Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















بات سے بات: آسان تفسیر کی تلاش۔۔۔ عبد المتین منیری۔ بھٹکل
آج کاروار سے مفتی سلیمان قاسمی صاحب نے اس جانب توجہ دلائی ہے کہ:۔ "رمضان المبارک کا مہینہ قریب ت۔خدا نہ کرے کہ وہ مبارک ایام حصار کے ہوں۔رمضان کے پیشِ نظر عوام الناس میں قرآن فہمی پیدا کرنے کے لئے بہترین اور آسان جامع و مختصر ترجمہ قرآن یا تفسیر قرآن کونسی ہے؟" اس سلسلے میں احباب نے کئی ایک تراجم قرآن کی جانب رہنمائی فرمائی ہے، جن کے ہم مشکور ہیں، لیکن چونکہ اس محفل میں فارغین مدارس اور علماء کرام کی اکثریت ہے ، تو اس سلسلے میں ان سے کچھ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ۔ ماہ رمضان
سچی باتیں۔۔۔روز جزاء۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1929-01-25 کلام مجید کے تیسویں پارہ کے وسط میں سورۂ غاشیہؔ ہے، جس میں قیامت کا بیان ہے۔ اس کے شروع میں آتاہے۔،۔ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ (2) عَامِلَةٌ نَاصِبَةٌ (3) تَصْلَى نَارًا حَامِيَةً (4) کتنے چہرے ہیں، جو اس روز ذلیل وخوار ہوں گے، محنت کرنے والے تھکے ماندے، پڑیں گے جلتی ہوئی آگ میں۔ چہرہ سے ظاہر ہے کہ مراد اشخاص ہیں۔ یہ محنت کرنے والے تھکے ماندے اشخاص اُس روز کون ہوں گے؟ اس کے جواب میں ، صحیح بخاری میں حضرت ابن عباسؓ کا قول ملتاہے وقال ابن عباس عاملۃ ناصبۃ ،النصاری (کتاب التف
غلطی ہائے مضامین۔۔۔ کچھ رس بھری باتیں۔ ابو نثر
ایک ماہر اور مشّاق صحافی دوست نے پوچھا ہے: ’’رس بھری زبان کیسے لکھی جائے؟‘‘ غالباًوہ جاننا چاہتے ہیں کہ تحریر میں زبان کا رس کیسے آئے؟ ورنہ ’رس بھری‘ توایک نہایت خوش ذائقہ اور خوش رنگ پھل کا نام ہے۔ زرد رنگ کا یہ رسیلا پھل سبز پتیوں کے غلاف میں لپٹا ہوتا ہے۔ یہی پھل انگلستان پہنچا تو وہاں اپنا نام “Raspberry” رکھ لیا۔ زبان تو ’رس بھری‘ کا رس چاٹ سکتی ہے یا اس کے مزے لوٹ سکتی ہے۔ لکھنے کے لیے رائج الوقت اوزار ہی استعمال کرنے پڑیں گے۔ ہماری قومی زبان بھی رسیلی زبان ہے۔اس میں بڑا رس ہے۔ مگر قومی
بات سے بات۔۔۔ عربی زبان کی مہارت کا مسئلہ۔۔۔ عبد المتین منیری۔ بھٹکل
آکسفورڈ سے ڈاکٹر محمد اکرم ندوی صا حب کا ایک مراسلہ نظر سے گذرا ، جس میں آپ نے نئی زبان سیکھنے کے سلسلے میں مشوروں سے نوازا ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں اپنے بھی کچھ تاثرات رکھےجائیں۔ ۔ زبانیں کئی ایک مقاصد سے سیکھی جاتی ہیں، اور ہر مقصد کے لئے اسے سیکھنے کا طریقہ مختلف ہوتا ہے، لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ زبان جاننے کا مطلب یہ ہے کہ اسے آسانی سے سمجھنے، طلاقت کے ساتھ بولنے، سلاست کے ساتھ لکھنے کی صلاحیت اس طرح پیدا ہوا کہ
تجربات و مشاہدات(۵۰)۔ موسوعہ فقہیہ كا اردو ترجمہ... ڈاکٹر بدر الحسن قاسمی
”كویت“ جسے خلیج كے گوہر ِتاباں كا نام دیجیے یا لالۂ صحرا كے لقب سے اسے یاد كیجیے، اس كی ایك شناخت تو وہ ہے جس نے دنیا كے سو سے زائد ملكوں اور قومیتوں كے لاكھوں لوگوں كو حصولِ رزق كے لیے كشاں كشاں وہاں پہنچا دیا ہے؛ جن میں کئی لاكھ تو صرف ہندوستانیوں كی تعداد ہے۔ (كرونا كی آفت سے پہلے یہ تعداد تقریباً ۹/ لاكھ تك پہنچ گئی تھی) كویت كا نام آتے ہی پٹرول كے ذخائر، دولت كی ریل پیل، فلك بوس عمارتوں، خوشنما كاروں اور جدید سہولتوں سے آراستہ مقامات كا تصور ذہنوں میں آتا ہے، جس كا محل وقوع، جس كا قابل رش
بات سے بات: پرانی کتابوں کی قدروقیمت۔۔۔ عبد المتین منیری۔ بھٹکل
چند روز قبل بچوں کے لئے ایک خوبصورت کتب خانہ کا افتتاح ہوا، نوجوان اساتذہ نے اسے مزین کرنے کے لئے خوب محنت کی، اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس نئے کتب خانہ میں پھٹی پرانی کتابیں اچھی نہیں لگتیں، کتب خانے کی خوبصورتی اس سے متاثر ہوتی ہے، لہذا انہیں نکال کرنئی کتابوں سے الماریاں بھری جائیں، یہ ان کی ایسی فرمائش تھی ، جو ظاہری طور پر درست بھی لگتی تھی۔ہم نے انہیں پرانی کتابوں کی حفاظت کرنے کی رائے دی، معلوم نہیں انہیں پسند آئی بھی یا نہیں۔ پرانی کتابوں کو ضائع کرنے کا رویہ اب عام ہو
سچی باتیں۔۔۔ شہرت کی خواہش۔ ۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1929-01-11 خویش را رنجور سازی زارزار تاترا بیروں کنند از اشتہار اشتہارِ خَلق سدِّ محکم است در رہ ایں از بندِ آہن کے کم است حضرت مولانائے رومؒ فرماتے ہیں، کہ اپنے کو ایسا حقیر وخوار دُنیا کی نظروں میں بنالو، کہ نہ کہیں تمہاری پُرسش ہو، نہ کہیں تمہارے چَرچے ہوں۔ تمہاری روحانی واخلاقی زندگی کی راہ میں اصلی روک یہی شہرتِ خَلق ہے، راہِ وصول میں اِسے لوہے کی دیوار سے کم نہ سمجھو۔ یہ تعلیم رومیؒ کی تھی، یہ
غلطی ہائے مضامین۔۔۔ میزان عدل، تیرا جھکاؤ ہے جس طرف۔۔۔ ابونثر
وطنِ عزیز میں واویلا مچا ہوا ہے کہ ’’مِنی بجٹ‘‘ آگیا۔ ہر گھر کا ’’بجٹ‘‘ درہم برہم ہوگیا ہے۔ ایک یارِ عزیز اِسے ’’مُنّی بجٹ‘‘ پڑھنے پر مصر تھے۔ اُن سے عرض کیا کہ آپ کا اصرار سر آنکھوں پر، مگر ایسی صورت میں ہمیں ’’مُنّی بجٹ‘‘ آگئی کہنا پڑے گا۔ اور اندیشہ ہے کہ اِس بجٹ سے آپ کا اتنا پیار دیکھ کر لوگ کہیں آپ کو سنگسار کرنے نہ اُٹھ کھڑے ہوں۔ بات سمجھ میں آگئی۔ ڈر کربولے کہ پھر ہم اُردو میں اسے کیا کہیں؟ عرض کیا ڈریے نہیں، بجٹ کے لیے اُردو میں ایک خوش آواز لفظ ’’میزانیہ‘‘ موجود ہے۔ آپ اِسے ’
پی ڈیف کتابوں کا ایک مفید ای ریڈر۔۔۔ عبد المتین منیری۔۔۔ بھٹکل
دو عشروں سے جب سے پی ڈیف کتابوں کی اشاعت انٹرنٹ پر عام ہوئی ہے، اس خوف سے کہ کہیں یہ کتاب دوبارہ نہ ملے، انہیں ڈون لوڈ کرنے کا ایک ہوکا سا لگا ہوا ہے۔ کتابوں کے اکٹھے کرنے میں وقت اور محنت جتنے لگتے ہیں، انہیں دیکھ کر کبھی محسوس ہوتا کہ یہ تو باربرداری کا کام ہے، کیونکہ جس طرح ہمیں کتابیں پڑھنے کی عادت ہے اس طرح یہ کتابیں پڑھنے کی سہولت میسر نہ تھی، کمپوٹر، لیپ ٹوپ، موبائل اور ٹیبلیٹ پر چند منٹ کے لئے تو انہیں دیکھا جاسکتا ہے، لیکن کتابیں پڑھنے کے لئے ان آلات کی اسکرینوں پر آنکھیں جمانا
بات سے بات: قرآن پاک میں دوسری زبانوں کے الفاظ
ہمارے مولانا مفتی محمد حذیفہ وستانوی صاحب انٹرنٹ کے غواص ہیں، بے پناہ انتظامی ذمہ داریوں اور اسفار کے ساتھ ساتھ علم وادب سے اپنا تعلق باقی رکھے ہوئے ہیں، اور نت نئی چیزیں تلاش کرکے اس خوان میں پیش کرتے رہتے ہیں، آج انہوں نے کلمات قرآنیہ کے اشتقاق پر عرب دنیا سے شائع شدہ دو کتابوں (التحقیق فی کلمات القرآن الکریم۔ حسن الموسوی ) اور ( المعجم الاشتقاقي المؤصل لألفاظ القرآن الكريم۔ محمد حسن جبل ) کے موازنہ پر مشتمل ایک مقالہ پوسٹ کیا ہے، التحقیق کے مصنف ایرانی نژاد شیعہ ہیں، اور الم
سچی باتیں۔۔۔نیا سال۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1929-01-04 آفتاب اپنا سالانہ دورہ ایک اور ختم کرچکا۔ زمین اپنی سالانہ گردش کی ایک باری تمام کرچکی۔ اور خیر، آفتاب وزمین کی حرکتوں کے نظرئیے صحیح ہوں یا نہ ہوں، بہرحال یقینی ہے، کہ کاغذ کا یہ چھپنے والا پُرزہ اپنی جو عمر لے کرآیاہے، اُس میں ایک سال کے اور کمی ہوگئی۔ اِن سطور کے لکھنے والے کی مَوت ایک سال قریب آگئی، اور پڑھنے والوں کی مدت زندگی بھی ایک ایک سال اور گھٹ گئی۔ ملک کے سال سرکاری کا آغاز ہے۔ کتنی جگہ سال نو کا جشن مسرت منایا جارہاہے، اورکتنی جگہ سالگرہ کے ڈورے میں ہنستے اور کھلکھل
غلطی ہائے مضامین۔۔۔ دن گنے جاتے تھے اس دن کے لئے۔۔۔ ابو نثر
یہ لیجیے سال کا آخری دن بھی آن لگا۔ آج ۳۱ دسمبر ۲۰۲۱ء ہے،کل یکم جنوری ۲۰۲۲ء ہوگی۔ یعنی کل سنہ تبدیل ہو جائے گا۔ کچھ لوگوں کے سِن بھی بدل جائیں گے۔ ہمارے جو دانش وَر صرف انگریزی زبان کو اُردو زبان پر مسلّط کیے رکھنے کے پُرجوش حامی ہیں وہ نوٹ فرمائیں کہ اُردو نے انگریزی کے لفظ ’جِینُوَری‘ (January)کی تارید کر کے، یعنی اسے اُردو کا(پا) جامہ پہنا کر اس کا تلفظ جَنْوَری‘ کر لیا ہے۔ یہ بھی نوٹ کریں کہ انگریزی کا لفظ ‘Note’ تلفظ کی کسی تبدیلی کے بغیر ہی جوں کا توں اپنا لیا گیا ہے۔ ’یاد داشت، ’لکھ لی
شکوہ اور جواب شکوہ۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
۔(مولانا دریا بادی کا یہ نشریہ ۲۱/اپریل ۱۹۴۳ء کو یوم اقبال کے موقع پر دہلی ریڈیو اسٹیشن سے نشرہوا تھا، موضوع اقبال کی مشہور نظم شکوہ اور جواب شکوہ ہے۔ اس میں دریابادی نے دونوں نظموں کا تجزیہ یا یوں کہیے کہ ان کا خلاصہ پانچ منٹ کے مختصر وقفہ میں اپنے مخصوص اور نہایت عالمانہ انداز میں پیش کیاہے۔ ڈاکٹر زبیر احمد صدیقی) "جو زبان خوگرتھی حمد و ثنا شکر و مناجات کی، وہ آخر اک بار گلہ و شکوہ پر کھلی ۔ یا یوں کہیے کہ کھلوائی گئی۔ آقا کا کرم جب خود ناز برداری پر آمادہ ہوجائے تو کون بندہ ہے جو ”نیاز“ کے ف
سچی باتیں۔۔۔ تقوی کی اہمیت۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1927-12-02 وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا (3) اور جو کوئی اللہ سے تقویٰ اختیار کرتاہے، اللہ اُس کے لئے کشائش پیداکردیتاہے، اور جہاں سے اُسے گمان بھی نہیں ہوتا، اُسے روزی دیتاہے، اور جو کوئی اللہ پر توکل رکھے، پس وہ اُس کے لئے کافی ہے، یقینا اللہ اپنا ہر کام پوراکرلیتاہے، اللہ نے ہرشے کا اندازہ ٹھہرا رکھاہے۔ یہ ک
مولانا عبد الباری فرنگی محلی۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
تحریر و تاثرات: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ، نشریہ لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن ۱۲جنوری ۱۹۵۰ء۔ (لکھنؤ کے مشہور عالم مولانا عبدالباری فرنگی محلی اپنے زمانہ کے شیخ طریقت تھے اور لکھنؤ کی تہذیبی و سماجی زندگی میں مخصوص مقام رکھتے تھے، کانگریس وتحریک خلافت کے لیڈروں سے مولانا کے خصوصی تعلقات تھے۔) "بات ۱۹۲۰ءکے آخر کی ہے یا شایدشروع ۱۹۲۱ء کی ۔ ایک روزسہ پہرکو دیکھتے کیا ہیں کہ موٹروں پر موٹریں آکر فرنگی محل کے پل پر رک رہیں ہیں، اورملک کے مشہور لیڈر ایک سے ایک اونچے اتر رہے ہیں ۔ یہ ٹھیک ہے کہ آج ش
سچی باتیں۔۔۔ دینی وعصری تعلیم۔۔۔ از: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1927-11-27 یہ بات تو کھری ہے ہرگز نہیں ہے کھوٹی عربی میں نظم ملّت، بی اے میں صرف روٹی لیکن جناب لیڈر یہ خبر سُن کے بولے بندھوائینگے یہ حضرت اس قوم کو لنگوٹی اس بات کو خدا ہی بس خوب جانتاہے کسی کی نظر ہے غائر کس کی نظر ہے موٹی حضرت اکبرؔ الہ آبادی کا کلام آپ نے بارہا سُنا ہوگا۔ اُن کے ان اشعار میں آپ کے نزدیک محض شاعری ہے! یا کچھ حقیقت بھی ہے؟ یہ شعر محض دل لگی کے لئے کہہ دئیے گئے ہیں، یا ان میں کوئی سچا مضمون بھی بیان ہواہے؟ عربی سے مُراد مذہبی تعلیم، اور بی ، اے سے مراد دنیوی تعلیم ہے
غلطی ہائے مضامین۔ ۔۔کٹھ حجتی ہو یا کٹ حجتی، ہیں دونوں بُری۔۔۔ ابو نثر
مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سابق صدر نشیں محترم مولانا مفتی منیب الرحمٰن صاحب حفظہٗ اللہ اپنے تازہ مکتوب میں رقم طراز ہیں ’’ہم ’کٹ حجتی‘ لکھتے اور بولتے رہے ہیں۔ ریختہ میں بھی ہم نے دیکھا تو کٹ حجتی ہی ہے۔ ’’کٹ حجتی‘‘ کے معنی ہیں: ’’خواہ مخواہ کی بحث، بحث برائے بحث،اپنی بات پر اڑنا، ضد سے کام لینا، بے جا حجت‘‘۔ لیکن جناب ابونثر نے ’’کٹھ حجتی‘‘ لکھا ہے، آیا یہ زیادہ فصیح ہے یا کاتب کی غلطی ہے؟‘‘ ( ہفت روزہ ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ ۳ دسمبر ۲۰۲۱ء) سب سے پہلے تو ہم محترم مفتی صاحب کا تہِ دل سے شکریہ ادا ک
بات سے بات: رسائل ومجلات کی اہمی۔۔۔ عبد المتین منیری۔ بھٹکل
ایک دوست کی پوسٹ پر کہ ہمارے مفتی صاحب کا جواب آیاہے کہ : ((رسالوں كي جگه كوئي تفسير جلالين، روح المعاني، المظهري ،ابن كثير ،كشاف، فتح الباري، عمدة القاري، ہدایہ ،فتح القدير، يا كافية، الفية و غيره كا مطالعه بہت ہی مفید ہوگا)) مفتی صاحب ہمارے محترم ہیں، آپ اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں، جو پانچ دس بنیادی کتابوں اور مراجع کو دانتوں میں دبائے رکھتی ہے، اس میں شک نہیں کہ مفتی صاحب دین کا بڑا گہرا علم رکھتے ہیں، اور جو مذکورہ بالا بلند معیا