداللہ للحوار الحضاري۔  شرکاء: دنیا کے منتخب علماء دانشور اوریورپ کا وہ شخص بھی جس نے گستاخی کے بعد ہدایت کی راہ پائی اور حلقہ بگوش اسلام ہو گیا اور اسطرح :۔  رسیدی   ازرہ ا

بات سے بات: جامعات میں فقہ کی تعلیم۔۔۔ از: عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri Other

مولانا بدر الحسن صاحب کا قلم سیل رواں کی طرح جاری ہوچکا ہے، وہ   برجستہ اور قلم برداشتہ لکھتے ہیں،خدا کرے وہ بولتے رہیں، اور ہم سنتے رہیں، ان میں انقطاع نہ آنے پائے، مولانا نے آج کی قسط میں افتاء پر جو باتیں لکھی ہیں وہ قابل توجہ ہیں، مولانا نے خاص طور پر عالم عرب کی جامعات میں فتوے کی جو صورت حال بیان کی ہے، اور اسکے جن منفی پہلوؤں پر توجہ دلائی ہے  ، ان میں سچائی ہے، لیکن جہاں تک حکومتوں کے ماتحت افتاء کے ادارے ہیں، ان میں سے بہتوں کا معیار اب بھی بلند ہے، مثال کے طور پر دبی،

تجربات و مشاھدات (12)۔۔۔ مولانا بدر الحسن القاسمی

Bhatkallys Other

      اجتھاد وتجدید :۔          **** جامعہ الاما م محمد بن سعود ریاض میں میری پہلی حاضری 1979ء میں ہوئی تھی جب میں دار العلوم دیوبند میں مدرس اور الداعی کا اڈیٹر تھا اور میں نے پہلی اسلامی جغرفیائی عالمی کانفرنس میں "قضیة فلسطين وابعادها السياسية والجغرافية " كے عنوان سے مقالہ پیش کیا تھا اور لیبیا کے ڈاکٹر فوزی الاسدی کے اس دعوے کی تردید بھی کی تھی کہ فلسطین کا مسئلہ دینی نہیں اقتصادی ہے،  اور پہلی بار خصوصی انتظام اور شرکائے کانفرنس کی معیت میں مکہ مدینہ کی حاضری اور عمرہ اور روضہ رسول اللہ

مولانا سید علیم الحق عمری بھی ہم سے جدا ہوگئے۔۔۔ از: عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri Other

ابھی ابھی ۲۷ رمضان المبارک افطار کے وقت مولانا محمد رفیع کلوری مدیر ماہنامہ راہ اعتدال عمرآباد نے اطلاع دی ہے کہ مولانا علیم الحق عمری نے بھی اس دار فانی کوچ کیا، غم کس کس کا کیا جائے؟ کس کس کے لئے عظیم سانحہ، شدید صدمہ وغیرہ الفاظ استعمال کئے جائیں، جانے والوں کی قطار اتنی دراز ہوتی جارہی ہے کہ صدموں کے بیان کے لئے لغت میں الفاظ کا ذخیرہ ختم ہوگیا ہے، دل ہے کہ ان حادثات کے زخم جھلینے پر مجبور ہے، جس کے بھی  اس دنیا سے اٹھ جانے کی خبر آتی ہے، وہ جان ملت کے لئے بڑی قیمتی ہوتی ہے، مدرسے جنہ

رئیس الشاکری:اب نہ پائے گا زمانہ کبھی ان کی تمثیل (۳)۔۔۔  محمد اویس سنبھلی

Bhatkallys Other

اردو غزل کے گیسو سنوارنے اور نعتیہ شاعری میں اپنا ایک خاص مقام بنا لینے کے بعد رئیس الشاکری صاحب نے رباعی کی ِصنف میں خصوصی محنت کی اور ان کی محنت کا اندازہ ’’القاء‘‘ کے مطالعہ سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔فنی لحاظ سے رباعی بہت ہی مشکل فن ہے اس فن سے عہدہ برا ہونے کے لیے فنی بصیرت و نظر کی وسعت کے ساتھ ساتھ کافی مشقِ سخن اور پختگی عمر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس صنف میں کامیابی اس وقت حاصل ہوتی ہے جب شاعر معمر ہوجاتا ہے۔ جوش نے کہا تھا: ’’رباعی ایسی کمبخت ِصنف ہے جو سارا جوبن کھالے تو ایک بالک پالے کی طرح

رئیس الشاکری:اب نہ پائے گا زمانہ کبھی ان کی تمثیل (۲)۔۔۔ محمد اویس سنبھلی

Bhatkallys Other

رئیس الشاکری کی غزل کا پیرایۂ اظہار سادہ اور راست ہوتے ہوئے بھی شعری حسن اور تاثیر کا حال ہے۔ ان کے لسانی اور تہذیبی پس منظر نے انھیں لفظوں کے انتخاب و استعمال کا سلیقہ اور کلاسیکی روایات سے آگاہی ودیعت کی ہے اور یہ دونوں ہی خصوصیات آج کے دور میں کمیاب ہوتی جارہی ہیں‘‘۔ رئیس الشاکری کی غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:۔ لذت غم ہے کہ لفظوں میں سماتی ہی نہیں بے سخن جھوم اٹھے عشق کے آزار سے ہم دل کو چھو رہی ہے بے گناہی لہو چپ ہے تو خنجر بولتا ہے سب ہراساں دکھائی دیتے ہیں جیسے بستی میں کوئی

رئیس الشاکری:اب نہ پائے گا زمانہ کبھی ان کی تمثیل (۱)۔۔۔ محمد اویس سنبھلی

Bhatkallys Other

گذشتہ ایک ماہ علم و ادب کی دنیا پر قہر بن کر ٹوٹاہے۔۔۔اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ روز کسی اپنے کی جدائی کا صدمہ غم میں مزید اضافہ کردیتا ہے۔مشرف عالم ذوقی، تبسم فاطمہ، شاہد علی خاں،وجاہت فاروقی،انجم عثمانی، مناظر عاشق ہرگانوی ، پروفیسر مولا بخش، رخسانہ نکہت لاری، احسن اعظمی، رضا حیدر، فرقان سنبھلی ، مہتاب حیدر صفی پوری،شوکت حیات ، پروفیسر منظر عباس نقوی جیسی ادبی شخصیات گذشتہ چند دنوں میں دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ مولانا ولی رحمانی، مولانا نورعالم خلیل امینی اور مولانا عبدالمومن ندوی جیسے دین اسلام کے

تجربات و مشاھدات (11)۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر بدر الحسن القاسمی

Bhatkallys Other

                 ھیولی برق خرمن کا           ******* طالب علمی کا زمانہ اپنی تعمیر کا ہوتا ہے کسی  تعلیم گاہ کا رخ آدمی کرتا تو اسی لئے ہے کہ اپنے دامن کو موتیوں سے بھر لے، مختلف علوم وفنون میں مہارت حاصل کر لے لیکن داخلی اور خارجی عوامل اثر انداز ہوتے ہیں اور آدمی بسا اوقات وہ نہیں بن پاتا جو وہ بننا چاہتا ہے ،کبھی طلب کی کمی ہوتی ہے،کبھی ذہانت قوت حفظ اور جسمانی صحت  ساتھ نہیں دیتی ،کبھی مؤثر یعنی استاذ اچھے نہیں ملتے،اور کبھی بیرون ادارہ کے لوگوں کے  مفاد میں یہ ہوتا کہ اندر اضطراب کا ماحو