Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















Bat say Bat. Arabi Darsiyat Ki Urdu Shuruhat
بات سے بات: عربی درسیات کی اردو شرحیں تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل) ( ایک روز قبل اہل علم کی ایک معتبر بزم علم وکتاب پر درس نظامی سے وابستہ اساتذہ وطلبہ میں عربی متون کی اردو شروحات کی ترویج پر ایک مباحثہ ہوا تھا، جس پر اس ناچیز نے اپنے تاثرات پیش کئے تھے، اسے یہاں اس امید پر پیش کیا جارہا ہے کہ شاید اس موضوع کے چند نئے پہلو سامنے آئیں) جب سے شعورسنبھالا ہے اور اردو کے دوچار جملے پڑھنے میں آئے، علامہ شبلی کے تعلیمی مقالات پر پہلے پہل نظر پڑی تھی، لہذا
Urdu Zarai Iblagh say Mujhay Kuch Kahna Hai
بعض باتوں کو بار بار دُہرانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ تکرار سے تکلیف تو ہوتی ہے، مگر بات بالآخر دماغ میں بیٹھ جاتی ہے۔ جب کہ انگریزی الفاظ کی تکرار نے تو دماغ کا بھٹّا ہی بٹھا دیا ہے۔ اِن کالموں میں بار بار بتایا جاچکا ہے کہ دیگر زبانوں کی طرح انگریزی زبان سے بھی اُردو نے بے شمار الفاظ قبول کیے ہیں۔ صاحب! ’بے شمار‘ کا مطلب ہے ’بے حساب، اَن گِنِت، بے اندازہ اور بے حد‘۔ مراد یہ کہ بہت زیادہ۔ اُردو میں انگریزی الفاظ کی قبولیت دو طرح سے ہوئی۔ ایک یہ کہ جن انگریزی الفاظ
Jalwah Hai Pa Ba Rikab(31)
ہائی اسکول کے ابتدائی دنوں میں وقتا فوقتا میرے دل میں خفیف سی تکلیف ہوتی تھی۔ والد مرحوم کی رائے تھی کہ یونانی علاج کرایا جائے۔ وائم باڑی سے کچھ 35 کلو میٹر کے فاصلے پر شہر " پیرنامبٹ " واقع ہے جو طب یونانی کا گڑھ جانا جاتا ہے۔ ان دنوں اس شہر میں چار پانچ نامور حکماء رہتے تھے۔ ایک دن میں والد مرحوم کے ساتھ وہاں کے ایک مشہور حکیم کے پاس گیا۔ طب یونانی کی روایت کے مطابق میں اپنا قارورہ بھی ساتھ لے گیا تھا۔ حکیم صاحب سے ملاقات ہوئی، میں نے انہیں اپنی تکلیف بتائی، انہوں نے قارورہ پر نظر
Sachchi Batain. Qalil Jamaat
پارۂ سیقول کے آخر میں قوم یہود (بنی اسرائیل) کی تاریخ کے ایک واقعہ کا ذکر آتاہے، کہ اس زمانہ میں جالوت نامی ایک ظالم وسرکش بادشاہ نے مومنین پر طرح طرح کے مظالم ڈھارکھے تھے، بڑی دعاؤں کے بعد بالآخر مومنین کو ایک سردار جالوت نامی ہاتھ آیا۔ اس کے آگے ، کلام پاک کی تصریح ہے، کہ ﴿فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ قَالُوا لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ ﴾ [البقرة: 249] جب طالوت مع اپنی سپاہ مومنین کے نہر کے پار (دشمن کے مقابلہ میں) پہونچا، تو ان ل
Moulana Jafer Masud Hasani Nadwi
مولانا جعفر مسعود حسنی ندویؒ ایک مخلص معلم، داعی اور فکر کا داغ جدائی تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل) اللہ کی ذات خالق ومالک ہے،وہ حی و قیوم ، علیم وخبیر اوردانا ہے۔ ابھی تھوڑی دیر قبل یہ خبر بجلی کی طرح گری کہ مولانا جعفر مسعود حسنی ندوی رائے بریلی میں ایک مصاحب کے ساتھ جاتے ہوئے سڑک کنارے بائک روک کر مفلر باندھ رہے تھے، کہ اچانک ایک سوفٹ ڈیزائر نے پیچھے سے ٹکر ماردی،مار اتنی سخت پڑی کہ مولانا نے وہیں دم توڑ د
Arabi Zuban Kay Nisab Ka Masalah
جب عربی ودینی علوم کی نصابیات کی بات آتی ہے تو اس بزم علم وکتاب میں بڑی گھماگھمی ہوجاتی ہے ، اس میں ہمارے ذہن ودماغ بھی خوب چلنے لگتے ہیں، دراصل یہ ایک کڑھن ہے ،جسے مسلسل ایک صدی سے برصغیر کے دینی حلقے محسوس کر رہے ہیں،اور جب بھی موقعہ ملتا ہے ان کے سینے اس سے ابلنے لگتے ہیں۔ زمانہ آگے بڑھ رہا ہے، لیکن مسائل حل ہونے کے بجائے مزید گمبھیر ہوتے جارہے ہیں، اور اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جنہیں ہم دین کے قلعے کہتے نہیں تھکتے تھے
Sachchi Batain . Paidaish Aur Maut Ka Mahoul
کسی بچّہ کو، پیداہوتے ہی آپ نے دیکھاہے؟ کیسا آلائشوں میں آلودہ، اور گندگی میں شرابور ہوتاہے! اور پھر بظاہر تکلیف میں بھی کس قدر مبتلا ہوتاہے۔ روتاہے، چیختاہے، چلّاتاہے، لیکن گھروالوں پر اس کا کچھ بھی اثر نہیں ہوتا، نہ کوئی اس سے گھناکر الگ ہٹ جاتاہے اور نہ کوئی اسے مبتلائے مصیبت سمجھ کر اس سے ہمدردی کرنے لگتاہے۔ یہ سب خوش ہی ہوتے ہیں۔ ماں،باپ، دایہ، بھائی، بہن، سب کے چہرے کھِل ہی جاتے ہیں۔ کوئی انعام اکرام مانگتاہے، کوئی سجدۂ شکر میں گرتاہے، کوئی منّتیں بڑھانے لگتاہے، کوئی بچہ کے نہلانے دھُل
Suhail Anjum Article
اس وقت میڈیا میں اگر کوئی موضوع زیر گفتگو ہے تو وہ پارلیمنٹ کے مکر گیٹ پر ہونے والا دھکا مکی کا واقعہ ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ ہمارے معزز ارکان نے پارلیمنٹ کے وقار کا کوئی خیال نہیں رکھا اور اپنے کردار سے اس کے وقار کو ملیامیٹ کر دیا۔ وہاں جو کچھ ہوا وہ تو شرمناک ہے ہی لیکن اس کے بعد حکمراں جماعت کی طرف سے جو بے بنیاد الزامات لگائے جا رہے ہیں وہ بھی کم شرمناک نہیں ہیں۔ بی جے پی کے رہنما اور ترجمان گلا پھاڑ پھاڑ کر یہ بتا رہے ہیں کہ قائد حزب اختلاف اور کانگریس پارٹی کے سینئر رکن راہل گاندھی نے دھک
Suhail Anjum Article
الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے خلاف عوامی بداعتمادی بڑھتی جا رہی ہے۔ دہلی میں اس کے خلاف بعض وکلا اور سیاست دانوں کی جانب سے تحریک بہت پہلے سے چل رہی ہے۔ اب اس تحریک کو گاؤں دیہات کی حمایت بھی ملنے لگی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ تحریک جلد ہی ایک انقلاب کی شکل اختیار کر لے گی اور حکومت اور الیکشن کمیشن کو مجبور ہو کر بیلٹ پیپر سے ووٹنگ کرانی پڑے گی۔ ای وی ایم کے خلاف سپریم کورٹ میں کئی پٹیشنز داخل کی گئی تھیں۔ جن پر سماعت کرتے ہوئے عدالتی بینچ نے ان کو رد کر دیا اور بیلٹ پیپر سے پولنگ کرانے سے
Aqli Dalaiil by Abdul Majid Daryabadi
ایک مریض، حاذق الملک ومسیح الملک حکیم اجمل خاں دہلوی کی خدمت میں جاتاہے، حکیم صاحب خاص توجہ وشفقت سے اُسے دیکھتے ہیں، اور اس کے مرض ومزاج سے رتّی رتّی واقف ہو ، اُسے ایک نسخہ لکھ کر دیتے ہیں۔ اُن مریض صاحب کو اس کی مطلق قدر نہیں ہوتی، نہ حکیم صاحب کے حذاقتِ فن کی، نہ خاص توجہ وشفقت کی، بلکہ بے دلی اور بے پروائی کے ساتھ نسخہ لئے کمرے سے باہر چلے جاتے ہیں، پھاٹک پر حکیم صاحب کے مکان کا پہرہ دار، ایک گنوار سا آدمی، نہ پڑھا نہ لکھا، نہ طبیبوں کا صحبت یافتہ، ملتاہے۔ یہ مریض صاحب اُس سے پوچھتے ہیں، ک
Suhail Anjum Article
اس وقت ملک میں ایک نئے فتنے نے سر اٹھا لیا ہے۔ حالانکہ یہ فتنہ نیا نہیں لیکن آجکل اس کی زد میں ملک کا امن و امان آگیا ہے۔ یہ فتنہ ہے تاریخی مسجدوں، مقبروں، عبادت گاہوں اور درگاہوں پر مندر ہونے کا دعویٰ کرنا۔ وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کی جانب سے دسیوں بیسیوں سال سے سیکڑوں بلکہ ہزاروں مسجدوں کی ایک فہرست پیش کی جاتی رہی اور یہ دعویٰ کیا جاتا رہا کہ ان مسجدوں کی تعمیر مندر توڑ کر ہوئی ہے۔ لیکن اس دعوے کی زد میں صرف بابری مسجد آئی۔ اسے سپریم کورٹ کے ایک ناپسندیدہ فیصلے کی روشنی میں مندر میں تبدیل
Ohda Qaza Ki Zimmeh Dari
عن أبی ہریرۃ عن النبی ﷺ قال من جعل قاضیًا بین الناس فقد ذبح بغیر سِکّین۔ (ترمذی وابن ماجہ ) حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، کہ جو شخص لوگوں پر قاضی (حاکم) بنایاگیا، وہ بغیر چھری کے ذبح کردیاگیا۔ قاضی( مجسٹریٹ اور جج)کا عہدہ،اسلامی حکومت میں ایک اعلیٰ عہدہ ہے۔ اسی منصب کی ذمہ داریوں کا گویا پورا نقشہ، زبان نبوت نے ان مختصر ، جامع، وبلیغ لفظوں میں کھینچ کردکھادیاہے۔ اس کے پیش نظر ہوجانے کے بعد کسی صاحبِ ایمان کو اس کی ہوس باقی رہے گی؟ کوئی ، رسول کی بات پر یقین رکھنے وال
Babu Hojana Foot Path par
مشہور محقق، ادیب، شاعر اور نقاد برادر سید ایاز محمود یوں تو سراہا کرتے ہیں اِن کالموں کو، مگر پچھلا کالم پڑھ کر اُنھوں نے بھلا چاہا کس کا؟ ’بچشمۂ خود‘ ملاحظہ فرما لیجے۔ یہ بھلے آدمی لکھتے ہیں کہ: ’’ملک کے ایک ممتاز ادیب [مقیم کراچی] کا اللہ بھلا کرے کہ شارع فیصل پر چلتے چلتے ذہن میں ایک سوال آگیا۔ تاہم ہمارا ان کو مشورہ یہ ہوگا کہ شارعِ فیصل ایک تیز رفتار گزرگاہ ہے، یہاں چلتے ہوئے سارا دھیان گاڑیوں کی آمد و رفت پر ہونا چاہیے‘‘۔ مش
Jalwah Hai Pa Ba Rikab(28) Dr. F Abdur Rahim
ہائی اسکول کے زمانے میں مجھے عربی زبان کے بنیادی قواعد کا علم ہو چکا تھا۔ عربی سے دلچسپی کی وجہ سے میں علمائے کرام کی صحبت میں بیٹھا کرتا تھا۔ ایک امام صاحب تھے جن سے میں بہت زیادہ ملا کرتا تھا، وہ اردو میں اصلاحی رسالے لکھ کر شائع کرتے تھے اور ان کو عربی سے بھی خاص لگاؤ تھا۔ ان سے بار بار ملنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے پاس عربی کی مشہور ڈکشنری ))المنجد (( ہوتی تھی۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ ایک دن میں نے ان سے کہا: لفظ ))هر قل(( غیر منصرف ہے نا؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ پھر میں ن
Yeh Shari Aam Nahin Hai- Ahmed Hatib
ملک کے ایک ممتاز ادیب [مقیم کراچی]کو ایک روز چلتے چلتے اچانک خیال آیا: ’’ارے، میں تو شارع فیصل پر چلا جارہا ہوں‘‘۔ اُن کے دل میں خیال آیا تو ذہن میں سوال آیا: ’’اس شاہ راہ کو ’شارع‘ کا نام کیوں دیا گیا؟ شارع تو شریعت عطا کرنے والے کوکہتے ہیں‘‘۔ اُردو کا محاورہ ہے ’شرع میں کیا شرم؟‘مفہوم یہ کہ شرعی مسئلہ پوچھنے میں شرمانا نہیں چاہیے۔ چناں چہ اُنھوں نے بڑی بے شرمی سے اپنا
Suhail Anjum Article
ہندوستان میں اب یہ ایک عام بات بن گئی ہے کہ جب بھی کہیں الیکشن ہونے والا ہوتا ہے تو اس سے پہلے ہی نفرت انگیز بیانات اور اقدامات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ممبئی کے ٹاٹا کینسر ہاسپٹل کے سامنے ایک شخص کے لنگر میں جے شری رام بلوا کر کھانا دینے کا معاملہ تو خوب وائرل ہوا ہے۔ اس سے قبل بی جے پی رہنما اور مرکزی وزیر گری راج سنگھ بہار کے بعض مسلم علاقوں میں یاترا نکال کر ماحول کو فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کرنے کی مہم چھیڑ چکے ہیں۔ ادھر اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ’بٹیں گے تو کٹیں گے
Suhail Anjum Article
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مقدس گائے کے تحفظ کے نام پر اور پرشور آواز میں ڈی جے بجا کر سماجی امن و امان کو آگ لگانا آج کا نیا مظہر ہے۔ جی نہیں یہ کوئی نیا نہیں بلکہ ایک صدی پرانا تماشہ ہے۔ بلکہ یہ تماشہ ایک صدی سے بھی زائد عرصے سے جاری ہے۔ کبھی حکمراں طبقہ اسے ہوا دیتا ہے تو کبھی نام نہاد مذہبی طبقہ۔ اس کا مقصد اپنے اہداف کی حصولیابی ہے۔ خواہ اس کوشش میں لوگوں کی جانیں ہی کیوں نہ ضائع ہو جائیں۔ یہ صورت حال گزشتہ دس برسوں میں زیادہ سنگین ہو گئی ہے۔ اسے اقتدار کے استحکام کا ایک ذریعہ مان لیا گیا ہے۔ اس
Suhail Anjum Article
اتر پردیش کے بہرائچ ضلع کے مہراج گنج کو بھی شرپسندوں کی نظر لگ گئی۔ وہ بہرائچ جو اب تک ایک پرامن ضلع کے طور پر جانا جاتا تھا، اب وہ بھی ایک حساس ضلع میں تبدیل ہو گیا ہے۔ شرپسند تنظیموں اور نفرت انگیز سیاست کے علمبرداروں کو وہاں کے ہندوؤں اور مسلمانوں کا شیر و شکر کے مانند گھل مل کر رہنا راس نہیں آیا۔ لہٰذا وہاں بھی وہی کھیل کھیلا گیا جو ایسے تمام امن پسند علاقوں میں کھیلا جا رہا ہے۔ دراصل اس وقت ملکی سیاست کو جس رخ پر ڈال دیا گیا ہے وہ اسی صورت میں زندہ رہ سکتی ہے جب اسے نفرت و تشدد کی خوراک ملے