Search results

Search results for ''


جنوبی ہند کے سرسید ڈاکٹر عبد الحق کرنولی ؒ کی زندگی کی ایک جھلک(۰۱)

Abdul Mateen Muniri Other

تحریر: مولانا سید عبد الوہاب بخاریؒ۔یم اے ، یل ٹی سابق پرنسپل نیو کالج چنئی، وڈائرکٹر دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد   علامہ سید سلیمان ندویؒ ۱۹۲۵ء میں مدراس(چنئی) سیرت النبی ﷺ پر اپنے معرکہ آراء ″خطبات مدراس″ پیش کرنے آئے تو جنوبی ہند کے مسلمانوں کے تعلیمی ودینی حالات پر تبصرہ  کرتے ہوئے معارف کے اگلے شمارے میں  جنوب کے مسلمانوں کی عمومی صورت حال بیان کرتے ہوئے  لکھا  تھا کہ،″ جہاں کام ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے، وہاں روپیہ نہیں، اور جہاں روپی

غلطی ہائے مضامین۔ آج کل رنگِ زباں کچھ اور ہے۔۔۔ از: ابو نثر

Bhatkallys Other

بازاری بول چال میں تو خیر بکراہت سن لیا کرتے تھے۔ مگر اب ادیبوں، افسانہ نگاروں اور مقبول کالم نویسوں کی تحریروں میں بھی اس قسم کے فقرے کراہ کراہ کر بالاکراہ پڑھنے پڑتے ہیں کہ ’آپ ایسا کرو… آپ کل آجاؤ … آپ دعوت اُڑاؤ … پھر آپ دفع ہوجاؤ‘۔ صاحبو! اُردو زبان کی اپنی تہذیب ہے۔ بزرگوں اور صاحبِ تعظیم افراد کو مخاطب کرنے کے لیے یا اُن کا ذکر کرتے ہوئے لفظ ’آپ‘ استعمال کیا جاتا ہے، اور ’آپ‘ کے ساتھ احتراماً تمام صیغے جمع کے لگائے جاتے ہیں۔ مثلاً حنیفؔ اسدی کی نعت کا یہ شعر دیکھیے:۔ زندگی باق

مولانا عامر عثمانی: مدیر تجلی دیوبند کا سفر حج (۳)۔۔۔ پیشکش: عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri Other

            نہ جانے کتنی ساعتیں اسی عالمِ رنگ و طلعت میں گزارنے کے بعد آخر کار ہم نے مولانا منیری سے کہا کہ اب ہمیں بتائیے کون ہمیں تلاش کر رہا تھا اور کہاں ہماری طلبی ہے؟             مولانا نے اس وقت اسی کرم جوشانہ رہنمائی کا مظاہرہ فرمایا جس سے اب تک نوازتے رہے تھے، فوراً اٹھے اور دالانوں سے گزار کر زینوں کی طرف لے چلے، یاد نہیں کتنی سیڑھیاں چڑھ کر ہم مسافر خانے ہی کے ایک بالائی کمر

مولانا عامر عثمانیؒ مدیر تجلی دیوبند کا سفر حج(۰۲) ۔۔۔ پیشکش ۔۔۔ عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri Other

            یہ مت سمجھئیے کہ بیت اللہ اور مسجد نبوی کو ہم پہلے کبھی دیکھ آئے ہیں، نہیں یہ سفر ہمارا پہلا ہی سفر تھا، تخیل کے اسکرین پر جو کچھ آیا وہ یا تو ان تصویروں کا عکس تھا جو ہم نے بچپن ہی سے اپنے گھروں اور بازاروں میں دیکھتے آئے ہیں یا پھر یہ ان کتابی معلومات کے ٹیلی ویژنی سائے تھے جنھیں ہم نے اور آپ نے زندگی میں نہ جانے کتنی بار پڑھا ہے، اسی لیے ان میں واقعیت کے ساتھ ساتھ افسانویت بھی موجود تھی، افسانویت کا ادراک ہمیں اس وقت ہوا جب جد

مولانا عامر عثمانیؒ مدیر تجلی دیوبند کا سفر حج(۰۱)۔۔۔ پیشکش۔۔ عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri Other

(۔( کورونا  کی مصبیت تو  آسمان پر اڑتے ہوئے بادل جیسی ہے،اس کا سایہ کبھی بھی  سروں پر سے ہٹ سکتاہے،  اسے دھیان میں رکھے بغیر آج کے زمانے میں دستیاب  سفر حج کی  سہولتوں  اور آسانیوں کو دیکھیں،تو محسوس کریں گے کہ  اس کا انداز ہ ۱۹۷۰ ء کی دہائی اور اس سے پہلے کے اس  زمانے سے قبل کے اسفار حج سے نہیں کیا جاسکتا، جب کہ  عازمین حج بیت اللہ کوٹہ سسٹم کے تحت قرعہ میں نام آنے کے بعد  سفر  کے قابل بن سکتے تھے ،  اس کے لئے ایک علحدہ حج پاس

سچی باتیں۔ نیا سال۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

1929-01-04 آفتاب اپنا سالانہ دورہ ایک اور ختم کرچکا۔ زمین اپنی سالانہ گردش کی ایک باری تمام کرچکی۔ اور خیر، آفتاب وزمین کی حرکتوں کے نظرئیے صحیح ہوں یا نہ ہوں، بہرحال یقینی ہے، کہ کاغذ کا یہ چھپنے والا پُرزہ اپنی جو عمر لے کرآیاہے، اُس میں ایک سال کے اور کمی ہوگئی۔ اِن سطور کے لکھنے والے کی مَوت ایک سال قریب آگئی، اور پڑھنے والوں کی مدت زندگی بھی ایک ایک سال اور گھٹ گئی۔ ملک کے سال سرکاری کا آغاز ہے۔ کتنی جگہ سال نو کا جشن مسرت منایا جارہاہے، اورکتنی جگہ سالگرہ کے ڈورے میں ہنستے اور کھلکھل

غلطی ہائے مضامین۔۔۔نکاح کر نہیں سکتی وہ مجھ فقیر کے ساتھ۔۔۔ ابو نثر

Bhatkallys Other

پچھلے دنوں ہمارے ملک کے اخبارات، جرائد، برقی ذرائع ابلاغ اور سماجی ذرائع ابلاغ میں ایک لرزہ خیز خبر کا بڑا چرچا رہا۔ یہ ’چرچا‘ بھی خوب لفظ ہے۔ اس کے صوتی آہنگ سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے بہت سے مرد وزن مل کر باہم ’چاؤں چاؤں‘ کررہے ہوں۔ ہندی الاصل لفظ ہے۔ معنی: لگاتار ذکر، شہرت، افواہ، بات پھیلنا وغیرہ۔ ’چرچا‘ ہندی میں مؤنث مگر اردو میں مذکر ہے۔ اکبرؔ کا مشہور شعر ہے:۔ ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا مگر یہاں تو چرچا ہی قتل کا تھا۔ ایک بڑے گھر ک

سفر حجاز۔۔۔(۳۹)۔۔۔ جدہ، جہاز۔۔۔از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

جملہ معترضہ ختم ہوا، کئی ورق کا طویل و عجیب۔ ”جملہ“ ۔اور صرف نحوی اصطلاح میں نہیں، اپنے لفظی معنی میں بھی ۔”معترضہ“ ۔ہی تھا اور معلموں کی چیرہ دستوں سے حاجیوں کو آگاہ اور خبردار کرنے کے لیے یہ جملہ معترضہ سفر نامہ کا ضروری جزو تھا، اب پھر اصل سفر کی داستان شروع ہوتی ہے۔ عشاء کا اول وقت شروع ہوچکا تھا، جب مجمع کو چیرتے ہوئے ہم سب لوگ اعرابیوں پر سوار، مکہ کی آبادی سے باہر اس مقام پر پہونچے جہاں روانگی کے لیے سواریاں ملتی ہیں، سوار پہنچ گئے لیکن سواری ندارد!۔ ساری رات میدان میں گزاری، کچھ وقت معلم

سچی باتیں۔۔۔ نواب وقار الملک کی زندگی سے سبق۔۔۔ از: عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys Other

1927-01-17 وقار الملک نواب مولوی مشتاقؔ حسین خاں بہادر منیر نواز جنگ مرحوم اسلامی ہند کی ایک ممتاز ترین ہستی ہیں۔ آپ سرسید مرحوم کے دستِ راست اور نواب محسن الملک مرحوم کے بعد علی گڑھ کالج کے سکریٹری مقرر ہوئے تھے۔ سر سالارؔجنگ مرحوم اور ان کے زمانہ ٔ مابعد میں بھی حیدرآباد میں نواب وقار الملک جہاد کا طوطی بول رہاتھا۔ اعلیٰ حضرت میرمحبوب علی خاں نظام مرحوم کو آپ پر بے انتہا اعتمادتھا۔ آپ اکثر اپنے وطن امروہہ ضلع مراد آباد آتے رہتے تھے۔ جب کبھی آپ اپنے وطن آتے تو وہاںکے ایک ایک باشندہ سے

غلطی ہائے مضامین۔سر کڑاہی میں۔۔ ابونثر 

Bhatkallys Other

2021-07-30 کالم نگار تو نہ پہنچا، اس کے کالموں کی کرنیں تاریک براعظم تک پہنچ گئیں۔ سو، براعظم افریقا کے انتہائی جنوب میں واقع خطے ’جنوبی افریقا‘ سے محترمہ ڈاکٹر آمنہ ڈار نے اس عاجز کے پچھلے کالم کے ایک املا پر گرفت فرمائی ہے۔ گزشتہ کالم میں ایک فقرہ یوں شائع ہوا تھا:۔ ناجائز کمائی سے پانچوں اُنگلیاں گھی میں ہوں اور سر کڑھائی میں…۔ ڈاکٹر صاحبہ یہ فقرہ پڑھ کرحیران ہوئیں کہ ’’پانچوں اُنگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں؟؟؟ یہ کڑھائی کہاں سے آگئی؟ کڑھائی تو کپڑے پہ کی جاتی ہے۔ محاورہ یہ ہے: پانچوں

سفر حجاز۔۔۔ (۳۸)۔۔۔ جملہ معترضہ۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

معلم عبدالقادر سکندر کے مظالم کا تذکرہ بار بار آچکا ہے عجب نہیں کہ بعض ناظرین اس تذکرہ سے اکتاگئے ہوں، لیکن حقیقتاً جو کچھ کہا جاچکا ہے، اس سے کہیں زیادہ وہ ہے جو نہیں کہا گیا ہے! ۔آپ بیتی کے یہ چند موٹے موٹے واقعات تھے جن کا ذکر ناگزیر تھا، باقی اگر وہ کل جزئیات لکھے جائیں جو ہم لوگوں کو پیش آکر رہےیا ہم نے دوسروں کو پیش آتے دیکھے اور کسی ایک پر نہیں بلکہ منشی امیر احمد صاحب علوی کاکوردی ڈسٹرکٹ جج نیمچ سے لےکر غریب سے غریب ہر طبقہ کے حاجیوں پر گزرتے دیکھے، اگر ان سب کو لکھا جائے تو یہ سفرنامہ،

مولانا نذر الحفیظ ندوی۔۔۔ایک مخلص مربی، و معلم کی جدائی (۰۲)۔۔۔ عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri Other

ندوے میں داخلہ ۔۱۹۵۵ء میں مولانا کا داخلہ ندوۃ العلماء میں ہوا، داخلے سے قبل آپ کے والد ماجد نے تمرین الصرف اور تمرین النحو خوب پڑھائی، ندوے۔ کے استاد مولانا ابو العرفان ندویؒ آپ کے والد کے شاگرد تھے، جن کی وجہ سے داخلہ میں دشواری نہیں ہوئی، مولانا عمران خان ندوی کا دور اہتمام تھا، ندوے میں طلبہ کی کل تعداد دو ڈھائی سو سے زیادہ نہیں تھی، مولانا حبیب الرحمن سلطانپوریؒ مصنف تمرین النحو نے آپ کا امتحان لیا، اور اول عربی میں داخلہ کی اجازت دے دی، مولانا عبد الماجد ندوی مصنف معلم الانشاء کے زیر

مولانا نذر الحفیظ ندوی۔۔۔ایک مخلص مربی، و معلم کی جدائی (۰۱)۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل

Abdul Mateen Muniri Other

عمر عزیز کے دن کس تیزی سے گزر جاتے ہیں اس کا پتا بھی نہیں چلتا، بات کل ہی کی لگتی ہے۔ ۲ جنوری۲۰۱۸ء کو بھٹکل میں رابطہ ادبِ اسلامی کا سیمینار جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے زیر اہتمام منعقد ہورہا تھا، مولانا نذرالحفیظ ندوی آخر کیوں کر اس میں شریک نہ ہوتے؟ سیمینار بھٹکل میں منعقد ہورہا تھا اور وہ بھی آپ کے مخدوم حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کی یاد میں۔ جامعہ آباد کے مہمان خانے کے پاس ہی ملاقات ہوگئی، بہت خوش ہوئے اور شکایتی لہجے میں کہنے لگے ’’مولانا آپ کا کالم ’رہنمائے کتب  کئی د

سفر حجاز۔۔۔(۳۷)۔۔۔رخصتی۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

 مدرستہ صولتیہ کا نام اور مجمل تذکرہ اوپر کئی بار آچکا ہے۔تمام ہندوستان میں پہلے سے مشہور ہے، مجمل تذکرہ نے دلوں میں اشتیاق بڑھادیا ہوگا، تفصیل کی نہ ان صفحات میں گنجائش نہ یہ اس کا محل لیکن یہ کہہ دینے اور آپ کے سن لینے میں کوئی حرج نہیں کہ سرزمین عرب پر ہندوستانیوں کے قائم کئے ہوئے مدارس میں سب سے زیادہ پرانی اور مشہور درسگاہ یہی ہے، مولانا رحمتہ اللہ کیرانہ ضلع مظفر نگر کے باشندہ ہنگامہ ۱۸۵۷ء سے قبل ہندوستان کے ایک نامور مناظر عالم تھے۔مشہور دشمن اسلام پادری فنڈر کو انہی نے میدان مناظرہ میں ش

سفر حجاز۔۔۔(۳۶)۔۔۔ حج رب البیت۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

لیجئے حج ختم ہوگیا، ارکان و اعمال حج ختم ہوگئے، طواف ہوچکا، عرفات میں حاضری ہولی، مزدلفہ میں رات کو رہ لیے، منیٰ میں کنکریاں پھینک چکے، قربانی کرچکے سر منڈاچکے، صفا و مروہ کے درمیان سعی کرلی، احرام پہن چکے جو حاجی نہ تھے، وہ اب حاجی ہوگئے۔۔۔۔۔کیا واقعتاً حج ہوگیا؟ کیا حقیقتاً اعمال حج ادا ہوچکے؟ رسماً صورۃً نہیں، معناً و حقیقتاً طواف و وقوف سعی و رمی، تلبیہ و قربانی کے فرائض و واجبات سے سبکدوشی ہو چکی؟ کیا جس کو دوستوں اور عزیزوں نے ”حاجی“ کہہ کر پکارنا شروع کردیا، وہ اللہ کے رجسٹر میں بھی ”حاجی

سفرحجاز۔۔۔(۳۵)۔۔۔ مکہ مکرمہ۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

مکہ                                                                                                                                                    مکہ کی آبادی شروع ہونے کے ساتھ ہجوم میں بھی اور اضافہ شروع ہوا یہاں تک کہ چلتے ہوئے اونٹوں کی رفتار رک گئی، اب قطار کی قطار رکی ہوئی کھڑی ہے اور ہر شخص طوعاً نہ سہی کرہاً رضا بہ قضا کی تصویر بنا ہوا! اور یہ ساری ”خوش انتظامی“ عین بیت الحکومت کے سامنے اور اردگرد، یعنی ولی عہد حجاز اور گورنر مکہ کے محل کے سایہ دیوار کے نیچے! گویا سعودی حکومت نے اپن

غلطی ہائے مضامین۔۔۔ گنتی میں بے شمار تھے کم کردیے گئے۔ از: ابو نثر

Bhatkallys Other

صاحبو!۔ یہ ذکرہے پچھلی صدی کی ساتویں دہائی کا۔ اور اے عزیزو! یہ نہ جانو کہ اِس دنیا میں بس ایک ہم ہی ’دقیانوس‘ رہ گئے ہیں۔ اب کے برس اکیس برس کی عمر کو پہنچ جانے والے یا اس سِن سے سِوا عمر جتنے لوگ ہیں، سب کے سب پچھلی صدی کے لوگ ہیں۔ پچھلی صدی کے ساتویں دَہے تک کا تو ہمیں ذاتی تجربہ ہے۔ ہمارے سرکاری مدارس میں ابتدائی جماعتوں سے ثانوی جماعتوں تک ذریعۂ تعلیم قومی زبان تھی۔ تمام مضامین اُردو میں پڑھائے جاتے تھے۔ علمِ ریاضی کا ریاض بھی ہم اردو ہی میں کرتے تھے۔ ریاضی کی تعلیم کا آغاز گنتی سکھانے

سفرحجاز۔۔۔(۳۴)۔۔۔منی بعد حج۔۰۳۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

حطیم کا ذکر پہلے آچکا ہے، خانہ کعبہ سے ملا ہوا وہ نیم مدور صحن جو مطاف کے اندر ہے اور جو حکماً خانہ کعبہ ہی کا ایک جزو ہے، اس میں نماز پڑھنا گویا خانہ کعبہ کے اندر نماز پڑھنا ہے۔طواف کرنے اور ملتزم سے لپٹ کر دعائیں مانگ چکنے کے بعد آج اطمینان سے حطیم کے اندر بھی حاضری کا موقع ملا جس کا جتنی دیر تک جی چاہا نمازیں پڑھیں اور دیوار کعبہ سے لگ لگ کر اور لپٹ لپٹ کر دعائیں مانگیں، کسی کسی نے دیوار و فرش کی خاک اٹھاکر بطور تبرک ساتھ لے لی۔ کہتے ہیں کہ مطاف میں اولیاء و قطاب و ابدال ہمیشہ حاضر رہتے ہیں،