Search results

Search results for ''


تجربات ومشاہدات(۱۶)۔۔ ڈاکٹر بدر الحسن قاسمی۔ کویت

Bhatkallys Other

اظہار رائے کی آزادی (حرية التعبير) كے حدود کی نشاندہی بھی  اس اہم ترین فکری كانفرنس کے مقاصد میں شامل تھی،اظہار رائے کی آزادی ، کلام اور تحریر کے ذریعہ ہو یا فنکاری اور آرٹ کے کسی اورطریقہ سے ہو اور کسی طرح کی پا بندی نہ لگائی جائے؛  بشرطیکہ اپنے افکار کوپیش کرنے میں عرف عام اور قوانین کی خلاف ورزی نہ کی گئی ہو؛  کیونکہ یہ ان انسانی حقوق  میں سے ہے، جن  کی حفاظت کا عالمی معاہدوں اور بین الاقوامی ضابطوں میں ذکر کیا گیا  ہے۔ اسلامی شریعت کے احکام مصالح کے حصول اور مفاسد کے ازالہ پر مبنی ہیں ، لہذ

سفر حجاز۔۔۔(10)۔۔۔ آستانہ نبوت۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

باب (۱۰) آستانہ نبوّت یہ کسی فقیہ کا اجتہاد نہیں جس پر رد و قدح کی گنجائش ہو۔کسی بزرگ کا کشف نہیں جس میں غلطی اور دھوکے کا احتمال ہو،کوئی روایت حدیث نہیں جس کے اسناد میں گفتگو ہوسکے،خدائے پاک کے کلام کی ایک آیت ہے۔ارشاد ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے جس وقت اپنے اوپر ظلم کیے تھے۔اے پیغمبر ! اگر تمہارے پاس آگئے ہوتے اور اللہ سے اپنے قصور کی معافی چاہتے اور رسول بھی ان کے حق میں معافی چاہتے تو پاتے اللہ کو معاف کرنے والا مہربان گویا گناہگاروں ور تباہ کاروں کو یہ حکم ملا ہے کہ اپنے پروردگار سے معافی طلب ک

حاجی جمال محمد۔۔(۱) ۔۔۔۔ تحریر : ڈاکٹر عبد الحق کرنولی ( افضل العلماء)

Bhatkallys Other

حاجی جمال محمد جنوبی ہند کے عظیم سپوت اور معمارِ قوم، جنہوں نے علامہ سیدسلیمان ندوی، علامہ پکتھال، اور علامہ اقبال کے خطبات دنیا کو عطاکیے تحریر: ڈاکٹر عبد الحق کرنولی (افضل العلماء) عظیم مؤرخ علامہ عبدالحئی حسنی ؒ نے اپنی کتاب ’’یادِ ایام۔ تاریخ گجرات‘‘ میں مہائم ممبئی میں مدفون، برصغیر میں شاہ معین الدین اجمیریؒ کے بعد دوسرے مقبول ترین بزرگ، مفسر و فقیہ شیخ علاء الدین علی المہایمی النایتی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں احساسات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:۔ ’’ایک ایسا شخص جس کو ابن عربی ثانی

غلطی ہائے مضامین۔۔۔ ہم بولے گا، تو بولو کہ بولتا ہے۔۔۔ ابو نثر

Bhatkallys Other

کل ایک ٹیلی وژن چینل پر ایک صاحب مسلسل بول رہے تھے۔ چینل کا نام بھی غالباً فیضؔ صاحب کے اِس مصرعے سے ماخوذ ت:۔ بول کہ لب آزاد ہیں تیرے مگر لب ہی نہیں، چینل کے چونچالوں نے بولتے بولتے اپنے دیگر اعضا بھی آزاد کرا لیے ہیں۔ آپ کہیں گے: ’’میاں تم نے یہ بھی خوب کہی کہ چینل والے صاحب مسلسل بول رہے تھے۔ ارے بھائی! چینل پر بولنے والوں کا تو کام ہی مسلسل بولنا ہے۔ مسلسل نہ بولیں تو انھیں بولنے پر ملازم رکھنے والے بَولا جائیں‘‘۔ مگرحضرت! بات یہ ہے کہ وہ حضرت بار بار اس قسم کے فقرے بول رہے تھے کہ ’’م

سچی باتیں۔۔۔ باقی کے ساتھ لگاؤ۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

1941-12-08 غالبؔ کوئی زاہد نہیں، شیخ وقت نہیں، ایک شاعر وادیب تھے ۔ اور وہ بھی رندانہ مزاج اور لااُبالی مذاق کے۔خطوط غالب (’’مولوی‘‘ مہیش پرشاد کی مرتب کی ہوئی تازہ کتاب) تصوف ومعرفت، اخلاق وموعظت کی نہیں، خالص ادب وانشا کی کتاب ہے۔ لیکن کیا مضائقہ ہے گر کوئی کام کی بات کسی رندِ لا اُبالی کی زبان سے سُن لی جائے، اور عبرت کا ٹکڑا کسی ادیب وانشاپرداز کے کلام میں نظرآجائے؟……غالب صاحب ۲۰؍جنوری ۱۸۶۱ ء کو اپنے ایک نہایت عزیز ہندو شاگرد مرزا تُفتہ ؔکو لکھتے ہیں:۔ ’’سنبلستان کا چھاپا خدا تم کو مبارک

تجربات ومشاہدات(۱۵)۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر کی یاد۔۔۔ مولانا بدر الحسن القاسمی۔ الکویت

Bhatkallys Other

کئی دنوں سے یہ خبر آر ہی تھی کہ ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر کی حالت تشویشناک ہے اسکے بعد انکی رحلت کی افسوسناک اطلاع کے آنے کا ہی خدشہ تھا جو قدرت کے فیصلہ کے مطابق واقع ہوکر ہی رہا انالله وانا اليه راجعون ايتهاالنفس اجملي جزعا ان الذي تحذرين قد وقعا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر علامہ سید محمد یوسف بنوری کے مایہ ناز شاگرد تھےاور انکی قسمت میں انکی گدی کی وراثت بھی تھی خاص طور پر مولانا حبیب اللہ مختاروغیرہ کی شہادت کے بعد انکی شخصیت ہی جامعہ کے امور کی دیکھ بھال کیلئے تنہا رہ گئی تھی مولانا عبد الرز

سفر حجاز۔۔۔(09) ۔۔۔ مدینہ منورہ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

باب (۹) مدینہ بوئے یار مہر بانم می رسد    بوئے جاناں سوئے جانم می رسد باز آمد آبِ ما در جوئے ما    باز آمد شاہِ ما در کوئے ما   ۱۱ /اپریل۲۹ ء پنجشنبہ، یکم ذیقعدہ  ۱۳۴۷ھ آج کی صبح کتنی مبارک صبح ہے، آج کے دن زندگی کا سب سے بڑا ارمان پورا ہونے کو ہے،آج ذرّہ آفتاب بن رہا ہے، آج بھاگا ہوا غلام اپنے آقا و مولا کے دربار میں حاضر ہو رہا ہے، آج گنہگار امتی کو شفیع و شفیق رسول اللہ ﷺ کے آستانہ پر سلام کی عزت حاصل ہو رہی ہے، ہندوستان کی عورتیں ذیقعدہ کو ’’خالی‘‘ کا مہینہ کہتی ہیں، پر جس کے ن

سفر حجاز۔۔۔(08)۔۔۔ جدہ ۔ راہ مدینہ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

باب (۸)۔ جدّہ  – راہ مدینہ        صالح بسؔیونی نے ہمیں اپنے ذاتی مکان میں ٹھہرایا، بمبئی کی طرح یہاں بھی عموماً کئی کئی منزلوں کے مکانوں کا رواج ہے۔ یہ مکان بھی کئی منزل کا ہے ہم لوگوں کو جگہ دوسری منزل میں ملی۔ اس میں دو کمرے ہیں، ایک بڑا اور ایک اوسط درجے کا عورتوں کو بڑے کمرے میں کردیا، چھوٹے کمرے کو مردانہ رکھا ہے سامان زیادہ تر نیچے کی منزل میں رہنے دیا، سولہ آدمیوں کے لیے دوکمروں کی گنجائش ناکافی معلوم ہو رہی ہے۔ صحن نہ ہونے سے گرمی علی الخصوص محسوس ہورہی ہے — لیکن یہ بھی درحقیقت اللہ کی

غلطی ہائے مضامین ۔۔۔ تاکنا جھانکنا اور جھانکی مارنا ۔۔۔ از: ابو نثر

Bhatkallys Other

دائرۂ علم و ادب پاکستان نے سماجی ذرائع ابلاغ پر ایک برقی محفل سجا رکھی ہے۔ یہ عالمی ادبی محفل ہے۔ ایک روز جدہ سے سید شہاب الدین نے محفل میں ’جھانکی‘ ماری۔ اس پر اہلِ علم و ادب میں اضطراب پھیل گیا۔ کراچی سے ڈاکٹر محمود غزنوی نے جھٹ سوال داغا:۔ ’’یہ ’جھانکی ماری‘ کون سی اُردو ہے؟‘‘ سید کی مدد کو سید ہی لپکتا ہے۔ سو سید ایاز محمود، سید شہاب الدین کی مدد کو دوڑے، اور دوڑ کر سند لے آئے۔ فرمایا:۔ ’’درست زبان ہے۔ اہلِ زبان کا روزمرہ ہے۔ مطلب ہے ایک نظر ڈالنا۔ نظیرؔاکبر آبادی کا شعر ہے:۔ نئی پوشا

تبصرات ماجدی۔۔۔(۱۲۴)۔۔۔ طوفان محبت ۔۔۔ از : مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys Other

*(124) طوفان محبت* از ہوش بلگرمی (ہوش یار جنگ بہادر) کتاب خانہ، عابد روڈ، حیدر آباد (دکن)۔ اردو میں اچھی مثنویوں کے دن معلوم ہوتا تھا اب گزرچکے ہیں اور سحر البیان (میر حسن)، گلزار نسیم، زہر عشق اور ترانۂ شوق کے بعد اب خیال میں بھی نہیں آتا کہ کوئی اور مثنوی ایسی ہوسکے گی، سلسلۃ الذہب کی آخری کڑی احمد علی شوق قدوائی کی ترانۂ شوق تھی، اس کی تصنیف و اشاعت کو بھی  50-60 سال کا عرصہ گزر چکا، اتنے سناٹے کے بعد اس نئی مثنوی نے وہ بھولا ہوا خواب یاد دلایا۔ طوفانِ محبت شاعر کی (مصنف رسالہ بدیہہ گ

سچی باتیں۔۔۔ اردو زبان۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

1941-11-24 ’’پنڈت جی کا ناگری پرچارنی سبھا میں آج’’واکھیان‘‘ تھا۔ اُردو کا ’’کھنڈن‘‘ کرکے ابھی پنڈال سے باہر نکلے ہیں۔ اپنے ساتھیوں سے کہتے ہیں ،’’بھئی میں تو تھک بہت گیا، سر میں درد ہونے لگا۔ اور بھوک پیاس بھی بڑے زور کی لگ رہی ہے۔ کہو کچھ کھانے وانے کوملے گا؟‘‘ ساتھی جواب دیتے ہیں، کہ ہاں مہاراج سب کچھ ملے گا، پیا س ہوتو شربت یہیں پی لیجئے گا نہیں تو بازار بھی کچھ دُور نہیںہے۔ وہ کیا جو درزی کی دوکان دیکھ پڑرہی ہے۔ اُس کے پڑوس میں ایک کتاب والا بیٹھتاہے۔ بس اُس کے آگے حلوائی کی دوکان ہے۔ جت

غلطی ہائے مضامین۔۔۔ مجھ کو فنِّ شعر میں پوری طرح’اَدرک‘ نہیں۔۔۔ تحریر: ابو نثر

Bhatkallys Other

سماجی ذرائع ابلاغ نے ہر کس و ناکس کے ہاتھ میں زمامِ ابلاغ تھما دی ہے۔ آج کل بے کس سے بے کس بندہ بھی کس کے ابلاغ کررہا ہے۔ سب ہی اپنے اپنے کس بل دکھا رہے ہیں۔ اس کا فائدہ بھی ہے اور نقصان بھی۔ علم و دانش کا ابلاغ بھی ہورہا ہے اور جہالت و جاہلیت کا بھی۔ کسی کسوٹی پر پرکھے بغیر (جس کا اصل تلفظ کبھی ’’کَس وَٹی‘‘ ہوا کرتا تھا) ہر چمکتی چیز کو سونا بتاکر پیش کیا جارہا ہے۔ آج کل یہ مقولہ بھی عام ہے کہ ’ہر شخص کو اظہار کا حق ہے‘۔ ایک بار یہی قول کسی نے مولانا مودودیؒ کے سامنے دُہرا دیا تو مولانا نے بر

بات سے بات: پیر مرشد کی ضرورت۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri Other

آج بزرگوں کی صحبت اٹھانے کی بات کیا آئی کہ بحث کا رخ ہی مڑ گیا، ایک عام سی بات ،تصوف کی مخصوص اصطلاح  اور شیخ کی ضرورت تک جاپہنچی، چونکہ ہم اس میدان میں کورے ہیں، اور اگر اس سلسلے میں کچھ واقفیت ہے تو اتنی کہ ڈرائیور کا مصاحب خود کوڈرائیور سمجھ بیٹھے، اور کہنے لگے کہ مجھے بھی ڈرائیونگ آتی ہے۔ اس سلسلے میں ہم سمجھتے ہیں، کہ انسانی زندگی میں روحانی قبض، غمی خوشی ، اجتماعی اورانفرادی ایسے کئی معاملات آتے ہیں، جہاں اسے ایک ہمدرد، غمگسار، رہنما اور شریک کی ضرورت ہوتی ہے، لہذا ہر شخص کی زن

سچی باتیں۔۔۔ قرآن کا اعجاز۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

1941-11-17 پارسی مذہب دنیا کا ایک مشہور مذہب ہے۔ ٹاٹاؔ اور مہتہؔ اور نوروجیؔ کے نام سے انگریزی پڑھے لکھوں میں کون ناواقف ہے؟ قرآن مجید میں ذکر مجوس کا آیاہے۔ اور فارسی شعروادب تو کنشت اور بغمچہ اور پیر مغاں اور گبر کی تلمیحات سے بھرے پڑے ہیں۔ ان کی مقدس اور الہامی کتاب ادستا آپ جانتے ہیں کس طریقہ پر محفوظ ومدوّن ہوئی ہے؟ پارسی عقیدہ یہ ہے کہ ’’زرتشت کی تعلیمات کو جو لکھی ہوئی شکل میں محفوظ نہیں، سکندر نے جلاکر تباہ کردیاتھا۔ جب اردشیرؔ اول کو دوبارہ اُن کے لکھوانے کا خیال آیا تو اُس زمانے

سفرحجاز۔۔۔(07)۔۔۔ جدہ۔۔۔ از:مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

               باب 07               جدہ   8 اپریل دوشنبہ خدا خدا کرکے 2360 میل کی سمندری اور وطن سے ممبئی تک صدہا میل  کی زمینی مسافت طے کر کے آج جدہ پہونچنے کا دن ہے،آج دلوں کے شوق و اشتیاق کا کیا کہنا؟ اسباب کی بندش رات ہی سے شروع ہو گئی تھی، صبح سویرے سے جہاز کے بالائی عرشوں پر حاجیوں کے پرے جمے ہوئے، سب کی نگاہیں ساحل کی طرف لگی ہوئی۔ ساحل جوں جوں قریب آتا جاتا ہے، پانی کا رنگ بجائے نیلے کے سبز ہوتا جا رہا ہے اور بحری پہاڑیاں کثرت سے نمودار ہوتی جارہی ہیں، دن نکلنے کے بعد ساحل سے ایک کشتی

غلطی ہائے مضامین۔۔۔ وزیراعظم کے دربار میں تُوتی کی آواز۔۔۔ ابونثر

Bhatkallys Other

دفتر وزارتِ عظمیٰ سے 3 جون 2021ء کو ایک فرمان جاری ہوا ہے۔ اس فرمان کی رُو سے:۔ ’’ وزیراعظم نے بخوشی حکم دیا ہے کہ آئندہ اہم مواقع پر اور ایسی تمام محافل و تقریبات میں جو وزیراعظم کے اعزاز میں منعقد کی جائیں گی، اجلاس کی کارروائی لازماً قومی زبان اُردو میں ہوگی۔ وزیراعظم کے اس حکم پر باضابطہ عمل درآمد کے لیے تمام متعلقین دیگر ضروری اقدامات عمل میں لائیں گے‘‘۔ وزیراعظم کے اس فرمان کا فرماں برداروں نے کیا حشر کیا؟ نوکر شاہانہ ستم ظریفی دیکھئے کہ معتمد برائے وزیراعظم جناب محمد اعظم خان کے دستخط

بات سے بات: کتب لغت سے استفادہ۔۔۔ عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri Other

*ایک استفسار آیا ہے کہ ((ادب کا مطالعہ کرتے ہوئے مشکل الفاظ کا سامنا ہو تو بار بار لغت کی طرف مراجعت کرنا چاہیے یا  آخر میں یکبارگی سب کے معانی دیکھنے چاہئیں؟)) اس سلسلے میں مطالعہ کا مقصد، کیفیت، اور مرحلہ کو دیکھ کر ہی کسی بات کو ترجیح دی جاسکتی ہے۔ جہاں تک مقصد مطالعہ کا تعلق ہے تو اس کے کئی ایک مقاصد ہوسکتے ہیں، ایک مقصد یہ کہ کسی مسئلہ یا موضوع کی تحقیق یا حوالہ مطلوب ہو، تو اس کے لئے لغت سے مراجعت فورا کرنی پڑے گی۔ اب دوسرا مقصد علمی صلاحیت کا فروغ، معلومات کا حصول تو پھر

سفرحجاز۔۔۔(06)۔۔۔ کامران۔۔۔ احرام۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

        باب (٦)۔         کامران___احرام کامران کی مستقل لغویت کے تذکرہ کو کہاں تک پھیلایا جائے، جو کچھ بھی پیش آتا ہے، بہ ارادہ الٰہی کسی مصلحت و حکمت تکوینی ہی کی بناء پر پیش آتا ہے، صبر کے سوا چارہ نہیں، شکر سے بہتر مداوا نہیں، لیکن یہ جو کچھ لکھا گیا ’’جگ بیتی‘‘ تھی۔ ’’آپ بیتی‘‘ یہاں بھی سفر کی دوسری منزلوں کی طرف نسبتاً بڑے مزے کی رہی۔ ادھر ہماری کشتی کنارے سے لگی، اُدھر اسی لمحہ ڈاکٹر کی سرکاری موٹر لانچ بھی پہونچی، اور ساحل پرقدم رکھتے ہی ڈاکٹر قاسم چوہان سے تعارف ہوا۔ یہ چیف میڈیکل آفیس