Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















مولوی عبد الودود اکرمی۔۔۔ ابھی جانے کی عمر نہیں تھی۔۔۔۔ عبد المتین منیری
کل باہر سفر پر تھا کہ خبر آئی کہ نوجوان عالم دین مولوی عبد الودود صادق اکرمی صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے۔ دل پر اس خبر نے غم والم کی عجیب کیفیت طاری کی، کیوں کہ اللہ تعالی نے بے پناہ صلاحیتوں سے اس نوجوان کو نوازا تھا، اور ہم جیسے لوگ ان سے بڑی امیدیں لگائے بیٹھے تھے۔ اور امید کررہے تھے کہ آپ کے ذریعہ اس علاقے میں علم وتحقیق کا ایک نیا ماحول پیدا ہوگا، اور ان میدانوں میں ہمارا معاشرہ مزید ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ لیکن اللہ کی ذات علیم وحکیم ہے، وہ بہتر جانتی ہے کہ کس کو کب اس جہا
غلطی ہائے مضامین… اور ڈالر بولتا رہا۔۔۔ احمد حاطب صدیقی
دنیائے سیاست کی ہوا تقریروں سے بھرگئی ہے۔ تقریریں ہوا سے بھری ہوئی ہیں، بلکہ ہوا و ہوس سے۔ سیاسی تقریروں میں اب جو زبان استعمال ہوتی ہے شرفا اُسے ’بد زبانی‘ کہتے ہیں۔ اشرافِ سیاست کی جوتیوں میں جہاں دال بٹ رہی ہے، وہیں گفتگو میں لام کاف بھی ہورہی ہے۔ ’لام کاف‘ کنایہ ہے گالی گلوچ کے الفاظ کا۔ لام کاف کے ساتھ لاف و گزاف بھی زوروں پر ہے۔ ’لاف و گزاف‘ شیخی بگھارنے اور ڈینگ مارنے کو کہتے ہیں۔ یہی ڈینگ ماری زبان سماجی ذرائع ابلاغ پر سیاسی بچگان بھی بولتے ہیں۔ مگر ضمیرؔ جعفری کہتے ہیں: گلہ کیسا گلی کو
یہ سونیا گاندھی پر حملہ نہیں بلکہ اپوزیشن کو ختم کرنے کی چال ہے...از: سہیل انجم
پہلے راہل گاندھی پھر سونیا گاندھی۔ پہلے پانچ روز تک تفتیش اور پھر تین روز تک۔ لیکن ای ڈی کے ہاتھ پہلے بھی خالی تھے اور اب بھی خالی ہیں۔ نہ راہل گاندھی کے خلاف اسے کوئی ثبوت ملا اور نہ ہی سونیا گاندھی کے خلاف۔ بی جے پی کے ایم پی سبرامنیم سوامی نے نیشنل ہیرالڈ معاملے میں مالی بدعنوانی کا جو الزام لگایا تھا آج تک اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ لیکن اس کے باوجود سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کو پریشان کیا جا رہا ہے۔ اس کا واحد مقصد دونوں رہنماؤں اور اس کی آڑ میں کانگریس کو ڈرانا ہے تاکہ وہ حکومت ک
غلطی ہائے مضامین ۔۔۔ قوم کیا چیز ہے۔۔۔ احمد حاطب صدیقی
کیا جانیے کب، کس نے اور کیوں یہ فقرہ کس دیا کہ ’’ہم قوم نہیں ہجوم ہیں‘‘۔ بس یہ فقرہ کس دینے کی دیر تھی… قوم کی قوم، ہجوم در ہجوم بے سوچے سمجھے یہی فقرہ رٹنے لگی۔ صاحبو! جب سے سب کچھ زبانِ غیر میں پڑھایا جانے لگا ہے، تب سے سب ہی رَٹُّو طوطے بن گئے ہیں۔ ایک نسل کی نسل ایسی تیار کردی گئی ہے کہ بقول رحمٰن کیانی، جس کے:۔ ذہن میں غیروں کی باتیں، منہ میں مانگے کی زباں اس پہ دعویٰ یہ کہ صاحب ہم بھی فرزانوں میں ہیں یہ دعوے دار فرزانے خواہ خود جانیں یا نہ جانیں، باقی سب جانتے ہیں کہ ہماری قومی زبان می
حج کا سفر۔۔۔ جہاز کی روانگی (03)۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلیؒ
معلوم ہوا کہ مولانا سید محمد شاہد فاخری ایم ایل سی(یو-پی)ممبرِحج کمیٹی ہمارے جہاز کے امیر الحج بنائے گئے ہیں اور اوپر کیبن نمبر ایک ان کو ملا ہے، اپنے تہ خانے سے نکل کر ان کی تلاش میں گئے تو اور کئی واقف کار بھی ملے، جن میں شیخ ظہور الحسن (سابق سکریٹری محکمہ مال یوپی) لکھنؤ کے کارپوریٹر حاجی غلام حسنین کے بڑے بھائی حاجی غلام اشرف، پھر اپنے درجے والوں میں عارف خیر آبادی عرف ملّا میاں(لکھنؤ) قاری محمد ثاقب(لکھنؤ) محمداصغر علی انصاری(لکھنؤ) حاجی اشتیاق حسین(کانپور) وغیره۔ حاجیوں کے جہاز کا یہ بھی
بات سے بات۔۔۔ سیرت النبی کا عربی ترجمہ۔۔۔ عبد المتین منیری
ہمیں یاد پڑتا ہے کہ ( محمد اقبال والثقافۃ الاسلامیہ فی الھند) میں استاد محمد حسن الاعظمی نے علامہ شبلی کے سیرۃ النبی ﷺ کے دیباچے کے مقدمہ کا عربی ترجمہ پیش کیا تھا، اور یہ اب تک کے ترجموں میں سب سے معیاری تھا، محمد حسن الاعظمی بوہرہ فاطمی فرقہ سے تعلق رکھتے تھے، جامعہ ازہر کے فارغ تھے، اور ایک طویل عرصہ تک مصر میں ادیبوں اور اہل فکر کے درمیان گذاراتھا، الرسالۃ ، الثقافۃ جیسے مصر کے موقر مجلات میں ان کے مضامین نکلتے تھے۔عبد الوہاب عزام ( مترجم علامہ اقبال) جیسی شخصیات آپ
سچی باتیں۔۔۔مسلم قیادت اور غیر مسلم قیادت کا فرق۔۔۔مولانا عبد الماجد دریابادی
1930.12-05 کانگرس کے اجلاسِ لاہورؔ کو کچھ ایسا بہت زمانہ نہیں گزرا۔ ایک سال کے اندر ہی کی بات ہے۔ صدر جلسہ جواہرلال نہروؔ تھے، جو آج تک کانگرس کے صدر چلے آرہے ہیں۔ یہ یادرہے، کہ اِن کی صدارت کیونکر عمل میں آئی تھی؟ انھوں نے خود اپنا نام پیش کیاتھا، یا اپنے دوستوں سے پیش کرایاتھا؟ یاد نہ رہاہو، تو ذرا حافظہ کو تازہ کرلیجئے۔ یہ اجلاس ۲۹ء کا تھا، جواہر لالؔ کا نام اس سے بھی ایک سال قبل ۲۸ء کی کانگریس کی صدارت کے لئے مختلف صوبوں کی کانگرس کمیٹیوں کی طرف سے پیش ہونا شروع ہوگیاتھا ، اور قریب تھا
غلطی ہائے مضامین ۔۔۔ اِسلام آباد میں اُردو۔۔۔ احمد حاطب صدیقی
بہت دلچسپ محفل تھی۔ عنوان تھا ’محفلِ اُردو فہمی‘۔ یہ محفل اسلام آباد کی ایک مشہور جامعہ میں اُس کے شعبۂ علومِ ابلاغیات کے طلبہ و طالبات نے سجائی تھی۔ ممکن ہے کہ آج کے کالم میں اس محفل کی رُوداد پڑھ کر آپ بے مزہ ہوں، مگر ہمیں تو بہت مزہ آیا۔ سربراہِ شعبہ نے خیر مقدمی کلمات کے بعد کہا: ’’وادیِ پوٹھوہار کے یہ طلبہ و طالبات اسلام آباد سے متعلق آپ کے تاثرات اور آپ سے اچھی اُردو سننا چاہتے ہیں۔ اس محفل کے آداب میں ایک بے ادبی شامل کی گئی ہے۔ آپ کی گفتگو میں جہاں کوئی ایسا لفظ آیا جو طلبہ و
حج کاسفر۔۔۔ جہاز کی روانگی ( 2)۔۔۔مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی
جہاز ساحل پہ کھڑا تھا، اس لئے گرمی بھی ہورہی تھی بیشتر افراد تہ خانوں کی نشتیں چھوڑ کر کھلی چھت پر ہی گھوم پھر رہے تھے۔ ہم نے اپنے ہال کی نشستوں کا جائزہ لیا، جن میں کم وبیش سو مسافر ہوں گے، تو صرف ایک شناسا صورت مولانا عید الحفیظ بلیاوی (مدرس دار العلوم ندوۃ العلماء) کی نظر پڑی، نیچے کے تہ خانوں میں واقف کار صورتیں تلاش کرنے کے بجائے جہاز کی بالائی نشتوں کے درمیان اس جستجو کو ہم نے کچھ زیادہ موزوں سمجھا۔ 11بجے جہاز چھوٹنے والا تھا، ایک بج گیا، ابھی کچھ آثار نظر نہیں آرہے تھے، اس کے برعکس کسٹم
حج کا سفر۔۔۔ جہاز کی روانگی (۱ )۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی
پورے ایک ہفتے بمبئی میں قیام کا موقعہ مل گیا، ۲۱ مارچ کی صبح کو پہنچے تھے اور پر دگرام کے مطابق ۲۵ مارچ کو ساحل بمبئی سے ہمارے حصے میں پڑنے والاجہاز لنگر اٹھانے والا تھا، اسی حساب سے بمبئی میں ان ضروریات کی تکمیل کی جو حج کے سلسلے میں بمبئی ہی میں پوری ہوا کرتی ہیں، احرام کی خریداری، ڈونگے بالٹی کی فراہمی،چکر،متلی کی روک تھام والی دوائیں اور دوران قیام حجاز کے لیے راشن___ پھر جہاز کی تبدیلی کی وجہ سے ہماری روانگی ٢٨ تاریخ تک ملتوی ہو گئی۔ راشن کے علاوہ باقی اور چیزیں گھر سے بھی ساتھ لی جا سکتی
رہنمائے کتب۔۔۔ فن خطابت پر ایک نادر مقدمہ۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری
کتاب: انداز بیان مصنف: کوثر نیازی ناشر : شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلیشرز، لاہور اشاعت اول: اگست ۱۹۷۵ صفحات: ۶۹۱ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا کوثر نیازی مرحوم نے سابق وزیر اعظم پاکستان ذو الفقار علی بھٹو کی کیبینٹ میں وزیر اطلاعات کی حیثیت سے شہرت پائی، وہ بھٹو مرحوم کے معتمد علیہ رہے، لیکن آپ کی پھانسی کے بعد آپ کی بیوہ نصرت بھٹو اور بیٹی بے نظیر کے زمانے سے فراموش کئے جاتے رہے، اب تو کہیں آپ کا تذکرہ سننے میں نہیں آتا۔ لیکن آپ کی شخصیت ا
بھٹکل کا گوہر گراں مایہ، حاجیوں کی خدمت جس کا سرمایہ امتیاز تھا۔۔۔تحریر: عبد المتین منیری
مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی مرحوم کے ۱۹۶۵ء میں ہوئے سفر حج کی روداد (حج کا سفر ) پر اسی زمانے میں نظر پڑی تھی، اس بھولےبسرے علمی وادبی سرمایہ کو اہل علم ودانش کی یاد داشت میں از سر نو واپس لانے کی غرض سے اس کی سلسلہ وار اشاعت بھٹکلیس ڈاٹ کام اور علم وکتاب واٹس اپ گروپ پر چند دنوں سے جاری ہے،مفتی صاحب کو تین سال لگاتار ناکامی کے بعد حج کا ٹکٹ ملا تھا، سفر حجاز میں مولانا دریابادی نے ۱۹۲۸ء میں سفر حج میں درپیش مشکلات پر روشنی ڈالی ہے، اور مفتی صاحب نے ۱۹۶۵ء کے حالات کی عکاسی
حج کا سفر۔۔۔ کچھ حج کمیٹی کےطریقہ کار کے بارے میں (4) ۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلیؒ
سال بہ سال دی جانے والی درخواست بھی نئی درخواست سمجھی جاتی ہے اور اس سے وہی سلوک کیا جاتاہے جو پہلی بار درخواست دینے والے کی درخواست کے ساتھ کیاجاتا ہے اور کبھی یہ اطمینان نہیں ہوسکتا کہ اس سال نہیں تو آئندہ سال یا اس کے بعد ہمیں حج کا موقعہ ضرور مل جائے گا۔ ہمارے دوست ڈاکٹر ایم ایم ایس سدھو جو پارلیمنٹ کے ممبر ہیں اور اس حیثیت سے ہمارے حلف نامے اور امراض سے محفوظ ہونے کے صداقت نامے پر دستخط کرتے رہے ہیں، کئی بار ہماری ناکامی کاحال معلوم کر کے کہنے لگے "آخر حج کمیٹی یہ کیوں نہیں کرتی کہ اس سال
حج کا سفر۔۔۔ کچھ کمیٹی کےطریقہ کار کے بارے میں ( 3 )۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلیؒ
عرفی! اگر بگریہ میسر شدے وصال صد سال می توان به تمنا گریستن اگر چہ سو سال کی عمر ابھی سائینس دانوں کی کوشش سے انساں کی طبعی عمر قرار نہیں پائی ہے۔ مان لیجئے کہ آئندہ چل کر یہی عمرطبعی ہو جائے، تب بھی موجودہ بے لوچ طریقہ کا ر کے تحت اس کی ضمانت نہیں کی جاسکتی کہ نام نکل ہی آئے گا۔ اپنی ناکامیوں کے سلسلے میں جو اتنی تفصیل پیش کرتے چلے جارہے ہیں تواس کا منشاء یہی ہے کہ عازمین حج کی درخواستوں کے ساتھ لاٹری کاسا بے رحمانہ سلوک تو نہ ہونا چاہیئے ۔ ہم اپنی تیسری ناکامی کے بعد آئندہ سال کے پ
حج کا سفر۔۔۔ کچھ حج کمیٹی کے طریقہ کار کے بارے میں (۲ )۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلیؒ
اس زمانے میں ریاستی حج کمیٹی کے صدر مرحوم سید صدیق حسن صاحب آئی سی ایس، تھے جن کا دروازہ ہرقسم کے حاجت مند کے لئے ہمہ وقت کھلا رہتا تھا۔ اجنبی بیگانے تک بغیر کسی وسیلے اور سفارش کے ان کی حاجت روائی کی ہمہ گیر خصلت محمود سے بے تکلف مستفید ہوتے رہتے تھے، یہاں تو شناسائی اور تعلقات کا ایک حق بھی تھا ان ہی کے دروازہ پر دستک دی ۔ یہ جانتے تھے کہ وقت گزرچکا ہے گنجایش بالکل نہ ہوگی، لیکن یہ بھی جانتے تھے کہ صدیق حسن صاحب کے یہاں دوسروں کے کام آنے کے سلسلے میں کسی مانع یا رکاوٹ کا کبھی خیال نہیں کیا ج
حج کا سفر ۔۔۔ کچھ حج کمیٹی کے طریقہ کار کے بارے میں (۱ )۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی
کچھ کمیٹی کےطریقہ کار کے بارے میں وہ بیچارہ جو سفر حج کی اجازت، حج کمیٹی یامغل لائن سے حاصل کرنے کے سلسلے میں ایک بار نہیں لگاتار کئی بارنا کام رہا ہو اگر ذرہ بے چین اور بیتاب ہوکر یہ فریاد کرتا نظر آئے دل کے ٹکڑے، میں بغل بیچ لئے پھرتا ہوں کچھ علاج اس کا بھی اے شیشہ گراں! ہے کہ نہیں؟ اور اس کا یہ دلدوز نامہ اراکین کی کمیٹی کے ایوانوں یا مغل لائن کے عالی شان آہنی دفتر کے دیواروں سے ٹکرائے تو شاید برا ما ننے کی بات نہ ہو گی، نہ حج کمیٹی والوں کے لئے نہ مغل لائن کے ذمہ داروں کے لئے اور نہ ان
حج کا سفر۔۔۔ روانگی اور بمبئی میں(5)۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلیؒ
یہ ساری مصیبت محض اس وجہ سے ہے كہ ساری طاقت ایك مركز پر سمٹ كر آگئی ہے ، اگر اس كو ڈی سنسٹر لائز (لامركزیت سے ہم كنار ) كردیا جائے اور وہ حج ایكٹ میں ترمیم كیے بغیر ممكن نہیں ، تو بڑی راحت نصیب ہو ۔ ریاستوں كا كوٹہ مقرر ہی كیاجاچكا ہے اور ریاستوں میں حج كمیٹیاں موجود ہی ہیں ، اس میں كیاحرج ہے كہ ریاستی حج كمیٹیوں كو مجاز كردیا جائے كہ وہ اپنی ریاست كے عازمین حج كی درخواستیں وصول كریں ، جگہیں الاٹ كریں ، بكنگ بھی ریاست ہی میں ہو ، كرنسی (زرمبادلہ) كا مسئلہ بھی اپنی ہی ریاست میں طے ہوجائے
حج كا سفر۔۔۔ روانگی اور بمبئی میں (4 ) ۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی
آغاز كار اس وقت سے ہوتا ہے جب جہازراں كمپنی ‘‘ مغل لائن’’ جہازوں كی روانگی كا پروگرام مشتہر كرتی ہے ، اس سے قبل حكومتِ ہند فیصلہ كرچكی ہوتی ہے كہ اس سال كتنے حاجیوں كے سفرحج كا وہ انتظام كرےگی ، مثلاً اس دفعہ سمندری جہازوں سے سولہ ہزار اور ہوائی جہازوں سے ایك ہزار عازمنینِ حج كو بھیجنے كا فیصلہ حكومت ہند نے كیا تھا ، اس فیصلے كی روشنی میں مغل لائن نے اپنا پروگرام بنایا اور گیارہ سمندری جہازوں كی روانگی طے پائی ، ہربحری جہاز میں تقریباً ڈیڑھ ہزار مسافروں كی گنجائش ركھی گئی تھی ، ادھر مغل لا