Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















سچی باتیں۔۔۔ نزول قرآن کا مقصد۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1930-01-03 ’’روشن خیال‘‘ طبقہ میں غلغلہ برپاہے، کہ قرآن ایک نہایت صاف، سادہ، وآسان کتاب ہے، مولویوں اور مُلّاؤں نے خواہ مخواہ اسے مشکل سمجھ رکھا، اور سمجھا رکھاہے۔ ’’تعلیم یافتہ‘‘ گروہ نے طے کرلیاہے، کہ قدیم مفسرین کے پیداکئے ہوئے ’’ڈھکوسلوں‘‘ سے آزاد ہوکر بغیر کسی اور کی وساطت کے براہِ راست خود ہی قرآن سمجھ لیا کریں گے، اور ہر مقرر ، ہر خطیب، ہر واعظ، ہر لکچرار، ہر مضمون نگار، ہر اڈیٹر، ہرانشاء پرداز، ہراہل قلم نے اپنی جگہ پریہ سمجھ رکھاہے، کہ قرآن کو جس طرح دل چاہے سمجھ لیا کریں گے، جس
یوگی آدتیہ ناتھ: آگے کنواں پیچھے کھائی... سہیل انجم
پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات پر پوری دنیا کی نظریں ہیں۔ بالخصوص اترپردیش کے الیکشن کو بڑی توجہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اترپردیش ایک ایسی ریاست ہے جو دہلی کی حکومت بناتی اور بگاڑتی ہے۔ یعنی جس نے یو پی کو فتح کر لیا وہ فاتح دہلی ہو گیا۔ مرکزی حکومت اس کے زیر نگیں آگئی۔ پورے ملک پر اس کا قبضہ ہو گیا۔ یوپی اسمبلی انتخابات کو 2024 کے پارلیمانی انتخابات کا سیمی فائنل سمجھا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ پوری بی جے پی بلکہ پوری حکومت یو پی کے قلعے
ایک چراغ اور بجھا۔۔۔ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری ی
مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کے انتقال کی رحلت نے واقعی غمزدہ کردیا، آپ کی عمر اندازا پچانوے کے قریب تھی،آپ اور مولانا محمد سالم قاسمیؒ، مولانا سید اسعد مدنیؒ،مولانا سلیم اللہ خانؒ اور مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتھم ہم جولی وہم درس تھے، ان کی حیثیت قوس قزح کے رنگوں کی تھی، جن میں سے اب ایک ہی رنگ باقی نظر آرہا ہے، اللہ آپ کا سایہ تادیر قائم رکھے، کیونکہ اب آپ کی بھی عمر ( ۹۳) بہاروں کو متجاوز کررہی ہے۔ ۔۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کی دہائی مولانا عتیق الرحمن مرحوم کی شہرت اور ع
سچی باتیں۔۔۔ مولانا عین القضاۃ فرنگی محلی۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1929-02-22 سیکڑوں برس اُدھر نہیں، اِسی بیسویں صدی عیسویں میں، اور کہیں بہت دُور نہیں، اسی شہر لکھنؤ میں ایک مشہور متقی ومرتاض بزرگ مولانا عین القضاۃؒ تھے، جن کی وفات ۱۹۲۵ء میں ہوئی ہے۔آپ نے تجدیدِ قرآن وعلم دین کا ایک بہت بڑا مدرسہ ، مدرسۂ فرقانیہ کے نام سے قائم فرمایا تھا، جو اب تک چل رہاہے۔ سیکڑوںطلبہ، بیسیوں اساتذہ، بہت بڑی عمارت، استادوں کی اچھی معقول تنخواہیں، انگریزی کالجوں اور اسکولوں کے بالکل برخلاف، طلبہ سے فیس لینا الگ رہا، اُلٹی خود اُنھیں کے مدرسہ کی طرف سے کھانے اور کپڑے، بلکہ
تبصرات ماجدی(۱۳۱)۔۔۔ اردو ۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادی
*(131) اردو* از جگن ناتھ صاحب آزاد 24صفحہ، قیمت چھ آنے، دہلی کتاب گھر، دہلی۔ نثر نہیں نظم ہے، ایک ہندو شاعر کی زبان سے چند سال قبل کی کہی ہوئی، لیکن حال میں دھرائی ہوئی، شاعر اب لاہوری نہیں 1947 کے خونیں واقعات کے بعد سے دہلوی ہیں، اپنا لٹا پٹا تحریری سرمایہ وطن سے لاسکے ہوں یا نہیں لیکن بڑی بات یہ ہے کہ اپنی شرافت کا سرمایہ تمام تر لیتے آئے ہیں – کلام آپ سنیں گے؟ سنا ہے ہند پر یوں حکمراں تھی آل تیموری کہ ملک ایک جسم تھا اور اس میں جاں تھی آل تیموری یہ تھا دور آدمیت کا شرافت کا مروت کا وط
غلطی ہائے مضامین ۔۔۔غوغائے رقیباں۔۔۔ ابو نثر
پچھلے ہفتے کی بات ہے، ایک عزیز دوست نے مشورہ دیا:۔ ’’حضور! اُردو میں استعمال ہونے والے فارسی محاوروں کی طرف بھی توجہ دیجیے‘‘۔ عرض کیا: ’’حضرت! یہاں تو اُردو محاوروں ہی کی مت ماری جارہی ہے، آپ کو فارسی کی پڑی ہے‘‘۔ مگر اتفاق سے اُسی دن اُردو صحافت کے ایک مردِ صالح کی تحریر میں ایک فارسی محاورہ یوں لکھا نظر آگیا: ’’صحبتِ طالع تُرا طالع کُند، صحبتِ صالح تُرا صالح کُند‘‘۔ جب اُردو ہی سے ناواقفیت میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے، تو اب فارسی کوکیا روئیں؟ ’طالع‘ تو اُردو میں بھی استعمال ہوتا ہے
بات سے بات: آسان تفسیر کی تلاش۔۔۔ عبد المتین منیری۔ بھٹکل
آج کاروار سے مفتی سلیمان قاسمی صاحب نے اس جانب توجہ دلائی ہے کہ:۔ "رمضان المبارک کا مہینہ قریب ت۔خدا نہ کرے کہ وہ مبارک ایام حصار کے ہوں۔رمضان کے پیشِ نظر عوام الناس میں قرآن فہمی پیدا کرنے کے لئے بہترین اور آسان جامع و مختصر ترجمہ قرآن یا تفسیر قرآن کونسی ہے؟" اس سلسلے میں احباب نے کئی ایک تراجم قرآن کی جانب رہنمائی فرمائی ہے، جن کے ہم مشکور ہیں، لیکن چونکہ اس محفل میں فارغین مدارس اور علماء کرام کی اکثریت ہے ، تو اس سلسلے میں ان سے کچھ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ۔ ماہ رمضان
سچی باتیں۔۔۔روز جزاء۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1929-01-25 کلام مجید کے تیسویں پارہ کے وسط میں سورۂ غاشیہؔ ہے، جس میں قیامت کا بیان ہے۔ اس کے شروع میں آتاہے۔،۔ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ (2) عَامِلَةٌ نَاصِبَةٌ (3) تَصْلَى نَارًا حَامِيَةً (4) کتنے چہرے ہیں، جو اس روز ذلیل وخوار ہوں گے، محنت کرنے والے تھکے ماندے، پڑیں گے جلتی ہوئی آگ میں۔ چہرہ سے ظاہر ہے کہ مراد اشخاص ہیں۔ یہ محنت کرنے والے تھکے ماندے اشخاص اُس روز کون ہوں گے؟ اس کے جواب میں ، صحیح بخاری میں حضرت ابن عباسؓ کا قول ملتاہے وقال ابن عباس عاملۃ ناصبۃ ،النصاری (کتاب التف
غلطی ہائے مضامین۔۔۔ کچھ رس بھری باتیں۔ ابو نثر
ایک ماہر اور مشّاق صحافی دوست نے پوچھا ہے: ’’رس بھری زبان کیسے لکھی جائے؟‘‘ غالباًوہ جاننا چاہتے ہیں کہ تحریر میں زبان کا رس کیسے آئے؟ ورنہ ’رس بھری‘ توایک نہایت خوش ذائقہ اور خوش رنگ پھل کا نام ہے۔ زرد رنگ کا یہ رسیلا پھل سبز پتیوں کے غلاف میں لپٹا ہوتا ہے۔ یہی پھل انگلستان پہنچا تو وہاں اپنا نام “Raspberry” رکھ لیا۔ زبان تو ’رس بھری‘ کا رس چاٹ سکتی ہے یا اس کے مزے لوٹ سکتی ہے۔ لکھنے کے لیے رائج الوقت اوزار ہی استعمال کرنے پڑیں گے۔ ہماری قومی زبان بھی رسیلی زبان ہے۔اس میں بڑا رس ہے۔ مگر قومی
بات سے بات۔۔۔ عربی زبان کی مہارت کا مسئلہ۔۔۔ عبد المتین منیری۔ بھٹکل
آکسفورڈ سے ڈاکٹر محمد اکرم ندوی صا حب کا ایک مراسلہ نظر سے گذرا ، جس میں آپ نے نئی زبان سیکھنے کے سلسلے میں مشوروں سے نوازا ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں اپنے بھی کچھ تاثرات رکھےجائیں۔ ۔ زبانیں کئی ایک مقاصد سے سیکھی جاتی ہیں، اور ہر مقصد کے لئے اسے سیکھنے کا طریقہ مختلف ہوتا ہے، لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ زبان جاننے کا مطلب یہ ہے کہ اسے آسانی سے سمجھنے، طلاقت کے ساتھ بولنے، سلاست کے ساتھ لکھنے کی صلاحیت اس طرح پیدا ہوا کہ
تجربات و مشاہدات(۵۰)۔ موسوعہ فقہیہ كا اردو ترجمہ... ڈاکٹر بدر الحسن قاسمی
”كویت“ جسے خلیج كے گوہر ِتاباں كا نام دیجیے یا لالۂ صحرا كے لقب سے اسے یاد كیجیے، اس كی ایك شناخت تو وہ ہے جس نے دنیا كے سو سے زائد ملكوں اور قومیتوں كے لاكھوں لوگوں كو حصولِ رزق كے لیے كشاں كشاں وہاں پہنچا دیا ہے؛ جن میں کئی لاكھ تو صرف ہندوستانیوں كی تعداد ہے۔ (كرونا كی آفت سے پہلے یہ تعداد تقریباً ۹/ لاكھ تك پہنچ گئی تھی) كویت كا نام آتے ہی پٹرول كے ذخائر، دولت كی ریل پیل، فلك بوس عمارتوں، خوشنما كاروں اور جدید سہولتوں سے آراستہ مقامات كا تصور ذہنوں میں آتا ہے، جس كا محل وقوع، جس كا قابل رش
بات سے بات: پرانی کتابوں کی قدروقیمت۔۔۔ عبد المتین منیری۔ بھٹکل
چند روز قبل بچوں کے لئے ایک خوبصورت کتب خانہ کا افتتاح ہوا، نوجوان اساتذہ نے اسے مزین کرنے کے لئے خوب محنت کی، اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس نئے کتب خانہ میں پھٹی پرانی کتابیں اچھی نہیں لگتیں، کتب خانے کی خوبصورتی اس سے متاثر ہوتی ہے، لہذا انہیں نکال کرنئی کتابوں سے الماریاں بھری جائیں، یہ ان کی ایسی فرمائش تھی ، جو ظاہری طور پر درست بھی لگتی تھی۔ہم نے انہیں پرانی کتابوں کی حفاظت کرنے کی رائے دی، معلوم نہیں انہیں پسند آئی بھی یا نہیں۔ پرانی کتابوں کو ضائع کرنے کا رویہ اب عام ہو
سچی باتیں۔۔۔ شہرت کی خواہش۔ ۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1929-01-11 خویش را رنجور سازی زارزار تاترا بیروں کنند از اشتہار اشتہارِ خَلق سدِّ محکم است در رہ ایں از بندِ آہن کے کم است حضرت مولانائے رومؒ فرماتے ہیں، کہ اپنے کو ایسا حقیر وخوار دُنیا کی نظروں میں بنالو، کہ نہ کہیں تمہاری پُرسش ہو، نہ کہیں تمہارے چَرچے ہوں۔ تمہاری روحانی واخلاقی زندگی کی راہ میں اصلی روک یہی شہرتِ خَلق ہے، راہِ وصول میں اِسے لوہے کی دیوار سے کم نہ سمجھو۔ یہ تعلیم رومیؒ کی تھی، یہ
غلطی ہائے مضامین۔۔۔ میزان عدل، تیرا جھکاؤ ہے جس طرف۔۔۔ ابونثر
وطنِ عزیز میں واویلا مچا ہوا ہے کہ ’’مِنی بجٹ‘‘ آگیا۔ ہر گھر کا ’’بجٹ‘‘ درہم برہم ہوگیا ہے۔ ایک یارِ عزیز اِسے ’’مُنّی بجٹ‘‘ پڑھنے پر مصر تھے۔ اُن سے عرض کیا کہ آپ کا اصرار سر آنکھوں پر، مگر ایسی صورت میں ہمیں ’’مُنّی بجٹ‘‘ آگئی کہنا پڑے گا۔ اور اندیشہ ہے کہ اِس بجٹ سے آپ کا اتنا پیار دیکھ کر لوگ کہیں آپ کو سنگسار کرنے نہ اُٹھ کھڑے ہوں۔ بات سمجھ میں آگئی۔ ڈر کربولے کہ پھر ہم اُردو میں اسے کیا کہیں؟ عرض کیا ڈریے نہیں، بجٹ کے لیے اُردو میں ایک خوش آواز لفظ ’’میزانیہ‘‘ موجود ہے۔ آپ اِسے ’
پی ڈیف کتابوں کا ایک مفید ای ریڈر۔۔۔ عبد المتین منیری۔۔۔ بھٹکل
دو عشروں سے جب سے پی ڈیف کتابوں کی اشاعت انٹرنٹ پر عام ہوئی ہے، اس خوف سے کہ کہیں یہ کتاب دوبارہ نہ ملے، انہیں ڈون لوڈ کرنے کا ایک ہوکا سا لگا ہوا ہے۔ کتابوں کے اکٹھے کرنے میں وقت اور محنت جتنے لگتے ہیں، انہیں دیکھ کر کبھی محسوس ہوتا کہ یہ تو باربرداری کا کام ہے، کیونکہ جس طرح ہمیں کتابیں پڑھنے کی عادت ہے اس طرح یہ کتابیں پڑھنے کی سہولت میسر نہ تھی، کمپوٹر، لیپ ٹوپ، موبائل اور ٹیبلیٹ پر چند منٹ کے لئے تو انہیں دیکھا جاسکتا ہے، لیکن کتابیں پڑھنے کے لئے ان آلات کی اسکرینوں پر آنکھیں جمانا
بات سے بات: قرآن پاک میں دوسری زبانوں کے الفاظ
ہمارے مولانا مفتی محمد حذیفہ وستانوی صاحب انٹرنٹ کے غواص ہیں، بے پناہ انتظامی ذمہ داریوں اور اسفار کے ساتھ ساتھ علم وادب سے اپنا تعلق باقی رکھے ہوئے ہیں، اور نت نئی چیزیں تلاش کرکے اس خوان میں پیش کرتے رہتے ہیں، آج انہوں نے کلمات قرآنیہ کے اشتقاق پر عرب دنیا سے شائع شدہ دو کتابوں (التحقیق فی کلمات القرآن الکریم۔ حسن الموسوی ) اور ( المعجم الاشتقاقي المؤصل لألفاظ القرآن الكريم۔ محمد حسن جبل ) کے موازنہ پر مشتمل ایک مقالہ پوسٹ کیا ہے، التحقیق کے مصنف ایرانی نژاد شیعہ ہیں، اور الم
سچی باتیں۔۔۔نیا سال۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1929-01-04 آفتاب اپنا سالانہ دورہ ایک اور ختم کرچکا۔ زمین اپنی سالانہ گردش کی ایک باری تمام کرچکی۔ اور خیر، آفتاب وزمین کی حرکتوں کے نظرئیے صحیح ہوں یا نہ ہوں، بہرحال یقینی ہے، کہ کاغذ کا یہ چھپنے والا پُرزہ اپنی جو عمر لے کرآیاہے، اُس میں ایک سال کے اور کمی ہوگئی۔ اِن سطور کے لکھنے والے کی مَوت ایک سال قریب آگئی، اور پڑھنے والوں کی مدت زندگی بھی ایک ایک سال اور گھٹ گئی۔ ملک کے سال سرکاری کا آغاز ہے۔ کتنی جگہ سال نو کا جشن مسرت منایا جارہاہے، اورکتنی جگہ سالگرہ کے ڈورے میں ہنستے اور کھلکھل
غلطی ہائے مضامین۔۔۔ دن گنے جاتے تھے اس دن کے لئے۔۔۔ ابو نثر
یہ لیجیے سال کا آخری دن بھی آن لگا۔ آج ۳۱ دسمبر ۲۰۲۱ء ہے،کل یکم جنوری ۲۰۲۲ء ہوگی۔ یعنی کل سنہ تبدیل ہو جائے گا۔ کچھ لوگوں کے سِن بھی بدل جائیں گے۔ ہمارے جو دانش وَر صرف انگریزی زبان کو اُردو زبان پر مسلّط کیے رکھنے کے پُرجوش حامی ہیں وہ نوٹ فرمائیں کہ اُردو نے انگریزی کے لفظ ’جِینُوَری‘ (January)کی تارید کر کے، یعنی اسے اُردو کا(پا) جامہ پہنا کر اس کا تلفظ جَنْوَری‘ کر لیا ہے۔ یہ بھی نوٹ کریں کہ انگریزی کا لفظ ‘Note’ تلفظ کی کسی تبدیلی کے بغیر ہی جوں کا توں اپنا لیا گیا ہے۔ ’یاد داشت، ’لکھ لی