Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















شکوہ اور جواب شکوہ۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
۔(مولانا دریا بادی کا یہ نشریہ ۲۱/اپریل ۱۹۴۳ء کو یوم اقبال کے موقع پر دہلی ریڈیو اسٹیشن سے نشرہوا تھا، موضوع اقبال کی مشہور نظم شکوہ اور جواب شکوہ ہے۔ اس میں دریابادی نے دونوں نظموں کا تجزیہ یا یوں کہیے کہ ان کا خلاصہ پانچ منٹ کے مختصر وقفہ میں اپنے مخصوص اور نہایت عالمانہ انداز میں پیش کیاہے۔ ڈاکٹر زبیر احمد صدیقی) "جو زبان خوگرتھی حمد و ثنا شکر و مناجات کی، وہ آخر اک بار گلہ و شکوہ پر کھلی ۔ یا یوں کہیے کہ کھلوائی گئی۔ آقا کا کرم جب خود ناز برداری پر آمادہ ہوجائے تو کون بندہ ہے جو ”نیاز“ کے ف
سچی باتیں۔۔۔ تقوی کی اہمیت۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1927-12-02 وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا (3) اور جو کوئی اللہ سے تقویٰ اختیار کرتاہے، اللہ اُس کے لئے کشائش پیداکردیتاہے، اور جہاں سے اُسے گمان بھی نہیں ہوتا، اُسے روزی دیتاہے، اور جو کوئی اللہ پر توکل رکھے، پس وہ اُس کے لئے کافی ہے، یقینا اللہ اپنا ہر کام پوراکرلیتاہے، اللہ نے ہرشے کا اندازہ ٹھہرا رکھاہے۔ یہ ک
مولانا عبد الباری فرنگی محلی۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
تحریر و تاثرات: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ، نشریہ لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن ۱۲جنوری ۱۹۵۰ء۔ (لکھنؤ کے مشہور عالم مولانا عبدالباری فرنگی محلی اپنے زمانہ کے شیخ طریقت تھے اور لکھنؤ کی تہذیبی و سماجی زندگی میں مخصوص مقام رکھتے تھے، کانگریس وتحریک خلافت کے لیڈروں سے مولانا کے خصوصی تعلقات تھے۔) "بات ۱۹۲۰ءکے آخر کی ہے یا شایدشروع ۱۹۲۱ء کی ۔ ایک روزسہ پہرکو دیکھتے کیا ہیں کہ موٹروں پر موٹریں آکر فرنگی محل کے پل پر رک رہیں ہیں، اورملک کے مشہور لیڈر ایک سے ایک اونچے اتر رہے ہیں ۔ یہ ٹھیک ہے کہ آج ش
سچی باتیں۔۔۔ دینی وعصری تعلیم۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1927-11-27 یہ بات تو کھری ہے ہرگز نہیں ہے کھوٹی عربی میں نظم ملّت، بی اے میں صرف روٹی لیکن جناب لیڈر یہ خبر سُن کے بولے بندھوائینگے یہ حضرت اس قوم کو لنگوٹی اس بات کو خدا ہی بس خوب جانتاہے کسی کی نظر ہے غائر کس کی نظر ہے موٹی حضرت اکبرؔ الہ آبادی کا کلام آپ نے بارہا سُنا ہوگا۔ اُن کے ان اشعار میں آپ کے نزدیک محض شاعری ہے! یا کچھ حقیقت بھی ہے؟ یہ شعر محض دل لگی کے لئے کہہ دئیے گئے ہیں، یا ان میں کوئی سچا مضمون بھی بیان ہواہے؟ عربی سے مُراد مذہبی تعلیم، اور بی ، اے سے مراد دنیوی تعلیم ہے
غلطی ہائے مضامین۔ ۔۔کٹھ حجتی ہو یا کٹ حجتی، ہیں دونوں بُری۔۔۔ ابو نثر
مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سابق صدر نشیں محترم مولانا مفتی منیب الرحمٰن صاحب حفظہٗ اللہ اپنے تازہ مکتوب میں رقم طراز ہیں ’’ہم ’کٹ حجتی‘ لکھتے اور بولتے رہے ہیں۔ ریختہ میں بھی ہم نے دیکھا تو کٹ حجتی ہی ہے۔ ’’کٹ حجتی‘‘ کے معنی ہیں: ’’خواہ مخواہ کی بحث، بحث برائے بحث،اپنی بات پر اڑنا، ضد سے کام لینا، بے جا حجت‘‘۔ لیکن جناب ابونثر نے ’’کٹھ حجتی‘‘ لکھا ہے، آیا یہ زیادہ فصیح ہے یا کاتب کی غلطی ہے؟‘‘ ( ہفت روزہ ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ ۳ دسمبر ۲۰۲۱ء) سب سے پہلے تو ہم محترم مفتی صاحب کا تہِ دل سے شکریہ ادا ک
بات سے بات: رسائل ومجلات کی اہمی۔۔۔ عبد المتین منیری۔ بھٹکل
ایک دوست کی پوسٹ پر کہ ہمارے مفتی صاحب کا جواب آیاہے کہ : ((رسالوں كي جگه كوئي تفسير جلالين، روح المعاني، المظهري ،ابن كثير ،كشاف، فتح الباري، عمدة القاري، ہدایہ ،فتح القدير، يا كافية، الفية و غيره كا مطالعه بہت ہی مفید ہوگا)) مفتی صاحب ہمارے محترم ہیں، آپ اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں، جو پانچ دس بنیادی کتابوں اور مراجع کو دانتوں میں دبائے رکھتی ہے، اس میں شک نہیں کہ مفتی صاحب دین کا بڑا گہرا علم رکھتے ہیں، اور جو مذکورہ بالا بلند معیا
ایک خوبصورت نائطی شاعر اور مخلص انسان۔۔۔ عبد اللہ رفیق محتشم
آج علی الصبح جناب عبد اللہ رفیق محتشم صاحب کی رحلت کی خبر نے مغموم کردیا ، آپ کی رحلت سے ہمارا معاشرہ ایک بے باک اور مصلحت سے بلند انسان سے محروم ہوگیا، مرحوم نائطی زبان کے ایک کہنہ مشق شاعر تھے، اور صاف ستھرے افکار اپنی شاعری میں ڈھالتے تھے، ہمارے خیال میں آپ کی شاعری میں طنزیہ پہلو حاوی تھا، یہ پہلو آپ کی شخصیت میں بھی رچا بسا تھا، یہ پہلو جب کسی شاعرو ادیب کے کے افکار وخیالات کا حصہ بنتا ہے، تو معاشرے کی برائیوں کے لئے نشتر کا کام دیتا ہے،اس سے اصلاح کا کام ب
کیا ’اومیکرون‘ ہندوستان میں کورونا کی تیسری لہر کا سبب بنے گا؟
نئی دہلی: دنیا میں کورونا کے نئے ویرینٹ ’اومیکرون‘ نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا ہے۔ 24 نومبر کو اومیکرون کے پہلے کیس کی تصدیق ہوئی تھی اور اس کے بعد صرف دس دنوں میں ہی یہ تقریباً 40 ممالک میں پھیل چکا ہے۔ اب تک دنیا بھر میں اس کے تقریباً 400 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ اومیکرون کا پہلا کیس جنوبی افریقہ میں پایا گیا تھا، جہاں اب تک 183 افراد اس ویرینٹ سے متاثر ہو چکے ہیں۔ اس کے بعد بوتسوانا میں سب سے زیادہ 19 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ برطانیہ میں 32 اور نیدرلینڈز میں 19 کیسز کی تصدیق کی جا چک
سچی باتیں ۔۔۔کیا یہ بزدلی اور پست ہمتی ہے۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1927-11-18 ’’صحابۂ کرام کے دلوں میں قیامت کا خوف اس قدر سماگیاتھا، کہ اس کے ڈرسے ہروقت کانپتے رہتے تھے۔ ایک بار دفعۃً اندھیرا ہوگیا۔ ایک صاحب نے حضرت انس بن مالک سے پوچھا، کیا عہد نبوت میںبھی ایسا ہوتاتھا، بولے، معاذ اللہ، اگر ہوابھی تیز ہوجاتی تھی ، توہم سب قیامت کے ڈرسے مسجد کی طرف بھاگ دوڑتے تھے‘‘۔ (اسوہ صحابہ، مولوی عبد السلام ندویؒ ، جلد ، ص: ۱۲۹)‘‘۔ صحابۂ کرام پر وقائع اُخروی کے ذکر سے رقت طاری ہوہوجاتی تھی، بیہوش ہوہوجاتے تھے، گرگرپڑتے تھے‘‘۔ (ایضًا) ’’قبر، سفرآخرت کی پہلی منزل ہے،
غلطی ہائے مضامین۔۔۔ رسوم و قیود کا نشئی۔۔۔ - ابو نثر
ادبی محفل سجی ہوئی تھی۔ یکایک اُردو کے ایک گراں قدراور’گزیٹڈ‘ استاد اُٹھے اور گرج گرج کر اقبالؔ کی نظم ’شکوہ‘ سنانے لگے۔ ابھی پہلا ہی مصرع پڑھاتھا کہ ہم نے سر پیٹ لیا۔ حالاں کہ موقع ’سرپیٹ دینے‘ کا تھا۔ مصرع انھوں نے کچھ اس طرح پڑھا: کیوں زیاں کار بنوں ’’سُودے فراموش‘‘ رہوں صاحبو!آج کل معانی جانے بغیر پڑھنے اور بولنے کا رواج ہوگیا ہے۔ لسانی لطیفے اسی وجہ سے سرزد ہوتے ہیں۔ بہت عام ہوتی جارہی ہے یہ وبا کہ جہاں دو الفاظ جُڑے دیکھے جھٹ اُن میں سے پہلے کو زیر کردیا۔ دو ہی پر کیا منحصر؟ تین الفاظ س
سچی باتیں۔۔۔ عمل میں پیروی۔۔۔مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1927-11-11 ’’آپ خاتم الانبیاء تھے، افضل رسل تھے، محبوب خاص تھے، تاہم خشیۃ الٰہی کا یہ اثرتھا، کہ فرمایا کرتے کہ مجھکو کچھ نہیںمعلوم کہ میرے اوپر کیا گزرے گی‘‘۔ (سیرۃ النبی ، مولانا شبلی، حصہ دوم، ص: ۲۲۱)۔ آپ کو بھی اپنے انجام سے متعلق کوئی فکروتشویش پیداہوتی ہے، یاآپ کو اپنے متعلق اطمینان ہے، کہ جس طرح آج چَین سے گزررہی ہے، اِسی چین اور بیفکری کے ساتھ ہمیشہ گزرتی رہے گی؟ ’’جب کبھی زور سے ہواچلتی، آپؐسہم جاتے۔ کسی ضروری کام میں ہوتے، اُس کو چھوڑ کر قبلہ رُخ ہوجاتے، اور فرماتے، خدایا، تی
غلطی ہائے مضامین۔۔۔ خود بدلتے نہیں۔۔۔ ابو نثر
خود بدلتے نہیں کہنے والے کہا کیے کہ لکھنے والو پڑھا کرو۔ پَر لکھنے والے لکھا کیے اور لکھتے لکھتے ہنسا کیے کہ ’’پڑھنے کی ایسی تیسی‘‘۔ پس، اگلے وقتوں کے اے لوگو! آگاہ رہو، یہ وقت برقی ذرائع ابلاغ کا ہے۔ ہر شے کا ابلاغ بڑی برق رفتاری سے ہورہا ہے۔ علم کا بھی اور لاعلمی کا بھی۔ ’تیار مال‘ میسر ہو تو پڑھنے میں کون سر کھپائے؟ وہاں سے نقل کرو، یہاں چسپاں کردو۔ اللہ اللہ خیر صلّا۔ تحقیق ہوگئی۔ سند مل گئی۔ محقق کہلانے لگے اور لوگ ’ڈاک صاب، ڈاک صاب‘ کہہ کر بُلانے لگے۔ اب سے گیارہ دن قبل سعودی
شیر میسور ٹیپو سلطان: ہم نے بھی کی ہے اک دن گلشن کی آبیاری...یومِ پیدائش پر خاص۔۔۔از: آفتاب احمد
ہندوستان کی تاریخ آزادی کا ایک عظیم کردار، جنھیں دنیا بین المذاہب ہم آہنگی کے نقیب اور جذبۂ حریت کے پیکر شیر میسور ٹیپو سلطان کے نام سے جانتی ہے۔ سلطان ٹیپو کا شمار ان مظلوم مجاہدین آزادی میں ہوتا ہے جنھیں آج کی فرقہ وارانہ سیاست ایک مخصوص عینک سے دیکھتی ہے اور اپنے سیاسی مفادات کی خاطر انھیں ہندو دشمن قرار دے کر ان تمام قربانیوں پر نفرت کی سیاہی پوت دیتی ہے۔ ایسے میں عدل اور انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ مادر وطن کے اس عظیم فرزند کی جدوجہد آزادی کا تذکرہ بار بار کیا جائے تاکہ ہماری آ
سچی باتیں۔۔۔ راہ خداوندی میں خرچ۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1927-11-04 الشیطان یعدکم الفقر ویأمرکم بالفحشاء واللہ یعدکم مغفرۃ منہ وفضلا، واللہ واسع علیم۔ شیطان تمہیں تنگدستی سے ڈراتاہے، اور تمہیں بخل کا حکم دتیاہے، اور اللہ تمہیں اپنی طرف سے بخشش اور فضل کا وعدہ دیتاہے، اور اللہ کشائش والا علم والاہے۔ آیۂ بالا سورۂ بقرہ رکوع ۷ ۳ میں واقع ہوئی ہے۔ اوپر سے مضمون یہ چلا آرہاہے، کہ مسلمانوں کو رسم ورواج کی مد میں، ریا ونمائش ، جاہ و نفس کی راہ میں، خرچ کرنے سے بچنا چاہئے، اور اپنی دولت، اللہ کی رضاجوئی کے لئے، نیک کاموں میں خرچ کرنا چاہئے، اوراس خرچ
سچی باتیں۔۔۔ روز قیامت کون کام آئے گا؟۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
اگرآپ سرکاری عہدہ دار ہیں، توآپ کو سب سے زیادہ فکرکاہے کہ رہتی ہے؟ اسی کی، کہ آپ کے افسر آپ کی بابت بہترسے بہتر رائے قائم کریں۔ اگرآپ قومی کارکُن ہیں، تودھُن اس کی سوار رہتی ہے، کہ آپ کا استقبال ہر جگہ دھوم دھام سے کیاجائے، اور آپ کہ ہر تقریر کی داد میں تالیوں کا شوربلند ہو۔ اگر آپ کسی اخبار کے ایڈیٹر ہیں، توآپ کی نظر ہر لمحہ اسی پر رہتی ہے، کہ آپ کہ ہر رائے کی تائید سے مُلک گونج اُٹھے، اور جو لفظ آپ کے قلم سے نکلے، اُسے قوم وحی والہام سے بھی بڑھ کر قرار دے۔ اگرآپ کتابوں کے مصنف ہیں،
غلطی ہائے مضامین۔۔۔ جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد۔۔۔ ابو نثر
غلطی ہائے مضامین۔۔۔ جس مال کے تاجر تھے، وہی مال ندارد ابو نثر Http://www.bhatkallys.com/ur/author/abunasr/ میاں چنوں سے میاں امجد محمود چشتی نے سوال اُٹھایا ہے: ’’ایک لفظ ہے’مَغوی‘۔ ہم تو پیدا ہوتے ہی سننے لگے تھے کہ یہ لفظ مفعول کے طور پر استعمال ہوتا ہے، یعنی وہ شخص جو اغوا ہوجاتا ہے۔ مگر جب لغت سے رجوع کرتے ہیں تو وہاں یہ لفظ اغوا کار کا مطلب دے رہا ہوتا ہے، اغوا کرنے والا۔ یہ تو بالکل ہی اُلٹ ہوگیا۔ اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیے‘‘۔ ارے صاحب! اِغوا کا تو مطلب ہی گمراہ کرنا ہے، اس سلسلے
نقوش پا کی تلاش میں ۔ گجرات کا ایک مختصر سفر(۱۱) ۔ ۔۔ بروڈا
عبد المتین منیری۔ بھٹکل 00971555636151 آج ۱۷ ستمبر اور جمعہ کا دن تھا اوریہ ہمارے گجرات کے سفر کا آخری دن ، ہمارا قافلہ احمد آباد سے بروڈا کی طرف روانہ ہوا، اب اس شہر کا نام بدل کر مقامی لہجہ میں بروڈرا کیا گیا ہے۔ اٹھارویں صدی میں مراٹھا خاندان گائیکواڈ کی گجرات کے ایک حصہ پر حکمرانی رہی تھی۔ اور ۱۷۳۲ ء میں یہ اس سلطنت کی راجدھانی بنا تھا۔ بروڈا ہم دوپہر دوبجے کے آس پاس پہنچے، جہاںہمارے گروپ ممبر مولانا عطاء الرحمن بروڈوی صاحب آنکھیں بچھائ
مدارس کے نصاب میں تبدیلی نہیں اضافہ کی ضرورت!۔۔۔از:نقی احمد ندوی
مدراس کے نصاب میں تبدیلی کی آوازیں ہمیشہ اٹھتی رہی ہیں، اس موضوع پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں اور بہت ساری کانفرنسیں اور ورکشاپ منعقد ہوتے رہے ہیں، مگر میرے خیال میں تبدیلی سے زیادہ کچھ اضافہ کی ضرورت ہے، اگر تین نقاط پر عمل کیا جائے تو ہمیں اپنے نصاب میں بغیر کوئی تبدیلی کئے بہت مفید نتائج حاصل ہوسکتے ہیں، مدارس کے ذمہ داران اگر ان تینوں امور پر تھوڑی سی پیش قدمی کریں تو صرف چند سالوں میں اس کے خوشگوار اثرات نظر آنے شروع ہوجائیں گے۔ پہلی بات یہ کہ مدارس سے فارغ ہونے والے طلباء کی اسی فیصد ت