Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















تعارف کتاب: یہ تھے اکابر مظاہر۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل
نام کتاب: یہ تھے اکابر مظاہر مصنف: مفتی ناصر الدین مظاہری۔ استاد جامعہ مظاہر علوم ( وقف)،مدیر ماہنامہ آئینہ مظاہر علوم، سہارنپور۔ صفحات: ۱۹۲ ناشرین:(۱) مکتبہ تراث الادب، خانیوال ( پنجاب۔ پاکستان)۔ فون نمبر : 00923004097744۔ 009234440423470 (۲) مکتبۃالانور۔ دیوبند ( سہارنپور۔ انڈیا) فون نمبر: 009

غلطی ہائے مضامین ۔۔۔ تیری خاطر لیا … میں نے اُلّو کا جنم۔۔۔ احمد حاطب صدیقی
کسی ادبی نشست کی صدارت کرنا بالکل ویسا ہی بے مزہ کام ہے جیسا آج کل ہمارے ملک کی صدارت کرنا۔ رمضان کے آخری دنوں میں ایک ادبی نشست کی ’صدارتِ بے لذت‘ کی دعوت ملی تو ہماری بھی وہی حالت ہوئی جو ہمارے بھائی، ہمارے دوست، ہمارے صدر مملکت ڈاکٹر عارف الرحمٰن الٰہی علوی ابن ڈاکٹر حبیب الرحمٰن الٰہی علوی کی بلاول سے حلف لیتے ہوئے ہوئی ہوگی۔ بقولِ جونؔ ایلیا:۔ کوئی حالت نہیں، یہ حالت ہے یہ تو آشوب ناک صورت ہے ہوا یوں کہ ادبی نشست میں جھبرے بالوں والے ایک دانشور نے بڑی ’جھبرائی ہوئی‘ آواز میں اپنے ایک
سچی باتیں ۔۔۔ روز جمعہ کا احترام۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1930-04--4 يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۔۔۔یہ کسی بشر کا کلام نہیں۔ سب کے پیداکرنے والے اور پالنے والے کا کلام ہے۔پارہ ۲۸-سورۂ جمعہ میں ارشاد ہوتاہے، کہ اے ایمان رکھنے والو، جب ہفتہ کا وہ دن آجائے، جسے جمعہ کہتے ہیں، اور نماز جمعہ کاوقت آجائے، تو اپنے سارے کام کاج چھوڑ کراس نماز کی طرف لپکو۔ اور وَذَرُوا الْبَيْعَ ۔ کاروبار ، لین دین، معیشت وتجارت کے سارے مشاغل اتنی دیر کے لئے ملتوی کردو۔ او
وطن سے دور اہل بھٹکل کی عیدیں(۱)۔۔۔ عبد المتین منیری
(چند روز قبل ہم نے دبی میں اہل بھٹکل کی نماز تراویح کے تعلق سے ایک کالم تحریر کیا تھا، جسے قارئین نے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا تھا، اور خواہش ظاہرکہ کچھ اسی طرح عید کی بھی کچھ باتیں ہوجائیں۔ اسی فرمائش کی تعمیل میں یہ چند سطریں پیش کی جارہی ہیں)۔ ------------------------------------------------------------------------ ہم نے امسال عید الفطر کی نماز عید گاہ دیرہ ( مصلی عید) میں ادا کی، چالیس سال گزررہے ہیں، عید کے موقعہ جب بھی دبی میں رہنا ہوتا ہے تو اسی عید گاہ میں ہماری نماز عید
الراس دبی میں سال کی آخری تراویح۔۔۔ عبد المتین منیری
آج ماہ رمضا ن المبارک کی تیسویں شب تھی، الراس دبی کی مسجد الفطیم میں ہم نے نماز تراویح ادا کی ، بھٹکل کے نوجوان حافظ قرآن (۱ )عبدالحی بن مولانا محمد شعیب ائیکری، ( ۲)محمد حسن بن محمد اشفاق گوائی، ( ۳)عبد الدائم بن یاسر ، فکردے، (۴ ) عبدالرحمن زعیم بن سیف اللہ شریف، ( ۵) عبدالرحمن بن محمد رضوان رکن الدین، نے باری باری، بیس رکعت تراویح کی امامت کی، روح پرور فضا میں خوشنما تلاوت سن کر
سچی باتیں۔۔۔ اسلامی اور غیر اسلامی تہواروں کا فرق۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1935-11-01 پچھلے مہینہ ریل میں ایک بنگالی ہندو کا ساتھ ہوا۔ اسکول میں ساتھ کے پڑھے ہوئے تھے باتوں میں کہنے لگے’’آج کل ہمارے ہاں بڑا بھاری تہوار ہے جیسے آپ لوگوں کے یہاں عید ہوتی ہے‘‘۔ دل یہ سن کر سو چ میں پڑگیا۔ کیا واقعی ان کا دسہرہ، ان کا درگاپوجا ہماری عید ہی کی طرح ہوتاہے؟ ہمارے ہاں سال بھر میں دو ہی تو ’’تہوار ‘‘ ہوتے ہیں ایک عید الفطر دوسری عید الاضحی ان دونوں کو کوئی مناسبت ، ان کی ہولی سے ان کی دیوالی سے، ان کی رام لیلا سے ، ان کی جنم اسٹمی سے، ان کے کسی تہوار سے ہے؟ لوگ کہتے ہیں ،
غلطی ہائے مضامین ۔۔۔کچھ خیالات ساسوں کے، کچھ سسروں کے۔۔۔ احمد حاطب صدیقی
داماد والا کالم شاید ہر ’ساس‘ کو خوش آیا۔ اب معلوم ہوا کہ ہر داماد اپنی ساس کو ’خوش دامن‘ کہہ کہہ کر کیوں یاد کرتا ہے۔ خبر نہیں ’خوش دامن‘ کی ترکیب کس خوش فہم نے ایجاد کی؟کون جانے خوشی کس کے حصے میں آتی ہے اور دامن کس کا تار تار ہوتا ہے؟ مگر اپنے اطہر شاہ خان جیدیؔ مرحوم تو لوگوں کو نیکی کی تلقین یوں فرمایا کرتے تھے:۔ نیکی ہی کام آتی ہے دنیا ہے دو دن کا مال ساس کسی کی ہو جیدیؔ نیکی کر دریا میں ڈال البتہ ہمارے ایک سادہ لوح دوست اُردو کی ایک معروف کہاوت میں محض ایک حرف کا تصرف کرکے یہ کہ
بھارت کے مسلمان نسل کشی کے آخری پڑاؤ پر آگئے ہیں۔۔۔از:کلیم الحفیظ۔ نئی دہلی
اقوام متحدہ میں مشاورتی حیثیت کی حامل امریکا کی غیر منافع بخش تنظیم ''جسٹس فار آل“ کی جانب سے منعقدہ ایک ورچوئل عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر گریگوری اسٹینٹن نے کہا کہ بھارت نسل کُشی کے آٹھویں مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اور مسلم کمیونٹی کا مکمل صفایا صرف ایک قدم دور رہ گیا ہے۔ پروفیسر گریگوری اسٹینٹن امریکی ادارے”'جینوسائڈواچ“ کے بانی ہیں۔ یہ ادارہ نسل کُشی اور بڑے پیمانے پر قتل کی دیگر شکلوں کی پیشن گوئی اور تدارک کے لیے کام کرتا ہے۔پروفیسر صاحب کی اس تحقیق کی روشنی میں ہمیں ان
پیکر ِ رشد و ہدایت ہیں رشیدہ باشاہ۔۔۔۔۔۔از:فرزانہ فرح بھٹکل
(مرحوم شمس الدین جوکاکو صاحب کی دختر رشیدہ باشاہ کا کل دبئی میں 75 سال کی عمر میں انتقال ہوا تھا، آج دبئی کے القوز قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔ مرحومہ نے انجمن میں قریب 36 سال تدریسی خدمات انجام دیں ہیں اور اس دوران انہوں نے طلبہ، اساتذہ سمیت اپنے ارد گرد رہنے والے ہر نفس کو علم کی خوشبو پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ بھٹکل کی مشہور مصنفہ ڈاکٹر فرزانہ فرح نے قریب دس سال قبل مرحومہ کے تعلق سے ایک مضمون لکھا تھا ، جس کو بھٹکلیس ڈاٹ کوم ان کے شکریہ کے ساتھ ہو بہو شائع کر رہا ہے۔ادارہ)
سچی باتیں۔۔۔ رمضان کا آخری عشرہ۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادی
1940-10-28 روحانیات کے عالم میں موسم بہار ختم ہونے کو آگیا۔ امت کے ’’ریفریشر کورس‘‘ کے خاتمہ کو ایک ہفتہ رہ گیا، سپاہیوں کے قدم کی رفتار تیز سے تیز تر ہوگئی۔ آخری فرصت کو غنیمت سمجھ، سیکھنے والوں اور حاصل کرنے والوں کی ہمت اورمستعدی بڑھ گئی، طلب اور تڑپ دوچند ہوگئی۔ رمضان کا مبارک مہینہ، سستی اور کاہلی، پڑے رہنے اور انگڑائیاں لیتے رہنے کا مہینہ کبھی بھی نہ تھا۔ آخری ہفتہ میں چستی اور مستعدی اپنے حدّ کمال کو پہونچ گئی۔ مہینہ کا پہلا عشرہ رحمت کا تھا(اولہ‘ رحمۃٌ
غلطی ہائے مضامین ۔۔۔ دو کوڑی کا آدمی … ایک دھیلے کی کرپشن۔۔۔ ابونثر
*غلطی ہائے مضامین ۔۔۔ دو کوڑی کا آدمی … ایک دھیلے کی کرپشن۔۔۔ احمد حاطب صدیقی* http://www.bhatkallys.com/ur/author/abunasr/ ناپ تول کا اعشاری نظام اپنایا گیا تو پُرانے پیمانے رفتہ رفتہ رخصت پر چلے گئے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ پُرانے پیمانوں کے ساتھ ساتھ پرانے محاورے بھی رخصت ہوجاتے۔ مگر نہیں ہوئے۔ ڈھیٹ نکلے۔ پس نئے پیمانوں کے تحت پلی بڑھی اور نئے پیمانوں سے نپی تلی، نئی نسل کو پُرانی نسل کی پیمائشی اردو سمجھنے میں خاصی دشواری پیش آرہی ہے۔ دشواری یہ ہے کہ محاورے کے مطابق نوجوان لڑکے لڑکیوں
خدا کے ایک محبوب بندہ کی رحلت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔از: مولوی عاکف ندوی بھٹکلی
آنکھوں میں بس کے دل میں سما کر چلے گئے ۔ آج رمضان المبارک کے دوسرے عشرے کی بابرکت ساعتوں میں ہم سب کے ہر دل عزیز باغ و بہار شخصیت کے مالک جناب حبیب اللہ صاحب رکن الدین (محمد باپو) اس فانی دنیا سے رخصت فرما گئے۔ رمضان کے پہلے عشرے میں خدا کی بے پایاں رحمتوں کو اپنے دامن میں سمیٹنے کے بعد وہ مغفرت کے عشرے میں داخل ہی ہوئے تھے کہ خدا نے انہیں اپنی رحمت کے آغوش میں ڈھانپ لیا ۔ موصوف ہر دل عزیز، اور تمام طبقوں میں مقبول عام تھے۔ ہر عام و خاص میں اپنی محبوبیت کی وجہ سی وہ اسم با مسمی ب

کرناٹک: مذہبی منافرت اور سیاسی بازی گری... اعظم شہاب
گاؤں کے سردار کو جب گاؤں پر اپنی پکڑ کچھ کمزور محسوس ہونے لگی تو اس نے لوگوں کوکوہِ قاف کی طلسماتی کہانیاں سنانی شروع کردیں۔لوگ کہانیاں سننے میں کچھ ایسے کھوئے کہ سردار کی مخالفت بھول گئے۔ کچھ دن بعد جب پھر کچھ بھنبھناہٹ محسوس ہوئی تو اس نے دوسری کہانی سنادی۔کچھ دنوں بعد تیسری اورپھرچوتھی...اس طرح کہانیوں کا ایک سلسلہ چل پڑا کیونکہ سردار کواپنے مخالفین کورام کرلینے کا ہنر آگیا تھا۔ اسے معلوم ہوگیا تھا کہ لوگ کہانیوں میں کچھ اس طرح کھوجاتے ہیں کہ اپنے پیٹ کا پتھر تک بھول جاتے ہیں۔ لیکن اس
غلطی ہائے مضامین۔۔۔ ایک صدارتی قصہ موالیوں کا۔۔۔ ابو نثر
ولیوں پر کالم شائع ہونے کی دیر تھی کہ ’اللہ کے ولیوں‘ کی یلغار ہوگئی۔ سب اپنے اپنے کشف ہم پر منکشف کرنے کو دوڑ پڑے۔ حیدر آباد دکن (بھارت) سے مولانا عبید اختر رحمانی کا ایک مفصل عالمانہ مضمون موصول ہوا ہے، جس سے علم میں اضافہ ہوا۔مولانا نے، کالم میں نقل کیے گئے، حضرت عمرؓ کے قول پر بھی اسناد کے ساتھ بحث فرمائی ہے اور استنتاج کیا ہے کہ یہ روایت سنداً کمزور ہے۔ ’اللہ کے ولی‘ اردو زبان کا روز مرہ ہے۔ قرآنِ مجید کی سورۃ الحجرات، آیت نمبر ۱۱ میں ایک دوسرے کو بُرے القاب سے پکارنے کی ممانعت آئی ہ
سچی باتیں۔۔۔ صبر کا مہینہ ۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادی
1940-10-21 ’’کہا جاتا ہے کہ جنگ میں اعلیٰ فیصلہ کن چیز لڑنے والوں کی ہمت ہے، اورتجربہ نے ثابت کردیا ہے کہ یہ قول دوسرے بہت سے مقولوں سے کہیں زیادہ صحیح ہے‘‘۔ یہ ایک انگریز اخبار نے حال میں اپنے ایڈیٹوریل میں لکھا، اور آگے پھر لکھا ، کہ ’’سامان کی فراوانی، اسلحہ کی تیزی اور جگمگاہٹ اور قواعدداں فوج کی کثرت تعداد، ان سب چیزوں کا بھی اثر ضرور پڑتاہے، مگر مختص جنگوںمیں۔ طویل ومسلسل جنگ میں اعلیٰ اہمیت کی چیز ہے ہمت، ہمت افراد واشخاص کی بھی، اور ہمت مختلف طبقات اور ساری قوم کی بھی‘‘۔ لیکن یہ ہمت پ
فرقہ وارانہ سیاست کے سبب ہندوستان میں تیزی سے بڑھ رہا اسلاموفوبیا... رام پنیانی
حال میں یو این او (اقوام متحدہ) کی جنرل سبھا نے ایک قرارداد پاس کر یہ اعلان کیا کہ 15 مارچ پوری دنیا میں ’کامبیٹ اسلاموفوبیا‘ (اسلام کو ایک ڈراؤنے مذہب کی شکل میں پیش کرنے کی مخالفت) کے خصوصی دِن کے طور پر منایا جائے گا۔ حالانکہ اس قرارداد کو اتفاق رائے سے پاس کیا گیا، لیکن ہندوستان نے کہا کہ اس کا ماننا ہے کہ کسی ایک مذہب کے تئیں خوف کے جذبہ کو بین الاقوامی دِن کی شکل میں منائے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسلاموفوبیا لفظ کے وسیع استعمال کی شروعات 11/9، 2001 کے حملے سے

اب کرناٹک کو ہندوتوا کی تجربہ گاہ بنانے کی تیاری...از: سہیل انجم
بنگلور کی فارما کمپنی بائیوٹیک لمٹیڈ کی ایکزیکٹیو چیئرپرسن کرن مجمدار شا نے کرناٹک میں مسلم محالف نفرت انگیز اقدامات و بیانات کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کیا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے ریاست کرناٹک میں مسلمانوں کے خلاف ہندوتوا وادی تنظیموں کی سرگرمیوں پر اظہار تشویش کرتے ہوئے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ اگر مسلمانوں کو فرقہ وارانہ بنیاد پر الگ تھلگ کرنے کی کوششیں جاری رہیں تو ریاست کرناٹک انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں اپنی عالمی قیادت سے محروم ہو جائے گا۔
سچی باتیں۔۔۔ ماہ رمضان مبارک۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
1932-12-30 وهو شهرُ الصبرِ - والصبرُ ثوابُه الجنةُ -، وشهرُ المُوَاساةِ، وشهرٌ يُزادُ فيه رِزْقُ المؤمنِ، من فَطَّرَ فيه صائمًا ؛ كان له مغفرةٌ لذنوبِهِ، وعِتْقُ رقبتِهِ من النارِ، وكان له مِثْلُ أجرِهِ من غيرِ أن يَنْتَقِصَ من أجرِهِ شيءٌ، قلنا : يا رسولَ اللهِ ! ليس كُلُّنا نَجِدُ ما نُفَطِّرُ به الصائمَ ؟ ! فقال رسولُ اللهِ - صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم - : يُعْطِي اللهُ هذا الثوابَ من فَطَّرَ صائمًا على مَذْقَةِ لَبَنٍ، أو تمرةٍ، أو شَرْبَةٍ من ماءٍ، ومن أَشْبَعَ صائمًا ؛ سَقَاهُ اللهُ من حَو